چھوٹا منہ بڑی بات
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ ایک عجیب و غریب کتاب ہے کہ جس میں ذرّہ برابر بھی علم اس کے لکھنے والے کا اپنا ذاتی نہیں۔ اس میں جو کچھ بھی علم ہے وہ دو انسانوں اور دو کتابوں کا ہے۔ انسانوں میں ایک زندہ، یعنی میرے عمر بھر کے رہنما حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم جن کی خدمت میں تقریباً سینتیس سال پہلے میری پہلی حاضری کے بعد میری بقیہ زندگی کا رخ اور محور بدل گیا، اور ایک مردہ یعنی مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللّٰہ علیہ جن کی کتابوں کے میں اب تک شاید پچاس ہزار سے زیادہ صفحات پڑھ چکا ہوں گا اور مزید روز انہ پڑھتا ہوں۔ اور دو کتابوں میں ایک امام غزالی رحمتہ اللّٰہ علیہ کی کتاب اربعین کا اردو ترجمہ تبلیغِ دین جو اس کتاب کی بنیاد ہے اور اگر اس کتاب میں اگر کسی بات کا حوالہ (ریفرنس) نہ دیا گیا ہو تو وہ اربعین سے ہی ہو گی، اور دوسری مفتی محمد شفیع رحمتہ اللّٰہ کی معرکتہ الآرا تفسیر معارف القرآن جو میرے لیے قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جوپیغام بھیجا ہے اس کو جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ بنی ۔
اس کتاب میں لکھی گئی کوئی بھی بات ان شاء اللّٰہ ان چاروں بزرگوں کی باتوں اور کتابوں سے باہر نہیں ہو گی۔ البتّہ اگر راقم کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو اللّٰہ ان نادانستہ غلطیوں کے لیے معاف فرمائیں اور ان کی اصلاح فرمائیں۔ آمین
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
ترجمہ: "ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے)، اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔" (۲: ۱۵۱)
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ شریعت میں کچھ ایسے ظاہری کاموں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو بدن یا اعضاء سے کیے جاتے ہیں مثلاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوٰة دینا، حج کرنا۔ ان کو اوامر (امر کی جمع) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح شریعت میں کچھ ایسے ظاہری کاموں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے جنہیں اعضاء سے انجام دیا جاتا ہے، مثلاً غیبت کرنا، شراب پینا، چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا۔ ان کاموں کو نواہی (نہی کی جمع) کہا جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح انسان کے باطن، اس کے دل و ذہن، کی کچھ صفتیں اور کچھ اعمال ایسے ہیں جو مطلوب ہیں، وہ اوامر میں داخل ہیں، ان کو حاصل کرنا واجب ہے، اور ان کو حاصل کیے بغیر فریضہ ادا نہیں ہوتا۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنا واجب ہے، اگر کوئی ناگوار واقعہ پیش آئے تو اس پر صبر کرنا واجب ہے، اللّٰہ تعالیٰ پر توکّل کرنا بھروسہ رکھنا واجب ہے، تواضع (منکسرالمزاجی) اختیار کرنا واجب ہے۔ اخلاص حاصل کرنا، یعنی انسان جو عبادت بھی کرے صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے لیے کرے،واجب ہے، کیونکہ اخلاص کے بغیر کوئی عبادت مقبول نہیں۔ باطن کی ان پسندیدہ صفات یعنی شکر، صبر، توکّل، اخلاص، وغیرہ کو اخلاقِ فاضلہ کہا جاتا ہے، اور ان کو حاصل کرنا واجب ہے۔
اسی طرح باطن کے اندر کچھ ایسی صفات ہیں جو حرام اور ناجائز ہیں، اور جن سے بچنا ضروری ہے، انہیں اخلاقِ رذیلہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ تکبّر کرنایعنی اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا، حسد کرنا، ریا کاری اور دکھاوا کرنا یعنی اللّٰہ کو راضی کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے اور ان کو راضی کرنے کے لیے عبادت کرنا، یہ سب انسان کے باطن اس کے قلب و ذہن کے اعمال ہیں، اور یہ بھی اتنے ہی حرام ہیں جتنا جھوٹ بولنا حرام ہے یا غیبت کرنا حرام ہے۔ یہ سب باطن کے نواہی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ باطن کے کچھ اچھے اور پسندیدہ اعمال ہیں جن کو اخلاقِ فاضلہ کہا جاتا ہے اور ان کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور باطن کے کچھ برے اور غیر پسندیدہ اعمال ہیں جن کو اخلاقِ رذیلہ کہا جاتا ہے، اور جن سے بچنا ضروری ہے۔ اسی اخلاقِ فاضلہ کے پیدا کرنےا ور بڑھانے، اور اخلاقِ رذیلہ سے بچنے اور ان کو اپنے باطن سے دور کرنے، کو تزکیہ یا تصوّف کہا جاتا ہے، اور یہی تصوّف کا مقصودِ اصلی ہے۔
اصلاح کا پہلا قدم توبہ ہے، اس لیے اصلاح کا سفر شروع کرنے سے پہلے توبہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
”ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے توبہ کروسچی توبہ، تو کچھ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہوں کا کفارہ کر دیں اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کر دیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں“۔ (۶۶: ۸)
اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
” گناہ سے توبہ کرنے والا اللہ کا محبوب ہے، اور جس نے گناہ سے توبہ کر لی وہ ایسا ہوگیا کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا“۔
امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں فرمایا کہ گناہ ہوں پر اقدام کے تین درجے ہیں:
پہلا یہ کہ کسی گناہ کا کبھی ارتکاب نہ ہو ، یہ تو فرشتوں کی خصوصیت ہے، یا انبیاء علیہم السلام کی۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ گناہوں پر اقدام کرے، اور پھر اُن پر اصرار جاری رہے، کبھی ان پر ندامت اور ان کے ترک کا خیال نہ آئے۔ یہ درجہ شیاطین کا ہے۔
تیسرا مقام بنی آدم کا ہے کہ گناہ سرزد ہو تو فوراً اس پرندامت ہو، اور آئندہ اس کے ترک کا پختہ عزم ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سرزد ہونے کے بعد توبہ نہ کرنا یہ خالص شیاطین کا کام ہےاس لئے باجماع امت توبہ فرض ہے۔
توبہ کے تین ارکان
مفتی محمد شفیع رحمتہ اللّٰہ علیہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ توبہ کے تین رکن ہیں؛
اوّل اپنے کئے پر ندامت اور شرمساری، حدیث میں ارشاد ہے : ”إِنَّمَا التَّوْبَۃ ُ النَّدَمُ “یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے۔
دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے، اور آئندہ کو بھی اس سے باز رہنے کا پختہ عزم وارادہ کرے۔
تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سرزد ہوچکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے۔فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور وفکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرےپھر ان کی قضاء کرنے کا پورا اہتمام کرے۔ بیک وقت نہیں کرسکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے۔ ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضاء کا اہتمام کرے۔ فرض زکوٰۃ ادا نہیں کی تو گذشتہ زمانہ کی زکوٰۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے۔ کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے۔ کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے۔
لیکن اگر اپنے کئے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لئے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ حقیقی توبہ نہیں ہے۔
مبتدی کے لیے توبہ کا طریقہ
ایک دفعہ ایک خادم کے بیعت کرنے کی درخواست پر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا، "بیعت نہ ضروری ہے اور نہ ہی مقصود ہے۔ مقصود صرف توبہ اور اصلاح ہے۔ رہی بیعت تو وہ سنّت ضرور ہے، لیکن اس کے لئے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔"
توبہ کا طریقہ حضرت والا نے یہ بتلایا کہ "پہلے دو رکعات نفل پڑھیے۔ اس کے بعد یہ دو تسبیحیں پڑھیے۔
۱۔ ربّنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین
۲۔ استغفراللّٰہ ربّی من کل ذنب و اتوب الیہ
پھر اس کے بعد اردو میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگیے کہ اے اللّٰہ! میں نے بہت گناہ کیے ہیں۔ میں آپ کے سامنے توبہ کرنا چاہتا ہوں، اور یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ آئندہ کبھی گناہ نہ کروں۔ میری ہمّت بہت کمزور ہے، اس لئے آپ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے استقامت عطا فرمائیے۔"
یہ تو ہوئی اجمالی توبہ۔ اس کے بعد تفصیلی توبہ کیجئے۔ اس کا طریقہ یوں ہے۔ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللّٰہ میں حساب لگائیے کہ بلوغت کے بعد سے آج تک کتنی نمازیں چھوٹیں۔ ان کا ایک چارٹ بنائیے اور روزانہ کی نمازوں کے ساتھ بجائے نفل پڑھنے کے ایک قضا نماز ادا کر لیجئے۔ اور یہ وصیّت بھی لکھ دیجئے کہ اگر میں (تمام قضا نمازیں ادا کرنے سے پہلے) مر جاؤں تو میری (ان بچی ہوئی قضا) نمازوں کا کفّارہ (فدیہ) ادا کر دیا جائے۔ اسی طرح جتنے روزے چھوڑے ہیں ان کا کفّارہ ادا کرنا پڑے گا۔ حقوق العباد میں جن لوگوں کے ساتھ زیادتی کی ان کا حق ادا کیجئے، یا اس کی کسی طرح تلافی کیجئے۔
"اور اپنے ربّ کی طرف سے مغفرت اور وہ جنّت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللّٰہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصّے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کر دینے کے عادی ہیں۔ اللّٰہ ایسے نیک لوگوں (محسنین) سے محبّت کرتا ہے۔" (۲: ۱۳۳تا ۱۳۴)
معارف القرآن میں ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت (۲: ۱۳۴) میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ان پسندیدہ لوگوں کے تین درجات بیان فرمائے ہیں جو اپنے غصّے کو قابو میں رکھتے ہیں۔
ان میں سے پہلا اور سب سے نچلا درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے یا ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ غصّے میں بے قابو نہیں ہوتے اور اس شخص سے انتقام نہیں لیتے ۔
ان میں سے دوسرے اور درمیانے درجے کے وہ لوگ ہیں جو جب کوئی ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو نہ صرف اس سے بدلہ نہیں لیتے، بلکہ اس کو معاف کر دیتے ہیں اور اس کی زیادتیوں کو اپنے دل و دماغ سے بھلا دیتے ہیں۔
اور اللّٰہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں تیسرے اور سب سے اعلیٰ درجے کے وہ لوگ ہیں جو جب ان کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو نہ صرف وہ اس شخص سے بدلہ نہیں لیتے اور اس کو معاف کر دیتے ہیں، بلکہ جواب میں وہ اس کے ساتھ بھلائی (احسان) کرتے ہیں، اور رسول اللّٰہ ﷺ کا یہی طریقہ تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللّٰہ ان سے محبّت کرتا ہے۔
امام غزالی ؒ نے مزید لکھا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے درمیان جتنا بھی قتل و غارت ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہیں دو ہیں، پہلی حرص، اور دوسری وہ غصّہ جس پہ انسان کا قابو نہ ہو۔ جب انسان اپنے شدیدغصّے کا اظہار کر پاتا ہے تو اس کا نتیجہ جسمانی تشدّد، گالی گلوچ، اور دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی شکل میں نکلتا ہے۔جب انسان کو کسی دوسرے پہ شدید غصّہ ہو لیکن کسی وجہ سے وہ اس کا اظہار نہ کر سکے، مثلاً یہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی حیثیت کے اعتبار سے اس سے برتر ہو، تو اس کا نتیجہ بغض، حسد، بدگمانی، غیبت، دوسروں کے پوشیدہ راز فاش کرنے، اور ان کو بدنام کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔
جب ایک انسان کو کسی دوسرے انسان پہ شدید غصّہ ہوتا ہے تو اس شخص کو خوش اور مطمئن دیکھ کر اسے اپنے دل میں شدید جلن محسوس ہوتی ہے، اور وہ چاہتا ہے اور کبھی کوشش کرتا ہے کہ اس دوسرے سے یہ خوشی چھن جائے، اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی لیے بزرگوں نے کہا ہے کہ جب ایک انسان تزکیہ (اپنے باطن کو پاک کرنا) کے راستے پہ چلنا شروع کرتا ہے تو اس کا سب سے پہلے قدم اپنے غصّے کو قابو میں لانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو بہت شدید غصّہ آتا ہو اور وہ غصّہ اس کے قابو میں نہ ہو تو اس غصّے کی وجہ سے وہ اتنے بےشمار ظاہری اور باطنی گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس غصّے کو قابو میں لائے بغیر وہ تزکیہ کے راستے پہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
غصّے کو قابو میں لانا مقصود ہے، جڑ سے ختم کرنا مقصود نہیں
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز عبث یعنی بیکار پیدا نہیں کی۔ اسی طرح اخلاقِ رذیلہ کے پیدا کرنے میں بھی مصلحتیں ہیں۔ پھر غصّے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی انسان کو بالکل ہی غصّہ نہ آتا ہو تو اس کے سامنے کوئی اس کی آبرو پہ، اس کے بیوی بچّوں پہ، اس کے مال پہ حملہ کرتا رہے، تو وہ بالکل بے حس بیٹھا رہے گا اور جواب میں ان کی حفاظت کے لیے کچھ کرے گا ہی نہیں۔ ایسی صورت میں غصّہ نہ کرنا مطلوب نہیں، بلکہ غصّہ کرنا ہی عین مطلوب ہے کہ اس کو استعمال کر کے اپنا، اپنے گھر والوں کااور اپنے مال کا بچاؤ کرے۔ تو غصّے میں بذاتِ خود خرابی نہیں، خرابی اس کے غلط جگہ پہ، حد سے بڑھے ہوئے، اور بلا وجہ استعمال میں ہے۔
باطن کی اصلاح سے مقصود یہ نہیں کہ آئندہ انسان کو کبھی غصّہ آئے ہی نہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہ اپنا اور اپنے سےمتعلق لوگوں اور چیزوں کا دفاع کیسے کرے گا؟ اصلاح سے مقصودِ اصلی یہ ہے کہ بار بار کی مشق اور مجاہدے سے غصّہ اس قدر قابو میں آ جائے کہ انسان صرف اس موقع پہ غصّہ کرے جہاں غصّہ کرنا مطلوب ہو، اور اتنا ہی غصّہ کرے جو شریعت کی حدود کے اندر ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ کا رعب دبدبہ اور غصّہ مشہور تھا لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں کہا گیا کہ "وہ اللّٰہ کی حدود کے آگے رک جانے والے تھے۔" مطلب یہ کہ جہاں ان کو پتہ چلتا تھا کہ اس سے آگے غصّہ کرنا صحیح نہیں ہے وہیں ان کا غصّہ فوراً ختم ہو جاتا۔ تمام دین کا مقصودِ اصلی یہی ہے۔
غصّے کا علاج
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ بے قابو غصّے کا سب سے پہلا علاج اس کو مجاہدے کے ذریعے قابو میں لانا ہے۔ اس کے لیے انسان کو بہت صبر کرنا سیکھنا پڑتا ہے کہ جب کوئی ایسی بات ہو جس پہ شدید غصّہ آئے تو انسان صبر کرے کہ چند لمحے اس غصّے کے مقتضا پہ عمل نہ کرے، مطلب یہ کہ دل میں جو شدید تقاضہ ہو رہا ہے کہ فوراً اس سامنے والے شخص پہ چیخوں، چلّاؤں، اس کا منہ توڑ دوں، اس کو کچھ دیر کے لیے روکے، اور یہ سوچے کہ مجھے فوراً اپنے غصّے کا اظہار نہیں کرنا ہے، تھوڑی دیر کے بعد کرنا ہے۔ جب بار بار انسان ایسا کرتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ آئندہ کبھی اس کو غصّہ آئے گا ہی نہیں، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا غصّہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا اس کے قابو میں آجاتا ہے کہ وہ وہاں غصّہ کرتا ہے جہاں کرنا مناسب ہوتا ہے اور بے جگہ غصّہ نہیں کرتا، اور اتنا ہی غصّہ کرتا ہے جتنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور حد سے زیادہ غصّہ نہیں کرتا۔
غصّے کا دوسرا علاج یہ ہے کہ جب انسان کو غصّہ آئے تو فوراً اس کا اظہار کرنے کے بجائے ان چند باتوں پہ عمل کرے جو آگے آئیں گی۔ ان باتوں پہ عمل کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اتنی دیر میں انسان کے غصّے کی شدّت کم ہو جاتی ہے اور جب وہ پھر اپنے غصّے کا اظہار کرتا ہے تو سوچ سمجھ کے کرتا ہے، اور جذبات کی رو میں بہہ کے نہیں کرتا۔
غصّے کا علمی (cognitive) علاج
اس علاج میں انسان کو اپنی غصّے کی سوچوں کو دوسری سوچوں سے بدلنا ہوتا ہے، اور اسی لیے اس کو علمی یا عقلی علاج کہا جاتا ہے۔ تو غصّے کا علمی علاج یہ ہے کہ جب غصّہ آنا شروع ہو تو انسان یہ سوچے کہ مجھے اس وقت یہ غصّہ کیوں آ رہا ہے۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ عام طور سے لوگوں کو غصّہ اس وقت آتا ہے جب ان کی زندگی میں چیزیں ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ لیکن غصّہ کرنے سے پہلے وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ہم سب کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے، اور اگر انسان کسی بات کے ہونے پر غصّہ کر رہا ہے تو درحقیقت وہ یہ کہہ رہا ہے کہ فلاں بات اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہونے کے بجائے میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے تھی (معاذ اللّٰہ)۔ جس دن انسان اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے واقعات کو یہ سمجھ کر تسلیم کرنا شروع کر دے کہ میرے اللّٰہ کی یہی مرضی تھی، اس دن سے اس کا غصّہ فنا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
دوسری بہت اہم بات جو غصّے کے وقت سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم کو اس دوسرے شخص پہ جس پہ ہمیں غصّہ آ رہا ہے کتنا اختیار ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ کو ہم پہ کتنا اختیار ہے؟ جب ہماری روز مرّہ کی زندگی میں کوئی شخص ہماری مرضی کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو ہم ا س پہ کتنا غصّہ کرتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ جب ہم روزانہ کتنی بےشمار باتوں میں اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ہم پہ کتنا غصّہ کرتا ہے؟ نہ وہ ہمارا کھانا کم کرتا ہے، نہ پانی بند کرتا ہے، نہ ہمارے بچوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس نے ایک لامتناہی ڈھیل دی ہوئی ہے کہ مرنے سے پہلے تک جب بھی واپس آ جاؤ تو سب معاف ہے۔
تو جس وقت شدید غصّہ آئے تو انسان اپنے آپ کو یہ یاد دلائے کہ ہم جس پہ غصّہ کر رہے ہیں، نہ وہ انسان ہماری مخلوق ہے، نہ ہم نے اس کو پیدا کیا ہے، نہ ہم اس کا رزق اس کو دیتے ہیں، نہ اس کو زندگی دینا یا اس کی زندگی لینا ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کے بر عکس اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے، ہم اپنی ہر ہر ضرورت کے لیے ان کے محتاج ہیں، ہماری ا ن کے سامنے ذرّہ برابر بھی حیثیت نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان کی ہر وقت نافرمانی کیے چلے جاتے ہیں، لیکن ہمارے اوپر اپنی کامل قدرت کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ ہماری گستاخیوں کو برداشت کیے جاتے ہیں، ہمیں رزق دیے جاتے ہیں، اور ہمیں موقع دیے جاتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے توبہ کر لو۔ لیکن جب ایک انسان ہماری مرضی کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو ہم ہر طرح سے اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ معاذ اللّٰہ، کیا ہماری نافرمانی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بھی بڑی ہے؟
غصّے کے عملی (behavioural) علاج
امام غزالیؒ نے مزید لکھا ہے کہ جب غصّہ آئے تو (یہ بہت ساری ہدایات حدیث شریف میں آئی ہیں):
۱۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیں۔ (پناہ مانگتا ہوں میں اللّٰہ کی شیطان مردود سے) اس سے فائدہ اس لیے ہوتا ہے کہ غصّہ شیطان کے اثر سے ہوتا ہے، اور جب انسان اللّٰہ تعالیٰ سے شیطان سے پناہ مانگتا ہے تو اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
۲۔ جس وقت غصّہ آئے اس وقت جس حالت میں ہوں اس سے نزول کی طرف جائیں، مطلب یہ ہے کہ اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں۔ جب شدید غصّہ آتا ہے تو انسان غصّے کے اثر میں عام طور سے اس کا الٹ کرتا ہے۔ اگر لیٹا ہو تو اٹھ کے بیٹھ جاتا ہے، اور اگر بیٹھا ہو تو غصّے میں آ کر لڑنے کے لیے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے اختیار سے اس کا الٹ کرنے سے یعنی بیٹھ جانے یا لیٹ جانے سے غصّہ کی شدّت کم ہو جاتی ہے۔
۳۔ وضو کر لیں۔
۴۔ اپنا رخسار زمین پہ رکھ دیں۔ غصّہ تکبّر کی وجہ سے آتا ہے کیونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ (معاذ اللّٰہ) میں اتنی بڑی چیز ہوں، اس نے میرے حکم کی خلاف ورزی کیسے کی، میرے حکم کے خلاف کام کیسے کیا۔ لیکن جب انسان جان بوجھ کے عاجزی کی پوزیشن اختیار کرتا ہے تو تکبّر کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
۵۔ پانی پی لیں۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ "اللّٰہ کے نزدیک سب سے بہتر گھونٹ جو مسلمان پیتا ہے وہ غصّے کا گھونٹ ہے۔" (تبلیغِ دین)
۶۔ اس جگہ سے یا جس شخص پہ غصّہ آ رہا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جائیں۔
۷۔ اپنے آپ کو کسی اور کام میں مشغول کر لیں، مثلاً کوئی کتاب پڑھنے لگیں۔
۸۔ اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جب مسلمان کو اپنے بیوی بّچوں یا ایسے لوگوں پہ غصّہ آئے جن پر اپنا غصّہ جاری کر سکتا اور سزا دے سکتا ہے، اور وہ اس کو ضبط کر جائے اور تحمّل سے کام لے تو حق تعالی اس کا قلب امن اورایمان سے لبریز فرما دے گا۔" (تبلیغِ دین)
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ تحمّل کی بدولت انسان شب بیدار، روزہ دار، عابد و زاہد کا مرتبہ پا لیتا ہے۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
کہو کہ: "میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ پھیل جائے، اور ان جانوں کے شر سے جو (گنڈے کی) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔" (۱۱۳: ۱تا۵)
تبلیغِ دین (امام غزالی ؒ کی کتاب اربعین کا اردو ترجمہ) میں لکھا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا قول ہے کہ حق تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ "میرے بندے پر نعمت دیکھ کر حسد کرنے والا گویا میری اس تقسیم سے ناراض ہے جو میں نے اپنے بندوں میں فرمائی ہے۔" (تبلیغِ دین)
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ "حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو جلا دیتی ہے۔" (تبلیغِ دین)
حسد کی تعریف
شریعت کی اصطلاح میں حسد کا مطلب ہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کی طرف اپنے دل میں اس قدر جلن اور کڑھن رکھے اگر وہ اس شخص کو خوش و خرّم اور آرام میں دیکھے، اور اس کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں دیکھے، تو اس کو اپنے دل میں شدید غصّہ اور جلن محسوس ہو، اور یہ خواہش ہو کہ یہ تمام نعمتیں اس دوسرے شخص سے جاتی رہیں، اور وہ بدحال ہو جائے۔
حسد شرعاً حرام ہے، اور بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے جھوٹ بولنا حرام ہے، چوری کرنا حرام ہے، ڈاکہ ڈالنا حرام ہے۔
حسد کیوں پیدا ہوتا ہے؟
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ حسد یا تو تکبّر و نخوت سے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ "یہ تو میرا حق تھا کہ ہر اچھی چیز مجھے ملتی۔ کوئی اچھی چیز کسی دوسرے کو کیوں مل گئی؟" یا پھر نفس کی خباثت یا دوسرے کی دشمنی سے پیدا ہوتا ہے کہ حاسد انسان اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف بخل اور کنجوسی محسوس کرتا ہے، اور سوچتا ہے کہ جیسے میں کوئی اچھی چیز کسی دوسرے کو نہیں دیتا، اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ کو بھی نہیں دینی چاہیے تھی۔ (معاذ اللّٰہ)
حسد رشک یا غبطہ سے اس طرح سے مختلف ہے کہ غبطہ میں انسان کو ان اچھی چیزوں کی خواہش ہوتی ہے جو کسی دوسرے کے پاس موجود ہوں،ا ور اس کا دل چاہتا ہے کہ یہ مجھے بھی مل جائیں، لیکن اس کے دل میں یہ خواہش نہیں ہوتی کہ یہ نعمتیں اس دوسرے شخص سے چھن جائیں۔غبطہ حرام نہیں ہے کیونکہ انسان اس میں کسی دوسرے کا نقصان نہیں چاہتا۔ اس کے دل میں صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں مجھے بھی مل جائیں۔
حسد کے تین درجات
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ شدّت کے اعتبار سے حسد کے تین درجات ہیں۔
حسد کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان جس سے ناخوش ہو اگر اس کو کوئی اچھی بات پہنچے یا اچھی حالت پیش آئے تو حاسد (حسد کرنے والا) کے دل میں ناخوشی اور ناگواری کے جذبات پیدا ہوں۔ کچھ حد تک یہ جذبات انسان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں، اور یہ اس وقت تک گناہ نہیں ہوتے جب تک انسان اپنے اختیار سے اس شخص کے بارے میں بری باتیں نہ سوچنا شروع کر دے۔
حسد کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ یہ ناخوشی یا ناگواری کے خیالات اب غیر اختیاری نہیں رہے، بلکہ انسان اپنے اختیار سے دیر دیر تک یہ سوچنے لگا کہ اس شخص کے ساتھ اچھا کیوں ہوا، کاش یہ نعمت اس سے چھن جائے، اس کا حال خراب ہو جائے، اس کو نقصان پہنچ جائے، یعنی انسان اپنے اختیار سے اس دوسرے شخص کے نقصان کا خواہاں ہو گیا۔
حسد کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ بات صرف جذبات اور خیالات کی حد تک محدود نہیں رہی، بلکہ انسان اپنے عمل سے اس شخص کو نقصان پہنچانے لگا مثلاً دوسروں کے سامنے اس کی غیبت کرنے لگا تا کہ لوگوں میں اس کی بات خراب ہو جائے، یا ایسی تدبیریں کرنے لگا جس سے اس شخص کو ذہنی، جسمانی یا مالی نقصان پہنچ جائے۔
حسد کا علاج علمی بھی ہے اور عملی بھی۔
حسد کا علمی علاج
حسد کا علمی علاج یہ ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کرے کہ اس کے حسد سے صرف اس کو نقصان پہنچ رہا ہے، محسود (جس سے حسد کیا جائے) کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا، بلکہ محسود کو تو بغیر کسی محنت کے حاسد کے نیک اعمال کا ثواب پہنچ رہا ہے۔ اس کے بر عکس حاسد نہ صرف دنیا میں ناخوش اور دکھی ہے، بلکہ اپنی آخرت کو بھی خراب کر رہا ہے۔
حاسد کی آخرت کو اس طرح سے نقصان پہنچتا ہے کہ حسد اس کے نیک اعمال کو کھا جاتا ہے، اگر وہ محسود کی غیبت کرتا ہے تو اس کے نیک اعمال اور عبادات کا اجر محسود کو مل جاتا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ اس سے شدید ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں بخل کر رہا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو۔
دنیا میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ محسود کو خوش دیکھ کے ناخوش رہتا ہے اور دل ہی دل میں جلتا رہتا ہے۔ اس کے دماغ میں ہمیشہ یہی جلن اور کڑھن کے خیالات گھومتے رہتے ہیں اور وہ اسی فکر میں پیچاں و غلطاں رہتا ہے کہ کس طرح سے محسود کو نقصان پہنچا دے۔ اس کے نتیجے میں خود اس کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہوتی ہیں وہ ان پہ خوش نہیں ہو پاتا اور ان سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ حسد سے صرف اس کی اپنی زندگی خراب ہوتی ہے، محسود کی زندگی کو ا س سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
حسد کا عملی علاج
حسد کا عملی علاج یہ ہے کہ اگرچہ حاسد کا دل یہ چاہتا ہے کہ وہ محسود کو سب کے سامنے بے عزّت کردے اور اسے نقصان پہنچائے، لیکن اپنے اختیار سے دل کے اس تقاضے کو دبائے اور جو اس کا دل چاہ رہا ہے محسود سے اس کا بالکل الٹا معاملہ کرے۔ مثلاً اس کا دل تو یہ چاہ رہا ہے کہ سب کے سامنے ایسی باتیں کرے اور ایسا رویّہ اختیار کرےکہ محسود ذلیل ہو اور اس کی عزّت گھٹ جائے، لیکن اس تقاضے کو دبا کے سب کے سامنے محسود کی تعریف کرے، اس سے عزّت و تکریم کا معاملہ کرے، محسود کو اللّٰہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پہ سب کے سامنے خوشی کا اظہار کرے، اور باقاعدگی سے سب کے سامنے بھی اور اکیلے میں بھی دعا کرتا رہے کہ محسود کو جو نعمتیں ملی ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان میں اور بھی اضافہ اور برکت عطا فرمائیں۔ جب وہ یہ سب کرے گا تو شروع میں اس کے دل پہ آرے چل جائیں گے اور دل کٹ جائے گا۔ لیکن اگر وہ باقاعدگی سے یہ سب سامنے اعمال کرتا رہے گا تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں محسود کے لیے نیک جذبات پیدا ہو جائیں گے، اور جیسے جیسے اس اس کے دل میں محسود کی طرف دشمنی کے جذبات میں کمی آئے گی، ویسے ویسے حسد کا خاتمہ ہوتا جائے گا۔
دوستوں اورغیر دوستوں کی طرف طبعی جذبات میں فرق
ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ تو بالکل طبعی بات ہے کہ دوستوں اور غیر دوستوں کی طرف ہمارے جذبات میں فرق ہو۔ یہ بات تو طبعی ہے اور ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ دوست کی ترقی ہر سمجھدارانسان کو اچھی لگتی ہے، اور اور جس کی طرف انسان کے دل میں بغض اور ناراضگی ہو اس کی ترقی کسی بھی انسان کو اچھی نہیں لگتی۔ اور اگر یہ بات طبعی ہے اور ہمارے اختیار میں نہیں ہے تو اس پہ مواخذہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اس حد تک تو یہ بات صحیح ہے،اور اسی حد تک رہے تو گناہ بھی نہیں۔ لیکن اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ یہ جذبات بڑھ کے اس حد تک نہ پہنچ جائیں جب وہ اختیاری اعمال میں بدل جائیں، اور جن کے لیے ہم سے مواخذہ ہو گا۔ اس سلسلے میں دو باتوں کی احتیاط کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی انسان کی طرف جیسے بھی جذبات رکھتے ہوں، ہمیں ان جذبات کو اپنے الفاظ اور اپنے اعمال پہ اثر انداز ہونے سے روکنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے دل میں کسی دوسرے کی طرف جیسے بھی جذبات ہوں ہمیں ان جذبات کے زیِر اثر ان کی غیبت کرنے اور ان کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی کوششوں سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں اپنے اختیار سے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ہم ان بغض کے جذبات کو زبردستی دبائیں، اور وہ باتیں کہیں اور وہ کام کریں جو ان کے بالکل برعکس ہوں جو ہم ان بغض اور ناراضگی کے جذبات کے زیرِ اثر کرتے، مثلاً یہ کہ سب لوگوں کے سامنے ان کی تعریف کریں اور ان کے لیے دعا کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے ان ناراضگی اور بغض کے جذبات اور خیالات کو غلط سمجھیں، اور اپنے آپ کو یہ یاددہانی کرواتے رہیں کہ دوسروں کی طرف دل میں بغض رکھنے سے ہمارے اپنے دین کو نقصان پہنچے گا۔
اگر یہ دو کام کرنے کے بعد بھی غیر ارادی طور پر ہمارے دل میں دوستوں اور ان لوگوں کی طرف جن سے ہماری دوستی نہیں ہمارے جذبات اور خواہشات میں فرق رہے، مثلاً یہ کہ دل چاہے کہ دوست خوش رہیں اور دشمن خوش نہ رہیں، پھر اس کی طرف زیادہ توجّہ نہ دیں کیونکہ نہ ہی انسان غیر ارادی افعال کا مکلّف یعنی جوابدہ ہے، اور نہ ہی وہ گناہ ہوتے ہیں۔ البتّہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں کہ کسی بھی انسان کے لیے اپنے دل میں بغض نہ رکھیں اور یہ خواہشات نہ رکھیں کہ اس کو نقصان پہنچے۔ جن لوگوں کی طرف آپ کے دل میں حسد ہو ان کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں چاہے دل کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ سب انسان اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اور اگر اللّٰہ تعالیٰ اپنی کسی مخلوق کو آرام میں اور خوشی میں رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ہمیں اپنی خوشی اور مرضی کو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دینا چاہیے، اور اس پہ خوش اور مطمئن رہنا چاہیے جو انہوں نے ہمیں عطا فرمایا، اور جو انہوں نے دوسروں کو عطا فرمایا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا، "ہر پیر اور جمعرات کے دن اعمال (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) پیش کیے جاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان دنوں میں ہر ایسے شخص کی مغفرت کر دیتا ہے، جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، ماسوائے اس شخص کے، جس کی اپنے کسی بھائی کے ساتھ ناراضگی ہو، تو حکم ہوتا ہے ان دونوں کو اس وقت تک رہنے دو، جب تک یہ دونوں صلح نہیں کر لیتے۔ ان دونوں کو اس وقت تک رہنے دو، جب تک یہ دونوں صلح نہیں کرلیتے"۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ "میں اس شخص کو جنّت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے بچنے کی خاطر اپنا حق چھوڑ دے۔"
بغض کی تعریف
بغض کا مطلب ہے کسی دوسرے انسان کی طرف اپنے دل میں اتنی نفرت اور ناراضگی رکھنا کہ اس کے دل و دماغ میں ہر وقت یہ خیالات اور خواہشات رہیں کہ کسی طرح اس دوسرے شخص کو نقصان پہنچ جائے، اس کی آبرو اور نیک نامی خراب ہو جائے، اس کی صحت تباہ و برباد ہو جائے، اس کو مالی یا جانی نقصان پہنچ جائے۔
بغض کا علاج
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ بغض عام طور سے حسد سے پیدا ہوتا ہے، ا سلیے بغض کو ختم کرنے کے لیے انسان کو پہلے اپنے دل سے حسد کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ حسد کے علاج کی تفصیل پہلے آ چکی ہے مگر مختصراً یہ کہ حسد کو ختم کرنے کے لیے سب سے آسان اور بہترین علاج یہ ہے کہ جس شخص سے حسد محسوس ہو باقاعدگی سے اللّٰہ تعالیٰ سے اس کی فلاح، بہتری اور ترقی کے لیے دعا کیا کرے۔
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بغض سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں دوسرے لوگوں کی طرف سے امیدیں، توقعات اور خواہشات ختم کر دے کہ وہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے یا ایسا معاملہ کیا کریں۔ جب کسی سے توقع ہی نہیں رکھے گا تو کسی کی کسی بات سے مایوسی اور ناراضگی بھی نہیں ہو گی، کیونکہ اگر وہ اچھا معاملہ کرے گا تو اس سے غیر متوقع خوشی ملے گی، اور اگر وہ برا معاملہ کرے گا تو چونکہ پہلے سےاس سے اچھے معاملے کی امیدیں تھیں ہی نہیں اس لیے وہ امیدیں نہیں ٹوٹیں گی۔
حضرت تھانوی ؒ نے بغض کا ایک اور علاج یہ بتایا کہ جب کبھی تم کسی سے اچھا معاملہ کرو تو اس نیّت سے کرو کہ میں یہ کام اللّٰہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کر رہا ہوں۔ اگر تم واقعی اس نیّت سے دوسروں سےاچھائی کرو گے تو کبھی یہ امید باندھ کر نہیں بیٹھو گے کہ جواب میں یہ بھی میرے ساتھ اچھائی کرے گا۔ اب اگر وہ مستقبل میں تمہارے ساتھ اچھا معاملہ نہ بھی کرے تو اس سے دل میں ناراضگی نہیں پیدا ہو گی کیونکہ تمہاری نیّت تو شروع سے یہ تھی کہ انشاء اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا اجر ملے گا، یہ نیّت تو تھی ہی نہیں کہ اس بندے سے اس کا بدلہ ملے گا۔ اس وجہ سے مایوسی اور ناراضگی نہیں ہو گی۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا، "اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللّٰہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے۔ اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے۔ جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہو گا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللّٰہ ہی کے لیے ہے، اورجو عمل بھی تم کرتے ہو اللّٰہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (۳: ۱۸۰)
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا "اپنے آپ کو بچاؤ بخل سے کہ اس نے پہلی امّتوں کو ہلاک کر دیا ہے۔" (تبلیغِ دین)
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ بخل کی حقیقت مال کی محبّت (حبِّ مال) ہے۔ حبِّ مال کی وجہ سے انسان کا دل اس عارضی دنیا کی طرف راغب ہوتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت میں کمی ہو جاتی ہے۔ جب مرنے کا وقت آتا ہے تو بخیل شخص کو اپنے تمام مال و متاع کو پیچھے چھوڑ جانے کے خیال سے اس قدر شدید وحشت ہوتی ہے کہ (معاذ اللّٰہ) اس کو اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات کا کوئی اشتیاق نہیں ہوتا۔
حبِّ مال کلّی طور پہ قابلِ ملامت نہیں کیونکہ یہ وہ سواری ہے جس پہ سوار ہو کے انسان اس عارضی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ یہ بالکل جائز ہے کہ انسان محنت کر کے اتنا مال و متاع کمائے جتنی اس کی ضرورت ہو۔ لیکن اس دنیا کے لیے مال کمانے میں انسان اتنا منہمک ہو جائے کہ آخرت کو اورابدی زندگی کو بھول جائے، یہ راستہ تباہی کا ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا، "اے عائشہ! مجھ سے ملنا چاہو تو اتنی ہی دنیا پر قناعت کرو جتنا مسافر کا توشہ ہوتا ہے کہ جب تک پیوند نہ لگ جایا کرے اس وقت تک کرتا نہ اتارا کرو۔ الٰہی! محمد کے متعلقین کی معاش بقدرِ کفایت ہی رکھیو، اور زیادہ نہ دیجیو، ورنہ ہلاک ہو جائیں گے۔" (تبلیغِ دین)
بخل کی تعریف
شرعی اعتبار سے بخل کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی اس قدر شدید محبّت ہو کہ انسان ان مواقع پہ بھی مال خرچ نہ کرے جہاں شریعت نے اسے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ۔
شدّت کے اعتبار سے بخل کے تین درجات ہیں:
بخل کا پہلا اور سب سے کمتر درجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے دل میں مال کی اتنی شدید محبّت ہو کہ اسے مال خرچ کرتے ہوئے شدید تکلیف ہو اور دل دکھے، لیکن وہ اپنے دل پہ جبر کر کے مال کی اس محبّت اور اپنے دل کی تکلیف کو دباتا ہے اور جہاں شریعت نے اسے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں اسے خرچ کرتا ہے۔
بخل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان وہاں تو مال خرچ کرتا ہے جہاں شریعت نے اسے فرض و واجب قرار دیا ہے، مثلاً زکوٰة ادا کرنا، اور اپنے متعلقین پر صرف اتنا خرچ کرنا کہ ان کی بالکل ہی بنیادی ضروریات تو پوری ہو جائیں، لیکن ان کو مالی وسعت رکھنے کے باوجود آرام و آسائش نہ پہنچائے۔ ایسا انسان ان مواقع پہ بالکل بھی مال خرچ نہیں کرتا جہاں شریعت نے اسے مستحسن قرار دیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کو قانونی اعتبار سے فرض و واجب قرار نہیں دیا، مثلاً اپنے متعلقین پہ اپنی آمدنی کے اعتبار سے اتنا خرچ کرنا کہ وہ آرام دہ اور پر سکون زندگی گزار سکیں، یا نفلی صدقات و خیرات دینا۔ اس درجہٴ بخل میں انسان شریعت کے قانون کے تقاضے تو پورے کر دیتا ہے، لیکن اس کی روح کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
بخل کا تیسرا اور سب سے سنگین درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی اتنی شدید محبت پیوست ہے کہ شریعت نے اس پہ جو مالی فرائض و واجبات عائد کیے ہیں، مثلاً زکوٰة دینا، یا اپنے اہل و عیال کی ضروری کفالت کرنا،وہ ان کو بھی پورا نہیں کرتا۔ بخل کا یہ درجہ حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے۔
بخل کا علمی علاج
بخل کا علمی اور عقلی علاج یہ ہے کہ انسان اس پر غور کرے کہ بخل سے دنیا میں بھی بدنامی اور رسوائی ہوتی ہے، اور آخرت بھی برباد ہوتی ہے۔ انسان کے پاس اس دنیا میں جتنا بھی مال و متاع ہو وہ یہیں رہ جائے گا اور اگلی زندگی میں اس کے ساتھ نہیں جائے گا۔ اس دنیا میں انسان کو جو بھی مال دیا گیا ہے وہ اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اس مال کو اس دنیا میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے، اور آخرت کے لیے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرنے کے لیے خرچ کرے ۔
اگر وہ اس مال کو صرف اور صرف اپنی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرنے میں خرچ کر دے گا تو وہ آخرت میں جب پہنچے گا تو بالکل خالی ہاتھ ہو گا کیونکہ اس نے اپنا کوئی بھی مال صدقے کی شکل میں اپنی اگلی زندگی میں اپنے کام آنے کے لیے نہیں بھیجا ہو گا۔
اگر وہ اس مال کو صرف جمع کرتا رہے گااور بالکل بھی خرچ نہیں کرے گا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اپنے مال سے نہ اس زندگی میں کچھ فائدہ اٹھایا اور نہ اگلی زندگی میں فائدہ اٹھائے گا۔ وہ جو کچھ جمع کر رہا ہے صرف اور صرف اپنے وارثوں کے لیے جمع کر رہا ہے، کیونکہ جب ایک دن اس کا بلاوا آ جائے گاتو یہ سب مال یہیں پڑا رہ جائے گا اور وارثوں کی ملکیت بن جائے گا۔ اس کے وارث تو خوش ہوں گے لیکن اس مال کا اس کو کیا فائدہ پہنچا، چاہے اس زندگی میں، چاہے اگلی زندگی میں؟
اگر ایک انسان ان سب باتوں پر غور کرتا رہے تو انشاٴاللّٰہ آہستہ آہستہ اس کے بخل میں کمی آئے گی اور جہاں اس کے لیے مال خرچ کرنا ضروری ہو گا وہاں وہ مال خرچ کر سکے گا۔
بخل کا عملی علاج
بخل کا عملی علاج یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے طبعی تقاضوں کو جبراً کچلے، اور وہاں مال خرچ کرے جہاں شریعت نے اسے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے یا اس کی ترغیب دی ہے۔جب صحیح جگہ پہ مال خرچ کرنے کا وقت آئے تو انسان اپنے آپ کو یاد دلائے کہ قرآن و حدیث میں شریعت کے تقاضوں اور احکامات کے مطابق مال خرچ کرنے کے کتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں، اور پھر چاہے دل پہ کتنا ہی بوجھ ہو اور اس کو کتنا ہی گراں گزرے، اپنے آپ کو مجبور کر کے اس جگہ پہ مال خرچ کرے۔ اگر وہ ایک مدّت تک اپنے آپ کو مجبور کر کے ایسا کرتا رہے گا تو انشاٴ اللّٰہ تعالیٰ اس کے باطن میں بخل کا مادہ بھی کمزور پڑ جائے گا اور اس کی مال خرچ کرنے کی عادات بھی شریعت کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جائیں گی۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے امّتِ مسلمہ کو معتدل امّت قرار دیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے شریعت نے ہر معاملے میں مسلمانوں کو اعتدال اپنانے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح بخل اور کنجوسی کرنا منع ہے اور ایک حد سے گزر جانے کے بعد گناہ بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح فضول خرچی کرنا اور اسراف کرنا بھی منع ہے اور ایک حد سے گزرنے کے بعد یہ بھی گناہ ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمٰن کے بندوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئےفرمایا،
"اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ ان کا طریقہ اس (افراط و تفریط) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔" (۲۵: ۶۷)
اور فرمایا،
"۔۔۔اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔" (۶: ۱۴۱)
اور ایک اور جگہ فرمایا،
"۔۔۔ اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔ اور یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں۔۔۔" (۱۷: ۲۶ تا ۲۷)
تبذیر اور اسراف
قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے کے عمل کے لیے دو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں، تبذیر، اور اسراف۔ حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ تبذیر کا مطلب ہے ایسی جگہوں پہ پیسے خرچ کرنا جو شرعاً حرام ہیں مثلاً شراب پینے، جوا کھیلنے یا گناہ کے کاموں میں پیسے خرچ کرنا۔ ایسی جگہوں پہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انسان پیسے کم خرچ کرے یا زیادہ، وہ دونوں صورتوں میں حرام ہے۔ اور اسراف کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس جگہ پیسے خرچ کر رہا ہے وہاں پیسے خرچ کرنا اپنی ذات میں تو جائز تھا، لیکن انسان وہاں بے انتہا اور حد سے زیادہ پیسے خرچ کر رہا ہے، مثلاً اپنی مالی وسعت کے حساب سے اچھا کھانا کھانے یا اچھے کپڑے پہننے پہ پیسے خرچ کرنا تو جائز تھا، لیکن انسان دوسروں کے مقابلے میں آ کے یا بے جا خواہشات کے زیرِ اثران چیزوں پہ اتنے زیادہ پیسے خرچ کرنے لگے کہ مقروض ہو جائے، یا اپنے بیوی بچوں کو مالی تنگی میں مبتلا کر دے، تو ایسی صورت میں یہی خرچ ناجائز ہو جاتا ہے۔
یہ کیسے پتہ چلے کہ کس حد تک پیسے خرچ کرنا جائز ہے، اور اس کے بعد ناجائز؟
یہ سمجھانے کے لیے کہ کس حد تک پیسے خرچ کرنا جائز ہے، اور اس کے بعد ناجائز ہو جاتا ہے، حضرت تھانویؒ نے اپنا ذاتی مکان بنانے کی مثال دی ہے ۔
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ پہلا مقصد جس کے لیے انسان اپنا گھر بنانے پہ مال خرچ کرتا ہے وہ ہے رہائش، جس کا مقصد ہے کہ انسان قدرتی عناصر مثلاً بارش، دھوپ، تیز ہوا، اور اس کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں وغیرہ سے بھی محفوظ رہ سکے۔ اس مقصد کے لیے صرف چار کچی دیواریں کھڑی کر لینا اور اس پہ ایک چھت ڈال لینا بھی کافی ہے۔
دوسرا مقصد جس کے لیے انسان اپنے گھر پہ پیسے خرچ کرتا ہے وہ ہے آسائش۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھر میں اچھا فرنیچر بھی ڈلوا لیا کہ آرام سے بیٹھ سکے یا لیٹ سکے، کھڑکیاں بھی لگوا لیں کہ ان سے ٹھنڈی ہوا آتی رہے۔ زمین پہ قالین ڈلوا لیا کہ چلنے میں آرام رہے۔
تیسرا مقصد جس کے لیے انسان اپنے گھر پہ پیسے خرچ کرتا ہے وہ ہے آرائش۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رہائش اور آسائش کا کام تو خالی سیمنٹ کی بے رنگ دیواروں سے بھی چل سکتا تھا لیکن وہ آنکھوں کو اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے دیواروں پہ رنگ کروا لیا۔سامنے پھول پتے لگوا لیے تا کہ شام میں جب کام سے گھر آئیں تو دیکھ کے اپنے دل کو اچھا لگے۔ تو یہ آرائش وہ ہے جو اپنی آنکھوں کو گھر اچھا لگنے کے لیے کی۔
چوتھی وجہ جس کے لیے بعض لوگ اپنے گھر پہ پیسے خرچ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس گھر کو دیکھ کے کہیں کہ واہ واہ کیا گھر ہے، اس سے اچھا گھر تو کسی کا بھی نہیں ہے، یہ گھر ضرور کسی بہت امیر آدمی کا ہو گا۔ تو گھر پہ خرچہ اس لیے نہیں کیا کہ خود کو اچھا لگے، بلکہ اس لیے کیا کہ دوسرے لوگ اس سے مرعوب ہوں، اس کی تعریف کریں، اس کو بڑا سمجھیں۔ اس کو نمائش کہتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ رہائش جائز ہے، آسائش جائز ہے، آرائش جائز ہے، لیکن نمائش بالکل جائز نہیں، یہ شرعاً حرام ہے۔
یہی اصول اور بہت طرح کے خرچوں مثلاً اپنے کپڑوں، اپنی گاڑی، اپنے کھانے، سب پہ منطبق ہوتے ہیں۔
اسراف کا علاج
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ جس شخص کو خود فکر ہو، یا کوئی دوسرا اس کی اس طرف توجّہ دلائے کہ وہ فضول خرچی میں مبتلا ہے ،تو اس کو اپنے آپ کو حد سے زیادہ خرچ کرنے سے روکنے کے لیے دو کام کرنے چاہیئیں۔
پہلا تو یہ کہ جب بھی مال خرچ کرنے کا موقع آئے اس سے پہلے دیکھ لے کہ اگر وہ اس موقع پہ مال خرچ نہ کرے تو دنیا یا دین کا کوئی نقصان تو نہیں ہو گا۔ دنیا کے نقصان کی مثال ایسے ہے کہ اگر ایک شخص بیمار ہو اور علاج پہ خرچ نہ کرے تو اس سے دنیا کا نقصان ہو گا کہ اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور وہ اپنا کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اور دین کا نقصان مثلاً اس طرح سے کہ بیوی بچوں پہ کوئی ضروری خرچہ کرنا ہے، اگر وہ نہیں کرے گا تو اس سے بیوی بچوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو دین کا ضرر ہے کہ انسان وسعت ہوتے ہوئے بھی اپنے لواحقین کے حقوق پورے نہ کرے۔ حضرت تھانوی ؒ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کوئی حقیقی نقصان ہونا چاہیے، وہمی نقصان نہیں، مثلاً یہ کہ فلاں موقع پہ میں نے بہت شاندار کھانا نہ کھلایا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس لیے لوگوں میں اپنے آپ کو امیر ثابت کرنے کے لیے خرچہ کرتا ہے۔یہ کوئی حقیقی نقصان نہیں بلکہ وہمی نقصان ہے۔
دوسرا کام یہ کرے اگر اس کو ایسا لگے کہ اس موقع پہ مال خرچ نہ کیا تو واقعی میں کوئی حقیقی نقصان پہنچے گا تو کسی ایسے شخص سے مشورہ کر لے جو قابلِ بھروسہ بھی ہو اور اس کی رائے اس معاملے میں معتبر بھی ہو، کہ اس موقع پہ خرچ کروں یا نہ کروں، اور اگر کروں تو کتنا کروں۔ اگر کچھ عرصے تک باقاعدگی سے ایسا کرتا رہے گا تو انشاٴ اللّٰہ اس کی سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ہو جائے گی اور فضول خرچی کا ارتکاب نہیں ہو گا۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
"وہ آخرت والا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں نہ تو بڑائی چاہتے ہیں، اور نہ فساد، اور آخری انجام پرہیزگاروں کے حق میں ہو گا۔" (۲۸: ۸۳)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
"بکریوں کے گلّے میں دو بھیڑیے آ پڑیں تو وہ اتنا نقصان نہ کریں گے جتنا مال و جاہ کی محبّت دیندار مسلمان کے دین کا نقصان کرتی ہے۔" (تبلیغِ دین)
حبِّ جاہ کی حقیقت
حبِّ جاہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان چاہے کہ لوگوں کے دلوں پہ اس کا اتنا اثر اور اختیار ہو کہ وہ اس کے تابع ہو جائیں، اس کی تعریف و تعظیم کرتے رہیں، اس کی ہر خواہش کو پورا کریں، اور اس کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیں۔
ہر انسان کے دل میں کچھ نہ کچھ حد تک یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اردگرد کے لوگ ا سکی عزّت کریں اور اس سے عزّت سے پیش آئیں۔ لیکن بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ ان میں کچھ اتنی غیر معمولی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں کہ کوئی دوسرا ان جیسا اور ان کے برابر نہیں ہے۔ امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین صرف اللّٰہ تعالیٰ کے لیے صحیح ہے کیونکہ وہی ایک ذات ایسی ہے جو مکمل تنہا اور یکتا ہے اور ا سکی تمام صفات ایسی ہیں کہ ان صفات میں بھی وہ تنہا و یکتا ہے۔ سو جو شخص سب دوسروں سے یکتا اور بہتر ہونا چاہتا ہے وہ (معاذ اللّٰہ) اللّٰہ تعالیٰ کی برابری کرنا چاہتا ہے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان دوسرے سب لوگوں سے بڑا تو ہو نہیں سکتا، لیکن پھر بھی کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دل اس کے مطیع ہو جائیں، لوگ اس کو بڑا سمجھنے لگیں، اس کی تعظیم کرنے لگیں، اور وہ دنیا بھر میں مشہو ر ہو جائے۔
حبِّ جاہ کا انجام
ہر انسان کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ جس دن اس کی موت آئے گی، اس دن اس لمحے جتنا بھی اس نے مال و متاع جمع کیا ہو گا، جتنی بھی نام کمایا ہو گا، شہرت جمع کی ہو گی، رتبہ حاصل کیا ہو گا، سب کا سب یہیں پڑا رہ جائے گا۔ اگر اس نے بے شمار مال و دولت حاصل کیا ہو، بہت اعلیٰ رتبہ مناصب حاصل کیے ہوں تو پھر کیا؟ سب کے سب اسی مٹیّ میں مل کر خاک ہو جائیں گے۔ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ انسان وہ دولت جمع کرے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہے اور اس کے مرنے سے بھی ختم نہ ہو۔ وہ دولت ہے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا جو مرنے کے بعد بھی ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔
حبِّ جاہ کا علمی علاج
جب کوئی انسان ہماری تعریف کرے تو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ ہماری تعریف کس وجہ سے کر رہا ہے۔ اگر تو وہ ہمارے مال و دولت یا منصب کی وجہ سے ہماری تعریف کر رہا ہے تو یہ تو عارضی چیزیں ہیں جنہوں نے یہیں رہ جانا ہے۔ حقیقی زندگی میں ہم کتنی دفعہ ایسے واقعات دیکھ چکے ہیں کہ ایک انسان بہت امیر اور رئیس تھا، پھر اس کی قسمت نے پلٹا کھایا اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا اور سڑکوں پہ آ گیا۔ کسی کسی کے ساتھ تو زندگی میں ایسا ہوتا ہے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد ہم سب کے ساتھ ایسا ہونا ہے۔
اگر وہ ہماری دینداری، ہماری پرہیز گاری کی وجہ سے ہماری تعریف کر رہے ہیں تو اس میں دو امکانات ہیں۔ پہلا امکان تو یہ ہے کہ انسان حقیقت میں بہت نیک ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس کو پتہ ہونا چاہیے کہ اصل بات تو یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہو، اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہوں۔ اگر مخلوق راضی بھی ہوئی، خوش بھی ہوئی، تو اس سے کیا فائدہ؟ دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ انسان حقیقت میں نیک نہیں اور لوگ غلط فہمی کی وجہ سے اس کو نیک سمجھتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے اور لوگوں کی تعریف جھوٹی ہے، تو اس شخص سے زیادہ بڑا بیوقوف اور غافل کون ہو سکتا ہے جو اجنبی لوگوں کی تعریف کی وجہ سے اپنے آپ کو نیک اور پرہیز گار سمجھنا شروع کردے، اور اس بات کی فکر نہ کرے کہ کیا واقعی اس کے اعمال ایسے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہوں گے؟
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ ہر انسان خطا کار اور گناہ گار ہے۔ ہم میں سے ایسا کون شخص ہے جو دعویٰ کر سکے کہ ہم سے کبھی کوئی گناہ نہیں ہوتا؟ اس لیے جب کبھی کوئی ہماری تعریف کرے تو اس وقت فوراً اس کو اپنے آپ کو اپنے گناہوں کو یا ددلانا چاہیے، اور یہ سوچنا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ستّاری (ہمارے عیبوں کو چھپا کے رکھنا) کا کیا ٹھکانہ ہے کہ ہمارے گناہوں کو سب سے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اگر لوگوں کو ہماری حقیقت پتہ چل جائے کہ ہم اندر سے کتنے غلیظ ہیں تو وہی لوگ جو آج تعریف کرتے ہیں ہمارے منہ پہ تھوک دیں، اور آئندہ کبھی ہماری تعریف نہ کریں۔
حبّ ِ جاہ کا عملی علاج
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ جب لوگ کسی انسان کی اس کے منہ پہ تعریف کریں تو اسے انہیں فوراً روک دینا چاہیے۔ حضرت یہ بھی فرماتے تھے کہ بعض لوگ آہستہ سے کہتے ہیں کہ "نہیں نہیں، میں تو کچھ بھی نہیں ہوں،" اور ان کے دل میں یہ امید ہوتی ہے کہ لوگ جواباً کہیں گے کہ "نہیں نہیں حضرت۔ یہ تو آپ کی تواضع ہے۔ ورنہ تو آپ بہت بڑی ہستی ہیں۔" ایسا کرنا صحیح نہیں، بلکہ اسے لوگوں کو اتنی سختی سے منع کرنا چاہیے کہ وہ فوراً اس کی تعریف کرنا بند کر دیں۔
حبّ ِ جاہ کا دوسرا عملی علاج یہ ہے کہ انسان ان لوگوں سے بہت تعظیم سے اور بڑی عزّت سے پیش آئے جن سے وہ عمر میں یا رتبے میں بڑا ہو، یا مال و دولت میں زیادہ ہو، مثلاً اپنے ملازمین یا ماتحتوں سے۔ ان کے آنے پہ اٹھ کے کھڑا ہو کے ان کا استقبال کرے، ان سے آگے بڑھ کے ملے، ان کے بیٹھنے تک نہ بیٹھے، ان کے جانے پہ کھڑا ہو اور کچھ دور تک چھوڑنے جائے۔ جب وہ ایک زمانے تک ایسا کرتا رہے گا تو انشاٴ اللّٰہ اس کے دل میں تواضع پیدا ہو گی، اور اس کے دل سے حبّ ِ جاہ کا اور اس خواہش کا نام نشان مٹ جائے گا کہ لوگ اس کی تعظیم کریں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
"بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پہ عیب لگانے والا، (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو، جس نے مال اکٹھا کیا ہو، اور اسے گنتا رہتا ہو، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہرگز نہیں! اس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے،" (۱۰۴: ۱ تا ۴)
اور مزید فرمایا کہ،
"یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں، ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لئے بنایا ہے تا کہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے۔" (۱۸: ۷)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛
"حب الدنیا راس کل خطیئة" جس کا مفہوم یہ ہوا کہ "دنیا کی محبّت ہر خطا و گناہ کی بنیاد ہے"۔
مثنوی میں مولانا روم ؒ نے فرمایا کہ:
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر ایک شخص یہ چاہے کہ اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی بھی محبّت ہو اور دنیا کی بھی محبّت ہو تو یہ اس کی خام خیالی اور غلط فہمی ہے، کیونکہ یہ دونوں محبّتیں ایک دل میں رہ نہیں سکتیں۔
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس سے ملحقہ چیزیں صرف اس زندگی کے سفر کا توشہ یعنی سامانِ سفر ہیں۔ جب ایک انسان اس دنیا میں رہتا ہے تو بھوک لگنے پہ اس کو کھانا چاہیے ہوتا ہے، پیاس لگنے پہ اس کو پانی چاہیے ہوتا ہے، اس کو اپنے سر پہ ایک چھت چاہیے ہوتی ہے، اور ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اسے آمدنی کا کوئی نہ کوئی ذریعہ چاہیے ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کو ان سب چیزوں کی ضرورت بھی ہو، وہ انہیں استعمال بھی کرے، اور پھر بھی اس کے دل میں ان چیزوں کی بالکل بھی محبّت پیدا نہ ہو؟ مولانا رومیؒ نے اس سوال کا جواب ایک مثال کے ذریعے دیا ہے۔
آب اندر زیر کشتی پشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است
اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا دل ایک کشتی کی طرح ہے، اور اس کی مادّی ضروریات اور مال و دولت پانی کی طرح ہیں۔ جس طرح کشتی پانی کے بغیر چل نہیں سکتی، بالکل اسی طرح ایک انسان کو زندگی کے اس سفر کو طے کرنے کے لیے روپیہ پیسہ، کپڑے، کھانا، پانی، گھر، وغیرہ چاہیے ہوتا ہے۔ مگر جس طرح پانی کشتی کے لیے اسی وقت تک فائدہ مند ہے جب تک وہ کشتی کے باہر اور اس کے نیچے رہے، لیکن اگر پانی کشتی کے اندر آ جائے تو اسے ہلاک کر دے گا اور ڈبو دے گا، بالکل اسی طرح یہ تمام مادّی چیزیں انسان کے لیے اسی وقت تک فائدہ مند ہیں جب تک وہ انسان کے دل کے باہر رہیں، لیکن جس دن ان کی محبّت انسان کے دل کے اندر داخل ہو گئی وہ اسے ہلاک کر دیں گی۔
حبِّ مال و دنیا کی حقیقت
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے ایک دفعہ یہ قصّہ سنایا کہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب کسریٰ کے خزانے ان کے پاس آئے اور مسجدِ نبوی میں سونے چاندی کے ڈھیر لگ گئے، اس وقت حضرت فاروقِ اعظمؓ نے دعا فرمائی کہ، "یا اللّٰہ! ہم آپ سے یہ دعا تو نہیں کرتے کہ کہ اس مال کی محبّت کو بالکلیہ ہمارے دل سے ختم فرما دیجئے کیونکہ آپ نے خود قرآن کریم میں فرما دیا ہے،
ترجمہ: لوگوں کے لئے ان چیزوں کی محبّت خوشنما بنا دی گئی ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہیں، یعنی عورتیں، بچّے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں۔۔۔ (۳: ۱۴)
البتّہ یہ دعا کرتے ہیں کہ یا اللّٰہ! یہ دنیا کی محبّت کسی دینی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے، اور یہ محبّت کسی گناہ پر آمادہ نہ کرے۔"
معارف القرآن میں لکھا ہے کہ جب مکّہ مکرمہ سے عام ہجرت فرض ہو گئی تو کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جن کو خاندان یا مال و جائداد کی محبّت نے ہجرت کرنے سے روک دیا۔ اس وقت اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
ترجمہ: (اے پیغمبر! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے، اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں، تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللّٰہ اپنا فیصلہ فرما دے، اور اللّٰہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ (۹: ۲۴)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت دیکھئے کہ کسبِ دنیا (یعنی حلال رزق کمانا) سے منع نہیں کیا، اور نہ دنیا کی ایسی محبّت سے منع کیا جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی محبّت سے کم ہو، صرف اس بات سے منع کیا کہ ان چیزوں کی محبّت اللّٰہ اور اس کے رسول کی محبّت سے زیادہ نہ ہو۔ اب یہ کیسے پتہ چلے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی محبّت زیادہ ہے یا دنیا کی محبّت زیادہ ہے؟ اس کا جواب حضرت تھانوی ؒ نے یہ دیا کہ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر دنیا (یعنی خاندان یا مال و دولت) کی محبّت کے نتیجے میں اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ کے رسول ﷺ کے احکام کی اطاعت میں خلل آ جائے (مثال کے طور پہ اگر انسان زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں حلال حرام کی پرواہ کرنا چھوڑ دے)تو سمجھ لو یہ کہ دنیا کی محبّت اللّٰہ اور اس کے رسول کی محبّت پہ غالب آگئی۔ (اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھیں۔ آمین)
لیکن ایک انسان اگر اس نیّت سے حلال روزی کمانے کے لیے کوشش کرے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے جائز حقوق پورے کرے گا، اور اس میں اس بات کا خیال رکھے کہ اگر کوئی آمدنی حرام ذرائع سے آ بھی رہی ہو تو اسے بالکل ترک کر دے، تو وہ ان شاء اللّٰہ اس حدیثِ نبوی کا مصداق ہو جائے گا کہ ،
"کسب الحلال فریضة بعد الفریضة"
جس کا مفہوم یہ ہوا کہ حلال روزی کمانا فرض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے۔
حبِّ دنیا کا علمی علاج
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حبِّ دنیا کا علاج یہ ہے کہ انسان بار بار اس بات پہ غور کرے کہ اس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔ اس باب کے شروع میں قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ نقل کیا گیا تھا جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے جو کہ بلا شک و شبہ کے سچّا ہے، اور وہ وعدہ یہ ہے کہ جس شخص نے مال جمع کیا ہو اور وہ اسے گنتا رہتا ہو (کہ اب کتنا بڑھ گیا)، وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہم سب کی اس فانی زندگی کو ایک دن ختم ہونا ہے۔ پھر وہ دن آئے گا جب ہم سب کو اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس دن ہم نے اس دنیا میں جتنے بھی اعمال کیے ہیں ان کا حساب دینا ہو گا۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر انسان اپنے آپ کو کثرت سےاس دن، یعنی روزِ جزا و سزا، کی یاد دلاتا رہے تو اس بات کا خطرہ بہت حد تک کم ہو جائے گا کہ وہ اس فانی زندگی کی عیش و عشرتوں میں اتنا گم ہو جائے کہ آخرت کو بالکل بھول جائے۔
امام غزالیؒ نے اربعین میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں نظر پڑی کہ ایک بکری کا مرا ہوا بچّہ، جس کے کان کٹے ہوئے تھے ،پڑا ہوا تھا، اور اس کی تعفّن کی بدبو پھیل رہی تھی۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے پوچھا کہ کوئی ہے جو بکری کے اس مردار بچّے کو ایک درہم کے بدلے خریدے؟ صحابہ رضی اللّٰہ عنہما نے عرض کیا کہ "یا رسول اللّٰہ ﷺ! اگر یہ بکری کا بچّہ زندہ بھی ہوتا تو کوئی اس کو ایک درہم کے بدلے نہ خریدتا کیونکہ اس کے تو کان کٹے ہوئے ہیں۔ اس مردار بچّے کو ایک درہم میں کون خریدے گا؟" رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ "یہ پوری دنیا اور اس میں جتنا بھی مال و دولت ہے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی حیثیت اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنی تمہاری نظر میں بکری کے اس مردار بچّے کی حیثیت حقیر ہے۔"
انسان کو یہ چاہیے کہ بار بار اپنے آپ کو یہ یاد دلاتا رہے کہ اسے ایک دن مرنا ہے، اور کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اسے آج مرنا ہے، کل مرنا ہے یا پرسوں مرنا ہے۔ کسی کو بھی یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک گھنٹے بعد بھی زندہ ہوگا کہ نہیں۔ اور جب وہ لمحہ آ جائے گا تو ہم نے دنیا میں جتنا بھی مال و دولت جمع کیا ہو گا وہ یہیں پڑا رہ جائے گا اور ہم اسے ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔ پھر ہم کیوں اپنا سارا وقت اور توانائی ایسی چیز کو حاصل اور جمع کرنے میں گزارتے ہیں جو اتنا عارضی ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ایک گھنٹے بعد بھی یہ مال ہمارا ہو گا کہ نہیں، اور اس وقت اور توانائی کو ان نیکیوں کو حاصل اور جمع کرنے پر کیوں نہیں گزارتے جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی؟
حبّ ِ مال کا عملی علاج
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حبّ ِ مال کا عملی علاج وہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں قارون کا قصّہ بیان کرتے ہوے فرمایا کہ،
قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر اس نے ان ہی پر زیادتی کی۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیئے تھے کہ اس کی چابیاں طاقت ور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اٹھتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ: "اتراؤ نہیں، اللّٰہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور اللّٰہ نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو، اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو، اور جس طرح اللّٰہ نے تم پر احسان کیا ہے، تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو، اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو۔۔۔" (۲۸: ۷۶ تا ۷۷)
قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے یہ حکم نہیں دیا کہ اپنے سارے خزانے دوسروں کو دے دو اور خود مفلسی کی زندگی گزارنے لگو، بلکہ اس سے یہ کہا گیا کہ اس دنیاوی مال و متاع میں سے اپنا حصّہ رکھو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مال و متاع سے اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ وہ کس طرح؟ وہ اس طرح کہ (۱) جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں یہ دولت دے کے تم پہ احسان کیا ہے، تم بھی اس دولت کا کچھ حصّہ دوسرے لوگوں کو دے کے ان پہ احسان کرو، اور (۲) اس دولت سے دنیا میں فساد مت پھیلاؤ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دولت کو حرام ذرائع مثلاً ڈاکہ، چوری، دھوکہ دہی، سے حاصل مت کرو، اور اس کو حرام کاموں میں خرچ مت کرو۔
ایک دفعہ ایک سلسلہ گفتگو میں حضرت نے فرمایا کہ حبِّ مال نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان روزی کمانا چھوڑ دے اور گھر بار لوگوں میں تقسیم کر دے۔ بلکہ صرف ان باتوں پہ عمل کرنے سے انشاٴ اللّٰہ حبِّ مال میں کمی ہو جائے گی۔
ارادہ کر لے کہ آئندہ انشاٴ اللّٰہ ایک پیسہ بھی ناجائز ذرائع سے نہیں حاصل کروں گا۔
ارادہ کر لے کہ آئندہ انشاٴ اللّٰہ ایک پیسہ بھی ناجائز کاموں میں خرچ نہیں کروں گا۔
جو کچھ نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہوں، ان پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔
انسان کو چاہیے کہ واجب صدقات کے علاوہ بھی کچھ مال انفاق فی سبیل اللّٰہ میں خرچ کیا کرے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ اپنی آمدنی کا کچھ مخصوص حصّہ متعیّن کر کے مثلاً پانچ فیصد، دس فیصد، یا بیس فیصد، ہر آمدنی سے اتنا الگ کر کے رکھ لیتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ کا بیس فیصد نکالنے کا معمول تھا۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی مصرفِ خیر سامنے آتا ہے تو رقم نکالنے میں اپنے اوپر جبر نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ علیحدہ لفافہ پڑا یاد دلاتا رہتا ہے کہ میرے لئے کوئی مصرف تلاش کرو۔
مزید فرمایا کہ لوگوں کو جب اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو وہ عموماً یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے پاس تو مال ہی نہیں۔ ان سے میں کہا کرتا ہوں کہ کیا تمہارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں؟ جس آدمی کے پاس سو روپے ہوں اور وہ ان میں سے ایک روپیہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے، اسے انشاٴ اللّٰہ تعالیٰ وہی ثواب ملے گا جو اس آدمی کو ملے گا جس کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں اور وہ ان میں سے ہزار روپے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مقدار کی قیمت نہیں، نیّت کی اور اخلاص کی قیمت ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت لقمان ؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا،
"اور لوگوں کے سامنے (غرور سے) اپنے گال مت پھلاؤ، اور زمین پر اتراتے ہوئے مت چلو۔ یقین جانو اللّٰہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔" (۳۱: ۱۸)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
" ’’ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہو گا۔‘‘
تکبّر کی حقیقت
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ تکبّر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے اتنا برتر اور افضل سمجھنے لگے کہ اس کو یہ لگنے لگے کہ دوسرے تمام لوگ اس کے سامنے حقیر اور کمتر ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان اپنی کسی ایک خوبی مثلاً مال و دولت، علم، صحت، حسب نسب، یا شکل صورت، کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے کہ وہ سب سے برتر ہے، اور دوسرے تمام لوگ اس سے کمتر ہیں۔
تکبّر سے ملتی جلتی ایک باطنی صفت عجب (تلفّظ عُجُب) (خود پسندی) ہوتی ہے۔ عجب میں انسان اپنے آپ کو بہت اچھا مثلاً بہت پرہیزگار سمجھتا ہے، لیکن دوسروں کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھتا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
تکبّر کا عکس، یعنی اس کا بالکل الٹ، ایک باطنی صفت ہوتی ہے جسے تواضع کہتے ہیں۔ اردو میں اس کے مفہوم کے قریب ترین الفاظ انکساری یا منکسر مزاجی ہوں گے۔ اس میں انسان کو یہ لگتا ہے کہ وہ سب سے کمتر ہے، اور دوسرے سب لوگ اس سے بہتر ، اس سے اچھے، اس سے زیادہ نیک ہیں۔ ایک دفعہ راقم نے مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم سے پوچھا کہ کیا تواضع پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ جو انسان احساس ِ کمتری کا شکار ہوتا ہے اس کے دل میں یہ شکایت ہوتی ہے کہ میں مستحق تو زیادہ کا تھا لیکن مجھے کم ملا۔اس کے برعکس جس شخص کے دل میں تواضع ہوتی ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں مستحق تو اس سے بھی بہت کم کا تھا، یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مجھے اتنا کچھ دے دیا۔ اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہوتاہے۔
اگر کوئی شخص واقعی علم یا دولت میں دوسروں سے زیادہ ہو تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم کیسے سمجھے؟
بہت دفعہ واقعی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص واقعی میں دوسروں سے علم میں یا دولت میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص پورے قرآن کریم کا حافظ ہے جب کہ دوسرے کو صرف چند سورتیں یاد ہیں۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ ایسی صورت میں اگر پہلا شخص یہ سمجھے کہ مجھے قرآن اس دوسرے سے زیادہ یاد ہے تو یہ تکبّر نہیں، یہ تو حقیقت ہے۔تکبّر کی حقیقت اپنے آپ کو اکمل (زیادہ کمال والا) سمجھنا نہیں، یعنی یہ سمجھنا نہیں مجھے فلاں کام اس دوسرے سے زیادہ آتا ہے۔ تکبّر کی حقیقت اپنے آپ کو افضل سمجھنا ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ چونکہ مجھے اس سے زیادہ قرآن یاد ہے اس لیے میں اس سے بہتر ہوں، اس سے برتر ہوں، اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ مقبول ہوں، اس سے زیادہ متّقی اور پرہیزگار ہوں۔ (معاذ اللّٰہ)
حضرت فرماتے تھے کہ اس کے برعکس اگر وہ شخص یہ سمجھے اور دل میں یقین رکھے کہ میرے پاس علم یا دولت تو اس سے زیادہ ہے، لیکن یہ میرے اللّٰہ کی عطا ہے، ان کا احسان اور رحمت ہے، اللّٰہ تعالیٰ جب چاہیں مجھ سے یہ نعمتیں واپس لے لیں اور کسی دوسرے کو دے دیں، تو اس طرح کے اعتقادات رکھنے کا بہت بڑا اجر ہے۔ اسی طرح اگر وہ یہ سوچے اور اعتقاد رکھے کہ میرا علم یا میری دولت تو اس دوسرے انسان سے زیادہ ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کے نیک اعمال مجھ سے اتنے زیادہ ہوں اور اتنے وزنی ہوں کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک مجھ سے کہیں زیادہ مقبول ہو، تو اس طرح کے خیالات رکھنے کا بھی بہت اجر ملتا ہے۔
اس کے بر عکس اگر کوئی انسان اس طرح کے خیالات رکھے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ قارون نے کہا،
"کہنے لگا: یہ سب کچھ تو مجھے خود اپنے علم کی وجہ سے ملا ہے۔" (۲۸: ۷۸)
یعنی انسان اپنے علم پر یا اپنی دولت پر غرور کرنے لگے، یہ سمجھنے لگے کہ یہ سب کچھ اس کا اپنا ذاتی کمال ہے جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے، اور اس کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگے، تو پھر یہ تکبّر ہو جاتا ہے۔
تکبّر کے تین درجات
تکبّر کا پہلا درجہ انسان کے خیالات اور سوچوں کا ہے۔ اس میں انسان کے ذہن میں غیر ارادی طور پہ اس طرح کے خیالات آتے ہیں کہ اس کے پاس دوسروں سے زیادہ علم ہے اور مال و دولت ہے، لیکن اگر وہ ان خیالات کو خود اپنے اختیار سے بیٹھ کے سوچتا نہ رہے، ان باتوں پہ فخر نہ کرے، اور ان پہ عمل نہ کرے، تو اس سے ان غیر اختیاری خیالات کا مواخذہ نہیں ہو گا اور نہ ہی یہ گناہ ہیں۔
تکبّر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خود سے اور اپنے اختیار سے دیر دیر تک ان باتوں کو بیٹھ کے سوچنے لگا اور ان پہ فخر کرنے لگا کہ میرے پاس دوسروں سے زیادہ علم ہے، زیادہ مال و دولت ہے، میرا رتبہ دوسروں سے بڑا ہے۔ اگر انسان اپنے اختیار سے یہ باتیں سوچتا ہے تو اس سے ان خیالات کا بھی مواخذہ ہو گا۔ اس کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ان خیالات کو اپنے ذہن سے دور کرے اوراس طرح کے خیالات اس کے ذہن میں نہ آئیں۔
تکبّر کا تیسرا اور سب سے سنگین درجہ یہ ہے کہ اب ان فخریہ اور اپنے کو دوسروں سے بہتر سمجھنے والے خیالات کا اثر اس کے عمل اور دوسروں سے رویّے اور برتاؤ پہ پڑنے لگا، مثلاً یہ کہ دوسروں سے تحقیر آمیز انداز میں بات کرنے لگا، ان کو کمتر سمجھ کے ذلیل کرنے لگا، اور ایسا برتاؤ کرنے لگا جیسے کہ وہ سب سے برتر ہے اور دوسرے سب لوگ اس سے کمتر ہیں۔ تکبّر کا یہ درجہ اختیاری ہے، گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کا علاج کرنا لازمی ہے۔
تکبّر کی علامات
اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے کہ کسی انسان کے دل میں تکبّر ہے؟ کوئی خون کا ٹیسٹ، کوئی ایکس رے، ایسا نہیں جس سے دل میں تکبّر ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس بات کا علم کہ کسی انسان کے دل میں تکبّر ہے یا نہیں، یا تو اس کی باتوں سے ہو سکتا ہے، یا اس کے رویّے سے۔ جس انسان کے دل میں تکبّر کی بیماری ہوتی ہے اسے اتنا تو پتہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور بہتر سمجھتا ہے، لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ خیالات واقعی حقیقت ہیں اور وہ واقعتاً دوسروں سے بہتر ہے۔ اسے اس بات کی معرفت نہیں ہوتی کہ اس کے ذہن میں یہ خیالات تکبّر کی بیماری کی وجہ سے ہیں۔ لیکن جب ایک انسان تزکیہ کے یا اپنے باطن کی اصلاح کے راستے پہ چلنا شروع کرتا ہے تو اسے اپنے شیخ کو ان تمام خیالات کے بارے میں بتانا ہوتا ہے جو وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں رکھتا ہے، اور اس بارے میں بتانا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے کس طرح کا رویّہ رکھتا ہے۔ پھر ان باتوں کی بنیاد پہ اس کا شیخ اس کو بتاتا ہے کہ اس کے دل میں تکبّر ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو اسے اس کا کیا علاج کرنا چاہیے۔
بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ایک انسان وہ باتیں کثرت سے کرتا رہتا ہے تو ان سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس انسان کے ذہن میں تکبّر ہو، مثال کے طور پہ اگر ایک انسان ہر وقت اپنے علم، اپنے مال و دولت، اپنے حسب و نسب، اپنی صلاحیتوں کے بارے میں شیخی بگھارتا رہے، فخریہ باتیں کرتا رہے، ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہے کہ وہ دوسروں سے بہتر اور برتر ہے، اور ہر وقت اپنے منہ سے اپنی تعریفیں کرتا رہے۔ اسی طرح بعض رویّے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی انسان ہر وقت یا اکثر وقت اس طرح کا رویّہ رکھے تو شبہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں تکبّر ہو، مثلاً ہر وقت یہ کوشش کرے کہ لوگ خصوصاً اس سے اور لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ عزّت اور تعظیم سے پیش آئیں، اگر کسی مجمع میں چلے تو ہمیشہ سب لوگوں کا سردار بن کے سب سے آگے چلے، اگر وہ بات کرے تو باقی تمام لوگ ہمیشہ خاموش ہو جائیں اور تعظیم سے اس کی بات سنیں، میز پر بیٹھنا ہو تو ہمیشہ سب سے نمایاں جگہ پہ بیٹھنے کی کوشش کرے اور اس کو اپنا حق سمجھے، دوسرے لوگوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھے اور ان سے تحقیر آمیز برتاؤ کرے، ہمیشہ دوسرے لوگوں کو اپنے رویّے اور اپنی باتوں سے ذلیل کرنے اور نیچا دکھانے کی کوشش کرے، اور اس کو اس وقت بہت برا لگے اگر دوسرے لوگ اس سے بہت عظمت اور عزّت کا برتاؤ نہ کریں۔
تکبّر کا علاج
صوفیاء کا کہنا ہے کہ تکبّر اتنی خطرناک روحانی بیماری ہے کہ جب تک ایک سالک (سلوک یعنی تزکیہ کے راستے پہ چلنے والا) سب سے پہلے تکبّر کا علاج نہ کروائے اس کے لیے تزکیہ کے راستے پہ آگے چلنے کا راستہ نہیں کھلتا۔ اسی لیے جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کروانا چاہے اس کے لیے لازمی ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے اندر سے تکبّر کی صفت کو اس حد تک کمزور اور ختم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ اپنے ذہن میں اختیاری طور پہ اس طرح کے خیالات لانے بند کر دے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہے، اور اس طرح کے خیالات اس کی باتوں اور اس کے رویّے پہ اثرانداز ہونے بند ہو جائیں۔
تکبّر کا علاج دو طرح کا ہے؛ ایک تو علمی یا عقلی جس کا مطلب ہے اپنے خیالات کو تبدیل کرنا، اور دوسرا عملی جس کا مطلب ہے اپنے روّیے اور برتاؤ کو بدلنا۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ لوگوں کو تکبّر عام طور سے چار صفات کی وجہ سے ہوتا ہے؛ علم، پرہیزگاری و تقویٰ، حسب نسب، اور مال و دولت یا شکل و صورت۔ گو کہ ان چاروں صفات کی وجہ سے ہونے والے تکبّر کا علاج ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہوتا ہے، لیکن انسان کو تکبّر کو دور کرنے کے لیے اپنے خیالات اور رویّے میں جو تبدیلی لانی چاہیے اس پہ اس سے تھوڑا تھوڑا فرق پڑتا ہے کہ اس کو تکبّر کے خیالات کس طرح کے آ رہے ہیں۔
تکبّر کا علمی علاج
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ تکبّر کا ایک علمی علاج یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت پر غور کرے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کی انتہا کیا ہو گی؟ اس کی ابتدا پانی کا ایک گندا قطرہ تھا۔ اس کی انتہا سڑا ہوا تعفّن زدہ گوشت ہو گا جو کیڑوں مکوڑوں کی غذا بنے گا۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان وہ اپنے وجود کے اندر ہر وقت سیروں وزنی ایسی غلاظتیں اٹھائے پھر رہا ہوتا ہے کہ اگر وہ باہر آ جائیں تو وہ خود ان سے کراہت کرے اور ان کو چھو نہ سکے، اور اس کے وجود کے ہر طرف جو جلد کا غلاف لپٹا ہوا ہے اگر وہ نہ ہو اور اس کے اندر موجود غلاظتوں کی بو دوسروں کو آنے لگے تو وہ اس سے گھن کھائیں اور اس کے قریب نہ آئیں۔
انسان بہت بڑے بلند و بالا دعوے کرتا ہے کہ اس نے اتنی ترقی کر لی ہے، اس کے پاس اب اتنی غیر معمولی طاقتیں ہیں، وہ ایسے ایسے کام کر سکتا ہے جو پہلے کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں، جس کے پھیلاؤ اور وسعت کا اسے کوئی اندازہ نہیں،انسان ایک حقیر سے گولے پہ ایک حقیر سا ذرّہ ہے۔ نہ اس کو اپنے پیدا ہونے پہ کچھ اختیار ہے، اور نہ اپنے مرنے پہ۔ نہ اس کو علم یا دولت حاصل کرنے پہ مکمل اختیار ہے، جیسا کہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ اس کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوتے، اور نہ ہی ایک دفعہ اس کو حاصل کرنے کے بعد ان چیزوں کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہے، جیسا کہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم بڑھاپے میں اپنا نام تک بھول جاتے ہیں، اور بڑے بڑے امیر قدرت کے ایک جھٹکے سے غریب اور مفلس ہو جاتے ہیں۔ پھر انسان ایسے وقتی علم یا دولت پہ کیا غرور کر سکتا ہے؟
جو شخص اپنی پرہیزگاری اور اپنے تقویٰ پہ غرور کرتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اعتبار صرف خاتمے کا ہے، اور خاتمے کا اعتبار نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مومن وہی شخص ہے جس کا خاتمہ ایمان پہ ہوا، اور کون ایسا جو دعویٰ کر سکے کہ اسے وثوق سے پتہ ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پہ ہو گا۔ ابلیس نے اتنی عبادت کی کہ اسے فرشتوں کا سا درجہ ملا، لیکن سب کو معلوم ہے کہ اس نے تکبّر کیا تو ہمیشہ کے لیے راندہٴ درگاہ ٹھہرا۔
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ ہمیں اپنے گناہوں کا تو وثوق سے معلوم ہے کہ ہم نے یہ یہ گناہ کیے ہیں، لیکن دوسروں کے گناہوں کے بارے میں ہمیں بہت ہی سرسری سا معلوم ہوتا ہے۔ پھر ہم سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہم ان سے بہتر ہیں؟ حضرت فرماتے تھے کہ میں ہر مسلمان کو حالاً اور ہر غیر مسلم کو مآلاً (یعنی مستقبل کے حساب سے) اپنے آپ سے بہتر سمجھتا ہوں، مسلمان کو اس لیے کہ کیا پتہ اس کا ایمان کنھ سے کتنا زیادہ قوی ہو، اور اس کے نیک اعمال جو میرے علم میں نہیں اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں ہیں، مجھ سے کہیں بہتر ہوں اور ان کی وجہ سے یہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مجھ سے کہیں زیادہ مقبول ہو، اور غیر مسلم کو اس لیے کہ کیا پتہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو مرنے سے پہلے ایمان کی توفیق دے دیں اور اس کا خاتمہ مجھ سے بھی اچھا ہو جائے۔
حضرت تھانویؒ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو کتّے اور سوّر سے بدتر سمجھتا ہوں۔ بادی النظر میں تو
یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب ایک انسان تزکیہ کے راستے پہ چلنا شروع کرتا ہے تو اسے اپنے گناہوں اور اپنی خامیوں کا زیادہ ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کو شدّت سے احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب اس کو اس زندگی میں بولے گئے اپنے ایک ایک لفظ، اپنے کیے ہوئے ایک ایک کام کا حساب دینا ہو گا۔ پھر جب اس کی نظر جانوروں پہ پڑتی ہے کہ انہیں اس طرح سے حساب کتاب سے نہیں گزرنا ہو گا، تو اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ اگر خدا نہ کرے آخرت میں میرے گناہوں کا پلّہ نیکیوں کے پلّے کے مقابلے میں زیادہ بھاری ہوا تو پھر تو یہ جانور ہی مجھ سے بہتر ہے۔ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی ستّاری ہے کہ انہوں نے ہمارے اندر کے خیالات و جذبات کو تمام دوسرے لوگوں سے چھپا رکھا ہے۔ اگر ہمارے تمام چھپے ہوئے جذبات، خیالات، اعمال سب کے سامنے عیاں ہو جائیں تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں، اور جو لوگ آج بہت عزّت سے پیش آتے ہیں وہی ہمارے منہ پہ تھوک دیں۔
تکبّر کا عملی علاج
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ تکبّر کا سب سے اہم عملی علاج یہ ہے کہ انسان جن لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے سب کے سامنے ان سے بہت عزّت سے پیش آئے اور تعظیم کا معاملہ کرے۔جب وہ آئیں تو ان سے کھڑا ہو کے ملے، ان کو سلام کرنے میں پہل کرے، سب کے سامنے ان کی تعریف کرے، اور ان کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا ظاہر کرتے ہوئے ان سے معاملہ کرے۔ جب پہلی دفعہ ایسا کرے گا تو اس کے دل پہ آرے چل جائیں گے کیونکہ آج تک تو اپنے آپ کو ان لوگوں سے برتر سمجھتا اور ظاہر کرتا تھا، لیکن تکبّر اتنی موذی بیماری ہے کہ انسان جب تک اس کے علمی علاج کے ساتھ ساتھ عملی علاج بھی نہ کرے تب تک یہ دل سے نکلتی نہیں۔
حضرت تھانویؒ نے تکبّر کا ایک جو عملی علاج بتایا وہ یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر ایسے کام کرے جن میں عرفاً اسے اپنی ذلّت محسوس ہوتی ہو، مثلاً مسجد کے دروازے کے سامنے سب نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنا۔ لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ بغیر شیخ کے تجویز کئے ہوئے اس طرح کے علاج میں بعض خطرات ہوتے ہیں۔ خاص طور سے اگر انسان خود ہی اپنی رائے سے اس طرح کے علاج کرنا شروع کر دے تو بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان کا تکبّر اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں کتنا متواضع ہوں کہ دوسروں کے جوتے سیدھے کر رہا ہوں۔
تکبّر سے بچاؤ کی ایک تدبیر
ایک تدبیر جس سے انسان اپنے آپ کو تکبّر سے بچا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان سب لوگوں کے ساتھ مل جل کر ان ہی جیسا بن کر رہے، اور اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرنے کی اور ان سےالگ تھلگ رہنے کی کوشش نہ کرے۔ بعض لوگ گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں، دوسروں سے الگ وضع قطع اختیار کرتے ہیں، یا خود سے کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کھانا پینا، ان کے کپڑے، ان کا گھر، ان کی سواری سب سے الگ، سب سے بہتر، سب سے نمایاں ہو،ایسے لوگوں میں تکبّر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جو انسان سب کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے، ان ہی جیسا برتاؤ کرتا ہے، ان ہی جیسا اپنا رہن سہن رکھتا ہے، ان ہی جیسے کپڑے پہنتا ہے جیسے سب پہنتے ہیں اس میں تکبّر کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ اس طریق کا اوّل قدم بھی فنا ہے اور آخر قدم بھی فنا ہے۔ اس پس منظر میں فنا کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایسا مٹا دے کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ اس شخص میں دوسروں سے الگ کوئی خاص بات ہے۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،
"۔۔۔تم اپنے آپ کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ وہ (اللّٰہ تعالیٰ) خوب جانتا ہے کہ کون متّقی ہے۔" (۵۳: ۳۲)
اور حدیث شریف میں رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
"خود پسندی تباہ کر دیتی ہے۔" (تبلیغِ دین)
عجب کی حقیقت
عجب کی حقیقت تکبّر سے ملتی جلتی ہے۔ تکبّر میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے بہتر اور برتر ہے، اور باقی تمام لوگ اس کے مقابلے میں حقیر اور کمتر ہیں۔ عجب میں انسان اپنے آپ کا دوسروں سے مقابلہ نہیں کرتا، اس کو بس یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ہر اعتبار سے مکمّل اور کامل ہے۔ اس میں کوئی خرابی، کوئی کمزوری، کوئی نقص نہیں۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کوئی بہت اہم ہستی ہے، اور اس کائنات میں اس کی بڑی وقعت اور حیثیت ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو جو کچھ بھی اچھی چیزیں، مثلاً دولت، علم، شکل و صورت وغیرہ، ملی ہیں وہ اس کا استحقاق اور اس کا حق تھیں۔ اسے یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ نعمتیں اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہیں، اور یہ احساس نہیں ہوتا کہ اللّٰہ تعالیٰ جب چاہیں اس سے یہ نعمتیں واپس لے سکتے ہیں۔
اگر اپنے آپ سے یہ محبّت اور اپنی نظر میں اپنی وقعت اس حد تک بڑھ جائے کہ انسان یہ سمجھنے لگے کہ وہ (معاذ اللّٰہ) اللّٰہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی بڑی چیز ہے اور اس کا کوئی خاص مقام ہے، تو اسے ناز کہتے ہیں۔اس طرح کے خیالات کا یہ اثر ہوتا ہے کہ جب اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی تو اسے تعجّب ہوتا ہے کہ اس جیسی ہستی کی کوئی دعا کیسے قبول نہ ہوئی۔ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو اسے تعجّب ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اس جیسے شخص کی دعا قبول نہ ہو اور اس کے دشمن نیست و نابود نہ کر دیے جائیں۔
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ یہ بہت بڑی حماقت اور بھول ہے کہ کوئی انسان اپنی عبادات پہ فخر و غرور کرنے لگے، اور یہ سمجھنے لگے کہ (معاذ اللّٰہ) اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے اس کی کچھ حیثیت ہے، یا یہ کہ اس کائنات میں وہ کوئی بڑی ہستی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی انسان ان اچھی چیزوں اور باتوں پہ قانع اور خوش ہو جو اس کے پاس ہیں، اسے اس بات کا بخوبی ادراک ہو کہ یہ اچھی چیزیں اور باتیں اللّٰہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی نعمتیں اور رحمتیں ہیں، اور یہ احساس ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ جب چاہیں ان میں سے کسی بھی خصوصیت یا خوبی مثلاً مال و دولت، شکل و صورت، صحت، علم، کو واپس لے سکتے ہیں، تو ان اچھی باتوں پہ خوش ہونا عجب نہیں۔
صحت یا علم ہونا، یا اس کے ہونے پہ خوش ہونا، عجب نہیں، جب تک کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔ عجب یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھنے لگے کہ اس کے پاس جو اچھی صفات یا چیزیں ہیں وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتیں نہیں ہیں بلکہ اس نے صرف اور صرف اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہیں، یہ ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی، کوئی انہیں اس سے نہیں لے سکتا، اور یہ اس کا استحقاق اور حق ہیں۔
عجب کا علاج
عام طور سے لوگ دو طرح کی صفات پہ فخر و غرور کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلی طرح کی صفات تو وہ ہیں جن کو حاصل کرنا انسان کے اختیار سے باہر ہے،اور اللّٰہ تعالیٰ نے محض اپنی حکمتِ بالغہ سے کسی کو ایک صفت عطا فرما دی اور کسی کو دوسری ۔ مثلاً بعض لوگ اپنی شکل و صورت پر فخر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیدا کرنے میں اس انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ نہ کوئی انسان اپنے اختیار سے حسین پیدا ہوتا ہے، اور نہ کوئی اپنے اختیار سے بدصورت۔ اس کی دوسری مثال حسب و نسب، یا رنگ و نسل، یا خاندان پہ فخر کرنا ہے، حالانکہ اپنے اختیار سے نہ کوئی گورا پیدا ہوتا ہے نہ کالا، نہ یورپ میں پیدا ہوتا ہے، نہ ایشیا میں، نہ سیّد پیدا ہوتا ہے، نہ جولاہا۔ دوسری طرح کی صفات جن پہ لوگ فخر کرتے ہیں وہ ہیں جن کے حاصل کرنے میں انسان کی کوشش کا پھر بھی کچھ عمل دخل ہوتا ہے، مثلاً علم حاصل کرنا، یا عبادت گزار ہونا۔ ان دونوں طرح کی صفات پہ فخر و غرور کرنے کا علاج الگ الگ ہے۔
غیر اختیاری صفات پہ فخر و غرور کا علاج
جیسا کہ اوپر آیا، پیدائش سے پہلے ہم میں سے نہ کسی سے پوچھا گیا تھا، اور نہ ہم میں سے کسی کے اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار تھا کہ ہم صحت مند پیدا ہوتے ہیں یا معذور، خوبصورت پیدا ہوتے ہیں یا کم رو، تمام اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا کچھ اعضاء کے بغیر۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ یہ کس قدر کم عقلی کی بات ہے کہ انسان ان صفات کے ہونے پہ فخر کرنا شروع کردے جن کے ملنے میں نہ اس کا کوئی اختیار تھا اور نہ ہی اس کی خواہش سے پوچھی گئی تھی۔ اگر ہمارے پاس ان میں سے کچھ اچھی صفات ہیں تو یہ ہم پہ صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ انہوں نے ہمارے کسی استحقاق کے بغیر ہمیں یہ نعمتیں عطا فرما دیں۔
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ دوسری اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ساری نعمتیں وقتی اور عارضی ہیں۔ ایسی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بنا پہ انسان سے یہ نعمتیں چھن جاتی ہیں،ا ور ہم ایسا روز ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، مثلاً کسی کو بیماری ہو جاتی ہے، کسی کو کوئی اور عارض ہو جاتا ہے، حادثہ ہو جاتا ہے، اور پھر نہ اس کی صحت رہتی ہے اور نہ شکل و صورت۔ انسان ایسی صفت پہ کیا غرور کرے اور بڑی بات بولے جس کے بارے میں اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ کل وہ اس کے پاس ہو گی بھی یا نہیں۔
اختیاری صفات پہ فخر و غرور کا علاج (مثلاً علم یا عبادات)
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ یہ بات صحیح ہے کہ انسانوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اچھے کام کریں یا برے کام کریں، علم حاصل کریں یا نہ حاصل کریں۔ لیکن یہ اللّٰہ تعالیٰ ہیں جو کسی انسان کو اس بات کی صلاحیت دیتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے، ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ اس کے لیے اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو، اس کو اتنی توفیق دیتے ہیں کہ وہ یہ علم حاصل کر سکے۔ یہ ساری باتیں اللّٰہ تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔ کوئی بھی سمجھدار انسان کیسے اللّٰہ تعالیٰ کی ان تمام رحمتوں کو نظرانداز کر سکتا ہے جو اس کے تعلیم کے سفر کے دوران اس پہ مستقل نچھاور ہوتی رہیں، اور اپنی کامیابیوں پہ اس طرح سے فخر و غرور کرنا شروع کر سکتا ہے جیسے کہ اس نے یہ سب کچھ تنِ تنہا اپنے زور و بازو سے حاصل کیا ہو؟ کتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں جنہوں نے یہ تمنّا یا کوشش کی کہ اتنا ہی علم، دولت، یا مرتبہ حاصل کر سکیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ا سمیں ناکام ہو گئے۔
سمجھداری کی بات یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، اور اس بات کا اعتراف کرے کہ یہ اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو یہ سب نعمتیں عطا فرما دیں، حالانکہ اس کا ان تمام نعمتوں پہ کسی بھی اور انسان سے زیادہ کوئی استحقاق نہیں تھا۔ جب ایک انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے اللّٰہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے، تب اسے اس بات کا بھی احساس رہنے لگتا ہے کہ جس ذات نے کسی وجہ (یعنی اس کے کسی استحقاق) کے بغیر اسے یہ سب کچھ عطا کیا تھا،وہ کسی وجہ کے بغیر اس سے جب چاہے یہ سب کچھ واپس بھی لے سکتا ہے۔ جب ایک انسان کو ان دونوں باتوں کا یقین ہو جاتا ہے تو اس کو اپنے پاس موجود نعمتوں پہ کبھی فخر و غرور نہیں ہوتا، اس کے دل میں ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ کا ڈر رہتا ہے، اور اس کے دل سے عجب آسانی سے ختم ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
"اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور نہ اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ روزِ آخرت پر۔ اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بدترین ساتھی ہوتا ہے۔" (۴: ۳۸)
رسول اللّٰہ نے فرمایا،
"جس عمل میں ذرّہ برابر بھی ریا ہو گا، اس کو حق تعالیٰ ہرگز قبول نہ فرمائے گا۔" (تبلیغِ دین)
ایک اور طویل حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن احکم الحاکمین کی عدالت میں غازی اور عالم اور سخی کی پیشی ہو گی، اور تینوں اپنے جہاد فی سبیل اللّٰہ، تعلیم و تعلّم اور مشغلہء علمِ دین، اور اپنے خیرات و صدقات کا اظہار کریں گے۔ حکم ہو گا کہ: "یہ سب اعمال تم نے چونکہ محض دکھاوے اور نام کے لیے، اسی غرض سے کیے تھے تا کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص غازی ہے، فلاں شخص بڑا عالم ہے، فلاں شخص بڑا سخی ہے۔ سو یہ باتیں حاصل ہو لیں کہ دنیا میں تم کو شہرت ہوئی اور لوگوں نے تم کو غازی اور عالم اور سخی کہہ کر پکارا، پھر جس مقصود کے لیے اعمال کیے تھے، جب وہ حاصل ہو چکا تو اب کیا استحقاق رہا؟ اور یہاں کیا چاہتے ہو؟ لہذا جاؤ جہنّم میں۔" (تبلیغِ دین)
ریا کی حقیقت
ریا کا مطلب ہے کہ بجائے اس کے کہ انسان عبادت خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی نیّت سے کرے، انسان کوئی عبادت کا کام اس نیّت سے کرے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اور لوگوں کے اس راضی ہونے کے نتیجے میں اس کو کچھ دنیاوی فوائد حاصل ہوں، مثلاً لوگ اس کی تعریف کریں، اس کو اچھا سمجھیں، اس کی بہت شہرت ہو، اس کو مال حاصل ہو، وغیرہ۔ چونکہ عبادت کا مقصودِ اصلی صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے، اس لیے حدیث میں ریا کو شرکِ اصغر (چھوٹا شرک) سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ ریا کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے بجائے لوگوں کو راضی کرنے کی نیّت سے عبادت کر رہا ہے۔ (اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھیں۔ آمین)
ریا کیوں حرام ہے؟
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ ریا دو وجہ سے حرام ہے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جو انسان قصداً کسی دنیاوی فائدے کے لیے عبادت کر رہا ہے، وہ دیکھنے والوں کو دھوکہ دے کے ان کے قلوب کو متاثر کرنا چاہتا ہے اور اس سے کچھ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اور دھوکہ دینا حرام ہے۔ شریعت نے اس کی یہاں تک تاکید کی ہے کہ اگر انسان کسی دوسرے کو قرضہ دے رہا ہو، اور دیکھنے والوں پہ اس طرح ظاہر کر کے ان کے سامنے پیسے دے جیسے کہ وہ اس دوسرے شخص کو وہ پیسے تحفے میں دے رہا ہے، تو یہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ ریا کے حرام ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں بہت بڑے گستاخی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان بظاہر تو اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے ان کا حکم بجا لانے کے لیے، ان کے سامنے اپنی عبدیت ظاہر کرنے کے لیے کھڑا ہے، لیکن حقیقت میں اس تمام وقت اس کے دل و دماغ میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش نہیں ہے. بلکہ لوگوں کی رضا حاصل کرنے کی خواہش ہے (معاذ اللّٰہ)۔
عبادت کے اعتبار سے ریا کی شدّت کے درجات
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ شدّت کے اعتبار سے ریا کے تین درجات ہیں۔
ریا کا پہلا اور سب سے شدید درجہ ایمان میں ریا اور دکھاوا کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں منافقین ہوتے تھے کہ ان کے دل میں بالکل بھی ایمان نہیں ہوتا تھا لیکن دنیاوی مصلحتوں اور فائدوں کے حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ اسی طرح آج کل بھی بعض دفعہ لوگوں کے دل سے ایمان ختم ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے خاندان والوں ان سے ناراض نہ ہوں اور ان سے قطع تعلّق نہ کر لیں۔ منافقت اتنا سنگین گناہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ؛
ترجمہ: "یقین جانو کہ منافقین جہنّم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔" (۴: ۱۴۵)
ریا کا دوسرا درجہ عبادات میں ریا ہے، مثلاً یہ کہ اگر ایک انسان جب دوسرے ایسے لوگوں کے ساتھ ہو جو نماز پڑھتے ہوں تو مجبوراً شرما شرمی نماز پڑھ لے، لیکن اکیلے میں کبھی بھی نماز نہ پڑھے۔اس طرح سے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے نماز اس وجہ سے پڑھی کہ لوگ کیا کہیں گے، اور اس وجہ سے نہیں پڑھی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس ریا کی شدّت اس سے کم ہے جب لوگ ایمان میں ریا کرتے ہیں، لیکن یہ خود بھی گناہِ کبیرہ ہے اور حدیث شریف میں اسے شرکِ اصغر یعنی چھوٹا شرک کہا گیا ہے۔
ریا کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص فرض نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے چاہے لوگ ہوں یا نہ ہوں، لیکن جب لوگ دیکھ رہے ہوں تونوافل زیادہ پڑھتا ہے تا کہ لوگ کہیں کہ وہ کتنا پرہیزگار اور متّقی ہے۔ اسی طرح سے لوگوں کے سامنے وہ فرض نماز بھی اس سے مختلف پڑھتا ہے جس طرح وہ اکیلے میں پڑھتا ہے مثلاً طویل سورتیں پڑھتا ہے، طویل رکوع اور سجدے کرتا ہے، بہت خشوع و خضوع کی ہیئت بناتا ہے۔ اس درجے کی ریا کی شدّت پہلے دو درجوں کے ریا سے تو کم ہے لیکن ایمان کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
نیّت کے اعتبار کے ریا کی شدّت کے درجات
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ نیّت کے اعتبار سے ریا کے گناہ کی شدّت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس کا سب سے سنگین درجہ یہ ہے کہ مثلاً ایک انسان کے دل و دماغ میں نماز پڑھنے کی نیّت سرے سے تھی ہی نہیں۔ جب سب لوگ نماز پڑھنے لگے تو وہ بلا وضو ہی ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا تا کہ لوگ اسے برا نہ سمجھیں یا مطعون نہ کریں۔ یا یہ کہ انسان کی روزہ رکھنے کی نیّت تھی ہی نہیں۔ وہ لوگوں کے سامنے نہیں کھاتا پیتا اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ روزے سے ہے، لیکن جب اکیلا ہوتا ہے تو بلا جھجک کھاتا پیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام بظاہر عبادت کے کام سو فیصد مخلوق کو راضی کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اس لیے بہت سنگین گناہ ہیں۔
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ دوسری صورت یہ ہے کہ عبادت کرنے میں اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت تو تھی، لیکن اس میں مخلوق کو راضی کرنے کی نیّت بھی شامل ہو گئی۔ اس کی مزید تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔
اس کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ ایک انسان کا ارادہ شروع سے ہی اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھنے کا تھا، اور اگر وہ اکیلا ہوتا تو بھی اتنا ہی اچھی طرح سے اور اتنا ہی خشوع و خضوع سے نماز پڑھتا جیسے کہ لوگوں کے سامنے پڑھ رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا انسان وہاں آ گیا اور اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگا تو اب اسے اچھا لگا اور نماز پڑھنے میں زیادہ مزا آیا۔ اگر اس کی بنیادی نیّت اور نماز پڑھنے کی کیفیت میں تبدیلی نہیں آئی تو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول فرما لیں گے اور اسے اس عبادت کا اجر عطا فرمائیں گے۔
اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت ثانوی ہے، اور بنیادی نیّت لوگوں کو راضی کرنے کی ہے، مثلاً اگر اکیلے ہوتا تو کبھی اتنی عبادت نہ کرتا جتنی لوگوں کے سامنے کر رہا ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ جس انسان کی نیّت ابتدا ہی سے لوگوں کو راضی کرنے کی تھی، اور اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا خیال اس کے دل میں تھا ہی نہیں، اللّٰہ تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول فرما لیں۔ یہ خالصتاً ریا ہے اور ایسی عبادت پہ شدید عذاب کا اندیشہ ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور لوگوں کو راضی کرنے کا خیال برابر برابر ہے۔ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے جو عبادت بھی کرتا ہے تو جتنی اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے کرتا ہے اتنی ہی لوگوں کو راضی کرنے کی نیّت سے کرتا ہے، لیکن ایسی عبادت سے اللّٰہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا اندیشہ ہے۔
ریا کا علاج
ریا اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کی عمر بھر کی تمام عبادات کی قبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے اس کا بہت اہتمام کے ساتھ علاج کرنا ضروری ہے۔
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ ریا کی تین بنیادی وجوہات ہوتی ہیں؛ لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف سننے سے محبت ہونا، لوگوں کے منہ سے اپنی برائی یا تنقید سننے یا ان سے نقصان پہنچ جانے کا خوف ہونا، دنیاوی چیزوں کا لالچ ہونا۔
اپنی تعریف سننے کے شوق کی وجہ سے ریا کرنے کا علاج
اس کا علاج حبِّ جاہ کے ذیل میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ دنیا کی تعریف اور شہرت عارضی اور چند لمحے کی ہے۔ جو آدمی آج تعریف کرتا ہے وہی آدمی کل کسی معمولی سی بات پہ، یا بغیر کسی وجہ کے بھی اپنا خیال بدل لیتا ہے، اور اسی ممدوح (جس کی تعریف کی گئی) کی برائی کرنے لگتا ہے۔ اگر لوگ اپنا خیال نہ بھی بدلیں تو پھر بھی یہ سب شہرت اور نام ایک دن ختم ہو جانا ہے جس دن انسان کی سانسیں بند ہو جائیں گی۔ اس کے بعد صرف اس چیز کی اہمیت ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، بجائے اس کے کہدوسرے لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے تھے۔
اس طرح کی ریا کا دوسرا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو وہ حدیث یاد دلائے جس میں اس پہ تنبیہ کی گئی ہے کہ جن لوگوں کو آج غازی، سخی اور عالم کہلانے کا شوق ہے ، ان کو اس تعریف کے شوق کا اصل نقصان اس وقت پتہ چلے گا جب آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ یہ کہیں گے کہ تمہارے ان اعمال کی تعریف تو دنیا میں ہو چکی جو تمہارا یہ اعمال کرنے کا اصل مقصد تھا، جاؤ یہاں آخرت میں ان اعمال کا کوئی اجر نہیں۔
لوگوں کی تنقید یا ان سے نقصان پہنچنے کے ڈر سے ریا کرنے کا علاج
ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانا چاہیے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ ہم سے راضی ہیں تو نہ لوگوں کی باتیں ہمارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں، نہ ہی کسی دشمن کا کوئی عمل ہمیں کوئی حقیقی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کوئی دوسرا انسان ہمیں وقتی طور پہ تو مشکل میں ڈال سکتا ہے یا نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن یہ وقتی تکلیف اس تکلیف کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو ریا کرنے کے نتیجے میں ہمیں آخرت میں پہنچے گی۔ پھر یہ کہ انسانوں کے قلوب اللّٰہ تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے رہیں تو بہت امکان ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان انسانوں کے قلوب کو ہماری طرف مائل کر دیں اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے سے باز آ جائیں۔
مادّی لالچ کی وجہ سے ریا کرنے کا علاج
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ انسان کو اپنے آپ کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ اگر وہ کسی دنیاوی لالچ کو حاصل کرنے کی نیّت سے عبادت کر رہا ہے تو یہ بات تو یقینی نہیں ہے کہ اسے وہ دنیاوی فائدہ حاصل ہو گا کہ نہیں، لیکن یہ بات سو فیصد یقینی ہے کہ ایسا کرنے سے اسے اللّٰہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کون سی عقلمندی کی بات ہے کہ انسان ایک موہوم، غیر یقینی، وقتی فائدے کے لیے ایک انتہائی خطرناک یقینی نقصان مول لے لے؟ جب ایک انسان اپنی ساری ضروریات اور خواہشات اللّٰہ تعالیٰ ہی سے وابستہ کر لیتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی تمام دنیاوی ضروریات کو پوری کرنے کی ذمّہ داری لے لیتے ہیں، اور آخرت میں اسے اس کے جو فائدے حاصل ہوں گے وہ ان دنیاوی فائدوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
عبادت تنہائی میں کرنی چاہیے یا سب کے سامنے؟
ریا کے خوف سے بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اپنی تمام عبادات تنہائی میں ادا کریں تا کہ ریا کا اندیشہ ہی نہ رہے۔ بعض لوگوں کو اس میں اس حد تک شبہ ہو جاتا ہے کہ وہ مسجد جانے سے یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں کہ کہیں ریا نہ ہو جائے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ مجموعی اعتبار سے فرض عبادات سب کے سامنے ادا کرنا بہتر ہوتا ہے، اور نفلی عبادات اکیلے میں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ فرض عبادات ادا کر کے کوئی اپنے آپ کو پرہیزگار اور متّقی نہیں سمجھنے لگتا، کیونکہ وہ تو ادا کرنی ہوتی ہی ہیں۔ اس لیے لوگ عام طور سے فرض عبادات میں ریا نہیں کرتے۔ لیکن جب انسان نوافل زیادہ پڑھتا ہے تو بعض لوگوں کو اس پہ فخر ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ عبادت کرتے ہیں، اور اسی سے یہ خطرہ شروع ہو جاتا ہے کہ وہ سب کے سامنے یہ نفلی عبادات ادا کریں تا کہ لوگ ان کو متّقی سمجھیں۔ اسی لیے بزرگوں نے تجویز کیا ہے کہ انسان نفلی نماز بھی تنہائی میں پڑھے اور نفلی صدقہ بھی اکیلے میں سب سے چھپ کر دے تا کہ اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے اور ریا کا اندیشہ نہ ہو۔
رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّت بھی یہی تھی کہ وہ مسجدِ نبوی میں جماعت کے ساتھ صرف فرض نمازیں پڑھتے تھے، اور تمام سنّت اور نفل نمازیں گھرتشریف لے جا کے ادا فرماتے تھے۔
کیا ریا کا شبہ ہو جائے تو نماز پڑھنا چھوڑ دینا چاہیے؟
حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکّی ؒ فرماتے تھے کہ؛
"ریا کے اندیشے سے عبادت کو چھوڑنا نہیں چاہیے، کیونکہ اوّل ریا ہوتی ہے، پھر عادت ہو جاتی ہے، پھر عبادت ہو جاتی ہے۔"
اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک انسان کو عبادت کرنے کے دوران یہ شبہ ہو جائے کہ کہیں میں یہ لوگوں کو دکھانے کے لیے تو نہیں کر رہا ہوں تو اس شبہ کی وجہ سے اسے وہ عبادت چھوڑنی نہیں چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب انسان ایک نئی عبادت کرنا شروع کرتا ہے تو واقعی میں اسے تھوڑا خیال آتا ہے کہ اگر یہ دوسروں کو پتہ چل جائے تو وہ مجھے اچھا یا نیک سمجھیں گے۔ لیکن جب وہ باقاعدگی سے یہ عبادت کرتا رہتا ہے تو یہ عبادت اس کی عادت بننا شروع ہو جاتی ہے اور اسے یہ خیال کم آنے لگتا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ کرتے کرتے ان شاٴ اللّٰہ ایک دن انسان یہی عبادت خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے کرنے لگے گا۔
دوسرے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ انسان کو کوئی نئی عبادت اس نیّت کے ساتھ شروع نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں گے، کیونکہ یہ تو ریا ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ باقاعدگی سے کوئی نفلی عبادت کسی مخصوص وقت پر اکیلے میں انجام دیتے ہیں، اور کسی دن کوئی دوسرا آدمی آ جائے اور انہیں وہ عبادت انجام دیتے ہوئے دیکھ لے تو انہیں وہ عبادت ریا کے اندیشے سے چھوڑنی نہیں چاہیے، اور حسبِ معمول اپنی عبادت کو انجام دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح اس خیال سے کوئی عبادت کرنا ریا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، اسی طرح اس خیال سے کوئی عبادت چھوڑنا بھی ریا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ انسان لوگوں کو اتنی اہمیت دے ہی کیوں کہ ان کی وجہ سے عبادت کرے یا چھوڑے؟ ایک مسلمان کا فرض تو یہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہو تو صرف یہ سوچے کہ اللّٰہ تعالیٰ کیا کہیں گے، لوگ کیا کہیں گے، اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔
اس سلسلے میں ایک آخری بات جو سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ ریا ایک اختیاری فعل ہے، یعنی انسان اپنے ارادے سے جان بوجھ کے ریا کرتا ہے۔ ریا صرف اس وقت صادر ہوتی ہے جب کوئی انسان اپنے اختیار سے اس بات کی نیّت کرے کہ میں یہ عبادت اس لیے کر رہا ہوں، یا اس لیے اکیلے کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح سے کر رہا ہوں، تا کہ لوگ میری تعریف کریں اور مجھے اچھا سمجھیں۔ اس کے بر عکس اگر ایک شخص باقاعدگی سے کوئی عبادت ہمیشہ کرتا ہے، اور ایک خاص طور طریقے سے کرتا ہے، اور اتّفاقاًاس کو کوئی دوسرا آدمی کسی دن وہ عبادت کرتے ہوئے دیکھ لے، لیکن اس کی وجہ سے وہ اپنے اختیار سے اس عبادت کو زیادہ بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش نہ کرے مثلاً معمول سے زیادہ طویل سورتیں نہ پڑھنا شروع کر دے، یا لوگوں کو دکھانے کے لیے زیادہ رکعات نہ پڑھنے لگے، تو محض ریا کے اندیشے سے کوئی عبادت ریا نہیں ہو جاتی۔
توحید کے تین درجات اور ریا
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ توحید کے تین درجات ہیں۔
توحید کا پہلا درجہ توحیدِ اعتقادی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس بات کا پورا یقین رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی ذات میں بھی تنہا و یکتا ہیں، اور اپنی صفات میں بھی تنہا و یکتا ہیں، مطلب یہ کہ نہ اللّٰہ تعالیٰ جیسی کوئی دوسری ذات ہے، اور نہ ہی کوئی دوسری ایسی ہستی ہے جس کے پاس وہ صفات، خوبیاں، طاقتیں اور اختیارات ہوں جو خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کی صفات اور خوبیاں ہیں۔
توحید کا دوسرا درجہ توحیدِ قصدی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جب بھی کوئی کام کرے تو اس کے قصد یعنی ارادے، سوچ اور نیّت کا واحد مرکز صرف اللّٰہ تعالیٰ ہوں۔ یعنی جب وہ کوئی کام کرے تو صرف اس لیے کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان وہ کام کرے، اور جب وہ کوئی کام نہ کرے تو صرف اس لیے نہ کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان وہ کام نہ کرے۔جب ایک انسان ہر کام صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے کر تا ہے، اور جس کام کو چھوڑ دیتا ہے اس سے صرف اور صرف اس لیے بچتا ہے کہ تا کہ اللّٰہ تعالیٰ ناراض نہ ہوں، تو پھر اس سے ریا کاصدور ہو ہی نہیں سکتا۔
توحید کا تیسرا درجہ توحیدِ وجودی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ایک انسان کو یہ کامل یقین ہو جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ یکتا و تنہا ہیں اور ان جیسی کوئی دوسری ذات نہیں ہے تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پہ کسی اور ہستی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس کو کسی دوسری ہستی سے ڈر خوف لگتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی دوسری ہستی سے کوئی امید، توقعات یا لالچ رکھتا ہے۔ اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ایسی دوسری ذات نہیں جس سے انسان ڈرے یا امید رکھے۔ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسری ذات سے نہ کوئی ڈر ہو، اور نہ کوئی امید ہویا توقعات ہوں، اس سے ریا کا صدور ہو ہی نہیں ہو سکتا۔
حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا کہ توحید کے پہلے دو درجات جو بیان کیے گئے ہیں یہ مطلوب ہیں اور فرض ہیں۔ توحید کا تیسرا درجہ بہت اعلیٰ ہے اور ہر ایک انسان کے لیے فرض نہیں، لیکن اگر کسی انسان کو حاصل ہو جائے تو اس سے توحیدِ اعتقادی اور توحیدِ قصدی میں مدد ملتی ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں (ظن) سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کی ٹوہ (تجسّس) میں نہ لگو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔۔۔" (۴۹: ۱۲)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛
"موٴمنین کے ساتھ نیک گمان رکھو۔" (اصلاحی مجالس جلد ۱، ص ۲۱۵)
ظن اور تجسّس سے کیا مراد ہے؟
قرآن کریم کی جس آیت کا ترجمہ اوپر نقل کیا گیا ہے اس میں لفظ "ظن" استعمال ہوا ہے۔ اردو میں جو لفظ اس کے مفہوم سے سب سے قریب ہو گا وہ بدگمانی ہو گا۔ اس کے معنی ہیں دوسروں کے بارے میں برا گمان رکھنا، مثلاً بغیر کسی ثبوت کے یہ یقین کر لینا کہ کسی دوسرے شخص نے کوئی برا کام کیا ہے، یا اس کے ارادے غلط ہیں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حدیث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں، "ولا تجسّسو ا ولا تحسّسو۔" تجسّس کے معنی ہیں کسی دوسرے شخص کا عیب یا اس کی غلطیاں معلوم کرنے کی کوشش کرنا،چاہے اس کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ تحسّس کے معنی ہیں کسی دوسرے کی راز کی بات چپکے سے جاننے کی کوشش کرنا، مثلاً دوسروں کے علم کے بغیر ان کی باتیں چپکے سے سننے کی کوشش کرنا۔ اس حدیث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے دونوں کو حرام قرار دیا ہے۔
ظن (بدگمانی) کے دو درجات
حضرت نے حضرت تھانویؒ کے ایک ملفوظ کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ بدگمانی کا پہلا درجہ تو یہ ہے کہ انسان کو غیر اختیاری طور پہ کسی دوسرے انسان کے بارے میں کوئی برا خیال آ جائے۔ مثال کے طور پہ ایک انسان نے کسی دوسرے انسان کو روزے کے وقت میں ایک ہوٹل سے نکلتے ہوئے دیکھا، اور اس کے ذہن میں غیر اختیاری طور پہ یہ خیال آیا کہ شاید اس شخص کا روزہ نہ ہو۔ جب تک کہ یہ خیال غیر اختیاری ہے اور دماغ میں بس آ کے گزر گیا، انسان نے اس پہ سو فیصد یقین نہیں کر لیا، اور اس یقین پہ عمل نہیں کرنا شروع کر دیا (اس کی تفصیل آگے آئے گی)، اس حد تک یہ خیال گناہ نہیں اور اس پہ مواخذہ نہیں ہو گا۔
بدگمانی کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان نے بغیر کسی ثبوت کے اپنے اس خیال پہ پورا یقین کر لیا کہ ضرور اس شخص کا روزہ نہیں ہو گااور یہ وہاں کھانا کھانے گیا ہوگا۔ اس طرح سے کسی شخص کو بغیر کسی واضح ثبوت کے برا یا گناہ گار سمجھ لینا شرعاً حرام ہے، اور اس پہ مواخذہ ہو گا۔ بعض لوگ اس حد سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنے ان بدگمانی والے خیالات کو بغیر کسی ثبوت کے دوسروں کے سامنے بیان کرنے لگتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا تھا یہ شخص عین رمضان میں فلاں ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا۔ یہ صرف اپنے ذہن میں کسی کے بارے میں برے خیالات رکھنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔
بدگمانی سے تجسّس پیدا ہوتا ہے
مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا کہ "بدگمانی مت کرو"، اور پھر یہ حکم دیا کہ "دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگو" یعنی تجسّس نہ کرو۔ حضرت نے فرمایا کہ اس ترتیب کی مصلحت غالباً یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے تو یہ فرمایا کہ بلا تحقیق کے اور ثبوت کے کسی دوسرے کی طرف برا گمان دل میں مت رکھو۔ اب شاید کوئی شخص یہ کہتا کہ اچھا میں تحققیق کر لوں کہ اس شخص میں یہ برائی ہے کہ نہیں، تو پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرما دیا کہ دوسرے کی برائی کی تحقیق بھی مت کرو۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہرانسان کو چاہیے کہ یہ تحقیق کرے کہ میرے اندر کیا خامیاں ہیں، اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کو یہ جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے اندر کیا خامیاں اور خرابیاں ہیں۔
بدگمانی اور تجسّس کا علاج
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ؛
"بدگمانی، تجسّس، غیبت، ان سب کا منشاء کبر ہے۔ بلکہ متکبّر کی غرض پوری طرح غیبت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ بدگمانی اور تجسّس سب اسی کے مقدمات ہیں۔ اگر کوئی شخص تجسّس اور بدگمانی کرے مگر غیبت نہ کرے تو اس کا مقصود حاصل نہ ہوگا، اس لیے وہ بدگمانی اور تجسّس کو بھی ترک کر دے گا۔ پس غیبت سب سے اشد ہے۔"
اس کا مفہوم یہ ہوا کہ بدگمانی اور تجسّس انسان کرتا ہی اس لیے ہے کہ دوسروں کی بری باتیں، چاہے وہ وہمی ہوں یا حقیقی، دوسروں کے سامنے بیان کرے اور یہ ثابت کرے کہ اور سب گناہ گار اور خطا کار ہیں، اور میں سب سے اچھا اور برتر ہوں۔ اگر انسان دوسروں کے بارے میں بری باتیں صرف اپنے ذہن میں رکھے، یا دوسروں کے بارے میں بری باتیں معلوم کرے اور کسی کو بتائے نہیں، تو اس کی انا کی، اس کے تکبّر کی تسکین نہیں ہو گی۔ اس لیے اس کا یہ مقصود یعنی دوسروں کو کمتر ثابت کرنا اور اپنے آپ کو سب سے برتر اور بہتر ثابت کرنا، حاصل ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ غیبت کرے اور جو اس کے دل میں دوسروں کی برائیاں ہیں سب کے سامنے بیان کرے، اور انہیں نیچا دکھانے کی اور ان کی عزّت گھٹانے کی کوشش کرے۔ ا س لیے ان تمام گناہوں میں سب سے سنگین اور شدید گناہ غیبت ہے۔
حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا؛
"بدگمانی، تجسّس اور غیبت کا علاج یہ ہے کہ تواضع (منکسر المزاجی) اختیار کرو، تکبّر کو دل سے نکالو، اور جب تک اصلی مرض زائل نہ ہو اس وقت تک غیبت کا فوری علاج یہ کرو کہ (۱) فکر و تاٴمل سے کام لو، (۲) کوتاہی پر جرمانہ مقرّر کرو، اور (۳) وسوسہء بدگمانی کے وقت توجّہ کو ذکر اللّٰہ کی طرف منعطف کرو۔"
تواضع پیدا کرنا
مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ تواضع پیدا کرنے کا حقیقی طریقہ تو یہ ہے کہ انسان کسی مستند شیخ سے اصلاحی تعلّق قائم کرے، اپنی باتوں اور جن رویّوں کی وجہ سے اسے لگتا ہے کہ کہیں اس کے اندر تکبّر نہ ہو ان کے بارے میں شیخ کو اطّلاع دے، اور پھر شیخ جو علاج تجویز کرے اس علاج پہ عمل کرے۔لیکن جب تک انسان کو کوئی مستند شیخ ملے اس وقت تک انسان کم از کم اتنا تو کرے کہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچا کرے کہ میری حقیقت کیا ہے؟ کیا میرے اندر کوئی بھی ایسی خوبی ہے جو میری ذاتی ہے؟ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اگر صحت ہے تو وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔ اگر علم ہے تو وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کا عطا فرمایا ہوا ہے۔ اگر حسن ہے تو وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ جب چاہیں یہ سب کچھ مجھ سے واپس لے لیں۔ جس دن یہ حقیقت انسان کے دل میں بیٹھنا شروع ہو جاتی ہے اس دن تواضع پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سوچ سمجھ کے بولنا
حضرت نے فرمایا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ "لوگ اپنی زبان کے کرتوت کی وجہ سے جہنّم کے اندر اوندھے منہ ڈالے جائیں گے۔" اگر ستّر سال کا کافر بھی مرنے سے پہلے اس زبان سے کلمہ پڑھ لے گا تو سیدھا جنّت میں جائے گا۔ اگر ستّر سال کا مسلمان بھی اس زبان سے کفریہ کلمہ بولے گا تو سیدھا جہنّم میں جائے گا۔ اس زبان سے کوئی کلمہ نکالنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہ بات جو میں بولنے والا ہوں یہ مجھے جنّت میں لے جائے گی یا جہنّم میں لے جائے گی۔
جب کوئی شخص امام شافعیؒ سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ ہمیشہ پہلے لمحے خاموش رہتے تھے اور فوراً جواب نہیں دیتے تھے ۔ کسی نے پوچھا کہ "حضرت! جب بھی کوئی آپ سے کوئی سوال پوچھتا ہے تو آپ جواب دینے سے پہلے کچھ دیر خاموش رہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟" انہوں نے جواب میں فرمایا کہ "میں اس وقت تک خاموش رہتا ہوں جب تک میرے سامنے یہ واضح نہ ہو جائے کہ بہتری بولنے میں ہے یا خاموش رہنے میں ہے۔"
اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا
لوگوں کے بارے میں برے خیالات آنے سے بچنے کا ایک اور طریقہ اپنی توجّہ کو ان باتوں سے ہٹا کے اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف کر لینا ہے۔ جب کبھی ذہن میں لوگوں کے بارے میں برے خیالات آئیں انسان کو چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے استغفار کرنا شروع کر دے، کلمہ طیّبہ پڑھنے لگے، کوئی تسبیح کرنے لگے، اور لوگوں کی برائیوں کی طرف سے اپنی توجّہ کو ہٹا لے۔
چھپ کے دوسروں کی باتیں سننا
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا؛
"آڑ میں بیٹھ کر کسی کی باتیں سننا بھی تجسّس میں داخل ہے۔ جس کو آڑ میں بیٹھنا ہے تو زبان سے کہہ دینا چاہیے کہ میں بیٹھا ہوں، یا اس کے سامنے بیٹھنا چاہیے۔ غرض کسی طرح اپنے بیٹھنے کی اطّلاع کر دے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ چھپ کر ان کے علم کے بغیر دو لوگوں کی باتیں سننا بھی تجسّس میں داخل ہے اور حرام ہے۔ اگر دو لوگ باتیں شروع کر دیں اور کوئی تیسرا آدمی ایسی جگہ بیٹھا ہو کہ ان کو پتہ نہ چلا ہو کہ وہ وہاں بیٹھا ہے اور ان کی باتیں سن سکتا ہے، تو اس تیسرے آدمی کو چاہیے کہ ان کو اپنے بیٹھے ہونے کی اطّلاع کر دے تا کہ وہ ایسی باتیں نہ کرنے لگیں جو وہ سامنے ہوتا تو نہیں کرتے، یا اس جگہ سے اٹھ کے ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ ان کی باتیں نہ سن سکے، ۔ اسی طرح اگر دو لوگ رازداری کی غرض سے کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جو ان کے خیال میں اس تیسرے آدمی کو نہیں آتی لیکن وہ اس زبان کو سمجھتا ہو تو اسے چاہیے کہ انہیں اطّلاع کر دے کہ میں یہ زبان سمجھتا ہوں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"۔۔۔اللّٰہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔۔۔ (۳۵: ۲۸)
اور رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ "ایمان امید اور خوف کے بین بین (درمیان) ہے۔" (تبلیغِ دین)
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ جب ایک شخص تنہائی میں اکیلا ہوتا ہے اور اسے کوئی دوسرا دیکھنے والا نہیں ہوتا، یا پھر کوئی شخص ایسی حیثیت کا مالک ہوتا ہے کہ اس کو کوئی بھی کام کرتے وقت کسی دوسرے انسان کا ڈر خوف نہیں ہوتا کہ فلاں کیا کہے گا، اس وقت صرف اللّٰہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے جو اسے اچھے کام کرنے پہ مائل کرتا ہے اور برے کام کرنے سے روکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے ہی خوف کو جس کی وجہ سے انسان کسی غلط کام کو کرنے سے رک جائے تقویٰ کہتے ہیں۔
ڈر خوف کا مطلب ہوتا ہے اس بات کے بارے میں گھبراہٹ پریشانی ہونا کہ آئندہ مستقبل میں کہیں کوئی بری بات نہ ہو جائے۔ ایک انسان کو اللّٰہ تعالیٰ کا صحیح ڈر خوف صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب اسے اللّٰہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی عظمت کی معرفت ہو۔ جب ایک انسان کے دل میں پختہ یقین بیٹھ جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کو اس کے اوپر اور تمام انسانوں کے اوپر مکمل اختیار ہے کہ وہ ان کے ساتھ جیسے چاہے معاملہ کریں، اورجب چاہے کریں، اور یہ کہ پوری کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے کی ذرّہ برابر بھی مخالفت اور اس کے سامنے مزاحمت کر سکے، تو اس کے دل میں خود بخود اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ اگر ہمیں اپنے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے تو اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت و شان پہ غور کرنا ہو گا، اور اس بات پہ کہ اللّٰہ تعالیٰ مکمل بے نیاز ہے اور اس کو کسی بندے سے کسی چیز کی حاجت نہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جنّت پیدا فرما دی ہے اور یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ کچھ لوگ اس میں جائیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جہنّم بھی پیدا فرما دیا ہے اور فیصلہ کر دیا ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں جائیں گے۔ پھر وہ انسان کیسے نہ ڈرے جس کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا ٹھکانہ جنّت میں ہو گا یا جہنّم میں؟ اللّٰہ تعالیٰ سے (معاذ اللّٰہ) وہی انسان بے خوف ہو سکتا ہے جس کو اس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ ایک دن یہ فیصلہ ہونا ہے کہ اس کا آخری اور ابدی ٹھکانہ کہاں ہونا ہے۔
وہ لوگ جو اس روئے زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ برگزیدہ بندے تھے جیسے کہ انبیاء علیہم السلام، اور ان کے بعد صحابہ رضی اللّٰہ عنہما، وہ اللّٰہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ ڈر رکھنے والے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کہا کرتے تھے کہ "کاش میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔" حضرت ابوبکر صدّیق ؓ نے ایک پرندے سے مخاطب ہو کے کہا کہ "کاش میں بھی تمہاری طرح ایک پرندہ ہوتا، تا کہ مجھے اللّٰہ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب کتاب نہ دینا ہوتا۔ کاش میں پیدا ہی نہ ہوتا۔" حضرت ابو ذر غفّاری ؓ نے فرمایا کہ" کاش میں ایک درخت ہوتا کہ مجھے کاٹ دیا گیا ہوتا۔" (یہ ساری روایات تبلیغِ دین سے لی گئی ہیں)
جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کی معرفت رکھتے ہیں وہ کبھی اللّٰہ کے ڈر خوف سے خالی نہیں ہو سکتے۔ صرف وہی لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے ڈر سے خالی ہوتے ہیں جو اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ انہیں ایک دن مرنا ہے، اور ا سکے بعد ایک دن آئے گا جس دن انہیں اس زندگی میں کیے گئے اپنے تمام اعمال کا حساب کتاب دینا ہو گا، اور یہ کہ ہمیں اپنی اس زندگی میں کچھ اعمال کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان کے ذریعے سے اپنی اگلی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کے مختلف درجات
حضرت تھانویؒ نےفرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس بات پہ اعتقاد رکھے کہ اگر قیامت کے روز اس کے گناہوں کا پلڑا اس کی نیکیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہو گا تو اسے سزا کے طور پہ جہنّم میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ اعتقاد تو ایمان کی شرط ہے۔ جو انسان یہ اعتقاد نہیں رکھتا وہ کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جب اس کو گناہ کرنے کا تقاضہ ہو تو وہ اپنے آپ کو قرآن کریم کی وہ آیاتِ کریمہ یاد دلائے جس میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ جو انسان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خطرہ مول لیتا ہے، اور اس یاددہانی کی وجہ سے وہ گناہوں کا ارتکاب کرنے سے باز آ جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا یہ درجہ شرعاً فرض ہے۔ جو انسان اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا یہ درجہ نہ رکھے وہ کافر تو نہیں ہوتا، البتّہ گناہگار ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر و فکر میں اس قدر غرق کر لے کہ اس کو اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، اور قرآن کریم کی ان آیات جن میں گناہوں پہ عذاب کی وعید آئی ہے، کی یاد سے کبھی ذہول (غفلت) نہ ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کا یہ درجہ مستحب ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو انسان یہ مقام حاصل کر سکے تو اس کے لیے تو بڑا درجہ ہے، لیکن یہ ہر مسلمان کے ذمّے فرض نہیں۔
خوف کی زیادتی بھی مطلوب نہیں
اللّٰہ تعالیٰ کا خوف ایک آلہ ایک ذریعہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کو استعمال کر کے اپنی آخرت کو بہتر بنائے۔کسی بھی اور آلے کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کا خوف بھی اسی حد تک مقصود ہے جب تک کہ وہ انسان کے لیے ان کاموں کو کرنے میں معین ہو جن کو کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اور ان کاموں کو چھوڑنے میں مددگار ہو جن کو ترک کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ نے امر فرمایا ہے۔ امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ خوف کی اتنی زیادتی کہ اس کی وجہ سے انسان بالکل مایوس ہو جائے ، مثلاً انسان یہ سوچنے لگے کہ میں تو کچھ بھی کر لوں سب بیکار ہے اور میں تو ہر حال میں جہنّم میں ہی جاؤں گا، اور یہ سوچ کے نیک اعمال کرنا ہی چھوڑ دے، شرعاً مذموم ہے۔
ایک حدیث میں رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ "ایمان امید اور خوف کے بین بین (درمیان) ہے۔" (تبلیغِ دین)
حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک دفعہ فرمایا کہ "اگر اللّٰہ پاک کا حکم صادر ہو کہ ساری مخلوق میں سے صرف ایک شخص جنّت میں جائے گا تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ شخص میں ہی ہوں گا، اور اگر یہ فرمان صادر ہو کہ دوزخ میں صرف ایک ہی شخص داخل ہو گا تو مجھے خوف ہے کہ وہ شخص کہیں میں ہی نہ ہوں۔" یہ وہ حالتِ مساوات ہے جس میں خوف اور امید دونوں برابر درجے کے ہیں۔
کیا زیادہ فائدہ مند ہے، خوف یا امید؟
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ جوانی اورتندرستی کے زمانے میں مسلمان کو خوف غالب رکھنا چاہیے کیونکہ اس وقت انسان کو اپنی طبعی خواہشات کو کچلنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے خوف کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں، خصوصاً جب کہ موت قریب ہو، مسلمان کو امید کی حالت کو غالب رکھنا چاہیے کیونکہ اس وقت عمر اور مرض کی وجہ سے عبادت کرنا ویسے ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس وقت اگر خوف غالب ہوا تو انسان جتنی بھی ٹوٹی پھوٹی عبادت کر سکتا ہے اتنی بھی نہ کر سکے گا اور اس کے ہاتھ پاؤں بالکل ہی پھول جائیں گے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "مسلمان کو مرتے وقت اپنے خدا کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے۔" (تبلیغِ دین)
امید اور ہوس میں فرق
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے کچھ محنت نہیں کرتے، اور ویسے ہی منہ سے کلمات نکال دیتے ہیں کہ "اللّٰہ تعالیٰ کی ذات بڑی رحیم و کریم ہے، اللّٰہ تعالیٰ غفور ہے، مغفرت کرنے والا ہے۔" حالانکہ اپنی ذات کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے، لیکن ایک انسان اگر اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو نہ مانے، جن کاموں سے اللّٰہ تعالیٰ نے رکنے کا حکم دیا ہے ان گناہوں کو نہ چھوڑے، اور پھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے یہ امید کرتا رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں گے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات بڑی غفور و رحیم ہے، تو یہ امید نہیں، بلکہ تمنّا و ہوس ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے؛
"جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللّٰہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بیشک اللّٰہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللّٰہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔" (۲: ۲۱۸)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی امید رکھنے کا حقدار وہی ہے جو پہلے اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لائے، اور پھر اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے اچھی امید رکھے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے خوف اور محبّت کا مطلوب درجہ، اور اس کو حاصل کرنے کا طریقہ
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے خوف اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت دونوں کے لیے مطلوب درجہ وہی ہے جو انسان کو اس کی دوسری ذمّہ داریوں سے غافل نہ کر دے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت اور ان کے خوف کا غلبہ ہر وقت یکساں نہ رہے۔ بلکہ ایسا ہونا چاہیے کہ دن کے کچھ وقت اس پر اللّٰہ تعالیٰ کے خوف اور محبّت کا غلبہ ہو اور اس وقت وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بارے میں نہ سوچے، اور دن کا کچھ وقت ایسا نہ ہو جب وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بارے میں سوچ رہا ہو اور ان کو انجام دے رہا ہو، لیکن اس کا دل ہر وقت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لگا ہوا ہو۔ حضرت نے مزید فرمایا کہ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے جب کوئی شدید وبائی بیماری پھیل جاتی ہے تو اس زمانے میں انسان کھاتا بھی ہے، پیتا بھی ہے، اپنے باقی ضروری کام بھی کرتا ہے، لیکن اس کے ذہن میں ہر وقت اس بیماری کے بارے میں کچھ نہ کچھ خیالات آتے رہتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس قدر لگاؤ ہو جانے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان موت کو کثرت سے یاد کرے، اور اس شخص کی طرح عبادت کرے جس کو پتہ ہو کہ اس کی زندگی بس ابھی ختم ہونے والی ہی ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے لیے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہے، پھر تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد پڑ گئی ہے، پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے۔ اور آخرت میں (ایک تو) سخت عذاب ہے، اور (دوسرے) اللّٰہ کی طرف سے بخشش ہے، اور خوشنودی۔۔۔ اور دنیا والی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔" (۵۷: ۲۰)
اور قرآن کریم میں قارون کا قصّہ بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا؛
پھر (ایک دن) وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی آن بان کے ساتھ نکلا۔ جو لوگ دنیوی زندگی کے طلبگار تھے، وہ کہنے لگے: "اے کاش! ہمارے پاس بھی وہ چیزیں ہوتیں جو قارون کو عطا کی گئی ہیں۔ یقیناً وہ بڑے نصیبوں والا ہے۔" اور جن لوگوں کو (اللّٰہ کی طرف سے) علم عطا ہوا تھا، انہوں نے کہا: "تم پر افسوس ہے (کہ تم ایسا کہہ رہے ہو)۔ اللّٰہ کا دیا ہوا ثواب اس شخص کے لیے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور وہ ان ہی کو ملتا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں"۔ (۲۸: ۷۹ تا ۸۰)
زہد کی حقیقت
امام غزالیؒ نے فرمایا کہ زہد یہ ہے کہ انسان کو دنیا کے مال و متاع کی طرف کوئی رغبت اور اس سے کوئی محبّت نہ ہو، اور باوجود اس کے حاصل کرنے کی قدرت کے پھر اس کی جانب متوجّہ نہ ہو۔ زہد کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے پاس دنیا کا کوئی ساز و سامان نہ ہو، یا وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے رزقِ حلال حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا ہی مال و متاع حاصل کرنے کی کوشش کرے جتنے کی اس کو ضرورت ہو اور اس پہ قانع ہو جائے، جیسا کہ ایک مسافر اتنا ہی توشہ اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے جتنے کی اس کو سفر میں واقعی ضرورت ہوتی ہے۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا، "جس کو حق تعالیٰ زاہد بناتا ہے اس کے قلب میں حکمت القاء فرماتا ہے، اور دنیا کی بیماری و علاج سے آگاہ کر دیتا ہے، اور اس جہانِ فانی سے بے لوث باہر نکال کر دارالسلام میں پہنچا دیتا ہے"۔ اس کے بعد صحابہ رضی اللّٰہ عنہم سے فرمایا کہ: "صاحبو! حق تعالیٰ سے حیا کرو"۔ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے عرض کیا کہ: "یا رسول اللّٰہ! حیا تو کرتے ہیں"۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "جہاں رہنا نہیں ہے وہاں مکانات بناتے ہو، اور جو کھا نہیں سکتے وہ جمع کرتے ہو۔ یا د رکھو! بندے کا ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے جب کہ گوشہء گمنامی میں پڑے رہنے کو شہرت سے زیادہ پسند کرے، اور دنیا کے متعلّق ہر شے کی قلّت کو اس کی کثرت سے زیادہ محبوب سمجھے۔ خوب سمجھ لو! جب انسان دنیا میں زاہد بنتا ہے تو حق تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، اور جب وہ خدا کا محبوب بن جاتا ہے تو مخلوق کی نظروں میں بھی محبوب ہو جاتا ہے۔" (تبلیغِ دین)
زہد کے درجات
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ زہد کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان کا نفس دنیا کے مال و دولت کی طرف مائل ہو، لیکن وہ اپنے نفس پہ جبر کر کے دنیا کی اس محبّت کو اپنے دل سے دور کرے، اور اپنے آپ کو اتنے مال سے زیادہ مال حاصل کرنے سے روکے جس میں اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں۔ یہ زہد کا بالکل ابتدائی درجہ ہے۔
زہد کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل کو اس مادّی دنیا سے اتنی نفرت ہو کہ اس کو دنیا کی طرف کوئی کشش محسوس نہ ہو۔ وہ جانتا ہے کہ اس فانی دنیا کی خواہشات اور لذّات، اور اخروی زندگی کی نعمتوں، کو ایک ساتھ جمع کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ آخرت کی نعمتوں کے حصول کے لیے اس دنیا کی آسائشوں اور لذّتوں کو قربان کرنے کے لیے دل سے راضی ہے۔
زہد کا تیسرا اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کا ہونا یا نہ ہونا اس انسان کے لیے برابر ہو جاتا ہے۔وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو بے بہا نعمتیں پیدا فرمائی ہیں یہ مال و دولت ان کے مقابلے میں ایک ذرّے کے برابر ہیں۔ اس لیے اگر اس کو اس دنیاوی مال و متاع میں سے کوئی حصّہ ملتا ہے تو کوئی خاص خوشی نہیں ہوتی، اور اگر نہ ملے، یا جو ملا ہوا ہے اس میں سے کچھ چھن جائے، تو کوئی خاص افسوس نہیں ہوتا۔ اس درجے پہ پہنچ کے انسان کو نہ دنیا سے محبّت ہوتی ہے اور نہ نفرت۔ یہ زہد کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، ا سلیے کہ انسان نفرت بھی اسی چیز سے کرتا ہے جس کی اس کی نظر میں کچھ اہمیت ہوتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے۔ انہوں نے نہ ان سے نفرت کی، اور نہ ان کو لینے سے انکار کیا۔ انہوں نے وہ مال لے کے سارا مال اسی دن مستحقین میں تقسیم کر دیا۔ بعد میں ان کی باندی نے یاد دلایا کہ "اے امّ المومنین! کم از کم ایک درہم تو رکھ لیتیں تا کہ آج کے افطار کے لیے اس سے گوشت خریدا جا سکتا۔" انہوں نے فرمایا کہ "اگر تو پہلے یاد دلا دیتی تو میں کچھ رکھ لیتی۔ اب تو کچھ باقی نہیں رہا۔" زہد کا یہ درجہ غنا کہلاتا ہے۔
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ بعض غافل لوگ مال میں اضافے کو غنا سمجھتے ہیں، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ ان کے دلوں سے مال کی محبّت ختم ہو چکی ہے، اس لیے ان کو اس مال کی زیادتی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ یہ دیکھو کہ اگر کوئی اچانک ان کا سارا مال چرا کے لے جائے تو ان کے دلوں پہ کیا اثر ہوتا ہے۔ اگر ان کے دل پہ اپنے سارے مال کے چوری ہو جانے کا صرف اتنا ہی ا ثر ہو جتنا کسی غیر کے مال کے چوری ہو جانے پہ ہوتا، تو پھر تو ان کا دعویٰ صحیح ہے کہ ان کے دلوں میں دنیا کی محبّت باقی نہیں رہی، اور ان کو اس سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مال رہے یا جائے۔ لیکن اگر ان کو اس سے شدید صدمہ یا دکھ پہنچتا ہے تو پھر ان کا دعویٰ صحیح نہیں۔
زہد اور فقر کا فرق
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ زہد کا مطلب یہ ہے کہ انسان زیادہ مال کمانے کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن اس کو دنیا سے اتنی بے رغبتی ہے کہ دنیا اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہو کہ ایک انسان زیادہ دنیا کمانا چاہے لیکن دنیا اس کے ہاتھ میں نہ آئے تو اس کو فقر کہتے ہیں۔
فقر کا درجہ گو زہد کے برابر نہیں، لیکن یہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی ایک رحمت اور نعمت ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "حق تعالیٰ اپنے نیک بندے کو دنیا سے ایسا بچاتا ہے جسے تم اپنے عزیز بیمار کو کھانے پینے کا پرہیز کراتے ہو۔ میری امّت کے فقراء جنّت میں امراء سے پانچ سو برس پہلے داخل ہو جائیں گے۔ جس وقت کسی فقیر کو دیکھا کرو، خوش ہو جایا کرو، اور کہا کرو کہ مرحبا صالحین کے طریقے والے مرحبا۔" (تبلیغِ دین)
زہد کیسے حاصل کریں؟
زہد کا بنیادی مقصد اپنے دل سے دنیا اور مال و متاع کی محبّت کو ختم کرنا ہے۔ اس کے مختلف راستے ہوتے ہیں۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ کبھی دوزخ کا خوف اور عذاب کا اندیشہ زہد کا سبب بن جاتا ہے، اور اس زہد کو "خائفین (ڈرنے والوں) کا زہد" کہتے ہیں۔ یہ زہد کا ادنیٰ درجہ ہے۔
زہد کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ آخرت کی نعمتوں اور لذّتوں کی رغبت زہد کا باعث ہو جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا کی رغبت ختم ہو جاتی ہے، اور اس کو "راجین کا زہد" کہتے ہیں۔ یہ درجہ پہلے درجے سے بڑھا ہوا ہے۔
اور زہد کا تیسرا درجہ جو سب سے اعلیٰ ہے وہ یہ ہے کہ انسان ما سویٰ اللّٰہ (یعنی جو چیزیں غیر اللّٰہ ہوں) کو حقیر سمجھ کر چھوڑ دے، یعنی اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز کی کوئی وقعت اور رغبت نہ رہے۔ اس کو حقیقی زہد کہتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ "جو شخص زاہد بننا چاہے اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو کثرت سے یاد دلائے کہ یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن ختم ہو جائے گی، اور یہ یاد کرتا رہے کہ اس کو ایک دن مرنا ہے اور اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے، اور چاہیے کہ زکوٰة کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی دیتا رہے۔"
ایک اور موقع پہ حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ "زہد حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان مخلوق کے ہاتھ میں جو کچھ متاعِ دنیا ہے سب سے امید قطع کر دے (مطلب یہ کہ کسی مخلوق سے کسی فائدے کی کوئی امید نہ رکھے، جو امید رکھے اللّٰہ تعالیٰ ہی سے رکھے)۔ جو شخص ایسا کرے گا اس کا قلب راحت میں رہے گا، کیونکہ زہد قلب اور بدن دونوں کو راحت دیتا ہے۔"
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
ترجمہ: "اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بیشک اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" (۲: ۱۵۳)
معارف القرآن میں لکھا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ محشر میں نداء کی جائے گی کہ صابرین کہاں ہیں؟ تو وہ لوگ جو تینوں طرح کے صبر (اس کی تفصیل آگے آئے گی) پر قائم رہ کر زندگی سے گزرے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں گے، اور ان کو بلا حساب جنّت میں داخلہ کی اجازت دے دی جائے گی۔
صبر سے کیا مراد ہے؟
اردو میں صبر کا صرف ایک ہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ کسی ناگوار بات یا واقعے کو برداشت کرنا۔ لیکن عربی میں اس لفظ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ معارف القرآن میں لکھا ہے کہ صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے ہیں۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ صبر کے حقیقی معنیٰ ہیں اپنے نفس کی خواہشات اور اس کے تقاضوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کا مستقل مزاجی کے ساتھ پابند رہنا۔ اور مزید یہ فرمایا کہ صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو صبر کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف انسان ہی ہے جس میں دو مخالف طاقتیں یا فوجیں بیک وقت موجود ہیں، اور دونوں اس کے اعمال و افعال کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس میں سے پہلی فوج اللّٰہ تعالیٰ کی ہے جس میں فرشتے، انسان کی عقل، اور شریعت شامل ہیں۔ اس فوج کا مقصد انسان کو ہدایت کے صراطِ مستقیم پہ ثابت قدم رکھنا ہے۔ دوسری فوج شیطان کی ہے جس میں انسان کے اندرونی شہوانی اور جارحیت کے تقاضے، اس کی باطنی خواہشات، اور شیطان کے چیلے شامل ہیں۔ یہ فوج انسان کے نفس اور اس کے تمام اعمال کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے، اور کوشش کرتی ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات پہ بلا جھجک اور شریعت کی روک ٹوک کے بغیر عمل کرے۔
ہر عقلمند انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان دونوں فوجوں کا فرق پہچانے، اور شیطان کی فوجوں اور اپنی باطنی خواہشات کا مقابلہ کرے۔ اگر وہ اس مقصد میں کامیاب رہا، اور اللّٰہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پہ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہا، تو اس نے صبر کا درجہ حاصل کر لیا۔ انسان کے برعکس بہائم (جانوروں) میں صرف اندرونی خواہشات اور تقاضے ہوتے ہیں، اور اس درجے کی عقل نہیں ہوتی کہ وہ صراطِ مستقیم کو پہچان سکیں، جبکہ فرشتے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات بجا لانے کی صفت کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں اور ان میں اپنی ذاتی کوئی اندرونی خواہشات اور تقاضے نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جانور اور فرشتے دونوں صبر کے مکلّف نہیں ہوتے، کیونکہ جانوروں میں حق کو پہچاننے کی عقل نہیں ہوتی، اور فرشتوں کو اندرونی تقاضے ہی نہیں ہوتے کہ ان کو صبر کر کے اپنے آپ کو ان پہ عمل کرنے سے روکنا پڑے۔ یہ صرف انسان ہی ہے جس میں اندرونی خواہشات اور تقاضے بھی ہیں، اور ان کے ساتھ ساتھ اس کو عقل اور صراطِ مستقیم کو پہچاننے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے۔ اسی لیے انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو اپنی عقل کو استعمال کر کے یہ پہچان سکتی ہے کہ اسکی کون سی خواہشات ہیں جن پہ عمل کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہے، اور اپنے آپ کو ان خواہشات پہ عمل کرنے سے روکنے کا نام ہی صبر ہے۔
صبر کا سب سے اعلیٰ درجہ
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ صبر کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہشات کو اس حد تک کچل دے اور فنا کر دے کہ اس کے اندر اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کی فرماں برداری کرنے کی خواہش کی مخالفت کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ رہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ان سے کہا جائے گا؛
(البتّہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ:) "اے وہ جان جو (اللّٰہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے (نفسِ مطمئنّہ)! اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی، اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں، اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔" (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)
صبر کا سب سے کمتر درجہ اور اس کی علامات
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ صبر کا نچلا ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات کے سامنے مکمل طور پہ ہتھیار ڈال دے، اور اس کے تمام اعمال انہی دونوں چیزوں کی پیروی کا نتیجہ ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا؛
اللّٰہ نے کہا: "نکل جا یہاں سے، ذلیل اور مردود ہو کر۔ ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا، (وہ بھی تیرا ساتھی ہو گا) اور میں تم سب سے جہنّم کو بھر دوں گا۔" (۷: ۱۸)
امام غزالی ؒ نے مزید فرمایا کہ اس بات کی دو علامات ہیں کہ انسان صبر کے اس نچلے ترین درجے پہ ہے۔ پہلی علامت یہ ہے کہ ایسا انسان کہتا ہے کہ "میں توبہ کرنا تو چاہتا ہوں، لیکن مجھ سے ہو نہیں سکتی، اور اسی لیے اب اس کی خواہش ہی نہیں رہی۔"
اس کی دوسری علامت یہ ہے انسان کو توبہ کا شوق بھی نہ رہے، اور کہنے لگے کہ "اللّٰہ تعالیٰ تو بڑے غفور اور رحیم ہیں۔ ان کو میری توبہ کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر وہ مجھے توبہ کیے بغیر ہی جنّت میں بھیج دیں تو جنّت جیسی وسیع جگہ چھوٹی نہیں پڑ جائے گی، اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتِ شاملہ میں کچھ کمی نہ آ جائے گی (معاذ اللّٰہ)۔" یہ وہ شخص ہے جس نے دنیا کی عارضی نعمتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے قرب پہ ترجیح دی اور اپنے نفس اور شیطان کے سامنے مکمل طور پہ ہار مان لی۔
صبر کا درمیانہ درجہ اور اس کی علامت
صبر کا درمیانہ درجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی فوجوں اور شیطان کی فوجوں کے درمیان جنگ انسان کے اندر چلتی ہی رہتی ہے۔ کبھی ایک جیت جاتا ہے، کبھی دوسرا جیت جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو مستقل طور پہ نہیں پچھاڑ سکتا۔
درمیانے درجے کے صبر کی علامت یہ ہے کہ ایسا انسان اپنی کمزور خواہشات پہ تو غالب آ جاتا ہے اور ان سے رک جاتا ہے، لیکن نفس کے شدید تقاضوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور ان پہ عمل کر لیتا ہے۔ کبھی وہ گناہوں سے رکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اور کبھی ناکام رہتا ہے۔ لیکن اس کو گناہ کرنے کے بعد ندامت ہوتی ہے، اور وہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ گناہ کی خواہشات پہ عمل نہ کرے۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ ہر انسان کو زندگی بھر صبر کرتے رہنا ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک کو زندگی میں دو ہی طرح کے حالات پیش آتے ہیں؛ یا تو حالات و واقعات اس کی مرضی اور خواہشات کے مطابق پیش آتے ہیں جن سے اس کو خوشی ہوتی ہے، یا اس کی مرضی اور خواہشات کے خلاف پیش آتے ہیں جن سے اس کو ناگواری ہوتی ہے۔
خوش حالی میں صبر کرنا
اگر ایک انسان کو ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق عطا کر دی گئی ہو، مثلاً صحت، مال و دولت، اولاد، مرتبہ، علم، شہرت، تو اس کو بہت زیادہ صبر کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا شخص اپنی خواہشات پہ مکمل قابو نہیں رکھے گا اور کسی پابندی کے بغیر ان پہ چلتا رہے گا تو اس کا نفس اسے شدید گمراہ کر دے گا۔ امام غزالی ؒنے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی ا اللّٰہ عنہم نے فرمایا کہ "ہم تنگی اور فقر کے فتنے میں مبتلا ہوئے تو صابر نکلے، مگر فراخی و وسعت کے فتنے میں مبتلا ہوئے تو صبر نہ کر سکے۔" (تبلیغِ دین)
فراخی میں صبر کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو دنیا اسے عطا ہوئی ہے انسان اس کی محبّت میں مبتلا نہ ہو جائے، بلکہ یہ یاد رکھے کہ جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے یہ میرے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی امانت ہے جو عنقریب مجھ سے واپس لے لی جائے گی۔ اس لیے جب تک یہ نعمتیں میرے پاس ہیں مجھے ان پہ شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، اور جب یہ واپس لے لی جائیں تو زیادہ اداس نہ ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ انسان شکر اور صبر کو بھول کے اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی میں لگ گیا تو غافل کہلائے گا۔
مشکل حالات میں صبر کرنا
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کے حالات اس کی خواہشات کے مطابق نہ ہوں۔ اس طرح کی ناگوار صورتِ حال میں صبر کرنے کی چار قسمیں ہیں۔
۱۔ طاعات پر صبر کرنا
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ پہلی طرح کاصبر یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو پوری طرح بجا لائے، خاص طور سے ان احکامات کو جن کی پابندی کرنا اس کے نفس پہ گراں گزرتا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے پانچ وقت کی نماز پڑھنا مشکل ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں تھوڑی سی محنت اور وقت کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے زکوٰة دینا گراں ہوتا ہے کیونکہ اس میں اپنے مال کو اپنے آپ سے جدا کرنا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو حج اور جہاد دونوں بہت مشکل لگتے ہیں کیونکہ ان میں پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں اور اپنی جان کو بھی جوکھوں میں ڈالنا ہوتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں انسان کو چاہے جتنا بھی مشکل لگےاور گراں گزرے ،اس کو چاہیے کہ اپنے دل پہ جبر کر کے اپنے نفس کی خواہشات کو روکے، اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو پوری طرح سے بجا لائے۔
۲۔ گناہ کے تقاضوں پہ صبر کرنے کی ضرورت
صبر کی دوسری قسم معاصی سے صبر کرنا، یعنی اپنے نفس میں پیدا ہونے والے گناہوں کے تقاضوں کو کچلنا اور ان پہ عمل نہ کرنا ہے۔ پھر اس میں بھی دو طرح کے گناہوں سے بچنا اور اپنے آپ کو روکنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، ایک تو وہ گناہ جس میں نفس کو بہت لذّت آتی ہو، اور دوسرے وہ گناہ جس کی عادت پڑی ہوئی ہو۔ امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ ا سکی وجہ یہ ہے ایسی صورت میں خدا کے لشکر، یعنی اس انسان کے ایمان اور اس کی عقل، کو دو لشکروں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، ایک تو شیطان اور اس کے پیروکار،اور دوسرے اس کا اپنا نفس جو ان گناہوں کا عادی ہو چکا ہو۔ پھر جن گناہوں کو کرنا بہت آسان ہوتا ہے، جن کے کرنے میں نہ کوئی محنت لگتی ہے نہ پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے، مثلاً غیبت یا جھوٹ بولنا، ان کی عادت کو ترک کرنا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔
۳۔ دوسرے لوگوں سے ملنے والی ایذاؤں پہ صبر کرنا
تیسری قسم کا صبر ان ایذاؤں اور تکلیفوں پہ صبر کرنا ہے جن کا پہنچنا یا نہ پہنچنا تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے، لیکن ان کا بدلہ لینا یا نہ لینا اس کے اختیار میں ہے، مثلاً دوسرے لوگوں سے ملنے والی تکالیف پہ انتقام کی قدرت ہو نے کے باوجود صبر کرنا اور بدلہ نہ لینا۔ رسول اللّٰہ ﷺ کی یہی سنّت تھی۔
۴۔ غیر اختیاری مصائب پہ صبر کرنا
یہ واقعات کی وہ قسم ہے جو مکمل غیر اختیاری ہوں یعنی اس کی تلافی بھی اپنے اختیار میں نہ ہو، مثلاً کسی قریبی عزیز کا اچانک انتقال ہو جانا، یا کوئی شدید بیماری ہو جانا۔اس طرح کی تکالیف پہ صبر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان روئے نہیں، اسے دل میں دکھ نہ ہو، یا زبان سے درد کا یا تکلیف کا اظہار نہ کرے۔ اس صورتِ حال میں صبر کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان منہ سے شکایت کا کوئی کلمہ نہ نکالے، مثلاً یہ نہ کہے کہ کہ یہ مصیبت مجھے ہی کیوں ہوئی کسی اور کو کیوں نہیں ہوئی، یا ان سب تکلیفوں کے لیے میں ہی رہ گیا تھا (معاذ اللّٰہ)۔ اس طرح کی صورتِ حال میں صبر کرنے کا بہت بڑا اجر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ فرمایا ہے؛
"۔۔۔جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا۔" (۳۹: ۱۰)
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"۔۔۔اور اللّٰہ کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔" (۲: ۱۷۲)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛
"کھانے والا شکرگزار بندہ روزہ دار صابر کے برابر ہے۔" (تبلیغِ دین)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ عبادت کرتے کرتے رسول اللّٰہ ﷺ کے پیروں میں ورم (سوجن) ہو جاتا، اور آپ ﷺ تہجّد میں گریہ و بکا (رونا) بہت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے عرض کیا کہ: "یا رسول اللّٰہ! آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں، پس آپ اس قدر گریہ و بکا کیوں فرماتے ہیں؟" آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: "اے عائشہ! کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟" (تبلیغِ دین)
شکر بذاتِ خود مقصود ہے
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ شکر کا درجہ بہت عالی ہے، اور صبر، خوف اور زہد سے زیادہ بلند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام اوصاف خود اپنی ذات میں مطلوب نہیں، بلکہ سب مقصود بالغیر (یعنی کسی اور چیز کو حاصل کرنے کے لیے مقصود) ہیں۔ مثال کے طور پہ صبر اس لیے مطلوب ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہشات کو کچلے، خوف اس لیے مطلوب ہے کہ انسان اس کے ڈر سے مقصودِ حقیقی کے لیے کوشش کرتا رہے، اور زہد سے مقصود ان تمام تعلّقات سے دور بھاگنا ہے جن کی وجہ سے انسان مقصودِ اصلی، یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا، سے بے راہ ہو جاتا ہے اور بھٹک جاتا ہے۔ البتّہ صرف شکر ایک ایسی صفت ہے جو اپنی ذات میں خود مطلوب ہے اور مقصود بالذّات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکر کا وجود جنّت میں بھی ہو گااور اللّٰہ تعالیٰ کے بندے وہاں کی نعمتوں پہ بھی شکر ادا کریں گے، جبکہ وہاں توبہ و خوف و زہد و صبر کی حاجت نہیں ہو گی۔
شکر کے تین اجزاء
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ شکر کے تین اجزاء ہیں۔
شکر کا پہلا جز: علم
شکر کا پہلا جز علم ہے، یعنی ان نعمتوں کے بارے میں جاننا جو ہمیں عطا ہوئی ہیں، اور اس ذات کے بارے میں جاننا جو ہمیں یہ تمام نعمتیں عطا کرتی ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان کو اس حقیقت کی معرفت ہو کہ ہمارے جو کچھ بھی اچھی باتیں یا چیزیں ہیں وہ سب ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں کے ہم تک پہنچنے کے تمام وسائل اور ذرائع صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کے مکمل اختیار میں ہیں۔ کوئی ذرّہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا، اور نہ ہی کوئی انسان کوئی اچھی چیز حاصل کر سکتا ہے، جب تک کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسا نہ چاہیں۔
جب ایک انسان کو یہ باتیں اچھی طرح سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر اس میں دو تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اس کو اس ذات سے محبّت ہونے لگتی ہے جس نے اس پہ یہ سب نعمتیں نچھاور فرمائی ہیں، اور دوسری یہ کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے کا اور بھی زیادہ پابند ہونے لگتا ہے۔
شکر کا دوسرا جز:
شکر کا دوسرا جز یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں سے خوش اور قانع ہو جاتا ہے جو اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا ہیں۔ اس خوشی کی تین وجوہات ہیں؛
خوشی کی پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ان نعمتوں سے انسان کی ضروریات پوری ہونے لگیں اور اس کی زندگی زیادہ سہل ہو گئی۔ یہ حقیقی شکر نہیں ہے کیونکہ اس انسان کی نظر صرف ان اچھی چیزوں پہ رک گئی جو اسے ملیں، اور ان کے دینے والے پر نہیں گئی۔
خوشی کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسان کوان نعمتوں سے اندازہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے خوش ہیں، اور اس وجہ سے مستقبل میں اس سے بھی زیادہ بڑی نعمتیں ملنے کا امکان ہے۔ یہ شکر کا کمزور درجہ ہے کیونکہ اس میں انسان کی نظر منعمِ حقیقی تک گئی تو، لیکن اس کی ساری توجّہ ابھی بھی ان اچھی چیزوں تک ہی محدود ہے جو اسے ملی ہیں، یا آ ئندہ ملیں گی، اور اس کی توجہ اس ذات پہ نہیں ہے جس نے اسے وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔
خوشی کی تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اس کو جو نعمتیں ملی ہیں، وہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی مزید رضا حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہی حقیقی شکر ہے، کیونکہ شکر کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ انسان اچھی باتیں اور صفات ملنے پہ اس وجہ سے خوش ہو کہ وہ اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کا مزید قرب اور رضا حاصل کرنے کا وسیلہ بنیں گی۔ اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان ان نعمتوں میں اتنا نہیں کھو جاتا اور الجھ جاتا کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی ذات اور اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف سے غفلت ہونے لگے۔
شکر کا تیسرا جز: عمل
شکر کا تیسرا جز عمل ہے، یعنی انسان کو جو بھی نعمتیں عطا ہوئیں وہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرنے لگا۔ ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان کو اچھی طرح سے معرفت حاصل ہو جائے کہ انسانوں کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اور یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان سب کا حقیقی مقصد کیا ہے۔مثال کے طور پہ ہماری آنکھیں اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں، اور اس نعمت کا حقیقی شکر یہ ہے کہ ہم انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھنے کے لیے استعمال کریں، ایسی کتابوں کو پڑھنے میں استعمال کریں جن سے ہمارے دین کے علم اور فہم میں اضافہ ہو، اپنے اردگرد کی دنیا اور سورج، چاند، ستاروں کو دیکھنے میں استعمال کریں جس سے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس ہو، اور ہم انہیں ایسے غلط مواقع پہ دیکھنے میں نہ استعمال کریں جن چیزوں کے دیکھنے سے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ اسی طرح ہمارے کان اللّٰہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں، اور اس نعمت کا حقیقی شکر یہ ہے کہ ہم انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر اور ایسی باتوں کو سننے کے لیے استعمال کریں جن سے ہماری آخرت بہتر ہو، اور ہم انہیں گناہ کی اور فضول کی باتوں کو سننے میں نہ استعمال کریں۔ ہماری زبان اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اور اس نعمت کا حقیقی شکر یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کے شکر اور حمد میں استعمال ہو، اور اسے ان باتوں سے روکا جائے جن کی وجہ سے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا ہو۔ ذہن کا شکر یہ ہے کہ انسان اسے دین میں غور و فکر کرنے میں مصروف رکھے، اس ے ذریعے اپنے اخلاقِ باطنہ اچھے کرے، اور اس کو اخلاقِ رذیلہ سے بچائے۔
مختصراً یہ کہ ہمارے تمام اعضاء، ہمارے مال و دولت، ہماری عزّت و جاہ، ان سب کا حقیقی شکر یہ ہے کہ ان سب کو اللّٰہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اللّہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
کہہ دو کہ: ”کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ وہ ہمارابھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ (یہ) اور (بات ہے کہ) ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، اور تمہارے عمل تمہارے لئے۔ اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لئے خالص کرلی ہے“(۲: ۱۳۹)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛
انما الاعمال بالنیات
ترجمہ: "اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے۔"
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ "جس طاعت کا ارادہ ہو، اس طاعت میں غیر طاعت کا قصد نہ کرنا اخلاص ہے۔"
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب انسان کسی عبادت کا ارادہ کرے مثلاً نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، تو اس نماز پڑھنے سے اس کا سو فیصد مقصود یہ ہو کہ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہو، کوئی دنیاوی فائدہ مقصود نہ ہو مثلاً یہ کہ لوگ مجھے نماز پڑھتا دیکھیں گے تو نیک سمجھیں گے اور اس سے مجھے فلاں فائدہ حاصل ہو گا یا میری شہرت ہو گی۔
حضرت تھانوی ؒ نے مزید فرمایا کہ "جس طاعت کا ارادہ ہواس میں کمال کا درجہ اختیار کرنا یہ صدق ہے، مثلاً نماز کو اسی طرح پڑھنا جس کو شریعت نے صلوٰة کاملہ کہا ہے، یعنی اس کو آدابِ ظاہرہ و باطنہ کے ساتھ ادا کرنا۔اس کے علاوہ تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتلایا ہے اس کا اختیار کرنا صدق ہے۔"
اور امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ اخلاص کی بنیاد انسان کی نیّت ہے کیونکہ نیّت میں ہی اخلاص ہوا کرتا ہے، اور اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ انسان جب ایک کام کسی نیّت یا قصد سے کرے تو اس کی نیّت سو فیصد اسی مقصود کو حاصل کرنے کی ہو، اس نیّت میں کسی اور فائدے کے لالچ کی آمیزش نہ ہو۔ اور اخلاص جب کامل ہو جاتا ہے تو صدق کہلاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرنا
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"اور انہیں اس کے علاوہ کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللّٰہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے خالص رکھیں۔۔۔" (۹۸: ۵)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کا مقصودِ اصلی صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ قیامت کے روز کچھ لوگوں کے اعمال اللّٰہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیے جائیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ان کو پھینک دو کیونکہ ان اعمال سے اس شخص کو میری ذات مقصود نہ تھی۔ اور کچھ اور بندوں کا نامہٴ اعمال پیش ہو گا تو اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ فلاں فلاں عمل اور ان کے درج کردو۔ فرشتے عرض کریں گے کہ بارِ الٰہ! وہ اعمال تو اس نے کیے نہیں تھے۔ حکم ہو گا کہ ان اعمال کی اس نے نیّت تو کی تھی، اور اس کا ہم کو علم ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ "آدمی چار قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جسے اللّٰہ تعالیٰ نے مال بھی دیا اور علم بھی دیا، اور وہ اس علم کی وجہ سے اس مال کو اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ دوسرا طرح کا آدمی وہ ہے جو اس شخص کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ مجھے بھی مال اور علم عطا فرمائیں تو میں بھی اس کی طرح خیرات کروں۔ یہ دونوں شخص اجر میں برابر ہیں۔ تیسرا شخص وہ ہے جس کو صرف مال عطا ہوا اور علم عطا نہیں ہوا، اور یہ شخص جہالت کے سبب فساد کرتا ہےاور فضول و بے جا مال اڑا رہا ہے۔ اور چوتھا شخص وہ ہے جو اس کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اگر مجھ کو مال مل جائے تو میں بھی اسی طرح مزے اڑاؤں اور عیش کروں۔۔ یہ دونوں شخص گناہ میں مساوی اور برابر ہیں۔" (تبلیغِ دین)
اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ بنی سرائیل میں سے ایک شخص کا قصّہ ہے کہ قحط کے زمانے میں اس کا گزر ایک ریت کے ٹیلے پر سے ہوا اور وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ اگر یہ رات کا ٹیلہ اناج بن جائے تو میں اس کو لوگوں میں تقسیم کر دوں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس زمانے کے نبی پہ وحی بھیجی کہ اس شخص سے کہہ دو کہ خدا نے تمہاری خیرات قبول کی اور نیک نیّتی کی قدر فرمائی، اور اسی قدر ثواب عطا کیا جتنا کہ ٹیلے کی مقدار اناج کے مساکین پر خیرات کرنے میں ملتا۔
نیّت کا اس بات پہ بہت گہرا اثر ہے کہ کوئی عمل نیکیوں میں لکھا جاتا ہے یا گناہوں میں۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ؛
"جو شخص کسی عورت سے کسی مقدارِ مہر پہ نکاح کرے اور اس کے ادا کرنے کی نیّت نہ رکھتا ہوتو یہ نکاح نہیں بلکہ زنا ہے، اور جو شخص کسی سے قرض لے کر اس کے دینے کا قصد نہ رکھتا ہو تو یہ قرض نہیں بلکہ سرقہ اور چوری ہے۔" (تبلیغِ دین)
نیّت کی حقیقت
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ نیّت کا مطلب ہے کسی کام کا ارادہ یا قصد کرنا، یااپنے آپ کو کسی وجہ سے کوئی کام کرنے پہ تیّار کرنا۔ ہر کام کے لیے پہلے علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ علم حاصل کرنے کے بعد انسان اس کام کرنے کی نیّت کرتا ہے، جس کے زیرِ اثر وہ اپنے اعضاء کو استعمال کر کے اس کام کو کرتا ہے۔
مثال کے طور پہ ایک انسان کو بھوک لگی ہوئی تھی، لیکن وہ کسی اور کام کو کرنے میں اتنا زیادہ منہمک اور مصروف تھا کہ اسے اس بھوک کے ہونے کا احساس تک نہیں تھا۔ اچانک اس کی نظر کھانے پر پڑی تو اسے علم ہوا کہ اسے تو شدید بھوک لگی ہوئی ہے۔ پھر وہ اس کھانے کو کھانے کی نیّت کرتا ہے۔ یہ نیّت پھر اس کو وہ تمام جسمانی حرکات کرنے پر آمادہ کرتی ہے جن کے ذریعے وہ اس کھانے کو کھاتا ہے۔ تو، پہلے اسے اپنی بینائی کے ذریعے اپنی بھوک کا علم حاصل ہوا، اس علم کے ذریعے اس کے دل میں کھانا کھانے کی خواہش پیدا ہوئی، اس خواہش کے زیرِ اثر اس نے کھانا کھانے کا قصد کیا یا نیّت کی، اور پھر اس نیّت کے زیرِ اثر اس نے وہ تمام جسمانی حرکات کیں جن کے ذریعے کھانا اس کے معدے میں گیا۔
بالکل اسی طرح انسان کے اندر ان نعمتوں اور لذتّوں کی بھی خواہش ہوتی ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہیں۔ وہ ان چیزوں کے بارے میں اپنی عقل اور شریعت کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے۔ پھر اس علم کی وجہ سے وہ ان کاموں کو کرنے کی نیّت کرتا ہے جن کے کرنے سے اسے آخرت میں یہ نعمتیں ملنے کا امکان بڑھ جائے۔ یہی نیّت پھر اس بات کا محرّک بنتی ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو حرکت میں لا کر ایسے کام کرے کہ یہ نعمتیں حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہو جائے۔ یہی محرّک جو انسان کو کسی کام کے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے پر آمادہ کرتا ہے، اسے نیّت کہتے ہیں۔ اب مثال کے طور پہ ایک شخص جہاد کرنے کے لیے گھر سے نکلا تو یہ دیکھو کہ اس کے دل میں کیا محرّک تھا جس نے اسے گھر سے نکالا۔ اگر اس کا گھر سے نکلنے کا مقصود یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے آخرت کے لیے اجر حاصل کرے تو یہی اس کی نیّت ہے، اور اگر اس کے دل میں یہ محّرک تھا کہ ایسا کر کے وہ بہت پیسے کمائے گا اور شہرت کمائے گا تو یہی اس کی نیّت ہے۔
ایک ہی عبادت میں کئی نیّتیں کرنے سے کئی عبادات کا ثواب ملتا ہے
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ بہت سے نیک کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کئی مختلف نیّتوں سے کرنے پہ ایک ہی عبادت کرنے سے کئی عبادات کا ثواب مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ مسجد جانا اور اس میں بیٹھنا اپنی ذات میں خود ایک عبادت ہے، لیکن انسان اس میں سات مختلف عبادتوں کی نیّت کر سکتا ہے؛
۱۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ مسجد اللّٰہ تعالیٰ کا گھر ہے، اور جو شخص بھی مسجد آتا ہے گویا اللّٰہ تعالیٰ کی زیارت کو آتا ہے: مسجد جاتے ہوئے انسان یہ نیّت کرلے کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کی زیارت کے لیے مسجد جا رہا ہوں، کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا، "جو شخص مسجد میں آیا وہ اللّٰہ کی زیارت کو آیا ہے۔" (تبلیغِ دین)
۲۔ مسجد میں اگلی نماز کے انتظار کی نیّت کرو: اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے یہ نیّت کر لی کہ تم اس وقت کوئی دنیاوی کام نہیں کرو گے اور گویا اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ محبوس (قید) کر لیا۔ اس سے قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم "ورابطو" کی تعمیل ہو گی اور اس کا ثواب الگ ملے گا۔
۳۔ اعتکاف کی نیّت کر لو: اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو مسجد میں پابند کر لے کہ ایک معین وقت تک مسجد کے احاطے سے باہر نہیں نکلے گا، اور اس وقت میں کھانے پینے، ضروری حاجات، کے علاوہ صرف عبادت کرے گا اور کوئی دنیاوی کام نہیں کرے گا۔ جب انسان مسجد جاتا ہے تو یہ ارادہ ہوتا ہی ہے کہ جب تک پوری نماز نہیں پڑھ لوں گا مسجد سے باہر نہیں نکلوں گا۔ تو بس جب مسجد جاؤ تو یہ نیّت کر لو کہ جب تک مسجد میں رہوں گا اعتکاف کی حالت میں رہوں گا، اور صرف وہی کام کروں گا جن کی اعتکاف میں کرنے کی اجازت ہے۔ تو پھر اسی مسجد میں بیٹھنے کی عبادت میں اعتکاف کا ثواب بھی شامل ہو جائے گا۔
۴۔ مسجد میں کچھ وقت خلوت (اکیلے) میں بیٹھ کر ذکر اور فکر کرنے کی نیّت کریں۔ اس سے دنیا اور آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقع ملتا ہے، اور آخرت کی فکر میں اضافہ ہوتا ہے۔
۵۔ اس بات کی نیّت کریں کہ جب لوگ آپ کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھیں تو اللّٰہ کرے کہ ان کے دل میں بھی مسجد میں آنے اور جماعت سے نماز پڑھنے کا داعیہ پیدا ہو جائے۔ اس سے آپ کا مسجد جانے کا عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (نیکی کی طرف بلانا اور گناہوں سے بچنے کی ترغیب دینا) میں شامل ہو جائے گا کیونکہ آپ نے اپنے عمل سے ان کو ایک نیک کام کرنے، اور جب تک مسجد میں رہیں گناہوں سے بچنے، کی ترغیب دی، تو اس سے آپ کو بھی ثواب ملے گا۔
۶۔ مسجد جانے سے خود کو بھی دین کا فائدہ ہو گاجس سے آپ کے آخرت کے لیے نیکیوں کے خزانے میں اضافہ ہو گا۔
۷۔ اس بات کی نیّت کریں کہ اللّٰہ کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے گھر میں بیٹھنے سے اس احساس میں اضافہ ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ صرف مسجد میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں، اور اس سے گناہوں سے بچنے میں مدد ملے۔
اس طرح سے ایک عبادت کے لیے مختلف نیّتیں کرنے سے انسان کو ایک عبادت کر کے بہت ساری عبادتوں کا ثواب مل جاتا ہے۔ لیکن اس سے محتاط رہنا چاہیے کہ بالکل اسی طرح سے انسان اگر ایک گناہ کئی وجوہات سے کرتا ہے تو اس کے نامہٴ اعمال میں وہ تمام گناہ لکھے جاتے ہیں۔
اخلاص کی حقیقت
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ اخلاص کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کوئی بھی کام کرتے ہوئے انسان صرف ایک ہی چیز کا سو فیصد قصد یا نیّت کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاص کامل ریا بھی ہو سکتی ہے یعنی صرف اور صرف بندوں کو راضی رکھنے کی نیّت رکھنا، اور سو فیصد اللّٰہ تعالیٰ کو راضی رکھنے کی نیّت بھی ہو سکتی ہے۔اخلاص کے لفظی معنی میں یہ دونوں چیزیں آتی ہیں، کیونکہ ایک خالص شے وہ ہوتی ہے جس میں کسی بھی دوسری شے کی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں اخلاص اس کو کہا جاتا ہے جب کوئی بھی عبادت کرتے ہوئے انسان کی نیّت صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہو۔ اگر اس عبادت کی نیّت میں کسی دوسری نیّت کی آمیزش ہو جائے، مثلاً یہ کہ لوگ میری تعریف کریں گے اور مجھے نیک سمجھیں گے، تو اسے اخلاص نہیں کہا جائے گا۔
مثال کے طور پہ ایک انسان نے روزہ اس نیّت سے بھی رکھا کہ یہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، لیکن اس کی نیّت یہ بھی تھی کہ میں روزہ اس لیے بھی رکھ رہا ہوں کہ اس سے وزن کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ ویسے کھانا نہ کھانا آسان نہیں ہوتا، تو اب اخلاص کامل نہیں رہا۔ یا مثلاً ایک شخص اس نیّت سے حج کرنے نکلا کہ یہ ایک عظیم عبادت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں یہ نیّت بھی تھی کہ ذرا سیاحت کریں گے، نئی نئی جگہیں دیکھیں گے تو لطف آئے گا،تو اب یہ نیّت خالص نہیں رہی۔ ہر انسان ہر وقت بے شمار ارادوں، نیّتوں اور خواہشات میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، اور اس کے لیے اپنے دل سے ان سب کو خالی کرنا آسان نہیں ہوتا، اس لیے صوفیاء کا کہنا ہے کہ اگر ایک انسان ایک لمحے کے لیے بھی کامل اخلاص حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ان شاء اللّٰہ اس کی نجا ت ہو جائے گی۔
صدق کی حقیقت
اخلاص کا کمال صدق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر و باطن میں ہر اعتبار سے اور ہر وقت سچّا ہو، اور اس سے خلافِ سچ کا صدور ہی نہ ہو۔ رسول اللّٰہ نے فرمایا کہ؛
"انسان سچ بولتا اور اسی کا جویا بنا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللّٰہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے۔" (تبلیغِ دین)
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ صدق کے چھ درجات ہیں ۔
۱۔ کلام میں صدق ہونا
قولی صدق کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر حال میں سچ بولے۔ اس کے کمال دو ہیں؛
صدقِ قولی کا پہلا کمال یہ ہے کہ انسان کوئی ایسے الفاظ بھی اپنے منہ سے نہ نکالے جس سے دوسرا شخص کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو سکے اور بات کا مطلب کچھ اور سمجھے، جس کو توریہ کہتے ہیں۔ حالانکہ بعض صورتوں میں ایسا کرنا شریعت میں جائز ہے، لیکن چونکہ توریہ جھوٹ کے قریب آ جاتا ہے اس لیے صدیق کی شان کے مناسب نہیں۔
صدقِ قولی کا دوسرا کلام یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے بھی جو عرض کرے وہ بالکل سچ ہو، مثلاً اگر انسان نماز میں یہ کہے کہ "میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہوتا ہوں"، تو اگر تو واقعی اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کے ماسوا کسی اور کا کوئی خیال نہیں تو تب تو یہ سچ ہے، ورنہ خلافِ واقعہ ہے۔ یا مثلاً "ایّاک نعبد و ایّاک نستعین" کہتا ہے تو اگر واقعی میں اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی سے کچھ امید نہیں رکھتا تو تب تو یہ سچ ہے، ورنہ جھوٹ ہے۔
۲۔ نیّت میں صدق ہونا
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیّت کا ایسا سچّا ہو کہ مثلاً جب عبادت کی نیّت کرے تو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے سوا کسی اور قصد کی نیّت نہ ہو۔
۳۔ عزم کا صدق ہونا
تیسرے درجے کا صدق اپنے عزم اور ارادے میں پختہ ہونا ہے۔ بہت دفعہ انسان کے دل میں اس طرح کے خیالات آتے ہیں کہ اگر میرے پاس اتنی دولت آجائے تو اس میں سے اتنا غریبوں کو دے دوں، یا اگر میرے پاس طاقت آ جائے تو میں لوگوں کے ساتھ انصاف کروں۔ لیکن کبھی لوگوں کے ان خیالات میں پختگی ہوتی ہے، اور کبھی تردّد اور تذبذب ہوتاہے۔صدق کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اگر انسان کی گردن بھی اڑا دی جائے تو اس کے عزم میں کمزوری نہ آنے پائے۔
۴۔ اپنے عزم کو پورا کرنے میں صدق ہونا
بعض دفعہ آدمی نیک کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن نیک کام کرنے کا وقت آیا تو کمزور پڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ جیسا اوپر آیا کہ انسان سوچتا ہے کہ مجھے دولت ملی تو اس کا اتنا حصّہ غریبوں کو دے دوں گا، لیکن اگر حقیقت میں دولت مل گئی تو اس کا ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ یا یہ سوچتا ہے کہ طاقت ملی تو کمزوروں کے ساتھ انصاف کروں گا لیکن حقیقت میں طاقت مل گئی تو ارادہ بدل جاتا ہے۔ حالانکہ اصل امتحان کا تو یہی وقت تھا۔ جب دولت تھی ہی نہیں تو اس کو دوسروں کو دینے کا ارادہ کرلینا کیا مشکل تھا؟ امتحان کا وقت تو اب ہے کہ انسان اپنے عزم پر قائم رہے اور ا س کو پورا کرے۔
(اگلے دو درجے سمجھنے کے لیے تصوف میں حال اور مقام کی اصطلاح سمجھنا ضروری ہے۔ حال کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس وقت جو کام کر رہا ہے، مثلاً ایک انسان پہ مشکل وقت آیا تو اس نے صبر کیا اور شکوہ شکایت نہیں کیا۔ یہ اس کا حال ہے جس کو انگریزی میں اسٹیٹ (state) کہتے ہیں۔ پھر جب ایک انسان ہر طرح کے مشکل حالات میں صبر کرتا ہی رہتا ہے تو ایک عرصے کے بعدصبر کرنا اس کی طبیعت کا حصّہ بن جاتا ہے، ایسا کہ اس پہ اس کو دوام نصیب ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ تصوّف کی اصطلاح میں اس کو مقام یا انگریزی میں ٹریٹ (trait) کہتے ہیں۔
۵۔ حال میں صدقِ
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو، یعنی ظاہر حالت بھی وہی ہو جو باطن کی حالت ہو۔ یعنی اگر انسان ظاہر میں تواضع اور منکسر المزاجی کا رویّہ رکھے تو دل میں بھی تواضع ہو، دل تکبّر سے بھرا ہوا نہ ہو۔ ورنہ یہ حالت کا جھوٹ ہو جائے گا۔
۶۔ مقامات میں صدق
صدق کا چھٹا درجہ دین کے مقامات اور مدارج میں سچّائی کا ہے ، یعنی خوف و رجا و توّکل و زہد میں بھی انتہائی مقام حاصل کرے، صرف ابتدائی درجے پہ نہ رہ جائے۔
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ انسان صدیق کہلانے کا مستحق حقیقت میں اسی وقت ہوتا ہے جب وہ ان چھ کے چھ درجوں میں کامل ہو جاتا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا؛
"۔۔۔لوگو! یہ وہ بات ہے جس کی نصیحت اس شخص کو کی جا رہی ہے جو اللّٰہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ اور جو کوئی اللّٰہ سے ڈرے گا، اللّٰہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔ اور جو کوئی اللّٰہ پر بھروسہ کرے، تو اللّٰہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے۔ یقین رکھو کہ اللّٰہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ (البتّہ) اللّٰہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرّر کر رکھا ہے۔" (۶۵: ۲ تا ۳)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
"اگر تم خدا پر پورا توکّل کرو گے تو حق تعالیٰ تم کو اس طرح رزق دے گا جس طرح پرند کو دیتا ہے، یعنی بلا تعب و مشقّت کہ صبح کو بھوکا اٹھتا ہے اور شام کو پیٹ بھرا واپس آتا ہے۔" (تبلیغِ دین)
توکّل کی حقیقت
مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ توکّل کے معنی ہیں "اللّٰہ پر بھروسہ کرنا"، یعنی دل میں یہ یقین رکھنا کہ جتنے بھی اسباب ہیں، ان اسباب میں کچھ نہیں رکھا۔ ان اسباب میں اللّٰہ تعالیٰ جب تاثیر پیدا فرمائیں گے تو تاثیر ہو گی، ورنہ نہیں ہو گی۔ لہذا بھروسہ اس سبب پر نہیں، بلکہ بھروسہ مسبّب الاسباب یعنی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ پر ہے۔
مثال کے طور پہ ایک انسان بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس بھی جاتا ہے، اس کی لکھی ہوئی دوا بھی کھاتا ہے۔ لیکن بھروسہ نہ ڈاکٹر پر ہے، نہ دوا پر ہے، دل میں یہ یقین ہے کہ اسباب تو پورے کر لیے لیکن شفاء دینے والی ذات صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ اس ڈاکٹر کے نسخے میں اور اس دوا میں تاثیر ڈالیں گے تو شفاء ہو گی، ورنہ نہیں ہو گی۔
اسباب کا ترک کرنا توکّل نہیں
حضرت والا نے مزید فرمایا کہ توکّل کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان تمام اسباب چھوڑ کر بیٹھ جائے، مثلاً بیمار ہو تو ڈاکٹر کے پاس نہ جائے، یا ڈاکٹر کو تو دکھائے لیکن اس کی تجویز کی ہوئی دوا نہ کھائے، اور یہ کہے کہ مجھے تو اللّٰہ تعالیٰ پہ بھروسہ ہے، وہ مجھے شفاء دے گا۔ یہ توکّل نہیں، مثلاً یہ کہ انسان کوئی کام نہ کرے، ملازمت کے لیے بھاگ دوڑ نہ کرے، بس گھر میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے، اور یہ سمجھتا رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ خود ہی گھر میں رزق بھیج دے گا۔ یہ ترکِ اسباب توکّل کا حصّہ نہیں۔
اس کی حقیقت خود رسول اللّٰہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ ایک صحابی نے حضورِ اقدس ﷺ سے پوچھا کہ "یا رسول اللّٰہ! بعض دفعہ میں اونٹنی پر سفر کرتا ہوں۔ سفر کے دوران مجھے کہیں نماز کے لیے یا دوسری ضرورت کے لیے رکنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہو جاؤں، اور اونٹنی بھاگ جائے۔ تو کیا اس وقت میں اللّٰہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اونٹنی کو ویسے ہی چھوڑ دوں؟ کیونکہ میں اللّٰہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھ رہا ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ میری اونٹنی کی حفاظت کریں گے، یا اس اونٹ کی پنڈلی کو رسّی سے باندھ دوں، تا کہ وہ بھاگ نہ جائے؟" جواب میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پہلے اس اونٹنی کی پنڈلی کو رسّی سے باندھو، اور پھر اللّٰہ پر توکّل کرو۔"
توکّل کے ارکان
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ توکّل کے تین ارکان ہیں، اوّل معرفت، دوم حالت، اور سوم اعمال۔
۱۔ معرفت
توکّل کا پہلا رکن اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت یعنی توحید ہے۔ اس کا اقرار کلمہٴ توحید سے ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ اس کائنات میں ہر شئے کا مالک ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس کسی انسان نے اس بات پہ صدق اور اخلاص کے ساتھ یقین کر لیا اس کے دل میں ایمان پختہ ہو گیا، اور اس سے اس کے دل میں توکّل کی حالت پیدا ہو جائے گی۔
۲۔ حال
توکّل کا دوسرا رکن حال ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تمام کاموں کا نتیجہ اس حد تک مکمل طور پہ اللّٰہ تعالیٰ کے حوالے کر دےکہ وہ مطمئن اور بے فکر ہو جائے کہ کہ اس کے کاموں کا نتیجہ اس کے حق میں اچھا ہی ہوگا، اور یہ جانے کہ اللّٰہ تعالیٰ کبھی اس کو حقیقی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔
جب ایک انسان یہ جان لے کہ اس کا رزق، اس کی زندگی، اس کی موت، اس کے تمام کاموں اور کوششوں کا نتیجہ، سب کچھ مکمل طور پہ اللّٰہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اور یہ بھی جانتا ہو کہ اس کی طاقتوں اور اس کے اختیار میں کوئی اور شریک نہیں، اور یہ کہ اس کی رحمت اور اس کی کریمی کی کوئی انتہا نہیں، تو پھر اسے اپنے تمام کاموں کا نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کے بعد اطمینان کیوں نہ ہو، اور وہ دوسرے لوگوں کی طرف اس نظر سے کیوں دیکھے کہ وہ ا سکا کوئی کام بنا دیں گے یا بگاڑ دیں گے؟
۳۔ عمل
امام غزالی ؒ نے مزید فرمایا کہ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ پہ توکّل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا رزق کمانے کے لیے تمام کوششیں کرنا چھوڑ دے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے کہ اس کا رزق خود چل کے اس کے پاس آ جائے گا، یا اگر بیماری ہو تو علاج نہ کرے، یا اپنی جان کو جانتے بوجھتے خطرے میں ڈال دے مثلاًآگ میں گھس جائے کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ پہ توکّل ہے کہ وہ ہمیں بچا لیں گے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ اس طرح کے کام کرنا شرعاً حرام ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان کوئی بھی کوشش یا سعی ان چار وجوہات میں سے کسی وجہ سے کرتا ہے؛ یا تو کوئی ایسی فائدہ مند چیز حاصل کرنے کے لیے جو اس وقت اس کو حاصل نہیں ہے، یا کسی ایسی فائدہ مند چیز کی حفاظت کے لیے جو اس کے پاس موجود ہے، یا کسی آنے والے نقصان سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے، یا کسی موجودہ نقصان کو دور کرنے کے لیے۔
ان میں سے پہلی دو وجوہات کے لیے کوشش کرنے کو جلبِ منفعت کہا جاتا ہے، اور ا سکی تین ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں؛ پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر انسان یہ کوشش کرے تو مطلوبہ فائدے کا حصول یقینی ہو، دوسری یہ کہ انسان اگر وہ کوشش کرے گا تو اس بات کا غالب امکان ہو گا کہ اس کو مطلوبہ فائدہ مل جائے، اور تیسری صورت یہ کہ اگر انسان کوشش کرے تو بھی اس فائدے کے حاصل ہونے کی امید موہوم یعنی بہت کم ہے۔
پہلی صورت: جب فائدہ یقینی ہو
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک انسان شدید بھوکا ہو اور اس کے سامنے کھانا رکھا ہوا ہو، لیکن وہ ا س کھانے کو اٹھا کے اپنے منہ میں نہ ڈالے، اور یہ دعویٰ کرے کہ میں تو متوکّل (توکّل کرنے والا) ہوں، یا کوئی شخص اولاد چاہے لیکن نکاح نہ کرے، یا کوئی شخص فصل تو چاہے لیکن زمین میں بیج نہ ڈالے۔ یہ صورت محض جہالت اور خام خیالی ہےکیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے بعض فائدے حاصل کرنے کے لیے بعض اسباب کو لازمی قرار دیا ہے، اور یہ ہمارے لیے شریعت کا حکم ہے کہ ہم وہ فائدے حاصل کرنے کے لیے وہ اسباب اختیار کریں۔ لیکن اس میں بھی دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ کھانا دینے والا بھی اللّٰہ تعالیٰ ہے، کھانا کھانے کے لیے ہاتھ عطا کرنے والا بھی اللّٰہ تعالیٰ ہے، اور کھانا کھانے اور اس کو ہضم کرنے کی صلاحیت دینے والا بھی اللّٰہ تعالیٰ ہے۔
دوسری اہم بات یہ یاد رکھنا ہے کہ اسباب کو استعمال تو کرنا ہے لیکن ان پہ بھروسہ نہیں کرنا ہے۔ دل سے بھروسہ تو اللّٰہ تعالیٰ پہ ہی رکھنا ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہیں گے تو ان اسباب سے فائدہ پہنچے گا، اور نہیں چاہیں گے تو نہیں پہنچے گا۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کھانا کھائے لیکن اسی کھانے کے اثر سے بیمار ہو جائے، یا نکاح کرے لیکن اولاد نہ ہو، یا زمین میں بیج ڈالے لیکن ساری فصل جل جائے۔
اگر انسان ان دونوں باتوں کا خیال رکھے تو پھر اپنے فائدے کے لیے ایسے اسباب کو اختیار کرنا جن سے فائدہ یقینی ہو نہ تو غلط ہے، اور نہ ہی توکّل کے خلاف ہے۔
دوسری صورت: جب فائدہ ہونے کا امکان غالب ہو
اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص کو جنگل کے درمیان سے سفر کر کے جانا ہو۔ اگر وہ اپنے ساتھ احتیاطاً کھانا لے کر جائے تو یہ بات یقینی تو نہیں ہے کہ اگر وہ کھانا نہ لے کر جاتا تو بھوک سے مر جاتا، لیکن اس بات کا غالب امکان ہے کہ کھانا لے کر جانا نہ لے جانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ فائدہ مند ہو گا۔ ایسی صورت میں بھی یہ بات توکّل کے خلاف نہیں کہ انسان گھر سے تیّاری کر کے اور کھانا لے کے جائے، اور ہمارے بزرگوں کا یہی طریقہ تھا۔
لیکن اس صورت میں بھی انسان کو اپنا بھروسہ اسباب کے بجائے مسبّب الاسباب یعنی اللّٰہ تعالیٰ پہ رکھنا چاہیے، کہ اگر وہ چاہیں گے تو وہ کھانا خراب نہیں ہو گا یا لوٹ نہیں لیا جائے گا اور انسان کو فائدہ پہنچائے گا، اور اگر ان کی مرضی نہیں ہو گی تو کھانا ساتھ ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں پہنچے گا۔
تیسری صورت: جب فائدہ موہوم یا بعید از امکان ہو
اس صورت کی مثال ایسے ہے کہ ایک انسان اپنا مال بڑھانے کی اتنی زیادہ کوششیں کرتا ہے کہ وہ ہر وقت اسی کوشش میں پیچاں و غلطاں رہتا ہے، اور اس کا سوتے جاگتے ہر لمحہ اسی بارے میں سوچتے اور کوشش کرتے ہوئے گزرتا ہے کہ وہ اپنے مال میں اضافہ کیسے کرے۔ لیکن دنیا میں ان گنت ایسے لوگ ہیں جو یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے مال میں اضافہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسی صورت میں فائدہ موہوم ہے، فائدہ ہو بھی سکتا ہے، لیکن اس کا بھی بہت امکان ہے کہ فائدہ نہ ہو۔ یہ حالت حرص اور طمع کہلاتی ہے، اور جس شخص کے سر پہ یہ کیفیت سوار ہو جائے اس کے لیے بعض دفعہ مشتبہ اور حرام مال حاصل کرنے کی بھی نوبت آ جاتی ہے۔ ایسے اسباب کی فکر میں بہت زیادہ منہمک ہونا جن سے فائدہ ہونے کا امکان موہوم ہو، توکّل کے خلاف ہے۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ؛
"حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللّٰہ نیک بندوں سے محبت کرتا ہے، اور نیک بندے اللّٰہ سے محبت رکھتے ہیں۔"
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛
"جب تک تمہارے نزدیک اللّٰہ اور اس کا رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو گا اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہ ہو گا۔" (تبلیغِ دین)
حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا؛
"جس شخص کو اللّٰہ کی محبّت کا مزا آ جاتا ہے اس کو دنیا کی طلب بالکل نہیں رہتی، اور وہ آدمیوں سے وحشت کھانے لگتا ہے۔"
اللّٰہ تعالیٰ کی محبّتِ کاملہ
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اصلی اور کامل محبّت یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ سے صرف اور صرف ان کی ان کامل صفات ِ محمودہ و عالیہ کی وجہ سے محبّت کرے جس میں کوئی ان کا شریک نہیں اور کوئی ان کے برابر نہیں۔ اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ مجھے سب میں زیادہ پیارا بندہ وہ ہے جو میری عطا اور احسان کے بغیر محض حقِ ربوبیت (رب ہونے کا حق) ادا کرنے کی غرض سے میری عبادت کرے۔ زبور میں لکھا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے جنّت کی طمع یا دوزخ کے خوف سے میری عبادت کی، پس اگر میں دوزخ اور جنّت کو پیدا نہ کرتا تو کیا عبادت کا مستحق نہ ہوتا؟ (تبلیغِ دین)
اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت کا ادنیٰ درجہ
لیکن اگر کوئی شخص اللّٰہ تعالیٰ سے ان کی عظمتِ شان اور ان کی صفاتِ کاملہ کی وجہ سے محبّت نہ کر سکے، تو کم از کم اتنا تو کرے کہ ان کی ان لامتناہی نعمتوں کا ادراک کرے جو ہر وقت اس پر برس رہی ہیں، اور اللّٰہ تعالیٰ سے ان کی عطا کی ہوئی ان نعمتوں کی وجہ سے ہی محبّت کرے۔ اگر انسان غور و فکر کرے تو اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کون ہے جو ان تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا اور باقی رکھنے والا ہے جن میں اس کو دنیاوی لذّت محسوس ہوتی ہے۔ اگر انسان یہ سوچے تو اسی نتیجے پہ پہنچے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس ایسا کرنے کی قدرت نہیں۔
امام غزالی ؒ نے مزید لکھا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت کا ادنیٰ درجہ ہے، کیونکہ ایسے انسان کو اگر زیادہ دنیاوی نعمتیں ملیں گی تو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے زیادہ محبّت کرے گا، اور کم نعمتیں ملیں گی تو اللّٰہ تعالیٰ سے کم محبّت کرے گا۔
اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت کی علامات
جس شخص کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی حقیقی محبّت ہوتی ہے وہ اپنے نفس کی خواہشوں پر اپنے محبوب یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دیتا ہے، اور ان کے احکام کی تعمیل کو سب کاموں پر فوقیت دیتا ہے۔ اس کے دل میں تقویٰ ہوتا ہے، اور وہ ہر بات میں شریعت کی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔
ایسا شخص اللّٰہ تعالیٰ سے ملنے کا متمنّی اور مشتاق ہوتا ہے، اور موت سے نہیں گھبراتا۔ اگر وہ زندگی چاہتا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل ہو، چونکہ جتنی معرفت زیادہ ہو گی اتنی ہی اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات میں لذّت زیادہ ہو گی۔
وہ اپنی تقدیر اور اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پہ راضی رہتا ہے، اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی حالات پیش آتے ہیں، چاہے وہ اس کی مرضی کے مطابق ہوں یا مرضی کے خلاف ہوں، ان پر زبان سے یا دل میں شکایت نہیں کرتا۔
اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت کے اسباب
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت اگرچہ غیر اختیاری ہے، لیکن اس کے اسباب بندے کے اختیار میں ہیں۔ وہ یہ ہیں،
(۱) کثرتِ ذکر اللّٰہ،
(۲) اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات اور اپنے برتاؤ کو سوچنا،
(۳) کسی اہل اللّٰہ سے تعلّق رکھنا،
(۴) طاعت پر مواظبت (پابندی) کرنا ، اور
(۵) حق تعالیٰ سے دعا کرنا۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا،
"اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللّٰہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں۔۔۔"(۹: ۱۰۰)
اور رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
"حق تعالیٰ جب کسی بندے کو محبوب بناتا ہے تو اس کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ پس اگر وہ صابر بنا رہتا ہے تو اس کو منتخب کرتا ہے، اور اگر اس کی قضا پر راضی ہوتا ہے تو اس کو برگزیدہ کر لیتا ہے۔" (تبلیغِ دین)
ایک مرتبہ رسول اللّٰہ ﷺ نے چند صحابہ سے پوچھا کہ "تم کون ہو؟" انہوں نے عرض کیا کہ "یا رسول اللّٰہ! ہم مومنین مسلمین ہیں۔" آپ ﷺ نے پوچھا کہ "تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے؟" انہوں نے عرض کیا کہ "مصیبت پر صبر کرتے ہیں، راحت پر شکر کرتے ہیں، اور قضا پہ راضی رہتے ہیں۔" آپ ﷺ نے فرمایا، "بخدا! تم سچے مومن ہو۔"(تبلیغِ دین)
ایمانِ مفصل میں آتا ہے کہ "میں ایمان لاتا ہوں اچھی اور بری تقدیر پر"۔
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ جن باتوں پہ ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ (ہماری زندگی میں) جو بات جس طرح سے ہوئی وہ اسی طرح سے ہونی تھی، اور انسان جتنی بھی کوشش کر لیتا وہ اس کے خلاف نہیں ہو سکتی تھی۔
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ عالم تین طرح کے ہیں۔ ایک جنّت، جس میں راحت ہی راحت ہے، اطمینان ہی اطمینان ہے۔ دوسرے جہنّم، جس میں تکلیف ہی تکلیف ہے، اذیّت ہی اذیّت ہے، اس میں راحت کا نام و نشان بھی نہیں۔ اور تیسرا دنیا، جس میں راحت بھی ہے، تکلیف بھی ہے، سکون بھی ہے، پریشانی بھی ہے، اور انسان کو ان سب کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔
امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ بعض لوگ رضا بالقضاء میں یقین نہیں رکھتے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ جو بات انسان کی مرضی اور خواہش کے خلاف ہو اس سے کون انسان خوش ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اس ناگوار بات کو برداشت کرے، اور اس پہ صبر کرے۔ لیکن اس خیال کی بنیاد ایک غلط فہمی پر ہے۔ جو شخص رضا بالقضاء پر یقین نہیں رکھتا، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبّت کو نہیں سمجھتا۔
تین ایسی صورتیں ہیں جن میں ایک انسان اپنی مرضی کے خلاف واقعات پہ بھی خوش ہو سکتا ہے۔
۱۔ دنیاوی معاملات میں اپنے درد اور تکلیف پہ راضی ہونا
ہم اس دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ جب کسی انسان کو کسی چیز سے شدید محبّت ہو جاتی ہے تو وہ اس کے لیے بہت ساری تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پہ جب کسی انسان کو کسی چیز سے شدید عشق ہو جائے جس کو وہ ہر قیمت پہ حاصل کرنا چاہے تو پھر اس کو نہ اپنی بھوک کی فکر ہوتی ہے، نہ اپنی نیند کی، اور نہ اپنی جسمانی تکلیف کی، اس لیے کہ اپنی محبوب چیز کو حاصل کرنے کے خیال کی خوشی درد کی تکلیف کو کم اور ختم کر دیتی ہے۔ جب ایک انسان کو کسی دوسرے انسان سے محبّت ہو جاتی ہے، جس کے بارے میں اس کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ اس نے کسی بھی دن مر جانا ہے، تو اس محبوب کے ملنے کے خیال سے اس کا سارا درد دور ہو جاتا ہے۔ پھر اس بات میں کسی کو کیوں تعجّب ہو کہ ایک انسان کو اگر اللّٰہ تعالیٰ سے سچّی محبّت ہو جائے تو اس کو ان واقعات سے بھی خوشی ہونے لگے جو اس کی خواہش کے خلاف ہوں، کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی خواہش تھی کہ ایسا ہو۔
۲۔ تکلیف دہ واقعے کے اچھے نتائج کے خیال سے درد کا کم ہو جانا
دوسری وجہ جس لیے لوگ اپنے مقدر سے خوش رہتے ہیں اگرچہ اس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ جائے، یہ ہے کہ انسان کو اگرچہ طبعی طور پہ اس ناخوشگوار واقعے سے تکلیف تو ہوتی ہے، لیکن چونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اگر وہ اس تکلیف پہ صبر کرے گا تو اس کی وجہ سے اسے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بھرپور اجر ملے گا، اس لیے وہ اس تکلیف میں بھی خوش رہتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ اگر ایک انسان کو کوئی بیماری ہو، اور ڈاکٹر اس کو بتائے کہ اس بیماری سے مکمل طور پہ شفایاب ہونے کے لیے اس کا پیٹ کاٹ کے کھولنا پڑے گا، یا اس کا کوئی عضو کاٹ کے الگ کرنا پڑے گا، تو وہ جانتے بوجھتے خوشی خوشی یہ تکلیفیں اٹھانے کے لیے تیّار ہو جاتا ہے، اور ڈاکٹر کو بھاری فیس بھی دیتا ہے اور اس کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نظر اس وقتی تکلیف پہ نہیں ہے جو اس آپریشن کے دوران اسے اٹھانی ہو گی، بلکہ اس صحتیابی پہ ہے جو اس آپریشن کے بعد اسے ملے گی۔ یا ایک تاجر تجارت کے لیے طویل سفر کرتا ہے، ہر طرح کی مشقّتیں اٹھاتا ہے، جانی اور مالی خطرات مول لیتا ہے، اور یہ سب اس لیے مکمل رضامندی اور خوشی سے کرتا ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گیا تو بھاری نفع کمائے گا۔
تو اگر ایک انسان دنیا کے فائدے کے لیے ہنسی خوشی مشقّتیں اور تکالیف اٹھانے پہ تیّار ہو جاتا ہے، تو اس پہ کسی کو حیرانی کیوں ہو اگر ایک دوسرا انسان ہنسی خوشی دنیاوی تکالیف برداشت کرنے کو تیّار ہو اس لیے کہ اس کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں وہ صبر و شکر کے ساتھ تکالیف برداشت کر لے گا تو آخرت میں اسے ان تمام تکالیف کے بدلے بہت بڑا اجر ملے گا؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مسلمان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، یہاں تک کہ ا سکے پیر میں ایک کانٹا بھی نہیں چبھتا، جس کے بدلے اسے آخرت میں اجر نہ ملے۔
۳۔ اس بات کا یقین ہونا کہ جو کچھ ہو گا انسان کے حق میں بہتر ہی ہو گا
تیسری وجہ جس لیے انسان کو اس بات سے خوش رہنا چاہیے جس کا فیصلہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے حق میں فرمایا ہے چاہے وہ اس کی مرضی اور خواہشات کے خلاف بھی ہو، یہ ہے کہ اس کو اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ حاکم بھی ہیں اور حکیم بھی۔ حاکم کی حیثیت سے انہیں اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کریں، اور حکیم ہونے کی حیثیت سے ان کا ہر فیصلہ مخلوق کے حق میں اچھا ہی ہوتا ہے، چاہے انسان کو اس وقت اس کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اس کی مثال وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا وہ واقعہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضرؑ نے اس کشتی کے ایک تختے میں سوراخ کر دیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد انہوں نے ایک بستی کے باہر ،جس کے لوگوں نے ان کی مہمانداری کرنے سے انکار کر دیا تھا، ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر ؑ نے اس کو سیدھا کر دیا۔ ایک جگہ انہوں نے ایک چھوٹے بچے کی جان لے لی۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تمام کاموں پہ اعتراض اس لیے کیا کہ انہیں ان کاموں کے پسِ پردہ تکوینی حکمت معلوم نہیں تھی۔ اخیر میں حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو بتلایا کہ کشتی غریب لوگوں کی تھی اور وہاں کا بادشاہ اس وقت تمام اچھی حالت میں کشتیوں کو زبردستی بیگار کے لیے لے رہا تھا۔ اسی لیے حضرت خضر ؑ نے ان کی کشتی میں سوراخ کردیا تا کہ بادشاہ ان کی کشتی بیگار کے لیے نہ ضبط کر لے۔ جس چھوٹے بچے کی حضرت خضرؑ نے جان لی وہ شریر فطرت کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر وہ بڑا ہوا تو خود بھی گمراہ ہو گا، اور اپنے مسلمان والدین کو بھی دین سے گمراہ کر دے گا، اور وہ بچے کے لیے اپنی فطری محبت کے باعث اس کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکیں گے۔ اسلیے اس بچے کی جان لے لی گئی تا کہ اس کے بدلے اللّٰہ ان کو ایک نیک صالح فطرت والا بچہ عطا فرمائیں جو بڑا ہو کے خود بھی نیک اعمال کرے، اور اپنے والدین کے لیے آخرت میں نیکیوں کے ذخیرے میں اضافے کا سبب بنے۔ اور دیوار دو یتیموں کی تھی جن کے نیک صالح باپ نے اس کے نیچے ان کے لیے خزانہ چھپا دیا تھا۔ اسی لیے حضرت خضرؑ نے اس کو سیدھا کر دیا تھا کہ وہ خزانے ان بچوں کے بڑے ہونے تک پوشیدہ اور محفوظ رہے۔
اگر ایک انسان کو اس بات پہ صحیح معنوں میں ایمان اور اطمینان ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہی صورت اس کے لیے سب سے بہتر اور افضل ہے، چاہے اس کی حکمت انسان کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور چاہے اس وقت وہ بات اس کے لیے کتنی ہی تکلیف دہ ہو، تو اس واقعے سے متعلّق اس کی پریشانی اور اذیّت بہت حد تک ختم ہو جاتی ہے۔
تفویض کیا ہے؟
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ تفویض کے معنی ہیں "سونپ دینا، سپرد کر دینا،" جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے اختیارات فلاں شخص کے سپرد کر دیے۔ تصوّف کی اصطلاح میں تفویض کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے سارے معاملات اللّٰہ جل شانہ کے سپرد کردے، اور یہ کہےکہ "یا اللّٰہ! میں نہیں جانتا کہ میرے حق میں کیا چیز بہتر ہے۔ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ میرے حق میں جو بہتر ہو میرے لیے وہ فیصلہ فرما دیجئے۔" اور اس طرح سے انسان اپنا ہر معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کردے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے میں اس سے خوش اور راضی ہوں۔
تفویض اور تجویز کا فرق
تفویض کے برعکس ایک چیز ہے تجویز۔ تجویز کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود سے پہلے سےفیصلہ کر لے کہ میری زندگی میں یہ چیز ایسی ہونی چاہیے اور فلاں بات ایسے ہونی چاہیے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے کے مقابلے میں اپنی رائے چلانا اچھی بات نہیں۔
ان دونوں کے درمیان فرق اس مثال سے واضح ہو گا کہ ایک شخص ملازمت ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ جہاں جہاں اس کی تعلیم اور تجربے کے حساب سے مناسب ہے وہاں ملازمت کی درخواست دیتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ "یا اللّٰہ! مجھے نہیں معلوم کہ میرے حق میں کیا بہتر ہے۔ آپ کے علم میں ان میں سے جو بھی صورت میرے لیے بہتر ہو، اس کو میرے حق میں پورا فرما دیجئے۔" یہ تفویض ہے۔ اس کے مقابل ایک دوسرا شخص ہے جو پہلے سے دل میں ٹھان لیتا ہے کہ صرف فلاں ملازمت میرے قابل ہے، اور وہ مجھے ملنی چاہیے ہی چاہیے۔ اور اگر وہ اس کو نہیں ملتی تو زبان سے شکوہ شکایت کرتا رہتا ہے، اور دل میں کڑھتا رہتا ہے کہ یہ ملازمت تو صرف میرا حق تھی۔ یہ مجھے کیوں نہیں ملی۔ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ یہ تجویز ہے۔
تفویض کے درجات
حضرت والا نے مزید فرمایا کہ تفویض کا ایک درجہ تو واجب ہے، اور اس کے خلاف کرنا حرام ہے۔ وہ واجب درجہ یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے پہ اعتراض اور شکوہ شکایت نہ کرے۔ جیسا کہ پہلے مثال میں آیا کہ ایک شخص نے ایک ملازمت کے لیے درخواست دی اور وہ اسے نہیں ملی۔ اب وہ شکوہ شکایت کر رہا ہے کہ "یا اللّٰہ! میں نے آپ سے یہ ملازمت مانگی تھی۔ آپ نے مجھے نہیں دی۔ کیوں نہیں دی؟" (معاذ اللّٰہ) یہ، معاذ اللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے پہ اعتراض کرنے کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ جب اعتراض اور شکوہ پیدا ہو جائے تو یہ تفویض کے واجب درجے کی خلاف ورزی ہے اور گناہ بن جاتا ہے۔
اس سے آگے تفویض کا ایک اور درجہ ہے جو واجب تو نہیں، لیکن مستحسن اور مستحب ہے۔ وہ کسی کو حاصل ہو جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، ہر مسلمان کو اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اس کے حاصل نہ کرنے سے انسان گناہ گار نہیں ہوتا۔ وہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے دل میں کسی چیز کی تجویز نہ ہو، اپنا کوئی مطالبہ نہ ہو، کوئی ارادہ نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کسی چیز کے لیے کوشش نہ کرے۔ مثال کے طور پہ اسے اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے ملازمت چاہیے تو ملازمت ڈھونڈنے کے لیے پوری کوشش تو کرے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں یہ نیّت نہ رکھے کہ مجھے ہر حال میں فلاں ملازمت یا اتنی تنخواہ والی ملازمت ہی ملنی چاہیے۔ یہ نیّت رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ میرے لیے اس بارے میں جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ مجھے منظور ہے۔ اسی طرح اگر بیمار ہو تو سنّت کے مطابق علاج تو کرے، لیکن دل میں یہ خیال نہ ہو کہ مجھے ہر حال میں شفاء ہونی ہی ہونی چاہیے، یہ نیّت رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے، چاہے مجھے شفاء ہو، نہ ہو، زندگی رہے، نہ رہے، مجھے اللّٰہ تعالیٰ کا وہ فیصلہ دل و جان سے منظور ہے۔
جس کی مرضی کے خلاف دنیا میں کوئی کام نہ ہو
حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا حال ہیں؟ فرمایا کہ "اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو کہ کائنات میں اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہوتا ہی نہیں۔ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی کے لطف کا کیا عالم ہو گا؟ " لوگوں نے پوچھا کہ "حضرت یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ بات تو کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی کہ جو چاہا، وہ ہو جائے۔" فرمایا کہ "میں نے اپنی مرضی کو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی میں فنا کر دیا ہے۔ جو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی، وہی میری مرضی ہے۔ اور کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللّٰہ کی مرضی سے ہو رہا ہے، گویا کہ میری مرضی سے ہو رہا ہے۔"
تفویض کا مقام حاصل کرنے کا طریقہ
حضرت نے فرمایا کہ تفویض کا یہ درجہ حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اور اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو واجب بھی نہیں قرار دیا۔ البتّہ یہ ضرور واجب ہے کہ انسان جس کام کا بھی قصد کرے، اس کا نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ کے حوالے کر دے، اور اللّٰہ تعالیٰ جو بھی فیصلہ فرمائیں اس پہ راضی رہے اور شکوہ شکایت نہ کرے۔
نبی کریم ﷺ نے ایسے موقعوں پہ دعا فرمائی ہے کہ
الّّٰٰلھم ھذا الجھد و علیک التکلان
اے اللّٰہ! میں نے اپنی سی کوشش کر لی، باقی معاملہ آپ کے حوالے ہے۔ اب آپ پر بھروسہ ہے۔ آپ جو فیصلہ فرمائیں گے میں اس پر راضی ہوں۔ اسی کا نام تفویض ہے۔
اسی بات اور ارادے پہ یہ کتاب ختم ہوئی کہ یا اللّٰہ! یہ بندہ اپنی سی جو کوشش کر سکتا تھا وہ اس نے کر لی۔ اب آپ پہ بھروسہ ہے۔ آپ محض اپنی رحمت سے اس کتاب میں جو بھی نافع باتیں لکھی ہیں اس بندے کو اور اس کو پڑھنے والوں کو ان پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ ہم سب کو اپنی رحمت اور اپنے نبی کریم ﷺ کے توسّل کے وسیلے سے اپنے دین کو سیکھنے اور سمجھنے ، اور اس کو اپنی زندگی میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
و آخر دعوانا ان الحمداللّٰہ رب العٰلمین