پاکستان کی تعمیر نو 

ReMaking of Pakistan

9

National Designer

Amir uddin Qadwai


اجتماعی معافی


جب کوئی قوم ترقی کے راستے پر سفر شروع کرتی ہے 


تو سب سے پہلے اسے جس رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے وہ تو ترقی کرنا چاہتی ہے لیکن اللہ نہیں کرنے دیتا کیونکہ اس کے سابقہ اعمال کی نحوست اس کے ساتھ ہوتی ہے پاکستان بھی تمام دوسرے ممالک کی طرح ترقی کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ نہیں کرنے دے رہے اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ اجتماعی معافی کا سلسلہ ہے اور یہ تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک اللہ کی ناراضگی دور نہ ہو جاے


اس میں جمعہ کی نماز اعوان صنعت وتجارت اعوان عدالت اور باقی تمام شعبہ ہائے جات میں صبحِ کام شروع کرنے سے پہلے معافی مانگنے کا سلسلہ عام کیا جاے یہ ایسا زبردست کام ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل جانا ہے قوم یونس کی مثال سب کے سامنے ہے 


آج جو مہنگائی اور افراط زر کا جو عذاب اللہ نے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے یہ تو اس بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہے جو قریب ہی ہے ان حالات میں صرف انفرادی کوششیں بکار ثابت ہو گیں


حضرت نوح علیہ السلام کی 900 برس کی عمل وفکر کی دعوت بھی قوم نوح کو عذاب سے نہیں بچا سکی اور وہ حضرات جو کہتے ہیں کہ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کر لو ان کا انجام بھی اس بستی کے بزرگ سے مختلف نہیں ہو گا کہ جو اپنی عبادت میں مشغول رہتے تھے اور کسی سے کچھ نہ کہتے تھے یہاں تک کہ جب اللہ کا عذاب آیا اور اللہ نے پوری بستی کو الٹنے کا حکم دیا تو عذاب کے فرشتے نے عرض کیا کہ اے اللہ اس بستی میں ایک نیک انسان بھی رہتا ہے اللہ نے فرمایا کہ ساری بستی اٹھاؤ اور اس کے سر پر الٹ دو کیونکہ یہ دوسروں کو نہیں روکتا


ساری بات کا مقصد ڈرانا اور خوف زدہ کرنا نہیں  بلکہ اس بات کا احساس پیدا کرنا ہے 

کی سوائے اجتماعی معافی اور آہ و ذاری کے اس وقت کوئی اور حل نہیں یہ کام ہمیں آج ہی سے شروع کرنا ہے کیا پاکستانی عوام اس اجتماعی آہ و ذاری اور معافی مانگنے ک لیے تیار ہے

National Scholar

Muneer Niazi


آخری بات


آج تعمیر پاکستان کے حوالے سے آخری بات کرنی ہے انسان کی زندگی کا مقصد دنیا نہیں بلکہ آخرت ہی ہونا چاہیے


اگر انسان صرف دنیاوی ضروریات کو مدنظر رکھے تو یہ ناکافی ہو گا انسان کو بہت سارے مشکل مرحلے پیش آنے ہیں ان کی تیاری بھی ناگزیر ہے اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے وقت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرے جس میں سے پہلہ حصہ اپنے دنیاوی کاروبار کے لیے دوسرا حصہ اپنے گھروالوں کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے آنے والی زندگی کے لیے مخصوص کر دے


اور اگر ان تینوں حصوں میں صرف اپنے رب کی رضا کو مقصود رکھے  تو تینوں حصیے اس کی دنیا اور آخرت کے بننے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اس میں پاکستان کی تعمیر نو کے حوالے سے یہ بات کرنی ہے کہ اللہ پاکستان کو ضرور ترقی دیں گیں 


لیکن کیا اس ترقی میں میں نے اپنا حصہ ڈالنا ہے اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے