تحریک بقائے پاکستان اور تحریک آزادی پاکستان کے وجود کی ضرورت
The need for the existence of Tehreek-e-Baqa’i Pakistan and Tehreek-e-Azadi Pakistan
1
1
ایک خوش حال پاکستان ہم سب کی ضرورت ہے
اگر گھر خوش حال ہوگا تو سب خوش رہیں گے
اگر گھر بدحال ہو گا تو سب ناراض اور لڑائی جھگڑا میں رہیں گے
اس لیے پاکستان کی معاشی خوشحالی وہ مشترکہ لائحہ عمل ہے جس پر پاکستان کے تمام لوگ اکٹھے ہو جائیں گیں
میں نے بیدیاں گاؤں میں غریب بچیوں کے لیے ایک مفت اسکول کھولا ہے اپنے والد صاحب مرحوم کے نام پر ، مکتب انور ۔
اس کا منشور یہ ہے
ہنر اخلاق تعلیم
میری نظر میں ایک بد اخلاق انسان قبول ہے ایک ان پڑھ انسان بھی قبول ہے لیکن ایک نکارہ انسان نہیں ، جو شخص کام کیے بغیر کھاتا ہے وہ ہمارے پاکستان اور ہمارے وسائل کے لیے بوجھ ہے اس شخص کو کام پر کھڑا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے
یہ بات نہیں کہ وہ کام نہیں کرنا چاہتا بلکہ بات یہ ہے اس کو کام کا معاوضہ مناسب نہیں ملتا ۔ یہی پاکستانی جب باہر کے ملکوں میں جاتا ہے تو دن رات کام کرتا ہے مشکل سے مشکل حالات برداشت کر لیتا ہے
لیکن اپنے ہی ملک پاکستان میں مناسب اور جائز معاوضے سے محروم ہے
اسی لیے کوئ کام نہیں کرتا
اس لیے میرا پہلا مطالبہ حکومت پاکستان سے یہ ہے کہ تنخواہوں میں جو واضح فرق ہے یہ کم ہونا چاہیے میں یہ نہیں کہتا کہ بلکل ختم کر دیں اور یہ ہوگا بھی غیر منصفانہ ۔ لیکن 1000000 اور 10000 کا فرق بہت زیادہ ہے کم از کم تنخواہ ایک لاکھ ہونی چاہیے اگر نہیں کر سکتے تو دس لاکھ کو کم کر کے ایک لاکھ پر لے آئیں اور یہ بچت قرض حسنہ کی شکل میں کاروبار یا پھر مینوفیکچرنگ کے لیے غریب مزدوروں کو دی جاے بنگلہ دیش میں محمد یونس اور پاکستان میں اخوت چند ایسے نام ہیں جنہوں نے کامیابی کے ساتھ یہ ماڈل چلایا لیکن میرے پیارے پاکستان میں غریب آدمی کی کوئ سرپرستی نہیں نہ ہی حکومت کی سطح پر اور نہ ہی مقامی سطح پر ۔ آج کا نوجوان کام کرنا چاہتا ہے لیکن جب وہ دس ہزار کے ہندسے کو دیکھتا ہے اور اخراجات کو دیکھتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اگر حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی نہیں تو عوام میں جو مخیر حضرات ہے ان کے تعاون سے بنگلہ دیش کے گرامین بنک کی طرح ایک ادارہ بنایا جاے جو عوام کو چھوٹے قرضے دے تا کہ وہ کاروبار اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں آگے آئیں اور اپنے اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمائیں
آج کے مسابقتی دور میں وسائل کی مصنوعی کمی اور افراط زر میں غیر معمولی اضافہ انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا حل ہو سکتا ہے
میری نظر میں ایک مناسب اور قابل عمل حل ہے
اور یہ چند سالوں میں پاکستان کو ترقی کی انتہائی اونچی منزل پر لے جا سکتا ہے
اور وہ ہے
موجودہ نظام حکومت کی مکمل تبدیلی
آپ کو یاد ہو گا جو لوگ پرانے ہیں اور پرانی ٹریفک پولیس کے روئے سے واقف ہیں کہ ان کی کئی بار اصلاح کی کوشش کی گئی لیکن ممکن نہ ہو سکی جو لاہور میں اور شاید باقی شہروں میں بھی ہو ، نئی ٹریفک پولیس آئی وہ نیا کلچر لائ کوی غیر ضروری چلان نہیں کوئی بلاوجہ تکلیف نہیں ، 1122 ایک اور نیا ادارہ ہے جو کامیابی کے ساتھ بہترین چل رہا ہے
آپ یقین مانیں موجودہ ادارے اور نظام حکومت اتنا فرسودہ اور بگڑا ہو ہے کہ اس کی اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ایک نیا نظام ہی اس کا حل ہو سکتا ہے اب یہ نظام کیا ہو گا اور یہ کیسے کام کرے گا اس پر آیندہ نشستوں میں تفصیلی روشنی ڈالی جائے گے
جاری ہے
ایک ملک کی آزادی کے پیچھے کتنی قربانیاں ہوتی ہیں یہ وہی لوگ صحیح طور پر بتا سکتے ہیں جو اس دور میں سے گزرے ہوں
آج کا پاکستان جہاں اور چیزوں میں اللہ کی ناشکری کر رہا ہے وہیں پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست کے بارے میں بھی ناشکری کر رہا ہے بتایں کس چیز کی کمی ہے کون سا ایسا گھر ہے جہاں دو دو ماہ چولہا نہ جلتا ہو کون سا ایسا شخص ہوگا جس کی ایک ہی وقت میں دو دو بیٹیوں کو طلاقیں ہوئ ہوں کون ایسا شخص ہوگا جس نے تین دن کچھ کھایا نہ ہو ہم جس نبی صل اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں ان پر اس جیسے حالات گزرے لیکن زباں سے کبھی شکایت نہیں۔
آپ کہیں گے وہ نبی ہیں ہم عام مسلمان آپ جانتے ہیں جب ایک انگریز جرنیل صلاح الدین ایوبی سے ملنے اس کے لشکر گیا تو دیکھا کہ ایک مزدور سر پر ٹوکری رکھ کر تعمیراتی کام میں مشغول ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ صلاح الدین کے پاس حج کے پیسے نہیں تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے لشکر کا سپہ سالار آج اسی لشکر میں محنت مزدوری کر کے حج کے پیسے جمع کر رہا ہے آپ جان کر حیران ہوں گے وہ صلاح الدین جس کے نام سے آج بھی اغیار کے دل لرز جاتے ہیں یہ حسرت لے کر دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن حج نہیں کر سکا
بہت دور کی بات نہیں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی مرحوم رحمت اللہ علیہ جب شہید کیے گئے تو جب جنازہ کے لیے تیاری کی جا رہی تھی پتہ چلا کہ شیروانی کے نیچے جو بنیان تھی وہ پھٹی ہوئ تھی کیا آج کا وزیر اعظم یا کوئ بھی حکومتی عہدیدار ایسا ہے جو بنایان تک خریدنے سے قاصر ہو
بات ناشکری کی ہو رہی تھی کہ جب تک یہ قوم ناشکری کرتی رہے گی اس کے حالات بہتر نہیں ہوں گے
انسان کی سب سے بڑی نعمت جو اللہ نے اس کو دی ہے وہ ایمان کے بعد صحت ہے
انسان ہر چیز کے بغیر رہ سکتا ہے صحت کے بغیر نہیں
جو معاشرے صحت مند ہیں جیسے امریکہ چاینہ وہی ترقی بھی کر رہے ہیں صحت مند زندگی کے چند بنیادی اصول ہے جس میں صبح جلدی اٹھنا رات کو جلدی سونا سادہ اور طاقتور غذا کا استعمال
یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن سے ایک صحت مند معاشرا وجود میں آتا ہے
یاد رکھیں صحت ہے تو سب کچھ ہے اگر صحت نہیں تو کچھ نہیں
انسان کا کردار اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے
جھوٹ انسان کا لوگوں سے اعتبار ختم کر دیتا ہے جھوٹ بولنے والہ ہمیشہ پکڑا جاتا ہے جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے میرے پیارے آقا نبی رسول اللہ مرشد اور استاد حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا ہر گناہ کر سکتا ہے
اب بتائیں پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے جس پر اللہ کی لعنت ہو نبی صل اللہ علیہ وسلم کی نظر میں مسلمان ہی نہیں ۔ ہمارے انکل خالد جو رشتے میں میرے خالو سسر بھی ہیں بڑے مزے سے اپنا انگلینڈ کا ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں
کہنے لگا آج سے 30 سال پہلے جب میں انگلینڈ گیا تو میں نے ہسپتال میں نوکری کے لیے درخواست دی اور میں نے بتایا کہ میں ڈاکٹر خالد ہوں اور نوکری کے لیے آیا ہوں تو استقبالیے پر کھڑی نرس نے ایک فارم دیا کہ اسے پر کر دیں میں نے پر کر دیا تھوڑی دیر بعد وہ نوکری کا حکم نامہ لے آئیں
میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ نے مجھ سے کوئ کاغذات نہیں مانگے وہ کہنے لگی کہ جب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ ڈاکٹر خالد ہیں تو آپ ڈاکٹر خالد ہیں یعنی
آج سے 30 سال پہلے ان کے زہن میں بھی نہیں تھا کہ کوئ شخص جھوٹ بول سکتا ہے
پاکستان تو میرا خواب ہے میری جستجو
میری آخری خواہش تیری ترقی اور خوشحالی میرا مقصد حیات اور اولین فریضہ ہے اس دنیا میں اور کچھ ہو نہ ہو یہ ضرور ہو گا
میرے اللہ پاکستان کو ترقی عطا فرما اس کو دنیا کے صفے اول کے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر کھڑا فرما اس کو وہ عزت عطا فرما جو آج تک کسی ملک کو نہ ملی اور نہ کبھی ملے گے
میری قوم آپس میں اختلافات ختم کر لو لڑائی جھگڑے ختم کر لو جس گھر میں لڑائی جھگڑا ہو وہاں کی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں پیار محبت کی زبان جانور بھی سمجھتا ہے
اتنا پیار دو ایک دوسرے کو کہ تمہیں اپنے تو کیا غیر بھی کبھی چھوڑ کر نہ جائیں
آمین ثم آمین