ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کسنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
بینزو ڈایازیپینز (مثلاً ڈایازیپام، لورا زیپام، کلونازیپام، الپرا زولام وغیرہ) عام طور سے گھبراہٹ، نیند کی کمی، مرگی کے علاج، انیستھیسا سے پہلے کی دوا، الکحل کو چھوڑنے کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔
زی دوائیاں یا زی ڈرگز میں زوپی کلون (zopiclone)، زولپیڈیم (zolpidem)، اور زیلیپلون (zaleplon) شامل ہیں۔ یہ تمام دوائیاں جن لوگوں کو نیند آنے میں مسئلہ ہو ان کو نیند آنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے دی جاتی ہیں۔پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ دوائیں بینزو ڈایازیپینز سے الگ ہیں اور ان سے عادت نہیں پڑتی، لیکن وقت کے ساتھ یہ پتہ چلا کہ دماغ میں یہ دوائیاں انہی جگہوں پہ کام کرتی ہیں جہاں بینزو ڈایازیپینز کام کرتی ہیں، اور ان سے اسی طرح عادت پڑ سکتی ہے جیسے بینزو ڈایازیپین ادویات سے پڑ سکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ خون میں کم دیر تک رہتی ہیں اور بدن سے جلدی خارج ہو جاتی ہیں۔
دنیا بھر میں ان دواؤں سے علاج کی تجویز کردہ مدّت دو سے چار ہفتے ہے، کیونکہ ان دوائیوں کے دو سے چار ہفتے کے روزانہ استعمال کے بعد مریض کو عادت پڑنے کا خطرہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سارے لوگ بینزو ڈایازیپین ادویات بہت طویل عرصے تک استعمال کرتے ہیں اور ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ میں تقریباً تین لاکھ افراد یا تو کوئی بینزو ڈایازیپین یا زی ڈرگ بارہ مہینے سے زیادہ کے لئے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
امریکہ میں ۲۰۱۹ میں تقریباً ۲۹۰ ملین نسخوں پہ آؤٹ پیشنٹ فارمیسیز سے کوئی بینزو ڈایازیپین دی گئی تھی۔ ۲۰۱۸ میں تقریباً پچاس فیصد لوگ جنہیں کوئی بینزوڈازیپین دوا دی گئی تھی، وہ اسے دو مہینے سے زیادہ سے لے رہے تھے۔
اسی طرح کے اعدادو شمار دنیا کے اور بہت سے ملکوں کے بھی دستیاب ہیں۔ جب میں پاکستان میں سائیکائٹرسٹ کے طور پہ کام کر رہا تھا تو ہم لوگوں نے بھی عام لوگوں میں بینزوڈایازیپین کے استعمال پہ ایک ریسرچ کی تھی جس کے مطابق تقریباً دس فیصد لوگ اسوقت کوئی نہ کوئی بینزوڈایازیپین لے رہے تھے۔ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں میں بینزوڈایازیپینز کے طویل المدّتی استعمال کی وبا کس قدر پھیلی ہوئی ہے۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zaland
Watch this talk as a YouTube video
Benzodiazepines (BDZ) such as alprazolam, clonazepam, lorazepam, or diazepam, are commonly prescribed for treatment of anxiety, insomnia, management of alcohol withdrawal, epilepsy, and pre-medication for anaesthesia.
The so-called Z-DRUGS include Zopiclone, Zolpidem, and Zaleplon. Initially it was believed or a least claimed that they were less addictive than BDZs or non-addictive. However, subsequent research has shown that apart from quicker onset and shorter duration of action, their adverse effect profile is very similar to that of benzodiazepines.
Most regulatory authorities recommend that these should NOT be prescribed for longer than 2-4 weeks. Unfortunately, many patients end up taking them for far longer than that.
In the UK, about 300,000 adults are taking either a BDZ or a Z-Drug for more than 12 months.
In USA, in 2019, an estimated 92 million BDZ prescriptions were dispensed from outpatient pharmacies. In 2018, an estimated 50% of patients who were dispensed oral BDZ received them for a duration of 2 months or longer.
Similar data about widespread use of benzodiazepines have been reported from many countries around the world.
I will explain the risks of taking BDZs and Z-drugs for longer than 4 weeks in the next post.
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جیسا کہ میں نے پچھلی تحریر میں بتایا تھا، دنیا میں زیادہ تر پروفیشنل اداروں ا ور ریگولیٹری اتھاریٹیز کی بینزو ڈایازپین یا زی ڈرگ استعمال کرنے کی تجویز کردہ زیادہ سے زیادہ مدّت ۲ سے چار ہفتے ہے۔ اس ۲ سے ۴ ہفتے سے زیادہ استعمال نہ کرنے کی پابندی کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص انہیں اس مدّت سے زیادہ کے لئے روزانہ استعمال کرے تو اسے ان کی عادت پڑنے کا خطرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے دو بڑے خطرات ہوتے ہیں؛
- ٹالرنس (tolerance): اس کا مطلب یہ ہوتا ہے شروع میں دوا کے جس ڈوز سے جتنا فائدہ ہوتا تھا، اب اتنا فائدہ نہیں ہوتا، اور وہی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ڈوز بڑھانا پڑتا ہے۔ کچھ ہفتوں یا مہینوں بعد وہ نیا ڈوز بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اسے مزید بڑھانا پڑتا ہے، اور اس طرح سے اثر کم ہونے اور ڈوز بڑھنے کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا ہر مریض کے ساتھ نہیں ہوتا اور بہت سے مریض ایک ہی ڈوز پہ دوا طویل عرصے تک لیتے رہتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد میں ایسا نظر آتا ہے۔
- ودڑرال (withdrawal): ہم سب کے دماغ میں ایک قدرتی کیمیکل یا نیوروٹرانسمیٹر ہوتا ہے جو ہمیں پرسکون کرتا ہے اور نیند آنے میں مدد دیتا ہے۔ بینزوڈایازیپینز، زی ڈرگس، اور الکحل، تینوں دماغ میں اسی جگہ یعنی ریسپیٹر (receptor) پہ جا کے لگتے ہیں جہاں یہ قدرتی کیمیکل لگ کے اپنا کام کرتا ہے۔ جو لوگ ان تینوں میں سے کوئی بھی چیز طویل عرصے کے لئے باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، ان کے دماغ میں یہ قدرتی کیمیکل بھی کم ہوجاتا ہے اور جن ریسیپٹرز پہ لگ کے یہ اپنا کام کرتا ہے وہ بھی کم ہو جاتے ہیں۔ اس سے ہوتا ہے کہ جب باہر سے آنے والا کیمیکل یعنی بینزوڈایازیپین یا زی ڈرگ یا الکحل اچانک کم یا ختم ہو جائے تو مریض شدید گھبراہٹ میں چلا جاتا ہے اور اس کی نیند اڑ جاتی ہے۔ یہ ردِّ عمل اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ مریض کو مرگی کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں اور اس پہ ہذیان کی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔
- وڈرال ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ دوا مکمل طور پہ بند ہو، بلکہ طویل عرصے کے استعمال کے بعد دوا کا ڈوز کم ہونے سے، یا خون میں دوا کا لیول کم ہونے سے بھی ودڈرال شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ودڈرال اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ مریض اس سے بچنے کے لئے وہی دوا لیتا رہتا ہے، اور بہت دفعہ اس کاڈوز بھی بڑھا لیتا ہے، جس دوا کی وجہ سے یہ سارے مسئلے شروع ہوئے تھے، اور اس طرح سے کبھی نہ ختم ہونے والے ایک چکر میں پھنس جاتا ہے۔ اسی کو عادت پڑنا کہتے ہیں۔
ان دواؤں کو طویل عرصے تک لینے سے مزید کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور ان کو بند کیسے کیا جائے، اس کی تفصیل اگلے کچھ روز میں آئے گی۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Watch this talk as a YouTube video
As I had explained in the previous posts, most regulatory authorities in the world have a recommended maximum duration of use for benzodiazepines (BDZs, such as diazepam, lorazepam, clonazepam, alprazolam) and Z-drugs (such as zopiclone or zolpidem) of 2-4 weeks. The reason for restriction on not prescribing for longer than 2-4 weeks is the risk of dependence, which includes the following phenomena;
- Tolerance: after a few weeks to a few months there are changes in the brain which make the previous dose less effective. This then runs the risk of increasing the dose to get the same initial benefit, which the new dose also becomes less effective after a few weeks to a few months. These leads to a vicious cycle of continuous increase in doses over a period of time. Clinically, this does not happen to every single patient taking a BDZ or Z-drug, but does happen to quite a significant number.
- Withdrawal: because of the brain changes mentioned above, the naturally occurring brain chemicals or neurotransmitters which produce calmness and help people sleep become ‘downregulated’, meaning the system becomes less effective, after a sustained period of regular BDZ or Z-drug use. Then when the external chemical which is the BDZ or Z-drug becomes less effective with time or is taken away, the brain goes into ‘withdrawal’ as it has sufficient amounts of neither the natural chemicals nor the external ones. This results in rebound severe anxiety and insomnia, exactly the symptoms these drugs were meant to treat. This reaction can be so severe as to cause seizures (epileptic fits) or delirium (impaired cognitive functions).
- To avoid these very unpleasant withdrawal symptoms, patients take the exact same medications which caused them in the first place. They provide temporary relief, but then the withdrawal symptoms come back after a few hours to a few days depending on the half-life of a drug, necessitating another dose of the drug. This is how a person becomes dependent on these drugs.
- The adverse effects caused by taking BDZs or Z-drugs over a long period of time will be explained in the next post.
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اس تحریر میں میں یہ بتاؤں گا کہ بینزو ڈایازیپینز جس میں ڈایازیپام، کلونازیپام، الپرازولام، لورازیپام وغیرہ آتی ہیں، اور زی ڈرگس جس میں زوپی کلون اور زولپیڈیم وغیرہ آتی ہیں، ان ادویات کو طویل عرصے تک استعمال کرنے سے انسان کی صحت پہ مندرجہ ذیل مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
ذہنی اثرات
- یادداشت میں خرابی پیدا ہوجانا
- توجّہ دینے میں مشکل ہونا
- کسی اچانک خطرے کو دیکھ کے ردِّ عمل دینے کے وقت کا بڑھ جانا
- غنودگی ہونا
- ڈراؤنے خواب آنا
- صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا خراب ہو جانا
جسمانی اثرات
- چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جانا، توازن برقرار نہ رکھ پانا
- عضلات کو استعمال کرنے میں مناسبت کا کم یا ختم ہو جانا
- بولنے میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جانا
جذباتی اثرات
- مزاج میں اداسی پیدا ہو جانا، ڈپریشن ہو جانا
- جذبات کو صحیح طور سے محسوس نہ کر سکنا، بے حسی پیدا ہو جانا
- جو لوگ کوئی بینزو ڈایازیپین طویل عرصے سے لے رہے ہوں ان میں گھبراہٹ عام طور سے بڑھ جاتی ہے
اور بیماریوں اور موت کا خطرہ بڑھ جانا
- جو لوگ طویل عرصے سے کوئی بینزو ڈایازیپین لے رہے ہوں ان میں گاڑی کے ایکسیڈنٹ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ساٹھ سے اسّی فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
- بوڑھے لوگوں میں گرنے کا اور فریکچر ہونے کا خطرہ پچاس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
- بوڑھے لوگوں میں ہذیان (delirium) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
- آبزرویشنل اسٹڈیز (observational studies) میں دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے کوئی بینزوڈایازیپین لے رہے ہوں، ان میں جو لوگ یہ دوائیں نہ لے رہے ہوں ان کے مقابلے میں مرنے کا خطرہ ۴۳ فیصد تک بڑھ جاتا ہے، لیکن اس طرح کی اسٹڈیز میں یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ انتقال کی وجہ بینزو ڈایازیپین ہی ہے یا کچھ اور۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Following are the adverse effects which may be associated with long-term use of Benzodiazepines (such as diazepam, clonazepam, alprazolam, lorazepam) and Z-Drugs (such as zopiclone or zolpidem).
COGNITIVE
- Deficits in memory
- Deficits in attention
- Increased reaction time
- Motor incoordination
- Drowsiness
- Nightmares
- Impaired judgment
PHYSICAL
- Motor incoordination/ataxia
- Dizziness
- Slurred speech
EMOTIONAL
- Depression/dysphoria
- Emotional blunting/numbness
- Worsening of anxiety in long-term use
INCREASED MORBIDITY & MORTALITY
- 60-80% Increased risk of motor vehicle accidents
- 50% increased risk of falls in elderly
- Risk of delirium in elderly
- 43% increased risk of dying, in observational studies
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- جیسا کہ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے بینزوڈایازیپینز (مثلاً ڈایازیپام، لورا زیپام، الپرازولام، کلونازیپام وغیرہ) اور زی دوائیاں (مثلاً زوپی کلون، زولپیڈیم وغیرہ) لینے کی سب سے بڑی وجوہات ہوتی ہیں گھبراہٹ، اور نیند آنے میں مشکل ہونا۔
- چونکہ ٹالرنس کا عمل، یعنی وقت کے ساتھ ساتھ دوائی کا اثر کم ہو جانا، دو سے چار ہفتے میں شروع ہو جاتا ہے اس لئے اگر کوئی بھی انسان یہ دوائیں روزانہ تین سے چار ہفتے سے زیادہ لے تو اس کا دماغ اور جسم ان کے عادی ہونے لگتے ہیں اور ان دوائیوں کا اثر کم اور ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
- چونکہ جسمانی عادت پڑنا جسے فزیکل ڈیپینڈنس کہتے ہیں ان چند ہفتوں کے روزانہ استعمال سے شروع ہو جاتی ہے، اس لئے انسان جب اتنے وقت کے روزانہ استعمال کے بعد دوا کم یا بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ودڈرال ری ایکشن شروع ہو جاتا ہے، اس لئے پھر انسان دوا کو فائدے کے بجائے ودڈرال سے بچنے کے لئے استعمال کرنے لگتا ہے۔
گھبراہٹ:
- ایک ریسرچ کے مطابق جنرلائزڈ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے مریضوں کو دو گروپوں میں بانٹا گیا۔ ایک گروپ کو غیر موثر دوا یعنی پلے سیبو دی گئی جب کہ دوسرے کو بینزو ڈایازیپین دوادی گئی۔ دونوں گروپوں کے مریضوں کی گھبراہٹ کو کچھ عرصے تک ایک اسکیل پر جانچا گیا۔ دونوں گروپس کے مجموعی اسکور میں وقت کے ساتھ ساتھ یہ فرق تھا۔
o پہلا ہفتہ: آٹھ پوائنٹس کا فرق
o آٹھواں ہفتہ: چار پوائنٹس کا فرق
o بارہواں ہفتہ: نہ ہونے کے برابر فرق
- اس کا مطلب یہ ہوا کہ بینزوڈایازیپینز سے شروع میں گھبراہٹ کم ہونے میں تو بہت واضح فائدہ ہوتا ہے، لیکن تقریباً تین مہینے کے بعد ایکٹو دوا اور آٹے کی گولی کے فائدے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
نیند کی کمی:
- ریسرچ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زی دوائیں مثلاً زوپی کلون، زولپیڈیم، وغیرہ، مختصر وقت کے یعنی دو سے چار ہفتے کے ریسرچ ٹرائلز میں غیر موثر دوا یعنی پلے سیبو کے مقابلے میں نیند آنے کا فرق تقریباً ۲۲ منٹ کم کر دیتی ہیں۔
- لیکن تین مہینے کے بعد یہ فرق ختم ہو جاتا ہے۔
- ایک ریسرچ سے پتہ چلا کہ جو لوگ بینزو ڈایازیپین ریسیپٹر پہ کام کرنے والی دوائیں لے رہے ہوں یا جن کی دوا بند کردی گئی ہو، بارہ مہینے کے بعد ان دونوں طرح کے مریضوں میں نیند کے مسائل میں کوئی فرق نہیں ہوتا، یعنی یہ دوائیں لینے والوں کی نیند ان لوگوں سے بہتر نہیں ہوتی جن کی دوا بند کر دی گئی ہو۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Watch this talk as a Facebook video
Watch this talk as a YouTube video
- Positive effects on anxiety and insomnia in the short-term
- Tolerance can start developing after 2-4 weeks, so effectiveness wanes over long term
- Physical dependence is likely to develop – treatment continued to prevent withdrawal
ANXIETY
- Difference in Anxiety scores in patients with GAD between BZD and placebo
o Week 1 – 8 points
o Week 8 – 4 points
o Week 12 – almost no difference
INSMONIA
- Z- drugs improve time to sleep onset by 22 minutes in short-term trials (2-4 weeks) compared with placebo
- Over 3 months – no difference from placebo
- A systematic review found No significant difference in sleep problems in people who continued or stopped BDZ receptor agonists at 12-months follow up.
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
- اگر کوئی شخص کوئی بینزوڈایازیپین (مثلاً ڈایازیپام، کلونازیپام، الپرازولام) یا زی ڈرگ (زوپی کلون، زولپیڈیم) دو سے چار ہفتے سے زیادہ سے لے رہا ہو:
جیسا کہ میں نے پچھلی تحریروں میں بتایا تھا، ہم میں سے کوئی بھی انسان اگر یہ دوائیں تین چار ہفتے سے زیادہ روزانہ لے رہا ہوتو اس سے ان کی عادت پڑنے کا خطرہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دوائیں جتنی جلدی بند کر دی جائیں، یا کم از کم روزانہ لینا چھوڑ دی جائیں، تو انہیں کم یا بند کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ اور انسان جتنا طویل عرصے سے انہیں لے رہا ہو انہیں بند کرنا اتنا ہی مشکل اور پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔
- اگر انسان کو ان کے لینے سے مضر اثرات ہونا شروع ہو جائیں:
ان کے بعض تشویشناک مضر اثرات یہ ہیں؛ جسمانی طور پہ ان کا عادی ہو جانا اور کم یا بند کرنے کی صورت میں ودڈرال (withdrawal) کی علامات پیدا ہو جانا، یادداشت اور توجہ دینے یا برقرار رکھنے میں خرابی پیدا ہو جانا، حادثات کا خطرہ بڑھ جانا، گرنے اور ہڈیوں کے فریکچر یعنی ٹوٹ جانے کا خطرہ بڑھ جانا خصوصاً بڑی عمر کے لوگوں میں۔
- اگر یہ دوائیں کام کرنا چھوڑ چکی ہوں:
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا، عام طور سے لوگ بینزو ڈایازیپینز اور زی دوائیوں کو گھبراہٹ اور نیند کی خرابی کے لئے لیتے ہیں، لیکن ریسرچ یہ کہتی ہے کہ تقریباً تین مہینے کے بعد ان علامات کو کم کرنے میں ان دوائیوں اور پلے سیبو (ملتی جلتی گولی جس میں کوئی ایکٹو دوا نہ ہو) کی کارکردگی میں کوئی واضح فرق نہیں ہوتا۔
- اگر مریض دوسرے طریقوں سے دوائی کے بغیر اپنی علامات کو کنٹرول کرنا سیکھ چکا ہو:
گھبراہٹ اور نیند کی کمی، دونوں کے لئے سائیکوتھراپی بہت کار آمد ثابت ہوتی ہے اور ا س کا فائدہ بھی دوائیوں کے مقابلے میں طویل عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ جیسا کہ پچھلی تحریروں میں میں نے بتایا تھا، باقاعدہ ورزش، ریلیکسیشن ایکسرسائزز اور اس طرح کے دوسرے طریقہ علاج گھبراہٹ کو کم کرنے اور نیند کو بہتر کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر مریض کو ان سے فائدہ ہو رہا ہو تو دوا بند کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
- اگر مریض خود ان دوائیوں کو بند کرنا چاہے:
ایسی صورت میں مریض کو پوری تفصیل مہیا کرنی چاہیے کہ ایسا کرنے کا محفوظ طریقہ کیا ہے۔ بعض ڈاکٹرز ان کو بند کرنے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے اور اس کے خطرات کے بارے میں گھبراتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو انہیں کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- If a person has been taking the drug more than 2-4 weeks;
As has been described in previous posts, after 2-3-4 weeks, the risk of addiction starts, and the sooner a person tries to reduce or stop the drug, the easier it is for them to do so.
- If a patient is experiencing adverse effects from these drugs;
as mentioned previously, the major risks of long-term use are dependence and withdrawal, memory and cognitive impairment, accidents, falls, and fractures.
- The drug stops working after a period of time;
as was described previously, after about 3 months the effect of BDZs and Z-drugs on anxiety and insomnia respectively do not show a statistically significant difference from placebo.
- The person has found alternative ways of coping with their anxiety or insomnia;
as mentioned previously, CBT for insomnia is more effective than drugs for insomnia and its benefit lasts longer. There are many non-pharmacological treatments for anxiety, and they also work for longer than BDZs. Sometimes, people’s circumstances have changed and improved, and this leads to an improvement in their anxiety and insomnia.
- If a patient wishes to reduce and stop the medication,
there should be a full discussion with them about the ways of doing it safely. Unfortunately, some doctors are not comfortable with the safest ways of reducing these medications, and may genuinely worry about the severe withdrawal symptoms such as seizures or delirium. In such cases, they should be open to seeking expert opinion.
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
جن لوگوں کی عمر ۶۵ سال سے زیادہ ہو
جیسے جیسے لوگوں کی عمر بڑھتی ہے ان کی بیماریاں اور ان بیماریوں کی دوائیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ ان میں سے کئی دوائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے بینزوڈاایازیپینز کے مضر اثرات اور بڑھ جاتے ہیں، مثلاً غنودگی ہونا، چال میں لڑکھڑاہٹ ہونا، گرنے کا خطرہ، یا یادداشت اور توجہ کی خرابی پیدا ہو جانا۔ اس کے علاوہ جو لوگ بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہونے لگتے ہیں ان میں ویسے ہی گرنے کا اور ہڈیوں کے ٹوٹ جانے کا خطرہ بڑھنے لگتا ہے، جو کہ بینزودایازیپین ادویات کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے۔
جو لوگ ایک سے زیادہ بینزوڈایازیپین یا زی دوا لے رہے ہوں
بعض دفعہ لوگ گھبراہٹ کے لئے دن میں جسم میں زیادہ دیر تک رہنے والی بینزو ڈایازیپین مثلاً ڈایازیپام یا کلونازیپام لے رہے ہوتے ہیں، اور سونے کے لئے رات میں جسم میں کم دیر تک رہنے والی بینزوڈایازیپین مثلاً ٹیمازیپام، یا کوئی زی دوا مثلاً زوپی کلون لے رہے ہوتے ہیں۔یہ دوائیں ایک دوسرے کے اثر کو بڑھاتی ہیں اور اس سے مضر اثرات زیادہ شدید ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جو لوگ بینزوڈایازیپین کسی اوپیوائڈ یا گاباپینٹن کے ساتھ لے رہے ہوں
(Opioid, gabapentin)
جو لوگ یہ دونوں ڈرگس ایک ساتھ لے رہے ہوں، ان کے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔امریکہ کی کئی ریاستوں میں ان دونوں طرح کی دوائیوں یعنی بینزوڈایازیپین اور اوپیوائڈ کو ایک ساتھ دینا قانوناً ممنوع ہے۔
جن لوگوں کو گرنے کا خطرہ زیادہ ہو
اس کی تفصیل اوپر آ چکی ہے
جن لوگوں کو سانس کی کوئی بیماری ہو
مثلاً سی او پی ڈی، یا کوئی اور ایسی بیماری جس کی وجہ سے ان کے پھیپھڑوں کی کارکردگی متاثر ہو چکی ہو۔
جو لوگ بینزوڈایازیپین کو کسی نشہ آور دوا کے ساتھ لے رہے ہوں
اس سے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
حاملہ خواتین یا وہ خواتین جو حاملہ ہونے کے بارے میں سوچ رہی ہوں
بعض ریسرچ سے یہ پتہ چلا کہ (گو کہ ہر ریسرچ سے یہ نتیجہ نہیں نکلا) جو حاملہ خواتین زچگی کے دوران بینزوڈایازیپین لے رہی ہوں، ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں وقت سے پہلے پیدا ہونے، کم وزن کے پیدا ہونے، اور سر کے چھوٹے ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- People older than age 65 years;
As people get older, they often are taking multiple medications for different physical illnesses. The effects of these medications can potentiate the adverse effects of BDZs such as sedation, unsteadiness of gait, risk of falls, cognitive impairment. Also, physically frail already are at increased risk of falls and fractures, which is made worse by long-term use of BDZs.
- People taking more than one BDZ or Z-drug;
sometimes people are taking a long acting BDZ for treatment of anxiety, and a short-acting BDZ or a Z-drug for treatment of insomnia. Such people are at higher risk of adverse effects of long-term BDZ use.
- Taking BDZs with opioids or gabapentin like drugs;
in particular, taking a BDZ along with an opioid over a long-terms period increases the risk of dying. In many states in the US it is contraindicated to prescribe both these drugs together.
- Falls risk;
people can be at increased risk of falls because of their age, physical frailty, recent physical illness or recent surgery. In all such patients taking a BDZ further increases the risk of falls.
- Respiratory conditions;
such as COPD, severe or uncontrolled respiratory disease, or people at risk of respiratory depression
- Substance use disorder;
use of recreational substances along with BDZs increases the risk of mortality.
- Pregnant women or women planning a pregnancy;
Some, but not all, studies have reported an increased chance for preterm delivery (delivery before 37 weeks of pregnancy), low birth weight (weighing less than 5 pounds, 8 ounces [2500 grams] at birth), and/or smaller head size in babies born to a person who was using diazepam and other benzodiazepines in pregnancy. (NIH, USA)
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی فیس بک وڈیو دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جو لوگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے باقاعدگی سے کوئی بینزوڈایاپین دوا (مثلاً ڈایازیپام، الپرازولام، کلونازیپام، لورازیپام وغیرہ) لے رہے ہوں، اگر وہ اسے اچانک بند کریں تو تقریباً ۵۸ سے ۱۰۰ فیصد تک لوگوں کو یہ دوائیں بند کرنے کی یعنی ودڈرال علامات ہو سکتی ہیں۔
شارٹ ایکٹنگ یعنی جسم سے جلدی خارج ہونے والی بیزوڈایازیپین دوائیوں (مثلاً ٹیمازیپام) کو بند کرنے سے، لانگ ایکٹنگ یعنی جسم سے دیر میں خارج ہونے والی دوائیوں (مثلاً ڈایازیپام، کلونازیپام) کے مقابلے میں،مضراثرات (ودڈرال علامات) زیادہ جلدی بھی شروع ہوتے ہیں اور زیادہ شدید بھی ہوتے ہیں۔
شارٹ ایکٹنگ دوائیوں کو بند کرنے سے ودڈرال علامات ایک دو دن میں شروع ہو سکتی ہیں، اور لانگ ایکٹنگ دوائیوں کو بند کرنے سے کئی دن بعد شروع ہو سکتی ہیں۔
کتاب میں تو ودڈرال کی یعنی دوا بند کرنے کی بے شمار علامات لکھی ہیں لیکن میں صرف ان کا ذکر کروں گا جو ہم لوگ عام طور سے مریضوں میں دیکھتے ہیں۔
جسمانی علامات
بہت پسینہ آنا
سر درد ہونا
چہرہ سرخ ہو جانا
چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جانا
ہاتھوں پیروں میں سوئیوں کا چبھنا سا محسوس ہونا
ہاتھوں پیروں میں کپکپی اور رعشہ ہونا
بدن میں جگہ جگہ درد ہونا اور پٹھوں میں سختی اور اکڑاؤ محسوس ہونا
نیند اڑ جانا، ڈراؤنے خواب آنا
آوازیں بہت اونچی سنائی دینا
بدن میں بجلی کے جھٹکے کے سے لگتے ہوئے محسوس ہونا
دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، دھڑکن کا محسوس ہونا
متلی کی سی کیفیت محسوس ہونا، متلی ہو جانا
مرگی کے دورے پڑنا
نفسیاتی علامات
گھبراہٹ
چڑچڑاپن
بے چینی محسوس ہونا اور بے چین ہوجانا
خود کشی کے خیالات آنا
جارحانہ رویہ شروع ہو جانا
ہوش و حواس خراب ہو جانا، ہذیان کی سی کیفیت طاری ہوجانا
سائیکوسس کی علامات مثلاً غیبی آوازیں آنا یا لوگوں پہ بلا وجہ کے شکوک و شبہات شروع ہو جانا
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
⁃ in patients taking regular benzos for more than a year 58-100% experience a withdrawal reaction upon stopping it.
⁃ short-acting benzos are associated with more severe acute withdrawal symptoms than longer acting benzos like diazepam
⁃ Onset of withdrawal can occur a day or two after stopping short-acting benzos, and several days after stopping longer acting benzos
⁃ Shorter acting benzos are associated with more severe withdrawal symptoms
BENZODIAZEPINE WITHDRAWAL SYMPTOMS
⁃ In the book many withdrawal symptoms have been listed involving almost everybody system, but to make it easier to understand I will just list those symptoms that we commonly see clinically.
PHYSICAL
⁃ Sweating, Flushing
⁃ Headache, Aches and pains
⁃ Unsteadiness of gait, Tremors
⁃ Pins and needles sensations in hands and feet, Electric shock like sensations
⁃ Inability to fall asleep, Nightmares
⁃ Sensory hypersensitivity-touch/sound/smell
⁃ Tachycardia/Palpitations
⁃ Nausea/vomiting
⁃ Seizures
PSYCHOLOGICAL
⁃ anxiety
⁃ Irritability
⁃ Agitation
⁃ Suicidal Thoughts
⁃ Aggressive Behaviour
⁃ Cognitive Impairment/Delirium
⁃ hallucinations, Paranoia
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کو فیس بک وڈیو میں دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
اگر ایک مریض طویل عرصے سے کوئی بینزوڈایازیپین (بینزو) لے رہا ہو تو اسے بند کرنے سے شدید مضر اثرات (ودڈرال علامات) ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ایسے مریضوں کی بینزو دوا کبھی بھی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی بند نہیں کی جانی چاہیے۔
اگر مریض آمادہ ہو تو ان دوائیوں کو آہستہ آہستہ اس رفتار سے بند کر نا چاہیے کہ مریض دوا بند کرنے کی علامات یعنی ودڈرال علامات کو برداشت کر سکے۔
عموماً شارٹ ایکٹنگ ،یعنی جسم سے جلدی خارج ہو جانے والی، بینزو دوائیوں، مثلاً ٹیمازیپام، کے بند کرنے سے ہونے والی ودڈرال علامات جلدی شروع بھی ہوتی ہیں اور زیادہ شدت کی بھی ہوتی ہیں۔ اس لئے بہت دفعہ شارٹ ایکٹنگ بینزو کو کسی لانگ ایکٹنگ بینزو مثلاً ڈایازیپام سے بدلا جاتا ہے، اور پھر اس لانگ ایکٹنگ دوا کو آہستہ آہستہ بند کیا جاتا ہےتا کہ مریض کو اچانک شدید ودڈرال علامات نہ ہوں بلکہ ایک طویل وقت کے اوپر ہوں، اور ان کی شدت برداشت کے قابل ہو۔
خیال رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دوائیوں کے ملی گرام ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوتے، مثلاً ڈایازیپام کا دس ملی گرام الپرازولام اور کلونازیپام کے تقریباً آدھے ملی گرام، لوریازیپام کے ایک ملی گرام، اور زوپی کلون کے تقریباً ۱۵ ملی گرام کے برابر ہوتا ہے۔ مریض جو بھی دوا لے رہا ہو اس کو ڈایازیپام کے متبادل ڈوز میں تبدیل کیا جاتا ہے جو اس کی پہلی دوا کے ڈوز کے قریب قریب ہو، اور پھر ڈایازیپام کو آہستہ آہستہ بند کیا جاتا ہے۔
بعض مریضوں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ان کی دوا کو تبدیل نہ کیا جائے اور اسی کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے۔ ایسا کرنا بھی ممکن ہے۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Tapering and stopping can be quite difficult so should not be imposed on a patient against their wishes
A gradual reduction of dose, adjusted according to withdrawal symptoms experienced by the patient, is the best approach
Switching to a longer acting drug such as diazepam may minimise withdrawal symptoms during tapering. It may help with inter-dose withdrawal with short acting drugs
Diazepam equivalence: 10 mg diazepam is about equal to 0.5 mg of alprazolam, 0.5 mg of clonazepam, 1 mg of lorazepam, and 15 mg of zopiclone - these are rough estimates
Some patients may prefer to taper their own familiar drug.
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کو فیس بک وڈیو میں دیکھیں
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
جب دوا کم کرنا شروع کرنا ہو تو مریضوں کو شدید ودڈرال علامات نظر آنے کے کم خطرے، درمیانے خطرے اور شدیدخطرے والے گروپوں میں ان وجوہات کی بنا پہ بانٹا جاتا ہے؛
۱۔ مریض کو دوا لیتے ہوئے ٹالرنس ہوئی تھی کہ نہیں، یعنی کیا ایسا ہوا تھا کہ دوا لیتے لیتے اس کے شروع کے ڈوز سے فائدہ ہونا کم یا بند ہو گیا ہو اور اسے ڈوز بڑھانے کی ضرورت پیش آئی ہو؟
۲۔ کیا مریض کو اپنے دو ڈوز لینے کے اوقات کے درمیان دوا بند کرنے کی یعنی ودڈرال علامات شروع ہوتی ہیں کہ نہیں؟
۳۔ مریض یہ دوا کتنے عرصے سے باقاعدہ لے رہا ہے، کچھ ہفتوں سے، مہینوں سے، یا سالوں سے؟
۴۔ مریض شارٹ ایکٹنگ یعنی بدن سے جلدی خارج ہونے والی بینزو لے رہا ہے یا لانگ ایکٹنگ؟
۵۔ کیا مریض کو پہلے کبھی ایک ڈوز دیر سے لینے یا دوا چھوڑنے پہ شدید ودڈرال علامات ہوئی تھیں کہ نہیں؟
اگر مریض صرف کچھ ہفتوں سے دوا لے رہا ہو، اس کو کبھی دوا کا ڈوز بڑھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہو، وہ لانگ ایکٹنگ دوا لے رہا ہو، اسے پہلے کبھی ودڈرال علامات نہ ہوئی ہوں، تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کم خطرے والے گروپ میں ہے۔
اگر مریض سالوں سے دوا لے رہا ہو، اس کی دوا کا ابتدائی ڈوز غیر موثر ہو جانے کی وجہ سے ڈوز بڑھانے کی ضرورت پیش آئی ہو، وہ شارٹ ایکٹنگ دوا لے رہا ہو، اور اسے پہلے دوا کا ڈوز کم کرنے یا بند کرنے پہ شدید ودڈرال علامات ہو چکی ہوں، تو اسے زیادہ خطرے والے گروپ میں سمجھا جاتا ہے۔
کم خطرے والے مریضوں کا ڈوز پہلی دفعہ میں۲۰ فیصد کے قریب، درمیانے درجے کے خطرے والوں مریضوں کا ڈوز ۱۰ فیصد کے قریب، اور شدید خطرے والے مریضوں کا ڈوز صرف ۵ فیصد کے قریب کم کیا جاتا ہے۔ پھر ان کو اگلے دو سے چار ہفتوں تک مانیٹر کیا جاتا ہے۔
اگر ودڈرال علامات بالکل نظر نہ آئیں یا نہ ہونے کے برابر نظر آئیں، تو تقریباًاتنا ہی ڈوز دو سے چار ہفتے بعد دوبارہ کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر شدید ودڈرال علامات نظر آئیں تو پھر ڈوز دوبارہ تھوڑا بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کو مزید آہستہ آہستہ اور اور کم تناسب سے یعنی مثلاً ۵ فیصد سے بھی کم مقدار میں ایک دفعہ، اور وہ بھی چار سے چھ ہفتے بعد کم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اگلے کچھ مہینوں اور سالوں میں دوا کو پوری طرح بند کیا جاتا ہے۔
یہ عمل ہر ایک مریض کے لئے بالکل انفرادی ہوتا ہے اور اس کا کوئی ایک فارمولا نہیں جس پہ سب مریضوں کو فٹ کیا جا سکے۔ اسی لئے میں ہمیشہ مریضوں کو یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ سب جو میں بتا رہا ہوں یہ اس لئے ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ دوا کس طرح کم یا بند ہو گی۔ لیکں اس کو کسی ماہر ڈاکٹر کی زیرِ نگرانی کم یا بند کریں۔ خود کوئی کتاب پڑھ کے دوا بند کرنے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Watch this talk as a Facebook video
STEP 1
Low-risk patients can start with about 20% dose reduction
no evidence of tolerance,
no evidence of inter-dose withdrawal,
short-term use (weeks)
taking longer half-life BZDs
Moderate-risk patients can start with about 10% dose reduction
some evidence of tolerance,
some evidence of inter-dose withdrawal,
use for months
moderate withdrawal symptoms in the past on stopping or skipping a dose
High-risk patients could start with 5% or less dose reduction
evidence of significant tolerance,
marked experience of inter-dose withdrawal,
use for years
history pf severe withdrawal symptoms in the past on stopping or skipping a dose
taking shorter half-life BDZs
STEP2
Monitor withdrawal symptoms for 1-4weeks
STEP3
Determining the size and timing of next dose reduction
STEP4
Repeat the steps in step 2 and 3
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)