رکن بننے کے لیے واٹس ایپ پر اوکےبھیج دیں 03071902000
زمین اُس کی جو محنت کرے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ، رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین۔
معزز دوستو
آج ہم یہاں صرف تقریر سننے یا نعرے لگانے نہیں آئے،
ہم یہاں نظام بدلنے،
ایک نیا پاکستان بنانے
اور حق دار کو حق دلانے کا عہد کرنے آئے ہیں۔
مسئلہ کیا ہے؟
کیا یہ انصاف ہے؟
کہ چند خاندان لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہوں
اور باقی قوم کے ہاتھ میں صرف بیلچہ مشقت اور بھوکی آنکھیں ہوں
کیا یہ مساوات ہے
کہ ایک کسان کی نسلیں کھیتوں میں کام کریں
مگر وہ زمین کا مالک نہ بن سکے
آئینی و اخلاقی دلیل
ہم کہتے ہیں
یہ زمین اللہ کی ہے
اللہ نے انسان کو مالک نہیں، امین بنایا ہے
حضرت عمرؓ نے فرمایا:"جو زمین آباد نہ کرے، وہ اس کی نہیں
پیارے دوستو
اگر اللہ کے نبیؐ کے غلام یہ سمجھتے تھے
کہ زمین قبضہ یا وراثت نہیں بلکہ ذمہ داری ہے
تو آج ہم ایسا نظام کیوں برداشت کریں
جس میں زمین ایک طبقے کا کھلونا بن چکی ہے
حقائق کیا کہتے ہیں
پاکستان کی 50 فیصد زرعی زمین پر صرف 2 فیصد جاگیردار قابض ہیں
ساٹھ فیصد دیہاتی کسان بے زمین ہیں
یہ ظلم ہے
یہ صرف زمین پر قبضہ نہیں
یہ روٹی، عزت، اور خود داری پر قبضہ ہے
ہم کیا کرنے جا رہے ہیں
ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی سے زبردستی چھینیں گے
ہم یہ کہتے ہیں
قانون سازی ہوگی
زرعی زمین پر ملکیت کی حد مقرر ہوگی
باقی زمین ریاست کے ذریعے ان لوگوں کو دی جائے گی جو واقعی محنت کرتے ہیں
ہر بالغ شہری کو کم از کم ایک ایکڑ زمین دی جائے گی
ہر زمین دار کو صرف اتنی زمین دی جائے گی جتنی وہ خود آباد کر سکے لوگوں کے خدشات کا جواب اعتراض : یہ تو کمیونزم ہے
جواب۔ نہیں۔ یہ اسلامی معاشی انصاف ہے۔ زمین کسی کی جاگیر نہیں، محنت کا حق ہے
اعتراض۔معیشت تباہ ہو جائے گی
جواب۔ نہیں۔ جب ہر ہاتھ کو زمین ملے گی تو پیداوار بڑھے گی، غربت کم ہو گی، ملک ترقی کرے گا اعتراض۔ جاگیردار مزاحمت کریں گے
جواب۔ جی ہاں۔ تبدیلی آسان نہیں۔ مگر پاکستان کی بقا انصاف میں ہے
تحریک نعرے
زمین اُس کی، جو محنت کرے
نہ جاگیردار، نہ سرمایہ دار ۔ پاکستان سب کا حق دار
ترانہ
کھیت ہماری روٹی ہماری
کیوں ہو تیری جاگیر
عوام کو ساتھ کیسے لائیں گے
ہم کسان تنظیموں، بے زمین مزدوروں، اور چھوٹے زمینداروں کو آواز دیں گےان کی کہانیاں، تصاویر، ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائیں گےہر گاؤں، ہر محلے، ہر کھیت میں ایک ہی پیغام جائے گا
اب زمین صرف اختیار نہیں — ذمہ داری ہے
دیہی خوشحالی کا ساتھ زمین دینے کے ساتھ
ہم یہ بھی کریں گے
ہر گاؤں میں مویشی فارم، دودھ کولنگ سنٹر، مفت ویکسین
کسان کو بلاسود قرض
زراعت، دودھ اور گوشت میں خود کفالت
اختتام
پیارے پاکستانیو
یہ وقت نعرے لگانے کا نہیں
منشور اپنانے کا ہے
یہ وقت سوال کرنے کا نہیں
ساتھ چلنے کا ہے
یہ وقت سہنے کا نہیں
زمین کے وارث بننے کا ہے
آیئے
تحریک بقائے پاکستان کے ساتھ
ایک ایسا پاکستان بنائیں
جہاں
زمین نہ کسی وڈیرے کی ہو
نہ کسی سرمایہ دار کی
بس اُس کی ہو — جو اسے آباد کرے
دنیا میں زمین کی حد بندی قوانین — ایک علمی، تاریخی اور عالمی تناظر
بھارت (تقسیم کے بعد)
پنڈت جواہر لال نہرو نے تقسیم کے بعد زرعی اصلاحات کا آغاز کیا
ان کے دور میں ہر ریاست نے اپنی حد مقرر کی
لیکن عمومی اصول یہ تھے
ایک خاندان کو زیادہ سے زیادہ 12.5 سے 25 ایکڑ زمین رکھنے کی اجازت تھی
اضافی زمین قومی تحویل میں لے کر بے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی
نتیجہ
لاکھوں کسان زمین دار بنے
معاشی انصاف کو فروغ ملا
مگر مکمل عمل درآمد میں رکاوٹیں آئیں
چین 1949
کے بعد کمیونسٹ انقلاب نے زمین ریاست کی ملکیت میں لی
زمین افراد کو استعمال کے حق کے طور پر دی گئی۔ ملکیت نہیں
حد بندی
کوئی شخص زرعی زمین کا مالک نہیں ہو سکتا
نتیجہ
غریب کسان خوشحال ہوئے
غذائی پیداوار میں انقلاب آیا
جاپان
زمینی اصلاحات 1947
ہر خاندان کو زیادہ سے زیادہ 7.5 ایکڑ زمین رکھنے کی اجازت
اضافی زمین خرید کر کسانوں کو سستی دی گئی
نتیجہ
جاپان کی دیہی معیشت مستحکم ہوئی اور جاگیرداری ختم
جنوبی کوریا نے 1950
میں امریکہ کی مدد سے زمین اصلاحات کی گئیں
حدبندی
تین ایکڑ تک زمین فی خاندان
اضافی زمین ضبط یا فروخت کر دی گئی
نتیجہ
زراعت میں خود کفالت
دیہی امن
اور مساوی معیشت کی بنیاد پڑی
رہائشی جائیداد کی حد — "ایک سے زیادہ گھر" کا مسئلہ
کئی ممالک نے قانون بنایا ہے
نیوزی لینڈ
غیر ملکیوں کو نیا گھر خریدنے پر پابندی (اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے)
چین
صرف ایک گھر فی خاندان کی اجازت بعض شہروں میں
سویڈن
حکومت کرایہ کنٹرول کرتی ہے تاکہ دولت مند لوگ سینکڑوں گھر نہ خرید سکیں
جرمنی
حکومت بے زمین افراد کے لیے فلیٹ مہیا کرتی ہے
ٹیکس قوانین سے گھر خریدنا محدود کیا گیا ہے
مقصد: ہاؤسنگ مارکیٹ میں "سرمایہ کاری" کے بجائے "رہائش" کو ترجیح دینا
نتیجہ
دنیا کی سیکھ
.حد بندی کے بغیر زمین یا مکان رکھنے کی آزادی صرف امیروں کو فائدہ دیتی ہے
زمین کی مساوی تقسیم سے ہی معاشی انصاف، غربت کا خاتمہ اور سماجی امن ممکن ہے
ہر ترقی یافتہ ملک نے کسی نہ کسی شکل میں زمین یا جائیداد پر پابندی لگا کر غریب طبقے کو اوپر اٹھایا
تحریک بقاے پاکستان کا موقف
جب بھارت، چین، جاپان، اور کوریا جیسی قومیں اپنے لوگوں کے لیے زمین کا نظام بدل سکتی ہیں —
تو ہم کیوں نہیں
ہم پاکستان کو جاگیرداروں کی جاگیر نہیں بلکہ عوام کا وطن بنائیں گے
جہاں زمین کا مالک وہ ہوگا جو اس پر پسینہ بہائے
نہ کہ وہ جو محلوں میں بیٹھ کر ٹیکس بھی نہ دے
قانونی بحث
حقِ ملکیت عالمی انسانی حقوق کا اعلامیہ
آرٹیکل 17
ہر شخص کو جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے، اور کسی کو بلاجواز اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا
جبری ضبطی—بالخصوص بغیر معاوضہ—کو “بلاجواز محرومی” سمجھا جا سکتا ہے
ارضی اصلاحات کی رہنمائی
ریاستیں مساوی رسائی کو فروغ دے سکتی ہیں بشرطیکہ
واضح قانون سازی ہو
منصفانہ معاوضہ اور شفاف طریقہ کار ہو اور
مقامی آبادی کی مشاورت ہو
آپ کی تجویز مساوی رسائی کے اصول سے ہم آہنگ ہے لیکن طریقِ کار
(قانون، معاوضہ، مشاورت) ابھی مبہم ہے
جبری تملیک
بیشتر دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے اور عالمی مالیاتی ثالثی
منصفانہ معاوضہ کو لازمی قرار دیتے ہیں
ورنہ ریاست پر بھاری ہرجانے کا خطرہ رہتا ہے
اگر
زمینی اصلاحات
کے تحت زمین ضبط کی گئی اور منڈی کی قیمت کے مطابق معاوضہ نہ دیا گیا تو بین الاقوامی کلیمز پیدا ہو سکتے ہیں
پاکستان کا آئینی و عدالتی فریم ورک
پہلو
موجودہ قانون/نظریہ مضمرات
آرٹیکل 23 & 24
(حقِ ملکیت و تحفظ)
ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، رکھنے اور فروخت کرنے کا حق ہے
عوامی مفاد” میں محرومی فقط قانونی طریقے اور منصفانہ معاوضے کے ساتھ ممکن ہے جامع
زمین
لگانا تب تک مشکل ہے جب تک واضح “عوامی مفاد” اور معاوضے کا میکانزم نہ ہو۔
ماضی کی اراضی اصلاحات
1959۔ 1972 ۔1977
بعد میں اکثر زمینیں عدالتوں یا سیاسی اثرورسوخ سے واپس مل گئیں
انتظامی نفاذ کی کمزوری ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے
قضل باش فیصلہ
(PLD 1990 SC 99)
شریعت اپیلیٹ بینچ نے اراضی حدود کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے سابق اصلاحات کالعدم کر دیں
نئی قانون سازی کی کوئی بھی کوشش براہِ راست اس عدالتی نظیر سے ٹکرائے گی
یا تو سپریم کورٹ کے فل بنچ کو نظرِ ثانی کرانا ہوگی
یا آئینی ترمیم لانا پڑے گی
اراضی حصول ایکٹ
صرف
مفاد عامہ
نجی افراد کو از سرِ نو تقسیم عموماً
مفاد عامہ
کی تعریف میں نہیں آتی
قانونی جواز
ضابطے کی مکلمل کاروایی اوربدلے کے
بغیر منڈی اساس معاوضے کے جبری تقسیم آئین یو ڈی ایچ آر
کے آرٹیکل 24 اور آرٹیکل 17 دونوں سے متصادم ہے
وی جی جی ٹی
بھی شفاف طریقِ کار اور رضامندی/مشاورت پر زور دیتی ہے
شریعت کی تعبیر اور عدالتی نظیر
قزلباش فیصلہ واضح کرتا ہے کہ اسلام میں “مقدارِ ملکیت کی حد” نافذ کرنا ریاست کے اختیار سے باہر ہے (کم از کم اس عدالتی تشریح کے مطابق)
اگر آپ فقہی حوالوں سے متفقہ نیا نقطۂ نظر لانا چاہتے ہیں تو دو راستے ہیں
ریویو پٹیشن / فل کورٹ
عدالتی تعبیر بدلوانا
آئینی ترمیم
شریعت کورٹ کے دائرۂ کار کو محدود یا واضح کرنا
بین الاقوامی سرمایہ کاری خطرہ
غیر ملکی مالکان یا شیئر ہولڈرز کی زمین اصلاحات
میں آ گئی تو سرمایہ کاری معاہدوں کے تحت اربوں کا دعویٰ ہو سکتا ہے
.متبادل قانونی حکمتِ عملی
تجویز قانونی امکانات
فائدہ
پروگریسو زرعی لینڈ ٹیکس آئینی طور پر جائز
(آرٹیکل 77 کے تحت)قزلباش
کا اطلاق نہیں ہوتا بڑے مالکان پر مالی دباؤ
ریاستی محاصل
زمین بیچنے کی ترغیب
غیر استعمال شدہ زمین ٹیکس
شریعت میں غیر آباد زمین پر حقِ تصرف کمزور تصور ہوتا ہے
انتظامی ٹول فریڈم
زمین کی
پیداواری
استعمال کی حوصلہ افزائی
لینڈ بینک / کوآپریٹو لیز ماڈل
ریاست اضافی زمین خرید کر (مارکیٹ ریٹ + رضامندی) لیز پر دیتی ہے
رضاکارانہ، عدالتی تنازع کم
وی جی جی ٹی
کے اصولوں سے ہم آہنگ
کسان کارڈ + سبسڈائزڈ مائیکرو کریڈٹ
بجٹ اور سبسڈی قانون کے ذریعے آسان
زمین دارِ اصلی کی ملکیت برقرار
لیکن چھوٹے کاشتکار کی رسائی بڑھے
خلاصہ
اخلاقی جاذبیت کے باوجود، منشور کی موجودہ شکل براہِ راست پاکستانی آئین،
قزلباش
نظیر، اور بین الاقوامی پراپرٹی رائٹس سے متصادم ہے۔
آپ کا مقصد اگر مساوی وسائل ہے تو طریقۂ کار
بدلے بغیر دیرپا کامیابی ممکن نہیں
اصلاح کے لیے مرحلہ وار، رضاکارانہ یا مالیاتی فایدے والے نمونے زیادہ عملی اور قانونی طور پر پائیدار ہیں۔
اگر آپ زمینی اصلاحات
ہی کو حتمی حل سمجھتے ہیں
تو پہلے قانونی راستہ (آئینی ترمیم یا عدالتی نظرثانی) صاف کریں
ساتھ ہی منصفانہ معاوضہ اور شفاف پراسیس کو یقینی بنائیں
یہی بین الاقوامی سروے زمینی اصلاحات کا تقاضا ہے
ایک سطر میں
زمین اُس کی جو محنت کرے
کا خواب تبھی شرمندۂ تعبیر ہوگا
جب آئینی تقاضے، عدالتی نظیریں اور بین الاقوامی ذمہ داریاں—تینوں—کو ایک ساتھ دیکھا جاے
اضافی نکتہ: مویشی اور دیہی خوشحالی
ہم کیا کریں گے
ہر گاؤں میں مویشی فارم
دودھ کولنگ سنٹر
مفت ویکسین
اور تربیت
چارہ کی فراہمی
کسانوں کو بلاسود قرضکیوں کریں گے
تاکہ پاکستان خوراک میں خودکفیل ہو، گوشت و دودھ برآمد ہو، اور غربت ختم ہو