پاکستان کی تعمیر نو
ReMaking of Pakistan
9
9
جب کوئی قوم ترقی کے راستے پر سفر شروع کرتی ہے
تو سب سے پہلے اسے جس رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے وہ تو ترقی کرنا چاہتی ہے لیکن اللہ نہیں کرنے دیتا کیونکہ اس کے سابقہ اعمال کی نحوست اس کے ساتھ ہوتی ہے پاکستان بھی تمام دوسرے ممالک کی طرح ترقی کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ نہیں کرنے دے رہے اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ اجتماعی معافی کا سلسلہ ہے اور یہ تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک اللہ کی ناراضگی دور نہ ہو جاے
اس میں جمعہ کی نماز اعوان صنعت وتجارت اعوان عدالت اور باقی تمام شعبہ ہائے جات میں صبحِ کام شروع کرنے سے پہلے معافی مانگنے کا سلسلہ عام کیا جاے یہ ایسا زبردست کام ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل جانا ہے قوم یونس کی مثال سب کے سامنے ہے
آج جو مہنگائی اور افراط زر کا جو عذاب اللہ نے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے یہ تو اس بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہے جو قریب ہی ہے ان حالات میں صرف انفرادی کوششیں بکار ثابت ہو گیں
حضرت نوح علیہ السلام کی 900 برس کی عمل وفکر کی دعوت بھی قوم نوح کو عذاب سے نہیں بچا سکی اور وہ حضرات جو کہتے ہیں کہ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کر لو ان کا انجام بھی اس بستی کے بزرگ سے مختلف نہیں ہو گا کہ جو اپنی عبادت میں مشغول رہتے تھے اور کسی سے کچھ نہ کہتے تھے یہاں تک کہ جب اللہ کا عذاب آیا اور اللہ نے پوری بستی کو الٹنے کا حکم دیا تو عذاب کے فرشتے نے عرض کیا کہ اے اللہ اس بستی میں ایک نیک انسان بھی رہتا ہے اللہ نے فرمایا کہ ساری بستی اٹھاؤ اور اس کے سر پر الٹ دو کیونکہ یہ دوسروں کو نہیں روکتا
ساری بات کا مقصد ڈرانا اور خوف زدہ کرنا نہیں بلکہ اس بات کا احساس پیدا کرنا ہے
کی سوائے اجتماعی معافی اور آہ و ذاری کے اس وقت کوئی اور حل نہیں یہ کام ہمیں آج ہی سے شروع کرنا ہے کیا پاکستانی عوام اس اجتماعی آہ و ذاری اور معافی مانگنے ک لیے تیار ہے
آج تعمیر پاکستان کے حوالے سے آخری بات کرنی ہے انسان کی زندگی کا مقصد دنیا نہیں بلکہ آخرت ہی ہونا چاہیے
اگر انسان صرف دنیاوی ضروریات کو مدنظر رکھے تو یہ ناکافی ہو گا انسان کو بہت سارے مشکل مرحلے پیش آنے ہیں ان کی تیاری بھی ناگزیر ہے اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے وقت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرے جس میں سے پہلہ حصہ اپنے دنیاوی کاروبار کے لیے دوسرا حصہ اپنے گھروالوں کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے آنے والی زندگی کے لیے مخصوص کر دے
اور اگر ان تینوں حصوں میں صرف اپنے رب کی رضا کو مقصود رکھے تو تینوں حصیے اس کی دنیا اور آخرت کے بننے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اس میں پاکستان کی تعمیر نو کے حوالے سے یہ بات کرنی ہے کہ اللہ پاکستان کو ضرور ترقی دیں گیں
لیکن کیا اس ترقی میں میں نے اپنا حصہ ڈالنا ہے اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے