انقلاب کیوں اور کیسے پاکستان کے مسائل کا واحد حل
Why and how revolution is the only solution to Pakistan’s problems
7
کیا آپ کھانا ضائع کرتے ہیں
دنیا میں ہزاروں لوگ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے
میں 3 وقت کھانا کھاتا تھا جس سے ہر وقت نیند آتی تھی اور طبیعت بھی بوجھل رہتی تھی اب ایک وقت کھاتا ہوں نیند بھی ٹھیک آتی ہے اور طبیعت بھی ہشاش بشاش رہتی ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی وقت میں بالکل نہیں کھاتا اب میں ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا ہوں جیسے کھیرا کھایا گاجر کھائی ٹماٹر کھایا انڈا ابال کر کھا لیا چائے یا قہوا سے لطف اٹھایا
یہ میں نے اپنے استاد اور مربی بزرگ پیرومرشد آئیڈیل سے سیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک وقت مغرب کے بعد کھانا کھاتے تھا باقی وقت بھی کھاتے تھے لیکن آپ اسے کھانا نہیں کہ سکتے جسے کھجور کھا لی زیتون کھا لیا دودھ پی لیا لیکن مکمل کھانا proper meal
ایک ہی تھا
Golra Sharif Railway Museum
میں ایک ایسا انسان ہوں
میں ایک ایسا انسان ہوں جو اللہ کا بھی نافرمان ہوں اور حکومت وقت کا
ایسے شخص کو جو اللہ کا بھی نافرمان ہو اور حکومت وقت کا بھی باغی کہلاتا ہے
جب میں دنیا میں آیا تو میری والدہ نے کہا کہ بیٹا ڈاکٹر بن جاو دو وقت کی روٹی مل جائے گی کیونکہ میری والدہ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا میں ڈاکٹر بننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میری طبیعت فنون لطیفہ یا آرٹس کی طرف مائل تھی
میرے پاس جب پہلی مرتبہ پیسے آئے تو میں نے ایک کیمرہ خریدہ لیکن میری والدہ اس بات نہ سمجھ سکیں کہ میرا رجحان کس طرف جا رہا ہے آج بھی جب میں صبح اٹھتا ہوں تو سب سے پہلے اپنا کیمرہ صاف کرتا ہوں
کسی نے بہت خوب کہا کہ پاکستان میں سارے فیصلے غلط ہوتے ہیں کیونکہ کہ والدین کرتے ہیں جس کی زندگی ہے اس سے پوچھا ہی نہیں جاتا کہ کہ بیٹا یا بیٹی تم کیا چاہتے ہو
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے باغی ہو جاتے ہیں ان کی خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں لیکن جب ان کو موقعہ ملتا ہے وہ اس کو پورا کر لیتے ہیں
ہمارے بہت سارے پروفیشنل زندگی میں صرف اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اس شعبے میں ہوتے ہیں جہاں ان کو نہ تو کام کرنے کا شوق ہوتا ہے اور نہ صلاحیت
میں ہمیشہ اپنے طالب علموں سے یہ بات کہتا ہوں کہ اپنا شوق دیکھو اس شعبے میں جاو جس کا آپ کو شوق ہو
جس چیز کا انسان کو شوق ہوتا ہے وہ کام کرتے وقت وہ کبھی گھڑی نہیں دیکھتا اور جس کام کو کرتے ہوے آپ کو بار بار گھڑی دیکھنی پڑے وہ آپ کا کام ہے ہی نہیں اس لیے وہ کام تلاش کریں جس کا آپ کو شوق بھی ہے اور اللہ نے آپ کو صلاحیت بھی دی ہو روٹی تو سب ہی کھاتے ہیں لیکن زندگی کا لطف کوئی کوئی اٹھاتا ہے
پاکستان ایک عظیم سلطنت
کیا مستقبل میں پاکستان ایک عظیم الشان سلطنت بن سکے گا
جی ہاں
وہ کونسی چیز ہے جو ہمارے پاس نہیں دنیا کی بہترین افرادی قوت ، بے پناہ وسائل ، جدید ترین ٹیکنالوجی ، خوبصورت طول عرض land scape
اور پاکستان کی ترقی کے لئے کیا چاہیے
جاپان کے پاس صرف افرادی قوت ہے چین مینوفیکچرنگ پر چل رہا ہے امریکہ فرانس جرمنی ٹکنالوجی بیچ رہے ہیں
جب پاکستان میں یہ سارا کچھ ہے تو ہم ایک عظیم قوم کیوں نہیں بن سکتے
اس کی وجہ صرف ایک ہے ایک ایسی لیڈرشپ کا فقدان جو صرف پاکستان کو آگے بڑھانا چاہتی ہو اپنے آپ کو نہیں
جس کا مقصد حیات حکومت جاہ جلال مال اسباب شہرت اور طاقت نہیں بلکہ جو صرف پاکستان کے بارے میں سوچتی ہو اپنے بارے میں نہیں
ہم بحیثیت قوم آج کہاں کھڑے ہیں
آپ حیران ہوں گے ہمارے ملک میں کبھی بھی پاکستان کے نام پر ووٹ نہیں مانگا گیا
75
سال ہو گئےآج بھی پاکستان کے لئے کوئی کچھ نہیں کرنا چاہتا ہمارے مطالبات پارٹی مسلک صوبائت ذات برادری اور علاقہ والوں کی دہلیز پار کر کے پاکستان کے صحن میں داخل نہ ہو سکے
ہمارے ملک میں ایک بندہ بھی ایسا نہیں جو پاکستان کے لئے پاکستان کی عوام جس میں فوج بیوروکریسی ادلیہ سیاست دان علماء اکرام وغیرہ کو متحد کرنے کی صلاحیت اور اور خواہش رکھتا ہو
تحریک بقائے پاکستان اسی نظریئے کی بنیاد پر بنائ گئی
پاکستان ایک ملک ہے پر ایک قوم نہیں
آج تک پاکستان کے لوگوں نے ہی اپنے آپ کو ایک قوم تصور نہیں کیا
جب ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی سے پوچھتا ہے کہ آپ کا تعلق کس قوم سے ہے اور اگر وہ یہ جواب دے کہ پاکستانی قوم سے تو وہ پہلا دوسرے کی طرف بڑی غیر یقینی نظروں سے دیکھتا ہے
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ملک سے پہچانا جاتا ہے جب آپ کسی ملک میں جاتے ہیں یا کسی غیر ملکی سے بات کرتے ہیں تو آپ کے پاسپورٹ پر نہ تو آپ کی ذات لکھی ہوتی ہے نہ کس صوبے کا نام اور نہ ہی مذہب
بلکہ صرف پاکستان لکھا ہوتا ہے
یہ وہ زمینی حقیقت ground reality ہے جس سے اس ملک کا ہر شہری ناواقف ہے کوئی اسلام کا علمبردار توکوئ اپنے صوبے مسلک یا پھر ذات کا
میرا اپ سے ایک سوال ہے اگر پاکستان خدانخواستہ ختم ہو جائے تو کیا آپ اپنے پاسپورٹ پر ہندوستان لکھنا پسند کریں گے
پاکستان کا تصور حقیقی
پاکستان بناتے وقت قائد اعظم کی سوچ کیا تھی اور ہم کیا بن گئے ہیں
ایک ایسا ملک جس میں ہر انسان اپنی آزادی سے اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزار سکتا ہو جہان مذہبی آزادی ہو عقیدہ ہر انسان کا ذاتی فعل ہو
ایک صحت مند معاشرہ جو انسانی ترقی اور ارتقاء میں معاون ہو
جہاں محبت برداشت اور باہمی تعاون کے پھول کھلیں اور نئی نسلوں کی پیار محبت اور برداشت کی بنیاد پر تربیت ہو اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت ہو
جہاں ہر شخص اپنے آپ کو ایک بڑے مجموعے کا جز سمجھے اور اس بات کا احساس ہو کہ جیسے کارخانہ میں اس کا ہونا اور کام کرنا ضروری ہے ایسے ہی دوسروں کا تبھی کارخانہ چلے گا اور اس سے انسانیت کے لیے کچھ مفید پیدا ہو گا
اگر تمام پرزے ایک دوسرے کو گالی گلوچ اور غیر ضروری سمجھیں گے تو کارخانہ توڑ پھوڑ کا شکار ہو جائے گا اور سوائے تخریب اور تباہی کے کچھ حاصل ہو گا