کردار
Character
آج کا موضوع ہے اعتدال
انسان دنیا میں آیا ہے تو اس کے ساتھ بہت سے فرائض اور زمہ داریاں لگی ہیں سب سے اہم فرض اللہ کا ہے
کہ کسی بھی حال میں اللہ کو ناراض نہ کرے
اس میں دو طرح کے فرائض ہیں
ایک اللہ سے متعلق
اور دوسرے مخلوق سے متعلق
دونوں ضروری ہیں
مثال کے طور پر اگر ایک شخص اللہ کے فرائض پورے کرنے میں لگا رہے
اور مخلوق کے فرائض جو اللہ ہی کے حکم میں آتے ہیں پورے کرنے سے کوتاہی کرے تو اس کی بخشش نہیں ہو سکتی جب تکہ وہ شخص جس کا حق کھایا ہو معاف نہ کرے
سرکاری دفاتر میں وقفہ نماز، صبح قرآن کی تلاوت، گھر والوں سے گپ شپ اور ذاتی مسائل کو دفتری اوقات میں حل کرنا جیسی چیزیں شامل ہیں
ہاں اگر انسان اکیلا ہو تو اور بات ہے
اگر سائلین کی قطاریں لگی ہوں اور صاحب اٹھ کر وقفہ نماز میں چلے جائیں جبکہ وہ اسے بعد میں بھی قضا کیے بغیر پڑھ سکتے ہیں تو دیکھنے والوں کو ذیادتی محسوس ہو گی
ہم نے دیکھا ہے کہ گھر پر یا ذاتی کاروبار یا کلینک پر ہم نماز کو انتظار کرا دیتے ہیں
لیکن جہاں ہم تنخواہ لیتے ہیں
وہاں ہمارا عمل ہماری عادت کے خلاف ہوتا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں
کیا یہ خدمت صرف دفتری اوقات میں ہی فرض ہے
دوستومیں کل ایک ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا
اور وہ کسی بھی اشارے پر نہیں رک رہا تو میں نے ان سے عرض کی کہ آپ اشارے پر رکا کریں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ اشارے پر نہیں روکتے اور اشارہ توڑتے ہیں تو حکمرانوں کو ملک توڑنے کا جواز مل جاتا ہے
بات یہ ہے کہ جب آپ کے اختیار میں اشارہ توڑنا تھا تو آپ نے اشارہ توڑا
جب آپ کے اختیار میں ملک توڑنا ہو گا تو ملک بھی توڑ دیں گے
بات یہ ہے کہ آپ کے اختیار میں جو چیز تھی اس کے ساتھ آپ نے کیا سلوک کیا
دوستو بنیادی طور انسان کی آزمائش تین چیزوں سے ہوتی ہے
1
زر یعنی پیسہ 2. ذمین 3. ذن اگر آپ غور کریں تو بتہ چلے گا کہ 90 فیصد جرائم انہیں چیزوں کے گرد گھومتے ہیں
مثال کے طور پاکستان میں جتنی کرپشن ہے وہ پیسے کی شکل میں ہوتی ہے اور ایسا شخص چوری کے حکم میں آتا ہے تو ان سب کے ہاتھ کاٹ دیں
دوسرا
خواتین کے ساتھ ذیادتی جس میں 80 کوڑے یا سنگسار کر دیا جاے
تیسرا
ذمین تو اس کے متعلق مکمل تفصیلی قوانین خود قرآن میں موجود ہیں
باقی انسانی جان سے متعلق ہیں
آنکھ کے بدلے آنکھ جان کے بدلے جان
اب آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز قوانین نہیں بلکہ اس پر عمل ہے
جو لوگ اللہ کو نہیں مانتے ان ممالک میں بھی حق آزادی رائے ہے اور لوگ خوشحال ہیں
وجہ یہ ہے جب قانون پر عمل درآمد نہ ہو تو معاشرہ ایک خوفناک جنگل کی صورت اختیار کر لیتا ہے اس میں بنیادی حقوق کی بجاے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وسائل کس کے پاس زیادہ ہیں
تو جس کے پاس وسائل زیادہ ہوں گے وہی ملک کے سیاہ اور سفید کا مالک ہو گا
آج کا موضوع ہے
کردار
دوستو انسان دنیا سے کیا لے کر جاتا ہے
پیسہ نہیں
جائیداد نہیں
اولاد نہیں
مال نہیں
آج ایک کام آپ کو دیتا ہوں
اپنے بستر کے ساتھ والی دیوار پر ایک کاغذ پر یہ لفظ لکھ کر لگا دیں
پھر اس کے کرشمے دیکھیں
آج کا موضوع ہے خوشحالی
جاپان دنیا کا سب سے امیر ملک تھا لیکن خوش حال نہیں تھا کیونکہ دنیا میں سب سے ذیادہ خودکشیاں جاپان میں ہوتی تھیں
چین دنیا کا سب سے امیر ملک بن گیا لیکن خوش حال نہیں ہے
خوشی کا تعلق مال اسباب سے نہیں بلکہ دل کے سکون سے ہے
اگر ایک آدمی ذہنی دباؤ کا شکار ہے تو اسے کوئی بات خوش نہیں کر سکتی
ایلوس پریسلے کی خودکشی مایکل جیکسن کی موت اور بل گیٹس کی بیوی کا اپنے محبوب شوہر کو طلاق دینا چند ایسی مثالیں ہیں
سکون کا تعلق انسان کی روح کے ساتھ ہے
روح کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے
روح جب تک اللہ سے جڑتی نہیں اسے سکون نہیں ملتا
جیسے پیٹ کی آگ کے لیے کھانا پینا، نفس کی بھوک کے لیے جنسی تعلق اور سونے کے لیے آرام دہ گھر کی ضرورت ہوتی ہے
اسی طرح دل کے سکون کے لیے اور پھر دل کی خوشی کے لیے اللہ سے تعلق ضروری ہے
آج کا موضوع ہے خود احتسابی
پہلے آپ کو ایک مزے کا واقع سناتا ہوں آرمی میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں دو دفعہ ناکام ہونے پر مجھے اسی سال روک لیا گیا
میں نے سوچا کہ میں ناکام کیوں ہوا
غور کرنے پر پتہ چلا کہ باقی طالب علموں کی طرح میں بھی سال کے آخر ہی میں پڑھتا تھا
لیکن وہ کامیاب ہو جاتے میں ناکام
مذید سوچنے پر پتہ چلا کہ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں کہ آخر میں پڑھ کر پاس ہو جاؤں
لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ پورا سال پڑھا جاے چنانچہ روذانہ 2 گھنٹے سبق یاد کرنے کے لیے مخصوص کر دیے
نتیجہ یہ نکلا کہ نا صرف کامیاب ہو گیا بلکہ انعامی رقم بھی ملی
اب آتے ہیں خود احتسابی کی تعریف کی طرف
خود احتسابی زمہ داری لینے کا نام ہے
جس میں آپ اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی زمہ داری لیتے ہیں
دوسروں کو مورد الزام ٹھرانے، مسائل کو نظر انداز کرنے اور اپنے کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے
آپ اپنی گزشتہ غلطیوں اور زندگی کے واقعات سے سبق سیکھتے اور مستقبل میں ان سے بچنے اور کامیابی کی منزل کو طے کرنے کا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں