جبلت کے حوالے سے بات کر رہا ہوں
ایک نوجوان بازار میں جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے آواز دی اور کہا کہ بڑے دنوں کے بعد کوئی انسان دیکھا ہے نوجوان ہنس پڑا اور بولا بابا جی مجھے تو سب انسان ہی نظر ا رہے ہیں
بزرگ نے اپنی ٹوپی اتار کر نوجوان کے سر پر رکھ دی اب جب نوجوان نے سر اٹھا کر دیکھا تو بازار میں کوئ انسان نہیں تھا کوئ بھیڑیا کوئی سانپ کوئ شیر
تو انسان کی جبلت میں اگر ڈسنا ہے تو سانپ ہے اگر حرام کھانا ہے تو سور غرض انسان اپنی جبلت کے اعتبار سے کسے نہ کسی جانور سے ملتا ہے
آپ کی جبلت میں کیا ہے
جب قوم اور فرد ترقی کرتے ہیں تو دونوں کا
فائدہ ہوتا ہے
یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں
میں نے 17 سال آنکھوں کے شعبے میں کام کیا میری ترقی ہوئ لیکن میری قوم نیچے کی طرف جا رہی ہے ملک ڈوب رہا ہے میں اکیلا ترقی کر کے کیا کروں گا جب کشتی ہی ڈوب جاے گی تو میں اکیلا کیسے بچوں گا
لہذا میں نے پاکستان کی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا پاکستان کی سیاست ایک گٹر کی طری ہے اس میں آنے کا مطلب خود کو ناپاک کرنا ہے لیکن جب 17 سال میں اس ناپاکی سے دور رہا اور کوئی فائدہ نہ ہوا تو میں نے اپنے قوم اور ملک کی خاطر اس گٹر میں جانے کا فیصلہ کیا
رائے ونڈ میں جب نیا نیا کام شروع ہوا تو گندگی کے نکاس کا کوئ ذریعہ نہیں تھا استاد حضرت جی احسان الحق دامت برکاتہم العالیہ خود گٹر میں اترتے اور گندگی کی ٹوکری بھر کر باہر موجود اپنے طلبہ کو پکڑاتے اس طرح سے صفائی کا عمل ہوتا
آج اگر پاکستان کی گندگی کو صاف کرنا ہے تو اس گٹر میں اترنے کے سوا کوئی چارہ نہیں
قومیں ترقی اپنے کردار سے کرتی ہیں
جب چنگیز خان نے بغداد کا محاصرہ کیا تو 30 ہزار لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اس شرط پر کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور دروازہ اندر سے کھول دیا
بغداد بغیر جنگ کے فتح ہو گیا آج پاکستان میں 30 ہزار تو نہیں مگر 30 ایسے بندے ضرور ہے جو کس بھی جنگی صورت حال میں یہی کام کریں گے کیا آپ جاننا نہیں چاہئے گے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان بچانے کے لیے ملک کی عزت اور بقا کا سودا کر دیں گے ان کے بچے ملک میں نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں ان کا مال جائداد دوسرے ملکوں میں ہے
کسی بھی تنگی کی صورت میں یہ لوگ دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں یہ ملک ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں پاکستان کے یہ بے ضمیر لوگ ہر الیکشن میں
دوبارہ جیت جاتے ہیں
ان کا ایک ہی علاج ہے کسی بھی ایسے شخص کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے جس کا مال اولاد دوسرے ملک میں ہے
پاکستان جس گرداب میں پھنس گیا ہے کیا
اب اس سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے
جی ہاں پاکستان میں 70 سال سے قائم کیا گیا status co ، حالت جوں کا توں ، ٹوٹ گیا ہے چیزیں نیچے کی طرف جا رہی ہیں
یاد رکھیں نیچے جانے کی ایک حد ہوتی ہے جیسے شاہ ایران کے زمانے میں ہوا لوگوں کے کھانے کو روٹی نہیں تھی اور شاہ اپنی خرمستیوں میں مصروف تھا یہی حال پاکستان کی اشرافیہ کا ہے انھیں اندازہ ہی نہیں کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں بس ایک پاکستانی خمینی کے ظہور کا انتظار ہے جو پوری عوام کو لے کر ان کے بلندوبالا ایوانوں کو تہ و بالا کر دے گا
جاری ہے
انقلاب کا آغاز ہمیشہ ایک شخصیت کے اندر آنے والی تبدیلی سے ہوتا ہے
پھر یہ تبدیلی معاشرے کے محروم طبقے میں سرایت کر جاتی ہے پھر یہ تبدیلی ایک آواز کی شکل اختیار کر جاتی ہے
معاشرے میں موجود نام نہاد عزت دار لوگوں کے سر پر بجلی بن کر گرتی ہے پھر وہ لوگ اس آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن یہ آواز اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ یہ لوگ اس کو دبا نہیں پاتے حتی کہ اس کی بازگشت پورے معاشرے میں سنائی دیتی ہے
آپ اور میرے پیارے پاکستان میں یہ آواز اب سنائی دے رہی ہے جاری ہے
میری نظر میں اس وقت پاکستان میں انقلاب کی راہ ہموار ہو چکی ہے
عوام پر طرح سے موجودگی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں صرف روٹی پانی چل رہا ہے اس لیے ابھی تک عوام سڑکوں پر نہیں آیے جس دن یہ بند ہوا آپ پاکستان کی عوام کو سڑکوں پر دیکھیں گے اشرافیہ کے دن گنے جا چکے
امریکہ انقلاب کے موقعہ پر گیٹس برگ
میں ابراہم لنکن کے سنہری الفاظ ، عوام کی عوام سے عوام کے لیے حکومت
وہ سنہری دور پاکستان مین آیا چاہتا ہے آیے آنے والے اچھے وقت کو خوش آمدید کہیں