مطالعہ پاکستان
Pakistan Studies
5
پاکستان کیک
سوال کیا گیا ہے کہ کیا
بے شعور عوام پر حکومت ممکن ہے
اس پر ملی جلی رائے پائی گئی
اصل میں بے شعور عوام ہے کیا
ایک ایسی عوام جسے اپنا نفع نقصان نہ پتہ ہو
ایک ایسی عوام جو روٹی کے لالچ اور موت کے خوف سے ملک ایسے ہاتھوں میں دے دے جو ہمیشہ کے لیے اسے اپنا غلام بنا لے
کافی عرصے سے پاکستان میں یہ بحث چل رہی ہے
چھوٹا چور بڑے چور سے بہتر ہے
ایسے لوگوں سے میرا سوال یہی ہوتا ہے
کہ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو اپنے گھر کو چھوٹے چور کے حوالے کر دیں
ورنہ مان جائیں کہ آپ پاکستان کو اپنا گھر نہیں سمجھتے
آج کل 14 اگست کے حوالے سے لوگ کیک کاٹ رہے ہیں
یہ کیک پاکستان کے پرچم جیسا بنایا جاتا ہے
پھر اسے چھری سے 2 حصوں میں کاٹا جاتا ہے
پھر مذید ٹکڑے کیے جاتے ہیں
اور سب مل کر کھاتے ہیں
آج ایسا کریں جس سے آپ محبت کرتے ہیں والد والدہ اولاد یا اپنا گھر یا دوکان
اس کی شکل کا کیک بنایں اور کاٹ دیں
آپ ایسا ہر گز نہیں کریں گے
آپ ڈریں گے کہ بدشگونی نہ ہو جاے
لیکن پاکستان کا پرچم کاٹ کر کھاتے ہوے اس لیے تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ آپ کا اس سے کوئی دلی لگاؤ نہ تھا نہ ہے اور نہ ہو گا
25 کروڑ گدھے
کیا
ملک کے حالات کی خرابی کا زمہ دار ووٹر ہے
جی ہاں
آج بھی ملک کی اکثریت انہی کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہے
جو اس ملک کو اپنی بدترین پالیسیوں کی وجہ سے یہاں تک پہنچا دیے ہیں
بے شعور عوام اس گدھے کی طرح ہے جو ڈنڈے سے بدک کر کسی بھی طرف جا سکتی ہے
اس جاہل اور بے شعور عوام کی زندگی میں دو ہی چیزیں اہم ہے
چارہ اور ڈنڈہ
جو ان کو یہ ڈال دے وہی ان کا باپ ہے
پر سوال یہ ہے
کہ انسانوں کو گدھا بنایا کس نے
آج سے 200 سال پہلے سونے کی چڑیا برصغیر کو معاشی بدحالی سے دوچار کرنے والے انگریزی نظام نے
جو ملک بھی اس انگریزی نظام سے نکلا وہ ترقی کر گیا
چاینہ ہندوستان ایران بنگلہ دیش سنگاپور ترکی ساوتھ افریکہ غرض
جب تک ہم اس انگریزی نظام سے اور انگریزوں کی باقیات سے دست بردار ہونے کا اعلان نہیں کرتے
ہم حضرت حبیب جالب رحمت اللہ علیہ کے اس شعر کے موافق رہیں گے
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہر صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شر پسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محو خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا
میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تو ''یقیں'' ہے یہ ''گماں''
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
ایٹمی سائنسدان
دو قومیں دو کہانیاں
پرویز مشرف نے ایٹمی سائنسدان کو معافی دے دی۔
پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے کہا کہ انہوں نے عبدالقدیر خان کی تحریری معافی قبول کر لی ہے جو ملک کے جوہری بم کے باپ کے طور پر جانے جاتے ہیں- ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری راز فروخت کرنے پر۔
ان لوگوں کا مقصد کیا ہے؟ پیسہ، ظاہر ہے. یہ حقیقت ہے،" مسٹر مشرف نے معافی جاری کرنے کے بعد کہا۔
5 Feb 2004 اخبار گارڈین
ابو بکر زین العابدین عبد الکلام (مختصراً: اے پی جے عبد الکلام) بھارت کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس دان، جو 15 اکتوبر1931ء کو ریاست تمل ناڈو میں پیدا ہوئے اور 27 جولائی 2015ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ عبد الکلام بھارت کے گیارہویں صدر تھے، انہیں بھارت اعلٰی ترین شہری اعزازات پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن بھی ملے۔ عبد الکلام کی صدارت کا دور 25 جولائی 2007ء کو اختتام پزیر ہوا۔
دو قومیں دو کہانیاں
ایک اپنے ہیرو کو صدارت پر بٹھاتی ہے
دوسری ٹی وی پر لا کر دنیا میں چور اور دہشت گرد ہونے کا اعتراف کراتی ہے
یہی وجہ ایک قوم کو عزت پر فائز کیا گیا
اور دوسری کو ذلت میں ڈال دیا گیا
مان میرا احساس پاکستان
میں نے کی تجھ پر عزت قربان
میرا نام
محمد عبدل قدیر خان
میں ہوں پاکستان