بعض لوگوں کو ہر وقت تھکن سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ چاہیں آرام بھی کر لیں، سو بھی لیں، لیکن اس کے باوجود ان کا جسم اور ذہن تھکتے ہوئے ہی رہتے ہیں اور تازہ دم نہیں ہوتے۔ ان کو ایسا لگتا ہے کہ بدن میں طاقت و توانائی ہی نہیں ہے۔
جن لوگوں کو ہر وقت ہی تھکن رہتی ہے اس کی عام وجوہات ہیں ذہنی دباؤ کا شکا رہنا، نیند پوری نہ ہونا، متناسب غذا نہ کھانا، اور زندگی گزارنے کے معمول میں بے اعتدالیاں ہونا۔
بعض لوگوں کو بہت شدید درجے کی تھکن رہتی ہے اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے جسم اور ذہن میں بالکل طاقت ہی نہیں ہے۔ یہ تھکن آرام اور نیند سے بھی دور یا کم نہیں ہوتی۔ معمولی سا ذہنی کام یا جسمانی حرکات کر کے انسان اتنی شدید تھکن کا شکار ہو جاتا ہے کہ گھنٹوں یا دنوں کے لیے بالکل بستر پہ پڑ جاتا ہے۔ اس بے انتہا شدید تھکن کو فٹیگ (fatigue) کہتے ہیں۔ اتنی شدید تھکن جسمانی بیماریوں کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ ایک دفعہ اپنے ڈاکٹر کو دکھا لیں۔
طویل عرصے کی تھکن کو کم کرنے اور اپنے جسم و ذہن کی طاقت و توانائی کو بڑھانے کے کچھ طریقے یہ ہیں:
۱۔ متناسب غذا کھائیں
پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ انسان دن میں صرف تین دفعہ پیٹ بھر کے کھانا کھائے، اور درمیان میں کچھ نہ کھائے۔ اب کہا جاتا ہے کہاپنے جسم و دماغ کی توانائی برقرار رکھنے کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ انسان بہت زیادہ مقدار میں کھانا ایک ساتھ نہ کھائے، بلکہ باقاعدگی سے جس وقت اسے زیادہ بھوک لگتی ہو، مثلاً ناشتہ، ہلکا پھلکا لنچ اور رات کا کھانا مناسب مقدار میں کھائے، اور درمیان میں ہر تین سے چار گھنٹے پہ کوئی صحتمند اسنیک یعنی ہلکی پھلکی غذا کھائے۔ صحتمند اسنیک سے مراد یہ ہے کہ کوئی پھل وغیرہ کھائے ، لیکن کوئی ایسا چیز نہ کھائے جس میں بہت زیادہ چکنائی یا شکر ہو۔
دن میں دو تین دفعہ بہت زیادہ کھانے کے بجائے ہر تھوڑی دیر پہ تھوڑا تھوڑا کھانے کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب بہت دیر تک بھوکا رہتا ہے تو اس کے خون میں گلوکوز یعنی شکر کم ہونے لگتا ہے، اس لیے اس کی توجہ گرنے لگتی ہے اور وہ تھکا تھکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس جب وہ تھوڑا تھوڑا کھاتا رہتا ہے تو اس کے خون میں گلوکوز کی مقدار ایک سطح پہ رہتی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جب انسان بہت زیادہ بھوکا ہونے کے بعد کھانا کھائے تو عموماً وہ بہت زیادہ مقدار میں کھانا کھاتا ہے۔ اس سے وزن بڑھنے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔
۲۔ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔
ہمارے پاس بہت سے مریض آتے ہیں جو آ کر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے ہر وقت بہت کمزوری رہتی ہے۔ اگر ان کا بنیادی جسمانی چیک اپ نارمل ہو، مثلاً ہیموگلوبن کی کمی یا تھائی روائڈ کی بیماری نہ ہو، تو ہم انہیں یہ کہتے ہیں کہ طویل عرصے کی کمزوری کا بہترین اور سب سے آزمودہ علاج باقاعدگی سے ورزش کرنا ہے۔ ان کا پہلا ردِّ عمل یہ ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ کیسی بات کر رہے ہیں؟ ہم سے تو روز مرہ کے ضروری کام بھی نہیں ہوتے، اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روز ورزش کیا کرو۔ ہم انہیں یہ سمجھاتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کل سے جم جانا شروع کر دیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ورزش کو بہت معمولی سطح سے شروع کریں اور پھر بہت بہت آہستہ بڑھائیں کیونکہ طویل عرصے کی کمزوری کا اور اپنی ذہنی اور جسمانی توانائی بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوا۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ صرف پندرہ منٹ کی واک بھی کریں اس سے ان کی جسمانی اور ذہنی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ جتنی زیادہ دفعہ ورزش کریں گے اتنا ہی ان کی توانائی اور بڑھتی جائے گی۔
جو لوگ بالکل بھی ورزش نہ کرتے ہوں ان کو ہم یہ کہتے ہیں کہ پہلا ٹارگیٹ یہ رکھیں کہ ہفتے میں صرف دو یا تین دن، دس سے پندرہ منٹ روزانہ کے لیے چلنا ہے۔ جب ایسا کرتے ہوئے کم از کم ڈیڑھ دو مہینے گزر جائیں، اور ایک بھی ہفتہ ایسا نہ گزرے کہ ٹارگیٹ پورا نہ ہوا ہو تو اب اس کو ذرا سا بڑھا کے یا تو ہفتے میں ایک دن بڑھا دیں، یا دن اتنے ہی رکھیں لیکن پانچ منٹ بڑھا دیں۔ حتمی ٹارگیٹ یہ ہونا چاہیے کہ بہت آہستہ آہستہ بڑھاتے بڑھاتے چاہے اس میں کئی مہینے لگیں، ہفتے میں کم از کم ڈیڑھ سو منٹ (ڈھائی گھنٹے) درمیانی شدت کی ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔ شدت کا پتہ تو دل دھڑکنے کی رفتار سے چلتا ہے جو اسمارٹ گھڑی سے بھی پتہ چل سکتا ہے اور اسمارٹ فون سے بھی۔ لیکن جن لوگوں کے پاس یہ دونوں نہ ہوں وہ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں مثال کے طور پہ چلنے کی رفتار اتنی ہو کہ پسینہ آئے اور تھوڑا سا سانس پھولے۔ اب اس ڈیڑھ سو منٹ فی ہفتہ درمیانی درجے کی شدت کی ورزش کو ساری عمر جاری رکھیں جب تک زندگی اور صحت اجازت دے۔
۳۔ بدن کی توانائی بڑھانے کے لیے اپنا وزن کم کریں
یہ جاننے کے لیے کہ انسان کا وزن صحتمندانہ حد کے اندر ہے یا زیادہ ہے، ایک آسان طریقہ باڈی ماس انڈیکس (Body Mass Index) معلوم کرنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنا وزن کلوگرام میں معلوم کریں۔ پھر اپنا قد میٹر (meters) میں ناپیں۔ باڈی ماس انڈیکس کا فارمولا یہ ہے۔
Weight in kilograms divided by height in meter squared
مثلاً ایک شخص کا وزن ستر کلو گرام ہے اور اس کا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا قد میٹرز میں ایک اعشاریہ سات دو میٹر ہے جس کا اسکوائر دو اعشاریہ نو سات میٹرز ہوا۔ اس لیے اس کا باڈی ماس انڈیکس ۲۳ اعشاریہ ۵۷ ہوا۔
ریسرچ کہتی ہے کہ باڈی ماس انڈیکس کی صحت مندانہ رینج ۲۰ سے ۲۵ تک ہے، یعنی اگر باڈی ماس انڈیکس بیس سے کم ہو یا پچیس سے زیادہ ہو تو بیماری کا خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔ بعض ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ ایشیائی ممالک کے لوگوں میں باڈی ماس انڈیکس کی صحت مندانہ اوپری حد تئیس ہے، یعنی اس سے زیادہ وزن ہونے سے بیماریوں کا خطرہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے ہماری غذاؤں میں چکنائی اور شکر کا استعمال عموماً زیادہ ہوتا ہے، اور ہمارے لوگوں میں باقاعدگی سے ورزش کرنے کا رجحان عموماً کم ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جی وزن کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فلاں کو ہم نے دیکھا تھا کہ ا سکا وزن اتنا کم تھا اور وہ اتنی ورزش بھی کرتا تھا، پھر بھی اس کو دل کا دورہ پڑ گیا، اور فلاں تو اتنا موٹا ہے سب کچھ کھاتا ہے اور پھر بھی اتنی عمر تک زندہ ہے۔ اس اعتراض کی وجہ یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ خطرات پاپولیشن یعنی پوری قوم کے حساب سے ہوتے ہیں، کسی ایک فرد کے حساب سے نہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھنا زیادہ آسان ہو گا وہ یہ کہ فرض کریں سو لوگوں کا باڈی ماس انڈیکس تیس ہے، اور سو اور لوگوں کا باڈی ماس انڈیکس اکیس ہے، تو اگر پہلے سو لوگوں میں سے ستر کو دل کا دورہ پچاس سال کی عمر میں ہونے کا خطرہ ہو گا، تو اکیس باڈی ماس انڈیکس والے سو لوگوں میں صرف پندرہ لوگوں کو اسی عمر میں دل کا دورہ ہونے کا امکان ہو گا۔
ریسرچ کہتی ہے کہ جو لوگ اپنا وزن دس فیصد تک بھی کم کر لیتے ہیں ان کو اپنی ذہنی اور جسمانی توانائی میں واضح اضافہ محسوس ہوتا ہے، ان کے لیے مزید ورزش کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے، اور مزید وزن کم کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
صحت مند، یعنی زیادہ شکر اور چکنائی سے محفوظ، غذا کھانے کے علاوہ وزن کم کرنے، اور کم کیے ہوئے وزن کو دوبارہ بڑھنے سے روکنے، کا بہترین طریقہ جسمانی طور پہ زیادہ متحرک ہو جانا اور باقاعدگی سے ورزش کرناہے۔
۴۔ اپنی نیند کا بہت خیال رکھیں
بہت سارے لوگ روزانہ اتنی دیر نہیں سوتے جتنا سونا ان کے لیے دن میں چاق و چوبند رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اچھی نیند سونے کی بہت ساری تفصیل آپ کو میری اس ویب سائٹ پہ مل جائے گی۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/نیند-sleep
مختصراً یہ کہ ان عادتوں کو اپنانے سے انسان کی نیند بہتر ہوتی ہے:
ا۔ ہفتے میں ساتوں دن رات میں ایک ہی مخصوص وقت پہ بستر میں جانا، اور صبح ایک ہی وقت پہ بستر سے نکلنا
ب۔ دن میں سونے سے گریز کرنا۔ (یہ ہدایت ٹھنڈے ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے زیادہ اہم ہے۔ گرم ملکوں میں رہنے میں رہنے والے بہت سے لوگ دن میں ایک آدھ گھنٹے کے لیے سوتے ہیں اور اس سے ان کی رات کی نیند پہ برا اثر نہیں پڑتا)
بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان کو کسی رات کسی وجہ سے صحیح نیند آئے تو چونکہ اسے اگلے دن تھکن ہوتی ہے اس لیے وہ سوچتا ہے کہ اگلے دن دوپہر میں تھوڑی دیر کے لیے سو لوں تا کہ تھکن دور ہو جائے۔ لیکن اس سے ہوتا ہے کہ اگلی رات کی نیند بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کو روزانہ دن میں سونے کی عادت نہ ہو تو ایک آدھ رات نیند خراب ہونے کی وجہ سے دن میں نہ سوئیں، بلکہ اگلی رات کا انتظار کریں۔ اس سے آپ کی نیند کا معمول واپس نارمل ہونے میں مدد ملے گی۔
پ۔ رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ کو پر سکون کرنے کے لیے کچھ مخصوص عادات اپنائیں جن سے آپ کے ذہن کو سوئچ آف ہونے میں مدد ملے مثلاً بتیاں بند کر دینا، دانت صاف کرنا، سونے کے کپڑے پہننا، کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھنا، وغیرہ۔ یہ عادات ہر ایک کے لیے الگ ہوتی ہیں۔
۵۔ اپنی توانائی بہتر کرنے کے لیے اپنا ذہنی دباؤ (اسٹریس) کم کریں
جب انسان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں کئی ایسے ہارمون اور کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں جو تھوڑے وقت کے لیے تو اسے کسی بڑی مشکل کا سامنا کرنے میں مدد دیتے ہیں، لیکن اگر یہ ہارمون طویل عرصے کے لیے خارج ہوتے رہیں تو ان کی وجہ سے انسان شدید تھکن کا شکار ہونے لگتا ہے اور اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے ذہن اور بدن میں طاقت اور توانائی ہی نہیں ہے۔اس کی بھی بہت تفصیل پہلے آ چکی ہے اور اس ویب پیج پہ یہ مکمل تحریر "ہم سب اپنے ذہنی دباؤ کو خود کیسے کم کر سکتے ہیں"موجود ہے۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/اپنی-مدد-آپ-self-help#h.u3sti1ok3yi0
مختصراً یہ کہ اس کی عادت ڈالیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ ایسے مشاغل اختیار کریں جن سے آپ پر سکون ہوتے ہیں، مثلاً ورزش کرنا، یوگا کرنا، ایسی کتابیں پڑھنا جن کو پڑھنے میں آپ کو مزا آتا ہو، اچھے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، وغیرہ۔
بہت سی ایسی مشقیں ہیں مثلاً اپنے عضلات کو پرسکون کرنے کی مشقیں، سانس کی مشقیں، جن سے انسان اپنے آپ کو پر سکون کر سکتا ہے، اور ان کو سیکھنا کافی آسان ہوتا ہے۔ ان کی تفصیل بھی اسی صفحے پہ پہلے آ چکی ہے۔
کوئی بھی ایسا کام جس کے کرنے سے انسان کو سکون ملتا ہو، اس سے انسان کی توانائی بہتر ہوتی ہے۔
۶۔ باتوں کا علاج یا سائیکوتھراپی
ریسرچ سے اس بات کا کچھ ثبوت ملتا ہے کہ سائیکوتھراپی مثلاً کاؤنسلنگ یا کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی) سے طویل عرصے کی تھکن (fatigue)، اور اداسی، گھبراہٹ اور ذہنی دباؤ سے ہونے والی تھکن میں کمی ہوتی ہے۔
۷۔ کیفین (caffeine) کا استعمال کم کریں
کیفین ایک اسٹیمیولنٹ (stimulant) ہے جس کے کبھی کبھی کے استعمال سے انسان کی توجہ بہتر ہوتی ہے، اس کو لگتا ہے کہ اس کا دماغ زیادہ بھرپور طریقے سے جاگ رہا ہے، اور اس کو اپنی ذہنی توانائی بہتر محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے انسان کا سونے جاگنے کا معمول خراب ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اس رات کی نیند خراب ہو سکتی ہے اور اگلے دن تھکن زیادہ ہو سکتی ہے۔
کیفین عام طور سے ان مشروبات اور دوائیوں میں موجود ہوتی ہے:
کافی
چائے (بشمول سبز چائے)
کوکا کولا، پیپسی اور اس طرح کے دوسرے مشروبات
انرجی ڈرنکس مثلاً ریڈ بل، وی، وغیرہ
بعض درد کی دوائیاں اور جڑی بوٹیوں سے تیار کی جانے والی ادویات
ایک دفعہ استعمال کے بعد کیفین کے جسم اور دماغ پہ اثرات سات گھنٹے تک باقی رہ سکتے ہیں اس لیے جن لوگوں کو نیند کا مسئلہ رہتا ہو انہیں دوپہر کے بعد سے کوئی ایسا مشروب جس میں کیفین ہو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
۸۔ پانی زیادہ پیئیں
جو لوگ پانی کم پیتے ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں جسم میں پانی کی کمی (dehydration) ہو جاتی ہے، انہیں اس کی وجہ سے بھی تھکن ہو سکتی ہے۔ خاص طور سے ورزش کرنے کے تھوڑی دیر بعد پانی ضرور پیئیں۔ اس سے آپ کی تھکن کم ہو گی۔
ہم مناسب مقدار میں روزانہ پانی پی رہے ہیں کہ نہیں، اس کو جانچنے کا ایک آسان طریقہ پیشاب کے رنگ کو دیکھنا ہے۔ جو لوگ کافی مقدار میں پانی پی رہے ہوتے ہیں ان کا ہلکے پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ اگر انسان کا پیشاب روزانہ ہی بہت گہرے بھورے رنگ کا ہو اور دن میں صرف ایک دو دفعہ ہو تو عام طور سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے حساب سے کم پانی پی رہا ہے۔
عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کو روزانہ چھ سے آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے، جو کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو لیٹر روزانہ بنتا ہے۔
بعض حالات میں اور بھی زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً:
جو خواتین حاملہ ہوں یا اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوں
گرم موسم میں
بہت زیادہ ورزش کرنے یا چلنے کے بعد
بیماری کے دوران یا اس کے فوراً بعد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مشق میں آپ سے یہ کہا جائے گا کہ آپ اپنے جسم کے مختلف حصّوں میں پیدا ہونے والےجسمانی احساسات اور حسیات (sensations) پہ توجہ دیں۔
بعض لوگ جو اپنے بدن میں پیدا ہونے حسیات پہ بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کو شدید گھبراہٹ ہوتی ہے، مثلاً یہ کہ میرا دل کیوں تیزی سے دھڑک رہا ہے، میری سانس کیوں تیز چل رہی ہے، ان کے لیے مشقیں شاید فائدہ مند نہ ہوں۔
اپنی گھبراہٹ پہ قابو پانے، اور روزانہ دن میں کچھ وقت کے لیے اپنی روز مرہ کی پریشانیوں سے توجہ ہٹا کے پر سکون محسوس کرنے والی مشقیں ہم سب کے لیے ہ فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
آپ سب نے یہ تجربہ اور محسوس کیا ہو گا کہ جب ہم کام سے چھٹی لیتے ہیں اور کچھ دن کے لیے کہیں چھٹیوں پہ چلے جاتے ہیں تو ہماری گھبراہٹ اور روز مرہ کی پریشانی خود بخود کم ہو جاتی ہے، اور ہم وقتی طور پہ ہی سہی پر سکون محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم روزانہ تھوڑی دیر کے لیے چھٹی پہ چلے جائیں، اور ویسا ہی محسوس کریں جیسا ہم چھٹیوں پہ محسوس کرتے ہیں۔
یہ مشقیں آپ اپنے گھر کے پر سکون ماحول میں بھی کر سکتے ہیں، گاڑی (اگر آپ گاڑی نہ چلا رہے ہوں) بس یا ٹرین میں سفر کرتے ہوئے بھی، اور اپنے دفتر میں تھوڑا سا ذاتی وقت نکال کے بھی۔
اس مشق کا بنیادی مقصد اپنے روز مرہ کے مسائل اور پریشانیوں سے تھوڑی دیر کے لیے توجہ ہٹانا ہے، اور اپنے بدن کو پر سکون کرنا ہے۔
اس مشق میں ایک وقت میں عام طور سے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگتے، گو کہ جب آپ کو اس سے فائدہ ہونے لگے تو دن میں مختلف اوقات میں آپ یہ مشقیں کئی دفعہ کر سکتے ہیں۔
شروع میں ان مشقوں کو صحیح طرح سیکھنے کے لیے انہیں گھر کے پر سکون ماحول میں اور ایسے وقت میں کرنا بہتر ہوتا ہے جب آپ فارغ ہوں اور کوئی دوسرا آپ کی فراغت میں مخل ہونے والا نہ ہو۔ لیکن اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ پریکٹس کے ساتھ ساتھ اس کو اتنا آسانی سے کر سکیں کہ جب کبھی آپ پریشان ہوں یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو چند منٹوں میں بھی اپنے آپ کو "سکون، اطمینان" کے الفاظ استعمال کر کے، جس جگہ بھی آپ ہوں مثلاً اپنے کاروبار پہ یا دفتر میں، اپنے جسم اور ذہن کو پر سکون کر سکیں۔
ان مشقوں کو ایسے انجام دیا جاتا ہے؛
کسی آرام دہ کرسی یا صوفے پہ بیٹھ جائیں، بستر پہ لیٹ جائیں۔
اپنے بدن کو اور اپنے عضلات کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں۔
اپنی نظر کے سامنے موجود کسی ایک نقطے پہ توجہ مرکوز کر لیں، لیکن اگر آپ آنکھیں بند کر لیں تو زیادہ گہرے سکون والی کیفیت میں جانے میں مدد ملے گی۔
سب سے پہلے اپنے ہاتھوں کے بارے میں سوچیں۔ اس بات کو تصور میں لائیں کہ آپ کے ہاتھ کس پوزیشن میں رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کے ہاتھ کس چیز کو چھو رہے ہیں، اور اس چیز کے لمس سے کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں کو محسوس کریں کہ ان سے دماغ کو کیس سگنل آ رہا ہے مثلاً وہ گرم ہیں یا سرد ہیں۔ اپنے ہاتھوں کی جلد کو محسوس کریں کہ وہ گرم ہیں یا سرد ہیں۔ اس بات کو ذہن میں لائیں کہ کیا آپ کے ہاتھوں سے آپ کے دماغ کو کسی اور طرح کی حسیات آ رہی ہیں۔
اب اپنے بازوؤں کو محسوس کریں۔ آپ کے بازو کس پوزیشن میں ہیں، وہ آرام دہ پوزیشن میں ہیں یا نہیں ہیں۔ آپ کے کندھے کس پوزیشن میں ہیں۔ یہ محسوس کریں کہ آپ کے بازوؤں، کندھوں یا گردن کے عضلات میں کوئی ٹینشن یا کھچاؤ تو نہیں ہے۔ پھر اپنے ذہن میں یہ لائیں کہ آپ کے بازوؤں، کندھوں اور گردن کے عضلات سے ٹینشن آہستہ آہستہ نکل رہی ہے، اور وہ پر سکون ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ محسوس کریں کہ آپ کے بازوؤں اور کندھوں کے عضلات اب ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں، پر سکون محسوس ہو رہے ہیں۔
محسوس کریں کہ آپ کا پورا بدن آہستہ آہستہ ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے، پر سکون ہو رہا ہے، ریلیکس ہو رہا ہے۔ اس احساس کو روکیں مت۔ اس احساس کو اپنے پورے بدن پہ حاوی ہو نے دیں۔
اب اپنی توجہ اپنے پیروں اور ٹانگوں کی طرف مرکوز کریں۔ اس پہ توجہ دیں کہ آپ کے پیروں سے آپ کے دماغ کی طرف کیا حسیات اور کیا سگنل آ رہے ہیں۔ آپ کے پیر کس پوزیشن میں رکھے ہوئے ہیں؟ وہ پوزیشن آرام دہ ہے کہ نہیں؟ آپ کے پیر ٹھنڈے ہیں یا گرم ہیں؟
پھر اپنی ٹانگوں کی پوزیشن کی طرف توجہ دیں۔ ان کی پوزیشن آرام دہ ہے کہ نہیں؟ ٹانگوں کا پچھلا حصّہ جو زمین، کرسی یا بستر پہ رکھا ہوا ہے، اس پہ کوئی دباؤ کی کیفیت محسوس ہو رہی ہے کہ نہیں؟
محسوس کریں کہ آپ کے پیروں اور آپ کی ٹانگوں کے عضلات میں کھچاؤ، دباؤ یا ٹینشن ہے کہ نہیں۔ اب ایسا تصور کریں کہ وہ کھچاؤ آہستہ آہستہ دور ہوتا جا رہا ہے، آپ کے پیر اور آپ کی ٹانگیں پرسکون ہو تے جا رہے ہیں، ڈھیلے پڑ رہے ہیں، ان سے ٹینشن کی کیفیت رخصت ہو رہی ہے۔
اب اپنے سینے اورپیٹ کے عضلات اور پٹھوں کی طرف توجہ دیں۔ یہ محسوس کریں کہ ان عضلات میں کوئی کھچاؤ یا ٹینشن تو نہیں ہے۔ اب یہ محسوس کریں کہ ان سے وہ ٹینشن آہستہ آہستہ نکلتی جا رہی ہے۔ آپ کے پیٹ اور سینے کے عضلات پر سکون ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کا پورا بدن آہستہ آہستہ پرسکون اور ریلیکس ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں سے تمام ٹینشن نکل رہی ہے۔ ایک دو منٹ تک یہ تصور کرتے رہیں۔
اب اپنے چہرے کے، اور اپنی آنکھوں کے ارد گرد موجود عضلات کی طرف توجہ دیں۔ بہت سی دفعہ ہم ٹینشن میں اینگزائٹی میں ہوتے ہیں تو ہمارے چہرے کے عضلات سخت ہو جاتے ہیں، اکڑ جاتے ہیں، ہمارے چہرے پہ ایک تناؤ کی سی کی کیفیت آ جاتی ہے۔ اب یہ محسوس کریں کہ آپ اپنے چہرے کے عضلات کے تناؤ کو خود ختم کرہے ہیں، ان کو ریلیکس کر رہے ہیں، وہ ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں، پر سکون ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کا چہرہ پر سکون ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کی پیشانی کے عضلات پر سکون ہو تے جا رہے ہیں۔ آپ کے چہرے پہ جو تناؤ تھا وہ اب ختم ہو رہا ہے۔
اب اپنے جبڑے کے عضلات کی طرف توجہ دیں۔ جب ہم شدید ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے جبڑے کے عضلات اکثر سخت ہو جاتے ہیں۔ ہم بغیر جانے ہوئے بھی اپنے دانتوں کو پیسنے لگتے ہیں۔ اب یہ تصور کریں کہ آپ اپنے جبڑے کے عضلات کو ریلیکس کر رہے ہیں۔ ان میں سے ٹینشن نکلتی جا رہی ہے۔ آپ کا جبڑا ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے۔
یہ تصور کریں کہ آپ کے عضلات (muscles) آ پ کے قابو میں ہیں، آپ کے کنٹرول میں ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے ان کو ریلیکس کر سکتے ہیں، ان کو پرسکون کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے بدن کے کھچاؤ کو، تناؤ کو، اس کی ٹینشن کو خود کنٹرول کر سکتے ہیں، اس کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس کنٹرول کی کیفیت کو انجوائے کریں۔ اپنے بدن کے تمام عضلات کو آہستہ آہستہ کر کے ریلیکس اور پر سکون کرتے جائیں۔ بدن کے ایک سرے سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ دوسرے سرے تک جائیں، چاہے سر سے شروع کر کے پیروں تک جائیں، یا پیروں سے شروع کر کے سر تک جائیں۔ اس مشق کو آہستہ آہستہ کریں، جلدی نہ کریں۔
اب اپنے ذہن میں ایک منظر کا تصوّر لائیں۔ یہ سوچیں کہ آپ کس جگہ پہ، کس طرح کے ماحول میں سب سے زیادہ خوش، سب سے زیادہ مطمئن، سب سے زیادہ پر سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہ منظر ہر ایک کے لیے الگ ہو سکتا ہے، مثلاً کسی کو ہو سکتا ہے ساحلِ سمندر پہ بیٹھ کے یا لیٹ کے سندر کی لہروں کی آوازیں سننے سے سکون ملتا ہوِ کسی کو باغ میں خوش نما پھولوں کے درمیان وقت گزارنے سے سکون ملتا ہو، کوئی کہیں چھٹیوں پہ گیا ہو، اس ماحول میں اسے بہت زیادہ سکون ملا ہو۔ اب اس منظر کو جس میں آپ کو سب سے زیادہ سکون ملتا ہو، اپنے ذہن میں دوبارہ لائیں، اور یہ تصوّر کریں کہ آپ اس جگہ موجود ہیں۔ اب یہ تصوّر کریں کہ اس ماحول اس منظر میں آپ کو اور بہت زیادہ سکون مل رہا ہے، آپ اور زیادہ پرسکون ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اپنے ذہن اور اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ پر سکون کرنے کی کوشش کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ آپ کے اختیار میں ہے۔
اب آہستہ آہستہ اس مشق کو ختم کر دیں۔
جب آپ یہ مشق خود کرنا چاہیں تو اس کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔ اگر آپ جلدی میں ہیں تو اسے پانچ منٹ کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ فارغ ہیں تو آدھے گھنٹے کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔
اب غورکریں: آپ کو یہ مشق کرتے ہوئے کیسا محسوس ہوا؟ کیا آپ اپنے جسم کے مختلف حصوں کے عضلات کو ریلیکس اور پر سکون کرنے میں کامیاب ہوئے؟ کیا آپ اپنے ذہن کو پر سکون جگہ اور منظر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے؟
آپ جتنا اس مشق کو بار بار کرتے رہیں گے، اتنا ہی آپ اس جسم اور ذہن کو زیادہ پرسکون کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے، اور اتنا ہی آپ کا اس مشق اور اپنے آپ پہ اعتماد بڑھتا جائے گا۔ پہلے اس کو اکیلے اور گھر میں بار بار کرنے کی کوشش کریں۔ جب آپ کو اس پہ عبور حاصل ہو جائے تو ان جگہوں پہ بھی جہاں آپ کو ذہنی دباؤ ہوتا ہے مثلاً اپنے کام یا دفتر پہ بھی چند منٹ کے لیے اکیلے کمرے میں بیٹھ کے اس کو کرنے کی مشق کریں۔ اس سے آپ کا پورا دن نسبتاً زیادہ پر سکون گزرے گا۔
شروع میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایسا لگے آپ اپنے آپ کو پرسکون نہیں کر پا رہے۔ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ بیشتر لوگوں کو شروع میں ایسا ہی لگتا ہے۔لیکن جب آپ بار بار یہ مشق کرتے رہیں گے تو اس کے کرنے سے زیادہ سکون حاصل کرنے لگیں گے۔
آخری بات یہ کہ اپنے ذہن میں کوئی دو الفاظ طے کرلیں، مثلاً "سکون، اطمینان"۔ جب بھی آپ کو گھبراہٹ شروع ہو، اپنے ذہن میں یہ دو الفاظ لائیں اور اپنے جسم اور ذہن کو ریلیکس کرنا شروع کر دیں۔ اور ہر کام کی طرح بار بار مشق کرنے سے آپ کو اس عمل پہ زیادہ عبور حاصل ہوتا جائے گا۔
(breathing exercises)
انسان کو پرسکون کرنے والی سانس کی یہ مشقیں ذہنی دباؤ، گھبراہٹ اور پینک اٹیک (اچانک گھبراہٹ کے دورے) میں فائدہ پہنچاتی ہیں۔ سانس کی ان مشقوں کو کرنے میں صرف چند منٹ لگتے ہیں اور یہ کہیں بھی کی جا سکتی ہیں۔
ان مشقوں کو کرنے سے سب سے زیادہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان کو باقاعدگی سے کرنے کی عادت ڈال لے اور یہ اس کی روز مرہ کی عادات کا حصّہ بن جائیں۔
یہ مشقیں کھڑے ہو کے بھی کی جا سکتی ہیں، ایسی کرسی یا صوفے پہ بیٹھ کے بھی کی جا سکتی ہیں جس میں کمر کو ٹیک لگانے کا سہارا موجود ہو، اور بستر یا زمین پہ لیٹ کے بھی کی جا سکتی ہیں۔
شروع میں کوشش یہ کریں کہ جب آپ یہ مشق کر رہے ہوں تو زیادہ سے زیادہ آرام دہ حالت میں ہوں، مثلاً آرام دہ کپڑے پہنیں جو زیادہ تنگ نہ ہوں، اور ایسی جگہ یا پوزیشن میں ہوں جو آرام دہ ہو۔
اگر آپ لیٹ کے یہ مشق کر رہے ہوں تو اپنے بازوؤں کو اپنے بدن سے تھوڑا دور رکھیں اور ہتھیلیوں کا رخ آسمان کی طرف رکھیں۔ اپنی ٹانگوں کو سیدھا رکھیں اور اپنے گھٹنوں کو تھوڑا سا موڑ لیں اس طرح کہ آپ کے پیر زمین پہ رکھے ہوئے ہوں۔
اگر آپ کرسی پہ بیٹھ کے یہ مشق کر رہے ہوں تو اپنے بازوؤں کو کرسی کے ہتھوں پہ رکھ لیں۔
کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے، دونوں صورتوں میں اپنے دونوں پیروں کو زمین پر رکھیں۔ آپ کے پیروں کے درمیان تقریباً ایک ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔
اپنی پوری توجہ اپنی سانس پر دیں، اور اپنے ذہن میں آنے والے دوسرے خیالات کو نظر انداز کر دیں۔
اتنی گہری اور لمبی سانس لیں جتنی آپ آرام سے لے سکتے ہوں یہاں تک کہ آپ کو لگے کہ سانس آپ کے پیٹ میں جا رہی ہے،لیکن اپنے سانس کے عضلات پہ اتنا دباؤ نہ ڈالیں کہ تکلیف ہونے لگے۔
کوشش کریں کہ آپ کی سانس آپ کی ناک کے ذریعے اندر جائے، اور آپ کے منہ کے ذریعے باہر آئے۔
نرمی سے اور باقاعدگی سے سانس لیں۔ بعض لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے کہ وہ سانس اندر لے جاتے ہوئے ایک سے پانچ تک آہستہ آہستہ گنیں۔ لیکن اگر آپ نے یہ سانس کی مشقیں پہلے کبھی نہیں کیں تو ہو سکتا ہے کہ شروع میں آپ کے لیے اتنی گہری سانسیں لینا مشکل ہو۔
پھر چند ثانیے کے وقفے کے بعد سانس کو آہستہ آہستہ منہ کے راستے سے باہر نکالیں۔ بعض لوگوں کو اس میں بھی ایک سے پانچ تک گننے سے فائدہ ہوتا ہے، اور اپنی توجہ بیرونی چیزوں اور خیالات سے ہٹا کے سو فیصد اپنے سانس پہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ مشق کم از کم پانچ منٹ تک کریں۔
جب انسان ان سانس کی مشقوں کو پہلی دفعہ کرنا شروع کرے تو صبح کا یا رات کا ایک وقت مقرر کر لینا چاہیے، مثلاً صبح اٹھنے کے فوراً بعد، یا رات کو سونے سے پہلے، اور ان مشقوں کو اس وقت روزانہ کرنا چاہیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اسے ان مشقوں کو کرنے کی عادت ہو جائے گی اور یہ نہیں سوچنا پڑے گا کہ اب کیا کروں، اور اب کیا کروں۔
لیکن ان مشقوں کا اصل فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان انہیں اس وقت کرے جب اسے پریشانی کے خیالات آ رہے ہوں یا گھبراہٹ ہو رہی ہو، مثلاً کام پہ ہے، پریشان ہے، اس وقت پانچ منٹ نکالے اور اپنی سانس کو قابو میں لانے کی کوشش کرے۔ آہستہ آہستہ اسے لگے گا کہ گھبراہٹ کم ہو رہی ہے اور اس کے خیالات اس کے قابو میں آ رہے ہیں۔
ان مشقوں کو دن میں کئی دفعہ بھی کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی حالت میں کیا جا سکتا ہے، کھڑے بھی، بیٹھے بھی، لیٹے بھی۔
کیا آپ کے ذہن میں منفی خیالات آتے رہتے ہیں یا پریشانی کے خیالات آپ کے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں؟
بعض دفعہ اس طرح کی منفی خیالات ہماری عادت اور ہماری شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں۔
اس طرح کے منفی خیالات کی بھرمار کی وجہ سے انسان کی زندگی ناخوشگوار اور تلخ ہو سکتی ہے۔
بعض لوگوں کو ان منفی خیالات اور سوچنے کے طریقوں کی اس قدر عادت ہو جاتی ہے کہ وہ کسی کام یا صورتِ حال کے پیش آنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں منفی انداز میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں، مثلاً اگر ان کو کہیں کسی سماجی تقریب میں جانا ہو تو وہ پہلے سے ہی سوچنے لگتے ہیں کہ میں وہاں جا کر شدید بیزار ہوں گا اور مجھے وہاں بالکل مزا نہیں آئے گا۔
بعض دوسرے لوگ اپمے بارے میں ہمیشہ منفی انداز میں سوچتے ہیں مثلاً کوئی کام کرنا ہو تو وہ پہلے سے سوچنے لگتے ہیں کہ مجھ سے تو یہ کام خراب ہی ہو گا اور دوسرے تمام لوگ اس کام میں مجھ سے اچھے ہیں۔
اسی طرح وہ ہر بات کا پہلے سے منفی ترین نتیجہ نکال لیتے ہیں مثلاً یہ کہ میں تو ہر کام خراب کر دیتا ہوں۔
اسی طرح بعض لوگوں کو ہمیشہ اس بارے میں فکر رہتی ہے کہ دوسرے لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اور انہیں پہلے سے ہی ایسا لگتا ہے کہ دوسرے لوگ انہیں بور اور ناکارہ سمجھتے ہیں، اور ان کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ انہیں پہلے سے یقین ہو جاتا ہے کہ اگر میں کوئی یا فلاں بات کہوں گا تو لوگ مجھے بیوقوف سمجھیں گے۔
جب لوگوں کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں یا ان کا موڈ اداس ہوتا ہے تو ان کے ذہن میں آنے والے یہ منفی خیالات اور بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے وقتوں میں ان منفی خیالات کو ذہن سے نکالنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
حالانکہ ان خیالات سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ بیشتر وقت یہ خیالات صحیح بھی نہیں ہوتے۔ لیکن لوگ جب اپنے ان خیالات پہ یقین کر لیتے ہیں تو اس سے ان کا موڈ بھی مزید اداس ہو جاتا ہے، اور ان کی پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کی قوتِ مدافعت بھی کمزور ہونے لگتی ہے۔
یہ منفی خیالات ہمیں یقین دلا تے ہیں کہ ہم ناکارہ ہیں، ہمیں ویسے بھی کوئی پسند نہیں کرتا، تو پھر اتنی کوشش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر انسان ان پہ یقین کرنے لگے اور اس کے یہ منفی خیالات اس کے عمل پہ اثرانداز ہونے لگیں تو انسان ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کوشش کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ہم پہلے سے بھی زیادہ خراب محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ان منفی خیالات کے نتیجے میں انسان دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا چھوڑ دیتا ہے (کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی اسے پسند نہیں کرتا)، کسی نئی اور زیادہ بہتر ملازمت کے لیے کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے (کیونکہ اسے پہلے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ اتنا ناکارہ ہے کہ وہ ملازمت اسے ملے گی ہی نہیں)،کام کی میٹنگز میں بولنا چھوڑ دیتا ہے (کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اگر کچھ بولے گا تو وہ فضول ہی ہو گا اور لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے اور اسے بیوقوف سمجھیں گے)، اور اپنے دل کی خوشی کے لیے کوئی بھی اچھا کام کرنا یا چیز لینا چھوڑ دیتا ہے (کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اتنا ناکارہ اور فضول ہے کہ وہ کسی اچھی چیز کا حقدار ہی نہیں ہے)۔
اس سے انسان ایک منفی سائیکل میں پھنس جاتا ہے کہ وہ جتنا اپنے آپ کو اچھے لگنے والے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اتنا ہی اس کا موڈ زیادہ اداس ہوتا جاتا ہے، اور جتنا اس کا موڈ زیادہ اداس ہوتا جاتا ہے وہ اتنا ہی مزید اپنے آپ کو اچھے لگنے والے اور اس کے مزاج کو بہتر کرنے والے کاموں کو چھوڑتا جاتا ہے۔
جب کوئی پریشانی میں ہو تو بہت سارے لوگ اس طرح کا مشورہ دیتے ہیں کہ جی آپ اس طرح نہ سوچا کریں، یا اس طرح کے خیالات کو اپنے ذہن میں آنے سے روک دیں۔ پھر سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔ اگر اس طرح کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا تو کسی کو کوئی پریشانی ہوتی ہی نہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسا کر سکتا ہے کہ زبردستی کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے اور پریشانی کے اور منفی خیالات کو اپنے دماغ میں آنے سے روکنے کی کوشش کرے، لیکن بہت دفعہ ایسا کرنے میں اتنی ذہنی توانائی خرچ ہوتی ہے کہ انسان بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ تھک جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ان منفی خیالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے کارآمد طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے جس سے ذہن کمزور ہونے کے بجائے توانا ہو اور وہ اپنے آپ میں بہتر محسوس کرے۔ یہ طریقے ایک مثال سے زیادہ آسانی سے سمجھ میں آئیں گے۔
عامر ایک نوجوان ہے جو ملازمت ڈھونڈ رہا ہے جس کے لیے وہ اپنی سی وی (CV) لکھ رہا ہے۔ عامر کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ اس میں اپنے پرسنل اسٹیٹمنٹ (personal statement) والے حصے میں کیا لکھے۔ سوچتے سوچتے وہ مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے اور اس کے ذہن میں اس طرح کے خیالات آنے لگتے ہیں کہ "یہ سب کوشش کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ اس ملازمت کے لیے تو اور بھی بہت سارے لوگ درخواست دے رہے ہوں گے۔ ان میں سے بہت سے مجھ سے بہتر ہوں گے۔ میں اپنا وقت کیوں ضائع کروں؟ مجھے تو کبھی بھی ملازمت نہیں ملے گی۔" وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے منفی خیالات کی بھرمار سے عامر اس قدر دلبرداشتہ ہو جاتا ہے کہ وہ درخواست دینے کا عمل مکمل ہی نہیں کرتا۔ اس سے اس کا موڈ اور بھی اداس اور مایوس ہو جاتا ہے۔
یہ خیالات اس لیے منفی خیالات ہیں کیونکہ یہ عامر کو عمل کرنے سے بھی روکتے ہیں، اور اس کے موڈ کو بھی مزید اداس کرتے ہیں۔ اب یہ سوچیں کہ اگر کسی انسان کو اس طرح کے منفی خیالات بار بار، ہر روز، ہر ہفتے، ہر مہینے ایک عرصے تک آتے رہیں تو اس کے ذہن پہ کیسا اثر پڑے گا۔ اگر یہ ہمارے ساتھ بھی ہو تو ہم مایوسی، اداسی، گھبراہٹ، چڑچڑے پن، ہر وقت کی تھکاوٹ کا شکار ہونے لگیں گے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان منفی خیالات کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ سب سے پہلا کام ان خیالات کو پہچاننا اور ان کو ایک نام دینا ہے۔
ہر انسان کے منفی خیالات الگ طرح کے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہو سکتے ہیں؛ زودرنج ہونا اور چھوٹی سی بات کو دل پہ لے لینا، اس کے بعد ہر بری یا تکلیف دہ بات کے لیے اپنے آپ کو الزام دینے لگنا چاہے آپ کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، مستقبل سے مایوس ہونے لگنا کہ آئندہ بھی سب برا ہو گا اور کچھ بھی اچھا نہیں ہو گا، اپنے آپ کو بہت شدید تنقیدی نظر سے دیکھنے لگنا، پہلے سے یہ سوچ لینا کہ ہر بات کا انجام بہت ہی خراب ہو گا، یہ سوچنے لگنا کہ سب آپ کو بری نظر سے دیکھتے ہیں، ناکارہ یا بیوقوف سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ یہ پہچانیں کہ جب آپ کی زندگی میں کوئی مشکل آتی ہے تو ان میں سے کس طرح کے خیالات بار بار آپ کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔
جب آپ پہچاننے لگیں کہ جب کوئی مشکل آپ کے سامنے آتی ہے تو آپ کے ذہن میں ان میں سے کون سے منفی خیالات بار بار آنے لگتے ہیں، تو آئندہ جیسے ہی یہ خیالات آنا شروع ہوں کوشش کریں کہ آپ ان خیالات کو اپنے ذہن پہ حاوی ہونے دینے سے پہلے ان سے باہر نکلیں اور سوچیں کہ "اچھا یہ میرے وہ منفی خیالات ہیں جو دوبارہ میرے ذہن میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔" جب آپ ان منفی خیالات کو پہچاننے لگتے ہیں اور ان کو ایک نام دے دیتے ہیں کہ یہ میرے "منفی خیالات" ہیں، تو یہ خیالات کمزور ہونے لگتے ہیں اور ان کی آپ کے ذہن پہ گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے۔ آپ یہ جاننے لگتے ہیں کہ میں جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو یہی خیالات میرے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ آپ ان خیالات سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں اب تم کو پہچان گیا ہوں، اور تم کو اپنے دماغ پہ حاوی نہیں ہونے دوں گا۔
۲۔ اپنے منفی خیالات کو نظرانداز کرنا سیکھیں۔
دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ جب آپ اپنے منفی خیالات کو پہچان جائیں تو ان کو توجہ دینا چھوڑ دیں۔ ان خیالات کو چیلنج مت کریں، ان سے بحث مت کریں، ان کو مکمل نظرانداز کرنے کی کوشش کریں۔ ان خیالات کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جو انسان ان کو کسی بھی طرح کی توجہ دیتا ہے، چاہے وہ اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ خیالات غلط ہیں، یا ان کو اپنے ذہن میں آنے سے روکنے کی کوشش کرے، یا بار بار اس طرف توجہ دے کہ یہ خیالات ابھی بھی میرے ذہن میں آ رہے ہیں یا ختم ہو گئے، تو اس کے ذہن میں یہ خیالات اور زیادہ شدت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو انسان ان خیالات کو مکمل طور پہ نظرانداز کر دیتا ہے اور اپنی پوری توجہ کسی اور طرف مرکوز کر دیتا ہے مثلاً یہ کہ مجھے اس مسئلے کا حل کیسے تلاش کرنا ہے، یا کسی اور غیر متعلق کام یا اپنی کسی دلچسپی کی طرف توجہ دینے لگتا ہے تو ان خیالات کی شدت کم ہونے لگتی ہے۔ ترکیب یہی ہے کہ ان خیالات کو توجہ دینا چھوڑ دیں، نہ ان کو غلط ثابت کرنے کی نیت سے، نہ ان کو ذہن سے باہر نکالنے کی نیت سے۔
اس بات کی مشق کریں کہ ان منفی خیالات کو پہچانیں، اور پھر ان خیالات کے بجائے کسی اور بات یا کام کی طرف توجہ دینے لگیں۔ ان منفی خیالات کو اپنے ذہن میں ایسے ہی رہنے دیں جیسے وہ ہیں۔ اس معاملے میں مائنڈفل نیس (mindfulness) کی مشق بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے جس کی تفصیل اسی صفحے پہ کچھ ہفتے پہلے آئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ جہاں ہیں، جو کررہے ہیں، اپنی سو فیصد توجہ اسی پہ دینے کی کوشش کریں۔ اگر کسی سے بات کر رہے ہیں تو پوری توجہ سے ان کی بات سنیں۔ اگر کوئی کام کر رہے ہیں تو پوری توجہ اس کام کو دینے کی کوشش کریں۔ اگر فارغ بھی بیٹھے ہوئے ہیں تو اپنے اردگرد کے ماحول پہ پوری توجہ دینے کی کوشش کریں، کمرے کے باہر کیا نظر آ رہا ہے، کمرے کے اندر کیا نظر آ رہا ہے، آپ جس کرسی پہ بیٹھے ہوئے ہیں اس پہ بیٹھ کے کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے حاضر لمحے (present) میں رہنے کی کوشش کریں، اور ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں کی طرف بالکل توجہ مت دیں۔ اپنے حال کو انجوائے کریں، اس سے لطف اندوز ہوں۔
منفی خیالات کو نظر انداز کرنے کی ایک تکنیک یہ بھی ہوتی ہے جس سے بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ذہنی طور پہ ایسا تصور کریں کہ آپ نے اپنے منفی خیالات کو اپنے ذہن سے نکال دیا ہے اور ان کو کمرے کے ایک کونے میں کھڑا کر دیا ہے۔ اس کے بعد اپنے کام میں مصروف ہو جائیں۔ جب وہ آپ کے ذہن میں واپس آنے کی کوشش کریں تو انہیں واپس کمرے کے اسی کونے میں رکھ دیں اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو جائیں۔ جب انسان کچھ عرصے تک ایسا کرتا رہتا ہے ان منفی خیالات کی گرفت اس کے ذہن پہ کمزور پڑنے لگتی ہے، لیکن مشق ضروری ہے۔ یہ منفی خیالات ہمارے ذہن میں اسی وقت طاقت پکڑتے ہیں جب ہم انہیں توجہ دیتے ہیں۔ جیسے ہی ہم انہیں توجہ اور اہمیت دینا چھوڑ دیں یہ کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
۳۔ ان منفی خیالات کا ڈٹ کے مقابلہ کریں۔
تیسری اور بہت اہم بات یہ ہے کہ ان منفی خیالات سے ڈریں نہیں، ان کا ڈٹ کے سامنا کریں۔ ان کو اپنے اوپر حاوی مت ہونے دیں۔ یہ منفی خیالات آپ کو پریشان تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ان کی مثال گلی یا اسکول کے اس بدمعاش بچے (bully) کی سی ہے جو ہر اس بچے کو ڈراتا دھمکاتا ہے جو اس سے ڈرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہو جائے تو یہ اس سے ڈر کے بھاگ جاتا ہے۔ یہ منفی خیالات آپ سے جھوٹ بول کے آپ کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ آپ ناکارہ ہیں، آپ کمزور ہیں، آپ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا، لیکن یہ سب صرف ان کے جھوٹ ہیں۔ ان میں سے کوئی بات حقیقت اور سچ نہیں ہے۔ لیکن یہ بات اس وقت اپنے آپ کو یاد دلانی ہوتی ہے اور ان کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جب یہ منفی خیالات آپ کے ذہن میں آ رہے ہوں۔
ان خیالات کا مقابلہ کریں اور ان کو غلط ثابت کریں۔ مثلاً اگر یہ کہتے ہیں کہ آپ فلاں کام نہیں کر سکتے اور اس کی کوشش کرنا بھی بیکار ہے، تو اس کام کو ضرور کریں۔ اگر یہ منفی خیالات کہتے ہیں کہ دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے مت جاؤ کیونکہ وہاں تم صرف بور ہو گے، تو دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے ضرور جائیں۔ اس طرح سے آپ خود یہ ذاتی تجربہ کریں گے کہ یہ خیالات جو کہتے ہیں وہ اکثر صحیح نہیں ہوتا، اور ان خیالات کی گرفت آپ کے ذہن پہ کمزور پڑنے لگے گی۔
منفی خیالات کے ازالے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ آپ ان کو اپنے فیصلے ہرگز مت کرنے دیں۔ لاکھ یہ خیالات آتے رہیں کہ یہ مت کرو ایسا ہو جائے گا، وہ مت مت کرو ویسا ہو جائے گا، لیکن ان کی بالکل مت سنیں۔ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اور وہ تمام کام کریں جو آپ کا اپنا دل و دماغ کہتے ہیں کہ آپ کو کرنے چاہیئیں۔ نہ ان منفی خیالات کو آپ کو کسی کام کے کرنے سے روکنے دیں، اور نہ ہی کسی کام کے کرنے کو مجبور کرنے دیں۔
۴۔ اپنے آپ سے نرمی برتیں
جب ہم اداس یا پریشان ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو ان منفی خیالات کے ذریعے اذیّت پہنچاتے ہیں۔ ان منفی خیالات میں ہم اپنے آپ کو اتنی تکلیف دہ یا اذیّت ناک باتیں کہتے ہیں جو ہم اگر سوچیں تو ہم کسی ایسے دوست یا اپنے بچے جس سے ہمیں حقیقی محبت ہو اسے کہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لیے جب آپ کو اپنے بارے میں منفی خیالات آ رہے ہوں، مثلاً یہ کہ میں بیکار ہوں، ناکارہ ہوں، میں زندگی میں کبھی بھی کچھ اچھا نہیں کر سکوں گا، تو ایسے وقت میں یہ تصور کریں کہ دنیا میں جس شخص کو آپ سے سب سے زیادہ محبت ہو، وہ اگر اس وقت یہاں ہوتا تو اس بارے میں آپ سے کیا کہتا؟ وہ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ مکمل بیکار ہیں، دنیا پہ بوجھ ہیں، ہے نا؟ بلکہ وہ آپ کو یاد دلاتا کہ آپ نے پہلے کتنے اچھے کام کیے ہیں، کامیابیاں حاصل کی ہیں، لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے، کہ نہیں؟ وہ ہر گز یہ نہیں کہتا کہ آپ ناکارہ ہیں یا آپ سے کبھی کچھ نہیں ہو گا۔
اب ایک تجربہ کریں۔ ایک اکیلے کمرے میں جائیں اور اپنے آپ سے وہ تمام اچھی اور دلاسہ دینے والی باتیں کہیں جو دنیا میں آپ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا شخص، آپ کا مخلص دوست، آپ سے کہتا۔ ان باتوں کو دوبارہ اپنے آپ سے نرم الفاظ اور لہجے میں کہیں۔ اور اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ منفی خیالات اکثر جھوٹ بولتے ہیں، اور آپ سے آپ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہیں جو سچ نہیں ہوتیں۔ لیکن جو لوگ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں وہ آپ سے آپ کے بارے میں سچ بولتے ہیں۔ ان محبت کرنے والے لوگوں کی مثبت باتوں کو اپنے ذہن میں لائیں، ان پہ بھروسہ کریں، اور اپنے منفی خیالات کو ان مثبت باتوں سے بدلنے کی کوشش کریں۔
۵۔ اپنے حالات اور زندگی کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔
اس کے لیے پہلے یہ تصور کریں کہ جو منفی خیالات آپ کے ذہن میں آ رہے ہیں، یہ آپ کے نہیں بلکہ آپ کے کسی بہت عزیز دوست یا گھر والے کے ذہن میں آ رہے ہیں۔ پھر یہ سوچیں کہ اگر وہ اپنے یہ خیالات آپ کو بتاتے تو آپ ان سے کیا کہتے؟ آپ کو کیا مشورہ دیتے؟ کیا تسلّی دیتے؟ پھر وہی تمام باتیں اپنے آپ سے کہیں، وہی تمام مشورے اپنے آپ کو دیں۔
دوسرے یہ کہ اپنے حالات اور پریشانیوں کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ کیا آج سے تین مہینے بعد، چھ مہینے بعد، بھی یہ حالات آپ کے لیے اتنی ہی بڑی پریشانی کا باعث ہوں گے؟ کیا چھ مہینے بعد آپ کو یاد بھی ہو گا کہ آپ اس بات کے لیے اس قدر پریشان تھے؟ اگر آپ اس نتیجے پہ پہنچیں کہ یہ تو وقتی پریشانی ہے، چھ مہینے بعد اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی، تو پھر شاید وہ بات اِس وقت بھی اتنی بڑی پریشانی کا باعث نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے تھے۔
یہ سوچیں کہ اگر یہی پریشانی اورلوگوں کو ہوتی تو وہ اس کا مقابلہ کیسے کرتے؟ اگر آپ کے قریبی جاننے والوں میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ پریشانیوں کا بہت ٹھنڈے دل اور صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے تو اس بات پہ غور کریں کہ اگر وہ ا س پریشانی میں ہوتا تو اس کا حل نکالنے کے لیے کیا کوششیں کرتا اور کیا طریقہ اختیار کرتا؟ وہ اس بات پہ کس طرح سے غور کرتا، اس بارے میں کس طرح سے سوچتا؟ پھر آپ بھی صرف منفی خیالات سوچتے رہنے کے بجائے اپنی پریشانی کا اسی طرح سے حل نکالنے پہ غور کریں جس طرح سے وہ شخص کرتا۔
۶۔ اختیاری اور غیر اختیاری خیالات کا فرق
بہت سے لوگ اپنے منفی خیالات سے اس وجہ سے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ خیالات ان کے ذہن میں آئے ہی کیوں۔ مثال کے طور پہ ہم لوگ ایسے مریضوں کو دیکھتے ہیں جس کو کسی پہ غصّہ آتا ہے تو ایسے خیالات آتے ہیں کہ اس کو فلاں نقصان پہنچا دوں، یا کبھی تکلیف میں یا بیماری کی وجہ سے مذہب کے یا مقدس ہستیوں کے بارے میں برے خیالات آنے لگتے ہیں، یا کبھی اور نامناسب خیالات آنے لگتے ہیں۔ جو لوگ اپنے خیالات پہ بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، اور خصوصاً جو ان خیالات کو غلط سمجھتے ہیں، انہیں ان خیالات کے آنے سے شدید اذیّت ہوتی ہے۔
وہ اپنے آپ کو ان خیالات کے لیے موردِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں، اور ان خیالات کی وجہ سے اپنے آپ کو مجرم اور گناہ گار سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر وہ ان خیالات کو اپنے ذہن میں آنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اپنے ذہن سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کوشش سے، بجائے ذہن سے یہ خیالات کم ہونے کے، یہ اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ان خیالات کی خاصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ ان کی طرف جتنی زیادہ توجہ دی جائے یہ اتنا ہی اور بڑھتے جاتے ہیں۔
ہم ان مریضوں کو بتاتے ہیں کہ ان خیالات کے علاج کے لیے سب سے پہلا کام جو کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جو خیالات بغیر آپ کے اختیار کے خود بخود آتے ہیں، اور جوخیالات آپ اپنے ذہن میں اپنے اختیار سے اور اپنی مرضی سے لاتے ہیں ان میں فرق پہچاننا سیکھیں۔ بیشتر لوگوں سے ہم جب یہ سوالات پوچھتے ہیں کہ؛ کیا یہ آپ کے اپنے ذاتی خیالات ہیں؟ کیا آپ ان کو اپنی مرضی سے اپنے اختیار سے اپنے ذہن میں لاتے ہیں؟ کیا آپ کو ان خیالات پہ یقین ہے؟ کیا آپ ان خیالات کو صحیح سمجھتے ہیں؟ تقریباً تمام ہی ان مریض ان سوالات کی مدد سے یہ پہچان لیتے ہیں کہ ان کے ذہن میں آنے والے کون سے خیالات ان کے اپنے ذاتی خیالات ہیں، اور کون سے ان کی مرضی کے خلاف یا بغیر ان کے ذہن میں آتے ہیں، اور اس لیے ان کے اپنے ذاتی خیالات نہیں ہیں۔
پھر ہم ان کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ صرف اپنے ذاتی خیالات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ جو خیالات ان کی مرضی کے بغیر یا خلاف ان کے ذہن میں آتے ہیں نہ وہ ان کے لیے ذمہ دار ہیں اور نہ مجرم۔ ہم انہیں سکھاتے ہیں کہ جب کوئی بھی برا یا منفی خیال ان کے ذہن میں آئے تو اس سے پہلے کہ وہ اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرانے لگیں اور ان کے ذہن میں منفی خیالات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جائے، وہ ایک لمحے کے لیے رک کے یہ سوچیں کہ کیا یہ میرا اپنا خیال ہے، یا میری مرضی کے خلاف میرے ذہن میں آ رہا ہے؟ اگر یہ میرا اپنا ذاتی خیال نہیں ہے تو میں اس کی وجہ سے کیوں برا محسوس کروں، کیوں اس کے لیے شرمندگی کا، ندامت کا شکا ر ہوں؟ کیوں اپنے آپ کو قصوروار سمجھوں؟ ایسا کرتے رہنے سے ان کے یہ برے یا منفی خیالات تو فوراً نہیں ختم ہو جائیں گے لیکن ان کے ساتھ منسلک جو منفی جذبات ہوتے ہیں وہ ضرور بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ تک یہ مشق کرتے رہیں کہ منفی خیالات کو نظر انداز کرتے رہیں، ان کو اہمیت نہ دیں، تو منفی خیالات کی شدت بھی کم ہونے لگتی ہے۔
۷۔ منفی خیالات کو مثبت خیالات سے بدلیں
انسان کا ذہن ایسی چیز ہے کہ وہ کبھی سوچوں سے خالی نہیں رہ سکتا۔ انسان چاہے کتنا بھی کوشش کرے کہ وہ اپنے ذہن سے تمام خیالات نکال دے، اس کو بالکل خالی کردے، یا خیالات کو اپنے ذہن میں آنے سے روک دے، لیکن ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم اپنے مریضوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ منفی سوچوں کا علاج یہ نہیں ہے کہ آپ یہ کوشش کرتے رہیں کہ وہ آپ کے ذہن میں نہ آئیں، یا یہ کوشش کرتے رہیں کہ آپ ان کو اپنے ذہن سے بالکل نکال دیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ اگر آپ ایک خالی بوتل سے ہوا نکالنا چاہیں تو آپ ایسا کر نہیں سکتے (سوائے اس کہ آپ بہت بڑا خرچہ کریں اور اس میں بڑی مشینوں کی مدد سے ویکیوم پیدا کریں) لیکن آپ اسی بوتل کو پانی سے بھر دیں تو اس سے ہوا خودبخود ہی نکل جائے گی۔ بالکل اسی طرح آپ اپنے ذہن سے منفی خیالات کو نکالنے کی لاکھ کوشش کرتے رہیں، وہ نہیں نکلیں گے، لیکن آپ اپنے منفی خیالات کی جگہ مثبت سوچیں لانا شروع کر دیں تو آپ کے ذہن میں موجود منفی خیالات خود بخود کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔
یہ مثبت خیالات کوئی ایسے نہیں ہوتے کہ میں ایک دفعہ بتا دوں اور پھر ہر آدمی اپنے خیالات میں ان ہی مثبت خیالات کو ڈال لے، بلکہ یہ ہر انسان کے حالات کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ اچھی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ بری باتیں ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں ایسا ہوتا نہیں کہ کسی انسان کی زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور دکھ کا نام و نشان بھی نہ ہو، یا دکھ ہی دکھ ہوں اور خوشی کا نام و نشان بھی نہ ہو۔ پھر یہ اس انسان کے اوپر ہوتا ہے کہ وہ ہر اپنی زندگی میں اچھی باتوں کو یاد کرتا رہے اور ان کا ذکر کرتا رہے، یا ہر وقت اپنی پریشانیوں کو روتا رہے۔
ہم لوگ بہت کثرت سے ایسا دیکھتے ہیں کہ ایک بیماری کی علامات تو مختلف مریضوں میں ایک طرح کی ہی ہوتی ہیں، مثلاً اگر کئی مریضوں کو ڈپریشن ہو تو سب کو ہی اداسی ہو گی، کسی کام میں دل نہیں لگتا ہو گا مزا نہیں آتا ہو گا، نیند بھوک کی خرابی ہو گی، لیکن مختلف مریضوں میں ان کی بیماری کی طرف کو ردِّ عمل ہوتا ہے وہ بہت مختلف ہوتا ہے۔ بعض مریض یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ مجھے ہی یہ بیماری کیوں ہو گئی؟ کیا دنیا میں اس بیماری کے لیے میں ہی رہ گیا تھا؟ باقی سب لوگ تو اتنے خوش ہیں۔ یہ بیماری واپس کیوں آگئی؟ ا سکے بر عکس بہت سے مریض ہوتے ہیں جو پر اعتماد ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہاں ڈاکٹر صاحب! مجھے پہلے بھی یہ بیماری ہوئی تھی لیکن بالکل ٹھیک ہو گئی تھی۔ مجھے ابھی بھی پوری امید ہے کہ ان شاء اللّٰہ یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ بس علاج شروع کیجئے۔
یہ کثرت سے ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ جو مریض مثبت خیالات کے مالک ہوتے ہیں اور جن کو امید ہوتی ہے کہ وہ ان شاءاللّٰہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے اور اپنی نارمل زندگی میں مثلاً اپنے کام پہ واپس چلے جائیں گے، ان میں واقعی کثرت سے ایسا ہوتا ہے کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں، دوا کے کم ڈوز سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، مکمل ٹھیک ہو جاتے ہیں یعنی ان کی سب علامات ختم ہو جاتی ہیں، اور وہ اپنی عام زندگی میں بھی زیادہ آسانی سے واپس چلے جاتے ہیں۔
اس کے بر عکس جو مریض منفی خیالات کے مالک ہوتے ہیں یعنی اپنے حالات کے بارے میں صرف شکایت کرتے رہتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے اور میں ہی دنیا میں سب سے زیادہ بدقسمت ہوں، ان کو ٹھیک ہونے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے، ان کو دوا کا ڈوز بھی زیادہ دینا پڑتا ہے، ان کو بہت دفعہ ایک سے زیادہ دوا دینی پڑتی ہے یا دوا بدلنی پڑتی ہے، اور وہ بہت دفعہ مکمل ٹھیک بھی نہیں ہوتے یعنی اتنے اچھے نہیں ہوتے جتنے وہ اس بیماری کے شروع ہونے سے پہلے تھے۔ ایسے مریضوں کو ڈپریشن کا اٹیک دوبارہ ہو جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اور منفی خیالات کو مثبت خیالات سے بدلنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، یہ ہم سب کے اختیار میں ہے۔ بس اس کی مشق کرنی پڑتی ہے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان دن کا ایک وقت، مثلاً رات سونے سے پہلے پانچ دس منٹ، مقرر کرے اور اس وقت یہ سوچے کہ اس کی زندگی میں اچھی باتیں کون سی ہیں، مثلاً اس کا خاندان، دوست، رشتہ دار، گھر، ملازمت، کاروبار، امن و سکون، مالی حالات وغیرہ، جو بھی اچھی باتیں ہوں۔ اب روز رات کو یہ کام کرے کہ اس دن جو بھی اچھی بات اس کے ساتھ ہوئی ہو، جس بات سے بھی اسے خوشی ہوئی ہو، جس بات سے اس کے دل کو سکون ملا ہو، جس بات سے اس کی پریشانی کم ہوئی ہو، اپنے اختیاری ارادے سے سوچ سوچ کے ان تمام اچھی باتوں کو یاد کرے اور پانچ دس منٹ تک کرتا رہے۔
جب انسان باقاعدگی سے کچھ عرصے تک یہ کرتا رہے گا تو دیکھے گا کہ اس کے منفی خیالات اس کے مثبت خیالات سے تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جب اسے کسی وقت یہ خیال آئے گا کہ اس کے پاس مثلاً بہت زیادہ مال نہیں ہے تو ساتھ ہی یہ بھی خیال آئے گا کہ میرے پاس بہت محبت کرنے والے بچے ہیں جو دنیا میں کتنے بے شمار لوگوں کے پاس نہیں ہوتے۔ جب اسے یہ خیال آئے گا کہ میں بڑے ہوٹل میں جا کے کھانا نہیں کھا سکتا کیونکہ اس کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو یہ بھی خیال آئے گا کہ مجھے الحمداللّٰہ دن میں تین وقت کا کھانا تو میسر ہے۔ دنیا میں کتنے بے شمار انسان ایسے ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ جب اسے یہ خیال آئے گا کہ میرے پاس بڑا بنگلہ نہیں، تو یہ بھی خیال آئے گا کہ میرے اور میری فیملی کے سر پہ چھت تو ہے، دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے سر پہ چھت بھی نہیں۔ جب اسے یہ خیال آئے گا کہ فلاں کے پاس تو اتنا بڑا عہدہ ہے، میری تو معمولی سی ملازمت ہے، تو یہ بھی خیال آئے گا کہ الحمداللّٰہ میری صحت بہت اچھی ہے اور مجھے کوئی شدید بیماری نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے شکوہ شکایت کے ان خیالات کو کہ میرے پاس فلاں فلاں چیز نہیں ہے، ان مثبت خیالات سے بدلنے کی مشق کرتے کرتے کہ میرے پاس الحمداللّٰہ فلاں فلاں نعمت موجود ہے، انسان کے خیالات خود بخود تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، چاہے وہ آپ کی ملازمت کی وجہ سے ہو یا کسی ذاتی وجہ سے، اسے کم کرنے کا سب سے پہلا قدم یہ جاننا ہے کہ آپ کس وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔
بہت سے لوگ ذہنی دباؤ کی وجہ سے ایسے کام کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے طویل مدت میں انہیں فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہے، مثلاً سگریٹ نوشی شروع کر دینا یا اگر پہلے سے سگریٹ پیتے تھے تو ان کی تعداد بڑھ جانا، یا پریشانی کو دور کرنے کے لیے بہت زیادہ کھانا کھانے لگنا۔
بعض لوگ ذہنی دباؤ میں بالکل ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اپنی مشکل کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے بھی مسئلہ حل یا کم نہیں ہوتا بلکہ اور بڑھ جاتا ہے۔
اپنے ذہنی دباؤ یا اسٹریس کو کم کرنے کے لیے کچھ کلیدی حکمت عملیاں یہ ہیں؛ اپنے آپ کو جذباتی طور پہ مضبوط بنانا، اپنے حالات کو اپنے اختیار میں لانے کی کوشش کرنا، انسان کے اردگرد اچھے اور مخلص رشتہ داروں اور دوستوں کا ہونا، اور زندگی کو مثبت انداز میں دیکھنے اور لینے کی عادت ہونا۔
مندرجہ ذیل دس عادات ایسی ہیں جو بیشتر لوگوں میں اسڑیس یعنی ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
۱۔ اپنی جسمانی ایکٹیوٹی کو بڑھائیں یعنی باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔
ورزش کرنے سے آپ کی پریشانیاں تو نہیں دور ہو جائیں گی لیکن زیادہ تر لوگوں کا تجربہ یہ ہے کہ اس سے ان کے پریشانی کے جذبات کی شدّت کم ہو جاتی ہے، ان کی سوچ زیادہ واضح اور شفاف ہو جاتی ہے اور ان کے لیے اپنے مسائل کا حل سوچنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے مسائل کا حل زیادہ غیر جذباتی اور منطقی انداز میں سوچ سکتے ہیں۔
کتنی ورزش کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے اس کی تفصیل حال میں ہی اپنی ذہنی صحت کو بہتر کرنے کے ذیل میں آ چکی ہے، اس لیے وہ سب باتیں میں یہاں دوبارہ نہیں دہراؤں گا۔ مختصراً یہ کہ نوجوان اور ان سے بڑی عمر کے لوگوں کو درمیانی شدّت کی ورزش ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ کے لیے کرنے سے ان کی جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کے لئے ورزش گاہ یعنی جمنازیم جانا ضروری نہیں، بلکہ ہفتے میں پانچ دن کچھ تیز رفتار سے واک کرنے یعنی چلنے سے جس سے تھوڑا پسینہ آئے اور تھوڑا سانس پھولے، آدھا گھنٹہ واک کرنا بھی کافی ہوتا ہے۔
اگر آپ اس وقت باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتے تو اچانک ڈیڑھ سو منٹ فی ہفتہ ورزش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس کو کم سے شروع کریں مثلاً ہفتے میں تین دن دس پندرہ منٹ کی واک، اور اس کو آہستہ آہستہ بڑھا کے ڈیڑھ سو منٹ فی ہفتے پہ لے جائیں۔
آج کل اسمارٹ فون میں اور اسمارٹ گھڑیوں اور بازو بند کی شکل میں ایسی بہت سی ایپلیکیشنز آ گئی ہیں جن کی مدد سے اپنے قدم گننا اور اس بات پہ نظر رکھنا کہ انسان روزانہ کتنی ورزش کر رہا ہے بہت آسان ہو گیا ہے۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ روزانہ ساڑھے سات ہزار قدم چلنے سے صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے، اور اس کے بعد انسان روزانہ کے جتنے قدم بڑھاتا جائے اس کی صحت کو پہنچنے والا فائدہ اور تھوڑا تھوڑا بڑھتا جاتا ہے۔ بہت سی صحت سے متعلق آرگنائزیشنز کا کہنا ہے کہ جو لوگ دس ہزار قدم روزانہ باقاعدگی سے اور قدرے تیز رفتار سے چلتے ہوں، اس سے ان کی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ البتّہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر آپ اس وقت باقاعدگی سے ورزش یا واک نہیں کرتے تو اچانک ساڑھے سات ہزار قدم روزانہ چلنے کا ہدف نہ رکھیں، چار یا پانچ ہزار قدم روزانہ چلنے کے ہدف یا ٹارگیٹ سے شروع کریں۔ جب دو تین مہینے اس کی پابندی کر لیں، تب اس کو تھوڑا اور بڑھائیں، اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھاتے بڑھاتے ساڑھے سات ہزار قدم روزانہ کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
دوسری بات یہ کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نفلی عبادت کی طرح سب سے زیادہ فائدہ مند ورزش بھی وہ ہے جو باقاعدگی سے ہو اور ہمیشہ ہو، بے شک تھوڑی ہو۔ J
۲۔ اپنے مسائل کو اپنے قابو میں لانے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں
جو لوگ پریشانی میں بالکل ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اس پریشانی یا اس مسئلے کے سامنے بالکل بے بس اور لاچار ہیں اور اس کے حل کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے، اس بات کا بہت امکان ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ذہنی دباؤ بڑھے گا، کم نہیں ہو گا۔
یہی احساس کہ انسان بالکل بے بس اور لاچار ہے اسٹریس یا ذہنی دباؤ کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے، اور انسان کی صحت اور طبیعت خراب ہونے کا بڑا سبب بنتا ہے۔
جب انسان اپنے مسئلے کا حل خود ڈھونڈنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے اور اس کو حل کرنے کی کوششیں کرنے لگتا ہےتو اس سے اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس بات کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ مسئلے کا جو حل نکلے گا وہ انسان کی اپنی مرضی کا ہو گا اور کوئی دوسرا اپنی مرضی کا حل اس پہ مسلّط نہیں کرے گا۔
۳۔ مخلص لوگوں سے رابطہ رکھیں
انسان کے اردگرد مخلص اور اچھے دوستوں، کام کے ساتھیوں اور خاندان والوں کا حلقہ ہونے سے اس کی ذاتی اور کام سے متعلق پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے انسان کو اپنی پریشانیوں کو کسی دوسرے شخص کی نظر سے دیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ جب انسان پریشانی کے خیالات میں گھرا ہوا ہوتا ہے تو بہت دفعہ اسے اپنی پریشانیاں کسی پہاڑ کی طرح اور ناقابلِ حل لگتی ہیں۔ لیکن جب وہ کسی دوسرے کی نظر سے ان ہی پریشانیوں کو دیکھتا ہے تو بہت دفعہ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی اپنی پریشانیاں حقیقت میں اتنی بڑی نہیں ہیں جتنا اس کے پریشانی کے خیالات نے انہیں بڑا بنا دیا ہے۔
جب لوگ ہمارے پاس پریشانیوں کے ساتھ آتے ہیں تو ہم انہیں اس بات کی تلقین ضرور کرتے ہیں کہ پریشانیوں کے باوجود اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ نارمل یا معمول کے مطابق رکھنے کی کوشش کریں، اور وہ سب یا زیادہ سے زیادہ کام کرتے رہیں جو وہ عام حالات میں کرتے تھے۔ حالانکہ اس وقت پریشانی کی وجہ سے ان کا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ وہ ہر دوسرا کام چھوڑ دیں، لیکن اس وقت وہ تمام کام کرتےرہنا اور اپنی زندگی حسبِ معمول گزارتے رہنا اس پریشانی کو کم کرنے میں بھی بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں اچھے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے اور مختلف دلچسپیوں میں حصّہ لیتے رہنےسے گھبراہٹ اور ذہنی دباؤ کم ہوتے ہیں اور انسان کو پر سکون رہنے میں مدد ملتی ہے۔
اپنے اچھے اور قابلِ بھروسہ دوستوں سے اپنے مسائل کے بارے میں بات کرنے سے بہت دفعہ ان مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد ملتی ہے۔ کوئی بھی انسان کسی معاملے کا ہر پہلو خود سے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر وہ کسی قابلِ اعتماد دوست سے تبادلہء خیال کرے تو اس بات کا بہت امکان ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے کچھ ایسے پہلو اس کے سامنے آ جائیں جو اس نے پہلے نہیں سوچے تھے۔ البتّہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
پہلی تو یہ کہ اپنا مسئلہ ہر ایک جاننے والے سے ڈسکس نہ کریں۔ ایسے میں بہت امکان ہوتا ہے کہ مختلف لوگ اپنی مختلف رائے دیں گے اور انسان پریشان ہو جائے گا کہ ایسا کروں یا ویسا کروں۔ صرف کسی ایسے دوست سے اپنے مسئلے کے بارے میں مشورہ کریں جس کو اس معاملے کے بارے میں مستند معلومات بھی ہوں اور آپ کو اس کی رائے پہ بھروسہ بھی ہو کہ وہ آپ کو وہی رائے دے گا جو اس کے خیال میں آپ کے لئے بہترین ہو گی۔
دوسری بات یہ کہ صرف اس شخص کو اپنا مسئلہ بتائیں جس پر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ آپ کے راز کو راز رکھے گا۔ بہت سے لوگ آپ کی ذاتی بات سن کے اپنے مزے کے لیے سارے زمانے میں اس کی تشہیر کر دیتے ہیں جس سے عموماً معاملات اور خراب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پہ ہرگز بھروسہ نہ کریں۔
۴۔ اپنے آپ کو وقت دیں (me time)
آج کل معاشی دباؤ اور بہت سے دوسرے عوامل کی وجہ سے زندگی اتنی زیادہ مصروف ہو گئی ہے کہ انسان کے پاس اپنے آپ کو دینے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ لوگ صبح سویرے منہ اندھیرے معاش کی تلاش میں گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے واپس آتے ہیں۔ بہت سے لوگ خرچہ پورے کرنے کے لیے دو دو نوکریاں کرتے ہیں، ہفتے کے ساتوں دن کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کے اوپر بہت سے ذمّہ داریاں ہوتی ہیں۔ اس سے ہوتا ہے کہ انسان کا وقت اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس ایسے کام کرنے کے لیے جن میں اس کی دلچسپی ہوتی ہے، جو وہ بہت انجوائے کرتا ہے یعنی ان میں اسے مزا آتا ہے، وقت ہی نہیں ہوتا۔
برطانیہ کے رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کا کہنا ہے کہ انسان اپنی ذہنی صحت کو برقرار رکھنے اور بہتر کرنے کے لیے جو تین کام خود کر سکتا ہے ان میں سے ایک بہت اہم کام ان چیزوں اور کاموں کے لیے وقت نکالناہے جو آپ انجوائے کرتے ہوں، جن سے آپ کا دل خوش ہوتا ہو۔ یہ کام سب کے لیے الگ ہوتے ہیں مثلاً کسی کو کتابیں پڑھنے میں مزا آتا ہے، کسی کو گھومنے پھرنے میں، کسی کو گھروالوں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے میں، اور کسی کو ورزش کرنے میں۔ ان میں سے جس کام میں بھی آپ کا دل لگتا ہو اور آپ کو اس سے فرحت ہوتی ہو ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ ان کاموں کے لیے وقت ضرور مختص کر کے رکھیں۔ اور بہت اہم بات یہ ہے کہ اس وقت میں اپنے کام یا ملازمت کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔
خصوصاً جو بچے یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور جن پہ تعلیم کا بہت دباؤ ہوتا ہے انہیں ہم ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہفتے کا ایک دن ایسا ضرور رکھیں جس میں مکمل چھٹی کریں۔ اس دن میں وہ تمام کام کریں جن میں ان کی دلچسپی ہو اور جن سے ان کے دل کو فرحت ہو، اور پڑھائی کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ بہت سے بچوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اس سے تو ہمارا بہت وقت ضائع ہو جائے گا۔ ہم انہیں یہی سمجھاتے ہیں کہ انسانی دماغ ایسا ہے کہ وہ بغیر وقفے کے مسلسل ایک عرصے تک کام نہیں کر سکتا۔ اگر انسان ہفتے میں ایک دن بھی پڑھائی میں وقفہ نہ لے تو زیادہ تر لوگوں کا دماغ بارہ تیرہ دن کے بعد ماؤف ہونے لگتا ہے، ان کی توجہ خراب ہونے لگتی ہے، اور ان کو پڑھا ہوا مواد سمجھنے اور یاد ہونے میں بہت زیادہ مشکل ہونے لگتی ہے اور بہت وقت لگنے لگتا ہے۔ اس طرح سے وہ کتاب کے سامنے بیٹھے تو رہتے ہیں لیکن اس سے ان کی پڑھائی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہ ہفتے میں ایک دن ناغہ کر لیا کریں تو اگلے دن جب وہ کتاب اٹھائیں گے تو ان کا دماغ بالکل تازہ ہو گا، ان کی توجہ بہت بہتر ہو گی، اور ان کو اپنا مواد پڑھنے اور یاد کرنے میں نسبتاً بہت کم وقت لگے گا۔ میں نے بہت سے نوجوان لوگوں سے کہا کہ وہ اس کو آزما کے تو دیکھیں اور الحمداللّٰہ ان کو اس سے بہت فائدہ ہوا۔
۵۔ نئے نئے چیلنجز کا سامنا کریں
جیسا کہ پہلے بھی آیا تھا کہ انسان کا دماغ بھی ایک مشین کی طرح یا مسلز (عضلات، muscles) کی طرح ہے۔ اس کو جتنا استعمال کیا جائے اتنا ہی اس کی توانائی اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، اور جتنا اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیا جائے اتنا ہی یہ کمزور پڑتا جاتا ہے اور اس میں زنگ لگنے لگتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اپنے آپ کو خود کچھ نہ کچھ چیلنج دیتے رہیں اور کچھ نہ کچھ نیا کام سیکھنے یا نئی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
یہ چیلنج آپ کی ملازمت پہ بھی ہو سکتا ہے، اور اس سے باہر آپ کی ذاتی زندگی میں بھی۔ یہ چیلنج یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی نیا اسپورٹس کھیلنا سیکھیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی نئی زبان سیکھیں۔ اس طرح کے نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنے سے انسان کا ذہن بھی زیادہ توانا ہوتا رہتا ہے، اس کی خود اعتمادی بھی بڑھتی ہے، اور اس کو ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
بہت سال پہلے میری ایک مریضہ تھی جس نے یہ الفاظ کہے تھے اور اتنی اچھی اور اہم بات کی تھی کہ میں نے اس سے اجازت لے کے یہ الفاظ بہت بڑے حروف میں ٹائپ کر کے اپنے آفس کی دیوار پہ لگا لیے تھے اور دوسرے مریضوں کو بھی یہی مشورہ دیا کرتا تھا۔ وہ الفاظ یہ تھے، "میں جتنا زیادہ کام کرتی ہوں، جتنا مصروف رہتی ہوں، مجھے اپنا آپ اتنا ہی بہتر محسوس ہوتا ہے۔"
۶۔ ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے غیر صحتمندانہ عادتوں سے گریز کریں
بہت سے لوگ جب پریشان ہوتے ہیں تو اپنی پریشانی کو وقتی طور پہ کم کرنے اور کچھ دیر کے لیے بہتر محسوس کرنے کے لیے مختلف چیزوں کا سہارا لینے لگتے ہیں جن سے وقتی طور پہ انسان کو سکون مل سکتا ہے اور ا سکی گھبراہٹ کم ہو سکتی ہے، مثلاً چائے کافی بہت زیادہ پینے لگنا، سگریٹ نوشی بہت زیادہ کرنے لگنا، الکحل کا استعمال کرنے لگنا۔
ان چیزوں سے وقتی طور پہ تو انسان کو اپنی پریشانی سے چھٹکارا مل سکتا ہےلیکن طویل عرصے کے اوپر ان سے حالات اور صحت زیادہ خراب ہوتے ہیں، بہتر نہیں ہوتے، بلکہ انسان ایک مسئلے کے بجائے دو مسئلوں کا شکار ہو جاتا ہے یعنی اس کے مختلف بیماریوں اور عادتوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح بعض لوگ اپنی پریشانی کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ کھانا کھانے لگتے ہیں، یا وہ چیزیں زیادہ کھانے لگتے ہیں جنہیں فاسٹ فوڈز کہا جاتا ہے۔ ان سے وقتی طور پہ تو انسان کو اچھا لگتا ہے اور اس کا موڈ بہتر ہو سکتا ہے، لیکن وزن بڑھنے کا بہت خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے طویل عرصے کے اوپر ذیابطیس، بلڈ پریشر بڑھنے کی بیماری، کولیسٹرول بڑھنے کی بیماری، اور دل کی بیماری کا خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔
ان سب مصنوعی سہاروں پہ بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے ذہنی دباؤ کی حقیقی وجہ کو جاننے اور اس کو دور یا کم کرنے کی کوشش کریں۔
۷۔ دوسرے لوگوں کی مدد کریں
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مثلاً والنٹیری ورک یعنی رفاہی کام کر کے یااپنے اریب قریب کے لوگوں کی مدد کر کے، ان کاموں سے ان کی اپنی ذہنی اور اعصابی مضبوطی اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی بہت تفصیل سے آیا تھا، دوسروں کی مدد کرنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ انسان دوسروں کو بہت سارا پیسہ دے، یا کوئی رفاہی انجمن قائم کرے یا اس کا حصّہ بنے۔ اس کا حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر وقت اس فکر میں رہے کہ اس کے آس پاس یا اس کے اختیار کی حد تک جتنے بھی لوگ ہیں ان کو وہ اگر کسی بھی طرح سے تھوڑی سی بھی راحت پہنچا سکتا ہو، یا ان کی معمولی سی تکلیف بھی دور کر سکتا ہو تو ضرور کرے۔ یہاں تک کہ اگر صرف اپنے لفظوں سے ہی کسی کی ڈھارس بندھا سکتا ہو یا انہیں تسلّی دے سکتا ہو تو ایسا ضرور کرے۔
اس کی بہت تفصیل میں نے اس ویب پیج پہ پہلےڈالی تھی۔
https://sites.google.com/view/mentalhealthmadeeasy/اپنی-مدد-آپ-self-help#h.hjlhl3oztyld
۸۔ اپنا کام ذہانت سے انجام دیں (work smart, not hard)
بہت سارے لوگ اپنے کام میں بغیر سوچے سمجھے لکیر کے فقیر والی محنت تو بہت کرتے ہیں، لیکن تھوڑی دیر کے لیے رک کے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ان کا کام کس طرح سے زیادہ آسانی سے ہو سکتا ہے، بہتر ہو سکتا ہے، زیادہ نتائج دینے والا ہو سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے کاموں کی فہرست میں زیادہ اہمیت والے کام کون سے ہیں جن کو پہلے کرنا اور زیادہ اچھی طرح کرنا ضروری ہے، اور کم اہمیت والے کام کون سے ہیں جن کو بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کو تاخیر سے کرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوگا۔
اوپر انگریزی میں جو جملہ لکھا ہے (work smart, not hard)، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ اپنا کام صرف محنت سے ہی نہیں بلکہ ذہانت سے بھی کریں، اس سے مراد یہی ہے کہ اپنے کام پہ غور کریں کہ کون سے کام زیادہ اہمیت والے ہیں اور ان کو پہلے کرنا ضروری ہے، اور کون سے کام ایسے ہیں جن کو بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے اور محض سرسری توجہ سے بھی کیا جا سکتا ہے، اور اس سے نقصان نہیں ہو گا۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اتنے ہی وقت میں اپنے فرائض کہیں بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔
۹۔ زندگی کو مثبت نظر سے دیکھیں
ہر انسان کی زندگی میں کچھ باتیں اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں جن سے وہ خوش اور راضی ہوتا ہے، اور کچھ باتیں اس کی مرضی کے خلاف ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اداس یا پریشان ہوتا ہے۔ اس دنیا کایہی اصول ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا حکمران لے لیں، دولتمند لے لیں، عالم لے لیں، یا کوئی غریب سے غریب انسان لے لیں،کوئی بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ اس کی زندگی میں صرف سکھ ہی سکھ ہے، یا دکھ ہی دکھ ہے۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ان باتوں کی طرف زیادہ توجہّ دے جو مثبت ہیں اور جن کی وجہ سے اسے خوشی ملتی ہے، اور ان باتوں کی طرف کم توجّہ دے جن کی وجہ سے اسے پریشانی ملتی ہے۔ پریشانی کی باتوں کی طرف اتنی توجہ ضرور دے جو اس کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے، لیکن ہر وقت بیٹھ کر اس کا رونا نہ روتا رہے۔ مثال کے طور پہ ہمارے ایک دوست کو ایک بیماری ہوئی جس کی وجہ سے انہیں بہت درد تھا، لیکن جب ان سے حال پوچھا تو بجائے درد کا رونا رونے اور شکایت کرنے کے انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہاں تکلیف تو ہےلیکن الحمداللّٰہ بیماری ایسی ہے جس کا علاج موجود ہے، الحمداللّٰہ اتنے وسائل بھی ہیں کہ بیماری کا علاج کروا سکیں، الحمداللّٰہ خیال رکھنے اور محبّت کرنے والے گھر والے جو بستر پہ لیٹے لیٹے میری تمام ضروریات پوری کر رہے ہیں، الحمداللّٰہ مالی حالات ایسے ہیں کہ یہ فکر نہیں کہ اگر چند دن کام سے چھٹی کرنا پڑی تو گھر والوں کے کھانے پینے کا کیا ہوگا۔۔۔ تو یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جو بری باتیں ہیں، صرف ان کے بارے میں سوچتا رہے، یا جو اچھی باتیں ہیں ان کے بارے میں سوچتا رہے اور ان کو اپنے سامنے رکھے۔
اپنی سوچ کو آہستہ آہستہ مثبت طرف لے جانے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس بات کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے یاد کر کے کم از کم تین ایسی باتیں لکھیں جن کی وجہ سے آپ کو خوشی حاصل ہوئی ہو، جن کی وجہ سے آپ کو سکون مل رہا ہو، جن کی وجہ سے آپ دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہوں۔ ایسا کرتے رہنے سے وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی نظر اپنی زندگی میں مثبت چیزوں کی طرف جانے لگتی ہے اور پریشانی کی باتوں کی طرف سے ہٹنے لگتی ہے۔
اس کا ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا جس سے خود مجھے بہت سبق ملا۔ میری عادت ہے کہ روز کام سے گھر واپس آ کے گھر والوں اور اور بچوں سے ضرور پوچھتا ہوں کہ آج کا دن کیسا گزرا اور دن میں کیا کیا ہوا۔ ایک دن اسی طرح شام میں میں نے اپنی چھوٹی بیٹی سے جو اس وقت نو دس سال کی تھی پوچھا کہ (how is life?) "اور زندگی کیسی ہے؟" اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیاکہ میری زندگی میں صرف دو بری باتیں ہیں، (ایک تو یہ تھی کہ اس کی کسی دوست سے اس دن اسکول میں لڑائی ہو گئی تھی۔ دوسری مجھے یاد نہیں رہی۔) اور اتنی ساری اچھی باتیں ہیں کہ میرے ماں باپ مجھے سے بہت محبت کرتے ہیں، میری بہنیں مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں، ہمارا ایک اچھا گھر ہے، اچھی گاڑی ہے، وغیرہ وغیرہ، اسلیے میری زندگی بہت اچھی ہے۔
میں اتنی چھوٹی بچی کے منہ سے اتنی گہری بات سن کے حیران ہوا۔ پوچھنے پہ پتہ چلا کہ جب وہ اسکول سے آئی تو اس کا موڈ خراب تھا۔ اس کی ؓری بہن نے اس سے یہی پوچھا کہ اور زندگی کیسی ہے؟ تو اس نے یہ جواب دیا کہ میری زندگی بہت خراب ہے۔ پھر پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ اس کی اسکول میں اس دن اپنی کسی دوست سے لڑائی ہو گئی تھی۔ اس کی بڑی بہن نے اس سے پوچھا کہ اچھا بتاؤ کہ تمہاری زندگی میں کیا کیا بری باتیں ہیں۔ اس نے بہت سوچ کے دو بری باتیں بتائیں، ایک تو یہی کہ کسی دوست سے لڑائی ہو گئی۔ پھر اس کی بڑی بہن نے پوچھا کہ اچھا بتاؤ کہ تمہاری زندگی میں کیا کیا اچھی باتیں ہیں؟ اس نے بہت آسانی سے آٹھ دس باتیں گنوا دیں۔ پھر اس کی بہن نے پوچھا کہ اب بتاؤ کہ تمہاری زندگی میں دو بری باتیں، اور اتنی ساری اچھی باتیں ہیں، اب بتاؤ کہ تمہاری زندگی اچھی ہے یا بری ہے؟ پھر اس کی سمجھ میں بات آئی کہ ہاں میری زندگی تو بہت اچھی ہے۔ مجھے یہ سب قصّہ سن کے بہت سبق ملا کہ بہت دفعہ چھوٹے بچوں کی سمجھ میں وہ بات آ جاتی ہے جو بڑے بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔
۱۰۔ ان باتوں کو قبول کرنا سیکھیں جنہیں آپ بدل نہیں سکتے
ہم سب کی زندگی میں ایسے تکلیف دہ حالات پیش آتے ہیں جنہیں ہم چاہتے ہوئے بھی بدل نہیں سکتے، مثلاً کسی قریبی عزیز یا دوست کا انتقال ہو جائے، کبھی کسی کی ملازمت چلی جائے، کبھی کوئی اور نقصان ہو جائے۔ اب اس وقت دو صورتیں ہوتی ہیں، یا تو انسان اس حادثے کو روتا رہے اور اس سے آگے ہی نہ بڑھ سکے، یا پھر اس بات کو قبول کر لے کہ وہ سانحہ ہو چکا ہے اور یہ دیکھے کہ اب اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنےکے لیے وہ کیا کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان باتوں کو تسلیم کرنا سیکھنا پڑتا ہے جو اس کے اختیار میں نہ ہوں، اور ان باتوں کو پہچاننا اور ان پہ توجہ دینا پڑتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوں۔
سیرینٹی (سکون، serenity) کی دعا
کچھ دعائیہ الفاظ ہیں جنہیں رائن ہولڈ نائیبہر (Reinhold Niebuhr) سے منسوب کیا جاتا ہے جو یہ ہیں؛
"(او خدا) مجھے سکون عطا فرما کہ میں ان چیزوں کو قبول کر سکوں جنہیں میں بدل نہیں سکتا،
حوصلہ عطا فرما کہ میں ان چیزوں کو بدل سکوں جنہیں میں بدل سکتا ہوں،
اور عقل عطا فرما کہ میں ان دونوں میں فرق جان سکوں۔"
اس میں جو پہلا جملہ ہے تصوّف کی اصطلاح میں اسے تفویض کہا جاتا ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہے "سونپ دینا، سپرد کر دینا،" جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے اختیارات فلاں شخص کے سپرد کر دیے۔ تصوّف کی اصطلاح میں تفویض کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے سارے معاملات اللّٰہ جل شانہ کے سپرد کردے، اور یہ کہےکہ "یا اللّٰہ! میں نہیں جانتا کہ میرے حق میں کیا چیز بہتر ہے۔ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ میرے حق میں جو بہتر ہو میرے لیے وہ فیصلہ فرما دیجئے۔" اور اس طرح سے انسان اپنا ہر معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کردے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے میں اس سے خوش اور راضی ہوں۔
ہم اپنے مریضوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں کہ ایک صحت مند اور اچھی زندگی گزارنے کے لیے یہ فرق کرنا سیکھنا لازمی ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں کس طرح کی باتیں ہیں جو ہمارے اختیار میں ہوتی ہیں، اور کون سی باتیں ہیں جو ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں۔ پھر جو باتیں یا واقعات ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے انہیں تسلیم کرنا سیکھنا پڑتا ہےکہ اب ایسا ہو چکا ہے اور ہم جتنابھی رونا پیٹنا کر لیں جتنی بھی کوشش کر لیں وہ بات واپس پلٹ نہیں سکتی۔ اس لیے بہت زیادہ اور بہت طویل عرصے تک اس گزری ہوئی بات کا غم کرتے رہنے کے بجائے یہ زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ انسان یہ پہچانے کہ کون سی باتیں ہیں جو اس کے اختیار میں ہیں، اور ان باتوں کو بہتر کرنے کے لیے وہ کیا کوششیں کر سکتا ہے۔
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ کام ایسے ہیں جو کر کے ہرانسان خود اپنی ذہنی صحت کو بہتر کر سکتا ہے۔ میں پہلے صرف ان کاموں کی ایک فہرست بتاؤں گا، اور پھر اگلی کچھ تحریروں میں ان سب کی تفصیل بیان کروں گا۔
۱۔ اچھے لوگوں سے ملنا جلنا رکھیں، اور منفی مزاج کے لوگوں سے دور رہیں یا کم از کم ملنا جلنا کم کر دیں۔
۲۔ جسمانی طور پہ زیادہ چاق و چوبند ہوں اور باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔
۳۔ ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے اور نئی صلاحیتیں حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں۔
۴۔ دوسروں میں خوشیاں بانٹیں۔ ریسرچ سے ثابت ہے کہ جن لوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں، اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی خلوصِ نیّت سے کوشش کرتے ہیں، اس سے خود ان کی ذہنی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
۵۔ آپ کے پاس جو کچھ موجود ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، اس پہ نظر ڈالنے کی اور اس کا شکر ادا کرنے کی عادت ڈالیں۔ ہر وقت ان چیزوں کے لئے افسوس اور شکایت نہ کرتے رہیں جو آپ کے پاس نہیں ہے۔
(1) اچھے لوگوں سے ملنا جلنا رکھیں
پچھلے کچھ سالوں میں اکیلے پن اور تنہائی پہ کافی ریسرچ ہوئی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طویل عرصے کی تنہائی سے جسمانی اور ذہنی صحت دونوں پہ مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ البتّہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کس طرح کے تعلقات سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے، اور کس طرح کے تعلقات سے نقصان۔
اتنا تو ہر انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اس کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، اطمینان ہوتا ہے، خوشی ملتی ہے، اچھا لگتا ہے۔ اور کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے اس کو ذہنی تکلیف ہوتی ہے، اس کا موڈ خراب ہوتا ہے، اور اس کی پریشانی بڑھتی ہے۔ تو ظاہر ہے کہ کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان پہلی طرح کے لوگوں کے ساتھ زیادہ اور دوسری طرح کے لوگوں کے ساتھ کم وقت گزارنے کی کوشش کرے۔
بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ بہت دفعہ رشتہ داری کی نزاکتوں کی وجہ سے دوسری طرح کے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے گریز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم لوگ انہیں تب بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ ایسی صورت میں ان لوگوں سے کم بولنا، صرف ضروری باتوں کا جواب دینا، اور زیادہ طویل مباحث میں الجھنے بچنا تو پھر بھی ممکن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریسرچ سے ثابت ہے کہ جن لوگوں کے مزاج میں غصّہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ تنقید بہت زیادہ کرتے ہیں، ان سے ذہنی نقصان پہنچنے کا امکان اس پہ بہت منحصر ہوتا ہے کہ آپ ان کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ جتنا زیادہ وقت گزاریں گے، اتنا ہی ذہنی نقصان زیادہ پہنچے گا۔
کیا کرنا چاہئے:
۱۔ کوشش کریں کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔ بیشتر گھرانوں میں اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پورا گھر رات کا کھانا ایک ساتھ کھائے۔ اس وقت سب سے پوچھیں کہ ان کا دن کیسا گزرا، اور اپنے دن کی روداد سنائیں۔ اس وقت کسی کو بھی کھانے کی میز پہ بیٹھ کر اپنا موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، نہ بچوں کو اور نہ بڑوں کو۔
۲۔ اپنے اچھے دوستوں کے ساتھ مہینے ڈیڑھ مہینے میں ایک وقت کسی تفریح میں وقت گزارنے کی کوشش کریں۔
۳۔ اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر صرف ٹی وی نہ دیکھیں، بلکہ کوئی ایسی تفریح کریں مثلاً کوئی گیم کھیلیں جس میں سب شریک ہوں۔
۴۔ دن کا کھانا اکیلے نہ کھائیں، بلکہ کسی کام کے ساتھی کے ساتھ کھائیں۔
۵۔ یہ معلوم کریں کہ آپ کے خاندان، دوستوں یا جاننے والوں میں کوئی ایسا تو نہیں جسے کسی مدد کی ضرورت ہو، مثلاً بیمار ہو یا کسی اور پریشانی میں ہو۔ ان کے پاس جائیں، ان کی مشکل سنیں، اپنے اختیار کی حد تک ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے انسان کو خود بھی بہت نفسیاتی فائدہ پہنچتا ہے۔
۶۔ جو رشتہ داریا دوست دور کسی اور شہر یا کسی اور ملک میں رہتے ہوں ان سے بھی وقتاً فوقتاً واٹس ایپ یا فیس ٹائم یا اسی طرح کی کسی اور ایپ کے ذریعے باقاعدگی سے رابطے میں رہنے کی کوشش کریں۔
کیا نہیں کرنا چاہئے:
۱۔ آج کل انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی وجہ سے یہ بہت بڑی وبا پھیل گئی ہے کہ بہت سے لوگوں کی تمام دوستیاں انٹرنیٹ پہ ہونے لگی ہیں، اور ان کے تمام تعلقات انٹر نیٹ پہ ہی نبھائے جانے لگے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں، اور دوسرے اہلِ تعلقات کے ساتھ صرف ای میل یا ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے ہی رابطہ کرتے اور رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ جو تمام نئے دوست بناتے ہیں وہ انٹر نیٹ دوست ہی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا کہیں ایسی جگہ جانا آنا ہی نہیں ہوتا جہاں ان کی لوگوں سے دوستیاں ہو سکیں۔ فون پہ کسی سے بات کرنا بھی ان کے لئے ایک بہت بڑا بوجھ ہو جاتا ہے۔ ان کا لوگوں سے بالمشافہ ملنا جلنا اور بات چیت کرنا نہ ہونے کے برابر ہو گیا ہے۔
یاد رکھیں کہ انٹرنیٹ کی دوستیاں حقیقی دوستیاں نہیں ہوتیں۔ آپ کو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کا انٹرنیٹ دوست جو ہے وہ حقیقت میں جوزف ہے یا جولیا ہے۔ اور اس نے اپنا پروفائل بنانے میں مزید کتنی غلط بیانی کی ہے۔ دوستوں سے حقیقی زندگی میں ملیں، انٹرنیٹ پہ اپنی سوشل یعنی سماجی زندگی گزارنے کی کوشش نہ کریں۔
(2) جسمانی طور پہ زیادہ چاق و چوبند ہوں اور باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔
اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر کرنے اور برقرار رکھنے کے لئےانسان جتنے بھی کام خود کر سکتا ہے، ان میں سے باقاعدگی سے ورزش کرنا ایک اہم ترین اور آسان ترین کام ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ کہیں کہ اہم ترین تو ہو سکتا ہے، لیکن باقاعدگی سے ورزش کرنا آسان ترین کام کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بالکل جھوٹ ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ صحت کو بہتر کرنے کے لئے ورزش گاہ (جمنازیم) جانا ضروری ہے یا بھاری وزن اٹھانا ضروری ہے۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے روز مرہ کے معمولات اور ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیں کہ کون سی ورزش ایسی ہے جو آپ روزانہ نہیں تو ہفتے میں کم از کم پانچ دن کر سکتے ہیں، اور باقی تمام عمر کے لئے کر سکتے ہیں۔ صحت کو فائدہ پہنچانے کے لئے ورزش کا بہت زیادہ یا بہت شدید ہونا اتنا اہم نہیں، جتنا ہفتے میں کم از کم پانچ دن کے لئے ہونا، باقاعدگی سے ہونا، اور باقی تمام عمر کے لئے ہونا ضروری ہے۔
ریسیرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ ہفتے میں تین چار دن بھی پندرہ بیس منٹ کے لئے اتنی رفتار سے چہل قدمی یعنی واک کرنے کی عادت ڈال لیں کہ ان کو تھوڑا پسینہ آئے اور ان کا تھوڑا سانس پھولے، تو اس سے ان کی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
ہمارے بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے علاج کروانا شروع کرنے سے پہلے کبھی باقاعدگی سے ورزش نہیں کی ہوتی۔ ہم انہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ بتائیں کہ کون سی کم سے کم ایکسرسائز ہے جو آپ ہر ہفتے کر سکتے ہیں، اور اپنی باقاعدہ تمام زندگی کر سکتے ہیں؟ عام طور سے آخر میں یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ہفتے میں صرف دو یا تین دن واک کرنا شروع کریں گے، اور صرف دس یا پندرہ منٹ کے لئے کریں گے۔ جب وہ ایسا ڈیڑھ دو مہینے کے لئے کر چکے ہوتے ہیں اور ایساکرنا ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے، تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس کو تھوڑا سا بڑھائیں، مثلاً اگر ہفتے میں دو دن کرتے تھے تو تین دن کر لیں، یا دس منٹ کے لئے کرتے تھے تو پندرہ منٹ کے لئے کر لیں۔ اسی طرح ہر دو سے تین مہینے کے بعد ان سے اس ایکسرسائز کو آہستہ آہستہ بڑھانے کے لئے کہتے ہیں۔
ریسرچ یہ کہتی ہے کہ ایکسرسائز کا جو معمول صحت کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے وہ یہ ہے کہ انسان ہفتے میں ڈیڑھ سو منٹ (یعنی ڈھائی گھنٹے کے قریب) درمیانے درجے کی ایکسرسائز کرے۔ درمیانے درجے کی ایکسرسائز کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل کی رفتار ایک خاص حد تک بڑھے۔ دل کی رفتار تو چیک کرتے رہنا مشکل ہوتا ہے اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کو پسینہ آئے اور اس کا سانس تھوڑا پھولے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ہفتے میں پانچ دن ہر روز تیس منٹ کی ایکسرسائز کرنی چاہئے جس سے ڈیڑھ سو منٹ پورے ہو جاتے ہیں۔ اب جدید تحقیق یہ کہتی ہے کہ جو لوگ کام کے دنوں میں مصروفیت کی وجہ سے ایکسرسائز نہیں کر سکتے، وہ اگر ویک اینڈ یعنی ہفتہ واری چھٹی کے دنوں میں اتنی ایکسرسائز کریں کہ ڈیڑھ سو منٹ پورے ہو جائیں تو اس سے بھی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
تقریباً زیادہ تر لوگوں کے لئے سب سے آسان ایکسرسائز واک یعنی قدرے تیز رفتار سے چہل قدمی کرنے کی عادت ڈالنا ہے۔ آج کل بازار میں کافی سستے داموں ایسی گھڑیاں یا بازو پہ باندھنے والے بند مل جاتے ہیں جن سے انسان یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ روزانہ کتنے قدم چلا ہے۔ ایسی بے شمار اسمارٹ فون کی ایپس بھی مفت دستیاب ہیں۔ جن لوگوں کو پہلے سے ایکسرسائز کی عادت نہ ہو انہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ شروع میں چھوٹا ٹارگیٹ رکھیں مثلاً صرف تین ہزار قدم روزانہ چلنے کی عادت ڈالیں، اور ہر کچھ ہفتوں یا مہینوں پہ جیسے جیسے اس کی عادت ہوتی جائے اپنا ٹارگیٹ بڑھاتے جائیں۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ تقریباً ساڑھے سات ہزار قدم روزانہ چلنے سے صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے، اور اس کے بعد انسان جتنا بھی روزانہ چلنے کی عادت مزید بڑھاتا جائے، اس سے فائدہ مزید بڑھتا جاتا ہے۔
باقاعدگی سے ورزش کرنے کے کچھ فائدے
۱۔ ریسرچ سے ثابت ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں اس سے ان کے دماغ میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں جن کی وجہ سے ان کا موڈ بہتر ہوتا ہے، اور ڈپریشن اور گھبراہٹ دونوں کی علامات کم ہوتی ہیں۔ برطانیہ کے رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس کا کہنا ہے کہ ہر انسان اپنے موڈ کو بہتر کرنے کے لئے جو کام خود کر سکتا ہے ان میں سے ایک باقاعدگی سے ورزش کرنا ہے۔
۲۔ اس سے انسان کی خود اعتمادی بہتر ہوتی ہے۔
۳۔ جو لوگ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں ان کے لئے اپنی زندگی میں مختلف اہداف (goals) کا تعین کرنا اور ان کو حاصل کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
۴۔ اس سے انسان کی نیند بہتر ہوتی ہے جس کے بہت سارے ذہنی اور جسمانی فائدے ہوتے ہیں۔
(3) نیا علم حاصل کرتے اور نئی باتیں سیکھتے رہیں
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ مستقلاً اپنے علم کو اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، نئی باتیں اور نئے کام سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس سے ان کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے کیونکہ نئی صلاحیتیں حاصل کرتے رہنے سے؛
۱۔ ان کی خود اعتمادی بہتر ہوتی ہے اور ان کا اپنے آپ پر بھروسہ بڑھتا ہے۔
۲۔ ان کے سامنے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقصد رہتا ہے، اس لئے ان کو اپنی زندگی بے مقصد اور بے معنی نہیں لگتی۔
۳۔ اس کی وجہ سے ان کا لوگوں سے کنکشن یعنی رابطہ ہوتا رہتا ہے جس سے بھی ذہنی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
دماغ بھی ایک مشین ہے
ہم اپنے مریضوں کو مثال دیتے ہیں کہ کبھی آپ کے کسی قریبی عزیز یا جاننے والے کے ساتھ ہوا ہے کہ ان کے بازو یا ٹانگ کا فریکچر ہوا ہو اور اس کے بعد چھ آٹھ ہفتے پلاستر لگا رہا ہو؟ اس کے بعد جب پلاستر کاٹا جاتا ہے تو اس بازو یا کے ٹانگ کے مسلز (muscles) یعنی عضلات کس طرح دوسرے بازو، جو اس عرصے میں استعمال ہوتا رہا ہو، کے مقابلے میں پتلے اور کمزور ہو گئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنی گاڑی کئی مہینے کے لئے کھڑی چھوڑ گئے ہوں؟ جب آپ چھ مہینے بعد اسے اسٹارٹ کرنے یا چلانے کی کوشش کریں گے تو کیا ہو گا؟
بالکل اسی طرح دماغ بھی بھی مشین ہے ہے یا ایک مسل ہے۔ آپ اس کو جتنا استعمال کریں گے اتنا ہی یہ تندرست و توانا رہے گا، زیادہ مضبوط ہو گا۔ اور جتنا آپ اس کو چھوڑ دیں گے ، اس کو استعمال نہیں کریں گے، اتنا ہی یہ کمزور ہوتا جائے گا، اس کی طاقت کم ہوتی جائے گی۔ اور دماغ کی ایکسرسائز یہ ہے کہ انسان نئی نئی چیزیں سیکھنے کی کوشش کرے، نئی صلاحیتیں سیکھنے، نئی اسکلز (skills) حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ جو کام دماغ ایک دفعہ سیکھ چکا ہے اسے اگلے دس سال تک کرتے رہنے میں دماغ کی طاقت اتنی صرف نہیں ہوتی، بلکہ وقت کے ساتھ انسان اس کام کو کم از کم توجہ کے ساتھ کر سکتا ہے۔ دماغ کی اصل ایکسرسائز یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد اسے نیا چیلنج دیا جائے۔
کام چھوڑ کر مکمل وقت گھر بیٹھ جانے کے نقصانات
بعض ریسرچ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ فل ٹائم یعنی مکمل ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں، اور خصوصاً وہ لوگ جو اس کے بعد صرف گھر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کا کوئی بھی کام نہیں کرتے، اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذہنی صحت کے حساب سے انسان کی اینگزائٹی یعنی گھبراہٹ یا ڈپریشن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے انسان کی بوریت بڑھ سکتی ہے اور اس سے انسان ہر وقت تھکا تھکا محسوس کر سکتا ہے۔ البتّہ جو لوگ ریٹائر منٹ سے پہلے پلاننگ کر لیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کرنے کے لئے ایسی متبادل مصروفیات ڈھونڈھ کے رکھیں جو ان کے لئے بامعنی ہوں اور جن میں ان کی دلچسپی ہو، ان میں ذہنی صحت کے خراب ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کی سماجی یا سوشل مصروفیات پہلے سے کافی ہوں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہیں، ان میں ذہنی صحت مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
بعض ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کی عمر پہ پہنچنے کے بعد مکمل ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں، اور کسی قسم کی کوئی مصروفیات نہیں رکھتے اس سے ان کی موت جلدی واقع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کی ممکنہ وجوہات میں زندگی کا بے معنی اور بے مقصد ہوجانا، تنہائی اور اکیلے پن کا شکار ہو جانا، اور جسمانی ایکٹی وٹی یعنی حرکات مثلاً ورزش میں کمی ہو جانا شامل ہیں۔
دوسری طرف بعض ریسرچ یہ کہتی ہے کہ اگر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی مشغولیات میں حصّہ لینے لگیں جن میں ان کا دل لگتا ہو مثلاً کوئی اسپورٹس کھیلنے لگیں، گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ وقت گزارنے لگیں، اور ان کو ملازمت یا کاروبار کی وجہ سے جو ذہنی دباؤ رہتا تھا وہ ختم ہو جائے، تو ان کی صحت ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔
(4) دوسروں کو فائدہ پہنچائیں
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اس عمل سے خود ان کی اپنی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے، کیونکہ
۱۔ اس سے انسان کے اپنے دل و دماغ میں مثبت جذبات پیدا ہوتے ہیں، اور اس کو اطمینان ہوتا ہے کہ اس نے کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے۔
۲۔ اس سے انسان کو اپنی زندگی بامقصد معلوم ہوتی ہے، اور اس کی نظر میں اپنی قدر (self-esteem) میں اضافہ ہوتا ہے۔
۳۔ اس سے انسان کا لوگوں سے کنکشن یعنی رابطہ بڑھتا ہے اور اس سے بھی ان کی ذہنی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ انسان بہت مالدار ہو اور بہت سارا پیسہ دوسروں کو دے، بلکہ اس کی یہ بہت ساری صورتیں ہو سکتی ہیں جو بیشتر لوگ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے بس یہ ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس فکر میں رہے کہ وہ ایسا کیا کام کر سکتا ہے جس سے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچے، اس کو آرام ملے، اس کی تکلیف دور ہو۔
۱۔ جب انسان گھر میں ہو تو یہ دیکھے کہ وہ گھر کے ایسے کون سے کام کر سکتا ہے جو دوسرے گھر والوں کو پھر نہ کرنے پڑیں، اور اس سے ان کو آرام ملے اور راحت پہنچے۔
۲۔ اس کوشش میں رہے کہ یہ معلوم ہو کہ گھر والوں میں، خاندان میں، دوستوں میں، پڑوسیوں میں کوئی ایسی تکلیف یا پریشانی میں تو نہیں ہے جس کا وہ ازالہ کر سکتا ہو اور اس میں ان کی مدد کر سکتا ہو۔
۴۔ جو دوست یا رشتہ دار پریشانی میں ہوں، ان سے تعلق رکھے، ان سے ملتا جلتا رہے، تا کہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ بالکل اکیلے یا تنہا رہ گئے ہیں۔
۵۔ دوستوں اور رشتہ داروں کی مدد صرف پیسے سے کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرا ہمدردی سے ان کی بات سنے، ان کو تسلّی دے، ان کا غم بٹائے، ان کو وقت دے۔ ایسا کرنے سے بھی ان کو بہت سہارا ہو جاتا ہے۔
۶۔ اگر اس کے پاس فارغ وقت ہو تو والنٹری کام کرے یعنی بغیر کسی معاوضے کے خدمتِ خلق کے کام کرے۔ اگر قریب میں کوئی ایسی ایسوسی ایشن ہو جو رفاہِ کام کے کرتی ہو تو ان کو اپنا وقت دے۔
(5) حال (present) میں زندہ رہنا سیکھیں (mindfulness)
ریسرچ سے اس بات کا بھی واضح ثبوت ملتا ہے کہ جب انسان اپنے حال یعنی موجودہ لمحے پہ توجہ دینے لگتا ہے تو اس سے اس کی ذہنی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس میں یہ تمام باتیں شامل ہیں کہ انسان ان خیالات پہ توجہ دے جو اس کے دماغ میں آ جا رہے ہیں، ان جذبات پہ توجہ دے جو اس لمحے اس کے دل میں ہیں، اپنے بدن پہ توجہ دے کہ اس کے اعضاء اس وقت کس کیفیت میں ہیں، اعضاء سے اسے کس طرح کے سگنل آ رہے ہیں مثلاً آرام کے یا بے آرامی کے، اور اس کے اردگرد کی دنیا میں اس وقت کیا موجود ہے۔
سائیکائٹری اور سائیکولوجی کی اصطلاح میں اسے مائنڈفل نیس (mindfulness) کہا جاتا ہے۔ اس کا براہِ راست اردو ترجمہ تو مشکل ہو گا لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان بجائے ماضی کی فکر میں گھلتے رہنے یا مستقبل کے اندیشوں کے بارے میں پریشان ہوتے رہنے کے بجائے حال میں زندہ رہنا سیکھے۔ اس سے انسان زندگی سے بھی زیادہ لطف اندوز ہو پاتا ہے،اور اپنے آپ کو بھی بہتر طور پہ سمجھ پاتا ہے۔
مائنڈ فل نیس (mindfulness) کیا ہے؟
مائنڈ فل نیس کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان زندگی کے ہر لمحے اس بات پہ توجہ دے، اس سے باخبر رہے، کہ اس کے اندر کیا ہو رہا ہے، اور اس کے باہر اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ بہت دفعہ ہم اپنے خیالات میں، اپنی پریشانیوں میں، اپنی الجھنوں میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا سے بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں۔ ہم اس بات سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں کہ ہمارا جسم کیسا محسوس کر رہا ہے۔ ہم صرف اپنے دماغ میں اپنی سوچوں میں زندہ رہنے لگتے ہیں، اپنے خیالات میں کھوئے رہنے لگتے ہیں، اور ایک لمحے کے لئے رک کے اس بات پہ بھی توجہ نہیں دیتے کہ ہمارے ان خیالات کا ہمارے جذبات پہ، ہمارے رویّے پہ کیا اثر پڑ رہا ہے۔ ہم اپنے ہی خیالات و احساسات اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں۔
مائنڈ فل نیس کا ایک اہم جز یہ ہے کہ ہم اپنے جسم سے دوبارہ ہم آہنگ ہوں اور یہ جانیں کہ ہمارے جسم ودماغ میں کس طرح کے مختلف سگنل آ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس پہ توجہ دیں کہ ہماری آنکھ کیا دیکھ رہی ہے، ہمارے کانوں میں ماحول کی کیا آوازیں آ رہی ہیں، ہمارے منہ میں ذائقہ کیسا ہے، ہماری ناک میں ماحول سے کس طرح کی خوشبوئیں آ رہی ہیں، اگر ہمارے ہاتھ کسی چیز کو چھو رہے ہیں تو اس کو چھونے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔
مائنڈفل نیس کا ایک اور بہت ہم جزو یہ ہے کہ ہم لمحہ بہ لمحہ اس بات سے آگاہ ہوں کہ ہمارے دماغ میں کس طرح کے خیالات آ جا رہے ہیں، اور ہمارے دل میں کس طرح کے جذبات گزر رہے ہیں۔
مائنڈ فل نیس (mindfulness) سے ذہنی صحت کیسے بہتر ہوتی ہے؟
جب ہم اپنے حالیہ لمحے میں زیادہ حاضر یا موجود ہوتے ہیں تو ہم ان چیزوں اور باتوں کو زیادہ دیکھنے اور محسوس کرنے لگتے ہیں جن کو پہلے ہم نے سرسری نظر سے دیکھا تھا اور نظر انداز کر دیا تھا۔ ہماری زندگیوں میں ہر وقت کچھ اچھی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ بری یا ناپسندیدہ باتیں ہوتی ہیں۔ عام طور سے انسان تکلیف اور پریشانی کی باتوں میں اس قدر کھویا اور الجھا رہتا ہے کہ اسے وہ اچھی چیزیں اور باتیں نظر ہی نہیں آتیں جو اس کی زندگی میں موجود ہوتی ہیں، لیکن وہ ان کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہوتا۔ جب انسان ایک اپنی پریشانی کے خیالات کے بھنور سے ایک قدم پیچھے ہٹ کے نئے سرے سے اپنے ماحول کو دیکھ پاتا ہے تو اسے ایک نیا احساس ہوتا ہے کہ عین اس کی پریشانی کی حالت میں بھی اس کے پاس محبت کرنے والے گھر والے ہیں، محبت کرنے والے دوست ہیں، اچھی ملازمت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا بار بار دھیان کرنے سے اس کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور اس کے لیے پریشانی کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
مائنڈفل نیس کے ذریعے ہمیں اپنے ذہن میں گزرنے والے خیالات اور جذبات کی رو کا زیادہ بہتر ادراک ہوتا ہے، اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم کیسے غیر اختیاری پہ ان پریشان کن خیالات کی دلدل میں ایسے دھنس جاتے ہیں کہ اس سے حالات اور خراب ہونے لگتے ہیں۔ مائنڈ فل نیس کی مشق کے ذریعے جب انسان ایک قدم پیچھے ہٹ کے اپنے حالات اور خیالات کا معروضی اور غیر جذباتی جائزہ لیتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے خیالات شاید سو فیصد اور مکمل خراب نہیں ہیں، بلکہ ان حالات کے کچھ اچھے پہلو بھی ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے حالات بہتر کر سکتا ہے۔
ہم اپنے اندر مائنڈ فل نیس (mindfulness) کیسے پیدا کریں؟
مائنڈ فل نیس پیدا کرنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو یاد دلاتا رہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ارادی طور پہ اپنے خیالات، اپنے جذبات، اپنے بدن سے آنے والے سگنلز، اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی طرف توجہ دیتا رہے، اور ہر وقت غیر ارادی طور پہ اپنے خیالات میں نہ کھویا رہے۔
۱۔ اپنے روز مرّہ کے ماحول پہ توجّہ دیں۔
جب آپ اپنے روز مرّہ کے کام کر رہے ہوں تو اپنے ارد گرد کے ماحول سے آنے والے احساسات پہ توجّہ دیں، مثلاً آپ جو کھانا کھا رہے ہیں وہ آپ کی زبان پہ کیسا محسوس ہوتا ہے، اس کا ذائقہ کیساہے، ہم جس کرسی پہ بیٹھے ہیں اس پہ بیٹھ کے کیسا محسوس ہوتا ہے، ہم جب چلتے ہیں تو ہمارے بدن سے ٹکرا کے چلنے والی ہوا کیسے محسوس ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بنیادی طور سے اس کا مقصد یہ ہے کہ ماضی کے پچھتاووں یا مستقبل کے اندیشوں کی فکر میں کھوئے رہنے کے بجائے اپنے حالیہ لمحے (present moment) پہ توجّہ دیں۔
۲۔ مائنڈ فل نیس کی مشق کرنے کے لیے روز کا ایک وقت مقرّر کر لیں۔
جب انسان بہت زیادہ مصروف یاپریشان رہتا ہے تو عام طور سے وہ اپنے لیے اور اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے کوئی وقت نہیں نکالتا۔ اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ انسان دن کا ایک وقت مقرّر کر لے، مثلاً صبح سویرے کی واک، گھر سے کام کا سفر، یا کام پہ لنچ بریک کا وقفہ، اور اس میں پہلے سے یہ فیصلہ کر لے کہ روزانہ اس وقت میں وہ اپنے دل و دماغ میں آنے والےخیالات و جذبات، اپنے بدن میں پیدا ہونے والے احساسات اور ادراک، اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے آنے والے احساسات پہ توجہ دیا کرے گا۔
۳۔ نئے کام کرنے اور روز مرہ کی یکسانیت میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔
بہت دفعہ انسان ایسی روٹین یا معمول کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ روزانہ وہی سب کام سارا دن بغیر سوچے ہوئے غیر ارادی طور پہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مائنڈ فل نیس کی مشق بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً اپنے معمول کو بدلیں۔ اگر کسی کمرے میں اکثر میٹنگ کے لئے جاتے ہیں تو اپنی معمول کی کرسی اور جگہ سے ہٹ کے کسی دوسری جگہ یا کرسی پہ بیٹھیں۔ اگر کہیں باہر کھانا کھانے کے لیے اکثر کسی ایک ہی جگہ جاتے ہیں تو اس جگہ کو بدلیں، کبھی کسی دوسری جگہ جائیں۔ اگر کسی ایک مخصوص راستے سے کام پہ آتے جاتے ہیں تو وقتاً فوقتاً اس راستے کو بدل کے کسی دوسرے راستے سے جائیں۔ اس طرح اپنے روز مرہ کے لگے بندھے معمول کو بدلنے سے آپ کو دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے میں مدد ملے گی۔
۴۔ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات پہ توجہ دیں۔
بعض لوگوں کے لئے مائنڈ فل نیس (mindfulness) کی مشق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جیسے ہی وہ اپنے کام سے فارغ ہو کے اپنے خیالات کی طرف توجّہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، ویسے ہی ان کے دماغ میں بہت سارے پریشانی کے خیالات آنے لگتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مائنڈ فل نیس کا مقصد اپنے ذہن کو ان خیالات سے خالی کرنا نہیں ہے۔ بلکہ آپ زبردستی اپنے ذہن کو ان خیالات سے خالی رکنے کی جتنی کوشش کریں گے اتنا ہی یہ خیالات اور آئیں گے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات کو اس طرح سے غیر جانب دار ہو کے ایک اجنبی کی طرح اس طرح سے دیکھیں کہ جیسے کوئی دریا کے کنارے کھڑے ہو کے اس میں بننے والی لہروں کو دیکھتا ہے۔ ان خیالات کو ایسے بغیر کسی جذباتی ردِّ عمل کے دیکھتے رہیں اور ان کو اپنے دماغ سے گزرنے دیں۔ شروع میں ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ انسان پریشانی کے خیالات میں الجھتا ہے، لیکن مشق کے ساتھ انسان ایسا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ اتنی دیر کے لیے اپنے ذہن سے گزرنے والے ان خیالات کو غیرجذباتی ہوئے دیکھ سکے کہ اچھا اب میرے دماغ میں یہ خیالات آ رہے ہیں، اب میرے دماغ میں یہ خیالات آ رہے ہیں۔ مائنڈ فل نیس کا مقصد اپنے ذہن میں گزرنے والے خیالات سے آگاہ ہونا ہے، ان خیالات سے جنگ لڑنا نہیں۔
بعض لوگوں کے لیے، خصوصاً جن کا دماغ بہت زیادہ خیالات میں الجھا رہتا ہے، یہ مشق اس وقت کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے جب وہ ہلکی پھلکی چہل قدمی کر رہے ہوں یا یوگا کر رہے ہوں۔
۵۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کی فکروں سے آزاد کر لیں۔
مائنڈفل نیس کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان ماضی کی پریشانیوں میں گھلتے رہنے اور مستقبل کی فکروں میں گرفتار رہنے کے بجائے حال (present) میں جینا شروع کرے۔ کوشش کریں کہ جس وقت آپ مائنڈ فل نیس کی مشق کر رہے ہوں اس وقت اتنی دیر کے لیے آپ ماضی کی پریشانیوں کے بارے میں نہ سوچیں کہ میری زندگی میں پہلے کیا کیا غلطیاں اور بری باتیں ہو چکی ہیں،مستقبل کی فکروں کے بارے میں نہ سوچیں کہ آئندہ یہ تو نہیں ہو جائے گا، وہ تو نہیں ہو جائے گا، بلکہ اس پہ ساری توجہ دیں کہ اس وقت میں کہاں موجود ہوں،میرے جسم پہ ہوا کیسی محسوس ہو رہی ہے، میری آنکھیں کیا دیکھ رہیں، میری ناک کیا سونگھ رہی ہے، میرے کان کیا آوازیں سن رہے ہیں؟ اس سے آپ کو اپنے آپ کو حال میں لانے میں مدد ملے گی۔
مسلمانوں کے لیے مائنڈ فل نیس (mindfulness) کا بہترین طریقہ
(میں عام طور سے سائیکائٹری اور مذہب کو مکس کرنے سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مریضوں میں ہر مذہب اور بہت سے لا مذہب لوگ بھی ہوتے ہیںِ اور ہمیں سب کا علاج غیر جانبداری سے اور اپنے عقائد کو درمیان میں لائے بغیر کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے دین کی بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن سے انسان کو بہت زیادہ نفسیاتی اور روحانی فائدہ پہنچتا ہے، ا سلیے کبھی کبھی ان کو اس پیرائے میں شیئر کر لیتا ہوں۔)
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ واقعہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ اور ان کے سسر ڈپٹی سجادؒ صاحب کا ہے۔ اگر مجھے غلط یاد ہو تو جن کو صحیح نام معلوم ہوں برائے مہربانی تصحیح کر دیں۔ بہر حال خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کے سسر ان کے ہاں آ کے مہمان ہوئے۔ رات میں انہوں نے دیکھا تو ڈپٹی سجاد صاحب بستر پہ آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے اور بار بار اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر پڑھ رہے تھے۔ اگلے دن انہوں نے پوچھا کہ حضرت یہ آپ کیا کر رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ "بھائی، دن بھر میں تو ملازمت کی مصروفیت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا موقع ملتا نہیں۔ اس لیے میں نے یہ معمول بنا لیا ہے کہ روز رات کو سونے سے پہلے تھوڑی دیر اس کے لیے وقت رکھتا ہوں کہ میرے حال پہ اللّٰہ تعالیٰ ان میں سے ایک ایک کو سوچ کے یاد کرتا ہوں، اور اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔" مثلاً یہ خیال آیا کہ گھر والے اچھے ہیں، فوراً کہا اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر، بچے اچھے ہیں، اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر، گھر اچھا ہے، اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر، ملازمت اچھی ہے اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر، گاڑی اچھی ہے اللّٰھم لک الحمد و لک الشکر۔ بس اس طرح انسان اپنے حال پر اللّٰہ تعالیٰ کی ایک ایک نعمت کو سوچے اور اس پہ شکر ادا کرے۔
ابتدا میں بہتر ہوتا ہے کہ انسان دن کا ایک وقت مقرر کر لے، مثلاً صبح سویرے کا یا رات سونے سے پہلے، اور اس وقت اللّٰہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں اس کے حال پہ ہیں، ان کو ایک ایک کر کے یاد کرے، اور ان کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ جب انسان کو ایسا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ ایسا خود بخود بھی ہونے لگتا ہے، اور ارادی طور پہ خود بھی کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے، کہ دن بھر میں جو بھی بات خوشگوار ہو اور انسان کی مرضی کے مطابق ہو انسان اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ مثلاً کوئی کام جو مشکل سے ہونا تھا بہت آسانی سے ہو گیا، اپنا یا بچوں کا امتحان کا نتیجہ اچھا آیا، اچھی ملازمت مل گئی، ملازمت میں ترقی ہو گئی، گھر میں یا خاندان میں کوئی خوشی کی خبر سنی، موسم خوشگوار ہو گیا، کسی بیماری کا ڈر تھا لیکن وہ دور ہو گیا، مختصراً یہ جو بھی اچھی بات ہو انسان اس پہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔
جب انسان کی نظر اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پہ رہنے لگتی ہے تو پھر یہ ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں اس کی مثکلات اور آزمائشیں بھی آسان ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عین کسی بڑی پریشانی یا بیماری کے عالم میں بھی وہ دیکھتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتیں اس پہ نازل فرما رکھی ہیں تا کہ اس کے لیے اس آزمائش سے گزرنا آسان ہو جائے۔ مثلاً انسان بیمار ہے، لیکن محبت کرنے والے خیال کرنے والے گھر والے ہیں، بیماری ایسی ہے جس کا علاج موجود ہے، ملازمت ایسی ہے کہ بیماری کے باوجود گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی ہے، آرام کرنے کو آرام دہ گھر آرام دہ بستر موجود ہے۔ عین تکلیف اور آزمائش کی حالت میں ان سب نعمتوں کو یاد کرنے سے انسان کی بیماری کی شدت بہت کم ہو جاتی ہے، اور ا س تکلیف سے گزرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ انسان کو شکر کی عادت پڑ جائے تو اس کی زندگی جنّت ہو جاتی ہے، اس لیے کہ کوئی تکلیف تکلیف نہیں رہتی، لیکن یہ ایسی کیفیت ہے جو اس سے گزرنے سے ہی سمجھ آتی ہے، اس کو صرف قیل و قال کے ذریعے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔
کن عادتوں کو اپنانے سے آپ کی نیند بہتر ہو سکتی ہے؟
کیا کرنا چاہیے؟
- کوشش کریں کہ آپ کا بستر اور سونے کا کمرہ آرام دہ ہوں۔ جہاں تک ممکن ہو، رات میں کمرے میں بہت زیادہ شور نہ آئے، کمرہ بہت ٹھنڈا نہ ہو اور بہت گرم نہ ہو۔
- باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں، نیند لانے کا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ لیکن رات کو سونے سے فوراً پہلے بہت زیادہ ورزش نہ کریں کیونکہ اس سے نیند کے اڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
- رات کو بستر پہ جانے سے پہلے کچھ وقت رکھیں جس میں آپ اپنے آپ کو ریلیکس کر سکیں، یا جس کو ڈاؤن ٹائم (down time) کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو سونے سے پہلے کوئی کتاب پڑھنے یا سننے سے سکون ہوتا ہے، اور ان کے لیے سونا آسان ہو جاتا ہے۔ آج کل ایسی موبائل ایپس بھی ملتی ہیں جن سے سونے میں مدد ملتی ہے۔
- اگر آپ کسی وجہ سے پریشان ہوں لیکن رات سونے سے پہلے اس کے بارے میں کچھ نہ کر سکتے ہوں، تو اسے ایک نوٹ بک یا ڈائری میں لکھ لیں کہ آپ اگلے دن اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
- اگر آپ کو بستر میں لیٹے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہو اور نیند نہ آ رہی ہوتو مزید بستر میں لیٹے رہنے کے بجائے اٹھ جائیں۔ کوئی ایسا ہلکا پھلکا کام کریں جس سے آپ ریلیکس ہوں، جس سے آپ کو سکون ملے۔ پھر جب نیند آنے لگے تو دوبارہ بستر پہ جائیں۔
کیا نہیں کرنا چاہیے؟
- وقت بے وقت مت سوئیں۔ اپنے سونے جاگنے کا ایک روٹین یعنی نظم الاوقات بنائیں۔ ہفتے کے ساتوں دن اسی وقت پہ سونے کے لیے بستر میں جائیں،اور ساتوں دن اسی وقت پہ صبح بستر سے نکل جائیں، چاہے کسی صبح آپ کو تھکن ہی کیوں نہ محسوس ہو رہی ہو۔
- بغیر سوئے بہت طویل وقت مت گزاریں۔ اس سے دماغ میں نیند کا نظم الاوقات یا سلیپ آرکیٹیکچر (sleep architecture) خراب ہو جاتا ہے۔
- کیفین کو بدن سے خارج ہونے میں چائے یا کافی کی آخری پیالی کے بعد بھی کئی گھنٹے لگتے ہیں۔ اب بہت سے ٹھنڈے مشروبات مثلاً کوکا کولا یا یا انرجی ڈرنکس مثلاً ریڈ بل وغیرہ میں بھی کیفین ہوتی ہے۔کیفین دماغ کو چوکنّا کر دیتی ہے اور نیند کو دور کر دیتی ہے۔ دوپہر چار پانچ بجے کے بعد چائے کافی نہ پیئیں ورنہ اس سے آپ کی رات کی نیند خراب ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی گرم مشروب پینے کو دل چاہے تو گرم دودھ پی لیں۔ رات کے وقت گرم دودھ پینے سے ویسے بھی نیند آنے میں مدد ہو سکتی ہے۔
- زیادہ الکحل نہ پیئیں۔ اس سے اس وقت تو نیند آ جائے کی لیکن اس بات کا بہت زیادہ امکان ہو گا کہ رات میں آپ کی نیند خراب ہو جائے۔
- رات کابھاری کھانا بہت دیر سے نہ کھائیں، بلکہ کوشش کریں کہ اسے سونے کے وقت سے تقریباً تین گھنٹے پہلے تک کھا لیں۔ بھرپور کھانا بہت دیر سے کھانے سے بدہضمی بھی ہوتی ہے اور نیند بھی خراب ہوتی ہے۔
- اگر کسی رات کسی وجہ سے آپ کو خراب نیند بھی آئی ہے تو کوشش کریں کہ اگلے دن دوپہر میں نہ سوئیں، ورنہ آپ کی اگلی رات کی نیند بھی خراب ہو گی۔
- نشہ آور اشیاء مثلاً کوکین، ایمفیٹامینز (amphetamines)، یا ایکسٹسی (ecstasy) کے استعمال سے بھی نیند خراب ہوتی ہے۔
جواب:
The primary treatment of phobia is counter-phobic behaviour.
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا مجبور کرنا شروع کرے اور
وہ کام کرنا شروع کرے جس سے اس کو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پہلے ایک فہرست بنا لے جس میں سے اوپر یہ لکھے کہ کس کام کے کرن سے مثلاً دو دوستوں کے ساتھ باہر چائے پینے جانے سے سب سے کم گھبراہٹ ہوتی ہے، اور پھر بتدریج وہ کام لکھے جن سے اس کو زیادہ گھبراہٹ ہوتی ہے مثلاً آخر میں یہ ہو گا کہ پچاس لوگوں کے سامنے اسٹیج پہ کھڑے ہو کے تقریر کرنا۔ پھر ان کاموں سے شروع کرے جن سے سب سے کم گھبراہٹ ہوتی ہے۔ جب بار بار وہ کام کرنے کے بعد ان سے گھبراہٹ آہستہ آہستہ کم ہونے لگےتو اب وہ کام کرے جو فہرست پہ اس کے بعد ہے۔ اس طریقے سے گھبراہٹ سو فیصد ختم تو نہیں ہوتی لیکن آہستہ ةمستہ کم ہونے لگتی ہے اور جو کام پہلے چھوڑ دیے تھے ان کو کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
ہم اپنی سوچوں کو بدل کے اپنی زندگی کو خود کیسے خوشگوار بنا سکتے ہیں؟
ہم اپنے خیالات کو خود کیسے مثبت بنا سکتے ہیں؟
ہم اپنے ڈپریشن کو بہتر کرنے کے لیے خود کیا کر سکتے ہیں؟
ہم اپنی اینگزائٹی کو کم کرنے کے لئے خود کیا کر سکتے ہیں؟
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک مریض سے اس کی تعریف کی کہ اس نے الکحل پینا چھوڑ دی، نشے کی دوائیں استعمال کرنا چھوڑ دیں، لگ کر اپنا علاج کروایا، اپنی پوری زندگی کی ڈگر کو تبدیل کیا،اور اب ماشاٴ اللّٰہ سے اس کی فل ٹائم بہت اچھی جاب ہے۔ اتنی بڑی تبدیلیاں لانا، اور پھر ان کو قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس نے کہا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ میں تین سال پہلے کر لیتا تو میری فیملی نہ ٹوٹتی اور آج میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہوتا۔
میں نے اس سے کہا کہ بات تو اس کی حقیقت کے اعتبار سے ٹھیک ہے، لیکن اب اس کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ باقی تمام عمر جو رہ گئی ہے وہ یہی افسوس کرتے کرتے گزار دے کہ کاش میں اس وقت یہ کر لیتا، اور فلاں وقت وہ نہ کرتا۔ وہ اگر روز دن بھر اور اگلی ساری عمر یہی افسوس کرتے بھی گزارے تو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ کیا اس کا ماضی اس افسوس کرنے سے تبدیل ہو جائے گا یا اچھا ہو جائے گا؟
اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ اب تک جو ہو گیا سو ہو گیا، لیکن آج سے میری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ میں اپنے "آج" کو کیسے بہتر کر سکتا ہوں؟ آج میں کیا کام کروں کہ مجھے لگے کہ میری زندگی اب اچھی ہے۔ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ اور پھر روز صبح اٹھ کے یہی سوچے کہ آج کا دن میں کیسے گزاروں کہ میری زندگی اچھی ہو، میں اس سے خوش ہوں۔ جب وہ کچھ عرصہ تک ایسا کرتا رہے گا تو اس کا ماضی بھی اچھا ہو جائے گا، کیونکہ جو اس کا آج ہے وہ (آنے والے) کل (گزرا ہوا) کل یعنی ماضی ہو جائے گا۔ اور اگر آج اچھا گزارے گا تو بہت امید ہے کہ اس کا مستقبل بھی اچھا ہو جائے گا، کیونکہ آج ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کا ہمارے آنے والے کل پہ بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔
اس نے فوراً کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ اب باقی کی زندگی میں آگے دیکھتے ہوئے گزاروں گا، پیچھے دیکھتے ہوئے نہیں گزاروں گا۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ اب بھی اپنے اس ارادے پہ قائم ہے۔
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
ایک دفعہ میں نے اپنے کسی دوست سے ہمدردی کا اظہار کیا جنہیں گاؤٹ (جوڑوں کی ایک بیماری جس میں جوڑ سرخ ہوجاتے ہیں، سوج جاتے ہیں اور ان میں شدید درد ہوتا ہے) کہ آپ کو تو بہت شدید تکلیف ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ تکلیف تو ہے، لیکن اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ نے اتنا سہولت کا سامان کر رکھا ہے کہ میری جاب ایسی ہے کہ میں اس اٹیک کی وجہ سے تین چار دن چھٹی بھی کروں تو تو تنخواہ نہیں کٹے گی، گھر میں بچے ہیں جن کی وجہ سے دل کو راحت ہے، محبت کرنے والی بیوی ہےجس کی وجہ سے مجھے بستر پہ لیٹے لیٹے تازہ پکا ہوا گرم کھانا مل رہا ہے۔ بیماری بھی ایسی ہے کہ جس کی دوا بھی موجود ہے، اور جب وہ ٹھیک ہو جاتی ہے تو علامات بالکل ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جان کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب ایک تھوڑی سی درد کی تکلیف ہے تو میں اس کی کیا شکایت کروں۔
ان کی بات سن کے مجھے احساس ہوا کہ سائیکائٹری اور سائیکولوجی میں ہم بڑی بھاری بھرکم مشکل سی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں، لیکن کوگنیٹو تھراپی (cognitive therapy) کی حقیقت بس اتنی ہی ہے کہ بالکل ایک جیسی صورتحال میں دو لوگوں کے خیالات مختلف ہو جانے کی وجہ سے ان کے جذبات و احساسات بالکل بدل جاتے ہیں۔ جو آدمی اس طرح سے سوچتا ہے جیسے میں نے اوپر نقل کیا، اس کو جسمانی تکلیف تو ہے، لیکن دل و دماغ میں مکمل سکون اور اطمینان ہے۔ اس کو نہ ڈپریشن ہے، نہ اینگزائٹی ہے۔ اس کے برعکس بالکل اسی صورتحال میں ایک انسان یہ سوچتا رہے اور کڑھتا رہے کہ مجھے یہ بیماری ہوئی ہی کیوں؟ فلاں کو کیوں نہیں ہوئی؟ اس کا اٹیک بار بار کیوں ہو جاتا ہے؟ دوا لمبے عرصے کے لیے کیوں کھانی پڑتی ہے؟ اس عذاب سے میری جان کب چھٹے گی؟ تو نہ صرف اس کو جسمانی تکلیف زیادہ ہو گی، بالکل وہ شدید گھبراہٹ، پریشانی، بے چینی، بے سکونی میں بھی مبتلا رہے گا۔
یہی بات ہم اپنے مریضوں کو سکھاتے ہیں کہ جب کوئی مشکل آئے تو یہ سوچو کہ تمہارے پاس اس وقت آرام کے، سکون کے، ذرائع کتنے ہیں؟ ایک تکلیف تو ہے، لیکن زندگی میں اچھی باتیں کتنی ہیں؟ جب ایسا سوچو گے تو تمہاری توجہ خود بخود اپنی تکلیف سے ہٹنا شروع ہو جائے گی، اور سکون ملنا شروع ہو جائے گا۔ بس یہ ہے کہ سوچ اور زاویہ نگاہ کی یہ تبدیلی ایک دو دفعہ کوشش کرنے سے نہیں ہوتی، اس کے لئے کافی عرصہ مشق کرنی پڑتی ہے۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
برطانیہ کا رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس کہتا ہے کہ ہر انسان یہ تین کام کر کے اپنے موڈ کو بغیر کسی دواؤں کے بہتر کرسکتا ہے۔
۱۔ مصروف رہنا:
اگر آپ ایک گاڑی کو کہیں کھڑا کر کے چھوڑ دیں اور اسے چھ مہینے تک نہ چلائیں، تو اس کے بعد بہت امکان ہے کہ اگر آپ کوشش بھی کریں گے تو وہ اسٹارٹ نہیں ہو گی اور اس کی باڈی زنگ کھا چکی ہو گی۔ بالکل اسی طرح انسان کا دماغ اور اس کا جسم بھی ایک مشین ہیں۔ اگر آپ ان کو کچھ عرصے تک استعمال نہیں کریں گے تو یہ کمزور اور ناکارہ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ میری ایک پرانی مریضہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں جتنا مصروف رہتی ہوں، میری طبیعت اتنی ہی اچھی رہتی ہے۔ یہ بات سو فیصد حقیقت ہے۔ کوشش کریں کہ دن کا کافی حصّہ مصروف رہیں۔ اگر جاب یا پڑھائی نہیں کرتے تو والنٹیئری کام کر لیں۔ کچھ نہ کچھ مصروفیت ڈھونڈھیں۔ بالکل فارغ نہ رہیں۔
۲۔ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں:
اس پہ بھی وہی مشین والی مثال صادق آتی ہے۔ انسان کا جسم جتنا صحت مند اور چست رہتا ہے، عام طور سے اس کی ذہنی صحت پہ اس کا بہت مثبت اثر پڑتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جمنیزیم جانا اور لمبی چوڑی ورزشیں کرنا ضروری نہیں۔ ریسرچ کہتی ہے کہ جو لوگ ہفتے میں صرف تین دن بھی بیس سے تیس منٹ روزانہ تیزی سے واک کرتے ہیں، ان کی گھبراہٹ اور اداسی اس سے کم ہوتی ہے۔
۳۔ ایسے کاموں میں وقت گزاریں جن میں آپ کا دل لگتا ہو:
ہر انسان کو نوکری یا بزنس کے علاوہ کچھ نہ کچھ ہابیز یا دلچسپیاں رکھنی چاہیئیں، چاہے وہ کوئی اسپورٹس کھیلے، دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارے، کتابیں پڑھے، کسی والنٹیری کام میں حصّہ لے۔ اس کا انسان کا ذہنی صحت پہ بہت فائدہ مند اثر ہوتا ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
Remain busy physically and mentally. Human body and mind are like any other machine. If you keep using it, it will keep functioing. if you stop using it, it will start getting rusty.
Do regular physical exercise. It does not mean you have to start going to the gym every day. Even brisk walking 3-4 times per day, upto 20-30 minutes each time, has been shown to improve a person's mood.
Spend some time in doing things that you enjoy. It is very healthy to have interests outside of work.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی تفصیل کے لئے یہ یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
لوگوں سے بات کرنے سے دل ہلکا ہوتا ہے
سیلف ہیلپ گروپ
ریلیکسیشن ایکسرسائزز
باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں
Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی نیند کو بہتر کرنے کے لئے، بغیر دواؤں کا سہارا لیے، خود کیا کر سکتے ہیں
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
For details please see this video
In this video principles of sleep hygiene have been described such as establishing good sleeping habits, stimulus control, relaxation training and sleep restriction, etc
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے سے ذہنی صحت پہ کیا مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔