نشہ آور چیزوں کا استعمال
Substance misuse
Substance misuse
تمباکو نوشی وہ نشہ ہے جس سے دنیا میں سب سے زیادہ لوگ مبتلا ہیں، جس سے ملکوں پہ سب سے زیادہ مالی بوجھ پڑتا ہے، اور جس سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ لیکن شاید اس لئے کہ تمباکو کے استعمال کے ساتھ اس طرح کے نشہ آور اثرات اور رویّے میں خرابی نظر نہیں آتے جیسے کہ اور بہت سے دوسرے نشوں میں نظر آتے ہیں، دنیا کے تقریباً سب ہی ملکوں میں اس کے استعمال کی اب تک قانوناً اجازت ہے، اور اس کے علاج کے لئے اتنی سروسز یعنی سہولیات موجود نہیں جتنی اور نشوں کے استعمال کے علاج کے لئے ہیں۔
جن لوگوں کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہوتی ہے ان میں سگریٹ نوشی کاخطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتا ہے جنہیں ایسی بیماری نہ ہو، اور بہت سے نفسیاتی مریضوں کی اموات سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے طبّی مسائل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے قلیل المدتی نفسیاتی اثرات
۱۔ توجہ بہتر ہو جانا
۲۔ نئی چیزیں سیکھنے میں آسانی ہو جانا
۳۔ کسی خطرے کو دیکھ کر زیادہ جلدی ردِّ عمل دے پانا
۴۔ موڈ بہتر ہو جانا
۵۔ ٹینشن کم ہو جانا
۶۔ اداسی کم ہو جانا
سگریٹ کے باقاعدگی سے استعمال کے مضر اثرات
سگریٹ باقاعدگی سے پینے سے بھی بالکل اسی طرح سے عادت پڑ سکتی ہے جیسے شراب سے یا چرس سے پڑ سکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سگریٹ پینے سے حواس خراب نہیں ہوتے۔ جو لوگ باقاعدگی سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں ان میں کچھ عرصے کے بعد اس طرح کی علامات نظر آنے لگتی ہیں؛
۱۔ اگر وہ سگریٹ کچھ دیر نہ پیئیں تو انہیں شدید طلب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
۲۔ وہ سگریٹ کا باقاعدگی سے روزانہ استعمال کرنے لگتے ہیں اور اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔
۳۔ ان میں ٹالرنس (tolerance) پیدا ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جسم و دماغ نکوٹین کا عادی ہو گیا ہے۔ اور پہلے انہیں جتنے سگریٹ پینے کے بعد لطف آتا تھا، اب اسی لطف اور مزے کے لئے زیادہ سگریٹ پینے پڑتے ہیں۔
۴۔ اگر وہ زیادہ دیر سگریٹ نہ پیئیں تو انہیں مختلف جسمانی اور ذہنی تکالیف محسوس ہونے لگتی ہیں۔
جن لوگوں کے والدین یا بہن بھائی سگریٹ پیتے ہوں ان میں سگریٹ نوشی کی عادت پڑنے کا خطرہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
بعض ریسرچ یہ کہتی ہے کہ کسی شخص کو سگریٹ کی عادت پڑنے میں جینیاتی عوامل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
بے شمار لوگ جو سگریٹ پیتے ہیں، وہ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں، اور اس کی بار بار کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن اس کی عادت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اسے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔
سگریٹ نوشی سے ہونے والے جسمانی نقصانات
امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈرگ ابیوز (نشے کی عادت) کے مطابق سگریٹ نوشی سے بدن کے تقریباً ہر ہی عضو کو نقصان پہنچتا ہے۔ ساٹھ سال سے اوپر عمر کے جو لوگ باقاعدگی سے سگریٹ پیتے ہیں ان میں مرنے کا خطرہ اپنی ہی عمر کے ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے سگریٹ کبھی بھی نہ پی ہو تقریباً دوگنا ہوتا ہے، اور وہ ان لوگوں کے مقابلے میں تقریباً ۶ سال جلدی مر جاتے ہیں۔
حالانکہ نکوٹین سے بذاتِ خود کینسر نہیں ہوتالیکن سگریٹ کے دھوئیں میں کم از کم ۶۹ کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جن سے کینسر ہو سکتا ہے۔ جتنے بھی لوگوں کو کینسر ہوتا ہے، ان میں سے تقریباً تیس فیصد کیسز میں اس کی ذمّہ دار سگریٹ نوشی ہوتی ہے۔
پھیپھڑوں کے کینسر کے جتنے بھی کیسز ہوتے ہیں ان میں سے تقریباً اسّی سے نوّے فیصد میں سگریٹ نوشی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی منہ، گلے (pharynx, larynx)، کھانے کی نالی، معدے، لبلبے، گردوں، مثانے اور خون کے بعض طرح کے کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔
سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کی بعض اور بیماریاں مثلاً برونکائٹس (chronic bronchitis) اور ایمفی سیما (emphysema) بھی پیدا کر سکتی ہے، اور دمے کے دوروں کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔
سگریٹ نوشی دل کی بیماریوں بمشول اسٹروک، دل کے دورے اور خون کی نالیوں کی بیماریوں کا خطرہ بھی کافی بڑھا دیتی ہے۔
سگریٹ نوشی کے عادی لوگوں میں اسے چھوڑنے سے ہونے والے تکلیف دہ اثرات
یہ اثرات عام طور سے آخری سگریٹ کے دو گھنٹے بعد شروع ہوتے ہیں، یہ عام طور سے پہلے ۲۴ سے ۴۸ گھنٹے میں اپنی شدّت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، اور یہ ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔
سگریٹ نوشی چھوڑنے والے عام طور سے یہ علامات محسوس کرتے ہیں؛
۱۔ سگریٹ کی شدید طلب ہونا
۲۔ ذہنی تناؤ
۳۔ چڑچڑاپن
۴۔ کسی کام یا بات پہ توجہ دینے میں مشکل ہونا
۵۔ دن میں غنودگی ہونا لیکن رات میں نیند آنے میں مشکل ہونا
۶۔ دل کی دھڑکن کی رفتار اور بلڈ پریشر کم ہو جانا
۷۔ بھوک اور وزن بڑھ جانا
۸۔ جسمانی کام کرنے میں مشکل ہونا
۹۔ پٹھوں میں تناؤ بڑھ جانا
ڈاکٹروں کے لئے سگریٹ نوشی میں مبتلا لوگوں کے علاج کے کچھ بنیادی اصول
۱۔ آپ کے پاس جو بھی مریض آئے چاہے وہ جس بھی مرض کے علاج کے لئے آئے اس سے ہر ملاقات پہ یہ ضرور پوچھیں کہ وہ سگریٹ پیتا ہے کہ نہیں، اور اگر اب بھی پیتا ہے تو روزانہ کتنے سگریٹ پیتا ہے۔
۲۔ مریض کو ہر ملاقات پہ سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں بتائیں، اور اسے بہت وثوق سے یہ مشورہ دیں کہ اسے سگریٹ چھوڑنے کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔
۳۔ یہ اندازہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ مریض اس وقت سگریٹ چھوڑنے کے لئے تیار ہے یا نہیں۔
۴۔ جو مریض سگریٹ نوشی چھوڑنے پہ آمادہ ہو اس کی دوائیوں اور کاؤنسلنگ سے مدد کریں۔
۵۔ جو مریض سگریٹ چھوڑنے کا عمل شروع کرے اس کو ایک ہفتے میں یا تو دیکھیں یا فون پہ رابطہ کریں تا کہ اس کی ہمت بندھائی جا سکے، اور ا سکی تکلیف دہ علامات کا کچھ ازالہ کیا جا سکے۔
ہم اپنے مریضوں کی سگریٹ نوشی چھوڑنے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟
(چونکہ ان سنجیدہ موضوعات کے بارے میں خشک تحریریں پڑھنا مشکل ہوتا ہےاس لئے خیال ہوا کہ میں تفصیل سے بتاؤں کہ حقیقی زندگی میں جب ہمارے پاس کوئی مریض آتا ہے جو کسی بھی وجہ سے آئے، مثلاً سائیکوسس یا ڈپریشن یا مینیا، تو ہم اس کی سگریٹ نوشی چھوڑنے میں کیسے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔)
نیوزی لینڈ میں یہ اصول ہے کہ جب بھی کسی بھی ڈاکٹر کے پاس، چاہے وہ کسی بھی شعبے کا ہو، کوئی مریض کسی بھی بیماری کے علاج کے لئے آئے تو اس کو مریض سے یہ ضرور پوچھنا ہوتا ہے کہ وہ سگریٹ پیتا ہے کہ نہیں، اور اگر وہ سگریٹ پیتا ہو تو اسے سگریٹ نوشی کے علاج کے بارے میں بتانا ہوتا ہے اور آفر کرنا ہوتا ہے۔
ہم مریض کو سب سے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ انسان خود جو بھی ایسے کام کر سکتا ہے یا کرتا ہے جس سے اس کی صحت کو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو، اس کے جلدی مرنے کا امکان بڑھ جائے،اس فہرست میں سگریٹ نوشی تقریباً اوّل نمبر پہ آتی ہے۔ اور یہ کہ سگریٹ نوشی چھوڑنے کے تقریباً دس سال کے بعد اس کے جسم سے سگریٹ نوشی کے زہریلے اثرات تقریباً ختم ہو جاتے ہیں، اور اس کے مرنے کا امکان کم ہو کے تقریباً اتنا ہی ہو جاتا ہے جتنا اس کی عمر کے ان لوگوں کا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سگریٹ نہ پی ہو۔
جو لوگ سگریٹ نوشی چھوڑنے پہ آمادہ ہوتے ہیں، ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک تاریخ وہ خود مقرر کر لیں کہ کس تاریخ سے وہ سگریٹ نوشی چھوڑیں گے۔ ورنہ انسان یہ سوچ کے ٹلاتا رہتا ہے کہ کچھ دن بعد چھوڑ دوں گا، جب دل چاہے گا چھوڑ دوں گا، اور اسی طرح عمر گزر جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان سگریٹ نوشی آہستہ آہستہ کم کرے، مثلاً دس سے آٹھ سگریٹ روزانہ کرے، پھر کچھ ہفتوں بعد سات یا چھ کرے، اور اس طرح سے آہستہ کم کر کے چھوڑے، یا اچانک سے ایک دم بند کر دے؟ اس بارے میں ریسرچ سے کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا طریقہ بہتر ہے۔ اس لئے بہتر ہوتا ہے کہ چھوڑنے والا شخص خود اپنی ترجیح بتائے کہ وہ کس طریقے سے چھوڑنا چاہتا ہے۔
پھر ہم ان کو اس بارے میں بتاتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑنے کے لئے کون سی کاؤنسلنگ یا گروپ تھراپی میسّر ہے، نکوٹین (جو سگریٹ میں بنیادی عنصر ہوتا ہےوہ کن کن شکلوں میں دستیاب ہے، ویپنگ (vaping، الیکٹرانک سگریٹ وغیرہ) کے بارے میں کچھ تفصیل بتائی جاتی ہے، اور اس عمل میں مدد کرنے کے لئے کون کون سی دوائیں دی جا سکتی ہیں۔
چونکہ بہت سے لوگوں کو کچھ گھنٹے یا ایک دو دن بعد ہی سگریٹ چھوڑنے کی تکلیف دہ علامات (withdrawal symptoms) شروع ہو جاتی ہیں، اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ڈاکٹر یا نرس ان سے دو تین دن بعد رابطہ کر لے تا کہ ان کی علامات کی شدّت کے بارے میں بھی پوچھ سکے، ان کا کچھ علاج بھی بتا سکے، اور ان کی ہمّت بھی بندھا سکے۔ ان تمام حکمت عملیوں سے جو لوگ خود سے بغیر کسی دوائی کے سگریٹ چھوڑ دیتے ہیں، ان میں اسے چھوڑے رکھنے کا امکان تقریباً دوگنا ہو جاتا ہے۔
ماحول میں سگریٹ کا موجود ہونا
کسی بھی قسم کے نشے کے علاج کے لئے، چاہے وہ سگریٹ نوشی ہو شراب نوشی ہو یا چرس کا نشہ، اس کے علاج کے لئے اور اسے چھوڑنے کے بعد آئندہ اس سے دور رہنے کے لئے اپنا ماحول بدلنا لازمی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا، جن لوگوں کے والدین یا بھائی بہن سگریٹ پیتے ہوں ان میں سگریٹ نوشی کاخطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جن کے ماحول میں کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا۔ اسی لئے ہم سگریٹ چھوڑنے والوں اور ان کے گھر والوں کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا بھائی یا بیٹا آئندہ کبھی سگریٹ نہ پئے تو آپ کو سگریٹ کو گھر سے نکالنا ہو گا اور آئندہ اس کا گھر میں داخلہ بند کرنا ہو گا۔ اسی طرح ان تمام دوستوں سے دور رہنا ہوگا جن کے ساتھ بیٹھ کر وہ انسان سگریٹ پیتا تھا۔ اگر کسی خاص ماحول میں یا کسی خاص ایکٹیوٹی کے دوران ہی سگریٹ پیتا تھا تو اس ماحول اور اس ایکٹیوٹی کو چھوڑنا ہو گا۔
دماغ میں لطف کا مرکز
انسان بنیادی طور پہ کمزور ہوتا ہے۔ خاص طور سے وہ انسان جو کسی بھی نشے کا عادی رہا ہو، اس کے دماغ کا ایک خاص حصّہ جسے پلیژر سینٹر (pleasure center) یا ریوارڈ سینٹر (reward center) کہا جاتا ہے، اس نشے کا جو کسی عادت کا بھی ہو سکتا ہے، عادی ہو جاتا ہے۔ جب یہ سینٹر یا مرکز کسی خاص شے یا ایکٹیوٹی کا عادی ہو جائے تو انسان کو وہ چیز استعمال کرنے یا وہ کام کرنے سے بہت زیادہ خوشی ملتی ہے، بہت زیادہ مزا آتا ہے، جو اس کو دوسری چیزوں یا کاموں سے نہیں آتا۔ اور اسی لئے جب وہ نشہ استعمال کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اسے اپنی زندگی میں ایک کمی سی ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ اور چاہے وہ سالوں بعد وہی شے ایک دن استعمال کرے تو اسے اس چیز کو استعمال کرنے میں اس دوسرے شخص سے بہت زیادہ مزا آئے گا جس نے وہ نشہ آور شے کبھی استعمال نہ کی ہو، اور اس کا دماغ اس شے کو بہت زیادہ ری ایکٹ کرے گا۔ اسی لئے اگر وہ ایک سال بعد ایک سگریٹ بھی پئے گا تو دوبارہ اپنی پچھلی عادت پہ پہنچ جانے کا خطرہ اس کے لئے ان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گا جو کبھی سگریٹ نہیں پیتے۔ اور اسی لئے اس کے لئے ان دوستوں سے ملنا یا اس ماحول میں رہنا جس میں وہ سگریٹ پیتا تھا، سگریٹ کو چھوڑے رکھنے کے لئے بہت زیادہ خطرناک ہو گا، کیونکہ اس میں خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں کہ بس ایک سگریٹ پی لو، ایک سگریٹ سے کیا فرق پڑتا ہے؟ دوبارہ مت پینا۔ لیکن وہی ایک سگریٹ اس کے دماغ کے اس سینٹر کو جگا دیتا ہے اور اسے یا ددلاتا ہے کہ اسے سگریٹ پینے سے کتنا مزا آتا تھا، اور پھر وہ جلد ہی اپنی پرانی عادت پہ یعنی باقاعدگی سے سگریٹ پینے پہ واپس پہنچ جاتا ہے۔
اپنی زندگی کے خلا کو کسی اور کام یا مصروفیت سے بھرنا
دوسری بات جو ہم لوگ مریضوں سے کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان جو بھی نشہ چھوڑتا ہے اس کے چھوڑنے سے انسان کی زندگی میں ایک خلا سا آ جاتا ہے۔ اس کی وجہ عام طور سے یہ ہوتی ہے کہ اس کی زندگی میں جو سارا لطف ہوتا ہے، سارا مزا ہوتا ہے، وہ اس نشے کی وجہ سے ہوتا ہے، اور جب وہ اسے چھوڑ دیتا ہے تو اسے اپنی زندگی میں ایک کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر وہ اس کمی کو کسی اور چیز سے پوری نہ کرے اور سارا دن خالی بیٹھ کر مثلاً صرف سگریٹ کے بارے میں سوچتا رہے، تو اس بات کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی اسے دوبارہ پینا شروع کر دے گا۔
ہم مریضوں کو یہ مثال دیتے ہیں کہ جیسے ایک بوتل ہے اس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہے۔ اگر آپ اس بوتل کو ہوا سے خالی کرنا چاہیں تو وہ آسانی سے خالی نہیں ہو گی۔ لیکن اسے ہوا سے خالی کرنے کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس بوتل کے اندر پانی بھر دیں۔ اس کے اندر سے ساری ہوا خود بخود نکل جائے گی۔ بالکل اسی طرح کسی بھی نشے کی عادت کو چھوڑے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کوئی متبادل دلچسپیاں ڈھونڈے، جن میں اسے مزا بھی آئے، اور اس کا دل و دماغ اس میں مصروف بھی رہیں۔ کوئی نیا اسپورٹس کھیلنا شروع کر دیں، کوئی اور اپنی دلچسپی کا کام شروع کر دیں۔ ایسا کرنے سے اس عادت میں واپس جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
اسموکنگ یا ویپنگ (vaping)، کیا زیادہ نقصان دہ ہے؟
ویپینگ، جسے الیکٹرونک سگریٹ بھی کہا جاتا ہے، اس میں نکوٹین پہ مشتمل ایک سیال ڈالا جاتا ہے اور پھر اس کو سگریٹ کی طرح ہی استعمال کیا جاتا ہے جس سے خون میں نکوٹین شامل ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی اور ویپنگ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سگریٹ میں چونکہ تمباکو کو آگ لگائی جاتی ہے اس لئے اس آگ کے جلنے سے بے شمار کیمیائی مادّے خارج ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کیمیکل کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
ویپنگ میں چونکہ تمباکو کو آگ نہیں لگائی جاتی اس لئے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ لیکن یہ کتنی محفوظ ہے، اس پہ ابھی تحقیق جاری ہے۔ برطانیہ کے رائل کالج آف جنرل فزیشنز کے مطابق اس وقت تک جو معلومات دستیاب ہیں ان کے حساب سے سگریٹ نوشی کے نقصانات کے مقابلے میں ویپینگ سے پانچ فیصد سے بھی کم نقصان ہوتا ہے۔ لیکن ویپنگ میں خطرہ یہ ہے کہ مختلف ممالک میں اس میں قانونی اعتبار سے کیا کیمیکل ڈالے جا سکتے ہیں یا نہیں، اس میں بہت فرق ہے۔ بعض ممالک مثلاً امریکہ میں ویپنگ سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کے کافی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
مختصراً یہ کہ اس وقت تک کی تحقیقات کے مطابق ویپینگ سگریٹ نوشی کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہے، لیکن اس سے حقیقتاً کتنا نقصان ہوتا ہے یہ حتمی طور پہ پتہ چلنے میں ابھی اور بہت سال لگیں گے۔
نکوٹین کو لینے کے متبادل طریقے (nicotine replacement therapy, NRT, این آر ٹی )
سگریٹ میں بنیادی عنصر جس کی وجہ سے انسان کو اس میں مزا آتا ہے اور اس کی عادت پڑتی ہے، وہ نکوٹین ہے، لیکن سگریٹ کے دھویں کی وجہ سے جسم کو بہت سارے نقصانات پہنچتے ہیں۔ اسی وجہ سے سگریٹ کے ایسے متبادل تیار کئے گئے ہیں جن سے انسان کا نکوٹین کا نشہ پورا ہو جائے لیکن اس کے جسم کے اندر دھواں نہ جائے۔ ان کو نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی یا این آر ٹی کہا جاتا ہے اور ان کی بہت ساری قسمیں ہوتی ہیں۔
ان تمام این آر ٹی میں سے جس کو بھی استعمال کیا جائے اس کی وجہ سے اس بات کا امکان دوگنا ہو جاتا ہے کہ انسان سگریٹ ایک دفعہ چھوڑنے کے بعد اسے دوبارہ کبھی استعمال نہیں کرے گا۔ اس کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ ان این آر ٹی کی وجہ سے جسم میں نکوٹین لینا چھوڑنے سے ہونے تکلیف دہ علامات (withdrawal symptoms) ختم ہو جاتی ہیں۔
۱۔ نکوٹین گم ایک طرح کی چیونگ گم (chewing gum) ہوتی ہے جس کو منہ میں رکھ کے چبانے سے منہ میں نکوٹین کا اخراج ہوتا ہے اور پھر وہ خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ دو ملی گرام اور چار ملی گرام کی آتی ہے، انسان سگریٹ چھوڑنے کے لئے دن میں کتنی نکوٹین گم استعمال کرے اس کا انحصار اس بات پہ ہوتا ہے کہ وہ دن میں کتنے سگریٹ روزانہ پیتا تھا۔
جن مشروبات میں تیزابی اثر ہوتا ہے، مثلاً چائے، کافی، سوڈا اور بعض طرح کے جوس، انہیں نکوٹین گم کے استعمال کے فوراً پہلے، درمیان، اور فوراً بعد استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے نکوٹین خون میں کم جذب ہوتی ہے۔
نکوٹین گم سے منہ میں خراب ذائقے اور جبڑوں میں دکھن کے علاوہ اتنے زیادہ مضر اثرات نہیں ہوتے۔
جو لوگ سگریٹ چھوڑنے کے لئے نکوٹین گم کا استعمال کرتے ہیں ان میں سے تقریباً بیس فیصد لوگ اسے کافی عرصے تک استعمال کرتے رہتے ہیں، اور تقریباً دو فیصد لوگ اسے ایک سال سے زیادہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب تک اس کو طویل عرصے تک استعمال کرنے کے کوئی شدید مضر اثرات معلوم نہیں ہیں۔
۲۔ نکوٹین کے پیچ (nicotine patches)
جیسے ایسی چوڑی ڈریسنگ آتی ہے، جیسے کہ سینی پلاسٹ ہوتا ہے، جسے انسان بڑے زخم کو ڈھکنے اور اسے ہوا اور پانی سے بچانے کے لئے لگا لیتا ہے، بالکل اسی طرح کا ایک پیچ آتا ہے جس میں نکوٹین ہوتی ہے۔ اس پیچ کو جلد پہ چپکا لینے سے نکوٹین آہستہ آہستہ خون میں شامل ہوتی رہتی ہے۔ یہ پیچ صبح جلد پہ لگا لیا جاتا ہے۔ اس سے صرف جلد پہ ریش (rash) ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اتنے مضر اثرات نہیں ہوتے۔ عام طور سے چھ سے بارہ ہفتوں کے استعمال کے بعد اس پیچ کا استعمال بند کر دینا چاہئے۔ اگر نکوٹین گم اور پیچ کو ایک ساتھ استعمال کیا جائے تو سگریٹ نوشی چھوڑے رکھنے کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔
بیوپروپیون (Bupropion)
بیوپروپیون ایک دوا ہے جو بہت سے ملکوں میں اینٹی ڈپریسنٹ کے طور پہ استعمال کے لئے لائسنسڈ ہے۔ اسے سگریٹ نوشی چھڑوانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی چھڑوانے کے لئے اسے عام طور سے چھ سے بارہ ہفتے کے لئے دیا جاتا ہے۔
جب اس کو تجویز کردہ ڈوز یعنی مقدار میں لے لیا جائے تو سگریٹ نوشی چھوڑے رکھنے کا امکان دگنا ہو جاتا ہے، چاہے انسان کو کبھی ڈپریشن ہوا یا نہ ہوا ہو۔ ایک ریسرچ کے مطابق اگر انسان بیوپروپیون اور نکوٹین پیچ کو ایک ساتھ استعمال کرے تو سگریٹ نوشی چھوڑے رکھنے کا امکان ان میں سے ایک دوا کو اکیلے لینے کے مقابلے میں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
بیوپروپیون لینے سے نیند اڑ سکتی ہے اور متلی کی سی کیفیت محسوس ہو سکتی ہے، لیکن زیادہ تر لوگوں میں یہ مضر اثرات شدید نہیں ہوتے۔ اگر کسی کو مرگی کی بیماری ہو، یا پہلے بیولیمیا یا اینوریکسیا ہو (bulimia, anorexia, کھانے کی بیماریاں جن میں انسان یا تو اتنا کم کھاتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، یا اسے ایسے دورے ہوتے ہیں جن میں وہ ایک وقت میں بے انتہا کھانا کھاتا ہے) تو اسے بیوپروپیون نہیں لینی چاہئے۔
اس کو عام طور سے جس دن سے انسان کا سگریٹ چھوڑنے کا ارادہ ہو اس سے ایک یا دو ہفتے پہلے شروع کیا جاتا ہے، اور چھوڑنے کے بعد چھ مہینے تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ویرینیکلائن (Varenicline)
ویرینیکلائن سے نکوٹین کی طلب (craving) بھی کم ہوتی ہے اور نکوٹین کو چھوڑنے سے ہونے والی تکلیف دہ علامات (withdrawal symptoms) بھی کم ہوتی ہیں۔ ویرینیکلائن دماغ میں اس سینٹر پہ کام کر کے جس کی وجہ سے لوگوں کو نشے کی لذّت محسوس ہوتی ہے، سگریٹ نوشی کرنے سے لوگوں کو جو مزا آتا ہے، اس لذّت کو بھی روکتی ہے۔
پہلے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ ویرینیکلائن سے ڈپریشن، بے چینی، رویّے میں تبدیلی، خودکشی کے خیالات، یا خود کشی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، لیکن مزید ریسرچ سے یہ پتہ چلا کہ ویرینیکلائن سے نفسیاتی بیماری کی علامات یا خودکشی کے خطرے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اب امریکہ کی فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے اپنی یہ وارننگ ہٹا دی ہے۔ اس سے کارڈیو ویسکولر سسٹم یعنی دل اور خون کی نالیوں کی بیماری کا خطرہ کچھ حد تک بڑھ سکتا ہے، اس لئے جو مریض ویرینیکلائن لے رہے ہوں ڈاکٹروں کو ان کی نفسیاتی حالت اور دل کی حالت کا معائنہ کرتے رہنا چاہئے۔
ویرینیکلائن کو بھی عام طور سے سگریٹ نوشی چھوڑنے کی متعینہ تاریخ سے ایک دو ہفتے پہلے شروع کیا جاتا ہے، اور پھر سگریٹ چھوڑے رکھنے کے تین مہینے بعد تک جاری رکھا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ لگتا ہو کہ یہ ان کی سگریٹ چھوڑے رکھنے میں تین مہینے بعد بھی مدد کر رہی ہے اور اگر وہ اسے چھوڑیں گے تو سگریٹ نوشی دوبارہ شروع کرنے کا خطرہ ہے، ان کو تین مہینے کا ایک اور کورس کروایا جا سکتا ہے۔
"نہیں" کہنا سیکھنا
کوئی بھی نشہ چھوڑے رکھنے کے لئے ایک بات جو لازمی ہے، وہ ہے " نہیں کہنا سیکھنا"۔ عموماً جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ بھی پیتے ہیں اور اسے انجوائے کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں میں سے ایک سگریٹ پینا چھوڑ دیتا ہے تو دوسروں کے ذہن میں اس سے پریشانی پیدا ہوتی ہے کہ یہ ہم سے "مختلف" یا الگ ہو گیا، اور اس وجہ سے وہ خود اپنے سگریٹ پیتے رہنے کے بارے میں پریشان ہونے لگتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ ارادی یا غیر ارادی طور پہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ دوست دوبارہ سگریٹ پینا شروع کر دے۔ پھر وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ کیوں چھوڑ دیا، اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، فلاں بھی تو پیتا ہے، وہ تو بالکل ٹھیک ہے، اچھا صرف ایک سگریٹ پی لو، صرف جب ہمارے ساتھ ہو تب پی لیا کرو، وغیرہ وغیرہ۔
ہم اپنے مریضوں کو پہلے سے بتاتے ہیں کہ جب تم سگریٹ پینا چھوڑو و گے تو تمہارے ساتھ یہ سب ہو گا۔ اس وقت تم ان باتوں کا کیا جواب دو گے؟ پھر ہم ان کے ساتھ اس بات کی باقاعدہ پریکٹس اور رول پلے (role play) کرتے ہیں کہ اگر کوئی مجھے یہ کہے گا تو میں اس کا یہ جواب دوں گا، اور یہ کہے گا تو میں یہ جواب دوں گا اور اس طرح سے منع کروں گا کہ مجھے اب سگریٹ نہیں پینی، چاہے کچھ بھی ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض پہلے سے تیار ہوتا ہے اور بے خبری میں اچانک حملے کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر وہ تیار نہ ہو اور اچانک کوئی یہ بات کہے تو اس بات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کہ وہ دباؤ میں آجائے گا اور سگریٹ دوبارہ پی لے گا۔لیکن اگر وہ اس بات کے لئے پہلے سے ذہنی طور پہ تیار ہو کہ مجھ سے یہ کہا جائے گا اور مجھے اس کا یہ جواب دینا ہے، تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور انکار پہ قائم رہے گا۔
سگریٹ نوشی اور موت کا خطرہ
مرنا تو ایک دن ہم سب نے ہے، چاہے ہم سگریٹ پیئیں یا نہ پیئیں، لیکن جانتے بوجھتے ایسا کام کرنا جس سے انسان خود اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دے، کوئی سمجھداری کی بات نہیں۔
ریسرچ کے مطابق امریکہ میں ہر سال جتنی اموات ہوتی ہیں ان میں سے بیس فیصد، یعنی ہر پانچ میں سے ایک، میں تمباکو نوشی کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ہوتا ہے۔
جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں، وہ مجموعی طور پہ اپنے ہم عمر ان لوگوں سے تقریباً دس سال پہلے مر جاتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے۔
سگریٹ کے دھوئیں سے کینسر، پھیپھڑوں کی بیماریوں، دل کی بیماریوں، فالج کے دورے، اور ذیابطیس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جو لوگ تمباکو چباتے ہیں یا اس کو ناک میں سونگھتے ہیں اس سے منہ اور گلے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
امریکی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ وہاں کینسر سے جتنی اموات ہوتی ہیں ان میں سے تقریباً تیس فیصد یعنی قریب ایک تہائی تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے بھی کیمیکلز سے کینسر ہوتا ہے، ان میں تمباکو سب سے زیادہ جان لیوا ہے۔ جو لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں ان کو پھیپھڑوں کا کینسر ہونے کا خطرہ سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں پندرہ سے تیس گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ جو لوگ سگریٹ نوشی کرنامکمل طور سے ترک کر دیں، وہ ان سگریٹ نوشی سے ہونے والے کینسرز کا خطرہ بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔
سگریٹ نوشی چھوڑنے کے صحت پہ مثبت اثرات
سگریٹ نوشی چھوڑنے سے صحت پہ بہت نمایاں اور فوری مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ مثبت اثرات ہر عمر کے لوگوں پہ مرتب ہوتے ہیں، چاہے ان میں سگریٹ نوشی سے متعلقہ بیماریاں شروع ہو چکی ہوں یا ابھی نہ ہوئی ہوں۔
جو لوگ سگریٹ نوشی ترک کر چکے ہوں، ان کی عمریں ان لوگوں سے زیادہ طویل ہوتی ہیں جو سگریٹ نوشی ترک نہیں کرتے۔
سگریٹ نوشی چھوڑنے سے پھیپھڑوں کے کینسر اور دوسرے اعضاء کے کینسر، دل کے دوروں، فالج، اور پھیپھڑوں کی دوسری بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
جو عورتیں حمل شروع ہونے سے پہلے یا زچگی کے پہلے تین چار مہینوں کے دوران سگریٹ نوشی چھوڑ دیتی ہیں ان میں کم وزن کے بچوں کی پیدائش کا خطرہ اتنا ہی کم ہو جاتا ہے جتنا ان ماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سگریٹ نوشی نہ کی ہو۔
اوپیائڈز دوائیوں کے ایک مجموعے کو کہا جاتا ہے جو دماغ پہ اثر کرتی ہیں، جن میں کچھ ایسے کیمیکل بھی شامل ہیں جو قدرتی طور پہ موجود ہوتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی جو لیبارٹری میں بنائے جاتے ہیں۔ ان کو ایک ساتھ ایک گروپ میں اس لیے شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق اوپیئیٹس (opiates) سے ہوتا ہے جو قدرتی طور پہ پائے جانے والے کیمیکلز ہوتے ہیں اور اور افیم (opium poppy) کے پودے سے نکلتے ہیں۔
بعض عام اوپیائڈز جو یا تو درد کی یا نشہ چھڑوانے کی دوا کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں، یا لوگ انہیں نشہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کے نام یہ ہیں: مارفین، ہیروئن، میتھاڈون، فینٹانل، کوڈین، بیوپری نارفین (buprenorphine)، پینٹازوسین (pentazocine)، وغیرہ۔
اوپیائڈز (مثلاً ہیروئن) استعمال کرنے کے فوری اثرات
اوپیائڈز کے استعمال کے فوراً بعد انسان میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں نظر آ سکتی ہیں:
مزاج کا خراب ہو جانا، پہلے کی طرح خوش نہ ہونا
بولنے اور حرکات کی رفتار میں سستی پیدا ہو جانا
غنودگی محسوس ہونے لگنا
بولنے میں زبان کا لڑکھڑانے لگنا
یادداشت خراب ہو جانا
باتوں یا کاموں پہ توجّہ دینے میں دشواری ہونا
اوپیائڈز کے عادی افراد میں اس کو اچانک کم یا بند کرنے سے ہونے مضر اثرات (ودڈرال، withdrawal)
یہ مضر اثرات ان لوگوں میں نظر آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو کوئی بھی اوپیائڈ مثلاً ہیروئن یا مورفین طویل عرصے سے اور زیادہ مقدار میں استعمال کرتے رہے ہوں، اور پھر اس کو استعمال اچانک کم یا بند کر دیں۔ بعض دفعہ یہ اثرات اس وقت بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جب ایسی دوائیں دی جائیں جو اوپیائڈز کے اثرات کو روکتی ہوں جیسے نیلوکسون (naloxone) یا نیلٹریکسون (naltrexone)۔
ایسی صورت میں عام طور سے اس طرح کی علامات نظر آ سکتی ہی:
عضلات یعنی پٹھوں میں شدید درد محسوس ہونا
ہڈیوں میں شدید درد محسوس ہونا
پیچش لگ جانا، یعنی پتلا پاخانہ بار بار ہونے لگنا
پیٹ میں مروڑ ہونا
ناک سے بہت زیادہ پانی بہنے لگنا
آنکھوں سے بہت زیادہ پانی بہنے لگنا
بازوؤں، گردن کے بال کھڑے ہونے لگنا
بار بار جمائیاں آنا
بخار ہونا
آنکھوں کی پتلیوں کا پھیل جانا
بلڈ پریشر کا بڑھ جانا
دل کی دھڑکن تیز ہو جانا
بدن کے درجہٴ حرارت کا کنٹرول خراب ہو جانا، یعنی بدن ٹھنڈا یا گرم ہونے لگنا
عام طور سے اوپیائڈز کے ودڈرال بہت تکلیف دہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے انسان کی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، چہ جائیکہ یہ کہ انسان کو پہلے سے کوئی شدید بیماری مثلاً دل کی بیماری ہو۔
اس کی بعض علامات مثلاً نیند کی خرابی، دل کی دھڑکن کا آہستہ ہو جانا، بدن کا ٹھنڈا یا گرم ہوجانا، اور اوپیائڈز کی شدید طلب مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔
کوئی بھی اوپیائڈ استعمال کرنا بند کرنے کے بعدودڈرال، یعنی اس چیز کو بند کرنے سے ہونے والی تکلیف دہ علامات، کتنے وقت کے بعد شروع ہوتی ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ استعمال کرنے کے بعد اس چیز کو بدن سے نکلنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ جو نشہ آور اشیاء یا دوائیں تھوڑی دیر کے لیے کام کرتی ہیں، ان کا وڈرال انہیں بند کرنے کے بعد جلد شروع ہوتا ہے۔ جو طویل عرصے تک کام کرتی ہیں اور بدن سے نکلنے میں طویل وقت لیتی ہیں ان کا وڈرال انہیں بند کرنے کے کافی عرصے بعد شروع ہوتا ہے۔
مورفین اور ہیروئن کا وڈرال (ان کو بند کرنے کی علامات) عام طور سے آخری دفعہ استعمال کرنے کے چھ سے آٹھ گھنٹے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ وڈرال ان دوائیوں کا اثر روکنے والے انجیکشن مثلاً نیلوکسون کے بعد شروع ہو تو چند سیکنڈز میں شروع ہو جاتا ہے۔ عام طور سے یہ اس وقت نظر آتا ہے جب کوئی انسان ان چیزوں کو ایک سے دو ہفتے سے زیادہ باقاعدہ استعمال کرتا رہا ہو۔ اس کی سب سے زیادہ شدّت آخری استعمال کے تقریباً دو تین دن کے بعد ہوتی ہے، اور عام طور سے اس کی شدید علامات سات سے دس دن کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ البتّہ کچھ علامات چھ مہینے یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بھی جاری رہ سکتی ہیں۔
میتھاڈون ایک دوا ہے جو خود بھی اوپیائڈ ہے اور اس کا استعمال ہیروئن اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کا استعمال چھڑوانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ بدن سے نکلنے میں ہیروئن کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ وقت لیتی ہے اس لیے اس کی وڈرال علامات آخری استعمال کے ایک سے تین دن کے بعد شروع ہوتی ہیں اور دس سے چودہ دن میں ختم ہوتی ہیں۔ آج کل دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس کا استعمال اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ مریض سے کم مدّت تک کام کرنے والی اوپیائڈ مثلاً ہیروئن چھڑوا کے اسے میتھاڈون پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض مریضوں میں اسے کم کیا جانا ممکن ہوتا ہے، اور بعض میں نہیں جن میں پھر اسے طویل عرصے تک جاری رکھا جاتا ہے۔ چونکہ گورنمنٹ اسے سپلائی کرتی ہے اس وجہ سے نشے کو پورا کرنے کے لیے مریض جو جرائم کرتے ہیں، یا گینگ نشہ آور اشیاء کو سپلائی کر کے جو پیسہ اور طاقت حاصل کرتے ہیں، اس سب میں کمی آتی ہے۔ مریض کا ڈوز بھی تقریباً ایک جیسا رہتا ہے، اور ہر تھوڑے عرصے پہ بڑھتا نہیں ہے جس سے اور خطرات بھی کم ہوتے ہیں۔ اس کو نقصان کو کم کرنا یا ہارم ریڈکشن (harm reduction) کہتے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
اوپیائڈز (مثلاً ہیروئن وغیرہ) کے استعمال سے ہونے والی متفرّق نفسیاتی بیماریاں
۱۔ اوپیائڈز کے استعمال سے ہو جانے والا ہذیان (ڈیلیریئم، intoxication delirium)
اس کا خطرہ سب سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انسان کوئی کوئی اوپیائڈز زیادہ مقدار یعنی ڈوز میں استعمال کرتا رہا ہو، یا اوپیائڈز کو ایسی اور اشیاء کے ساتھ ملا کر استعمال کرتا رہا ہو جن کا اثر دماغ پر ہوتا ہے، یا پھر انسان کو پہلے سے کوئی دماغی بیماری ہو مثلاً دماغ پہ چوٹ لگی ہو یا مرگی کی بیماری ہو۔
۲۔ سائیکوسس (psychosis)
سائیکوسس اس نفسیاتی بیماری کو کہتے ہیں جس میں عام طور سے اس طرح کی علامات ہوتی ہیں کہ مثلاً مریض غیبی آوازیں سننے لگتا ہے جو کسی اور کو سنائی نہیں دیتیں، غیر مرئی چیزیں دیکھنے لگتا ہے جو کسی اور کو نظر نہیں آتیں، یا اس کو ایسی باتوں پہ پختہ یقین ہو جاتا ہے جو حقیقت پہ مبنی نہیں ہوتیں مثلاً یہ کہ لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں یا نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
یہ سائیکوسس کی علامات اوپیائڈ استعمال کرنے کے فوراً بعد والے ہذیان میں بھی شروع ہو سکتی ہیں، لیکن پھر ہذیان کے ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہتی ہیں۔
۳۔ اوپیائڈ کے استعمال سے شرو ع ہونے والی موڈ یا مزاج کی بیماریاں (opioid-induced mood disorder)
اوپیائڈ کے استعمال سے مینیا (غیر معمولی خوشی کے دورے جس میں نیند غائب ہو جاتی ہے، بدن میں غیر معمولی توانائی محسوس ہوتی ہے، اور مریض کے ایسے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتے اور انکے زیرِ اثر وہ بہت نقصان دہ فیصلے کر سکتا ہے) بھی شروع ہو سکتا ہے، ڈپریشن (ہفتوں تھ چلنے والی اداسی، مایوسی، رونا آنا، مرنے کے خیالات آنے لگنا) بھی، اور دونوں کی علامات ساتھ بھی نظر آ سکتی ہیں۔ اس طرح کے مشترکہ علامات والے نظر میں بیک وقت چڑچڑاپن، بڑے بڑے خیالات لیکن اداس موڈ سب ساتھ نظر آ سکتے ہیں۔
یہ اس پہ منحصر ہوتا ہے کہ کسی ایک فرد پہ اوپیائڈ استعمال کرنے کا کیا اثر ہوتا ہے۔ یہ علامات اس وقت شروع ہو سکتی ہیں جب انسان نے ابھی ابھی اوپیائڈ کا نشہ کیا ہو، لیکن اس کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہیں۔
۴۔ اوپیائڈ کے استعمال سے ہونے والی نیند کی خرابی اور جنسی کمزوری
اوپیائڈز مثلاً ہیروئن یا کوڈین وغیرہ کے استعمال سے نیند کی خرابی بھی عام ہے اور جنسی کمزوری بھی۔
جو لوگ باقاعدگی سے کوئی اوپیائڈ استعمال کرتے ہیں چاہے نشے کے طور پہ یا درد وغیرہ کے علاج کے لیے، ان میں سے بعض لوگوں کو نیند کی کمی کی شکایت ہو جاتی ہے اور بعض کو اس کی زیادتی کی۔
اوپیائڈ کے استعمال سے جو جنسی کمزوریاں ہو سکتی ہیں ان میں عضو میں سختی آنے میں خرابی ااور آرگیزم یعنی جنسی عمل کے لذت پہ مکمل ہونے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔
اوپیائڈز (جیسے کہ ہیروئن) کے نشے کی عادت کا علاج
میتھاڈون (Methadone)
میتھاڈون بھی دماغ میں اسی طرح سے کام کرتی ہے جیسے ہیروئن کرتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ میتھاڈون انسان کے بدن سے نکلنے میں زیادہ وقت لیتی ہے، اس لیے اس کا اثر بھی ایک دفعہ استعمال کرنے کے بعد دیر تک رہتا ہے، اور اگر کوئی اسے کچھ عرصے سے استعمال کر رہا ہو تو اس کی مقدار کم کرنے یا اس کو بند کرنے سے ہونے والی علامات (ودڈرال) بھی ہیروئن کے مقابلے میں زیادہ دیر سے شروع ہوتی ہیں اور زیادہ عرصے میں ختم ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے میتھاڈون کی ودڈرال کی علامات ہیروئن کے ودڈرال کے مقابلے میں نسبتاً کم شدید ہوتی ہیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں میتھاڈون ان لوگوں کے علاج کے لئے پہلی ترجیح کے طور پہ استعمال کی جاتی ہے جنہیں کسی اوپیائڈ مثلاً ہیروئین، کوڈین، پینٹازوسین (جو پاکستان میں سوسی گون کے نام سے ملتی ہے) یا مورفین وغیرہ کی اتنی شدید عادت پڑ چکی ہو کہ ان میں عادی ہو جانے کی جسمانی علامات یعنی ٹالرنس (نشہ کی پرانی مقدار سے وہ اثر نہ ہونا اور نشہ آنے کے لئے زیادہ مقدار کی ضرورت محسوس ہونا) یا ودڈرال (بند کرنے پہ تکلیف دہ علامات شروع ہو جانا) موجود ہوں۔
میتھاڈون اوپیائڈ کے نشے کے علاج کے لیے عام طور سے دو طرح سے استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے کہ پہلے آیا، چونکہ اس کا ودڈرال ہیروئن کے مقابلے میں کم شدید ہوتا ہے اس لیے مریض سے ہیروئن چھڑوا کے جب اس کی ودڈرال علامات شروع ہوں میتھاڈون کو کم مقدار میں شروع کیا جاتا ہے اور پھر اس ڈوز تک دیا جاتا ہے جس پہ ودڈرال کی علامات موجود تو ہوں، لیکن برداشت کے قابل ہو جائیں۔ پھر اسے کچھ دنوں میں آہستہ آہستہ بند کر دیا جاتا ہے۔
میتھاڈون سے ہیروئن وغیرہ کے نشے کے علاج کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بعض مریضوں میں یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں اوپیائڈ کی اتنی شدید عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ جب بھی وہ بند کی یا کروائی جائے تو وہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں میتھاڈون طویل عرصے اور بعض دفعہ ساری عمر کے لیے استعمال کروائی جاتی ہے۔ اس دوران اس کا ڈوز آہستہ آہستہ کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور ایسا ڈوز دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس پہ مریض کو کوئی اور اوپیائڈ مثلاً ہیروئن وغیرہ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض اور بہت سارے خطروں مثلاً غیر محفوظ سوئیاں استعمال کرنے کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس بی یا ایڈز جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچتا ہے۔ چونکہ ان ممالک میں حکومت میتھاڈون مہیا کرتی ہے اس لیے مریض کو نشہ پورا کرنے کے لیے جرم مثلاً چوریاں کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب لوگ جرائم پیشہ گروہوں سے ہیروئن خریدتے ہیں تو اس سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طریقے سے مریضوں کو ان گروہوں سے ہیروئن خریدنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اور یہ گروہ کمزور ہوتے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنا پہ اس طریقے کو ہارم ریڈکشن یعنی نقصان کو کم کرنے کا طریقہ کہا جاتا ہے۔
بیوپری نورفین (Buprenorphine)
بیوپری نورفین بھی دماغ اور جسم میں اوپیائڈ ریسیپرز (opioid receptors) پہ کام کرتی ہے لیکن یہ سمجھ لیں کہ اگر ہیروئن اس ریسیپٹر پہ سو فیصد کام کرتی ہے تو بیوپری نورفین اس پہ پچاس فیصد کام کرتی ہے، اس لیے اسے ادھوری اے گونسٹ (partial agonist) کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان جتنی بھی دوائیں یا نشہ آور اشیاء استعمال کرتا ہے وہ دماغ میں جسم میں بعض قدرتی طور پہ موجود چیزوں پہ جا کے لگتی ہیں جنہیں ریسیپٹرز (receptors) کہا جاتا ہے اور ان ہی ریسیپٹرز کے ذریعے دماغ اور جسم پہ ان کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ ریسیپٹرز سمجھ لیں کہ ایک طرح سے دروازے ہوتے ہیں جو ان دوائیوں یا اشیاء کو دماغ و جسم کے خلیات میں داخل ہونے کا اور اپنا اثر دکھانے کا راستہ دیتے ہیں۔ جو دوائیاں ان ریسیپٹرز کی جسم میں قدرتی کارکردگی کو بڑھاتی ہیں انہیں اےگونسٹ (agonist) کہا جاتا ہے، اور جو دوائیاں اور اشیاء ان ریسیپٹرز کی جسم میں قدرتی کارکردگی کو روکتی اور ان کی مخالفت کرتی ہیں انہیں اینٹیگونسٹ (antagonist) کہا جاتا ہے۔
اے گونسٹ یعنی موافق کام کرنے والے کیمیکل دو طرح کے ہوتے ہیں، مکمل اے گونسٹ (full agonist) یا ادھورے اے گونسٹ (partial agonist)۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ ایک ریسپٹر کا مقصد دماغ میں ایک پمپ کھولنا یا دروازہ کھولنا ہے۔ جو کیمیکل اس ریسیپٹر پہ لگ کے اس پمپ یا راستے کو پورا کھول دے گا اس کو فل اے گونسٹ کہا جاتا ہے، اور جو اس دروازے کو آدھا کھولے گا اسے ادھورا یا پارشیل اے گونسٹ کہا جاتا ہے۔ بیوپری نورفین اوپیائڈ ریسیپٹرز پہ ایک پارشل اے گونسٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام تو وہی کرتی ہے یا اثر تو وہی دکھاتی ہے جو اوپیائڈ کے فل اے گونسٹ دکھاتے ہیں مثلاً ہیروئن یا مورفین، لیکن اس کا اثر مثلاً نشہ ان کے مقابلے میں آدھا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان اوپیائڈ ریسیپٹرز سے جن پہ ہیروئن یا مورفین جا کے لگتیں، بہت مضبوطی سے جڑ جاتی ہے اور ہیروئن یا مورفین کو ان سے ہٹا دیتی ہے، اس لیے جو لوگ بیوپری نورفین لے رہے ہوں ان میں ہیروئن یا مورفین کا ا ثر انہیں لینے کے باوجود بھی بہت کم ہوتا ہے۔
نیلوکسون اور نیلٹریکسون (Naloxone, Naltrexone)
یہ دونوں دوائیاں دماغ اور جسم میں اوپیائڈ ریسیپٹرز سے جا کے جڑ جاتی ہیں، لیکن ان کا اپنا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ بنیادی طور سے مکمل اے گونسٹ (full agonist) جیسے کہ ہیروئن اور مورفین، یا ادھوری اے گونسٹ (partial agonist) جیسے کہ بیوپریو پیون، کو اوپیائڈ ریسیپٹرز سے جڑنے اور اپنا اثر دکھانے سے روکتی ہیں۔ اس لئے انہیں اوپیائڈ اینٹا گونسٹ (opioid antagonist) کہا جاتا ہے۔
نیلیکسون کا اثر فوری طور پہ شروع ہوتا ہے اور تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی انسان نے کوئی اوپیائڈ جیسے کہ ہیروئن دانستہ یا نادانستہ طور پہ بہت زیادہ مقدار میں لے لی ہو اور اس کی وجہ سے اس کے سانس لینے کا عمل متاثر ہو رہا ہو اور موت کا خدشہ ہو، تو ایسی صورت میں نیلیکسون کے انجیکشن سے اس اوپیائڈ کے اثر کو فوراً ختم کیا جا سکتا ہے اور انسان کے سانس لینے کا عمل دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
نیلٹریکسون (naltrexone) کا اثر جسم میں زیادہ دیر تک رہتا ہے۔ اس کے لینے کی وجہ سے انسان کو اوپیائڈ مثلاً ہیروئن وغیرہ لینے سے جو سرور ملتا تھا اور نشہ آتا تھا، وہ اثرات کم یا ختم ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان نشہ آور اشیاء کو لینے کی خواہش کم ہونے لگتی ہے۔ اس لیے جو انسان اوپیائڈ کا نشہ چھوڑنا چاہے اسے مثلاً ہیروئن ایک دفعہ چھڑوا کے پھر باقاعدگی سے نیلٹریکسون استعمال کروائی جاتی ہے تا کہ ہیروئن کا استعمال دوبارہ شروع کرنے اور اس کی عادت دوبارہ پڑنے کے عمل کو روکا جا سکے۔ نیلٹریکسون اسی مقصد کے لئے ان لوگوں کو بھی دی جاتی ہے جو شراب کے عادی ہو گئے ہوں اور اسے چھوڑنا چاہتے ہوں۔
اوپیائڈ مثلاً ہیروئن کو بند کرنا
ا سکی کچھ تفصیل تو آ چکی ہے کہ مریض کو پہلے ہیروئن بند کر کے میتھاڈون یا بیوپری نورفین شروع کروائی جاتی ہے تا کہ اس کو ہیروئن اچانک بند کرنے کی شدید ودڈرال علامات (بند کرنے کی علامات) نہ ہوں یا کم از کم ہوں۔ اس کے بعد اس کو اگلے کچھ دنوں یا ہفتوں میں آہستہ آہستہ اس کی میتھاڈون یا بیوپری نورفین بند کر دی جاتی ہے۔
جب یہ دونوں دوائیں میسر نہ ہوں (آخری دفعہ جب تک میں نے پوچھا تھا اس وقت تک پاکستان میں میتھاڈون اس مقصد کے لئے دستیاب نہیں تھی) تو مریض کی صرف تکلیف دہ علامات کا علاج کیا جاتا ہے جو اوپیائڈ بند کرنے پہ عام طور سے نظر آتی ہیں۔ ان کی کچھ تفصیل یہ ہے:
بہت زیادہ پسینہ آنا، بے چینی، ہاتھوں کا کپکپانا، ناک سے پانی بہنا: کلونیڈین (Clonidine)
گھبراہٹ، بے چینی: لورازیپام (Lorazepam)
نیند اڑ جانا: زوپی کلون (Zopiclone)، ٹریزوڈون، کوٹائیپین (Quetiapine)
بدن میں پٹھوں میں شدید درد ہونا: آئیبیوپروفین (Ibuprofen)
پیچش لگ جانا، متلی الٹی ہونا: پروکلورپیرازین (prochlorperazine)، لوپیرامائڈ (loperamide)
سائیکوتھراپی
نشے کی عادت کا بنیادی علاج سائیکوتھراپی ہے، اس لئے کہ انسان کو جب تک خود اندر سے اس بات پہ یقین نہیں آ جاتا کہ نشہ نہ کرنا اس کے حق میں نشہ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اس وقت تک کوئی دوسرا انسان اس سے ہمیشہ کے لئے زبرستی نشہ چھڑوا نہیں سکتا۔ جب بھی اسے موقع ملے گا وہ پھر نشہ کرنے لگے گا۔ اس لئے سائیکوتھراپی کے ساتھ ساتھ علاج کا ایک بہت بڑا حصّہ اس کو نشے کے نقصانات کے بارے میں مستند معلومات فراہم کرنا ہے۔ عام طور سے یہ معلومات نشے کے سفر میں جتنا جلدی فراہم کر دی جائیں اتنا زیادہ فائدہ ہونے کا امکان ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ کہ جب ابھی مریض نے نشہ کرنا شروع ہی کیا ہو اور اس کی عادت پختہ نہ ہوئی ہو۔
انجیکشن کے ذریعے نشہ کرنے کے نقصانات
جو لوگ انجیکشن یا سرنج کے ذریعے نشہ آور اشیاء مثلاً ہیروئن اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں ان میں نشے کے علاوہ صرف سرنج کے استعمال کی وجہ سے بہت ساری جسمانی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور سے جو لوگ کسی دوسرے کی استعمال کی ہوئی سرنج استعمال کرتے ہیں ان میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس بی جیسی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ جو لوگ سرنج کے ذریعے نشہ کرتے ہوں ان کو ان بیماریوں کے بارے میں آگاہ کرنا علاج کا لازمی حصّہ ہوتا ہے۔
حالانکہ اوپیائڈ کے نشے کا بنیادی علاج تو یہی ہے کہ انسان کو نشہ چھوڑنے کی ترغیب دی جائے اور اس پہ مائل کیا جائے، لیکن اس میں وقت لگتا ہے۔ اس لئے بہت سے ممالک میں جو لوگ نشے کے عادی ہوں ان کو حکومت کی طرف سے مفت سرنجیں فراہم کی جاتی ہیں تا کہ ہیپاٹائٹس بی اور ایڈز کی وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے، کیونکہ جن لوگوں کو یہ بیماریاں سرنج کے ذریعے لگ جائیں پھر ان سے ان لوگوں میں پھیل سکتی ہیں جن سے ان کے قریبی جسمانی تعلقات ہوں چاہے انہوں نے زندگی میں کبھی بھی نشہ نہ کیا ہو۔
اوپیائڈز (ہیروئن، مورفین وغیرہ) استعمال کرنے کے جسمانی اثرات
اوپیائڈز استعمال کرنے سے مندرجہ ذیل جسمانی اثرات ہو سکتے ہیں:
دماغ میں سانس لینے کا جو سینٹر یا مرکز ہے اوپیائڈز اس کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں اس لئے سانس لینا مشکل ہونے لگتا ہے اور سانس رک سکتی ہے۔
آنکھوں کی پتلیوں کا سکڑ جانا
قبض ہو جانا
بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن، اور جسم کے درجہ حرارت کے کنٹرول میں خرابی ہونے لگنا
اوپیائڈز کے استعمال کے شدید مضر اثرات
جیسا کہ پہلے آیا اوپیائڈز مثلاً ہیروئن یا مورفین وغیرہ اگر سرنج کے ذریعے انجیکشن کی شکل میں استعمال کی جائیں تو اس سے سب سے بڑا اور جان لیوا خطرہ ہیپاٹائٹس اور ایڈز کی بیماریوں کا ہوتا ہے اگر ایک ہی سرنج مختلف لوگ استعمال کریں۔
بعض لوگوں کو اوپیائڈز سے شدید الرجی کا ری ایکشن ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے انسان شاک میں جا سکتا ہے، پھیپھڑوں میں پانی بھر سکتا ہے اور اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اوپیائڈز کا بعض دوسری دوائیوں مثلاً بعض اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے شدید ری ایکشن بھی ہو سکتا ہے اس لئے جو لوگ کوئی بھی دوا لے رہے ہوں انہیں ڈاکٹر سے پوچھ لینا چاہیے کہ اگر انہیں درد وغیرہ کے لئے کوئی اوپیائڈ دی گئی ہے اس کا ان کی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے ری ایکشن تو نہیں ہو گا۔
اوپیائڈز کو زیادہ مقدار میں ایک ساتھ لے لینے کے خطرات
اگر کوئی بھی اوپیائڈ مثلاً ہیروئن، مورفین، کوڈین یا پینٹازوسین زیادہ مقدار میں ایک ساتھ لے لی جائیں، جسے اوور ڈوز کہا جاتا ہے، تو اس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسا اوپیائڈ کے دماغ میں سانس لینے کے مرکز کو کام کرنے سے روک دینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کچھ اس طرح کے اثرات نظر آ سکتے ہیں:
بے ہوشی طاری ہو جانا
کوما (coma)
سانس کی رفتار سست ہو جانا
بدن کا درجہ حرارت کم ہو جانا
بلڈ پریشر کم ہوجانا
دل کے دھڑکنے کی رفتا کم ہوجانا
آنکھوں کی پتلیاں بالکل سکڑ جانا
چرس دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پہ استعمال کی جانے والی نشہ آور شے ہے۔
نوجوان لوگ چرس کو زیادہ تر ایک سرور (high) کی سی کیفیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے انہیں ایک خوشی سی ہوتی ہے، وہ پر سکون محسوس کرتے ہیں، اور چیزوں نارمل سے مختلف طرح سے نظر آنے لگتی ہیں۔
اس کے استعمال سے انسان کی قلیل المدتی یادداشت (short-term memory) اور توجّہ خراب ہو جاتی ہے، جس سے انسان ایک سرور کی سی کیفیت میں کھو جاتا ہے اور تکلیف دہ یادیں اس کے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے با مقصد کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انسان کی جسمانی کام کرنے کی صلاحیتیں (motor skills) خراب ہو جاتی ہیں، کسی غیر متوقع چیز کو دیکھ کر ردِّ عمل کا اظہار کرنے کا وقت (reaction time) بڑھ جاتا ہے۔ عضلات کی ہم آہنگی (motor coordination) خراب ہو جاتی ہے اور جن جسمانی کاموں کو توجہ سے انجام دینا پڑتا ہے اس کی صلاحیت بھی خراب ہو جاتی ہے۔
چرس زیادہ استعمال کرنے کے فوری اثرات (Intoxication)
حسیات کا بہت زیادہ تیز ہو جانا مثلاً معمولی سی آواز بھی دھماکے کی طرح محسوس ہونا
وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جانا
زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے انسان کو اپنا آپ یا اپنا ماحول مصنوعی اور غیر حقیقی سا لگنا لگنا
جسمانی کام کرنے کی صلاحیت کا خراب ہو جانا اور یہ اثرات ابتدائی سکون اور خوشی اور سکون کی کیفیت ختم ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک موجود رہنا۔ جس انسان نے چرس استعمال کی ہو اس کی گاڑی چلانے یا بھاری مشینری استعمال کرنے کی صلاحیت اگلے آٹھ سے بارہ گھنٹے تک خراب رہ سکتی ہے۔ الکحل کے ساتھ استعمال کرنے سے یہ صلاحیتیں اور بھی خراب ہو جاتی ہیں۔
چرس کا استعمال بند کرنے سے ہونے والی علامات (cannabis withdrawal)
ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ روزانہ چرس استعمال کرتے ہیں، ان میں چرس استعمال کرنا بند کرنے سے ایک سے دو ہفتے میں چرس چھوڑنے کی علامات جنہیں ودڈرال علامات کہتے ہیں آنے لگتی ہیں۔
عام طور سے چرس استعمال کرنا چھوڑنے سے اس طرح کی علامات نظر آتی ہیں:
چڑچڑاپن
چرس کی شدید طلب ہونا
گھبراہٹ، پریشانی
نیند اڑ جانا
ایسے خواب آنا کہ ایسا لگے کہ وہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے
بھوک اڑ جانا
وزن کم ہو جانا
اداسی پید اہو جانا
بے چینی
سر درد
کپکپی سی محسوس ہونا
پیٹ میں درد
پسینہ زیادہ آنا
رعشہ
چرس کے استعمال سے ہونے والی متفرّق نفسیاتی بیماریاں
۱۔ چرس کے استعمال سے ہونے والا ہذیان (Delirium)
ہذیان نفسیاتی علامات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس میں انسان کو وقت کی، لوگوں کی، جگہ کی پہچان ختم ہو جاتی ہے، اس کے ہوش و حواس پوری طرح بحال نہیں رہتے، باتیں یاد نہیں رہتیں، اور ہذیان زیادہ شدید ہو جائے تو غیر مرئی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں یا غیبی آوازیں نظر آنے لگتی ہیں، لوگوں پہ بلا وجہ شکوک و شبہات شروع ہو جاتے ہیں۔
چرس کے زیادہ استعمال سے انسان کی دماغی صلاحیتوں اور اس کی کارکردگی پہ بہت برا اثر پڑ سکتا ہے، اور ہذیان کی سی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔ چرس کی درمیانی مقدار کے استعمال سے بھی انسان کی یادداشت خراب ہو سکتی ہے، کسی خطرے کو دیکھ کر اس کے ردِّ عمل میں دیر ہو سکتی ہے (delayed reaction time) ، ماحول کا ادراک (perception) متاثّر ہو سکتا ہے، جسمانی حرکات کی ہم آہنگی (motor coordination) خراب ہو سکتی ہے، اور اس کی کاموں اور باتوں پہ توجّہ دینے کی صلاحیت خراب ہو سکتی ہے۔
۲۔ چرس کے استعمال کی عادت پڑ جانا
جو لوگ چرس مہینوں یا سالوں سے استعمال کر رہے ہوں ان میں عادت پڑنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو لوگ چرس استعمال کرتے ہیں ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں (یعنی ہر دس میں سے ایک) شخص کو عادت پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک شخص نے چرس استعمال کرنا جتنی کم عمری میں شروع کی ہو، جتنی زیادہ دفعہ اس کا استعمال کیا ہو، اور جتنے طویل عرصے سے اس کا استعمال کر رہا ہو، اتنا ہی اس کو چرس استعمال کرنے کی عادت پڑنے کاخطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
عادت پڑ جانے کی علامات اس سے پہلے آ چکی ہیں مثلاً شدید طلب ہونا، استعمال کے مقدار پہ قابو نہ رہنا، اس کی مقدار کم کرنے یا چھوڑنے پہ قابو ختم ہو جانا، اور تمام کاموں میں دلچسپی ختم ہو جانا، اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے کی طرف دھیان ختم ہو جانا، اس کے استعمال کو کم کرنے یا چھوڑنے پہ تکلیف دہ نفسیاتی یا جسمانی علامات شروع ہو جانا وغیرہ۔
۳۔ چرس کے استعمال سے سائیکوسس ہو جانا (cannabis-induced psychotic disorder)
سائیکوسس اس نفسیاتی بیماری کو کہتے ہیں جس میں انسان کی حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اس کو ایسی غیبی آوازیں سنائی یا ایسی غیر مرئی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو کسی اور کو سنائی یا دکھائی نہیں دیتیں۔ اس کو اس طرح کے غلط خیالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی کوئ حقیقت نہیں ہوتی لیکن مریض کو ان پہ پکّا یقین ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ گھر والے، دوست یا پڑوسی اس کے دشمن ہو گئے ہیں، اس کو مارنا چاہتے ہیں۔ شیزوفرینیا طویل عرصے تک جاری رہنے والی سائیکوسس کی ایک قسم ہے۔
چرس کے استعمال سے طویل عرصے کا سائیکوسس شاذونادر ہی شروع ہو تا ہے، گو کہ وقتی طور پہ شکوک شبہات کی کیفیت بہت سارے لوگوں میں طاری ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں چرس کی زیادہ موثر قسم کی اقسام طویل عرصے تک استعمال کی جاتی ہیں ان میں شدید قسم کا سائیکوسس کافی زیادہ نظر آتا ہے۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے چرس کا استعمال کرتے ہیں ان میں شیزوفرینیا کی بیماری کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے، لیکن جن لوگوں نے چرس کم عمری میں مثلاً ۱۵ سال کی عمر میں استعمال کرنا شروع کر دی ہو اور بہت زیادہ مقدار میں استعمال کی ہو، ان میں یہ خطرہ چھ گنا تک بڑھ جاتا ہے۔
۴۔ چرس کے استعمال سے ہونے والی گھبراہٹ کی بیماری (cannabis-induced anxiety disorder)
چرس زیادہ مقدار میں استعمال کرنے پہ گھبراہٹ کی علامات شروع ہو جانا بہت عام ہے۔ عام طور سے یہ گھبراہٹ تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے، اور اس طرح کے شکوک و شبہات کے خیالات کی وجہ سے شروع ہوتی ہے کہ لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس ڈر خوف کی وجہ سے شدید گھبراہٹ کا دورہ یعنی پینِک اٹیک بھی شروع ہو سکتا ہے۔
جو لوگ باقاعدگی سے کافی مقدار میں چرس استعمال کرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ نظر آنے والی نفسیاتی علامات گھبراہٹ اور پریشانی ہوتے ہیں۔ انسان جتنی زیادہ مقدار میں چرس استعمال کرتا ہے اتنا ہی اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ اس کوگھبراہٹ کی علامات ہوں گی۔
جن لوگوں نے چرس استعمال کرنا حال میں ہی شروع کیا ہو ان میں گھبراہٹ کی علامات پیدا ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
۵۔ Amotivational syndrome
اس اصطلاح کا اردو میں ترجمہ کرنا مشکل ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے شخص میں ہر چیز اور ہر کام میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے کسی بھی کام میں لگ کر محنت نہیں کی جاتی، چاہے وہ اسکول کا کام ہو، ملازمت ہو، یا کوئی اور ایسا کام ہو جس کو کرنے کے لیے کچھ دیر تک توجہ دیتے رہنے کی ضرورت ہو۔ ان لوگوں میں نہ کوئی جذبات نظر آتے ہیں اور نہ ہی توانائی۔ ان کا وزن بڑھ سکتا ہے اور ان کی ظاہری صفائی ستھرائی خراب ہو سکتی ہے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کیفیت ان لوگوں میں پیدا ہو جاتی ہے جو طویل عرصے سے بہت زیادہ مقدار میں چرس کا استعمال کر رہے ہو، گو یہ وثوق سے ثابت نہیں ہے کہ اس کی واحد وجہ یہی ہے۔
چرس چھڑوانے کا علاج
اور نشہ آور چیزوں کی طرح چرس کو چھڑوانے کے بنیادی اصول دو ہی ہیں، پہلا اس کو مکمل طور پہ چھوڑنا، اور دوسرا ان لوگوں کو مدد فراہم کرنا جو اسے چھوڑ چکے ہیں۔
چرس چھوڑوانے کے لیے کبھی مریض کو ہسپتا ل میں داخل کرنا پڑتا ہے، اور کبھی اس کو کلینک میں ہی باقاعدگی سے دیکھنا ہوتا ہے اور بار بار پیشاب کے ٹیسٹ کروانے ہوتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مریض چرس لے رہا ہے کہ نہیں۔ چرس آخری استعمال کے چار ہفتوں بعد تک پیشاب کے ٹیسٹ میں معلوم کی جا سکتی ہے۔
چرس کو چھوڑنے کا بنیادی علاج دوائیں نہیں، بلکہ سائیکوتھراپی یا کاؤنسلنگ ہے ۔ اس میں انفرادی کاؤنسلنگ بھی شامل ہے، گروپ میں کاؤنسلنگ بھی، اور خاندان کی شمولیت کے ساتھ سائیکوتھراپی بھی۔
علاج کا ایک بہت اہم حصّہ یہ معلومات فراہم کرنا ہے کہ چرس استعمال کرنے سے انسان کی صحت، اور اس کی زندگی پہ کیا مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ جن مریضوں کو خود اس بات پہ عقلی طور پہ یقین نہیں ہوتا کہ ان کے لیے چرس چھوڑنا ضروری ہے ان کا علاج عموماً کامیاب نہیں ہوتا۔
بعض مریضوں کو کچھ دنوں کے لیے گھبراہٹ کم کرنے کی دوا دی جا سکتی ہے تا کہ ان کو چرس چھوڑنے سے جو تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں ان میں کچھ کمی ہو جائے۔
بعض مریض اندرونی ڈپریشن کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے چرس لے رہے ہوتے ہیں اور ان میں ڈپریشن کے علاج سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ چرس دوبارہ استعمال نہ کریں۔
چرس استعمال کرنے کے جسمانی اثرات
اب تک کوئی ایسا کیس معلوم نہیں ہے جس میں صرف چرس استعمال کرنے سے انسان کی موت واقع ہو گئی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چرس کے استعمال سے انسان کے سانس لینے کی رفتار پہ اثر نہیں پڑتا۔
چرس کے سب سے زیادہ مضر اثرات سگریٹ میں شامل کینسر کو جنم دینے والے مادّوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
کچھ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ چرس بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے والوں میں سانس کی طویل عرصے تک چلنے والی بیماریاں اور پھیپھڑوں کا کینسر ہو سکتا ہے۔
کچھ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ چرس طویل عرصے تک استعمال کرنے سے اور بھی شدید جسمانی اثرات ہو سکتے ہیں جن کی تفصیل اگلی تحریر میں آئے گی، لیکن کچھ اور ریسرچ ان باتوں کو ثابت نہیں کرتی، اور اس وقت یہ وثوق سے معلوم نہیں کہ چرس استعمال کرنے سے یہ شدید مضر اثرات ہوتے ہیں کہ نہیں۔
چرس استعمال کرنے کے جسمانی اثرات جو بہت سے لوگوں کو ہوتے ہیں
آنکھوں میں خون کی نالیوں کا پھول جانا، جس کی وجہ سے آنکھیں لال نظر آنے لگتی ہیں
دل کی دھڑکن کا قدرے تیز ہو جانا
بھوک بڑھ جانا
منہ کا خشک رہنا
لیٹے سے بیٹھنے یا کھڑے ہونے پہ بلڈ پریشر کا گر جانا (جس سے چکر آ سکتے ہیں)
بہت زیادہ مقدار میں چرس استعمال کرنے سے ہونے والے مضر اثرات
(ان میں سے بعض اثرات ریسرچ سے وثوق سے ثابت نہیں ہیں)
پھیپھڑوں کی طویل عرصے تک چلنے والی بیماریاں ہو جانا
پھیپھڑوں کا کینسر ہو جانا
دماغ کا جسمانی طور پہ سکڑ جانا
مرگی کے دوروں کا خطرہ بڑھ جانا
کروموسومز (جینیات) کو نقصان پہنچنا
بچوں کا ابنارمل پیدا ہونا
جسم کے مدافعتی نظام (immune system) کا کمزور ہو جانا
مردانہ ہارمون (ٹیسٹوسٹیرون) کی جسم میں مقدار میں تبدیلیاں ہونے لگنا
خواتین میں ماہواری کی باقاعدگی میں خرابی ہونے لگنا
جسمانی علامات:
۱۔ ٹالرنس (Tolerance)
ٹالرنس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی نشہ آور چیز کے باقاعدہ استعمال سے جسم اور دماغ اس کے اس قدر عادی ہو جائیں کہ شروع شروع میں جس مقدار کے استعمال سے اس کو مزا آتا تھا، سرور ملتا تھا، یا کوئی اور نفسیاتی اثرات مرتّب ہوتے تھے، اب اس مقدار کے استعمال سے وہ اثرات مرتّب ہونے ختم ہو جائیں اور ان اثرات کو دوبارہ حاصل اور محسوس کرنے کے لیے زیادہ مقدار کا استعمال کرنا پڑے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ نئی یا بڑھی ہوئی مقدار بھی کام کرنا بند کر دیتی ہے اور اس کو پھر بڑھانا پڑتا ہے۔ اس طرح سے ہر کچھ عرصے بعد پچھلی مقدار کا اثر محسوس ہونا ختم ہو جانے اور مقدار بڑھنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
۲۔ ودڈرال (withdrawal)
ودڈرال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کا جسم اور دماغ نشہ آور شے کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ اگر وہ وقت پہ نہ ملے یا اس کی مقدار کم ہو جائے تو نشہ ٹوٹنے لگتا ہے، اور اس کی وجہ سے متعدد جسمانی اور نفسیاتی علامات ہونے لگتی ہیں۔ ان علامات کی تفصیل بعد میں آئے گی کیونکہ یہ ہر نشہ آور شے کے لیے الگ ہوتی ہیں۔
کسی نشہ آور شے کا عادی ہو جانے کی کچھ علامات
۳۔ نشہ آور شے کی شدید طلب ہونا
اس نشہ آور شے کے بغیر انسان کو لگتا ہے کہ اس کی زندگی میں کچھ کمی سی ہے، اور اسے ہمیشہ اس نشے کو دوبارہ استعمال کرنے کی شدید طلب ہوتی رہتی ہے۔
۴۔ استعمال کی مقدار پہ قابو نہ رہ پانا۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی شخص الکحل پینا شروع کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ آج بس اتنی مقدار میں پیئوں گا، لیکن جب پینا ختم کرنے کا وقت آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے ابتدائی ارادے سے کہیں زیادہ الکحل پی چکا ہے۔
۵۔ نشہ آور چیز استعمال کرنا چھوڑنے یا اس کی مقدار کو کم کرنے پہ قابو نہ رہنا۔
ہم لوگ بہت سے ایسے مریض دیکھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے اس چیز کے استعمال پر پورا قابو ہے، میں جب چاہوں اسے چھوڑ سکتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے بغیر چند دن بھی نہیں رہ پاتے۔ کچھ عرصے کے باقاعدہ استعمال کے بعد انسان اس نشہ آور شے کا اتنا عادی ہو چکا ہوتا ہے کہ نہ اسے مکمل طور سے استعمال کرنا بند کرنا اس کے لیے آسان رہتا ہے اور نہ ہی اس کی مقدار کم کرنا۔
۶۔ نشہ آور شے کو حاصل کرنے،استعمال کرنے، اور اس کے دماغ و جسم پہ اثرات ختم ہونے میں بہت زیادہ صرف کر دینا
جب انسان کسی نشہ آور شے کا عادی ہو جائے تو نشے کی شدّت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی اسی چیز کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے۔ اس کے دن کا بیشتر حصّہ اس چیز کو حاصل کرنے کی کوششوں مثلاً چوریاں کرنا تا کہ اس کو اتنے پیسے مل سکیں کہ وہ نشہ آور شے خرید سکے، اس کو استعمال کرنے، اور اس کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات سے ریکور کرنے میں گزر جاتا ہے۔ وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا۔
۷۔جسمانی یا ذہنی بیماری کے باوجود اس نشے کو چھوڑ نہ پانا
بہت سے لوگوں کو کینابس (چرس) یا میتھ ایمفیٹامین استعمال کرنے سے سائیکوسس یعنی ایک شدید نفسیاتی بیماری کی علامات شروع ہو جاتی ہیں جس میں غیبی آوازیں سنائی دے سکتی ہیں، غیر مرئی چیزیں دکھائی دے سکتی ہیں، یا شکوک شبہات شروع ہو جاتے ہیں کہ لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں، انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں بار بار بتاتے ہیں کہ ٹھیک ہونے کے بعداگر آپ یہ چیزیں دوبارہ استعمال کریں گے تو بیماری واپس آ جائے گی، لیکن یہ سب جاننے کے بعد ان کا نشہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ انہیں دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح الکحل پینے سے لوگوں کو جگر کی بیماری ہو سکتی ہے، لیکن جگر خراب ہو جانے کے باوجود بھی وہ الکحل پینا چھوڑ نہیں پاتے حالانکہ ڈاکٹرز انہیں بتاتے ہیں کہ الکحل نہ چھوڑنے سے آپ کا جگر کام کرنا بند کر سکتا ہے اور آپ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
نشہ آور اشیاء کو استعمال کرنے کے نفسیاتی اور معاشرتی اثرات
۸۔ گھریلو ماحول پہ برے اثرات پڑنے مثلاً بیوی بچوں سے تعلق خراب ہو جانے، یا ملازمت پہ برے اثرات پڑنے مثلاً نشے کی وجہ سے ملازمت پہ وقت پہ نہ پہنچ پانا، اپنے کام صحیح طریقے سے نہ انجام دے پانا، کے باجود نشہ آور اشیاء استعمال کرتے رہنا
۹۔ اپنی دوسری ذمّہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھا نہیں پانا، مثلاً بیوی بچوں کا خرچہ نہ پورا کر پانا، گھر کے کام انجام نہ دے پانا، اپنی تمام ذمّہ داریوں سے لا تعلق ہو جانا
۱۰۔ باقی تمام کاموں میں دلچسپی ختم ہو جانا، نشہ آور شے استعمال کرنے کے علاوہ اور تمام مصروفیات چھوڑ دینا مثلاً انسان دوستوں سے ملتا جلتا تھا، کوئی کھیل کھیلتا تھا، وہ سب چھوڑ دے
۱۱۔ نشے کی وجہ سے خطرات مول لینا، مثلاً دوسروں کی استعمال کی ہوئی سوئی استعمال کرنا جس سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا خطرہ ہوتا ہے، چوریاں کرنا
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
الکحل کے ذہنی صحت پہ اثرات
- جو لوگ روزانہ یا بہت زیادہ الکحل پیتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کے موڈ (مزاج) پہ منفی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
- اگر کسی کو پہلے سے نفسیاتی بیماری کی علامات ہوں یا نفسیاتی بیماری کی تشخیص ہو چکی ہو تو ایسے لوگوں میں الکحل پینے سے ان کی بیماری زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔
- الکحل پینے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
- جن لوگوں کو نفسیاتی بیماری ہو ان میں سے بعض لوگ اپنی ذہنی اذیت، پریشانی یا اداسی کو کم کرنے یا بھلانے کے لیے الکحل پیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ الکحل سے ان کی نفسیاتی علامات مزید خراب ہو سکتی ہیں۔
کیا الکحل پینا بند کرنے سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے؟
عام طور سے الکحل پینا بند کرنے سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔ خاص طور سے جن لوگوں کا موڈ الکحل پینے سے خراب ہوتا ہو جب وہ الکحل پینا بند کرتے ہیں تو اس کے کچھ ہفتوں کے بعد انہیں اپنی جسمانی اور ذہنی صحت بہتر لگنے لگتی ہے۔
اگر مجھے کوئی نفسیاتی بیماری ہو تو کیا میں الکحل پی سکتا ہوں؟
اگر آپ کو کوئی نفسیاتی بیماری ہے یا آپ کو اپنی ذہنی صحت خراب لگ رہی ہے اور آپ پہلے سے الکحل نہیں پیتے تو اسے پینا ہرگز شروع نہ کریں۔ جن لوگوں کو نفسیاتی بیماری ہو الکحل پینے سے ان کا موڈ مزید خراب ہو سکتا ہے، اور ان کی بیماری کی علامات مزید شدّت اختیار کر سکتی ہیں۔
نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی بعض دوائیوں کے ساتھ الکحل پینے سے ان کی کارکردگی خراب ہو سکتی ہے۔ اگر آپ ایسی کوئی دوا لے رہے ہیں یا ایسی کوئی دوا آپ کو شروع کی جائے تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور پوچھ لیں کہ اس دوا کے ساتھ الکحل استعمال کرنے سے کوئی خطرات تو نہیں ہوں گے۔
الکحل پینے کے قلیل المدتی اثرات کیا ہوتے ہیں؟
جب الکحل کی مقدار خون میں کم ہو تو وقتی طور پہ انسان میں اس طرح کے اثرات نظر آ سکتے ہیں:
- خوشی یا سرور محسوس کرنا
- پر سکون محسوس کرنا
- عام عادت سے زیادہ باتیں کرنا
- خود اعتمادی محسوس کرنا
لیکن اس کے بعض ممکنہ طور پہ خطرناک اثرات بھی ہو سکتے ہیں مثلاً:
- غنودگی محسوس کرنا
- بولنے میں زبان کا لڑکھڑانا
- کام میں غلطیاں کرنا
انسان جتنی زیادہ الکحل پیتا ہے اتنا ہی اس کا اپنے اوپر سے قابو اور اس کی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہونے لگتے ہیں۔ اس سے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ:
- انسان ایسے کام کرنے لگے کہ اگر اس کی سوچنے سمجھ کی صلاحیت برقرار ہوتی تو کبھی نہ کرتا
- ایسی باتیں کرنے لگے جو وہ ہوش حواس میں کبھی نہ کرتا
- بے سوچے سمجھے یا خطرناک کام کرنے لگے
- اگلے دن اسے ایسا لگے کہ جیسے اس کا نشہ ٹوٹ رہا ہو
الکحل کا اثر ہر انسان پہ الگ ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ اوپر لکھے اثرات الکحل کی کم مقدار پینے یا کبھی کبھار پینے سے بھی ہونے لگتے ہیں۔
نشہ ٹوٹنے کی کیفیت ہونا (ہینگ اوور) (Hangover)
یہ کیفیت الکحل پینا بند کرنے کے کچھ گھنٹے کے بعد شروع ہوتی ہے جب خون میں الکحل کا لیول گرنے لگتا ہے۔ عام طور سے انسان اس کی علامات اس وقت محسوس کرتا ہے جب سونے کے بعد اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ہینگ اوور کی علامات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں۔
- شدید سردرد ہونا
- متلی سی محسوس ہونا
- نیند اڑ جانا
- چڑچڑاپن اور گھبراہٹ محسوس کرنا
یہ علامات اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ الکحل اور شراب میں شامل دوسرے کیمیائی اجزاء کی وجہ سے خون میں پانی اور شکر کی کمی ہونے لگتی ہے۔
ہینگ اوور کا کوئی باقاعدہ علاج تو نہیں ہے، البتّہ اگر اس کی علامات محسوس ہوں تو پانی خوب پینا چاہیے اور مزید الکحل پینے سے گریز کرنا چاہیے جب تک کہ انسان دوبارہ سے جسمانی اور ذہنی طور پہ صحت مند محسوس نہ کرنے لگے۔
جن لوگوں کو ہینگ اوور یا نشہ ٹوٹنے کی کیفیت محسوس نہ ہو ان کے لیے خطرناک بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا جسم الکحل بہت زیادہ پینے کا عادی ہو گیا ہو اور وہ الکحل کے عادی بن چکے ہوں۔
مدہوشی (Blackouts)
مدہوشی یا بلیک آؤٹ کی کیفیت اس وقت طاری ہوتی ہے جب کوئی انسان تھوڑی سی دیر میں الکحل کی بہت زیادہ مقدار پی لے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ اس کیفیت میں کیا ہوا تھا، یا اس نے کیا بولا تھا یا کیا تھا۔ مدہوشی کی کیفیت میں بعض دفعہ انسان ایسے کام کر گزرتا ہے جن پہ اسے بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے، اپنے آپ کو بلا سوچے سمجھے خطرنا ک صورتحال میں میں ڈال دیتا ہے، اور بعض دفعہ اسے دوسرے لوگوں سے نقصان پہنچ جاتا ہے۔
مدہوشی یا بلیک آؤٹ کی کیفیت اس لیے طاری ہوتی ہے کیونکہ الکحل کی زیادہ مقدار دماغ کو اس حد تک متاثر کر دیتی ہے کہ اس کی یادداشت کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ اس کیفیت کا طاری ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان حد سے زیادہ الکحل پی رہا ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ الکحل انسان کے دماغ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور یہ کہ ہو سکتا ہے کہ وہ الکحل کا عادی بن چکا ہو۔
الکحل کے زہریلے اثرات
ایسا اس وقت ہوتا جب انسان اتنی زیادہ الکحل ایک ساتھ پی لے کہ اس کے خون میں الکحل کا لیول خطرناک حد تک بڑھ جائے۔ایسی صورت میں انسان کے سانس لینے کی رفتار سست ہو سکتی ہے، انسان بے ہوش ہو سکتا ہے، اسے مرگی کا دورہ پڑ سکتا ہے، اور اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
الکحل پینے کے طویل المدّتی اثرات کیا ہوتے ہیں؟
الکحل کے جسمانی صحت پہ اثرات
الکحل بہت زیادہ مقدار میں یا اکثر پینے سے مندرجہ ذیل جسمانی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے:
- جسمانی چوٹیں لگنا
- بلڈ پریشر بڑھ جانا
- دل کا کام کرنا چھوڑ دینا (ہارٹ فیلیئر)
- اسٹروک (فالج کا دورہ)
- پینکریاٹائٹس (لبلبے کی انفلیمیشن اور اس کو نقصان پہنچنا) (pancreatitis)
- جگر کی بیماریاں: الکحل پینے سے جگر کو نقصان مرحلہ وار بڑھتا جاتا ہے۔ ابتدا میں الکحل چھوڑ دینے سے جگر دوبارہ ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن طویل عرصے کے استعمال سے جگر میں سرہوسس (cirrhosis) ہو سکتا ہے جس کے ہو جانے کے بعد الکحل چھوڑ دینے سے بھی جگر دوبارہ ٹھیک نہیں ہوتا۔
- کینسر ، بشمولِ جگر، منہ، سر، گردن، چھاتی، اور آنتوں کا کینسر
- جنسی علامات مثلاً مردوں میں عضو میں سختی نہ آنا یا بہت جلدی فارغ ہو جانا
- بانجھ ہو جانا یعنی بچے پیدا نہ کر سکنا
- دماغ کو نقصان پہنچنا: اس کی تفصیل بعد میں آئے گی
الکحل کی عادت پڑ جانا (alcohol dependence)
جو لوگ الکحل کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں ان میں یہ علامات پائی جاسکتی ہیں؛
- الکحل پینے کی بہت شدید طلب ہونا
- اپنے پینے کی مقدار پہ قابو نہ رکھ پانا
- زندگی پہ منفی اثرات مرتّب ہونے کے باوجود الکحل پینا چھوڑ نہ سکنا
جو لوگ الکحل کے عادی بن چکے ہوتے ہیں ان میں مندرجہ ذیل جسمانی علامات بھی نظر آنے لگتی ہیں:
- الکحل کی ٹالرنس (tolerance) پیدا ہو جانا:
جو لوگ کافی عرصے سے باقاعدگی سے الکحل پی رہے ہوں وقت کے ساتھ ان کے دماغ پہ الکحل کا وہ اثر نہیں ہوتا جو شروع میں ہوتا تھا، اور وہی اثر لانے کے لیے انہیں زیادہ مقدار میں الکحل پینی پڑتی ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد وہ بڑھی ہوئی مقدار بھی اپنا اثر کھو دیتی ہے اور انہیں سرور حاصل کرنے کے لیے مقدار کو مزید بڑھانا پڑتا ہے۔ اس کو ٹالرنس کہتے ہیں۔
- الکحل اچانک کم کرنے یا چھوڑنے کی علامات (ودڈرال علامات، withdrawal symptoms):
ہم سب کے دماغ میں کچھ ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو ہمیں پرسکون رکھتے ہیں اور سونے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ زیادہ عرصے تک الکحل استعمال کرنے سے دماغ میں قدرتی طور پہ پیدا ہونے والے ان کیمیکلز کی کارکردگی کم ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ الکحل کے جسمانی طور پر عادی بن چکے ہوں اگر وہ اچانک الکحل پینا کم کر دیں یا چھوڑ دیں تو ان کے دماغ پہ بہت شدید اثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کو شدید گھبراہٹ ہو جاتی ہے، وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں، بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے، اور ان کو بہت زیادہ پسینہ آنے لگتا ہے۔ جن لوگوں کو الکحل کی عادت شدید درجے کی ہو چکی ہو ان کو اچانک الکحل پینا بند کرنے سے مرگی کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں، ان پہ ہذیان کی سی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے، اور ان کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
الکحل چھوڑنے سے ہونے والی بیماری (alcohol withdrawal syndrome)
جیسا کہ اوپر آیا جو لوگ کافی عرصے سے باقاعدگی سے الکحل پی رہے ہوں وہ اگر اچانک الکحل پینا بند کردیں تو انہیں اس سے شدید درجے کی علامات ہو سکتی ہیں جن کے مجموعے کو الکحل ودڈرال سنڈروم کہتے ہیں۔ یہ علامات عام طور سے الکحل چھوڑنے کے ایک دو دن کے اندر ہی شروع ہو جاتی ہیں، اور تین سے سات دن تک جاری رہ سکتی ہیں۔
الکحل ودڈرال سنڈروم میں یہ جسمانی علامات ہو سکتی ہیں:
- ہاتھوں پیروں میں کپکپی طاری ہو جانا
- متلی محسوس کرنا
- بولنے میں دشواری ہونا
- دل کی دھڑکن بہت تیز ہوجانا
- بلڈ پریشر بڑھ جانا
- مرگی کے دورے پڑنا
اور یہ ذہنی یا نفسیاتی علامات ہو سکتی ہیں:
- شدید گھبراہٹ
- ڈر، خوف
- ڈپریشن
- بے چینی
- ہذیان کی سی کیفیت طاری ہونا جس میں غیبی آوازیں آنے لگتی ہیں یا ایسی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جو وہاں موجود نہیں ہوتیں
الکحل ودڈرال سنڈروم سے انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لیے اگر کسی کو اس کی علامات شروع ہو جائیں تو اسے فوراً ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے یا ہسپتال جانا چاہیے۔
الکحل ودڈرال سنڈروم کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
الکحل ودڈرال سنڈروم یعنی جن لوگوں کو الکحل کی عادت پڑ چکی ہو ان لوگوں کو الکحل پینا اچانک بند کرنے سے ہونے والی بیماری کا علاج اس کی علامات کی شدّت پہ منحصر ہوتا ہے۔
- بہت سارے لوگ جن کی ایڈکشن یا عادت اتنی شدید نہ ہو وہ بغیر کسی مدد کے گھر پہ الکحل چھوڑ دیتے ہیں۔
- بعض لوگ گھر پہ الکحل پینا چھوڑ سکتے ہیں لیکن ان کو ڈاکٹر اور نرس کی نگرانی اور بعض دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
- جن لوگوں کی ایڈکشن بہت شدید ہو، اور خاص طور سے جنہیں پہلے مرگی کے دورے پڑ چکے ہوں، انہیں ہسپتال میں داخل ہو کے الکحل بند کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
الکحل چھوڑنے سے ہونے والے تکلیف دہ اثرات کو روکنے کے لیے عام طور سے جس گروپ کی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اس کو بینزوڈایازیپین (benzodiazepine) کہتے ہیں۔ اس گروپ میں کلورڈایازیپوکسائڈ، کلونازیپام اور ڈایازیپام وغیرہ دوائیں شامل ہیں۔ یہ دوائیں الکحل چھوڑنے سے ہونے والی عام علامات، مثلاً گھبراہٹ، نیند اڑ جانا،کو بھی روکتی ہیں اور اس کے علاوہ الکحل بند کرنے سے ہونے والے بعض شدید مضراثرات مثلاً مرگی کے دورے اور ہذیان کی کیفیت کو بھی ہونے سے روکتی ہیں۔ یہ دوائیں عام طور سے سات سے دس دن تک کے لیے دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان دوائیوں کو بتدریج کم کر کے بند کر دیا جاتاہے کیونکہ بینزوڈایازیپین دوائیوں کو طویل عرصے تک لینے سے ان کی بھی عادت پڑ سکتی ہے۔
الکحل اچانک چھوڑنے سے ہونے والی ہذیان کی کیفیت (ڈیلیریئم ٹریمینس) (delirium tremens)
ڈیلیریئم ٹریمینس، جسے ڈی ٹی بھی کہا جاتا ہے، جن لوگوں کو الکحل کی ایڈکشن یعنی عادت ہو، ان میں الکحل پینا اچانک بند کرنے سے ہونے والی ایک خطرناک بیماری ہے۔ ڈیلیریئم یا ہذیان اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان کے ہوش و حواس برقرار نہیں رہتے، مثلاً وہ لوگوں کو یا جگہ کو نہیں پہچان پاتا، اسے وقت نہیں یاد رہتا۔ اس کے علاوہ اسے اس کیفیت میں غیبی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں، غیر مرئی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، یعنی ہیلیو سی نینشنز (hallucinations) ہونے لگتی ہیں۔ ٹریمینس (tremens) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو الکحل اچانک بند کرنے کی وجہ سے ہذیان ہو جائے، اس کے ساتھ ان کو ہاتھوں پیروں میں رعشہ آ جاتا ہے اور بدن کپکپانے لگتا ہے یعنی (tremor) ہونے لگتا ہے۔ اسی رعشے یا کپکپی کی وجہ سے الکحل چھوڑنے کے بعد ہونے والے ہذیان کو ڈیلیریئم ٹریمینس کہتے ہیں۔
ڈیلیریئم ٹریمینس ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے جس میں انسان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ جب یہ کسی میں شروع ہو جائے تو اس شخص کو فوراً ہسپتال میں بلکہ بہت دفعہ آئی سی یو میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈیلیریئم ٹریمینس (ڈی ٹی) کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
جن لوگوں کو ڈی ٹی شروع ہو جائے ان لوگوں میں الکحل اچانک چھوڑنے سے ہونے والی بہت ساری علامات ہوتی ہیں ،مثلاً نیند اڑ جانا، گھبراہٹ، بے چینی، ہاتھوں پیروں میں کپکپی وغیرہ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں یہ علامات بھی نظر آنے لگتی ہیں:
- ہوش و حواس کا مکمل برقرار نہ رہنا
- اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھ نہ پانا
- یہ یاد نہ رہنا کہ انسان کہاں ہے، جہاں ہے وہاں کس وجہ سے ہے، کیا وقت ہوا ہے
- غیبی آوازیں آنا یا غیرمرئی چیزیں دیکھنا یعنی ایسی آوازیں سننا یا چیزیں دیکھنا جو کسی اور کو سنائی یا دکھائی نہ دے رہی ہوں
- بعض لوگ جو چیزیں حقیقتاً نظر آ رہی ہوں ان کو غلط سمجھنے لگتے ہیں، مثلاً پردے کے ہلنے سے یہ سمجھنا کہ اس کے پیچھے کوئی دشمن چھپا ہوا ہے جو حملہ کرنے والا ہے، نرس سرنج ہاتھ میں لے کے آئے تو یہ سمجھنا کہ اس کے ہاتھ میں چاقو ہے جس سے وہ حملہ کرنے والا ہے
- بعض لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی جلد کے نیچے کیڑے رینگ رہے ہوں
- اپنے آپ کو خطرے میں سمجھنا، مریض کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں، اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، یا اس کی جان لینا چاہتے ہیں
- اپنے آپ کو خطرے میں سمجھنے کی وجہ سے حفظِ ما تقدّم کے طور پہ دوسروں پہ حملہ کر دینا
ڈیلیریئم ٹریمینس بہت ہی خطرناک بیماری ہے اور اس کی وجہ سے انسان کے جسم پہ مندرجہ ذیل اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں:
- جسم میں پانی کی کمی ہو جانا
- جسم میں مختلف نمکیات اور کیمیکلز کی کمی ہو جانا
- دل کی کارکردگی پہ بوجھ پڑنا
- انفیکشن ہونے کا خطرہ بڑھ جانا
ڈیلیریئم ٹریمینس کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
ڈیلیریئم ٹریمینس کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، اور بہت دفعہ اس کا علاج میڈیکل آئی سی یو میں کیا جاتا ہے۔ عام طور سے اس کا علاج بینزوڈایازیپین گروپ کی دوائیوں (ڈایازیپام، کلورڈایازیپوکسائڈ، لورازیپام، کلونازیپام وغیرہ) سے کیا جاتا ہے۔ مریض کو اکثر ڈرپ کے ذریعے پانی اور گلوکوز، انجیکشن کے ذریعے وٹامن، اور بعض دفعہ اینٹی سائیکوٹک کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
الکحل کے دماغ پہ نقصان دہ اثرات
اگر کوئی شخص طویل عرصے کے لیے روزانہ بہت زیادہ مقدار میں الکحل پیتا رہے تو اس سے اس کے دماغ کو جسمانی طور پہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ جو لوگ جسمانی طور پہ الکحل کے عادی بن چکے ہوتے ہیں ان میں سے تقریباً ۳۰ فیصد (ہر سو میں سے دس) لوگوں کے دماغ کو الکحل سے نقصان پہنچتا ہے۔
الکحل سے دماغ کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے انسان کی یادداشت اور سوچ کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کا سب سے زیادہ خطرہ :
- ان عورتوں میں ہوتا ہے جو پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے ہر ہفتے الکحل کے پچاس یونٹس سے زیادہ پی رہی ہوں
- ان مردوں میں ہوتا ہے جو پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے ہر ہفتے الکحل کے ساٹھ یونٹس سے زیادہ پی رہے ہوں
الکحل کے یونٹس کا حساب کیسے لگایا جاتا ہے؟
شراب کی ایک بوتل میں کتنے یونٹس (units) ہوتے ہیں اس کا دارومدار اس بات پہ ہوتا ہے کہ اس میں جو شراب ہے اس میں کتنے فیصد خالص الکحل ہے، اور شراب کی کتنی مقدار مثلاً ملی لیٹرز ہیں۔ عام طور سے اس کا حساب اس طرح سے لگایا جاتا ہے کہ اگر بوتل میں ایک لیٹر شراب ہے اور اس میں دس فیصد خالص الکحل ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس بوتل میں دس یونٹ الکحل ہے۔ اگر اسی بوتل میں دس فیصد خالص الکحل والی شراب کے ۵۰۰ ملی لیٹر (یعنی آدھا لیٹر) ہوتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس میں پانچ یونٹ الکحل ہے۔ اسی طرح اگر اسی بوتل میں ایک لیٹر شراب ہوتی لیکن پانچ فیصد خالص الکحل والی ہوتی، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس میں پانچ یونٹ الکحل ہے۔
الکحل سے دماغ کو نقصان زیادہ تر ان لوگوں میں نظر آتا ہے جو عمر کی پانچویں دہائی میں پہنچ چکے ہوں، لیکن اگر کوئی شخص بہت زیادہ الکحل پیتا ہو تو یہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ جو عورتیں بہت زیادہ الکحل پیتی ہیں ان میں یہ نقصان مردوں کے مقابلے میں نسبتاّ کم عمر میں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
الکحل سے دماغ کو کس طرح سے نقصان پہنچتا ہے؟
الکحل بہت زیادہ مقدار میں طویل عرصے تک پینے سے انسان کے دماغ اور جسم میں بعض تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں جن سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے؛
- دماغ کے خلیوں کو براہ راست نقصان پہنچنا
- وٹامن کی کمی، خاص طور سے وٹامن بی ۱کی کمی
- سر میں چوٹیں لگنا: جو لوگ بہت زیادہ الکحل پیتے ہوں ان کو سر میں چوٹ لگنے کا امکان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، جس سے ان کے دماغ کو براہ راست نقصان پہنچ سکتا ہے
- دماغ کا سکڑ جانا: ویسے تو یہ بڑی عمر میں سب ہی لوگوں کے ساتھ ہونے لگتا ہے لیکن جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں دماغ اور بھی زیادہ سکڑ جاتا ہے
- الکحل زیادہ پینے سے دماغ کے ایک حصّے سیریبیلم (cerebellum) کو نقصان پہنچتا ہے۔ دماغ کا یہ حصّہ ہمارے جسم کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کے خراب ہونے سے انسان کے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے دماغ کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے۔
الکحل سے دماغ کو نقصان پہنچنے کی علامات
جن لوگوں کے دماغ کو الکحل سے نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے ان میں اس طرح کی علامات نظر آ سکتی ہیں:
- چڑچڑاپن
- کسی بات پہ توجہ دینے یا برقرار رکھنے میں مشکل ہونا
- معمولی سی بات پہ یا اپنے ہی خیالات کی وجہ سے توجہ بہت آسانی سے موضوع سے ہٹ جانا
- اپنا خیال رکھنا چھوڑ دینا مثلاً کئی کئی دن کپڑے نہ بدلنا یا نہ نہانا، اپنے کھانے پینے کا خیال نہ رکھ پانا
- یادداشت خراب ہو جانا
- رویّے اور باتوں میں غیر معمولی تبدیلی آ جانا مثلاً ایسی باتیں کرنے لگنا جن سے دوسروں کو خطرہ محسوس ہو یا جو نامناسب ہوں، یا دوسروں کو جنسی یا جسمانی تشدّد کا نشانہ بنانے لگنا
الکحل پینے سے ہونے والا ڈیمینشیا (نسیان کی بیماری)
ڈیمینشیا اس بیماری کو کہتے ہیں جو عام طور سے بڑی عمر کے لوگوں میں نظر آنا شروع ہوتی ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ اس کے ہونے کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔ ڈیمینشیا کی بنیادی علامات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ انسان کی یادداشت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور خاص طور سے یہ کہ بیماری کے شروع میں انسان کو یہ تو یاد ہوتا ہے کہ تیس سال پہلے کیا ہوا تھا، لیکن یہ نہیں یاد رہتا کہ اس نے صبح ناشتہ کیا تھا کہ نہیں، یا صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا۔ اس کی دوسری بڑی علامت، یا علامات کا مجموعہ، یہ ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے روز مرّہ کے کام کرنے مثلاً خود سے نہانے، کپڑے تبدیل کرنے، کھانا کھانے، کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔
ڈیمینشیا کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے دماغ کے خلیے اپنا کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ الکحل دماغ کے خلیوں کو براہِ راست نقصان پہنچاتی ہے اس لیے اس کی وجہ سے نسبتاً کم عمر یعنی جوانی یا ادھیڑ عمری میں بھی ڈیمینشیا شروع ہو سکتا ہے۔
اور وجوہات مثلاً الزائمر کی بیماری (Alzheimer’s disease) کی وجہ سے ہونے والا ڈیمینشیا وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدّت اختیار کرتا جاتا ہے۔ لیکں زیادہ الکحل پینے سے ہونے والے ڈیمینشیا کی خاص بات یہ ہے کہ اگر مریض الکحل پینا چھوڑ دے تو اس کا ڈیمینشیا مزید خراب ہونے سے رک سکتا ہے، بلکہ اس میں بہتری بھی آ سکتی ہے۔
کیا الکحل پینا چھوڑنے سے دماغ کو الکحل سے جو نقصان پہنچا ہو اس میں بہتری آ سکتی ہے؟
اگر اس کو الکحل سے ہونے والی دماغی نقصان ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہو تو الکحل پینا چھوڑنے سے اس کی یادداشت اور دیگر دماغی صلاحیتیں بہت حد تک واپس آ سکتی ہیں، گو اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
اگر کسی کے دماغ کو الکحل سے شدید نقصان پہنچ چکا ہو تو وہ الکحل چھوڑنے کے بعد اگلے دو تین سال میں بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ا سکے باوجود بعض لوگوں میں شدید علامات باقی رہ جاتی ہیں۔
جو لوگ الکحل سے دماغ کو نقصان پہنچنے کے بعد اسے پینا مکمل طور پہ چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے:
- تقریباً ایک چوتھائی لوگ (ہر چار میں سے ایک) مکمل صحتیاب ہو جاتے ہیں اور ان کی تمام علامات ختم ہو جاتی ہیں۔
- تقریباً آدھے لوگوں میں کچھ نہ کچھ بہتری ہوتی ہے لیکن کچھ علامات باقی رہ جاتی ہیں۔
- ایک چوتھائی لوگوں میں شدید علامات باقی رہ جاتی ہیں۔
جن لوگوں کی عمر جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی ان کے مکمل صحتیاب ہونے کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔
الکحل پینا چھوڑنے میں کن چیزوں سے مدد ملتی ہے؟
اپنی مدد آپ
بہت سے لوگ کسی باقاعدہ علاج کے بغیر ہی الکحل کا استعمال خود ہی کم اور ختم کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب بہت سی آن لائن مدد دستیاب ہے۔
سائیکوتھیراپی
- کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی)
- سوشل بیہیویئر اور نیٹ ورک تھیراپی
- مزید اور اقسام کی بیہیویئر تھیراپی
الکحل دوبارہ پینا شروع کرنے سے رکنے میں مدد کرنے والی دوائیں
ان دوائیوں سے الکحل دوبارہ پینا شروع کرنے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے:
- ایکیمپروسیٹ (acamprosate)
اس دوا سے الکحل کی طلب کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اس کو عام طور سے اس وقت شروع کیا جاتا ہے جب آدمی الکحل پینا بند کر چکا ہو، اور پھر اس کو تقریباً چھ مہینے تک لینا ہوتا ہے۔
- نیلٹریکسون (Naltrexone)
اس دوا کے لینے سے انسان کو الکحل پینے کے اثرات محسوس نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے لوگوں کو الکحل پینے کی خواہش محسوس نہیں ہوتی۔ اس دوا کو بھی تقریباً چھ مہینے تک لینا ہوتا ہے۔
- ڈائیسلفیرام (Disulfiram)
ڈائیسلفیرام کو اس وقت تجویز کیا جاتا ہے جب کوئی شخص ایکیمپروسیٹ اور نیلٹریکسون لے چکا ہو اور ان سے فائدہ نہ ہوا ہو، یا کسی وجہ سے انسان ان دونوں دوائیوں کو نہ لے سکتا ہو۔ اگر کوئی شخص یہ دوا لے رہا ہو اور الکحل پی لے تو اس سے ایک شدید قسم کا ری ایکشن ہو سکتا ہے جس کے ڈر سے لوگ الکحل پینا چھوڑ دیتے ہیں۔
کیا الکحل پینا اچانک چھوڑنا خطرناک ہوتا ہے؟
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ الکحل کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی کیفیت خراب ہو رہی ہے تو وہ جلدی سے اسے پینا چھوڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ طویل عرصے سے الکحل پی رہے ہوں اور خصوصاً بہت زیادہ مقدار میں پی رہے ہوں، تو ان کو الکحل اچانک چھوڑنے سے مندرجہ ذیل خطرات ہو سکتے ہیں:
- الکحل ودڈرال، یعنی جن لوگوں کا جسم الکحل کا عادی بن چکا ہو ان میں الکحل اچانک چھوڑنے کی علامات
- مرگی کے دورے پڑنا۔ یہ عام طور سے الکحل بند کرنے کے بعد پہلے اڑتالیس گھنٹے کے اندر ہوتے ہیں
- ڈیلیریئم ٹریمینس (جس کی تفصیل پہلے آ چکی ہے) شروع ہو جانا
ان سب خطرات کی وجہ سے ضروری ہے کہ جو شخص الکحل کا عادی ہو چکا ہو، اسے الکحل بند بھی کرنی ہو تو اسے اس کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہیے۔
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, Google sites, and YouTube)
آج کل کی صورتحال تو مجھے نہیں معلوم، لیکن جب تک میں پاکستان میں کام کرتا تھا اس وقت تک تقریباً ساری ہی دوائیں آپ بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے خرید سکتے تھے۔ اس وقت بیشتر مریض جن کو ہم خصوصاً اینٹی ڈپریسنٹ دوا شروع کرتے تھے وہ یہ سوال ضرور پوچھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بیشتر دفعہ اس سوال کا میں یہ جواب دیتا تھا کہ یہ اینٹی ڈپریسنٹ یا انٹی سائیکوٹک دوا جو میں آپ کو پریسکرائب کر رہا ہوں آپ اس کے عادی تو نہیں بنیں گے، لیکن یہ برومازیپام یا الپرازولام جو آپ پچھلے دو یا تین سال سے لے رہے ہیں اس کے ضرور عادی بن چکے ہوں گے۔ جب سے میں نے اس پیج پہ لکھنا شروع کیا ہے اتنے لوگوں سے مجھ سے نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں استعمال کی جانے والی دوائیوں سے عادت پڑنے کے بارے میں پوچھا ہے کہ خیال ہوا کہ اس کی تھوڑی تفصیل بیان کر دوں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کلینیکل اصطلاح میں عادت پڑنا کسے کہا جاتا ہے۔ عادت پڑنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ اسے بند کرنے سے پرانی علامات واپس آ جائیں، کیونکہ ایسا تو بڑھے ہوئے بلڈ پریشر یا بلڈ شوگر کا علاج کرنے والی دوائیوں سے بھی ہوتا ہے۔ طبی اصطلاح میں عادت پڑنا جسے ڈیپینڈنس (dependence) کہتے ہیں اس کی کچھ علامات یہ ہیں؛
۱۔ دوا استعمال کرنے سے مزا یا لذّت آنا مثال کے طور پہ جیسے الکحل، چرس، افیم یا کوکین استعمال کرنے سے آتا ہے۔ سائیکائٹری میں استعمال ہونے والی بعض دوائیوں سے بھی ایسی ہی لذّت آتی ہے یا سرور ملتا ہے مثلاً بینزو ڈایازپینیز سے۔
۲۔ ٹالرنس (Tolerance): اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوا کو کچھ عرصے کے لیے روزانہ استعمال کے بعد اس کا جو ابتدائی ڈوز تھا اس کا اثر کم یا ختم ہو جائے، اور وہی اثر حاصل کرنے کے لیے زیادہ ڈوز کی ضرورت پڑے۔ پھر کچھ عرصے بعد نیا ڈوز بھی کام کرنا بند کر دے، اور ڈوز پھر سے بڑھانے کی ضرورت پڑے۔ اس طرح سے ڈوز بڑھاتے رہنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں نے گھبراہٹ کم کرنے والی یا نیند لانے والی دوائیں طویل عرصہ استعمال کی ہیں وہ اس بات کا ذاتی تجربہ کر چکے ہوں گے، گو بعض مریضوں میں ایسا نہیں ہوتا۔
۳۔ دوا بند کرنے کی یا ودڈرال علامات (withdrawal symptoms): بعض اشیاٴ کے ساتھ یہ علامات زیادہ تر صرف نفسیاتی ہوتی ہیں مثلاً گھبراہٹ محسوس ہونا، موڈ چڑچڑا یا اداس محسوس ہونا، توجہ دینے میں مشکل ہونا، جیسے کافی عرصے چرس استعمال کرنے کے بعد اسے اچانک کم یا بند کرنے سے جو علامات ہوتی ہیں وہ عام طور سے نفسیاتی ہوتی ہیں، ان سے جسمانی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعض اشیاٴ یا دوائیوں کو اچانک کم یا بند کرنے سے جسمانی علامات ہوتی ہیں مثلاً دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، بلڈ پریشر زیادہ یا کم ہو جانا، پسینہ آنا، اور بعض اشیاٴ جیسے الکحل اور دوائیوں مثلاً بینزوڈایازپینز کے اچانک بند کرنے سے زیادہ خطرناک مضر اثرات ہوسکتے ہیں مثلاً مرگی کے دورے یا ہذیان کی کیفیت، اور اس کی وجہ سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
۴۔ دوا یا نشہ آور شے کی شدید طلب ہونا جسے کریونگ (craving) کہتے ہیں۔
سائیکائٹری میں آج کل استعمال ہونے والی دوائیوں میں جن دوائیوں سے عادت پڑنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے وہ گھبراہٹ کم کرنے والی اور نیند لانے والی دوائیاں ہیں۔ ان کے مختلف گروپس شامل ہیں جن میں سب سے نمایاں گروپ بینزوڈایازیپینز (Benzodiazepines) کا ہے۔ اس گروپ میں الپرازولام، کلونازیپام، برومازیپام، ڈایازیپام، لورازیپام، کلورڈایازیپوکسائڈ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ان کے جنرک نام ہیں۔ بازار میں یہ بے شمار مختلف مارکیٹ ناموں سے دستیاب ہیں اس لیے جب بھی کوئی ڈاکٹر آپ کو کوئی نئی دوا لکھیں، ان سے پوچھ لینا چاہیے کہ اس کا جنرک نام کیا ہے۔
دوسرا اہم گروپ جس کی دوائیاں آ ج کل بہت استعمال ہو رہی ہیں اور جن کی عادت پڑ سکتی ہے ان کو عرفِ عام میں زی ڈرگس کہا جاتا ہے کیونکہ ان سب کے نام زیڈ سے شروع ہوتے ہیں، مثلاً زوپی کلون، زولپیڈیم، زولیپلون وغیرہ۔ یہ دوائیں نیند بہتر کر نے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی بھی شخص بینزوڈایازئپینز یا زی ڈرگس تین یا چار ہفتے سے زیادہ کے لیے روزانہ استعمال کرے گا تو اسے جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی عادت پڑنے کا ڈر ہوتا ہے۔
دوائیوں کا تیسرا اہم نسبتاً نیا گروپ جسکی دوائیوں سے جسمانی اور ذہنی عادت پڑنے کا ڈر ہوتا ہے وہ گاباپینٹی نوائڈز (Gabapentinoids) ہیں جس میں گاباپینٹین (Gabapentin) اور پری گابالن (Pregabalin) شامل ہیں۔ ان میں سے پریگابالن اب اینگزائٹی کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ پریگیبیلین استعمال کرنے سے اس کا عادی ہو جانے، اور پھر اس کو ضرورت سے زیادہ مقدار میں استعمال کرنےکے خطرات ہوتے ہیں۔ اس سے جسمانی عادت (physical dependence) بھی ہو سکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مریض اس کو استعمال کرنا اچانک بند کر دے تو اس سے بند کرنے کی ذہنی اور جسمانی علامات (withdrawal symptoms) بھی ہو سکتی ہیں۔ اس لئے پریگیبیلن کو کبھی بھی ڈاکٹر کے بتائے ہوئے ڈوز یا مدت سے زیادہ کے لئے نہ لیں، اور ڈاکٹر کے مشورے کے خلاف یا بغیر اچانک بند نہ کریں۔
سائیکائٹری میں استعمال ہونے والی دوائیوں کا ایک اور گروپ ہے جسے اینٹی کولینرجک (anticholinergic) دوائیاں کہتے ہیں جس میں پروسائیکلیڈین اور بینز ٹروپین شامل ہیں۔ سائیکائٹری میں ان دوائیوں کو اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے مضر اثرات یعنی سائیڈ ایفیکٹس کو ہونے سے روکنے یا دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دوائیوں کو لینے سے نفسیاتی طور پہ ایک ہائی (high) یعنی لذت کی سی کیفیت آ سکتی ہے، اس لیے ان کی عادت پڑ سکتی ہے۔ ویسے بھی یہ دوائیں ابتدائی ٹارڈو ڈس کائنیزیا (Tardive Dyskinesia) کو چھپا دیتی ہیں، جو اینٹی سائیکوٹکس کو طویل عرصے تک استعمال کرنے کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے جس میں زبان میں، چہرے میں یا ہاتھوں پیروں میں غیر ارادی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں اگر اس سائیڈ ایفیکٹ کو پہچان لیا جائے اور جس دوا سے یہ ہو رہا ہو اسے بند کر دیا جائے تو یہ ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اینٹی کولینرجک کی وجہ سے ابتدا میں چھپا رہے اور بعد میں پتہ چلے تو کئی دفعہ ختم نہیں ہوتا اور عمر بھر رہتا ہے۔ اس لیے اینٹی کولینرجک دوائیوں کو سائیکائٹری میں طویل عرصے تک استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
پچھلے کچھ سالوں میں اس بات کا ادراک بڑھا ہے کہ بہت ساری اینٹی ڈپریسنٹس ایسی ہیں کہ گو ان سے اس طرح سے جسمانی اور ذہنی عادت تو نہیں پڑتی جیسے کی بینزوڈایازیپینیز اور زی ڈرگس سے پڑتی ہے مثلاً ان سے کریونگ (craving) یعنی ان کو بار بار استعمال کرنے کی شدید طلب نہیں ہوتی، ٹالرنس (tolerance) نہیں ہوتی یعنی وقت کے ساتھ ساتھ ان کا اثر کم نہیں ہوتا جاتا، لیکن کچھ مریضوں کو انہیں بند کرنے سے تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں جنہیں ڈس کنٹی نوئیشن علامات (discontinuation symptoms) کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ دماغ اور جسم میں یہ جن جگہوں پہ لگ کے کام کرتی ہیں جنہیں ریسپیٹرز (receptors) کہتے ہیں، ان ریسیپٹرز میں ان دوائیوں کے طویل عرصے تک لگے رہنے سے کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں، اور جب ان ریسیپٹرز کو یہ دوا ملنا اچانک بند ہو جاتی ہے تو ان میں ریباؤنڈ (rebound) یعنی الٹا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ عام طور سے یہ ڈس کنٹی نوئیشن اثرات ہلکے درجے کے ہوتے ہیں اور کچھ ہفتوں میں خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ مریضوں میں یہ بہت شدید ہوتے ہیں، طویل عرصہ چلتے ہیں، اور ان کے باقاعدہ علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ان کے علاوہ جو دوائیں ہیں مثلاً اینٹی سائیکوٹکس جیسے کہ اولینزاپین یا رسپیریڈون اور ایری پپرازول، یا موڈ کو ہموار رکھنے والی دوائیں ہیں جن کو موڈ اسٹیبیلائزر کہتے ہیں جیسے کہ لیتھیم یا سوڈیم ویلپروئیٹ، ان سے عادت نہیں پڑتی۔
مزید معلومات کے لیے اس پلے لسٹ پہ یہ وڈیوز دیکھ لیں۔