مطالعہ پاکستان

Pakistan Studies

21

بنگلہ دیش نے کیسے ترقی

بنگلہ دیش نے کیسے ترقی کی

کہانی سنیں

دوستو

پاکستان کے ساتھ رہتے ہوے بنگلہ دیش ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا تھا

بنگالیوں میں محرومی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا

ان کا ماننا تھا کہ ان کے وسائل پر مغربی پاکستان کا قبضہ ہے

اور ان کو ان کا جائز حق نہیں مل رہا

جنرل ایوب اور جنرل یحیٰی کی سخت پالیسوں نے ان کو باغی بنا دیا

1972 میں انہوں نے ایک آزاد ملک حاصل کیا

اس کے بعد بنگلہ دیش نے تیزی سے ترقی کی

اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بنگلہ دیش اس وقت تیزی سے ترقی کرنی والی معیشت ہے

بنگلہ دیش نے اس منزل کو پانے کے لیے مزدوروں کے لیے اصلاحات کیں

تعلیم اور صحت کے شعبے پر توجہ دی

کارخانے لگایے اور بنے بناے کپڑے باہر بھیجنے والا بڑا ملک بن گیا

چمڑا باہر بھیجنے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے

بنگلہ دیش کی تعلیم کی صورت حال بہت بہتر ہے

خاص کر خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گی

2030 میں بنگلہ دیش امیر ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گا

پاکستان میں الیکشن

پاکستان میں الیکشن ہوں گے

1. ہاں

2. نہیں

3. میں راے نہیں دینا چاہتا

4. میرے پاس ایک حل ہے

میری نظر میں ایسا ممکن نہیں

یہ میری خواہش تو ہے

لیکن عقل اس کے خلاف ہے

اللہ مہربانی کر دے تو ہو سکتا ہے

لیکن اللہ کے بندوں کے ارادے نہیں لگ رہے

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں

تحریک انصاف اس وقت اکثریتی عوامی رائے ہے

اگر آج بھی ایمانداری سے الیکشن کرا دیے جایے

تو تحریک انصاف ہی جیتے گی

یہ میں نہیں کہہ رہا

بلکہ یہ پیچھے ہونے والے انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں

کم از کم خیبرپختونخواہ کی حد تک تو یہ سچ ہے

اب دیکھنا یہ ہے

کہ جو قوتیں تحریک انصاف کو پسند نہیں کرتیں

کیا وہ یہ پسند کریں گی

کہ ملک کے کسی بھی صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہو

اور ریاستی مشینری جو اس وقت ان کے اشاروں پر ناچ رہی ہے

وہ ان کے ہاتھ سے نکل جاے

بعید القیاس ہے

اصل میں پاکستان کے مسایل کا حل الیکشن نہیں

بلکہ ایک قومی حکومت ہے جس میں تمام لوگ بشمول فوج اور عدلیہ بیٹھ جائیں

اور ملکی حکمت عملی کا اعلان کریں

حکومت چاہے جس کی بھی ہو

ہماری ملکی حکمت عملی تبدیل نہیں ہو گی

کیا آنے والے دنوں میں ایسا ممکن ہے

تحریک بقائے پاکستان کا امیر 

تحریک بقائے پاکستان کا امیر کس کو ہونا چاہیے

1. عمران خان

2. ڈاکٹر امجد ثاقب

3. انصار برنی

4. علی احمد کرد

5۔ آغا خان

6. ڈاکٹر قمبر عباس

7. کوئی اور نام

زیادہ تر لوگوں کی رائے میں عمران خان ہیں

یہ بات تو ماننے والی ہے کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے

مجھے ذاتی طور پر عمران خان پسند ہیں

لیکن ایک کرکٹر کے طور پر 

ایک سماجی کارکن کے طور پر

ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر

لیکن ایک سیاستدان کے طور پر نہیں

سیاست ایک ایسا کھیل ہے

جہاں جسم سے زیادہ عقل کی ضرورت ہے

کھلاڑی عام طور جسمانی نشوونما پاتے ہیں ان کی ذہنی صلاحیتوں کا نکھار بہت دیر سے آتا ہے

لیکن عمران خان صاحب ابھی بھی ایک نوجوان کھلاڑی ہی ہیں

ان میں وہ عمر کے ساتھ آنے والی پختگی کا فقدان پایا جاتا ہے

آپ میری رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں

لیکن خاں صاحب کی نہیں

عمران خان صاحب کی جماعت میں کوئی ایسا کارکن نہیں جو ان کی رائے سے اختلاف رکھتا ہو 

اگر کسی نے یہ جرات کی تو یا تو پارٹی سے نکل گیا یا خاموش ہو گیا

عمران صاحب کو چھوڑنے کا سلسلہ 9 مئی سے شروع نہیں ہوا

بلکہ اقتدار میں آتے ہی ان کے نظریاتی کارکن ان کی اس مغرورانہ تنگ نظری کی وجہ سے انہیں چھوڑتے چلے گیے

اب کرنا کیا ہے

پاکستان کو ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جس میں کچھ لوگ ذہنی پختگی رکھتے ہوں جیسے ڈاکٹر امجد ثاقب انصار برنی آغا خان علی احمد کرد اور اس میں عمران خان کو بھی اس میں ڈال لیں کیونکہ وہ ایک اکثریت رائے کے ترجمان ہیں

ان کی مجلس شوریٰ بنا دی جاے

اور یہ اپنا کسی کو خود امیر مقرر کر لیں