Basic principles of starting an antidepressant -Urdu
Causes of Depression - Part 2 -Urdu
Causes of Depression: Part 1
Symptoms of Depression - Urdu
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
ہم سب کبھی نہ کبھی اداس محسوس کرتے ہیں۔ عام طور سے اس کی کچھ نہ کچھ وجہ ہوتی ہے، اس کا ہماری زندگی اور ہماری کارکردگی پہ بہت زیادہ اثر نہیں پڑتا، اور عموماً یہ اداسی ایک دو ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس اداسی کو ڈپریشن کی بیماری نہیں کہتے۔
البتّہ اگر اداسی کی یہ کیفیت ہفتوں اور مہینوں تک چلتی رہے، یا اتنی شدید ہو جائے کہ اس سے ہمارے روزمرّہ کے کاموں پہ اثر پڑنے لگے اور انسان کی زندگی خراب ہونے لگے تو ہو سکتا ہے کہ اسے ڈپریشن کی بیماری ہو گئی ہو۔
ڈپریشن کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
مختلف لوگوں میں ڈپریشن کی علامات کی شدّت مختلف ہوتی ہے۔ بعض لوگوں میں ڈپریشن ہلکے درجے کا ہوتا ہے، بعض میں درمیانے درجے کا، اور بعض میں شدید درجے کا۔ یہ فیصلہ کہ کس کا ڈپریشن ہلکا ہے اور کس کا شدید، اس کا انحصار اس بات پہ ہوتا ہے کہ مریض میں ڈپریشن کی مندرجہ ذیل علامات میں سے کتنی زیادہ علامات موجود ہیں (اس لیے کہ ہر مریض میں ہر علامت موجود نہیں ہوتی)، اور اس کی زندگی کی کوالٹی اور اس کی اپنے معمول کے کاموں میں کارکردگی ان علامات کی وجہ سے کتنی زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ جب ڈپریشن ہلکا ہوتا ہے تو مریض میں صرف چند علامات ہوتی ہیں اور وہ بہت حد تک اپنی روز مرّہ کی زندگی گزارنے اور اپنے معمول کے کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔جب ڈپریشن بہت شدید درجے کا ہوتا ہے تو مریض میں بیشتر یا تقریباً ساری ہی علامات موجود ہوتی ہیں اور وہ اپنی معمول کی زندگی گزارنے اور روزمرہ کے کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
ڈپریشن کی ذہنی علامات
ہر وقت یا بیشتر وقت اداسی محسوس کرنا، یہ اداسی کسی وقت دور نہیں ہوتی اور دن کے بعض اوقات میں زیادہ شدید ہوتی ہے مثلاً صبح اپنے معمول کے وقت سے پہلے اٹھ جانا اور بہت شیدد اداسی محسوس کرنا
کسی بات میں یا کسی کام میں مزا نہ آنا
دوستوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ گزارنے میں دلچسپی ختم ہو جانا، ان سے کٹ جانا
کسی کام پر یا بات پر توجہ دینے میں مشکل ہونا
فیصلہ کرنے میں مشکل ہونا
خود اعتمادی کم ہو جانا
ہر چھوٹی چھوٹی بات، یا ایسی باتوں جن سے انسان کا کوئی تعلق نہ ہو، کے لیے اپنے آپ کو الزام دینے لگنا، قصوروار سمجھنے لگنا
ہر بات کا منفی پہلو دیکھنا
مایوسی محسوس کرنے لگنا
زندگی اتنی بری لگنے لگنا کہ لگے کہ اس زندگی سے تو مر جاناہی اچھا ہے
ڈپریشن کی جسمانی علامات
نیند نہ آنا، یا بہت زیادہ سونے کے باوجود تھکے ہوئے رہنا
ایسا لگنا کہ بدن میں جان ہی نہیں ہے
صبح معمول کے جاگنے کے وقت سے بہت پہلے آنکھ کھل جانا اور پھر کوشش کے باوجود دوبارہ نہ سو پانا
بھوک کم یا ختم ہو جانا، وزن کم ہونا شروع ہو جانا، بعض لوگوں میں بھوک بڑھ جاتی ہے
سر میں درد رہنا
جسم کے عضلات مثلاً بازوؤں اور ٹانگوں، کمر، گردن میں درد رہنا
اکثر وقت بے چینی محسوس کرنا، آرام نہ آنا
جنسی خواہش کم یا ختم ہو جانا
قریبی لوگوں کو ڈپریشن کے مریض میں اس طرح کی تبدیلیاں نظر آ سکتی ہیں
اپنے کام یا کاروبار پہ کارکردگی پہلے کے مقابلے میں خراب ہوجانا، مثلاً انسان ایسی معمولی غلطیاں کرنے لگے جو پہلے نہیں کرتا تھا، دیر سے دفتر آنے لگے یا بہت چھٹیاں کرنے لگے، آ کے دفتر میں بیٹھا رہے لیکن اس کی کارکردگی پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہو جائے، کام پہ توجہ نہ دے پائے
گھروالوں سے، دوستوں سے بول چال کم ہو جانا، لوگوں سے باتیں کرنا بہت کم ہو جانا، زیادہ وقت تنہائی میں اپنے کمرے میں گزارنے لگنا، سب سے کٹ جانا
چھوٹی چھوٹی باتوں پہ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ پریشان ہو جانا، جو کام پہلے آسانی سے کر لیتا تھا وہ اب پہاڑ لگنے لگنا
پہلے کے مقابلے میں چڑچڑا ہو جانا
پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ وقت بستر میں گزارنے لگنا، زیادہ سونے لگنا
جسمانی تکالیف اور جسمانی بیماریوں کی علامات کی زیادہ شکایت کرنے لگنا
اپنی دیکھ بھال کرنا کم ہو جانا، مثلاً جتنی باقاعدگی سے نہاتا تھا، کپڑے بدلتا تھا، اس میں بہت کمی ہو جانا، کئی کئی دن تک کپڑے نہ بدلنا، منہ نہ دھونا، دانت نہ برش کرنا
ڈاکٹر کو ڈپریشن کے علاج کے لیے کب دکھانا چاہیے؟
اوپر جتنی علامات بتائی گئی ہیں ان میں سے بہت سی علامات وقتاً فوقتاً بہت سارے لوگوں کو ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ علامات ہلکی پھلکی ہوں، کسی وجہ سے شروع ہوں، اور وہ وجہ ختم ہونے کے بعد یا خود بخود ہی ختم ہو جائیں، تو ڈاکٹر کو دکھانے اور علاج کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہلکا ڈپریشن ویسے بھی باقاعدگی سے ورزش کرنے، کاؤنسلنگ یا اپنی مدد آپ کے طریقوں سے ٹھیک ہو سکتا ہے اور اس کے لیے سائیکائٹرسٹ سے علاج کروانے یا اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتّہ اگر آپ کو مندرجہ ذیل تکالیف ہوں، یا تکالیف کی شدّت اس حد تک بڑھ جائے جیسا کہ نیچے بتایا گیا ہے تو سائیکائٹرسٹ کو دکھانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اگر ڈپریشن کی علامات اتنی زیادہ یا اتنی شدید ہوں کہ وہ انسان کے کام کو، اس کی دلچسپیوں کو، اس کے اپنے گھر والوں اور دوستوں سے تعلقات کومتاثر اور خراب کرنے لگیں۔
اگر ڈپریشن کی علامات کو کافی طویل عرصہ ہو گیا ہو اور وہ ختم ہی نہ ہو رہی ہوں۔
اگر مریض کو اس طرح کے خیالات آنے لگیں کہ زندگی بیکار ہے، اس زندگی سے تو مرنا بہتر ہے، اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے خیالات آنے لگیں۔
ڈپریشن کے ساتھ اینگزائٹی کی علامات
کچھ لوگوں کو ڈپریشن میں اداسی کے ساتھ ساتھ شدید گھبراہٹ اور اینگزائٹی بھی ہوتی ہے۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کچھ برا ہونے والا ہے، ان کو ہر وقت گھبراہٹ رہتی ہے، اور ڈر خوف رہتا ہے۔ بعض مریضوں کو گھبراہٹ کی جسمانی علامات مثلاً گلے میں خشکی، پسینہ زیادہ آنا، سانس تیز تیز آنا یا سانس لینے میں دشواری ہونا، یا معدے میں بل پڑنا وغیرہ۔ ان دونوں بیماریوں کا علاج بہت حد تک ملتا جلتا ہے، لیکن تھوڑے تھوڑے فرق بھی ہیں۔
ڈپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر
جن لوگوں کو موڈ یعنی مزاج کی بیماری میں پہلا ایپی سوڈ یا دورہ ڈپریشن کا ہوتا ہے، ان میں سے تقریباً پانچ فیصد لوگوں کو بعد میں مینیا کا دورہ ہوتا ہے اور ان کی تشخیص ڈپریسو ڈس آرڈر یعنی ڈپریشن کی بیماری سے بدل کر بائی پولر ڈس آرڈر ہو جاتی ہے۔
جن لوگوں کو مینیا کا دورہ ایک دفعہ ہو جائے پھر ان کا علاج اور ان کے ڈپریشن کا بھی علاج ان لوگوں سے کافی مختلف ہوتا ہے جن کو تمام دورے صرف ڈپریشن کے ہوئے ہوں۔
ڈپریشن کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن انسان کی شخصیت کی کمزوری کی علامت ہے، یا ہمارے معاشرے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن دین سے دوری کی علامت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللّٰہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے (الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب) اور قرآن کریم میں بار بار آیا ہے کہ لوگ اگر ایسے کام کریں گے، یا ایسے کام نہیں کریں گے، تو نہ انہیں ڈر خوف ہو گااور نہ وہ غمگین ہوں گے (ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون)۔
لیکن جیسے کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر کسی کو جگر یا گردے کی بیماری ہو گئی ہے تو اس کی وجہ ان کی شخصیت یا ان کے ایمان کی کمزوری ہے، بالکل اسی طرح شدید نفسیاتی بیماریاں بھی ایک حقیقت ہیں، کیونکہ ان مریضوں کے دماغ میں کچھ کیمیکل تبدیلیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کو عام روز مرّہ کی وقتی گھبراہٹ، پریشانی یا اداسی نہیں ہوتی، بلکہ بغیر کسی ظاہری وجہ کے شدید گھبراہٹ یا شدید اداسی ہوتی ہے جو ہر وقت یا بیشتر وقت رہتی ہے، کسی طرح سے بھی کم یا ختم نہیں ہوتی، اور ہفتوں، مہینوں یا سالوں چلتی ہے۔ یہ بیماریاں کسی کو بھی ہو سکتی ہیں اور ان کااس شخص کے مضبوط شخصیت یا دیندار ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی طرح بہت دفعہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن کسی پریشانی کا یا کوئی نقصان پہنچنے کا، چاہے وہ مال چلے جانے کا نقصان ہو یا کسی قریبی عزیز کے چلے جانے کا، دوسرا نام ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے جو دماغ میں بعض کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہم بہت سے ایسے مریض دیکھتے ہیں جو پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مجھے تو کوئی پریشانی نہیں ہے، میری زندگی تو بہت اچھی ہے، پھر مجھے ڈپریشن کیوں ہو گیا؟ ہم انہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ ڈپریشن کی کوئی ظاہری وجہ ہو بھی سکتی ہے، اور بہت سے لوگوں میں نہیں بھی ہو سکتی۔
ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ مندرجہ ذیل باتوں کی وجہ سے کسی انسان کو ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک مریض میں ان میں سے کئی وجوہات موجود ہوں، اور کسی میں ان میں سے ایک بھی نہ ہو۔
پریشان کن واقعات اور ذاتی حالات
ڈپریشن انسان کی زندگی میں کسی پریشان کن واقعے یا سانحے کے بعد بھی شروع ہو سکتا ہے مثلاً کسی بہت ہی قریبی عزیز یا دوست کا اتنقال ہو جانا، پرانی شادی ختم ہو جانا، ملازمت ختم ہو جانا۔
جو لوگ بالکل تنہا رہتے ہیں اور ان کے اریب قریب کے ماحول میں کئی قریبی دوست یا رشتہ دار نہیں ہوتا، ان لوگوں کو ڈپریشن ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
جسمانی صحت
انسان کی نیند، خوراک، اور جسمانی ورزش کی عادت، سب اس کے موڈ یا مزاج، اور اس کی نامساعد حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت (coping ability) پہ اثرانداز ہوتی ہیں۔
جن لوگوں کو زیادہ شدّت یا طویل عرصے کی جسمانی بیماری ہو، ان کو ڈپریشن ہونے کا، اور اگر پہلے سے ڈپریشن ہو تو اس کے مزید شدّت اختیار کرنے کا، امکان بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پہ اگر کسی کو مندرجہ ذیل بیماریوں میں سے کوئی بیماری ہو تو اس کو ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے:
وہ بیماریاں جن میں جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے مثلاً کینسر یا دل کی بیماری
وہ بیماریاں جو سالہا سال چلتی ہیں اور ان میں شدید درد محسوس ہوتا ہے مثلاً آرتھرائٹس
وائرل انفیکشن جیسے کہ فلو یا گلینڈیولر بخار، خاص طور سے نوجوان لوگوں میں
ہارمون کی بیماریان جیسے کہ تھارائڈ گلینڈ کا صحیح سے کام نہ کرنا
وہ بیماریاں جو دماغ کو متاثر کریں
بچپن کے تلخ تجربات
جن لوگوں کو اپنے بچپن میں اذیت ناک حالات کا سامنا کرنا پڑا ہو، مثلاً جسمانی، جنسی یا ذہنی اور جذباتی تشدّد، جن کا بچپن شدید غربت میں گزرا ہو، جن کی بچپن میں دیکھ بھال صحیح طرح سے نہ کی گئی ہو اور انہیں نظر اندازکیا گیا ہو، جن کے گھر کا ماحول تلخ اور لڑائی جھگڑے والا رہا ہو، یا جنہوں نے بچپن میں تشدّد اور اذیت ناک واقعات کو اپنی نظروں سے دیکھا ہو، ان بچپن میں بڑے ہونے کے بعد ڈپریشن ہونے کا خطرہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
الکحل اور دوسری نشہ آور اشیاٴ کا استعمال
جو لوگ زیادہ مقدار میں الکحل پیتے ہوں یا چرس (کینابس) استعمال کرتے ہوں ان میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ اور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
جینیاتی وجوہات
شدید ڈپریشن، بائی پولرڈس آرڈر، اور شیزوفرینیا، جن کو ملا کے شدید نفسیاتی بیماریاں کہا جاتا ہے، ہونے کا خطرہ ملتی جلتی جینز کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ ماحولیاتی وجوہات ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ اس انسان کے بچپن کا ماحول کتنا خوشگوار یا ناخوشگوار تھا، جو جینیاتی وجوہات کے ساتھ مل کر اس بات کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں یا کم کر دیتی ہیں کہ کسی انسان کو ان تینوں بیماریوں میں سے کوئی بیماری ہو گی یا نہیں۔ اگر کسی انسان کی پیدائش پہ اس میں وہ جینز موجود بھی ہوں جو شدید نفسیاتی بیماری کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں، لیکن وہ بہت خوشگوار محبت والے ماحول میں پلے بڑھے، تو اس بات کا خطرہ نسبتاً کم ہو جاتا ہے کہ اس کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو گی۔
والدین میں سے کسی ایک کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری مثلاً شدید ڈپریشن ہونا اب تک اس بیماری کی جتنی بھی وجوہات معلوم ہیں، ان کے مقابلے میں سب سے زیادہ اس خطرے کو بڑھاتا ہے کہ ان کے بچوں کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو۔ جن بچوں کے والدین کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو، ان میں سے ہر تین میں سے ایک بچے (۳۳ فیصد) کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہوا کہ ڈپریشن کی کوئی "ایک" وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ہونے میں بہت سارے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کی بہت ساری "وجوہات" ہوتی ہیں جو اس بات کے خطرے کو بڑھاتی یا کم کرتی ہیں کہ کسی ایک انسان کو ڈپریشن ہو جائے۔
کیا ڈپریشن بغیر کسی علاج کے بھی ختم ہو سکتا ہے؟
اچھی بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کا ڈپریشن بغیر کسی علاج کے ان کی اپنی کوششوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ لوگ خود ایسے کئی کام کر سکتے ہیں جن سے ان کا ڈپریشن ختم ہو جائے، اور جو لوگ ایسا کر سکیں انہیں آئندہ کے لیے اطمینان اور اپنے اوپر اعتماد ہو جاتا ہے کہ آئندہ بھی کبھی ان کو اداسی ہوئی تو وہ خود اس کا مقابلہ کر سکیں گے۔
لیکن بعض لوگوں کا ڈپریشن صرف اپنی کوششوں سے ٹھیک نہیں ہوتا اور انہیں باقاعدہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے، خصوصاً ان لوگوں میں جن کا ڈپریشن شدید ہو، کافی عرصے سے چل رہا ہو، یا انہوں نے اس کو بہتر کرنے کے لیے خود جو بھی کوششیں کی ہوں وہ کامیاب نہ ہوئی ہوں۔
جس شخص کو پہلی دفعہ ڈپریشن کی بیماری ہوئی ہو، اس بات کا تقریباً پچاس فیصد امکان ہوتا ہے کہ شاید اس کو مسقبل میں دوبارہ کبھی پھر ڈپریشن ہو۔ اس لیے پہلی دفعہ ہی یہ جان لینا اچھا ہوتا ہے کہ اگر علاج کی ضرورت ہو تو متعلقہ لوگوں سے کیسے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے اگر آپ کو ڈپریشن کی علامات کافی دن سے محسوس ہو رہی ہوں اور آپ کو لگے کہ اس سلسلے میں کسی سے مشورہ کرلیناچاہیے تو اس میں بلا وجہ تاخیر نہ کریں۔ بہت سے لوگ اس لیے ڈاکٹر سے ملنے سے ڈرتے ہیں کہ وہ فوراً دوا شروع کروا دیں گے، لیکن ڈپریشن میں دوا کے علاوہ بھی اور کئی طریقہ علاج سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ دوا نہیں بھی لینا چاہتے تو ڈاکٹر سے ملنے سے گریز نہ کریں، مل کے یہ پوچھ لیں کہ دوا کے علاوہ اور کن باتوں یا طریقوں سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن کا مریض اپنے آپ کو بہتر کرنے کے لیے خود کیا کر سکتا ہے؟
نیچے کچھ ایسی باتیں لکھی ہوئی ہیں جن کے کرنے سے بہت سارے لوگوں کا ڈپریشن بہتر ہوتا ہے، لیکن ہر حکمتِ عملی ہر انسان کے لیے کام نہیں کرتی۔ بہتر ہو گا کہ آپ ان مختلف حکمت عملیوں کو آزما کے دیکھ لیں کہ ان میں سے کن سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے۔
کسی قابلِ اعتماد شخص کے سامنے دل ہلکا کرنا
بعض لوگ کسی دوسرے کے سامنے کسی سانحے کے بار میں یا کسی بری خبر سننے کے بعد اپنا دل ہلکا کرنے کو کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ خیال صحیح نہیں، بلکہ ایسی خبر سننے کے بعد یا تکلیف دہ واقعات کا سامنا کرنے کے بعد اپنے جذبات کو دبا کر رکھنے سے انسان کے دل کا بوجھ مزید بڑھتا ہے۔ کسی قابلِ بھروسہ شخص کے سامنے ، جس پہ آپ کو اطمینان ہو کہ وہ آپ کی ذاتی باتوں کو مشتہر نہیں کرے گا، اپنے جذبات اور حالات کا اظہار کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ بالکل بھی کسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ان میں سے بھی لوگوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے ڈائری لکھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
ورزش کرنے کی عادت ڈالیں
کوشش کر کے روزانہ کچھ نہ کچھ ورزش کرنے کی عادت ڈالیں، چاہے وہ دس پندرہ منٹ کے لیے چہل قدمی کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور اس کو نیند بھی اچھی آتی ہے۔ اس سے انسان کی اپنے ذہن میں گھومنے والے تکلیف دہ خیالات سے بھی توجّہ ہٹتی ہے۔
صحت مندانہ غذا کھائیں
ڈپریشن میں بہت سے لوگوں کی بھوک کم ہو جاتی ہے۔ اس سے ان کا وزن کم ہونے لگتا ہے، کمزوری بڑھنے لگتی ہے، اور جسم میں مختلف طرح کے وٹامنز کی کمی ہونے لگتی ہے۔ بعض لوگ جب اداس یا پریشان ہوتے ہیں تو زیادہ کھانے لگتے ہیں جس کو کمفرٹ ایٹنگ (comfort eating) کہتے ہیں۔ اس سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے جو ٹھیک ہونے کے بعد بھی کم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایک صحت مندانہ غذا، جس میں سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں ہوں، کھانے سے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی صحت بہتر ہوتی ہے۔
نشہ آور اشیاٴ کے استعمال سے بچیں
بعض لوگ اپنی پریشانی اور اداسی کو بہتر کرنے کے لیے الکحل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ان کا موڈ ایک دو گھنٹوں کے لیے تو بہتر ہو سکتا ہے لیکن اس کے بعد طویل عرصے کے اوپر ان کا ڈپریشن زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔ دیگر نشہ آور اشیاٴ مثلاً چرس (کینابس)، ایمفیٹامین، کوکین، اور ایکسٹسی کے استعمال سے بھی اسی طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔
اپنی نیند کی ایک روٹین بنائیں
ہر روز (ہفتے کے ساتوں دن) ایک ہی وقت پہ بستر پہ جائیں، اور صبح ایک ہی وقت پہ بستر چھوڑیں۔
رات کو سونے سے پہلے کوئی ایسا کام کرنے کی عادت ڈالیں جس سے آپ پر سکون ہوتے ہوں مثلاً کتاب پڑھنا وغیرہ۔
انسان اپنی نیند کو خود کیسے بہتر کر سکتا ہے اس کی مزید تفصیل آپ کو اس ویب پیج پہ مل جائے گی۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/نیند-sleep?authuser=0#h.l1k88lyl3i2m
ایسے کام کریں جن سے آپ کی گھبراہٹ کم ہوتی ہو
آج کل کے دور میں بہت سی ایسی چیزیں انٹرنیٹ پہ یا موبائل کی ایپس میں دستیاب ہیں جن سے انسان کی گھبراہٹ پریشانی کم ہوتی ہے خاص طور سے ان لوگوں کی جو زیادہ وقت پریشان رہتے ہیں۔ ان میں ریلکسیشن یعنی اپنے آپ کو پرسکون کرنے کی مشقیں وغیرہ شامل ہیں۔ بعض لوگوں کو مساج یا یوگا وغیرہ سے فائدہ ہوتا ہے۔ معلوم کریں کہ آپ کے لیے ان میں سے کیا ممکن ہے، اور پھر دو تین چیزوں کو آزما کے دیکھیں کہ آپ کو ان میں سے کس سے فائدہ ہوتا ہے۔
ایسے کام کریں جن میں آپ کو مزا آتا ہو
بعض لوگ کتابیں پڑھنا انجوائے کرتے ہیں، بعض دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، اور بعض مختلف تفریحات میں حصّہ لینا۔ آپ جو بھی کام انجوائے کرتے ہوں، اس کے لیے ہر روز نہیں تو کم از کم ہر ہفتے وقت نکالنا انسان کی ذہنی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔
امید کا دامن تھامے رکھیں
ڈپریشن ان بیماریوں میں سے ہے جو جب کوئی اینٹی ڈپریسنٹ دوا نہیں تھی تب بھی بہت سارے لوگوں میں کچھ مہینے کے بعد خود بخود ٹھیک ہو جاتی تھی۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ علامات اور بھی کافی جلدی ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم مریضوں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ چاہے وقتی طور پہ آپ کو مایوسی محسوس ہو رہی ہو، ڈپریشن کے بیشتر مریض علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے پر امید رہیں۔ بلکہ اس بات پہ باقاعدہ ریسرچ ہے کہ جو لوگ پر امید رہتے ہیں ان کو علاج سے بھی زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
ہلکے درجے کے ڈپریشن کا علاج
اگر کسی کو ڈپریشن پہلی دفعہ ہوا ہو، اور خاص طور سے اگر وہ ہلکے درجے کا ہو اور زیادہ شدّت کا نہ ہو، مثلاً یہ کہ مریض میں ڈپریشن کی کچھ علامات ہوں اور کچھ نہ ہوں، اور اس کی زندگی اس سے بری طرح سے متاثر نہ ہوئی ہو، تو ایسی صورت میں اینٹی ڈپریسنٹ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی)، کاؤنسلنگ، اور باقاعدہ ورزش کرنے سے بھی ڈپریشن ٹھیک ہو سکتا ہے۔
اگر ان سے فائدہ نہ ہو تو دوا کے استعمال پہ غور کیا جا سکتا ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
درمیانے اور شدید درجے کے ڈپریشن کا علاج
درمیانے درجے کے ڈپریشن میں سی بی ٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ دوا دونوں سے فائدہ ہوتا ہے۔ بعض اعتبار سے سی بی ٹی بہتر ہوتی ہے کیونکہ ڈپریشن کے واپس آنے کا خطرہ دوا کے مقابلے میں سی بی ٹی سے نسبتاً زیادہ کم ہوتا ہے۔
کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی)
ڈپریشن کے علاج کے لیے جتنی بھی طرح کی سائیکوتھراپی تجویز کی جاتی ہے ان میں ریسرچ سے سی بی ٹی کے موثر ہونے کے بارے میں سب سے زیادہ واضح ثبوت موجود ہے۔
بیشتر مریضوں میں ڈپریشن میں صرف اداسی ہی نہیں ہوتی، بلکہ ان کے ذہن میں کثرت سے اپنے بارے میں، دنیا کے بارے میں اور مستقبل کے بارے میں منفی اور مایوسی کے خیالات آنے لگتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ منفی خیالات اور سوچنے کے منفی طریقے ڈپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی موجود ہوتے ہیں، اور ان لوگوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو مثبت سوچ رکھتے ہیں۔
سی بی ٹی کا بنیادی مقصد ان منفی خیالات اور سوچنے کے طریقوں کو پہچاننا اور ان کو تبدیل کرنا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آپ کو مندرجہ ذیل لنک پہ مل جائے گی۔
https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/treatments-and-wellbeing/cognitive-behavioural-therapy-(cbt)
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے کئی مختلف گروپس یا مجموعے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کے مضر اثرات مختلف ہوتے ہیں اس لیے آپ کے ڈاکٹر آپ سے تبادلہٴ خیال کریں گے کہ آپ کے لیے کون سی اینٹی ڈپریسنٹ زیادہ بہتر رہے گی۔
عام طور سے جب تک انسان ایک اینٹی ڈپریسنٹ دوا استعمال کر کے نہ دیکھے یہ پہلے سے بتانا مشکل ہوتا ہے کہ کس مریض کے لیے بہترین دوا کون سی ہو گی۔
عام طور سے مریضوں کو شروع میں مضر اثرات فوراً محسوس ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مریضوں میں یہ مضر اثرات ہلکی نوعیت کے ہوتے ہیں اور دوا جاری رکھنے پہ دو چار ہفتوں میں ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس دوا کا فائدہ شروع ہونے میں ایک سے دو ہفتے، اور واضح فائدہ نظر آنے میں چار سے چھ ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔
جن لوگوں کو ڈپریشن پہلی دفعہ ہوا ہو ان کو ڈپریشن کی علامات بالکل ختم ہو جانے کے بعد بھی دوا چھ سے نو مہینے تک جاری رکھنی چاہیے، ورنہ جلدی دوا بند کر دینے سے ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جن لوگوں کو ڈپریشن ایک سے زیادہ دفعہ ہو چکا ہو انہیں دوا اور بھی طویل عرصے کے لیے جاری رکھنی ہوتی ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کی مزید تفصیل آپ کو اس ویب پیج پہ مل جائے گی۔
الیکٹرو کنولسو تھراپی (ای سی ٹی)
ڈپریشن میں ای سی ٹی دو بنیادی صورتوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
۱۔ بعض دفعہ مریض کا ڈپریشن اتنا شدید ہوتا ہے کہ اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے۔ ایسی صورت میں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ اگر اس وقت فوراً شروع بھی کر دی جائے تو واضح فائدہ ہونے اور خطرہ کم ہونے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس کے بر عکس ای سی ٹی کا فائدہ بہت جلدی شروع ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کی صورتِ حال میں کافی دفعہ ای سی ٹی سے علاج کیا جاتا ہے۔
۲۔ بعض دفعہ کسی مریض کا درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن کسی اور طریقہ علاج، مثلاً ایک سے زیادہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں اور سائیکوتھراپی، سے ٹھیک ہی نہیں ہو رہا ہوتا۔ ایسی صورت میں بعض دفعہ ای سی ٹی کے علاج سے مریض ٹھیک ہو جاتا ہے، گو ٹھیک ہونے کے بعد بھی اسے اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر میرے کسی عزیز یا دوست کو ڈپریشن ہو تو میں اس کی مدد کیسے کر سکتا ہوں؟
ان کی تکلیف کو سنجیدگی سے لیں۔
ہمارے معاشرے، بلکہ اور بہت سے معاشروں میں بھی، مریض کے لیے ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس بات پر یقین ہی نہیں ہوتا کہ ڈپریشن بھی کوئی بیماری ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کے مشورے دیتے ہیں کہ ہمّت کرو، مرد بنو، کمر کس لو، یا پھر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ تم گناہ گار ہو یا تمہارا ایمان کمزور ہے ا سلیے تمہیں ایسا ہو گیا۔ڈپریسو ڈس آرڈر جو ہوتا ہے اس کا نہ انسان کے اعصاب یا شخصیت کی مضبوطی سے تعلق ہے اور نہ ایمان کی مضبوطی سے۔ جس طرح کسی بھی انسان کو جگر کی یا گردے کی بیماری ہو سکتی ہے، اسی طرح کسی بھی انسان کو ڈپریشن کی بیماری ہو سکتی ہے۔ مریضوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچتا ہے اگر ان کے گھر والوں کو اور دوستوں کو اس بات کا ادراک ہو۔ اس لیے اگر آپ کے گھر یا خاندان میں کسی کو ڈپریشن ہو تو اس بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مستند معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
مریض کی بات سنیں
یہ کہنا آسان ہے لیکن حقیقت میں ایسا کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مریض کے دماغ میں بہت منفی خیالات آ رہے ہوتے ہیں اور وہ ان ہی خیالات کو بار بار دہراتا رہتا ہے۔ اس لیے ان خیالات کو بار بار سننا اور بحث میں نہ الجھنا بہت سے سننے والوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن کرنے کا کام یہی ہے کہ رشتہ دار یا دوست خاموشی سے مریض کی بات سنتے رہیں، اور اس کو جواب نہ دیں، اس کو یہ قائل کرنے کی کوشش نہ کریں کہ وہ غلط کہہ رہا ہے، اس سے بحث میں نہ الجھیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب تک مریض مشورہ نہ مانگے، خود سے مشورہ مت دیں۔ بہت دفعہ مریض جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کہہ رہا ہوتا ہے، اس لیے نہیں کہہ رہا ہوتا کہ سامنے والا یہ کہنا شروع کر دے کہ تم فلاں فلاں کام غلط کر رہے ہو، اس کو ایسے کرو۔
مریض کے ساتھ وقت گزاریں
اگر ڈپریشن کے مریض کو یہ احساس رہے کہ اس سے محبت کرنے والے اس کے آس پاس ہیں تو اس کی ڈھارس بھی بندھتی ہے اور اس کی تنہائی بھی کم ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی ترغیب ہو۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ انسان ان کی کاؤنسلنگ کرنے کی ہی کوشش کرے، بلکہ ان کو ایسی سرگرمیوں اور دلچسپیوں میں حصّہ لینے کی ترغیب دینا، جن میں پہلے وہ شوق سے حصّہ لیا کرتے تھے، بھی بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
مریض کو امید دلائیں
جب ڈپریشن کے مریضوں کے دل و دماغ پہ ان کے منفی خیالات طاری ہوتے ہیں تو انہیں مایوسی ہونے لگتی ہے اور ایسا لگنے لگتا ہے کہ وہ کبھی بہتر نہیں ہوں گے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈپریشن سائیکائٹری کی ان بیماریوں میں سے ہے جس کے تقریباً آدھے مریض علاج کے بغیر ہی اور مزید بہت سارے مریض علاج کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے کہ آپ یہ مستند معلومات حاصل کریں اور مریض کو بار بار یقین دلائیں کہ اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔
ان کا اپنا خیال رکھنے میں مدد کریں
اس بات پہ نظر رکھیں کہ مریض کے پاس مناسب مقدار میں کھانا موجود ہے اور وہ باقاعدگی سے کھانا کھا رہے ہیں۔ وہ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ چہل قدمی کے لیے لے جائیں اور مختلف سرگرمیوں میں مصروف کریں۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت بہتر ہو گی۔
بشکریہ:https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/mental-illnesses-and-mental-health-problems/depression
Last accessed:16/8/24
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کیا ہوتی ہیں؟
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ابتدا میں ڈپریشن کے علاج کے لیے دریافت ہوئی تھیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان سے کئی اور بیماریوں میں بھی فائدہ ہوتا ہے مثلاً گھبراہٹ اور اینگزائٹی کی بیماریوں میں بھی۔ اس وقت تقریباً تیس مختلف اینٹی ڈپریسنٹ ادویات دستیاب ہیں جنہیں پانچ اقسام یا گروپس میں بانٹا جاتا ہے۔
۱۔ ایس ایس آر آئی (سیلیکٹو سیروٹونن ری اپٹیک انہیبیٹرز)، مثلاً فلو آکسیٹین، سرٹرالین، پاروکسیٹین، سیٹالوپرام، ایسیٹالوپرام۔
(Selective Serotonin Reuptake Inhibitors)
۲۔ ایس این آر آئی (سیروٹونن اور نارایڈرینلین ری اپٹیک انہیبیٹرز)، مثلاً وینلافیکسین، ڈیولوکسیٹین۔
(Serotonin and Noradrenaline Reuptake Inhibitors)
۳۔ این اے ایس ایس اے (نارایڈرینلین اور اسپیسیفک سیروٹونرجک اینٹی ڈپریسنٹس)، مثلاً مرٹازاپین۔
Noradrenaline and Specific Serotoninergic Antidepressants()
۴۔ٹی سی اے ( ٹرائی سائیکلک اینٹی ڈپریسنٹس) ، مثلاً ایمی ٹرپٹیلین، ایمیپرامین، کلومیپرامین۔
(Tricyclic antidepressants)
۵۔ ایم اے او آئی (مونو امین آکسیڈیز انہیبیٹرز) مثلاً ٹرینائل سپرومین، آئیسوکاربوکسازڈ۔
(Monoamine Oxidase Inhibitors)
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں کس طرح سے کام کرتی ہیں؟
کسی کو اب تک وثوق سے نہیں معلوم کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں کس طرح سے کام کرتی ہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں دماغ میں بعض کیمیکلز کی کارکردگی پہ اثر ڈالتی ہیں۔ ان کیمیکلز کو نیوروٹرانسمٹرز (neurotransmitters) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دماغ کے مختلف خلیات کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں جن دو نیوروٹرانسمٹرز پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں وہ سیروٹونن (serotonin) اور نارایڈرینلین (noradrenaline) ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹس کن بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں؟
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں ہلکے درجے کے ڈپریشن کے علاج کے لیے نہیں استعمال کی جانی چاہیئیں، جس کے لیے کاؤنسلنگ، ورزش، اور اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت اپنی زندگی کو تبدیل کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ البتّہ جن لوگوں کو درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن ہو اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے ان میں سے بہت سے لوگوں کو واضح فائدہ ہوتا ہے۔
عام طور سے انہیں بچوں میں ڈپریشن کے علاج کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ان بچوں کو علاج کے دوسرے طریقوں سے فائدہ نہ ہوا ہو۔
ان دوائیوں کو ڈپریشن کے علاوہ ان مزید بیماریوں اور تکالیف کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے؛
شدید درجے کی گھبراہٹ (اینگزائٹی) اور شدید گھبراہٹ کے دوروں (پینِک اٹیکس) کے لیے
آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی، وہم کی بیماری)
طویل عرصے تک چلنے والا درد
کھانا کھانے سے متعلق بیماریاں (eating disorders)
پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
عام طور سے جن مریضوں کو درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن ہو ان میں سے بڑی تعداد کو اینٹی ڈپریسنٹ دوائیاں لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن مختلف مریضوں کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ان دوائیوں سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور مضر اثرات بہت کم ہوتے ہیں، بعض مریضوں کو ان سے فائدہ تو ہوتا ہے لیکن مضر اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور بعض مریضوں کو ان سے کوئی واضح فائدہ محسوس نہیں ہوتا۔ آخری دونوں طرح کے مریضوں کو اگر چار چھ ہفتوں میں فائدہ محسوس نہ ہو یا مضر اثرات برداشت سے باہر ہوں تو اپنے سائیکائٹرسٹ سے مل کر دوبارہ مشورہ کرنا چاہیے۔
بہت سارے لوگوں کا ڈپریشن بغیر کسی دوا کے بھی کچھ مہینوں کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہو اتنا ہی اس بات کا امکان کم ہوتا جاتا ہے کہ مریض بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہو جائے گا۔
کیا اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے کچھ مضر اثرات ہوتے ہیں؟
جی ہاں، اور آپ کے ڈاکٹر کو چاہیے کہ دوا شروع کرنے سے پہلے آپ کو اس دوا کے مضر اثرات کے بارے میں بتا دے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیشتر لوگوں میں اینٹی ڈپریسنٹ دوا کے مضر اثرات کچھ ہفتوں کے بعد کم ہونا یا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر مریض کو پہلے سے یہ معلوم ہو کہ مجھے یہ مضر اثرات ہو سکتے ہیں اور یہ عام طور سے کچھ ہفتوں کے بعد کم یا ختم ہو جاتے ہیں، تو اس بات کا امکان کم ہو جاتا ہے کہ مریض مضر اثرات سے گھبرا کے چند دن بعد ہی دوا چھوڑ دے گا۔
اگر آپ کو کوئی جسمانی بیماری ہو، یا آپ کسی اور بیماری کے لیے کوئی دوا لے رہے ہوں تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتا دیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ بعض جسمانی بیماریوں میں بعض مخصوص اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں لینے سے مضر اثرات زیادہ شدید ہو سکتے ہیں، اور بعض اینٹی ڈپریسنٹس کا بعض مخصوص دوائیوں سے ری ایکشن ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کے سائیکائٹرسٹ کو یہ ساری معلومات پہلے سے ہوں گی تو اسے آپ کے لیے محفوظ اینٹی ڈپریسنٹ کا انتخاب کرنے میں مدد ملے گی۔
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے مختلف گروپس سے مختلف طرح کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
ایس ایس آر آئی (مثلاً فلوآکسیٹین، سرٹرالین، وغیرہ) اور ایس این آر آئی (مثلاً وینلافیکسین) اینٹی ڈپریسنٹ ادویات
ان دوائیوں کو شروع کرنے پہ کچھ اس طرح کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں:
بے چینی، گھبراہٹ، کپکپی محسوس کرنا (اگر مریض دوا جاری رکھے تو عام طور سے یہ کچھ دنوں کے بعد ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں)
متلی محسوس کرنا، الٹی ہو جانا
بد ہضمی، معدے میں درد محسوس ہونا
پیچش یا قبض
بھوک اڑ جانا
چکر آنا
نیند آنے میں دشواری ہونا، یا دن میں غنودگی محسوس کرنا
سردرد
جنسی خواہش کم ہو جانا
مردوں میں عضو تناسل میں سختی ہونے میں دشواری ہونا، یا سختی فوراً ختم ہو جانا
بعض لوگ مضر اثرات کی اتنی طویل فہرست دیکھ کے پریشان ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مریضوں میں ان کی شدّت اتنی کم ہوتی ہے کہ دوا تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، اور زیادہ تر لوگوں میں تقریباً دو ہفتے کے بعد ان کی شدّت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
این اے ایس ایس اے (NASSA) اینٹی ڈپریسنٹ ادویات مثلاً مرٹازاپین
ان دوائیوں کے مضر اثرات ایس ایس آر آئی دوائیوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ان دوائیوں سے غنودگی ہو سکتی ہے اور وزن بڑھ سکتا ہے، لیکن ان سے جنسی مضر اثرات ہونے کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔
ٹرائی سائیکلک اینٹی ڈپریسنٹ دوائیاں مثلاً ایمی ٹرپٹیلین اور ایمیپرامین
جو مریض یہ دوائیاں لے رہے ہوتے ہیں ان میں سے بہت سارے مریضوں کو مندرجہ ذیل مضر اثرات محسوس ہوتے ہیں:
گلے میں خشکی
دھندلا نظر آنا
قبض
پیشاب خارج کرنے میں مشکل ہونا
دن میں نیند آنا
چکر آنا
وزن بڑھنا
پسینہ زیادہ آنا، خاص طور سےرات میں
دل کی دھڑکن سے متعلقہ شکایات مثلاً دل تیز تیز دھڑکنا یا دل کی دھڑکن محسوس ہونا
زیادہ تر مریضوں میں یہ مضر اثرات ہلکی شدّت کے ہوتے ہیں اور کچھ ہفتوں کے بعد ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو بہت زیادہ مضر اثرات محسوس ہو رہے ہوں جو بہت شدید ہوں یا آپ کی برداشت سے باہر ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
مختلف اینٹی ڈپریسنٹس کے مضر اثرات کی اردو میں تفصیل آپ کو اس ویب پیج پہ مل جائے گی۔
گاڑی چلانا
بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے دن میں غنودگی ہوتی ہے اور انسان کا ڈرائیونگ کے دوران کسی خطرے کو دیکھ کے عام طور سے جو ردِّ عمل کرنے کا وقت (ری ایکشن ٹائم) ہوتا ہےسست ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ کرنے کے بعد سے دن میں نیند آ رہی ہے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں کہ آپ کے لیے گاڑی چلانا محفوظ ہے کہ نہیں۔
کیا اینٹی ڈپریسنٹ دوائیاں لینے سے انسان ان کا عادی بن جاتا ہے؟
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیاں لینے اس طرح سے عادت تو نہیں پڑتی جس طرح سے سکون آور ادویات (مثلاً الپرازولام، لورازیپام یا ڈایازیپام) یا نیند لانے والی دوائیوں (زوپی کلون، زولپیڈیم) سے پڑتی ہے، مثلاً اینٹی ڈپریسنٹ لینے کی شدید طلب (craving) نہیں ہوتی، ان کا ہر کچھ عرصے بعد ڈوز بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ کچھ ہفتے یا مہینے کے بعد کام کرنا نہیں چھوڑ دیتیں۔ البتہ ان کے بند کرنے سے بعض تکلیف دہ اثرات ہو سکتے ہیں جو کہ ان کو دوبارہ لینا شروع کرنے سے ختم ہو جاتے ہیں۔ ان تکلیف دہ اثرات کی تفصیل بعد میں آئے گی۔
کیا حاملہ اور نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اینٹی ڈپریسنٹ دوا لے سکتی ہیں؟
سب سے بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ زچگی کے دوران خواتین کم از کم دوائیں استعمال کریں۔ اسی لیے عام طور سے یہ تجویز نہیں کیا جاتا کہ جو خواتین حاملہ ہوں وہ زچگی کے دوران اینٹی ڈپریسنٹ دوا لیں۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مثلاً کوئی خاتون حمل شروع ہونے سے پہلے سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لے رہی ہوتی ہیں اور ان کی پرانی ہسٹری کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ دوا بند کر دیں گی تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہو گا کہ ان کو دوبارہ ڈپریشن ہو جائے، یا کوئی خاتون پہلے سے اینٹی ڈپریسنٹ نہیں لے رہی ہوتیں لیکن زچگی کے دوران انہیں شدید ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے۔ حمل کے دوران اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے سے کچھ خطرات ہوتے ہیں، لیکن اگر کسی خاتون کو حمل کے دوران شدید ڈپریشن ہو جائے یا ان کا ڈپریشن واپس آ جائے تو اس خاتون، زچگی، اور پیٹ میں موجود بچے کے لیے ماں کے ڈپریشن کا علاج نہ کرنے سے بھی کچھ خطرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسی صورت میں کسی ماہر سائیکائٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے تا کہ یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو کہ علاج کرنے کے خطرات کیا ہیں اور علاج نہ کرنے کے خطرات کیا ہیں، اور یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ کیا کرنا چاہیے۔
بالکل اسی طرح عام طور سے یہ تجویز نہیں کیا جاتا کہ جو مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ پلا رہی ہوں وہ، بشمول اینٹی ڈپریسنٹ، زیادہ دوائیں لیں۔ لیکن اس صورتحال میں بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ دوا لینے کا نقصان زیادہ ہے، یا دوا نہ لینے کا نقصان زیادہ ہے۔ اس کے لیے بھی کسی ماہر سائیکائٹرسٹ سے مشورہ کریں۔
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیاں کس طرح لینی چاہیئیں؟
تقریباً تمام ہی لوگوں کا اینٹی ڈپریسنٹ دوا شروع کرنے پہ یہ تجربہ ہوتا ہے کہ دوا شروع کرتے ہی کچھ نہ کچھ مضر اثرات محسوس ہونے لگتے ہیں جب کہ فائدہ فوراً نظر نہیں آتا۔ بہت سے لوگ اس وجہ سے اینٹی ڈپریسنٹ شروع کرنے کے چند دن بعد ہی اسے بند کر دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے فائدہ نہیں ہوتا اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے دوا اتنے وقت کے لیے نہیں لی ہوتی جتنے دن کے لیے ڈاکٹر نے انہیں وہ دوا لینے کے لیے کہا ہوتا ہے۔
زیادہ تر لوگوں کا تجربہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں دوا کا فائدہ نظر آنا شروع ہونے میں ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں، اور واضح یا مکمل فائدہ ہونے میں چار سے چھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اگر اتنے وقت کے بعد بھی کوئی یا واضح فائدہ نظر نہ آئے تو اپنے ڈاکٹر سے دوبارہ مشورہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ دوا کا ڈوز بڑھانے یا اس کو بدلنے کی ضرورت ہو، لیکن اس کا فیصلہ آپ کے ڈاکٹر آپ کی مکمل ہسٹری لے کے ہی کر سکتے ہیں۔
خود سے دوا کا ڈوز نہ بڑھائیں کیونکہ وقت سے پہلے اینٹی ڈپریسنٹ دوا کا ڈوز بڑھانے سے کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بعض صورتوں میں زیادہ مضر اثرات ہونے کا اندیشہ ہے۔
بہت سارے لوگوں کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا شروع کرنے پہ کچھ نہ کچھ مضر اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ بیشتر لوگوں میں یہ مضر اثرات ہلکی شدت کے ہوتے ہیں، اور انسان ہمت کر کے باقاعدگی سے دوا لیتا رہے تو چند ہفتوں میں ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دوا نہ چھوڑیں۔ ہاں البتّہ مضر اثرات ناقابلِ برداشت ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے فوراً مشورہ کریں۔ آج کل تقریباً تیس کے قریب اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں دستیاب ہیں، اور ان میں سے بہت سی دوائیوں کے مضر اثرات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دوا بدلنے پہ آپ کو دوسری دوا سے اتنے مضر اثرات نہ ہوں۔
الکحل سے دور رہیں۔ الکحل خود بھی ڈپریشن کی شدّت کو بڑھا سکتی ہے، اور بہت ساری اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے ساتھ الکحل لینے سے دن میں غنودگی بڑھ سکتی ہے اور جسمانی و ذہنی حرکات سست ہو سکتی ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں کتنے عرصے کے لیے لینی چاہیئیں؟
برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اور کیئر ایکسی لینس (NICE)، جو برطانیہ میں تمام بیماریوں کے مناسب علاج کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے، کا کہنا ہے کہ جس شخص کو پہلی دفعہ ڈپریشن ہوا ہو اس کو ٹھیک ہو جانے کے بعد سے کم از کم مزیدچھ مہینہ کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لیتے رہنا چاہیے۔ اگر انسان اس سے پہلے دوا بند کر دے گا تو ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
جس شخص کو ڈپریشن کے دو یا اس سے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں اس کو دوا ٹھیک ہو جانے کے بعد کم از کم دو سال تک جاری رکھنی چاہیے۔
بعض لوگوں کو بار بار شدید ڈپریشن کے اٹیکس ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو ٹھیک ہونے کے بعد بھی اینٹی ڈپریسنٹ دوا کئی سال تک جاری رکھنی چاہیے تا کہ ان کا ڈپریشن واپس نہ آ جائے۔ یہ خاص طور سے بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ ان میں ڈپریشن کے اٹیک بار بار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو بار بار ڈپریشن ہو رہا ہو بعض دفعہ ان کو اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے ساتھ اور دوائیاں بھی دی جاتی ہیں مثلاً لیتھیم یا کوئی اینٹی سائیکوٹک دوا۔ بعض مریضوں کو سائیکوتھراپی یعنی باتوں کے علاج سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
اگر میں اینٹی ڈپریسنٹ دوا نہ لوں تو کیا ہو گا؟
اس سوال کا جواب ان باتوں پہ منحصر ہوتا ہے کہ مریض کو یہ دوا کس لیے شروع کی گئی تھی، اگر ڈپریشن کے لیے شروع کی گئی تھی تو مریض کا ڈپریشن کتنا شدید تھا، مریض کو ڈپریشن کے کتنے اٹیکس پہلے ہو چکے ہیں، وغیرہ، اس لیے اس سوال کا کوئی ایسا لکھا بندھا ایک جواب نہیں ہے جو ہر مریض کو دیا جا سکے۔ عمومی طور پہ ڈپریشن کے پہلے جتنے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں، پچھلے دوروں سے صحتیاب ہونے میں جتنا زیادہ وقت لگا تھا،اور پچھلے دوروں میں علامات جتنی زیادہ شدید رہی تھیں مثلاً سائیکوسس کی علامات، اتنا ہی اس بات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوا بند کرنے کے بعد بیماری کی علامات واپس آ جائیں گی۔
ڈپریشن کے بعض مریض کسی علاج کے بغیر ہی کچھ مہینوں کے بعد صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ بعض مریضوں دوا کے علاوہ کسی اور طریقہٴ علاج مثلاً سائیکوتھراپی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ علاج کے بغیر کیا ہو سکتا ہے، اور دوا کے علاوہ کون سے اور طریقہ علاج موجود ہیں، تا کہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ آپ کو ن سا علاج کروانا چاہتے ہیں۔
ڈپریشن کے اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے علاوہ اور کون سے طریقہٴ علاج موجود ہیں؟
سائیکوتھراپی
جن لوگوں کا ڈپریشن نسبتاً ہلکے درجے کا ہو ان کے لیے سائیکوتھراپی اینٹی ڈپریسنٹ دوا کے مقابلے میں زیادہ موزوں ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا ڈپریشن نسبتاً زیادہ شدّت کا ہو ان کے لیے سائیکوتھراپی اور اینٹی ڈپریسنٹ دوا دونوں سے بیک وقت علاج کرنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
سائیکوتھراپی کی کئی اقسام ہیں۔ جن لوگوں کا ڈپریشن ہلکے درجے کا ہو انہیں کاؤنسلنگ سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کا ڈپریشن زندگی کے مسائل کی وجہ سے شروع ہوا ہو ان کے لیے پرابلم سولونگ (problem solving) یعنی وہ سائیکوتھراپی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے جس میں مسائل کو حل کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی) ان منفی خیالات کو چیلنج اور دور کرنے میں مدد دیتی ہے جو ڈپریشن کے بہت سے مریض اپنے بارے میں، دنیا کے بارے میں، اور دوسرے لوگوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔
اپنی مجموعی صحت کا خیال رکھنا
بہت سے ایسے کام ہیں جن کو کر کے انسان خود اپنا موڈ بہتر کر سکتا ہے، اور ان سے ڈپریشن کو واپس آنے سے روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ان میں سے بعض کام یہ ہیں:
آپ کے ایک دو قریبی لوگ یا دوست ایسے ہونے چاہیئیں جن سے آپ کھل کر اپنے دل کی بات کر سکیں۔ اس سے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جسمانی طور پہ چاق و چوبند رہیں، باقاعدگی سے ورزش کریں، روزانہ کچھ دیر تک چلنے کی عادت ڈالیں۔
الکحل کا استعمال کم از کم کریں۔
متوازن غذا کھائیں۔
آٹھ سے بارہ گلاس پانی روزانہ پیئیں۔
آج کل انٹر نیٹ پہ اور موبائل کی ایپس میں اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت اپنے موڈ کو بہتر کرنے کے لیے بہت سی ایکسرسائزز ملتی ہیں، مثلاً ریلیکسیشن ایکسرسائزز یعنی اپنی گھبراہٹ کو کم کرنے والی ذہنی ورزشیں، مسائل کو حل کرنے کے طریقے، یا اپنی نیند کو بہتر کرنے کے طریقے۔ ان میں سے دو چار استعمال کر کے دیکھیں کہ آپ کو ان سے فائدہ پہنچتا ہے کہ نہیں۔
اگر آپ ڈپریشن کی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں مزید جاننا چاہیں تو آپ کو اس ویب سائٹ پہ اردو میں اور بہت تفصیل مل جائے گی۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/ڈپریشن-depression?authuser=0
بشکریہ: https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/treatments-and-wellbeing/antidepressants
Last accessed: 3 August 2024
ڈپریشن کی بیماری کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
ڈپریشن کی بیماری کی جسمانی علامات کیا ہوتی ہیں؟
ڈپریشن کی بیماری کی وجوہات کا ایک اجمالی جائزہ
ڈپریشن میں آنے والے منفی خیالات۔ Negative Cognitive Triad
اپنے اور دنیا کے بارے میں ہمیشہ سے منفی خیالات رکھنا۔ Negative Cognitive Schemas
کیا ڈپریشن دوباره بھی ہو سکتاہے؟
کیا اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے فائدہ ہوتا ہے؟
ڈپریشن کے دوائی سے علاج کے بنیادی اصول
اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بند کرنے سے کیا مضر اثرات ہوتے ہیں؟
اینٹی ڈپریسنٹ بند کرنے سے ہونے والے مضر اثرات کو کیسے روکا جائے؟
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- ہم سب کبھی نہ کبھی اداس ہوتے ہیں۔ کسی چیز کو کھو دینے کے صدمے کے بعد اداسی محسوس کرنا بالکل نارمل ردِّ عمل ہے، جیسے کہ اینگزائٹی یا گھبراہٹ کسی خطرے سے دوچار ہونے پہ ایک نارمل ردِّ عمل ہے۔ ہر اداسی ڈپریشن کی بیماری نہیں ہوتی۔
- اداس یا ڈپریسڈ موڈ بہت ساری جسمانی (مثلاً پارکنسن کی بیماری)، یا نفسیاتی بیماریوں (مثلاً شیزوفرینیا) میں بھی نظر آتا ہے۔
- ڈپریسو ڈس آرڈر (depressive disorders) یا ڈپریشن کی بیماری اس نفسیاتی بیماری کو کہتے ہیں جو نارمل اداسی سے بھی الگ ہے، اور کسی اورنفسیاتی یا جسمانی بیماری کی غیر موجودگی میں نظر آتی ہے۔
ڈپریسو ڈس آرڈرز کی بنیادی علامات یہ ہیں؛
- مزاج یا موڈ کا ہر وقت اداس رہنا: جن باتوں سے پہلے خوشی ہوتی تھی، اب ان باتوں سے خوشی محسوس نہ ہونا
- منفی خیالات آنا؛
o اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنا، بیکار سمجھنا، فضول سمجھنا
o مستقبل سے مایوس ہونا، ہر چیز خراب ہو گی، پہلے سے بدتر ہو گی، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا، موت زندگی سے بہتر لگنے لگنا
o اپنے آپ کو ہر چھوٹی چھوٹی بات یا برائی کے لئے موردِ الزام سمجھنا، قصور وار ٹھہرانا، دنیا میں جو کچھ برا ہو رہا ہے میری وجہ سے ہو رہا ہے
- جن کاموں میں پہلے مزا آتا تھا، دلچسپی ہوتی تھی، ان کاموں میں اب مزا نہ آنا، دلچسپی نہ ہونا
- بدن میں طاقت و توانائی کم یا ختم ہو جانا، ہر وقت تھکا ہوا رہنا، کمزوری محسوس کرنا
- بولنے کی، سوچنے کی، حرکات کی رفتار میں پہلے سے واضح کمی ہو جانا، سوالات کے جواب دینے میں بہت وقت لگنا
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand
- Sadness is a normal human experience. It is a normal reaction to loss, just like anxiety is a normal reaction to threat or danger
- ‘Depressed mood’ can be a symptom of a number of psychiatric and physical illnesses
- A “Depressive Disorder’ is a mental illness which is distinct from both normal sadness, and the ‘depressed mood’ as a symptom of other illnesses.
The central features of depressive disorders are;
- Depressed mood; feeling sad, low, miserable, all the time or almost all the time. Mood does not improve in circumstances when normal sadness would have lifted.
- Negative thinking;
o in relation to self: low self-esteem, worthlessness
o in relation to future; hopelessness, life not worth living
o guilt, self-blame; previous trivial events, letting someone down
- Anhedonia; inability to enjoy previously pleasurable activities;
- Decreased energy; always feeling tired, everything is an effort
- Slowness; psychomotor retardation, thinking, talking and speaking become slower, Question and Answer latency
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی بیماریوں کی تشخیص کی کلاسیفیکیشن آئی سی ڈی ۱۰ کے مطابق؛
ڈپریشن کی پہلے درجے کی یا بنیادی علامات؛
- موڈ کی اداسی (دن میں ہر وقت یا بیشتر وقت اداسی محسوس کرنا، موڈ خوش نہ ہونا، جن باتوں سے پہلے خوشی محسوس ہوتی تھی اب ان سے بھی خوشی محسوس نہ ہونا)
- ہر چیز اور کام میں مزا آنا اور دلچسپی ہونا ختم ہو جانا (جو کام کرنے میں یا جن چیزوں یا باتوں میں پہلے مزا آتا تھا، اب ان میں مزا آنا اور دلچسپی ہونا ختم ہوجانا)
- بدن میں طاقت توانائی کم ہو جانا، حرکات و سکنات کم ہوجانا (ہر وقت تھکے تھکے رہنا، کوئی معمولی سا کام کرنا بھی پہاڑ لگنا)
ڈپریشن کی دوسرے درجے کی علامات
- کسی بات یا کام پہ توجّہ قائم رکھنے میں مشکل ہونا، (مثلاً چند منٹوں سے زیادہ دیر کے لئےکتاب نہ پڑھ پانا یا ٹی وی نہ دیکھ پانا)
- اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جانا
- اپنے آپ کو موردِ الزام قرار دینا، اپنے آپ کو بیکار اور فضول سمجھنا (بہت پرانی معمولی غلطیوں کو شدّت سے یاد کرنا اور یہ سمجھنا کہ اب ان کی وجہ سے کوئی بہت بڑی سزا ملے گی)
- مایوسی کے خیالات آنا (یہ سمجھنا کہ اب ہر چیزپہلے سے خراب ہو گی، کچھ بھی کبھی بھی بہتر نہیں ہو گا)
- اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے خیالات آنے لگنا
- نیند کا خراب ہو جانا (نیند کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی، لیکن مریض جتنا بھی سو لے وہ اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو اتنا ہی تھکا ہوا محسوس کرتا ہے جتنا سونے سے پہلے تھا، جیسے کہ وہ سویا ہی نہیں)
- بھوک کا کم ہو جانا
ڈپریشن کے ہر مریض میں اوپر لکھی گئی علامات میں سے ہر علامت موجود ہونا ضروری نہیں، لیکن مریض میں ڈپریشن کے دورے کی شدّت جتنی زیادہ ہوتی ہے، اس میں اتنی ہی زیادہ علامات پائی جاتی ہیں اور اس کی روز مرہ کی کارکردگی اتنی ہی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
ICD-10 CRITERIA A
- Depressed mood (feeling sad all the time)
- Loss of interest and enjoyment (inability to enjoy previously enjoyable activities)
- Reduced energy and decreased activity (feeling tired all the time)
CRITERIA B
- Reduced concentration (e.g. inability to focus on a book or TV for any length of time)
- Reduced self-esteem and confidence
- Ideas of guilt and worthlessness (feeling guilty for minor previous transgressions)
- Pessimistic thoughts (hopelessness, nothing will get better)
- Ideas of self-harm
- Disturbed sleep (can be decreased, or increased but the patient still feels tired on waking up)
- Diminished appetite
Severity of episode depends on number of symptoms and impact on functioning.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جسمانی علامات عام طور سے شدید درجے کے ڈپریشن میں نظر آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
- نیند کی خرابی ہونا
o ڈپریشن میں نیند آنے میں بھی مشکل ہو سکتی ہے، ایک دفعہ سو جانے کے بعد سوئے رہنے میں بھی مشکل ہو سکتی ہے جس میں مریض کی آنکھ رات میں بار بار کھلتی ہے، اور بعض مریضوں کی آنکھ ان کے عام طور سے اٹھنے کے وقت سے کئی گھنٹے پہلے کھل جاتی ہے۔
o صبح روزانہ جاگنے کے عام وقت سے دو تین گھنٹے پہلے اٹھ جانا اور پھر سو نہ پانا، اس وقت شدید اداسی اور مایوسی محسوس ہونا، منفی خیالات آنا، ڈپریشن کی مخصوص علامتوں میں سے ہے۔
o بعض مریضوں کو ڈپریشن میں نیند زیادہ آتی ہے، لیکن وہ جتنا بھی سو لیں، انہیں اٹھ کے یہی لگتا ہے کہ وہ سوئے ہی نہیں اور وہ خود کو اتنا ہی تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں جتنا وہ سونے سے پہلے تھے۔
- ڈپریشن کی ایک اور مخصوص علامت یہ ہے کہ مریض صبح اٹھنے کے بعد بہت شدید اداسی محسوس کرتا ہے، لیکن دوپہر یا شام کے وقت یہ اداسی نسبتاً کم ہو جاتی ہے۔
- بھوک اڑ جانا
- وزن کم ہونے لگنا
- قبض کی شکایت ہو جانا
- جنسی خواہش کم ہو جانا
- خواتین میں ماہواری آنا بند ہو جانا
- جسمانی شکایات؛ سر میں، گردن میں، کمر میں کھچاؤ اور درد محسوس ہونا، ہر وقت شدید تھکاوٹ محسوس ہونا، جو جسمانی بیماری پہلے سے موجود تھی اب اس کی تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگنا، ایسے وہم ہونے لگنا کہ کہیں یہ بیماری نہ ہو گئی ہو، وہ بیماری نہ ہو گئی ہو۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
More likely to be found in severe depression
- Sleep disturbance
o Initial, middle, and terminal insomnia
o (Early morning waking, 2-3 hours before usual waking time, unable to sleep again, feeling miserable, negative thinking)
o Some patients sleep excessively but still wake up unrefreshed
- Diurnal variation in mood; mood worse in mornings, relatively better in evenings
- Loss of appetite
- Weight loss
- Constipation
- Loss of libido
- Amenorrhea (in females)
- Physical symptoms; aches and pains, fatigue, enhanced concerns about pre-existing physical illness, hypochondriacal concerns
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- جیسے جیسے ڈپریشن کی شدّت بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے مریض کی پہلے سے موجود علامات زیادہ شدید ہوتی جاتی ہیں، اور اس کی روزمرّہ کی کارکردگی میں اتنا ہی زیادہ فرق پڑنے لگتا ہے۔
- مریض کا لوگوں سے ملنا جلنا کم یا بند ہو جاتا ہے۔
- اس کے لئے اپنے روز مرّہ کے کام کرنا، جو وہ پہلے آسانی سے کر لیتا تھا، اب ممکن نہیں رہتا۔
- وہ اپنا خیال کرنا چھوڑ دیتے ہیں، مثلاً منہ دھونا، نہانا، صاف کپڑے پہننا، بال کنگھی کرنا سب چھوڑ دیتے ہیں۔
- جب ڈپریشن بہت شدید ہو تو بہت سے مریض کھانا پینا کم کر دیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ان کی جسمانی صحت اور زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
- ان کے بولنے، سوچنے، چلنے، سوالوں کے جواب دینے، کی رفتار بہت کم ہو سکتی ہے۔
- جب ڈپریشن بہت شدید ہو تو بعض مریضوں کو ہیلیو سی نیشنز (hallucinations) یا ڈیلیوزنز (delusions) پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس شدّت کے ڈپریشن کو سائیکوٹک ڈپریشن کہتے ہیں۔
ڈپریشن کے ڈیلیوزنز
- جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا ڈیلیونز ان غلط خیالوں کو کہتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، لیکن مریض اپنا خیال نہیں بدلتا اگر چہ اس کو اس بات کا حتمی ثبوت دکھا دیا جائے کہ اس کا خیال غلط ہے، اور یہ اس طرح کے روایتی خیالات نہیں ہوتے جیسے کہ بعض معاشروں میں ملتے ہیں۔
- ڈپریشن کی بیماری میں جو ڈیلیونز نظر آتے ہیں وہ مریض کے موڈ یعنی اس کی اداسی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈپریشن میں مریضوں کو جو منفی خیالات ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ وہ بالکل ناکارہ ہیں، دھرتی پہ بوجھ ہیں، دنیا میں جو خرابیاں ہیں ان کی وجہ سے ہیں، ان کو کوئی بہت سنجیدہ نوعیت کی بیماری ہے، یہی خیالات شدّت میں بڑھ کر ڈیلیوزن کی شدّت اختیار کر لیتے ہیں اور بالکل پختہ ہو جاتے ہیں۔
- جن مریضوں کو گلٹ یا ندامت کا ڈیلیوزن ہو، انہیں مثال کے طور پہ یقین ہو جاتا ہے کہ برسوں پہلے انہوں نے ٹریفک کے کسی قانون کی جو معمولی سی خلاف ورزی کی تھی، اب پولیس انہیں اس کے لئے گرفتار کرنے والی ہے، وہ ہمیشہ کے لئے جیل میں ڈال دیے جائیں گے اور کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔
- جن مریضوں کو بیماری کا ڈیلیوزن ہو انہیں اس طرح کے خیالات آ سکتے ہیں کہ انہیں کوئی بہت بڑی بیماری ہے، مثلاً کینسر ہے۔ ڈاکٹرز انہیں ہر طرح کا ٹیسٹ اور اسکین کر کے دکھا بھی دیں تو ان کا یقین بالکل پختہ رہتا ہے کہ انہیں کینسر تو ہے، بس وہ اسکین میں نہیں آ رہا۔
ڈپریشن کی ہیلیو سی نیشنز
- ڈپریشن میں مریضوں کو عام طور سے جو غیبی آوازیں سنائی دیتی ہیں انہیں سیکنڈ پرسن ہیلیو سی نیشنز کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں آواز آ رہی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی ان کو مخاطب کر کے ان سے بات کر رہا ہے، حالانکہ ان کے آس پاس کوئی نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی اور کو وہ آواز آ رہی ہوتی ہے۔
- یہ آوازیں عام طور سے مریض کو تحقیر آمیز باتیں کہتی ہیں مثلاً یہ کہ تم فضول ہو، تم ناکارہ ہو، دھرتی پہ بوجھ ہو، تم مر جاؤ تو تمہارے گھر والوں کے لیے اچھا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔
- ڈپریشن کے مریض اپنی اداسی کی شدّت میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آوازیں صحیح کہہ رہی ہیں۔ اسی لئے سائیکوٹک ڈپریشن کو پہچاننا اور اس کا بر وقت علاج کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں مریض اپنی علامات کے زیرِ اثر اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لیں۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
- As depression becomes more severe, the already existing symptoms start becoming more intense, and it starts having a greater impact on the person’s functioning.
- The patient stops socializing.
- It is difficult for them to continue working at their previous level of performance.
- They are unable to look after themselves to the extent that their usual tidy appearance becomes scruffy.
- They often reduce or stop eating and drinking fluids which outs their physical health at risk.
- Their talking, thinking, moving, may become noticeably slower.
- And sometimes they develop Delusions and Hallucinations when we start calling it Psychotic Depression.
DELUSIONS IN DEPRESSION
- “A delusion is a belief that is firmly held on inadequate grounds, that is not affected by rational argument or evidence to the contrary, and that is not a conventional belief that the person might be expected to hold given their educational, cultural, or religious background.” (SOTP)
- In depression, delusions are often ‘mood-congruent’, meaning that the depressive delusions have similar themes as the negative thoughts that patients with non-psychotic depression have, such as worthlessness, guilt, being sick, and poverty.
- Patients with a delusion of guilt, for example, may believe that some minor infringement they committed many years ago, like jump a yellow light, has come to light now, they will be penalized for it and will be put in prison for their rest of their life.
- A person with delusions related to being sick, called hypochondriacal delusions, may believe that they have a serious illness like cancer, and refuse to change their belief even after all the physical investigations come back negative.
HALLUCINATIONS IN DEPRESSION
- Are usually in second person, meaning they hear someone talking to them.
- They are usually of a derogatory nature, for example, the patient being evil, the source of all that bad in this world, the world would be better off if they were dead.
- In keeping with their mood, the patients believes that what the voices are saying is true.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو ڈپریشن کی بیماری ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمزور ہے، اس کی شخصیت کمزور ہے، چونکہ اس کو مذہب سے لگاؤ نہیں اس لئے اس کو ڈپریشن ہو گیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ خیالات صحیح نہیں۔ ڈپریشن بھی اور دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ان بیماریوں میں سے ہے جن کی کوئی ایک مخصوص وجہ نہیں ہوتی، بلکہ بہت سی وجوہات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل کے لئے تو ایک کتاب کی ضرورت ہو گی، لیکن ان وجوہات کا ایک اجمالی خاکہ میں اس تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
موروثی یا جینیاتی وجوہات:
- اور بہت سی نفسیاتی بیماریوں کی طرح ڈپریشن کی بھی موروثی وجوہات ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے کسی قریبی رشتہ دار کو ڈپریشن ہوا ہو، ان کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔
- جو جڑواں بچے یکساں ( آئیڈینٹیکل) ہوں یعنی ان کی جینز (genes) بالکل ایک ہوں ان میں دونوں کو ڈپریشن ہونے کا خدشہ غیر یکساں جڑواں بچوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
- ڈپریشن کی بیماری کسی ایک جین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ کئی جینز کا تھوڑا تھوڑا اثر ہوتا ہے۔
بچپن کے ناموافق حالات اور بڑے ہونے کے بعد ڈپریشن ہونے کا خطرہ:
- جن گھروں میں والدین کے درمیان تلخ تعلقات اور جھگڑے رہے ہوں اور بچوں کی دیکھ بھال میں کمی رہی ہو ۔
- جن بچوں کو بچپن میں جسمانی یا جنسی تشدّد کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
- اگر ماؤں کو بچے کی پیدائش کے بعد خود ڈپریشن ہو گیا ہو اور وہ بچے کی نگہداشت کی طرف توجّہ نہیں دے پائیں اور ان کی طرف محبّت نہیں ظاہر کر پائیں۔
- جب والدین یا تو بالکل ہی بچوں کی طرف سے بے حس ہوں، یا پھر انہیں اپنے بچوں کو کوئی تکلیف پہنچنے کی اس غیر معمولی حد تک فکر رہتی ہو کہ وہ مثلاً انہیں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہ دیں یا ایسا کوئی کھیل نہ کھیلنے دیں جس میں چوٹ لگنے کا ذرا سا بھی خطرہ ہو۔
حالیہ سانحات یا صدمات:
- ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن شروع ہونے سے پہلے کے کچھ مہینوں میں تکلیف دہ واقعات یا سانحات کا خطرہ چھ گنا تک بڑھ جاتا ہے۔
- ایسا صرف ڈپریشن میں نہیں ہوتابلکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے اقدامات، اینگزائٹی ڈس آرڈرز ،اور شیزوفرینیا شروع ہونے سے پہلے کے بھی کچھ مہینوں میں ایسے واقعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
- جن سانحات سے انسان کوئی چیز یا شخص کھو دیتا ہے مثلاً کسی قریبی عزیز کا انتقال ہو جانا، کوئی بڑا مالی نقصان ہو جانا، ان کے ڈپریشن ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اور جن سانحات سے آئندہ کسی قسم کا نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہوتا ہے مثلاً کسی کا تکلیف پہنچانا، ان سے اینگزائٹی اور گھبراہٹ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
- جن نوجوان لوگوں کو اپنے ہم عمروں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے شدید ذلّت، شرمندگی، اور بے عزّتی کا سامنا ہو اور انہیں سمجھ نہ آئے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے باہر نکلیں۔
- اس کے برعکس جن لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آ جائیں مثلاً انہیں کوئی اچھا شریکِ زندگی مل جائے، وہ کوئی نئی پڑھائی شروع کر دیں، کوئی اچھی نئی ملازمت مل جائے، ان میں ڈپریشن کی علامات ختم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
نیورو بایولوجی (neurobiology)
- انسان کے دماغ اور جسم میں کچھ ایسے سسٹمز ہوتے ہیں جن کی خرابی سے ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان میں دماغ کے مونو امین خلیے (monoamine neurons) اور ہاپو تھیلیمس، پیچوٹری اور ایڈرینل گلینڈز شامل ہیں، لیکن اس کی تفصیل اس تحریر کے مقصد سے بہت آگے بڑھ جائے گی۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
Depression is a multi-factorial illness, meaning there is not one cause that can explain all the cases of depression, or even may be sufficient by itself in any one patient. Often there are multiple factors at play.
GENETIC
- Depression runs in families, the risk in a 1st-degree relative increasing by three-fold.
- Concordance rate higher in MZ vs DZ twins (45% vs 20%)
- Multiple genes of small individual effect
ADVERSE EARLY LIFE EXPERIENCES
- Parental separation, particularly divorce, increases risk in children
- Family discord and diminished care more important that separation per se
- Physical and sexual abuse
- Non-caring and over-protective parenting
- Mothers with postnatal depression – neglect and emotional indifference
RECENT LIFE EVENTS
- 6-fold increase in adverse life events in months before depression
- Excess of similar events before suicide attempts, anxiety disorders, schizophrenia
- Loss depression, threat anxiety
- Experiencing feelings of entrapment and humiliation such as after bullying by peers
NEUROBIOLOGY
- Monoamine neurons
- Hypothalamic-Pituitary-Adrenal (HPA) axis
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جن لوگوں کو کبھی ڈپریشن ہوا ہو، یا انہوں نے ڈپریشن کے کسی مریض کے ساتھ وقت گزارا ہو، انہیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ ڈپریشن میں صرف مزاج کی اداسی ہی نہیں ہوتی، بلکہ مریض کے ذہن میں کثرت سے منفی خیالات بھی آتے ہیں، مثلاً اپنے آپ کو بے بس و لاچار سمجھنا، دنیا میں ہونےوالی ہر غلط اور منفی بات کے لئے اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرانا وغیرہ۔ ان خیالات کو آٹومیٹک خیالات بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ڈپریشن میں معمولی سی بات پہ بھی یہ خیالات بار بار مریض کے دماغ میں خود بخود ہی اور بغیر اس کے ارادے کے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ایرون ٹی بیک ایک سائیکائٹرسٹ تھا جس نے بعد میں سائیکو اینالیسس کی تربیت بھی حاصل کی۔ وہ ڈپریشن کے مریضوں کے ساتھ تحقیق کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا کہ ڈپریشن کے مریضوں میں اپنے آپ، اس دنیا، اور مستقبل کے بارے میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے منفی خیالات ہوتے ہیں، جو ڈپریشن کا ایک بنیادی حصّہ ہیں۔ ان خیالات کے مجموعے کو اس نے کوگینٹو ٹرائیڈ (cognitive triad) کا نام دیا۔
اس ٹرائیڈ میں مریضوں کو اپنے بارے میں اس طرح کے خیالات ہوتے ہیں کہ میں حقیر ہوں، بے بس ہوں، لاچار ہوں، میرے ہونے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دنیا کے بارے میں مریضوں کو اس طرح کے خیالات ہوتے ہیں کہ یہ دنیا بڑی ظالم ہے، اس دنیا میں کوئی ان کا نہیں، یہ دنیا صرف اور صرف تکلیفوں سے بھری ہوئی ہے۔
مستقبل کے بارے میں مریضوں کو اس طرح کے خیالات ہوتے ہیں کہ آئندہ کچھ بھی بہتر نہیں ہوگا، ہر چیز تباہ و برباد ہو گی، وہ زندگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے، وغیرہ۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
People who have experienced depression, or have known someone with depression, would be well aware that in addition to a low and sad mood, having negative (helpless, critical) thoughts is a frequent accompaniment of depression. These are also called ‘automatic thoughts’ because the slightest trigger can precipitate these negative thoughts coming into the patients mind involuntarily.
Aaron T. Beck who was a psychiatrist and later trained to become a psychoanalyst, through his research on patients with depression came to the conclusion that depressed patients often have a set of intersecting or inter-related negative beliefs about the self, the world, and the future. This he termed a cognitive triad.
In terms of negative beliefs about self, the patient gets thoughts like he is worthless, he is useless, he is inadequate, or beliefs to that effect.
In terms of negative beliefs re the world, the patient gets thoughts like that the world is a very hostile place, nobody loves them, nobody cares about them, no one can be trusted, etc.
In terms of negative beliefs about the future, the patient gets thoughts like nothing will ever get better, he will never get better, he will never succeed in life, etc.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جیسا کہ میں نے پچھلی تحریر میں بتایا ایرون ٹی بیک کاکہنا یہ تھا کہ ڈپریشن میں کثرت سے آنے والے منفی خیالات صرف اداس مزاج کی وجہ سے ہی نہیں آتے، بلکہ وہ ڈپریشن کی بیماری کا ایک بنیادی حصّہ ہوتے ہیں۔ یہ خیالات ایک دفعہ آنے کے بعد اس لئے طویل عرصے تک موجود رہتے ہیں کیونکہ ڈپریشن کے مریضوں میں سوچنے کے بعض غیر مفید اور غیر صحتمندانہ طریقے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم تمام لوگ ایک واقعے کو ایک ہی غیر جانبدارانہ نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ہر انسان ایک ہی واقعے کو اپنے زندگی کے ذاتی اور انوکھے لینس اور نقطہٴ نظر سے دیکھتا ہے جس کا دارومدار اس پہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی اور خصوصاً اس کے بچپن کے تجربات کیسے رہے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ انسان سوچنے کے کچھ ایسے شارٹ کٹ استعمال کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ واقعات کے کچھ ایسے نتیجے اخذ کر لیتا ہے جو حقیقت پہ مبنی نہیں ہوتے۔ بیک نے سوچنے کے ان شارٹ کٹ طریقوں کو cognitive distortions کا نام دیا۔ ان اصطلاحات کا ترجمہ کرنا تو تقریباً نا ممکن ہو گااس لئے میں ان کے انگریزی نام ہی استعمال کروں گا۔ان کے نام اور ان کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
ایسا نتیجہ اخذ کرنا جس کی کوئی بنیاد نہ ہو۔ Arbitrary Inference
آربٹریری انفرنس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی واقعے، تجربے، یا صورتِ حال کا ایسا نتیجہ اخذ کرے جس کی اس واقعے میں کوئی دلیل نہ ہو، یا پھر وہ نتیجہ ان تمام دلیلوں اور حقائق کے خلاف ہو جو اس واقعے سے نکالے جا سکتے ہوں۔
بیک نے اس کی یہ مثال دی کہ مثلاً ایک آفس میں نئی پالیسی نافذ کی گئی کہ اب سے جو ٹرینی یا یعنی سیکھنے والے لوگ ہیں ان کے کام کی نگرانی سینئر لوگ کریں گے اور پھر اس کا نتیجہ فائنل ہو گا۔ ایک ٹرینی نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ پالیسی اس لئے نافذ کی گئی کہ اس کے سینئرز اس کے کام سے مطمئن نہیں تھے، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ پالیسی اس لئے نافذ کی گئی تھی کہ گورنمنٹ نے اس کام سے ملحقہ قانون سخت کر دیا تھا۔ تو ٹرینی نے ایسا نتیجہ نکالا جس کے لئے نہ صرف کوئی دلیل نہیں تھی بلکہ وہ زمینی حقائق کے خلاف تھا۔
واقعے کے کسی ایک پہلو کو ساری توجّہ دینا اور باقی سب کو نظر انداز کر دینا۔ Selective Abstraction
سیلیکٹو ایبسٹریکشن کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی واقعے یا تجربے کے کسی ایک چھوٹے سے پہلو پہ اپنی ساری توجّہ مرکوز کر دے اور اسی چھوٹی سی بات کی بنیاد پہ سارا نتیجہ اخذ کر لے، اور اس واقعے کے بڑے بڑے پہلوؤں کو جو اس نتیجےکے بالکل خلاف ہوں ان کو بالکل نظر انداز کر دے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ مثلاً ایک شخص نے اپنے کام پہ ایک بڑی میٹنگ میں ایک پریزینٹیشن دی۔ پریزینٹیشن کے بعد اس کے تمام کولیگز اور اس کے باس نے اس کی بہت زیادہ تعریف کی اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی پریزینٹیشن کی وجہ سے انہیں کئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں۔ جب سب لوگ چلے گئے تو فیڈ بیک یعنی اپنے تاثرات کے فارمز دیکھتے ہوئے اس کی نظر پڑی کہ حالانکہ باقی سب نے تعریف کی ہے لیکن صرف ایک شخص نے لکھا ہوا ہے کہ پریزینٹیشن بالکل بیکار تھی اور اس سے اسے کچھ سیکھنے کو نہیں ملا۔یہ جملہ اس کے دماغ میں اس قدر شدّت سے پیوست ہو گیا کہ اب وہ صرف اسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، اسے یاد ہی نہیں کہ باقی سارے لوگوں نے اس کی کس قدر تعریف کی تھی، اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اس کی پریزینٹیشن بالکل بیکار تھی، وہ کود ناکارہ ہے، اور وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔
کسی چھوٹی سی بات سے بہت بڑا نتیجہ اخذ کر لینا۔ Overgeneralization
اوور جنرلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی ایک چھوٹی سی بات سے اپنے بارے میں، اپنی صلاحیتوں کے بارے میں، اپنی حیثیت یا اپنے مستقبل کے بارے میں بہت بڑا نتیجہ اخذ کر لے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک شخص نے اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد پہلی دفعہ ایک ملازمت کا انٹرویو دیا۔ اس میں اسے کامیابی نہیں ملی۔ اب اس کی بنیاد پہ وہ اس نتیجے پہ پہنچ جائے اور مکمل یقین کر کے بیٹھ جائے کہ اس میں تو کوئی اہلیت ہی نہیں ہے، اس کو آئندہ کبھی بھی ملازمت نہیں ملے گی، اور ا سکی ساری زندگی ایسے ہی ناکامی میں گزرے گی۔
غیر متعلّق باتوں کو اپنے سے منسوب کر لینا۔ Personalization
پرسنلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ انسان غیر متعلّق باتوں اور واقعات کے لئے اپنے آپ کو ذمّہ دار سمجھنے لگے، جبکہ ایسا سمجھنے کی کوئی وجہ نہ ہو۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص ایک پارٹی میں دیر سے پہنچا۔ وہاں پہنچ کے اس نے دیکھا کہ سب لوگوں کا مزاج بگڑا ہوا ہے۔ اب وہ اس بات پہ سو فیصد یقین کر لے کہ سب لوگ اس لئے ناراض ہیں کہ وہ پارٹی میں دیر سے آیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کے پہنچنے سے پہلے دو لوگوں میں تلخ کلامی ہوئی تھی جس کی وجہ سے سب کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
The negative thoughts in depression persist because of illogical or unhelpful ways of thinking. We all interpret a situation differently and uniquely, depending on our life experiences. However, we develop certain thinking patterns because of which our brain creates short-cuts and reaches conclusions which are not fully supported by the evidence. Beck called these unhelpful ways of thinking Cognitive Distortions. Following are some of the examples of these unhelpful ways of thinking.
ARBITRARY INFERENCE
“The process of forming an interpretation of a situation, event, or experience when there is no factual evidence to support the conclusion, or where the conclusion is contrary to the evidence.”
Beck gave an example that in a workplace it was decided that the work of all the interns will be reviewed by their seniors. One particular intern took that to believe that this policy had been brought in because the bosses were not satisfied with his work. In fact, the policy making process did not involve this intern at all, but he reached that conclusion despite their being no factual evidence to support that conclusion.
SELECTIVE ABTSRACTION
“the process of focusing on a detail taken out of context, ignoring other more salient features of the situation, and conceptualizing the whole experience on the basis of this one element.”
For example, Jack gives a presentation in a team meeting at his workplace. Everybody tells him afterwards how great his presentation was and how much they learnt from it. However, when Jack looks at the feedback forms later on, there is one feedback form out of thirty which says that his presentation was rubbish. Jack cannot get that comment out of his mind. He forgets every other positive feedback and because of that one comment starts thinking that his presentation was rubbish, he is a failure, he will always be a failure.
This process of focusing selectively on just one negative item of data, and ignoring every other positive item of data is selective abstraction.
OVERGENERALIZATION
“The process of drawing a general conclusion about their ability, performance, or worth on the basis of a single incident.”
For example, fails to get a job after their first job interview and reaches the conclusion that they will never get a job, they will never get another job interview, their whole life would be a failure.
PERSONALIZATION
“the patient’s proclivity to relate external events to himself when there is no basis for making such a connection, when people place the entire blame of some external unpleasant event upon themselves even when it was not connected to them in any way.”
For example, a person gets late for a party, and then blames himself because everybody did not have a good time.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
While most psychiatrists regard negative thoughts as being secondary to a depressed mood, Aaron Beck said that there is a set of cognitions, or ways of thinking, which exists even before a person becomes depressed, and actually predisposes people to develop depression. These ways of thinking are called dysfunctional beliefs or cognitive schemas.
A negative cognitive schema is a negative filter or lens through which a person views the world and ascribes meaning to his life experiences. These negative schemas develop as a result of adverse early childhood experiences, and once developed they can continue to influence how a person responds to stressful or even ‘apparently’ stressful and traumatic events for the rest of their life.
For example, a child growing up in an environment of neglect and abuse may develop an internal core belief or schema that “I am unlovable” or “no one loves me”. As an adult, for example, they do not get an invitation to a party thrown by a colleague to which others have been invited. Rather than considering alternatives such as that the party may have been intended for those colleagues who went to the same university for example, this perceived rebuff immediately reactivates and triggers their negative cognitive schema that “I am unlovable”. Over a period of time, this sort of thinking makes a person more prone to developing depression.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ڈپریشن کے بہت سے مریض پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب، مجھے یہ دوبارہ تو نہیں ہو جائے گا، یا مجھے کتنے عرصے تک یہ دوا کھانی پڑے گی؟ ان سوالوں کا جواب سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ڈپریشن کا ایک ایپی سوڈ یا دورہ عام طور سے کتنے عرصے تک چلتا ہے، اور کتنے لوگوں اور کن لوگوں میں اس بیماری کے واپس آنے کا امکان ہوتا ہے۔
ڈپریشن زندگی کے کسی بھی حصّے میں اور کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتا ہے، لیکن تقریباً آدھے مریضوں میں یہ بیماری اکیس سال کی عمر سے پہلے شروع ہوتی ہے۔
اوسطاً ڈپریشن کا ایک ایپی سوڈ یا دورہ چھ مہینے تک چلتا ہے۔ لیکن تقریباً ایک چوتھائی (۲۵ فیصد) مریضوں میں یہ ایپی سوڈ ایک سال سے زیادہ تک جاری رہ سکتا ہے۔ دس سے بیس فیصد مریضوں میں یہ ایپی سوڈ طویل عرصے تک چلتا ہے اور ختم نہیں ہوتا۔
تقریباً بیس فیصد مریضوں کو ڈپریشن کا دورہ ایک دفعہ ہونے کے بعد دوبارہ نہیں ہوتا، جبکہ اسّی فیصد کو ڈپریشن کا حملہ ایک سے زیادہ دفعہ ہوتا ہے۔
ایک ریسرچ میں جن مریضوں کو ایک سے زیادہ دفعہ ڈپریشن کا دورہ ہو چکا تھا، انہیں ۲۵ سال تک فالو اپ کیا گیا، یعنی ان کا معائنہ کیا جاتا رہا، تو ان کو اوسطاً ڈپریشن کے چار مزید اٹیک ہوئے۔
جیسے جیسے ڈپریشن کے اٹیک بار بار ہوتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ان کے درمیان صحت مندی کا وقفہ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
تقریباً آدھے مریضوں میں ڈپریشن کے ایک دورے کے بعد علامات مکمل ختم نہیں ہوتیں اور کچھ نہ کچھ علامات چلتی رہتی ہیں۔
جن لوگوں کو ڈپریشن کے دورے بار بار ہوتے ہوں ان میں صرف تقریباً ایک چوتھائی (۲۵ فیصد) لوگوں کا پانچ سال کا ایسا وقفہ نصیب ہوتا ہے جس میں ان کا لوگوں سے ملنا جلنا اور کام کرنا بالکل نارمل اور صحت مندانہ ہو۔
جن لوگوں کو پہلے ڈپریشن کا دورہ ہوا ہو، ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں کو بعد میں مینیا کا اٹیک ہوتا ہے اور ان کی تشخیص ڈپریشن سے بدل کے بائی پولر ڈس آرڈر ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو بائی پولر ڈس آرڈر ہوا ہو، یا جن میں اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے کے دوران مینیا کی مختصر مدّت اور کم شدّت کی علامات نظر آنے لگیں، ان میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
- Age of onset; varies, anytime in the lifespan, half of all cases before 21
- Average length of an episode;
o About 6 months
o 25% - more than 1 year
o 10-20% - chronic, unremitting course
- Risk of further episodes
o 20% - no further episodes
o 80% - recurrent major depression
- 25-year follow up; people with recurrent depression – on avg 4 further episodes
- Intervals between episodes progressively become shorter
- About 50% do not achieve complete symptom remission, subsyndromal symptoms continue
- Long-term outcome of recurrent major depression; modest, only about 25% achieve 5-years of clinical stability with good social and occupational functioning
- 10% switch to Bipolar Disorder; family history of mania, brief mild manic symptoms during antidepressant treatment
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- یہ جاننے کے لئے کہ مریض کو ڈپریشن آئندہ تو نہیں ہو گا اور اگر ہو گاتو کتنے عرصے میں ٹھیک ہو گا، سب سے زیادہ مدد اس مریض کی ڈپریشن کی پرانی ہسٹری سے ملتی ہے کہ اسے پہلے کتنے وقفے کے بعد ڈپریشن کے اٹیک ہوئے تھے یا نہیں ہوئے تھے، اور وہ ان دوروں میں کتنا جلدی ٹھیک ہو گیا تھا۔
- مندرجہ ذیل لوگوں میں ڈپریشن کا اٹیک دوبارہ ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؛
o جن لوگوں کو ڈپریشن کا اٹیک پہلے کئی دفعہ ہو چکا ہو
o جن لوگوں میں ڈپریشن کی علامات ایپی سوڈ ختم ہو جانے پہ بھی پوری طرح سے ختم نہ ہوئی ہوں
o جن لوگوں کو ڈپریشن کی بیماری کم عمری میں شروع ہوئی ہو
o جن لوگوں کے ارد گرد ان کا خیال رکھنے والے رشتہ دار اور دوست نہ ہوں
o جن لوگوں کی جسمانی صحت اچھی نہ ہو
o جو لوگ نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہوں
o جن لوگوں میں ڈپریشن کے ساتھ ساتھ پرسنالٹی ڈس آرڈر کی بھی علامات موجود ہوں۔
- جن لوگوں کو ڈپریشن کا اٹیک بار بار ہونے کا خطرہ ہو ان کے کیس میں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں انہیں طویل عرصے تک علاج کی ضرورت تو نہیں ہے تا کہ آئندہ ہونے والے اٹیکس کو روکا جا سکے۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
- The best predictor of future course is the history of previous episodes
- Higher risk of future episodes
o h/o multiple previous episodes
o incomplete symptom remission
o early age of onset
o poor social support
o poor physical health
o comorbid substance use
o comorbid personality disorder
- Consideration of long-term maintenance treatment
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
- Standardized Mortality Ratio (risk of dying in a group with an illness compared to the general population, meaning people who do not have that illness) in mood disorders is about twice that in general population
- The common causes of excess death in depression are; suicide, accidents, cardiovascular diseases (CVD), substance use
- Depressive disorders increase risk of medical conditions such as diabetes and CVD
- Treatment of depression lowers risk of dying earlier than general population
- RATES OF SUICIDE IN DEPRESSION
o 15 times higher than general population
o Higher in Unipolar than Bipolar Disorder
o Severe illness, treated as inpatients, risk – 15%
o In community samples risk is lower
o Proportion of patients dying by suicide decreases as period of follow-up increases
Support for people in New Zealand having thoughts of suicide:
Lifeline – 0800 543 354 (0800 LIFELINE) or free text 4357 (HELP).
Samaritans – 0800 726 666
Suicide Crisis Helpline – 0508 828 865 (0508 TAUTOKO).
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
بیماری کی علامات کی شدّت کے حساب سے، اور اس حساب سے کہ انسان کی زندگی کس حد تک ان علامات سے متاثّر ہو رہی ہے، ڈپریشن کو عام طور سے تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہلکے درجے کا ڈپریشن، درمیانے درجے کا ڈپریشن، اور شدید درجے کا ڈپریشن، اور ہر درجے کے ڈپریشن کا علاج مختلف ہوتا ہے۔
۱۔ ہلکے درجے کا ڈپریشن
- ہلکے درجے کے ڈپریشن کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ میں نے ایک پچھلی وڈیو میں بتایا تھا کہ ہلکے درجے کے ڈپریشن کے علاج کے لئے بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو انسان خود کر کے اپنا ڈپریشن بہتر کر سکتا ہے، مثلاً باقاعدگی سے ہفتے میں کم از کم تین سے چار دن کم ازکم بیس سے تیس منٹ کے لئے ورزش کرنا، اپنی نیند کا خیال رکھنا مثلاً روزانہ ایک وقت پہ سونا اور اٹھنا، سات سے نو گھنٹے سونا (ہر انسان کی نیند کی ضرورت الگ ہوتی ہےلیکن زیادہ تر لوگوں کو ۷ سے ۹ گھنٹوں کے درمیان نیند چاہیے ہوتی ہے)، اپنی خوراک کا خیال رکھنا، کسی نہ کسی کام میں مصروف رہنا، اور ایسے کاموں کے لے باقاعدگی سے وقت نکالنا جن کو انسان انجوائے کرتا ہو۔
- اس کے علاوہ سیلف ہیلپ یعنی اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت اپنے موڈ کو بہتر کرنے کے لئے ایکسر سائزز ہوتی ہیں جن کی کتابیں بھی ملتی ہیں اور آن لائن ماڈیول بھی ملتے ہیں۔
- ہلکے ڈپریشن میں کاؤنسلنگ یعنی بات چیت کے ذریعے علاج کرنا اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں استعمال کرنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اس میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات اور کوگنیٹو بیہیوئر تھراپی (سی بی ٹی) سے برابر کا فائدہ ہوتا ہے، البتّہ دوائیوں کے مقابلے میں سی بی ٹی سے ڈپریشن کو آپس آنے سے روکنے میں زیادہ مدد ملتی ہے۔
- سی بی ٹی:
سی بی ٹی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں اور جو اعمال کرتے ہیں، ان کا ہمارے جذبات سے بہت گہرا تعلّق ہوتا ہے۔ عام طور سے جن لوگوں کی مثبت سوچ ہوتی ہے ان کو ڈپریشن ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے، اور ان کا ڈپریشن ٹھیک بھی نسبتاً آسانی سے ہوتا ہے۔ سی بی ٹی میں اسی سوچنے کے انداز کو سائیکو تھراپی سے تبدیل کیا جاتا ہے۔
- اینٹی ڈپریسنٹ ادویات: ان ادویات کے لینے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو جب اینٹی ڈپریسنٹ ادوایت تجویز کی جاتی ہیں تو ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ "ڈاکٹر صاحب! اس سے کوئی سائیڈ ایفیکٹس (مضر اثرات) تو نہیں ہو ں گے؟" میں ہمیشہ یہ جواب دیتا ہوں کہ آج تک دنیا میں کوئی ایسی دوا ایجاد نہیں ہوئی جس سے صرف فائدہ ہو اور اس کا کوئی مضر اثر نہ ہو۔ جو پیراسیٹامول بہت سے لوگ بغیر کسی فکر کے سردرد وغیرہ کے لئے کھا لیتے ہیں، وہ بھی اگر زیادہ لے لی جائے تو جگر پہ برا اثر پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مجمموعی اعتبار سے دوا سے فائدہ ہونے کا مکان زیادہ ہے، یا نقصان ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اگر فائدہ ہونے کا امکان زیادہ ہے تو لیں، ورنہ مت لیں۔
دوسری بات یہ کہ پیراسیٹامول یا اور درد کی دواؤں کے برخلاف اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کا فائدہ فوراً شروع نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ بعض دفعہ پورا فائدہ نظر آنے میں تین سے چار ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس لئے مریض کو دوا شروع کرتے وقت یہ بتا دینا چاہیے کہ شروع میں اسے سائیڈ ایفیکٹس نظر آنے کا امکان زیادہ ہے، اور فائدہ ہونے کا امکان کم ہے۔ لیکن کچھ ہفتوں میں فائدہ بڑھنے لگتا ہے اور سائیڈ افیکٹس کم یا ختم ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت تک صرف بھروسے پہ دوا کھانی پڑتی ہے۔
ایک اور سوال جو لوگ ہم سے اکثر پوچھتے ہیں وہ یہ کہ "ڈاکٹر صاحب، میں اس دوا کا عادی تو نہیں ہو جاؤں گا؟ یا "مجھے اس سے ایڈیکشن تو نہیں ہو جائے گی؟" اینٹی ڈپریسنٹ ادوایت سے ایڈیکشن نہیں ہوتی۔ ایڈیکشن سکون آور ادویات سے ہوتی ہے مثلاً ڈایازیپام، لورا زیپام یا الپرا زولام وغیرہ، جن کو اچانک بند کرنے سے مرگی کے دورے پڑ سکتے ہیں یا ہذیان کی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔ البتّہ بعض لوگوں کو اینٹی ڈپریسںٹ ادویات اچانک بند کرنے سے ڈس کنٹی نوئیشن علامات (discontinuation symptoms) ہو سکتی ہیں مثلاً فلو کی طرح کی علامات یا بجلی کے جھٹکے سے لگنا۔ زیادہ تر مریضوں میں یہ علامات چند ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔
بہت سے مریض یہ پوچھتے ہیں کہ "ڈاکٹر صاحب! کیا میں یہ دوا اگر ایک دفعہ شروع کر دوں تو ساری عمر کھانی پڑے گی؟" جن مریضون کو پہلی دفعہ ڈپریشن ہوا ہو، ان میں بہت سارے مریضوں کو ڈپریشن دوبارہ نہیں ہوتا۔ ان کی بالکل ٹھیک ہونے کے چھ سے نو مہینے کے بعد دوا آہستہ آہستہ بند کی جا سکتی ہے۔ لیکن ڈپریشن کے اٹیک جتنے زیادہ ہوں، اتنا ہی اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور دوا بھی اتنے طویل عرصے کے لئے کھانی پڑتی ہے تا کہ اگلے اٹیک سے بچا جا سکے۔
۳۔ شدید درجے کا ڈپریشن
شدید ڈپریشن میں عموماً سائیکوتھراپی یعنی بات چیت کے ذریعے علاج ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مریض اس میں انگیج نہیں کر پاتا۔ اس کا علاج اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے کرنا پڑتا ہے، یا پھر الیکٹرو کنولسو تھراپی (ای سی ٹی) سے، جس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ دونوں سے فائدہ ہونے کا امکان برابر ہی ہوتا ہے، فرق یہ ہوتا ہے کہ ای سی ٹی کا فائدہ بہت جلدی شروع ہو سکتا ہے، جب کہ اینٹی ڈپریسنٹ کا فائدہ شروع ہونے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- ہلکے درجے اور کم مدّت کے ڈپریشن کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت جو کتابیں ملتی ہیں یا انٹرنیٹ پہ ماڈیول ملتے ہیں ان سے مدد لینا، باقاعدگی سے ورزش کرنا، سائیکوتھراپی مثلاً کاؤنسلنگ یا سی بی ٹی وغیرہ زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔
- جن مریضوں کو کم از کم درمیانے درجے کا ڈپریشن ہو ان کے علاج کے لئے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات موثر ہوتی ہیں۔ (اینٹی ڈپریسنٹ ۵۰ فیصد بمقابلہ پلے سی بو، یعنی بغیر دوا کے ملتی جلتی گولیاں، ۳۰ فیصد۔)
ٹرائی سائیکلک اینٹی ڈپریسنٹ ادویات (ٹی سی اے) مثلاً ایمی ٹرپٹیلین، ایمیپرامین، وغیرہ
- ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ میجر ڈپریشن میں یہ ادویات پلے سی بو (placebo)، یعنی ایسی ملتی جلتی گولی جس میں ایکٹو دوا نہ ہو، سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔
- ٹی سی اے ادویات میں آپس میں ڈیپریشن میں کارکردگی اور مضر اثرات کے حساب سے کوئی واضح فرق نہیں ہے، سوائے اس کے کہ لوفیپیرامین (lofepramine) زیادہ مقدار میں لینے کے معاملے میں نسبتاً کم نقصان دہ ہے۔
- ۱۸ سال سے کم عمر لوگ جنہیں ڈپریشن ہو، ان میں ٹی سی اے ادویات کا واضح فائدہ ثابت نہیں۔
ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات مثلاً فلو آکسٹین، سرٹرالین، سیٹالوپرام، ایسیٹا لوپرام وغیرہ،
وینلافیکسین اور مرٹازاپین
- یہ ادویات بھی ڈپریشن میں اسی طرح موثر ثابت ہوتی ہیں جیسے کہ ٹرائی سائیکلک ادویات، البتّہ جن مریضوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو کہ ان کوہسپتال میں داخل ہونا پڑے، ان میں ٹرائی سائیکلک ادویات زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
- زیادہ شدید ڈپریشن میں وینلافیکسین بھی ایس ایس آر آئی ادویات سے تھوڑی زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔
- جن مریضوں کو ڈپریشن کے ساتھ آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی) بھی ہو، ان میں ایس ایس آر آئی ادویات کلومیپرامین کے علاوہ باقی ٹرائی سائیکلک ادویات سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں۔
- اوسطاً ٹرائی سائیکلک ادویات کے مقابلے میں کم لوگ مضر اثرات کی وجہ سے ایس ایس آرآئی ادویات بند کرتے ہیں، اور مریضوں کا ان کو لیتے رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
- ایس ایس آر آئی ادویات اور مرٹازاپین زیادہ مقدار میں لے لینے (overdose) کی صورت میں ٹرائی سائیکلک ادویات اور وینلافیکسین کے مقابلے میں نسبتاً کم نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
جو لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے بارے میں مزید جاننا چاہیں تو وہ میرے یو ٹیوب چینل "Mental Health Made Easy"
https://www.youtube.com/c/SyedAhmer1
پہ اس پلے لسٹ "”Psychotropic Medications
https://www.youtube.com/playlist?list=PLfkveBWfXza-FShgLzR4nw8UkNw17dXPP
پہ جا کے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
In mild depression, no role of antidepressants, (guided self-help, exercise, counselling, more appropriate)
In depression of at least moderate severity AD more effective than placebo (50% vs 30%)
TRICYCLIC ANTIDEPRESSANTS (TCAs)
- Examples: Amitriptyline, Imipramine, Nortriptyline
- In major depression, more effective than placebo in all but most severely depressed
- Little difference between TCAs in efficacy or safety profile, except lofepramine safer in overdose
- Probably not effective for adolescents with depression
SPECIFIC SEROTONIN REUPTAKE INHIBITORS (SSRIs) (Fluoxetine, Sertraline, Citalopram, Escitalopram, Paroxetine)
And VENLAFAXINE (SNRI) + MIRTAZAPINE
- As effective as TCAs in treatment of depression
- May be less effective in hospitalized depressed than TCAs
- Venlafaxine slightly more effective than SSRIs in more severely depressed
- SSRIs more effective than TCAs (except clomipramine) in depression + OCD
- SSRIs lower dropout rates than TCAs
- SSRIs and Mirtazapine safer in overdose than Venlafaxine and TCAs
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اینٹی کولینرجک (anticholinergic) مضر اثرات مثلاً گلا خشک ہونا، قبض ہو جانا، پیشاب نکلنے میں مشکل ہونا، دھندلا نظر آنے لگنا
- ایمی ٹرپٹیلین (ٹرائی سائیکلک) کے ساتھ بہت زیادہ
- ایس ایس آر آئیز، وینلافیکسین، مرٹازیپین لینے کی صورت میں نہ ہونے کے برابر
زیادہ نیند آنا، غنودگی کی سی کیفیت رہنا
- ایمی ٹرپٹیلین، مرٹازیپین کے ساتھ بہت زیادہ
- ایس ایس آر آئیز، وینلافیکسین کے ساتھ نہ ہونے کے برابر
وزن بڑھنا
- ایمی ٹرپٹیلین، مرٹازیپین کے ساتھ بہت زیادہ
- ایس ایس آر آئیز، وینلافیکسین کے ساتھ نسبتاً کم امکان ہوتا ہے
جنسی مشکلات
- ایس ایس آر آئیز، وینلافیکسین کے ساتھ بہت زیادہ
- ایمی ٹرپٹیلین کے ساتھ نسبتاً کم خطرہ ہوتا ہے
- مرٹازیپین کے ساتھ نہ ہونے کے برابر
زیادہ مقدار (overdose) میں لے لینے کی صورت میں شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ
- ایمی ٹرپٹیلین کے ساتھ بہت زیادہ خطرہ
- وینلافیکسین کے ساتھ درمیانے درجے کا خطرہ
- اور ایس ایس آر آئیز کے ساتھ بہت کم خطرہ ہوتا ہے، لیکن سیٹالوپرام اور ایسیٹالوپرام کے ساتھ اور ایس ایس آر آئیز کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے لینے سے دل کی دھڑکن پہ اثر پڑ سکتا ہے۔
جو لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے بارے میں مزید جاننا چاہیں تو وہ میرے یو ٹیوب چینل "Mental Health Made Easy"
https://www.youtube.com/c/SyedAhmer1
پہ اس پلے لسٹ "”Psychotropic Medications
https://www.youtube.com/playlist?list=PLfkveBWfXza-FShgLzR4nw8UkNw17dXPP
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جس شخص کو ڈپریشن کا ایک اٹیک ہوا ہو
برطانیہ کا رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس یہ کہتا ہے کہ جس شخص کو ڈپریشن کا پہلا اٹیک ہوا ہو، اس کو جب وقت سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے اس کے بعد سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا اسی ڈوز میں کم از کم چھ سے نو مہینے جاری رکھنی چاہیے۔ جو لوگ ٹھیک ہوتے ہی دوا بند کر دیتے ہیں، ان میں سے تقریباً پچاس فیصد مریضوں میں اگلے تین سے چھ مہینوں میں ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ جو لوگ علاج کے پہلے چھ مہینوں میں بے قاعدگی سے دوا لیتے ہیں، یعنی کبھی لی کبھی نہیں لی، ان میں ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو پہلی دفعہ ڈپریشن کا اٹیک ہوا ہو، ان میں سے تقریباً پچاس فیصد یعنی آدھے لوگوں کو ڈپریشن دوبارہ کبھی نہیں ہوتا۔
جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو ڈپریشن ہوا ہو، جن لوگوں کا موڈ طویل عرصے کے لیے اداس رہتا ہو گو ڈپریشن کی شدت تک نہ پہنچے، جن کو کوئی اور نفسیاتی بیماری بھی ہو، خواتین کو، جن لوگوں کا ڈپریشن کا پہلا دورہ بہت طویل عرصے تک چلا ہو، جن کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے مکمل فائدہ نہ ہوا ہو، جن کو کوئی طویل المدّتی جسمانی بیماری ہو، جن کے قریبی دوست یا رشتہ دار نہ ہوں، اور جن کی زندگی میں بہت پریشانیاں ہوں، ان تمام لوگوں کو ڈپریشن دوبارہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو ڈپریشن کا ایک سے زیادہ اٹیک ہو چکا ہو
جن لوگوں کو ڈپریشن کا اٹیک کئی دفعہ ہو چکا ہو ان کے لیے رائل کالج یہ تجویز کرتا ہے کہ انہیں ڈپریشن کی دوا کم از کم دو برس کے لیے لینی چاہیے۔ دوا لینے کے لیے کوئی زیادہ سے زیادہ مدّت نہیں تجویز کی گئی کہ اس کو کب لازماً بند کر دینا چاہیے۔دوا لیتے رہنے سے ڈپریشن کواپس آنے کا خطرہ دو تہائی حد تک، یعنی چھیاسٹھ فیصد تک، کم ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کا علاج کرنا اور اس کو واپس آنے سے روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ جن لوگوں کو ڈپریشن ہو ان میں دل کی بیماری کا اور خود کشی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
برطانیہ کا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور کیئر ایکسی لینس (NICE) کہتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈپریشن کے ماضی قریب میں ڈپریشن کے دو یا اس سے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں، اور ان اٹیکس کو دوران ان کی کارکردگی مثلاً اپنی ملازمت کرنا، لوگوں سے ملنا جلنا، میں واضح کمی آئی ہو، انہیں اینٹی ڈپریسنٹ دوا اگلے دو سال تک لیتے رہنا چاہیے۔
اس دوران جس ڈوز پہ مریض بہتر ہوا تھا اسی ڈوز کو جاری رکھنا چاہیے، اور اسے کم نہیں کرنا چاہیے۔
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
ANTICHOLINERGIC (e.g. dry mouth, constipation, urinary retention, blurred vision)
- Amitriptyline – marked
- SSRIs, venlafaxine, mirtazapine – almost none
SEDATION/SLEEPINESS
- Amitriptyline, Mirtazapine – marked
- SSRIs, Venlafaxine – almost none
WEIGHT GAIN
- Amitriptyline, mirtazapine – marked
- SSRIs, venlafaxine – mild
SEXUAL DYSFUNCTION
- SSRIs, Venlafaxine – marked
- Amitriptyline – mild
- Mirtazapine – almost none
TOXICITY IN OVERDOSE
- Amitriptyline – marked
- Venlafaxine – moderate
- SSRIs – generally minimal but citalopram and escitalopram may be somewhat more toxic because of an effect on QTc interval (heart rhythm)
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- بعض ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جن مریضوں کو شدید درجے کا ڈپریشن ہو ان میں ٹرائی سائیکلک اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے مقابلے میں ای سی ٹی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
- بعض کا یہ کہنا ہے کہ چار ہفتے کے علاج کے بعد ای سی ٹی اور دوائیوں سے ہونے والا فائدہ تقریباً برابر ہی ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ای سی ٹی کا فائدہ نسبتاً جلدی شروع ہو جاتا ہے۔
ڈپریشن کے کن مریضوں میں ای سی ٹی استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے؟
- جن مریضوں میں فائدہ جلدی مطلوب ہو، مثلاً وہ مریض جن میں خود کشی کے خیالات شدید ہوں، اور یہ ڈر ہو کہ جب تک چند ہفتوں میں اینٹی ڈپریسنٹ کا فائدہ شروع ہو، وہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لیں۔
- جن مریضوں کا ڈپریشن شدید درجے کا ہو اور ان میں اس طرح کی علامات ہوں: وزن بہت کم ہو جانا، صبح عام طور سے جاگنے کے وقت سے کئی گھنٹے پہلے اٹھ جانا اور دوبارہ نہ سو پانا، جن مریضوں کے بولنے، حرکات، اور سوچنے کی رفتار پہلے کے مقابلے میں کافی کم اور سست ہو گئی ہو۔
- جن لوگوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو کہ اس میں سائیکوسس کی علامات بھی نمودار ہو گئی ہوں۔ سائیکوسس اس کو کہتے ہیں جب مریض کو ایسی آوازیں آنے لگیں یا چیزیں دکھائی دینے لگیں جو کسی اور کو سنائی یا دکھائی نہ دیں، یا ان کو ایسی باتوں پہ پختہ یقین ہو جائے جن کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ ان مریضوں میں ای سی ٹی سے صرف اینٹی ڈپریسنٹ یا صرف اینٹی سائیکوٹک دوا کے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہوتا ہے،لیکن یہ معلوم نہیں کہ اگر دونوں دوائیں ملا کر دی جائیں تو کس علاج سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
- جن لوگوں کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا مناسب ڈوز میں اور مناسب مدت کے لئے لینے کے بعد بھی فائدہ نہ ہوا ہو۔ ایسے مریضوں میں ای سی ٹی سے فائدہ ہونے کے بعد ای سی ٹی بند کرنے سے ڈپریشن واپس آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے مینٹیننس یا طویل مدّت کے لئے ای سی ٹی کے استعمال کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
More effective than TCAs in severely depressed inpatients in 6/9 trials
Some research says that after 4 weeks, the benefit of ECT and antidepressants is similar. ECT just works faster
INDICATIONS
- Need quick response, for example in acutely suicidal patients
- Severe depressive disorders; marked weight loss, early morning waking, psychomotor retardation, delusions
- Depression with psychotic symptoms (hallucinations and/or delusions); ECT more effective than Antidepressant or Antipsychotic alone,? with combined AD + AP
- Patients unresponsive to full trials of antidepressants; relapse rates high after stopping ECT, consider maintenance ECT
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں ڈپریشن کے علاج میں ای سی ٹی کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
in this video safe use of ECT in treatment of depression has been described
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
سائیکوایجوکیشن۔ Psychoeducation
نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں کچھ عمومی باتیں ایسی ہیں جو ہر مریض کا حق ہیں اور سب کے لئے دستیاب ہونی چاہیئیں۔
- مریض کو اس کی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرنا۔
- مریض کو اطمینان دلانا کہ ڈپریشن کا علاج موجود ہے۔ آدھے یعنی تقریباً پچاس فیصد مریض پہلی ہی دوا سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، جبکہ اور بہت سے مریض مزید علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
- بہت سے مریضوں کو دوا شروع کرنے پہ مضر اثرات فوراً ہوجاتے ہیں، جبکہ دوا کا فائدہ شروع ہونے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔ ایسے میں مریض کو حوصلہ دلاتے رہنا، اس کی ہمّت بندھاتے رہنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں وہ بددل ہو کے دوا نہ چھوڑ دے۔
باقاعدہ سائیکوتھراپی۔ structured psychotherapies
- یہ وہ سائیکوتھیراپیز ہیں جن کے پیچھے ایک تھیوری ہوتی ہے کہ ڈپریشن کس وجہ سے ہوتا ہے اور علاج میں اس وجہ پہ توجّہ دی جاتی ہے۔ ان کے باقاعدہ اصول ہوتے ہیں کہ مریض کی تھراپی کس طرح سے کرنی ہے۔ عام طور سے ان کا ایک مینول ہوتا ہے تا کہ ہر تھراپسٹ ایک ہی طرح سے مریض کا علاج کرے۔
- ان تمام ہی سائیکوتھیراپیز سے ڈپریشن ٹھیک ہونے کا امکان تھراپی نہ کرنے کی صورت سے زیادہ ہوتا ہے۔
- ان میں سے بعض تھراپیز مثلاً کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی اور انٹر پرسنل تھراپی درمیانی شدّت کے ڈپریشن میں اتنی ہی موثر ہوتی ہیں جتنی کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں ہوتی ہیں۔
- ان تھراپیز کا فائدہ ایک دوسرے کے برابر ہی ہوتا ہے اور ان میں آپس میں افادیت کے حساب سے کوئی واضح فرق نہیں ہے۔
- شدید درجے کے ڈپریشن میں ان کی افادیت اب تک واضح طور پر ثابت نہیں ہوئی۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
PSYCHOEDUCATION
- Education – about their illness and its treatment
- Reassurance – chances of their illness getting better, half get better with first AD
- Encouragement – continue taking meds, time lag
STRUCTURED PSYCHOTHERAPIES
- These are therapies which often have a background theory about why depression happens, for example negative thoughts in CBT, and use that theory in providing treatment.
- They are manualized and standardized, require training - Often underused and undervalued
- All more effective than placebo/treatment as usual
- Some, for example CBT and IPT, as effective as antidepressant (AD)
- There is no clear difference in efficacy between them.
- ? Effective in severely depressed patients
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
سپورٹِو سائیکوتھراپی اور پرابلم سولونگ تھراپی۔ Supportive psychotherapy and Problem-solving therapy
- اس تھراپی میں مریض کی زندگی کی حالیہ مشکلات کو پہچاننے اور ان کو دور کرنے پہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ (here and now focus)اس مقصد میں اس سے مدد لی جاتی ہے کہ مریض کی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے اور اس کے ماحول میں جو مدد کے ذرائع ہیں ان سے مدد لی جائے۔
- اس کی ایک شاخ پرابلم سولونگ تھراپی ہے جس میں مریض کے ساتھ بیٹھ کر یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس وقت مریض کے سب سے بڑے مسئلے کیا ہیں، ان کے ممکنہ حل کیا ہیں، اور پھر قدم بہ قدم ان حلوں کو عملی جامہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی)
- جیسا کہ میں نے پہلے بتایا انسان کے خیالات اور اس کی حرکات و سکنات کا اس کے موڈ پر گہرا اثر ہوتا ہے۔سی بی ٹی میں مریض کو اپنے ان منفی خیالات اور رویّوں کو پہچاننے اور ان کو تبدیل کرنے میں مدد دی جاتی ہے جن کی وجہ سے ان کا ڈپریشن شروع ہوتا ہے اور جو اس کے ڈپریشن کے ٹھیک ہونے میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔
- اگر ایک مریض کا سی بی ٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ دوا دونوں سے علاج کیا جائے، تو ان کا مجموعی فائدہ صرف دوا سے علاج کرنے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
Behavioural Activation
- اس علاج میں پہلے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا کیا کام کرنے سے مریض کا موڈ بہتر ہوتا ہے۔
- پھر اس کے بعد مریض کے ساتھ مل کر ایک لائحہٴ عمل بنایا جاتا ہے کہ وہ ان کاموں کو تھوڑا تھوڑا کر کے باقاعدگی سے کرنا شروع کرے جن سے اس کا موڈ بہتر ہوتا ہے۔
انٹر پرسنل سائیکوتھراپی Interpersonal psychotherapy
- اس تھراپی میں مریض کے اپنے قریبی لوگوں سے تعلّقات، اور ان تعلّقات میں خرابیوں سے جنم لینے والے مسائل پہ توجّہ دی جاتی ہے اور انہیں بہتر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
- ڈپریشن میں یہ اتنی ہی فائدہ مند ہے جتنی کہ اینٹی پریسنٹ ادویات اور سی بی ٹی۔
- اگر مریض کو انٹر پرسنل تھراپی اور اینٹی ڈپریسنٹ دوا دونوں دی جائیں تو اس کا فائدہ صرف انٹر پرسنل تھراپی دینے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
کپل تھراپی (جوڑوں کی تھراپی)
- یہ ان مریضوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے جن کا ڈپریشن اپنے شریکِ حیات کے ساتھ تعلّقات کی خرابیوں کی وجہ سے شروع ہوا ہو، یا ان کی وجہ سے ٹھیک نہ ہو پا رہا ہو۔
ڈائنامک سائیکو تھراپی Dynamic Psychotherapy
- ڈائنامک سائیکوتھراپی کی بنیاد اس خیال پہ ہے کہ انسان کے بچپن میں اس کے اپنے قریبی لوگوں، خاص طور سے اس کا خیال رکھنے والے بڑے لوگ جیسے کہ اس کے والدین ، سے جیسے تعلّقات ہوتے ہیں، ان کا اثر اس کی آئندہ زندگی میں آنے والے تمام لوگوں پہ اس کے تعلّقات پہ پڑتا ہے۔ اگر بچپن کے یہ تعلّقات اور تجربات بہت خراب رہے ہوں تو ان کی وجہ سے اس کو بڑے ہونے کے بعد ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے ٹھیک ہونے میں بھی زیادہ دیر لگتی ہے۔
- اس تھراپی میں انہی خرابیوں کی وجہ سے انسان کی زندگی پہ پڑنے والے اثرات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مائنڈفل نیس بیسڈ تھراپی Mindful-based therapies
اس تھراپی میں میڈیٹیشن (meditation) کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ شارٹر ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
SUPPORTIVE PSYCHOTHERAPY/PROBLEM-SOLVING THERAPY
- Supportive Psychotherapy – ‘here and now’ focus, Focuses on identification and resolution of current life difficulties, uses patient’s strengths and available coping resources
- Problem-solving Therapy – Identify the main problems of concern, develop practical step-by-step ways of tackling them
- More effective in moderately depressed than Treatment as usual (TAU)
COGNITIVE-BEHAVIOUR TEHRAPY (CBT)
- The premise is that is that negative thoughts can be predisposing, precipitating, and maintaining factors for depression
- Help the patient to modify their unhelpful and negative ways of thinking and acting in reaction to life situations and depressive symptoms
- As effective as Antidepressants (ADs) in moderately depressed
- Combined CBT and AD better than AD alone
BEHAVIOURAL ACTIVATION
- We all know that doing certain things, for example, exercise, spending time with friends, makes our mood better, and doing certain other things makes our mood worse
- Focuses on links between actions and emotional outcomes
- Scheduled activity – encourage behaviours with positive effect on mood
- Better than waitlist controls
INTERPERSONAL PSYCHOTHERAPY (IPT)
- We all know how much impact the quality of our relationships and social interactions have on our mood
- Focuses on personal relationships and life problems
- As effective as AD and CBT
- IPT + AD more effective than IPT alone
COUPLE THERAPY
- Suitable for patients for whom interactions/difficulties with their life partner appear to have contributed to causing or maintaining the depressive disorder
DYNAMIC PSYCHOTHERAPY
- The quality of relationships a young child has with their primary caregivers, such as parents, has a huge impact on both their relationships and mood in adulthood. In general, a happy child becomes a happy adult, a sad child grows up to be sad adult
- DPT Aims to resolve these childhood conflicts and the adverse impact they are having on their current life, which is believed to be causing or maintaining the depressive disorder - ? less effective than CBT or AD (NICE 2009a)
MINDFULNESS BASED THERAPIES
Utilize principles of meditation.
(Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- جن مریضوں کو ہلکے درجے کا ڈپریشن ہو اور ابھی حال میں ہی شروع ہوا ہو، ان کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے لئے اپنی مدد آپ کے اصولوں، کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی، اور ورزش وغیرہ سے علاج کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
- اینٹی ڈپریسنٹ دوا ان مریضوں میں استعمال کرنا مناسب ہوتا ہے جن کو درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن ہو۔
- نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور کلینیکل ایکسیلینس کہتا ہے کہ اگر کسی مریض کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا کی ضرورت ہو تو کسی ایس ایس آر آئی دوا کو سب سے پہلے استعمال کرنا چاہیے۔
- مریض کو مختلف دوائیوں، ان کے مضر اثرات، اور دوائیوں کے علاوہ جو دوسرے علاج مثلاً سائیکوتھراپی وغیرہ ممکن ہوں، ان کی تفصیل بتا کے اس کی رضامندی اور شمولیت سے علاج اور دوا کا انتخاب کرنا چاہیے۔
- مریض کو پہلے سے بتا دینا چاہیے کہ شروع میں دوا کے مضر اثرات فوراً نظر آتے ہیں، جبکہ واضح فائدہ نظر آنے میں دو ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔ اس سے اس بات کا خطرہ کم ہو جاتا ہے کہ مریض چند دن استعمال کے بعد بددل ہو کے دوا نہ چھوڑ دے۔
- اگر کسی مریض کو پہلی دفعہ ڈپریشن کی بیماری کا حملہ ہوا ہو، تو جہاں سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے اس کے بعد چھ سے نو مہینے تک دوا جاری رکھنا چاہیے۔ ٹھیک ہونے کے فوراً بعد دوا بند کرنے سے ڈپریشن واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
- جن مریضوں کو ڈپریشن کے کئی اٹیکس ہو چکے ہوں، ان کو دوا مزید طویل عرصے تک جاری رکھنی ہوتی ہے۔
- مریضوں کو دوا شروع کرتے وقت ہی بتا دیجئے کہ اینٹی ڈپریسنٹ بند کرتے وقت بعض مریضوں کو کچھ مضر اثرات (discontinuation symptoms) ہوتے ہیں، اس لئے اسے بہت آہستہ آہستہ بند کرنا ہوتا ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
جس شخص کو ڈپریشن کا ایک اٹیک ہوا ہو
برطانیہ کا رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس یہ کہتا ہے کہ جس شخص کو ڈپریشن کا پہلا اٹیک ہوا ہو، اس کو جب وقت سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے اس کے بعد سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا اسی ڈوز میں کم از کم چھ سے نو مہینے جاری رکھنی چاہیے۔ جو لوگ ٹھیک ہوتے ہی دوا بند کر دیتے ہیں، ان میں سے تقریباً پچاس فیصد مریضوں میں اگلے تین سے چھ مہینوں میں ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ جو لوگ علاج کے پہلے چھ مہینوں میں بے قاعدگی سے دوا لیتے ہیں، یعنی کبھی لی کبھی نہیں لی، ان میں ڈپریشن کی علامات واپس آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو پہلی دفعہ ڈپریشن کا اٹیک ہوا ہو، ان میں سے تقریباً پچاس فیصد یعنی آدھے لوگوں کو ڈپریشن دوبارہ کبھی نہیں ہوتا۔
جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو ڈپریشن ہوا ہو، جن لوگوں کا موڈ طویل عرصے کے لیے اداس رہتا ہو گو ڈپریشن کی شدت تک نہ پہنچے، جن کو کوئی اور نفسیاتی بیماری بھی ہو، خواتین کو، جن لوگوں کا ڈپریشن کا پہلا دورہ بہت طویل عرصے تک چلا ہو، جن کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے مکمل فائدہ نہ ہوا ہو، جن کو کوئی طویل المدّتی جسمانی بیماری ہو، جن کے قریبی دوست یا رشتہ دار نہ ہوں، اور جن کی زندگی میں بہت پریشانیاں ہوں، ان تمام لوگوں کو ڈپریشن دوبارہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو ڈپریشن کا ایک سے زیادہ اٹیک ہو چکا ہو
جن لوگوں کو ڈپریشن کا اٹیک کئی دفعہ ہو چکا ہو ان کے لیے رائل کالج یہ تجویز کرتا ہے کہ انہیں ڈپریشن کی دوا کم از کم دو برس کے لیے لینی چاہیے۔ دوا لینے کے لیے کوئی زیادہ سے زیادہ مدّت نہیں تجویز کی گئی کہ اس کو کب لازماً بند کر دینا چاہیے۔دوا لیتے رہنے سے ڈپریشن کواپس آنے کا خطرہ دو تہائی حد تک، یعنی چھیاسٹھ فیصد تک، کم ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کا علاج کرنا اور اس کو واپس آنے سے روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ جن لوگوں کو ڈپریشن ہو ان میں دل کی بیماری کا اور خود کشی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
برطانیہ کا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور کیئر ایکسی لینس (NICE) کہتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈپریشن کے ماضی قریب میں ڈپریشن کے دو یا اس سے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں، اور ان اٹیکس کو دوران ان کی کارکردگی مثلاً اپنی ملازمت کرنا، لوگوں سے ملنا جلنا، میں واضح کمی آئی ہو، انہیں اینٹی ڈپریسنٹ دوا اگلے دو سال تک لیتے رہنا چاہیے۔
اس دوران جس ڈوز پہ مریض بہتر ہوا تھا اسی ڈوز کو جاری رکھنا چاہیے، اور اسے کم نہیں کرنا چاہیے۔
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- For mild depression of recent onset, antidepressants (AD) are NOT the first-line treatment – Active monitoring, individual guided self-help, CBT, exercise, are preferred treatments
- AD are recommended for treatment for the treatment of moderate to severe depression.
- If an AD is indicated, NICE recommends a SSRI as first-line treatment.
- Discuss with the patient choice of drug including side effect profile, for example some ADs cause increased sleep and appetite, and some don’t, and available non-pharmacological treatments such as psychotherapy.
- Inform the patient about the time lag between starting AD and desired outcome, such as gradual improvement in mood over the next several weeks
- Inform the patient about the expected side effects and their timeframe, i.e. side effects appear sooner than benefit
- For a first episode of depression, continue AD for at least 6-9 months from when patient becomes symptom-free
- Patients who have had multiple episodes of depression require treatment for longer.
- Inform patients about the withdrawal/discontinuation effects of ADs – and hence withdraw ADs very gradually
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جن مریضوں کو پہلی دفعہ اینٹی ڈپریسنٹ دوا دی گئی ہو، ان میں سے تقریباً ایک تہائی مریضوں کو اس سے واضح فائدہ نہیں ہوتا۔
اگر دو دوائیں ایک ساتھ لی جائیں تو ان سے دو طرح کے خطرات ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ دونوں بدن اور دماغ میں ایک ہی طرح کے اثرات پیدا کرتے ہوں جس کی وجہ سے وہ اثر بہت بڑھ جائے، مثلاً غنودگی ہونا، بلڈ پریشر کم ہو جانا، سیروٹونن سنڈروم جس کی تفصیلی پچھلی وڈیو میں آئی تھی۔ دوسری طرح کا خطرہ جو دو دوائیں ایک ساتھ لینے سے ہو سکتا ہے یہ ہے کہ مثلاً دونوں دوائیں بدن سے ایک ہی طرح سے خارج ہوتی ہوں اور اس کی وجہ سے ایک دوا بدن سے اتنی مقدار میں خارج نہ ہو سکے جتنی کہ وہ اس وقت ہوتی اگر وہ اکیلی لی جا رہی ہوتی، مثلاً بعض ایس ایس آر آئی دوائیوں کی وجہ سے ٹرائی سائیکلک ادویات کا خون میں لیول یا مقدار بڑھ جانا۔
اس تحریر میں میں اس بارے میں بتاؤں گا کہ اگر پہلی اینٹی ڈپریسنٹ سے فائدہ نہ ہوا ہو، اور اس کو بدل کے دوسری اینٹی ڈپریسنٹ شروع کرنی ہو، تو اس کا محفوظ طریقہ کیا ہے۔ ایسا کرنے کے تین بنیادی طریقے ہیں۔
۱۔ پہلی اینٹی ڈپریسنٹ کو بند کرنا۔ کچھ دن انتظار کرنا۔ پھر اگلی اینٹی ڈپریسنٹ شروع کرنا۔
جب ایک مریض فلوآکسیٹین لے رہا ہو اور اس کو تبدیل کر کے کوئی دوسری ایس ایس آر آئی، ایس این آر آئی مثلاً وینلافیکسین، وغیرہ شروع کرنی ہو تو عموماً فلو آکسیٹین بند کرنے کے بعد کچھ دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلوآکسیٹین جسم میں جس مالیکیول میں بدلتی ہے وہ بھی فلوآکسیٹین کی طرح ہی کام کرتا ہے اور خون میں کافی دنوں تک رہتا ہے۔ اس لئے فلوآکسیٹین بند کرنے کے بعد اسے خون سے پوری طرح خارج ہونے میں کافی دن لگتے ہیں اور تب تک ری ایکشن کا خطرہ رہتا ہے۔
۲۔ ایک اینٹی ڈپریسنٹ بند کر کے اگلے ہی دن دوسری اینٹی ڈپریسنٹ شروع کر دینا۔
جب مریض فلوآکسیٹین کے علاوہ کوئی دوسری ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ لے رہا ہو، اور اسے بند کر کے کوئی دوسری ایس ایس آر آئی یا ایس این آر آئی شروع کرنا ہو، تو ایسا با حفاظت کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ پہلی دوا کا ڈوز (مقدار) کم کر کے اس کے ساتھ ہی کم ڈوز میں دوسری اینٹی ڈپریسنٹ شروع کر دینا، اور آہستہ آہستہ پہلی اینٹی ڈپریسنٹ کم کر کے بند کر دینا اور دوسری کا ڈوز مطلوبہ ڈوز تک بڑھا دینا۔ (cross-taper)
جب مرٹازیپین کو بند کر کے کوئی دوسری اینٹی ڈپریسنٹ شروع کرنا ہو، تو بیشتر اینٹی ڈپریسنٹس کے ساتھ ایسا کیا جا سکتا ہے۔
یہ ساری تفصیل یہاں بتانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ اس تحریر کو پڑھ کے ہر آدمی سائیکائٹرسٹ ہو جائے گا اور خود سے اپنی ایک اینٹی ڈپریسنٹ بند کر کے دوسری شروع کرلے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کو جو اینٹی ڈپریسنٹ لےرہا ہو، یہ معلوم ہو کہ جب ایک اینٹی ڈپریسنٹ کو بند کر کے دوسری اینٹی ڈپریسنٹ شروع کرنے کی ضرورت ہو تو کچھ خطرات ہوتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو کوئی بھی نئی تکلیف یا علامت ہو تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں کیونکہ بعض ری ایکشنز خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Approximately a third of patients do not respond to the first antidepressant that is prescribed.
The options then are dose escalation, switching to another AD, or adding another medication the AD (augmentation)
If two antidepressants are taken simultaneously, this can be dangerous because of how they work in the body and brain (e.g. Serotonin Syndrome, hypotension, drowsiness), or because of how the body handles them and excretes them (e.g. elevation of tricyclic plasma levels with some SSRIs.
In this write up, I will focus on the safe ways of switching from one AD to another.
There are three main ways of switching from one AD to another.
1. Stop the first AD. Wait for a few days. Start the next one.
This is necessary when switching from FLUOXETINE to Bupropion, other SSRIs, and SNRIs (e.g. venlafaxine).
2. Directly switching from one AD to another. Stop the first AD one day. Start the next one the next day.
This can be done when switching from SSRIs (except fluoxetine) to fluoxetine and other SSRIs, from SSRIs to SNRIs, and from SNRIs to SSRIs and another SNRI.
3. Cautiously cross-taper.
This applies to Mirtazapine with most other ADs
While not even psychiatrists can always carry all this information in their minds and frequently how to check switching charts, the reason it is important to have a general idea this information is that a person is aware that if they start getting any new adverse effects while changing their antidepressant, they must immediately contact their doctor.
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- سیروٹونن سنڈروم ان دوائیوں کا ایک کم نظر آنے والا لیکن ممکنہ طور پہ جان لیوا ری ایکشن ہے جو دماغ اور جسم میں سیروٹونن نامی کیمیکل پہ کام کرتی ہیں، مثلاً ایس ایس آر آئی یا ایس این آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات
- یہ کسی ایک سیروٹونرجک دوا کے لینے سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر مریض ایک سے زیادہ ایسی دوائیں لے رہا ہو جو سیروٹونن پہ کام کرتی ہیں تو اس ری ایکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مثلاً دو ایس ایس آر آئی (فلوآکسیٹین، سرٹرالین، وغیرہ) ادویات ایک ساتھ لینا، یا ایک ایس ایس آر آئی اور ایک ایس این آر آئی (وینلافیکسین) دوا ایک ساتھ لینا۔
- ان دوائیوں میں جسمانی بیماریوں کی دوائیاں بھی شامل ہیں، مثلاً ایس ایس آر آئی اور ٹریماڈول جو کہ درد کی دوا ہے، ساتھ لینے سے بھی سیروٹونن سنڈروم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس لیے یہ لازمی ہے کہ جب بھی آپ کسی ڈاکٹر کو دکھانے جائیں اور وہ کوئی نئی دوا لکھے تو آپ اسے اس سے پہلے بتا دیں کہ آپ کون کون سی دوائیں لے رہے ہیں تا کہ وہ ان دوائیوں کے ساتھ نئی دوا کے ممکنہ ری ایکشن کو چیک کر سکے۔
سیروٹونن سنڈروم کی علامات
- ہلکے درجے کی علامات: نیند آنا مشکل ہو جانا، گھبراہٹ، متلی کی سی کیفیت محسوس ہونا، پیچش، بلڈ پریشر بڑھ جانا، دل کی دھڑکن تیز ہو جانا،
- درمیانے درجے کی علامات: بے چینی محسوس ہونا، عضلات میں جھٹکے لگنا (myoclonus)، رعشہ، آنکھ کی پتلی پھیل جانا (mydriasis)، چہرہ اور کان سرخ ہونا (flushing)، زیادہ پسینہ آنا، کم درجے کا بخار (۳۸۔۵ درجے سینٹی گریڈ سے کم)
- شدید درجے کی علامات: بہت تیز بخار ہو جانا، عضلات اکڑ جانا (rigidity)، سانس آنا ختم ہونے لگنا، ہوش و حواس خراب ہو جانا (confusion)، بے ہوشی (coma)، مریض کا انتقال ہو جانا
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Serotonin syndrome is a relatively uncommon, but potentially fatal, side effect of medications with serotonergic activity.
It can happen even with a single serotonergic drug at a therapeutic dose, or more frequently in combination of serotonergic drugs (SSRI + SSRI, SSRI + SNRI, or SSRI + Tramadol), or in overdose.
ALWAYS TELL YOUR DOCTOR ABOUT ALL THE MEDICATIONS YOU ARE ALREADY TAKING WHEN A NEW ONE IS BEING PRESCRIBED, SO THAT THEY CAN CHECK FOR POTENTIAL DRUG INTERACTIONS!
SYMPTOMS
- Mild: insomnia, anxiety, nausea, diarrhea, hypertension, tachycardia, hyper-reflexia
- Moderate: agitation, myoclonus, tremor, mydriasis, flushing, excessive sweating, low fever (less than 38.5 C)
- Severe: severe hyperthermia, rigidity, respiratory failure, confusion, coma, death
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جب ڈپریشن بہت شدید ہو جائے تو کبھی کبھی مریض میں سائیکوسس کی علامات مثلاً ڈیلیوزنز (delusions) یا ہیلیو سی نیشنز (hallucinations) پیدا ہو جاتی ہیں۔ ڈیلیوزنز ان غلط خیالات کو کہتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، لیکن مریض کو ان پہ اتنا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اگر اس کے سامنے تمام ثبوت بھی لا کر رکھ دیے جائیں کہ اس کا خیال غلط ہے، تب بھی وہ اپنا خیال نہیں بدلتا۔ ہیلیو سی نیشنز ان علامات کو کہتے ہیں جن میں مریض کو ایسی غیبی آوازیں آنے لگتی ہیں جو کسی اور کو سنائی نہیں دیتیں، یا ایسی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو کسی اور کو نظر نہیں آتیں۔ جب ڈپریشن کے مریض میں یہ علامات پیدا ہو جائیں تو ایسے ڈپریشن کو سائیکوٹک ڈپریشن کہتے ہیں۔ اس کا علاج عام ڈپریشن سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔
- سائیکوٹک ڈپریشن میں ٹرائی سائیکلک اینٹی ڈپریسنٹس، ایس ایس آر آئی اور دوسری اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مقابلے میں، نسبتاً زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں۔
- ایس ایس آر آئی (مثلاً فلو آکسٹین یا سرٹرالین وغیرہ) یا ایس این آر آئی (مثلاً وینلافیکسین)ادویات اس وقت استعمال کی جاتی ہیں جب کوئی مریض ٹرائی سائیکلک ادویات کے مضر اثرات کو برداشت نہ کر سکے، یا اسے کسی اور وجہ سے ٹرائی سائیکلک دوا نہ دی جا سکے۔
- سائیکوٹک ڈپریشن میں مریض کو اینٹی ڈپریسنٹ اور اینٹی سائیکوٹک دونوں دوائیں ملا کر دینے سے، ان میں سے کوئی ایک دوا اکیلے دینے کے مقابلے میں، زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اولینزاپین (olanzapine) یا کوٹائیپین (quetiapine) اینٹی ڈپریسنٹ کے ساتھ ملا کر دینے کے بارے میں زیادہ ریسرچ موجود ہے۔
- اگر مرض کی علامات ٹھیک ہو جانے کے فوراً بعد اینٹی سائیکوٹک بند کر دی جائے تو علامات واپس آنے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ڈپریشن ٹھیک ہونے کے کتنے عرصے بعد اینٹی سائیکوٹک بحفاظت بند کی جا سکتی ہے۔
- اگر دونوں میں سے کوئی ایک دوا بند کرنا ضروری ہو، تو اینٹی سائیکوٹک کو بند کرنا چاہیے، لیکن ڈپریشن کے واپس آنے کے امکان کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
- الیکٹرو کنولسو تھراپی (ای سی ٹی) سائیکوٹک ڈپریشن کا ایک موثر علاج ہے۔ اگر مریض کی علامات میں جلد فائدہ مطلوب ہو، یا دوسرے علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو، تو ای سی ٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ای سی ٹی علامات کو واپس آنے سے روکنے میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Sometimes when depression becomes severe, a patient can develop symptoms of psychosis, such as delusions and hallucinations. Then it is called Psychotic Depression. Its treatment is slightly different from non-psychotic depression.
- TCAs are probably more effective than newer antidepressants (AD) such as SSRIs and SNRIs.
- SSRIs/SNRIs are a second-line alternative when TCAs are poorly tolerated, or cannot be prescribed for another reason.
- In general, combined AD and AP (antipsychotic) are more effective in treatment of Psychotic Depression than either drug alone. Augmentation with olanzapine or quetiapine is recommended.
- Withdrawal of AP after resolution of symptoms can worsen the longer-term outcome,. However, there is no consensus on how long the AP should be continued.
- If one treatment is to be stopped, it should be the AP, but caution as above.
- ECT is an effective treatment for Psychotic Depression. It should be considered especially if a rapid response is required, or other treatments have failed. It may also be effective against relapse.
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
بہت سارے مریض اینٹی ڈپریسنٹ دوا شروع کرتے ہوئے ہم سے پوچھتے ہیں کہ "ڈاکٹر صاحب میں اس کا عادی تو نہیں ہو جاؤں گا؟" اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے اس طرح سے عادت تو نہیں پڑتی جیسے کہ سکون آور ادویات یعنی بینزو ڈایازیپینز سے پڑتی ہے، مثلاً اینٹی ڈپریسنٹس کو زیادہ سے زیادہ اور بار بار استعمال کرنے کی خواہش (craving) نہیں ہوتی، جسم اور دماغ ان کے اس طرح سے عادی نہیں ہوتے کہ کچھ عرصے بعد ڈوز بڑھانے کی ضرورت پڑے (tolerance)، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ بات زیادہ واضح ہوئی ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوئیاں بند کرنے سے بھی بہت سے مریضوں کو تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں۔
اس کو اس طرح سے سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے دماغ اور جسم میں یہ دوائیں جن جگہوں پہ لگ کے اپنا کام کرتی ہیں جنہیں ریسیپٹرز (receptors) کہتے ہیں، جب ان ریسیپٹرز کو ایک دم سے دوا ملنا بند ہو جاتی ہے، تو وہ الٹا کام کرنے لگتے ہیں۔
یہ علامات کبھی اس بیماری کی علامات سے ملتی جلتی ہوتی ہیں جس کے لئے وہ دوا دی گئی تھی، لیکن کبھی بالکل نئی ہوتی ہیں جیسے کہ وینلافیکسین بند کرنے پہ بہت سے مریض یہ بتاتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ان کے سر میں یا بازوؤں میں بجلی کے جھٹکے کے سے لگ رہے ہیں۔
دوا بند کرنے سے ہونے والی تکلیف دہ علامات اور بیماری کی علامات واپس آنے میں فرق کرنا:
- دوا بند کرنے سے ہونے والی علامات آخری ڈوز کے فوراً بعد مثلاً چند گھنٹے میں یا ایک دو دن میں شروع ہو جاتی ہیں، جبکہ اینٹی ڈپریسنٹ بند کرنے سے ڈپریشن کے واپس آنے میں کئی ہفتے یا مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔
- دوا دوبارہ شروع کرنے سے دوا کے بند کرنے سے ہونے والی علامات فوراً مثلاً چند گھنٹوں یا ایک دو دن کے اندر ختم ہو جاتی ہیں، جبکہ ڈپریشن دوبارہ ٹھیک ہونے میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔
- یہ علامات بہت دفعہ بیماری کی علامات سے بہت مختلف ہوتی ہیں، مثلاً بجلی کے جھٹکے کے سے محسوس ہونا
دوائیں بند کرنے سے ہونے والی علامات ان صورتوں میں نظر آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے:
- جو دوائیں بدن سے جلدی خارج ہو جاتی ہیں جیسے کہ پاروکسیٹین یا وینلافیکسین ان کے بند کرنے سے ،
- مریض زیادہ ڈوز میں یا طویل عرصے سے دوالے رہا ہو،
- اگر مریض کو پہلے بھی اس طرح کی تکلیف دہ علامات ہوئی ہوں
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
“Dr! will I get addicted to this medicine?”
- Withdrawal versus discontinuation symptoms
- ADs – Not ‘addictive’ – No ‘craving’ or tolerance
- Receptor rebound e.g. anticholinergic effects
DIFFERENTIATING BETWEEN DISCONTINUATION SYMP. vs RELAPSE
- Rapid onset – days rather than weeks
- Rapid response to re-introduction – resolution within hours, certainly days
- Symptoms distinct from the original illness – brain zaps/electric shock like feelings, dizziness
- Factors: short-acting ADs, high dose, long duration, patient prior experience and anticipation
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جیسا کہ میں نے پچھلی پوسٹ میں بتایا تھا بہت ساری اینٹی ڈپریسنٹ ادویات بند کرنے سے کچھ نئی ذہنی اور جسمانی علامات نمودار ہوتی ہیں۔ یہ علامات عام طور سے آخری ڈوز لینے کے چند گھنٹوں یا دنوں بعد ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ علامات یہ ہیں:
- حسّی علامات: دماغ میں، یا بازوؤں اور ٹانگوں میں، بجلی کے جھٹکے لگنے کی سی کیفیت محسوس ہونا، آوازیں بہت زیادہ بلند سنائی دینا، جلد سن اور بے حس محسوس ہونا، ایسا محسوس ہونا کہ جیسے ہاتھوں پیروں میں سوئیاں سی چبھ رہی ہیں
- عمومی جسمانی علامات: تھکاوٹ کمزوری، محسوس ہونا، اپنے آپ کو سست سست محسوس کرنا، سر درد، ہاتھ پیر کپکپانا، پسینہ آنا
- موڈ کی علامات: چڑچڑاپن، گھبراہٹ بے چینی محسوس ہونا، اداسی، گھبراہٹ کے دورے
- نیند کی خرابی: نیند آنے میں مشکل ہونا، ڈراؤنے خواب آنا، بہت زیادہ خواب آنے لگنا
- پیٹ کی خرابی: متلی محسوس ہونا، الٹی ہو جانا، پیچش، بھوک کم ہو جانا
- جنسی علامات: مردوں میں بہت جلدی فارغ ہو جانا (premature ejaculation)
- ذہنی خرابی: کنفیوزن، توجّہ قائم رکھنے میں مشکل ہونا، یادداشت کی خرابی، چیزیں یا باتیں بھولنے لگنا
- توازن کی خرابی: چکر آنا، ایسا لگنا کہ جیسے انسان گرنے والا ہے
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
It is much more widely recognized now that many people experience some discontinuation or withdrawal symptoms upon stopping antidepressants. These do not mean that the original illness has come back. These occur because the receptors in the brain and body which have been used to a drug being bound to them for some time, suddenly do not have that drug bound to them, and so start producing effects opposite to those of the drug.
SENSORY SYMPTOMS: shock-like or ‘electric zap’ like sensations in head or limbs, hyperacusis, numbness, paresthesia
GENERAL PHYSICAL SYMPTOMS: lethargy, fatigue, headache, tremor, sweating,
AFFECTIVE (MOOD) SYMPTOMS: Irritability, anxiety/agitation, low mood/depression, panic attacks
SLEEP DISTURBANCE: insomnia, nightmares, excessive and vivid dreaming
ABDOMINAL SYMPTOMS: nausea, vomiting, diarrhea, reduced appetite,
SEXUAL: premature ejaculation (SSRIs delay ejaculation)
COGNITIVE: confusion, poor concentration, forgetfulness,
DIFFICULTIES WITH BALANCE: dizziness, light-headedness, vertigo
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- اینٹی ڈپریسنٹ جب کبھی بھی بند کرنی ہو، چاہے مریض اسے خود بند کرنا چاہے یا ڈاکٹر کے مشورے سے بند کرے، اسے بہت آہستہ آہستہ بند کرنا چاہیے۔ اس کا جو تجویز شدہ طریقہ ہے اسے ہائپر بولک ٹیپرنگ (hyperbolic tapering) کہتے ہیں جس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔
- اگر اینٹی ڈپریسنٹ اچانک بند کی جائے تو اس سے بند ہونے کے مضر اثرات (ڈس کنٹی نوئیشن علامات) (discontinuation symptoms) کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، اور بیماری کے واپس آنے کا خطرہ بھی۔
- اگر دوا بند کرنے کے مضر اثرات ہلکے درجے کے ہوں تو مریض کو تسلّی دیں کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بند کرنے سے بہت سارے مریضوں کو ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں میں یہ علامات چند دنوں سے لے کے چند ہفتوں تک رہتی ہیں اور پھر خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ ان کے لئے الگ سے کسی علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔
- اگر دوا بند کرنے کے مضر اثرات شدید درجے کے ہوں تو
o ایک طریقہ یہ ہے کہ وہی پرانی اینٹی ڈپریسنٹ دوا دوبارہ شروع کی جائے اور پھر اسے بہت آہستہ آہستہ بند کیا جائے، جس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔
o دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پرانی دوا کو بند کر کے ایک ایسی اینٹی ڈپریسنٹ شروع کی جائے جو جسم میں پہلی دوا سے ملتے جلتے طریقے سے کام کرتی ہو، اور جسے بدن سے خارج ہونے میں بہت دیر لگتی ہو جیسے کہ فلو آکسیٹین، اور پھر اسے آہستہ آہستہ بند کیا جائے۔ جن لوگوں کو پاروکسیٹین، وینلافیکسین، سرٹرالین، یا کلومیپرامین بند کرنے سے ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہو رہی ہوں، ان لوگوں میں فلو آکسیٹین شروع سے یہ علامات بہت کم یا ختم ہو جاتی ہیں۔
o بعض مریضوں میں چند دنوں کے لئے نیند بہتر کرنے یا گھبراہٹ کو کم کرنے کے لئے سکون آور ادویات یعنی بینزو ڈایازیپینز بھی دی جا سکتی ہیں۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Reduce antidepressants gradually – hyperbolic tapering
- Abrupt stopping, increases risk of both withdrawal symptoms and relapse
- For mild discontinuation symptoms – reassure the patient that discontinuation symptoms after stopping AD are common, and usually go away in a few days to a few weeks
- For severe discontinuation symptoms:
o Re-introduce the original AD and reduce very slowly, or
o Switch to another AD with longer half-life with a similar mechanism of action, fluoxetine – may reduce discontinuation symptoms of paroxetine, venlafaxine, sertraline, clomipramine
o Short-term use of a benzodiazepine for symptomatic treatment of severe anxiety or insomnia
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- جس مریض کو ڈپریشن کا اٹیک پہلی دفعہ ہوا ہو، جہاں سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے اور اس کی ڈپریشن کی علامات بالکل ختم ہو جائیں، اس وقت سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا مزید کم از کم چھ سے نو مہینے کے لئے اور لینی چاہیے۔
- اگر ٹھیک ہونے کے فوراً بعد اینٹی ڈپریسنٹ دوا بند کر دی جائے تو اگلے تین سے چھ مہینے میں تقریباً آدھے مریضوں کو ڈپریشن کی بیماری واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
- ڈپریشن کے پہلے اٹیک کے بعد:
o تقریباً پچاس فیصد یعنی آدھے مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اور انہیں دوبارہ کبھی ڈپریشن نہیں ہوتا
o تقریباًپندرہ فیصد مریضوں میں ڈپریشن کی علامات چلتی رہتی ہیں اور پوری طرح ختم نہیں ہوتیں۔
o تقریباً ۳۵ فیصد یعنی ایک تہائی مریضوں میں ڈپریشن کا اٹیک دوبارہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
o جس مریض کو ڈپریشن کے اٹیک جتنی زیادہ مرتبہ ہوئے ہوں، اس میں اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ بڑھتا جاتا ہے۔
- برطانیہ کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ کلینیکل ایکسیلنس کا کہنا ہے کہ جن مریضوں کو ڈپریشن کا دورہ ۲ یا اس سے زیادہ مرتبہ ہو چکا ہو، اور جن میں ان دوروں میں ان کی کارکردگی اور اپنے روز مرہ کے کام کرنے کی اہلیت پہ فرق پڑا ہو، ان کو کم از کم دو سال تک اینٹی ڈپریسنٹ لیتے رہنا چاہیے۔
- مریض دوا کے جس ڈوز پہ ٹھیک ہوا ہو، اس کو ٹھیک ہونے کے بعد بھی وہی ڈوز لیتے رہنا چاہیے اور اسے فوراً کم نہیں کرنا چاہیے۔
- مختصراً یہ کہ:
o اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ڈپریشن کے علاج میں موثر ہیں۔
o انسان ان کا عادی نہیں بنتا، گو ان کو بند کرتے وقت کچھ مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
o ان کا فائدہ طویل عرصے تک برقرا رہتا ہےاور وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتا۔
o جو لوگ طویل عرصے تک اینٹی ڈپریسنٹ دوا لیتے رہتے ہیں، ان میں کوئی نئے مضر اثرات رونما نہیں ہوتے۔
- اینٹی ڈپریسنٹ دوا کبھی بھی اچانک بند نہ کریں۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- After recovery from the 1st episode of depression, the AD should be continued for a further at least 6-9 months.
- If AD is stopped immediately after recovery, 50% of patients can have a relapse within 3-6 months.
- After a 1st episode of depression;
o About 50% recover and never have another episode
o In about 15% symptoms do not go away completely
o 35% have further episodes of depression,
o the risk of recurrence increases with every further episode
- Continue AD for at least two years: patients with 2 or more episodes in recent past, significant functional impairment (NICE)
- Dose for prophylaxis is the same as that for acute treatment
- In nutshell, Antidepressants are;
o Effective
o Not addictive, though patients can get adverse symptoms on discontinuation
o Not known to lose efficacy over time
o Not known to cause new long-term side effects
- Do NOT stop ADs abruptly!
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- جو مریض طویل عرصے سے کوئی اینٹی ڈپریسنٹ دوا لے رہے ہوتے ہیں ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کو دوا بند کرنے پہ کچھ مضر اثرات (ڈس کنٹی نوئیشن علامات) ہوتے ہیں۔ اس کا امکان ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جو یہ دوا بہت عرصے سے لے رہے ہوں، زیادہ ڈوز (مقدار) میں لے رہے ہوں، ایسی دوا لے رہے ہوں جو بدن سے جلدی خارج ہو جاتی ہے مثلا پاروکسیٹین یا وینلافیکسین، یا جنہیں پہلے اینٹی ڈپریسنٹ بند کرنے پہ تکلیف دہ علامات کا تجربہ ہوا ہو۔
- ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کو یہ مضر اثرات شدید درجے کے ہو سکتے ہیں۔
- جو لوگ طویل عرصے سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لے رہے ہوں، انہیں اس طرح سے دوا بند کرنے میں کہ ڈس کنٹی نوئیشن علامات نہ ہوں، تین مہینے سے دو سال تک لگ سکتا ہے۔
- ڈس کنٹی نوئیشن علامات سے بچتے ہوئے دوا بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر دو سے چار ہفتے پہ "آخری" ڈوز کا تقریباً دسویں سے بیسواں حصّہ کم کیا جائے۔ مثال کے طور پہ اگر ایک مریض سرٹرالین سو ملی گرام لے رہا ہے، تو پہلے اس کے ڈوز میں سے دس ملی گرام کر دیا جائے جو اس کے ڈوز کا دسواں حصّہ ہو گا۔ اب جب دو ہفتے بعد اس کا ڈوز دوبارہ کم کرنے کا وقت آئے گا تو اس کا "آخری" ڈوز نوّے ملی گرام ہو گا اور اس کا دسواں حصّہ نو ملی گرام ہو گا۔ اور اسی طرح ہر آخری ڈوز کا دسویں سے بیسواں حصّہ کم کیا جاتا رہے گا جب تک کہ دوا مکمل طور پہ بند نہ ہو جائے۔
- جن لوگوں کو ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہونے کا کم خطرہ ہو (جو کہ اینٹی ڈپریسنٹ چھ مہینے سے کم عرصے سے لے رہے ہوں، جن کی دوا کی ہاف لائف طویل ہو یعنی اسے بدن سے خارج ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہو، جنہیں پہلے کبھی ڈس کنٹی نوئیشن علامات نہ ہوئی ہوں) ان کی دوا کا ابتدائی طور پہ ایک چوتھائی ڈوز کم کیا جا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ سرٹرالین سو ملی گرام روزانہ لے رہے ہوں تو اسے کم کر کے پچھتر ملی گرام کیا جا سکتا ہے۔
- جن لوگوں کو ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہونے کا زیادہ خطرہ ہو (جو کہ اینٹی ڈپریسنٹ چھ مہینے سے زیادہ عرصے سے لے رہے ہوں، جن کی دوا کی ہاف لائف مختصر ہو یعنی اسے بدن سے خارج ہونے میں کم وقت لگتا ہو، جنہیں پہلے ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہو چکی ہوں) ان کی دوا کا ابتدائی طور پہ پانچ سے دس فیصد ڈوز کم کیا جا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ سرٹرالین سو ملی گرام روزانہ لے رہے ہوں تو اسے کم کر کے نوے یا پچانوے ملی گرام کیا جا سکتا ہے۔
- اس کے بعد دو سے چار ہفتے تک دیکھیں کہ کیا ڈس کنٹی نوئیشن علامات نظر آتی ہیں، اور اگر نظر آتی ہیں تو کتنی شدید ہوتی ہیں۔
- اگر ڈس کنٹی نوئیشن علامات نہیں نظر آتیں، یا پھر دو سے چار ہفتے میں ختم ہو جاتی ہیں، تو اسی تناسب سے ڈوز دوبارہ کم کیا جا سکتا ہے، یعنی پہلے گروپ میں آخری ڈوز کا تقریباً پچیس فیصد، اور دوسرے گروپ میں پانچ سے دس فیصد، اور اس کو بار بار کم کرتے رہیں جب تک کہ دوا مکمل بند نہ ہو جائے۔
- اگر ڈس کنٹی نوئیشن علامات بہت شدید ہوں تو ایک مہینے کے بجائے دو یا تین مہینے بعد دوبارہ دوا کم کریں، اور مزید کم تناسب سے کم کریں۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- About half of patients experience antidepressant (AD) withdrawal symptoms on reducing or stopping it
- Up to half of these may experience severe symptoms
- Most patients take 3 months to 2 years to withdraw in a tolerable manner after long-term use
- Hyperbolic dose reduction: reduce by 10-20% of the MOST RECENT dose every 2-4weeks, for example, if a patient was taking sertraline 100 mg per day, the first reduction may be 10 mg i.e. 10% of the original dose, but the second reduction may need to be 9 mg as that would be 10% of the most recent dose i.e. 90 mg.
- For low-risk patients (less 6 months, long half-life AD, no h/o previous withdrawal symptoms) a test reduction of 25%
- For high-risk patients (more than 6 months, short half-life AD, past h/o withdrawal symptoms) a test reduction of 5-10%
- Monitor withdrawal symptoms for 2-4 weeks
- Titrate down further depending upon the tolerability of the above regime
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اس وڈیو میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا جو گروپ اسپیسیفک سیروٹونن ری اپ ٹیک انہیبیٹر یا ایس ایس آر آئی کہلاتا ہے جس میں فلو آکسٹین، سرٹرالین، سیٹالوپرام، ایسیٹالوپرام، پاروکسٹین وغیرہ شامل ہیں، ان کے ڈپریشن کی بیماری کے علاج میں استعمال کے بارے میں بتاؤں گا۔ ان ساری دوائیوں کے بارے میں ایک ہی وڈیو میں بتانا ممکن نہیں اس لئے اس وڈیو میں میں سرٹرالین کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔
سب سے پہلی بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہلکے درجے کے یا مائلڈ ڈپریشن کے علاج کے لئے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باقاعدگی سے ورزش کرنا، اپنے کھانے پینے اور سونے کا خیال رکھنا، مصروف رہنا، دوستوں سے ملتے جلتے رہنا، سیلف ہیلپ کی ایکسرسائزز استعمال کرنا جس کی کتابیں بھی آتی ہیں اور آن لائن ایکسرسائزز بھی مل جاتی ہیں، ان سب کے ذریعے انسان اپنے ہلکے درجے کے ڈپریشن کا علاج خود کر سکتا ہے۔
درمیانے درجے کے ڈپریشن میں تقریباً دو تہائی لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ باقی کو مزید علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ دوا کا اثر درد کی یا بخار کی دوا کی طرح سے لیتے ہی ایک دو گھنٹے میں نہیں ہوتا۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوا کا فائدہ شروع ہونے میں ایک سے دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ بعض دفعہ پورا اور مکمّل فائدہ نظر آنے میں تین سے چار ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس لئے جب دوا شروع کریں تو یہ یاد رکھیں کہ کم از کم اتنے ہفتے دوا کھائیں گے تو فائدہ ہو گا۔ ورنہ شروع کرنے کے چند دن بعد بند کر دینا کہ فائدہ نہیں ہوا، بالکل بیکار ہے۔
ٹھیک ہونے کے بعد بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب، مجھے دوبارہ تو ڈپریشن نہیں ہو جائے گا؟ جب لوگوں کو زندگی میں پہلی دفعہ ڈپریشن ہوا ہو، ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کو دوبارہ کبھی ڈپریشن نہیں ہوتا۔ البتّہ جس شخص کو ڈپریشن کے جتنی زیادہ دفعہ اٹیک ہوئے ہوں، اس کو آئندہ ڈپریشن پھر ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
ایک اور عام سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ ڈپریشن ٹھیک ہو جانے کے بعد دوا کتنے عرصے تک کھانی پڑے گی؟ جس شخص کو زندگی میں پہلی دفعہ ڈپریشن ہوا ہو، اس کو جہاں سے ڈپریشن بالکل ٹھیک ہو جائے، وہاں سے تقریباً مزید چھ سے نو مہینے تک ڈپریشن کی دوا کھانی ہوتی ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہونے کے فوراً بعد دوا بند کر دے تو اگلے تین سے چھ مہینے میں تقریباً پچاس فیصد امکان ہوتا ہے کہ اس کو ڈپریشن دوبارہ ہو جائے گا۔
برطانیہ کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل ایکسیلنس (ںائس) کہتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈپریشن کے کئی اٹیک ہو چکے ہوں، ان کو اینٹی ڈپریسنٹ دوا ٹھیک ہونے کے بعد کم از کم دو سال تک کھانی چاہیے۔ جن لوگوں کو بار بار ڈپریشن ہو جاتا ہو، ان کو دوا طویل عرصے تک بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔
بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب، میں دواؤں کا عادی تو نہیں ہو جاؤں گا؟ ہم لوگ ان کو یہی بتاتے ہیں کہ انسان اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کا اس طرح سے عادی تو نہیں ہوتا جیسے سکون آور ادویات یا نیند کی دواؤں مثلاً لورازیپام، ڈایا زیپیام یا زوپی کلون کا ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کچھ عرصے کے بعد دوا کا پرانا ڈوز کام نہ کرے اور اس کی مقدار بڑھانی پڑے، یا اس کو اچانک بند کرنے سے شدید مضر اثرات مثلاً مرگی کے دورے یا ہذیان کی سی کیفیت ہو جائے۔ البتّہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو اچانک بند کرنے سے کچھ ڈس کنٹی نوئیشن علامات ہو سکتی ہیں جیسے کہ فلو کی طرح کی علامات، سر میں درد ہونا، بجلی کے سے جھٹکے سے لگنے کی طرح محسوس ہونا، اس لئے جو شخص کچھ عرصے سے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لے رہا ہو، اسے انہیں اچانک بند نہیں کرنا چاہئے۔
سرٹرالین کی ڈوز رینج یعنی مقدار ۵۰ ملی گرام سے دو سو ملی گرام روزانہ تک ہوتی ہے۔ شروع میں اسے کم مقدار تقریباً ۲۵ یا ۵۰ ملی گرام روزانہ سے شروع کیا جاتا ہے کہ زیادہ سائیڈ ایفیکٹس یعنی مضر اثرات نہ ہوں، اور پھر اگر ضرورت ہو تو آہستہ آہستہ بڑھایا جاتا ہے۔
اینٹی ڈہریسنٹ ادویات کے مضر اثرات کی تفصیل آپ کو اگلی وڈیو میں مل جائے گی۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
Specific Serotonin Reuptake Inhibitors or SSRIs include medications like fluoxetine, sertraline, citalopram, escitalopram, paroxetine, fluvoxamine.
For mild depression of recent, antidepressants are not indicated. Non-pharmacological interventions like counselling, CBT, exercise and self-help are treatment.
Antidepressants are indicated more for moderate to severe depression.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات مثلاً سرٹرالین یا فلوآکسیٹین وغیرہ کو لینے سے کیا مضر اثرات ہوتے ہیں، اور اگر ان کو چانک بند کر دیا جائے توکیا مضر اثرات ہوتے ہیں۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اس وڈیو میں ڈپریشن کے علاج میں ای سی ٹی کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist
In this video appropriate and safe use of ECT for treatment of depression has been explained.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
برطانیہ کا رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس کہتا ہے کہ ہر انسان یہ تین کام کر کے اپنے موڈ کو بغیر کسی دواؤں کے بہتر کرسکتا ہے۔
۱۔ مصروف رہنا:
اگر آپ ایک گاڑی کو کہیں کھڑا کر کے چھوڑ دیں اور اسے چھ مہینے تک نہ چلائیں، تو اس کے بعد بہت امکان ہے کہ اگر آپ کوشش بھی کریں گے تو وہ اسٹارٹ نہیں ہو گی اور اس کی باڈی زنگ کھا چکی ہو گی۔ بالکل اسی طرح انسان کا دماغ اور اس کا جسم بھی ایک مشین ہیں۔ اگر آپ ان کو کچھ عرصے تک استعمال نہیں کریں گے تو یہ کمزور اور ناکارہ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ میری ایک پرانی مریضہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں جتنا مصروف رہتی ہوں، میری طبیعت اتنی ہی اچھی رہتی ہے۔ یہ بات سو فیصد حقیقت ہے۔ کوشش کریں کہ دن کا کافی حصّہ مصروف رہیں۔ اگر جاب یا پڑھائی نہیں کرتے تو والنٹیئری کام کر لیں۔ کچھ نہ کچھ مصروفیت ڈھونڈھیں۔ بالکل فارغ نہ رہیں۔
۲۔ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں:
اس پہ بھی وہی مشین والی مثال صادق آتی ہے۔ انسان کا جسم جتنا صحت مند اور چست رہتا ہے، عام طور سے اس کی ذہنی صحت پہ اس کا بہت مثبت اثر پڑتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جمنیزیم جانا اور لمبی چوڑی ورزشیں کرنا ضروری نہیں۔ ریسرچ کہتی ہے کہ جو لوگ ہفتے میں صرف تین دن بھی بیس سے تیس منٹ روزانہ تیزی سے واک کرتے ہیں، ان کی گھبراہٹ اور اداسی اس سے کم ہوتی ہے۔
۳۔ ایسے کاموں میں وقت گزاریں جن میں آپ کا دل لگتا ہو:
ہر انسان کو نوکری یا بزنس کے علاوہ کچھ نہ کچھ ہابیز یا دلچسپیاں رکھنی چاہیئیں، چاہے وہ کوئی اسپورٹس کھیلے، دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارے، کتابیں پڑھے، کسی والنٹیری کام میں حصّہ لے۔ اس کا انسان کا ذہنی صحت پہ بہت فائدہ مند اثر ہوتا ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
Remain busy physically and mentally. Human body and mind are like any other machine. If you keep using it, it will keep functioing. if you stop using it, it will start getting rusty.
Do regular physical exercise. It does not mean you have to start going to the gym every day. Even brisk walking 3-4 times per day, upto 20-30 minutes each time, has been shown to improve a person's mood.
Spend some time in doing things that you enjoy. It is very healthy to have interests outside of work.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
ہلکے درجے کے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ کاؤنسلنگ اور لائف اسٹائل کی تبدیلیوں مثلاً باقاعدگی سے ورزش کرنا، اپنی نیند کا خیال رکھنا، مصروف رہنا، جن چیزوں سے خوشی محسوس ہوتی ہو ان میں وقت گزارنا، وغیرہ کے ذریعے علامات کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
درمیانے درجے کے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات اور کوھنویٹو بیہیوئر ھراپی دونوں ہی موثر ہوتی ہیں، لیکن سی بی ٹی ڈپریشن کو واپس آنے سے روکنے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔
شدید درجے کے ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات زیادہ موثر ہوتی ہیں، کیونکہ انسان کا ڈپریشن جب تک ایک خاص حد تک بہتر نہ ہو جائے اس کے لئے سائیکوتھراپی میں انگیج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
What factors should be considered/discussed when choosing an antidepressant? Which antidepressants are more effective than others? Which have less side effects?
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ہر اینٹی ڈپریسنٹ کے مضر اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ بعض ایک جسمانی بیماری میں لی جا سکتی ہیں اور بعض نہیں۔ اس لیے مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر ان کو کوئی جسمانی بیماری ہے تو اس کے ساتھ کون سی اینٹی ڈپریسنٹ باحفاظت لی جا سکتی ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
Different antidepressants (AD) have different side-effect profiles. Some are safe in one physical illness, but not in another, and vice versa. Therefore, if a person has a pre-existent physical illness, it is important for them and their doctor to know which AD can be prescribed safely for them, and which should be avoided.