Abdus Salam

عبد السلام (29 جنوری 1926ء تا 21 نومبر 1996ء) پاکستانی طبیعیات دان جن کو 1979ء میں طبعیات کا نوبل انعام دیا گیا انھیں یہ انعام دو امریکی سائنسدانوں شیلڈن لی گلاشو اور سٹیون وینبرگ کے ساتھ مشترکہ طور پر برقی نحیف تفاعل کے نظریہ (Electroweak Theory) کو منصوب کرنے پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پتی سلام مثیل بھی منصوب کیا۔ وہ یہ انعام جیتنے والے پہلے پاکستانی تھے۔

سلام 1960ء سے 1974ء تک حکومت پاکستان کی جانب سے مشیر سائنس کے عہدے پر فائز رہے اس عہدے پر انھوں نے ایک اہم اور پر اثر کردار پاکستان میں سائنس کی ترقی کے لیے ادا کیا۔ سلام نے اپنے ملک میں سائنسی تحقیقات کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا انھیں زراعتی طبیعیات اور نظریاتی طبیعیات میں بھی ایک اہم مقام حاصل تھا۔ وہ پاکستان خلائی و بالافضائی تحقیقی ماموریہ کے اولین بانیان میں سے تھے انھوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔

1974ء میں جب پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک احمدیہ جماعت کو غیر مسلم قرار دیا تو انھوں نے بطور احتجاج ملک چھوڑ دیا۔[حوالہ درکار]1998ء میں جب ملکی تاریخ کے پہلے ایٹمی تجربات کے سلسلے میں پاکستانی حکومت نے "پاکستانی سائنس دان" کے نام سے یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا جس میں سلام کی خدمات کو سراہا گیا۔

ذاتی زندگی

ڈاکٹر عبد السلام 29 جنوری 1926ءکو موضع سنتوک داس ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عبد السلام کی پہلی شادی انیس برس کی عمر میں خاندان کی جانب سے چچا زاد کزن سے ہوئی . جن سے انکے چار بچے ہیں مگر کبھی بھی ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی . دوسری من پسند شادی 1968 میں ڈاکٹر لوئس جانسن سے ہوئی . جو عقیدے کے اعتبار سے دہریہ تھیں اور ان سے دو بچے ہیں . ایک بیٹا اور بیٹی . ڈاکٹر لوئس جانسن تعلیم اور قابلیت میں ڈاکٹر عبد السلام کے ہم پلہ تھیں . ڈاکٹر لوئس سلام کو ڈاکٹر عبد السلام اپنا سپیریچول یعنی روحانی پارٹنر کہا کرتے تھے . دوسری شادی کے بعد ڈاکٹر عبد السلام نے اپنی وفات تک تقریبا تمام وقت ڈاکٹر لوئس کے ساتھ ہی گزارا تھا ۔حتی کہ انکی بیماری میں خاندان کے شدید اصرار اور ذاتی خواہش کو مد نظر رکھ کر کی گئی انکی آخری وصیت کے مطابق میت پاکستان لیجانا طے تھی . وفات ڈاکٹر لوئس سلام کے پاس ہوئی اور وہی اپنے بیٹے کیساتھ وصیت پر عمل کرتی پاکستان میت لے گئیں۔

کیرئیر

14 سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا مقالہ رامانوجن کے ایک مسئلے کے حل پر لکھا۔ انھون نے 1944ء میں ریاضی میں گریجویشن اور 1946ء میں اسی میں ماسٹر کیا۔جھنگ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم ایس سی کیا۔ ایم ایس سی میں اول آنے پر انہیں کیمبرج یونیورسٹی کیطرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ مل گیا چنانچہ 1946ءمیں وہ کیمبرج چلے گئے جہاں سے انہوں نے نظری طبعیات میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1951ءمیں وہ وطن واپس آئے اور پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ 1954ءمیں وہ دوبارہ انگلستان چلے گئے وہاں بھی وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ 1964ءمیں ڈاکٹر صاحب نے اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں بین الاقوامی سینٹر برائے نظری طبعیات کی بنیاد ڈالی۔

وفات

21 نومبر 1996ءکو ڈاکٹر عبد السلام لندن میں انتقال کر گئے۔ جس کے بعد ان بیوی ڈاکٹر لوئس جانسن اور ان سے اُن کے بیٹے ان کی لاش کو پاکستان لائے،وہ پنجاب کے شہر ربوہ میں آسودہ خاک ہیں۔

تصانیف

ڈاکٹر عبد السلام نے نظری طبعیات اور تیسری دنیا کی تعلیمی اور سائنسی مسائل کے حوالے سے 300 سے زیادہ مقالات تحریر کیے جن میں سے چند کتابی مجموعوں کی صورت میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔

اعزازات

پاکستان پوسٹ کی طرف سے شائع کی جانے والی ڈاک ٹکٹ

حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے۔ انہیں دنیا کی 36 یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی تھیں اس کے علاوہ انہیں 22 ممالک نے اپنے اعلیٰ اعزازات سے نوازا تھا، جن میں اردن کا نشان استقلال، وینزویلا کا نشان اندرے بیلو، اٹلی کا نشان میرٹ، ہاپکنز پرائز، ایڈمز پرائز، میکسویل میڈل، ایٹم پرائز برائے امن، گتھیری میڈل، آئن اسٹائن میڈل اور لومن سوف میڈل سرفہرست ہیں۔

تنازعات

جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کی شخصیت دنیائے اسلام خصوصاً پاکستان میں متنازع رہی ۔[19] ان کے نظریات میں ڈاروین کے نظریہ ارتقا پر ان کا عام مسلمانوں سے الگ اختیارکردہ موقف ہے۔[20]

حالیہ عرصے میں پاکستان سے کثیرالاشاعت ڈان اخبار نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کے بعد ان کا عبد السلام سے متعلق مفروضہ پیام شائع کیا۔[21] اس کے ساتھ ہی پاکستان کے باہر کے بعض مسلم دانشوروں نے عبد السلام کے کام کو سراہا ہے

عبد السلام - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا (wikipedia.org)