(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر (جی اے ڈی) کیا ہوتا ہے؟
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر یا جی اے ڈی ان نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے جن کی بنیادی علامت گھبراہٹ ہوتی ہے۔ جی اے ڈی کے علاوہ بھی کئی اور نفسیاتی بیماریاں ایسی ہیں جن کی بنیادی علامت گھبراہٹ ہوتی ہے مثلاً پینِک ڈس آرڈر، آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر یا فوبیا۔ ان سب بیماریوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ان میں گھبراہٹ مختلف طرح کی صورتِ حال میں ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو جی اے ڈی کی بیماری ہو ان میں گھبراہٹ کی علامات کچھ اس طرح سے نظر آتی ہیں:
ان لوگوں کو ایک ہی وقت میں بہت سی مختلف طرح کی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں، یعنی صرف کسی ایک وجہ سے گھبراہٹ نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مختلف باتوں کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔
ان کی پریشانی اور گھبراہٹ کی شدّت ان کی حقیقی پریشانیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ان کو معمولی معمولی باتوں پہ بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے اور بہت دیر تک چلتی ہے۔
جی اےڈی کے شکار لوگ اپنی گھبراہٹ پہ خود سے قابو نہیں پا سکتے۔
جی اے ڈی کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
جی اے ڈی کی کوئی "ایک" مخصوص وجہ نہیں ہوتی۔ یہ انسان کی جینز، اس کے ماحول، اس اس کی زندگی کے تجربات، ان سب کی وجہ سے ہوتا ہے، اور یہ وجوہات ایک دوسرے سے مل کے اس بیماری کے خطرے کو کم یا زیادہ کر سکتی ہیں۔
اگر کسی انسان کے کسی قریبی عزیز کو جے اے ڈی کی بیماری ہو تو اس کو اینگزائٹی کی بیماری ہونے کا امکان چار سے چھ گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری کسی ایک جین (gene) کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ کئی جینز کا تھوڑا تھوڑا اثر ہوتا ہے جو مل کے اس بات کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے کہ ایک انسان کو جی اے ڈی ہو جائے۔
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
سائیکوتھراپی
سائیکوتھراپی کا مطلب ہوتا ہے مریض سے بات کر کے اس کی نفسیاتی بیماری اور پریشانیوں کا علاج کرنا۔اس کے کئی مختلف طریقے ہوتے ہیں:
کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی)
سی بی ٹی کی بنیاد اس بات پہ ہے کہ ہمارے سوچنے کے طریقوں کا ہمارے جذبات پہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ سی بی ٹی میں اپنی سوچ کے ان طریقوں کو، جن کی وجہ سے گھبراہٹ کی علامات بڑھ رہی تھیں اور ختم نہیں ہو رہی تھیں، زیادہ صحت مندانہ سوچوں سے بدلا جاتا ہے۔ اس میں مریض کو سکھایا جاتا ہے کہ ان کے خیالات، ان کے رویّوں، اور ان کے جذبات کس طرح ایک دوسرے کو متاثّر کرتے ہیں، اور کس طرح اپنے خیالات اور رویوں کو بہتر کر کے مزاج کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
اپلائیڈ ریلیکسیشن (اپنے آپ کو پرسکون کرنے کے طریقے)
اس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ انسان اپنی سانس پہ قابو پا نے اور اپنے پٹھوں اور عضلات کو خود سے ریلیکس یعنی پر سکون کر نا سیکھ کے اپنی گھبراہٹ کو خود کیسے کم کر سکتا ہے۔
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج میں استعمال ہونے والی دوائیاں
جی اے ڈی کے علاج میں پہلے سائیکوتھراپی کروا کے دیکھنا بہتر ہوتا ہے کیوں کہ اس سے فائدہ ہو جائے تو بہت سے لوگوں کو دوا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن اگر کسی کو دوائیوں سے فائدہ نہ ہو، یا وہ تھراپی نہ کروانا چاہیں، تو پھر دوا کے استعمال پہ غور کیا جا سکتا ہے۔
ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے اگر سائیکوتھراپی اور دوا دونوں سے ایک ساتھ علاج کیا جائے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات (مثلاً سرٹرالین یا فلو آکسیٹین وغیرہ)
یہ دوائیاں اینٹی ڈپریسنٹ کہلاتی ہیں لیکن یہ اینگزائٹی ڈس آرڈر یعنی گھبراہٹ کی بیماری کے علاج میں بھی موثر ہوتی ہیں۔ ان دوائیوں سے عام طور سے دوسری اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مقابلے میں کم مضر اثرات ہوتے ہیں۔
ایس این آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں (مثلاً وینلافیکسین)
اگر کسی مریض کو ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے فائدہ نہ ہو تو ایس این آر آئی دوا سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
گھبراہٹ کی بیماری کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے فائدہ ہونے میں دو سے آٹھ ہفتے تک لگ سکتے ہیں، اور ان کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب انہیں باقاعدگی سے لیا جائے۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کی مزید تفصیل آپ کو اس لنک پہ مل جائے گی۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/ڈپریشن-depression?authuser=0#h.t7dbmkw88o4y
پری گابالن (Pregabalin)
جن لوگوں کو اینگزائٹی کی بیماری کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے فائدہ نہ ہو، ان کے لیے بعض دفعہ پری گابالن کو تجویز کیا جاتا ہے۔ یہ دوا عام طور سے مرگی اور درد کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس دوا سے گھبراہٹ میں فائدہ ہوتا ہے۔
پری گابالن سے خطرہ یہ ہے کہ انسان اس کا عادی بن سکتا ہے۔ اگر مریض کو ایسا لگے کہ وہ اس دوا کا عادی بنتا جا رہا ہے، یا جس ڈوز میں اسے یہ دوا لینے کے لیے کہا گیا تھا اس سے زیادہ مقدار میں لے رہا ہے، تو اسے فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
بینزوڈایازیپین دوائیاں مثلاً ڈایازیپام یا کلونازیپام وغیرہ (Benzodiazepines)
ان دوائیوں سے گھبراہٹ میں کمی آتی ہے اور نیند بھی آتی ہے۔ ان دوائیوں کو وقتی طور پہ تو گھبراہٹ کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر ان کو دو سے چار ہفتے سے زیادہ مدّت کے لیے روزانہ استعمال کیا جائے تو ان سے عادت پڑنے کا ڈر ہوتا ہے۔
بیٹا بلاکرز (Beta-blockers)
ان دوائیوں سے گھبراہٹ کی جسمانی علامات کم ہو سکتی ہیں، مثلاً دل کا تیز دھڑکنا یا ہاتھ پیر کانپنا۔
اگر ہمارے کسی قریبی عزیز کو گھبراہٹ ہو تو ہم ان کی مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ان کی بات سنیں
جن لوگوں کو شدید گھبراہٹ ہو ان کی بات سکون سے بیٹھ کے سننا ان کے لیے بہت ڈھارس کا باعث بنتا ہے۔ بعض دفعہ جن لوگوں کو پریشانی کے خیالات آ رہے ہوں ان کے لیے اپنی پریشانی کا کسی عزیز یا دوست کے سامنے اظہار کر دینا ہی ان کی پریشانی کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ایک بات بار بار دہرائیں، لیکن ان کو ٹوکیں نہیں۔ ان کو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیں۔ اگر وہ خود سے نہ مانگیں تو ان کو مختلف کام کرنے کے مشورے مت دیں جو آپ کے خیال میں ان کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔
مریض کے ساتھ تحمّل سے پیش آئیں
شدید پریشانی اور گھبراہٹ میں بہت دفعہ انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے مریض کے ساتھ ایسا ہو تو جواب میں ان سے غصّہ نہ ہوں۔ تحمّل سے کام لیں۔ اپنے آپ کو یہ یاد دلائیں کہ وہ بیمار ہیں اور اس بیماری کی وجہ سے ایسا رویّہ اختیار کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ مل کر اپنی گھبراہٹ کو کم کرنے کے لیے جو پلان بنایا تھا اس پہ عمل نہ کر پائیں۔ اس بات پہ ان پہ غصّہ نہ کریں، اور ان کو وقت دیں۔
ان کی پریشانیوں کو سنجیدگی سے لیں
بعض دفعہ لوگ ایسی باتوں پہ پریشان ہوتے ہیں جو ہمارے خیال میں چھوٹی سی بات ہوتی ہے، لیکن ان کے لیے وہ بڑی بات ہوتی ہے۔ ان کو یہ مت کہیں کہ وہ غلط ہیں اور بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہیں کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بہت پریشان ہیں، اور ان ہی سے پوچھیں کہ آپ ایسی کیا بات یا کام کر سکتے ہیں جس سے ان کو فائدہ ہو گا۔
Last accessed: 3/9/2024
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کی وجوہات
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوائیاں
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال
جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج میں بینزوڈایا زیپینز کا استعمال
میرا نام ڈاکٹر سید احمر ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں سائیکائٹرسٹ ہوں۔
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اس وڈیو میں ہم یہ بات کریں گے کہ جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کی علامات کس طرح کی ہوتی ہیں۔
اس میں گھبراہٹ دن کے بیشتر حصّے اور ہفتے کے اکثر دنوں میں رہتی ہے۔ اس کا کسی خاص بات یا حالت سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ انسان بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں بلا وجہ پریشان ہوتا رہتا ہے۔
گھبراہٹ اس کے قابو میں نہیں ہوتی اور وہ اسے روک نہیں سکتا اور کم نہیں کر سکتا۔
ہر وقت اس طرح کی فکر رہتی ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔
بدن میں تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں مثلاً دل کا تیز تیز دھڑکنا، سانس کا تیز تیز آنا، ایسا لگنا جیسے سانس نہ لیا جا رہا ہو، پیٹ میں عجیب سی گھبراہٹ رہنا،
سر کے گرد، کندھوں میں، کمر میں، پٹھوں میں اکڑاؤ، سختی اور درد محسوس ہونا
رات کو نیند آنے میں مشکل ہونا یا بار بار آنکھ کا کھلنا
Hi. My name is Dr Syed Ahmer. I am a psychiatrist in New Zealand. In this video we will talk about the common symptoms and pattern of anxiety in Generalised Anxiety Disorder.
⁃ Pattern; Anxiety symptoms present for majority of the time during the day, most days of the week, for several months
⁃ Worry and apprehension; prolonged, widespread, difficult to control
⁃ Psychological arousal; feeling keyed up or on edge, irritability, poor concentration, sensitivity to noise
⁃ Autonomic overactivity; sweating, palpitations, dry mouth, stomach discomfort, dizziness
⁃ Muscle tension; restlessness, trembling, inability to relax, headache, aching of shoulders and back
⁃ Hyperventilation; feeling shortness of breath, dizziness, tingling
⁃ Sleep disturbance; difficulty in falling and staying asleep, persistent worrying thoughts
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ، نیوزی لینڈ سائیکائٹرسٹ
۱۔ پریشان کن حالات یا سانحات
۲۔ انسان کی جینز
۳۔ بچپن میں پیش آنے والے مشکل حالات
۴۔ انسان کے سوچنے کا اندا
۵۔ انسان کی شخصیت
Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand.
STRESSFUL EVENTS
- GADs often begin around stressful events
- Become chronic if stressors persist
- Loss events = depression and GAD
- Danger or threat events = GAD
GENETIC CAUSES
- Familial association has a genetic cause
- Genes involved in the transmission of GAD appear to increase susceptibility to other anxiety disorders such as panic disorder and agoraphobia, as well as depression
- Genes play a significant though moderate role in aetiology of GAD
EARLY EXPERIENCES
- Early adverse experiences
- Brown & Harris (1993) studied relationship between adverse experience in childhood and anxiety disorder in adult life:
o Adverse experience = parental indifference, physical or sexual abuse,
o Early adversity = increased GAD, but also agoraphobia and depression
- Parenting styles of Overprotection and lack of emotional warmth
PSYCHOANALYTIC THEORIES
- Children learn to deal with anxiety through secure relationships with loving parents. If they haven’t had this secure attachment, they will be vulnerable to anxiety when experiencing separation or potentially threatening events
- Good parenting can protect against anxiety by giving them a secure emotional base
COGNITIVE THEORY
- Lack a sense of control of events and of personal effectiveness
- Cognitive biases in the form of:
o increased attention to potentially threatening stimuli,
o overestimation of environmental threat
o enhanced memory of threatening material
- Looming cognitive style
PERSONALITY
- neuroticism:
o trait disposition to experience negative affects, including anger, anxiety, self‐consciousness, irritability, emotional instability, and depression
o respond poorly to environmental stress, interpret ordinary situations as threatening, and can experience minor frustrations as hopelessly overwhelming.
- anxious-avoidant personality disorder
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
میرا نام ڈاکٹر سید احمر ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں سائیکائٹرسٹ ہوں۔ اس وڈیو میں ہم یہ بات کریں گے کہ جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کا علاج کرنے کے لئے عام طور سے کیا دوائیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
ان میں سے کچھ دوائیاں ایسی ہیں جو مختصر وقت کے لئے گھبراہٹ کی علامات کو کم کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں مثلاً ڈایا زیپام وغیرہ۔ اور کچھ دوائیاں ایسی ہیں جن کو طویل عرصے کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مثلاً ایس ایس آر آئی ادویات جیسے کہ سرٹرالین وغیرہ۔
Hi. My name is Dr Syed Ahmer. I am a psychiatrist in New Zealand. In this video I will talk about the different medications used to treat Generalised Anxiety Disorder.
Some of these medications are meant to be used only for short term treatment, for example, benzodiazepines like Diazepam or Clonazepam, and some are meant to be used for long-term treatment like SSRIs such as sertraline or fluoxetine.
میرا نام ڈاکٹر سید احمر ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں سائیکائٹرسٹ ہوں۔
• جی اے ڈی کے طویل عرصے کے علاج کی بنیادی دوائیاں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ہی ہیں۔ انہیں اینٹی ڈپریسنٹ اس لئے کہا جاتا ہے، اور اینٹی اینگزائٹی نہیں کہا جاتا، کیونکہ یہ دوائیاں پہلے ڈپریشن کے علاج کے لئے دریافت ہوئی تھیں اور اسی نام سے مشہور ہو گئیں۔
• ایس ایس آر آئی مثلاً فلوآسٹین یا سرٹرالین، یا ایس این آرآئی مثلاً وینلافیکسین، کو جے ای ڈی میں ڈپریشن کے ڈوز کے مقابلے میں آدھے ڈوز سے شروع کرنا چاہئے، اور آہستہ آہستہ اینٹی ڈپریسنٹ ڈوز پہ لانا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں میں شروع میں ان دوائیوں سے اینگزائٹی بڑھتی ہے اور کچھ ہفتے بعد کم ہونا شروع ہوتی ہے۔
• دوا شروع کرنے سے بعض سائیڈ ایفیکٹ یا مضر اثرات ہو سکتے ہیں مثلاً گھبراہٹ کا بڑھنا، کپکپاہٹ محسوس ہونا، متلی محسوس ہونا، پیٹ کا خراب ہونا جس میں قبض یا ڈائریا دونوں ہو سکتے ہیں، بھوک کا کم ہو جانا، وغیرہ۔ عام طور سے یہ مضر اثرات چند ہفتوں میں کم ہونا اور ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
• یاد رکھنا چاہئے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا واضح فائدہ نظر آنے میں ڈپریشن میں دو سے تین ہفتے، ارو جی اے ڈی میں چھ ہفتے تک بھی لگ سکتے ہیں۔ مریض کا یہ جاننا اس لئے ضروری ہے کہ ورنہ بہت سے لوگ ایک ہفتے بعد دوا بند کر دیتے ہیں کہ اس سے تو فائدہ ہی نہیں ہو رہا۔
• ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز کے مطابق جی اے ڈی کے علاج کے لئے اینٹی ڈپریسنٹ کم از کم ایک سال تک جاری رکھنی چاہئے۔
• ایس ایس آر آئی اور ایس این آر آئی ادویات بند کرنے سے کچھ مضر اثرات ہو سکتے ہیں جنہیں ڈس کنٹی نوئیشن علامات یا دوا بند کرنے کے علامات کہتے ہیں۔ ان میں چکر آنا، ایسا محسوس ہونا کہ جیسے دماغ میں الیکٹرک شاک لگ رہا ہو، توازن برقرار رکھنے میں مشکل ہونا، فلو کی طرح کی علامات محسوس ہونا شامل ہیں۔ عام طور سے یہ علامات چند ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ زیادہ تکلیف د ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
Hi. My name is Dr Syed Ahmer. I am a psychiatrist in New Zealand.
In this video I will talk about the role of antidepressants such as SSRIs or SNRIs in the treatment of Generalised Anxiety Disorder.
- SSRIs should be started at half the normal starting dose and titrated to the normal antidepressant dose as tolerated
- Biphasic response: anxiety may initially get worse before it starts getting better
- Common side effects: feeling agitated, shaky or anxious, feeling or being sick, indigestion, diarrhoea or constipation, loss of appetite and weight loss, dizziness.
- Time lag: Modest benefit usually seen in 6 weeks, continues to increase over time
- Should be continued for at least one year
- Discontinuation symptoms of SSRIs/SNRIs: dizziness or vertigo, electric shock sensations, flu-like symptoms, problems with movement, such as problems with balance or walking, or involuntary movements, sensory disturbance, such as smelling something that isn't there, stomach cramps, strange dreams
- Effective treatment of GAD may prevent development of Major Depression
- Fluoxetine most effective, Sertraline best tolerated
- More recent analyses suggested Bupropion or Agomelatine most effective for GAD
Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition
میرا نام ڈاکٹر سید احمر ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں سائیکائٹرسٹ ہوں۔
اس وڈیو میں ہم یہ بات کریں گے کہ جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے علاج میں سکون آور ادویات، جن کا کیمیکل نام بینزو ڈایا زیپین ہے، کا کیا کردار ہو تا ہے۔
یہ ادویات فوری فائدہ تو کرتی ہیں اور شدید گھبراہٹ کو گھنٹے بھر میں کم کر دیتی ہیں لیکن ان کو تین سے چار ہفتے سے زیادہ عرصے تک روزانہ استعمال کرنے سے عادی ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس عادی ہونے کے نتیجے میں بہت دفعہ پرانا ڈوز اتنا فائدہ نہیں پہنچاتا جتنا وہ شروع میں پہنچاتا تھا، اس لئے ڈوز بڑھتے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
دوسرا بہت بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ جسم اور دماغ ان دوایئوں کا عادی ہو جاتا ہے اس لئے اگر اچانک ان کا ڈوز یعنی مقدار کو اچانک بہت کم یا بند کر دیا جائے تو مرگی کے دوروں یا ہذیان کی سی کیفیت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
اس لئے ان دوائیوں کو کم سے کم عرصے کے لئے اور کم سے کم مقدار میں استعمال کرنا چاہئے۔
انسان جتنا طویل عرصے سے اور جتنی زیادہ مقدار میں یہ دوا لے رہا ہو، بند کرنے پہ شدید ری ایکشن کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
ان خطرات کی وجہ سے اگر آپ یہ دوائی مہینے بھر سے زیادہ سے روزانہ لے رہے ہوں تو اچانک خود سے بند نہ کریں بلکہ کسی ڈاکٹر کی زیرِ نگرانی بند کریں
Hi. My name is Dr Syed Ahmer. I am a psychiatrist in New Zealand.
In this video I will talk about the role of Benzodiazepines in treatment of Generalised Anxiety Disorder.
- BDZs provide rapid symptomatic relief from acute anxiety states
- Should only be used to treat anxiety that is severe, disabling, or causing extreme distress
- Because of the potential to cause PHYSICAL DEPENDENCE
- Physical dependence includes;
o Tolerance: need to increase the dose after a period of time, as the previous dose stops working
o Withdrawal: symptoms caused by sudden reduction or discontinuation of a BDZ that has been taken every day for longer than 3-4 weeks
o Withdrawal symptoms range in severity from mild such as anxiety, tremors, sweating, difficulty sleeping – to severe such as withdrawal seizures or delirium, just like alcohol withdrawal seizures or delirium
- Risk and severity of withdrawal symptoms depend on duration of daily use, and the daily dose, the longer the duration and the higher the dose, the greater the likelihood of withdrawal symptoms and their severity
- Prescribe for lowest effective dose, shortest possible period
- MAXIMUM 4 WEEKS
- Gives SSRIs time to work
- A very small number of patients with severe disabling anxiety may benefit from long-term treatment
- Generally over-prescribed
- STOP ONLY UNDER SUPERIVISION OF AN EXPERT
Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th editio