حضرت تھانویؒ نے فرمایا: "شرعاً وہ حرص حرص ہی نہیں جس کے مقتضا پہ عمل نہ ہو۔ حرصِ شرعی وہی ہے جس سے دنیا کو دین پر ترجیح ہونے لگے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ “ہم کو مال کی احتیاج بھی ہے اور اس کے ملنے پہ طبعی خوشی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اے اللّٰہ! اس (مال) کی محبت کو اپنی رضا کا وسیلہ بنا دیجئے۔” بلکہ ایک درجہ اس کا مطلوب بھی ہے۔ مثلاً اتنی محبت جس سے مال کی حفاظت کا اہتمام ہو سکے وہ مطلوب ہے کیونکہ مال کا ضائع کرنا حرام ہے۔"
حضرت تھانویؒ نے فرمایا: میں کسبِ دنیا سے منع نہیں کرتا بلکہ حبِّ دنیا سے منع کرتا ہوں۔ "کسب الحلال فریضہ بعد الفریضہ" بلکہ "قل ان کان آباء کم و ابناء کم۔۔۔" میں تو اللّٰہ کی کمالِ رحمیت کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی محبّت سے بھی منع نہیں کرتے بلکہ احبیت سے منع کرتے ہیں کہ دنیا کی محبت اللّٰہ و رسول ﷺ کی محبّت سے زیادہ ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ اطاعتِ احکام میں اختلال ہو جائے۔ بلکہ طبعی احبیت سے منع نہیں فرماتے، صرف عقلی احبیت سے منع فرماتے ہیں، اور احبیتِ عقلیہ کا معیار یہ ہے کہ اطاعتِ احکام اور جہاد فی سبیل اللّٰہ میں کمی نہ ہو۔ اگر یہ معیار محفوظ ہے تو پھر طبعی محبت اگر دنیا سے یا بیوی سے یا اولاد سے زیادہ بھی ہو تو کچھ ڈر نہیں۔
تشریح و تسہیل: سورة التوبہ کی آیت ہے "قل ان کان آباء کم و ابناء کم۔۔۔" جس کا ترجمہ ہے:
”( اے نبی!) آپ کہہ دیجیے: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے خاندان والے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے کا تمہیں خوف ہے اور وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں (یہ سب چیزیں) اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے تمہیں زیادہ عزیز ہیں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ نافذ فرما دے، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔" (۹: ۲۴)
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ وہ دنیا سے محبت کرنے سے منع نہیں کرتے، دنیا کا مال و متاع کمانے سے منع نہیں کرتے، بلکہ احبیت یعنی اتنی یا زیادہ محبت کرنے سے منع کرتے ہیں کہ وہ (معاذ اللّٰہ) اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی محبت پہ غالب ہو جائے۔
حضرت نے مزید فرمایا کہ اس احبیت یعنی دنیا کی محبت کے اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ ﷺ کی محبت پہ غالب ہونے کی علامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی محبت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں غفلت اور نافرمانی کرنے لگے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بعض ذرائع سے مثلاً دھوکہ یا چوری سے، رشوت سے، ڈاکے سے، خیانت سے، مال کمانے کو حرام قرار دیا ہے، لیکن اگر کسی انسان کو مال سے اتنی زیادہ محبت ہو جائے کہ اسے اس بات کی بھی فکر اور تمیز نہ رہے کہ میرے پاس جو مال آ رہا ہے وہ حرام ذرائع سے تو نہیں آ رہا، تو یہ کہا جائے گا کہ اس کے دل میں دنیا کے مال کی محبت اللّٰہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ ہو گئی۔
"اللّٰہ تعالیٰ ۔۔۔طبعی احبیت سے منع نہیں فرماتے، صرف عقلی احبیت سے منع فرماتے ہیں، اور احبیتِ عقلیہ کا معیار یہ ہے کہ اطاعتِ احکام اور جہاد فی سبیل اللّٰہ میں کمی نہ ہو۔ اگر یہ معیار محفوظ ہے تو پھر طبعی محبت اگر دنیا سے یا بیوی سے یا اولاد سے زیادہ بھی ہو تو کچھ ڈر نہیں۔" (حضرت تھانویؒ)
حضرت تھانویؒ کے ملفوظ کے اس حصّے کی تشریح یہ ہے کہ محبت ایک تو طبعی ہوتی ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات سے ہوتا ہے، اور ایک عقلی ہوتی ہے جس کا تعلق انسان کے ذہن اور اس کی عقل سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پہ ہر ہی انسان کو اپنی اولاد سے طبعی محبت ہوتی ہے۔ اولاد کوئی غلط کام کرے اور ا س پہ غصّہ آئے تب بھی انسان کی اس سے محبت کم نہیں ہوتی۔ یہ محبت کسی عقلی دلائل یا سوچ کی بنیاد پہ نہیں ہوتی، بلکہ خود بخود ہی انسان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ایک محبت وہ ہوتی ہے جو سوچنے سمجھنے اور غور فکر سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً انسان نے تفکر کیا تو اسے سمجھ آیا کہ یہ تمام کائنات، زمین و آسمان، خودبخود ہی نہیں پیدا ہو گئے۔ ان کا کوئی بنانے والا ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی اور اس دنیا میں ایک امتحان کے طور پہ بھیجا۔ وہ امتحان یہ ہے کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں کچھ کام کرنے کا حکم دیا، اور کچھ کاموں کے کرنے سے منع فرمایا۔ اب امتحان یہی ہے کہ دیکھیں کہ کون ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی تمام نعمتوں پہ ان کا شکرگذار ہوتا ہے، اور اپنے عمل سے یعنی ان کی اطاعت سے ان کا شکر بجا لاتا ہے، اور اس کے شکر کے احساس کے نتیجے میں اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہی عقلی محبت ہے۔
تو حضرت تھانویؒ کے ملفوظ کے اس حصّے کا یہ مطلب ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان چیزوں سے محبت مت کرو جن کی طبعی محبت تمہارے دل میں ڈال دی گئی ہے، مثلاً اولاد، گھر والے یا دنیاوی مال و متاع۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ان چیزوں سے عقلی محبت مت کرو، یعنی ایسی محبت مت کرو کہ ان چیزوں کی محبت کی وجہ سے تم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے لگو یا اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے سے رک جاؤ۔ ان دونوں محبتوں میں سے کون سی محبت غالب ہے اس کا پتہ ایسے چلتا ہے کہ اگر مثال کے طور پہ گھر والے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں آسائش لا کر دو چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، تو کیا انسان ان کی طبعی محبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہےاور حلال حرام کی پرواہ کیے بغیر ان کی یہ خواہش کسی بھی جائز ناجائز طریقے سے پوری کرتا ہے؟ یا اپنے آپ کو یاد دلاتا ہے کہ میرے اللّٰہ نے حرام طریقے سے مال حاصل کرنے سے منع فرمایا ہے اس لیے اگر میں حلال طریقے سے گھر والوں کی خواہش پورا کر سکا تو ضرور کروں گا، لیکن اس کے لیے کوئی ناجائز طریقہ نہیں اختیار کروں گا چاہے گھر والوں کا دل ٹوٹ جائے یا وہ مجھ سے کتنے ہی ناراض ہو جائیں۔ اگر وہ دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی اور رسول اللّٰہ ﷺ کی عقلی اوراختیاری محبت گھر والوں کی طبعی محبت پہ غالب ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا: "دنیا کے اندر جو فکرِ مذموم ہےوہ ہے جو تحصیلِ دنیا کے لیے ہو اس کو مقصود بالذات سمجھ کر۔ اور اگر مقصود بالذات نہ سمجھے تو وہ فکر بھی جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے طلب الحلال فریضہ ۔۔۔ نیز جو دنیا میں فکر ترکِ دنیا کے لیے ہو وہ مطلوب ہے، یعنی دنیا اور آخرت میں موازنہ کے لیے تفکر کرنا کہ ان میں کون سا قابل اختیار کرنے کے ہے، اور کون قابلِ ترک ہے۔ یہ فکر مطلوب ہے۔"
"دنیا کے اندر جو فکرِ مذموم ہےوہ ہے جو تحصیلِ دنیا کے لیے ہو اس کو مقصود بالذات سمجھ کر۔"
حضرت تھانویؒ کے ملفوظ کے اس جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ شریعت میں جس حبِّ دنیا (دنیا کی محبّت) کو مذموم یعنی برا قرار دیا گیا ہے وہ اس وقت ہے جب انسان دنیا کا مال و متاع خالصتاً اس نیّت سے کمائے کہ میں اس سے دنیا میں ہی ساری لذّت حاصل کروں۔ اس کی ساری فکر و توجہ اور مال کمانے سےاس کا سارا مقصود اور مکمل نیّت اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر اور زیادہ عیش و آرام والی بنانا ہو، جیسا کہ بادشاہ بابر سے یہ جملہ منسوب ہے کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ اس کو اس بات کا خیال بھی نہ ہو کہ اس مال کے ذریعے وہ اپنی آخرت کو بھی بہتر کر سکتا ہے۔
"اور اگر مقصود بالذات نہ سمجھے تو وہ فکر بھی جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے طلب الحلال فریضہ ۔۔۔"
حضرت نے مزید فرمایا کہ لیکن اگر مال کمانے کا مقصد اور اس کی نیّت صرف مال جمع کرنا نہ ہو کہ میں زیادہ سے زیادہ مالدار ہو جاؤں، بلکہ اس میں اور بھی نیّتیں ہوں، مثلاً یہ نیّت ہو کہ جن لوگوں کے مجھ پر مالی حقوق عائد ہیں مثلاً گھر والے، بیوی بچے، والدین، اس مال کو کما کے میں ان کے حقوق ادا کروں گا، تو اس نیّت سے مال کمانے کی فکر کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ حدیث شریف کا مضمون ہے کہ دین کے بنیادی فرائض مثلاً نماز روزہ حج زکوٰة ادا کرنے کے بعد ایک بڑا فرض حلال آمدنی کمانا ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا: "غفلتِ مذموم سے مراد یہ ہے کہ بے شغلی کی حالت میں حق تعالیٰ سے بے توجہ رہے، اور ایسا شغل جو مانع ہو توجہ الی اللّٰہ سے بلا ضرورت اختیار کرے۔"
تشریح: جیسا کہ سب کو معلوم ہوتا ہے قرآن اور حدیث میں جگہ جگہ حبِّ دنیا کی مذمت بیان کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ دنیا لہو و لعب یعنی کھیل تماشے کی جگہ ہے، اس میں زیادہ دل نہیں لگانا چاہیے۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ رہبانیت کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ دنیا حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرو، اور بعض لوگ اس میں اتنے غلو میں چلے جاتے ہیں کہ حلال آمدنی حاصل کرنے کی کوشش بھی ترک کر دیتے ہیں کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے رزق دینا ہے تو وہ گھر بیٹھے بھی دیں گے، اور اپنے گھر والوں کے واجب حقوق بھی تلف یعنی ضائع کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ یہ اعتدال کا مذہب ہے۔ اس میں نہ افراط یعنی زیادتی کا راستہ اختیار کرنا ہے کہ انسان دنیا کمانے میں اتنا منہمک ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے غافل ہو جائے اور صبح سے شام تک یہ خیال ہی نہ آئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے کچھ احکام دیے ہیں جن کو پورا کرنا ہے۔ اور نہ تفریط یعنی کا راستہ اختیار کرنا ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے اسباب کو بھی ترک کر کے بیٹھ جائے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھا رہے کہ جو رزق ملنا ہے وہ تو ویسے بھی ملنا چاہیے تو ہم کوشش ہی کیوں کریں، اور اپنی اس خام خیالی کی وجہ سے جن لوگوں کے مالی حقوق اس کے ذمّہ ہیں، مثلاً اس کے گھر والے، ان کو تنگی اور پریشانی میں ڈالے۔ صحیح راستہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔
"غفلتِ مذموم سے مراد یہ ہے کہ بے شغلی کی حالت میں حق تعالیٰ سے بے توجہ رہے۔۔۔"
حضرت تھانویؒ کے اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ دین کی طرف سے بری غفلت وہ ہے کہ انسان بالکل فارغ بیٹھا ہو، اس کو کوئی کام نہ ہو، اور اس کے باوجود وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل غافل رہے کہ صبح سے شام تک اسے یہ خیال ہی نہ آئے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی مقصد سے بھیجا ہے۔ مجھے کچھ کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کچھ کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ پھر یہ جائزہ لے کہ میں ان کاموں میں سے جن کا حکم دیا گیا ہے کتنے کام کر رہا ہوں۔ جو نہیں کر رہا، ان کو کرنا کیسے شروع کروں۔ جو کام کرنے سے منع کیا گیا ہے، ان میں سے کتنے کام کر رہا ہوں؟ ان میں سے کتنے کام ایسے ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں؟ کتنے کام ایسے جو آسانی سے فوراً نہیں چھوڑ سکتا، ان کو چھوڑنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کروں؟ انسان کا اپنے ضروری کام میں مصروف ہونا بری اور قابلِ مذمت بات نہیں، قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ انسان فارغ ہو اور پھر بھی اللّٰہ تعالیٰ کو یاد نہ کرے۔
"اور ایسا شغل جو مانع ہو توجہ الی اللّٰہ سے بلا ضرورت اختیار کرے۔"
بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کو کرنا انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ کوئی کاروبار کرنا، کوئی ملازمت کرنا، یا حلال آمدنی حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا جس سے اس کی اور اس کے لواحقین کی بنیادی ضروریات آرام سے پوری ہو جائیں۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی مزید اور مزید مال جمع کرنے کی حرص کبھی پوری ہی نہیں ہوتی۔ ان کے اس اتنا مال ہوتا ہے کہ ان کی اور ان کو لواحقین کی ہی نہیں ان کی اگلی دو تین نسلوں کی ضروریات پوری کرنے لے لیے بھی کافی ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے دل کے اندر مال کا اس قدر لالچ ہوتا ہے کہ ان کے جاگنے کے اوقات کا ہر ہر لمحہ اسی فکر اور کوشش میں گزرتا ہے کہ میرے مال کے اندر کسی بھی جائز یا ناجائز طریقے سے اور بھی زیادہ اضافہ ہو جائے۔
حضرت تھانویؒ کے اس دوسرے جملے کا مفہوم یہی ہے کہ جس انسان کے پاس اپنی اور اپنے اریب قریب کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنےکے لیے بقدرِ ضرورت مال ہ،و وہ اگر بلا ضرورت محض اپنے لالچ کی وجہ سے ایسے کاموں اور مصروفیات کو بڑھاتا چلا جائے کہ جن سے زیادہ سے زیادہ مال حاصل ہو، اور ان غیر ضروری مصروفیات کی وجہ سے وہ اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی طرف سے غافل رہے، تو ایسی غفلت مذموم ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا: "مطلق خواہش مال کی بوجہ حاجات کے حبِّ دنیا نہیں ہے۔ حبِّ دنیا کی علامت عدم احرز عن الحرام یا انہماک یعنی جمع زائد از حاجت لمحض الحرص و لو من بحلال ہے۔"
تسہیل: اگر انسان کے دل میں اپنی ضروریات کی وجہ سے مال کی خواہش ہو تو یہ حبِّ دنیا نہیں ہے، یعنی مال کی وہ محبّت نہیں ہے جسے شرعاً برا سمجھا جاتا ہے۔ مذموم حبِّ دنیا کی علامت یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی اتنی محبت ہو کہ وہ اس کو جمع کرنے کے لالچ یں حرام مال لینے سے بھی نہ رکے، یا مال تو حرام نہ ہو لیکن اپنے لالچ کی وجہ سے ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی فکر اور کوشش میں لگا رہے حالانکہ وہ اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہو۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا،" کینہ وہ ہے جو اختیار و قصد سے کسی کی برائی اور بدخواہی دل میں رکھی جائے، اور اس کو ایذا پہنچانے کی تدبیر بھی کرے۔ اگر کسی سے رنج کی کوئی بات پیش آئے اور طبیعت اس سے ملنے کو نہ چاہے تو یہ کینہ نہیں بلکہ انقباضِ طبعی ہے جو گناہ نہیں۔"
تشریح و تسہیل: حضرت تھانوی" کے اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ کینہ یا بغض ایک باطنی برائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اختیار سے کسی دوسرے شخص کے بارے میں اپنے دل میں یہ خیالات اور خواہش رکھے کہ اس کو نقصان پہنچ جائے ، یا از خود اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے اور اس کے لیے کوششیں کرے۔ عام طور سے اس کی ابتدا ایسے ہوتی ہے کہ کسی شخص کی کوئی چھوٹی سی بات یا کوئی حرکت بری لگ گئی۔ پھر اسے درگزر کرنے یا معاملہ صاف کرلینے کے بجائے اس نے اسے دل میں بٹھا لیا اور اب دل ہی دل میں اس کی طرف سے ایسی دشمنی باندھ لی کہ اب اپنے اختیار سے سوچتا رہتا ہے اور دل میں خواہش کرتا ہے کہ اس دوسرے شخص کو نقصان پہنچ جائے۔ جب کینہ یا بغض اس سے بھی شدید ہو جاتا ہے تو تو انسان یہ کوششیں کرنے لگتا ہے کہ اس دوسرے شخص کو خود کسی طرح سے نقصان پہنچا دے، چاہے اس کے پیٹھ پیچھے اس کی غیبت کرے یا اس کو کسی اور طرح سے جانی یا مالی نقصان پہنچا دے، یا اگر اس کو کوئی فائدہ پہنچنے والا تھا اس فائدے کو روکنے کی کوشش کرے۔
ہر مسلمان، بلکہ مسلمان کیا ہر انسان کا دوسرے انسان پہ یہ حق ہے کہ وہ اس کو ناجائز تکلیف نہ پہنچائے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ اس تکلیف پہنچانے کے بعد بعض لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ معافی مانگ لیتے ہیں اور معاملہ صاف کر لیتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنی رائے میں اتنے سخت ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی غلطی اور زیادتی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔اس صورت میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو تکلیف پہنچی تھی اس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اس تکلیف پہنچانے والے سے ملے اور خوشگوار تعلقات رکھے۔اب بعض لوگ اس کو مجبور کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ سب سے دوستی رکھے اور خوشگوار تعلقات رکھے۔ لیکن یہ کہنا بعض غلط فہمیوں پہ مبنی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مسلمان پہ ہر دوسرے مسلمان کے جو حقوق ہیں وہ رسول اللّٰہ ﷺ نے خود بعض احادیث میں بیان فرما دیے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان پر مسلمان کے پانچ حقوق ہیں:
سلام کا جواب دینا،
مریض کی عیادت کرنا،
جنازے کے پیچھے جانا،
دعوت قبول کرنا،
چھینکنے والے کو جواب دینا (یعنی جب وہ الحمدللہ کہے تو اس سے 'یرحمک الله' کہنا)۔" (صحیح البخاری: ۱۲۴۰، صحیح مسلم: ۲۱۶۲)
ایک اور حدیث میں رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا،
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، اور نہ اسے حقیر جانتا ہے۔" (صحیح مسلم ۲۵۶۴)
اگر کوئی بھی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے ان حقوق کی ناجائز خلاف ورزی کرے گا، مثلاً بلا جواز تین دن سے زیادہ کسی مسلمان کے سلام کا جواب نہ دے، تو وہ گناہ گار ہوگا۔
لیکن شریعت نے عام انسانی جذبات کی بھی بہت رعایت کی ہے۔ عمومی حقوق کے بر خلاف ایک دوسری صورت ہوتی ہے جسے قلبی دوستی یا قریبی تعلق کہتے ہیں۔ یہ ہر مسلمان کا ہر مسلمان پر حق نہیں۔ ہر ایک مسلمان کو پورا اختیار ہے کہ وہ جس سے چاہے قریبی یا قلبی دوستی رکھے، جس سے چاہے نہ رکھے۔ جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا، اگر کسی کو کسی دوسرے سے تکلیف پہنچی ہو اور اس کے بعد سے وہ اس کے عمومی حقوق تو پورے کرتا ہے جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے حکم فرمایا، لیکن اس سے دوستی نہیں رکھنا چاہتا، ملنا جلنا نہیں رکھنا چاہتا، تو یہ کینہ یا بغض نہیں (جب تک کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچنے کا خواہاں یا نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہو) بلکہ انقباضِ طبعی یعنی دل کا کھچاؤ ہے۔ نہ یہ گناہ ہے اور نہ ہی ایسا نہ کرنے پہ کوئی کسی کو مطعون یا مجبور کر سکتا ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا، "حسد وہ ہے جس میں محسود سے زوالِ نعمت کی تمنا ہو، اور غبطہ وہ ہے کہ اس کے پاس رہتے ہوئے اپنے لیے حصول کی تمنا ہو۔"
تسہیل و تشریح: حضرت تھانویؒ کے اس فرمان کا مفہوم یہ ہوا کہ حسد وہ باطنی برائی ہے جس میں انسان یہ چاہتا ہے کہ محسود، یعنی وہ شخص جس سے وہ حسد کرتا ہو، اس کو نقصان پہنچے، اور اس کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی جو بھی نعمتیں ہیں وہ اس سے چھن جائیں۔ اس کے برعکس غبطہ، جسے اردو میں رشک کہا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ انسان کو یہ خواہش تو نہ ہو کہ دوسرے انسان سے اس کے پاس موجود نعمتیں چھن جائیں، بلکہ صرف یہ خواہش ہو کہ یہ نعمتیں مجھے بھی مل جائیں۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا،
ایک تو کیفیتِ انسانیہ ہے جس میں انسان معذور ہے۔
ایک عمل ہے مقتضی پر، اس میں انسان گناہ گار ہے۔
ایک مخالفت ہے اس مقتضا کی، اس میں انسان ماجور (جس پہ اجر ملے) ہے، یعنی حسد کے غلبہ سے کسی کی مذمت کا تقاضا ہو اس کی مدح کرو، اس سے اعراض کو دل چاہے اس سے ملو، اس کی تعظیم کرو اس کو ابتداء بالسلام کرو، اس کے ساتھ احسان کرو۔
"ایک تو کیفیتِ انسانیہ ہے جس میں انسان معذور ہے۔"
جیسے کہ اس سے پہلے کی تحریروں میں آیا تھا، جب تک حسد کی کیفیت صرف اس حد تک رہے کہ محسود (انسان کو جس سے حسد ہو) کو کسی تکلیف کے پہنچنے کی خبر سن کے دل کو غیر اختیاری خوشی ہو، اس حد تک انسان اس کیفیت کے لیے معذور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کمزور ہے اور اگر کسی انسان سے کسی وجہ سے جلن ہو تو بعض دفعہ اس کے بارے میں بری خبر سن کے خودبخود اس کے دل کو غیر اختیاری خوشی ہوتی ہے۔ اس غیر اختیاری خوشی پہ اس سے جواب نہیں طلب کیا جائے گا۔
البتّہ یہ سمجھنا چاہیے کہ دوسرے کو تکلیف پہنچنے پہ غیر اختیاری خوشی ہونا بھی ایک بہت بڑی باطنی بیماری کی علامت ہے۔ اگر انسان اس غیر اختیاری خوشی کو بھی برا نہیں سمجھے گا اور ابھی سے اس کے ازالے کی فکر نہیں کرے گا تو ڈر یہ ہے کہ یہ غیر اختیاری خوشی بڑھ کے اس کے اعمال کو متاثر نہ کرنا شروع کر دے اور وہ اپنے اختیار سے اس حسد کی کیفیت کے زیرِ اثر گناہ کے کام نہ کرنا شروع کر دے۔
"ایک عمل ہے مقتضی پر، اس میں انسان گناہ گار ہے۔"
حضرت تھانویؒ کے اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ حسد کا اگلا درجہ یہ ہے کہ حسد کے جذبات کے زیرِ اثر محسود کے بارے میں کوئی بری خبر کے ہونے والی خوشی اب صرف غیر اختیاری حد تک محدود نہیں رہی بلکہ انسان نے اپنے اختیار سے دیر دیر تک اس کے بارے میں سوچ کے خوش ہونا شروع کر دیا، لطف لینے کے لیے اس بری خبر کا دوسروں کے سامنے تذکرہ کرنے لگا، اپنے اختیار سے یہ کوشش کرنے لگا کہ جس سے حسد ہے اس کو اور بھی زیادہ تکلیف یا نقصان پہنچا دے، یا کم از کم اس کو دوسروں کے سامنے بدنام ہی کر دے۔
یہ تمام کام چونکہ انسان کے اختیار میں ہیں، یعنی اس کے اختیار میں ہے کہ ان کاموں کو کرے یا نہ کرے، اس لیے انسان ان میں سے کوئی بھی کام کرے گا تو گناہ گار ہو گا، اور ان کاموں کا اسے حساب دینا پڑے گا۔
"ایک مخالفت ہے اس مقتضا کی، اس میں انسان ماجور (جس پہ اجر ملے) ہے، یعنی حسد کے غلبہ سے کسی کی مذمت کا تقاضا ہو اس کی مدح کرو، اس سے اعراض کو دل چاہے اس سے ملو، اس کی تعظیم کرو اس کو ابتداء بالسلام کرو، اس کے ساتھ احسان کرو۔"
حضرت تھانویؒ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اور تمام باطنی بیماریوں کی طرح حسد کا بھی حقیقی علاج یہی ہے کہ حسد کے جذبے کے زیرِ اثر اس کا جو بھی کام کرنے کو دل چاہ رہا ہو ان کاموں سے رکے، بلکہ اپنے دل پہ جبر کر کے ان کاموں کے بالکل برخلاف کاموں کو کرے۔ مثلاً یہ کہ حسد کے جذبے کے زیرِ اثر دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ محسود (جس سے حسد ہو) کی غیبت کرے اور سب کے سامنے برائی کرے، لیکن اپنے نفس کو دبا کر سب کے سامنے اس کی تعریف کرے۔ دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ اس شخص کی شکل بھی نہ دیکھے، لیکن اپنے نفس پہ زبردستی کر کے اس شخص سے خوش اخلاقی سے ملے، اس سے عزت سے پیش آئے، اس کو پہلے سلام کرے، اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے یعنی اس کو فائدہ پہنچائے۔ ایسا کرنے سے انسان کو بہت زیادہ اجر ملتا ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا،
"اگر کسی کے نقصان کی خبر سننے یا برائی کی خبر سننے سے دل خوش ہو تو یہ حسد کا مادّہ ہے، اور اگر اس شخص سے کوئی رنج پہنچا ہو تو حقد کا مادہ ہے، مگر مادہ پہ مواخذہ نہیں۔ اگر اس کے مقتضا پہ عمل کیا جائے تو مواخذہ ہے، اور عمل اختیاری ہے، اس سے بچنا اختیاری ہے۔ لیکن مادہ کو مضمحل کرنا ضروری ہے تا کہ بڑھ نہ جائے۔ اس کی تدبیر یہی ہے کہ شرمندہ ہوں، اور اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ کریں، اور دعا کریں کہ اس کو دفع کریں، اور اس شخص کی اعانت کریں، خواہ مال سے یابدن سے خواہ دعا سے۔ اس سے وہ مادہ کالعدم ہو جائے گا۔"
"اگر کسی کے نقصان کی خبر سننے یا برائی کی خبر سننے سے دل خوش ہو تو یہ حسد کا مادّہ ہے، اور اگر اس شخص سے کوئی رنج پہنچا ہو تو حقد کا مادہ ہے۔۔۔"
اگر ایک انسان کسی دوسرے کے بارے میں اپنے دل میں اس قدر جلن رکھتا ہو، اس سے اس قدر جلتا ہو، کہ اگر اسے یہ خبر ملے کہ اس دوسرے شخص کا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا یا اسے کوئی بہت دکھ پہنچ گیا تو اس پہلے شخص کا دل خوش ہو، تو اسے شریعت کی اصطلاح میں حسد کہتے ہیں، اور اس خوشی کے ظاہر ہونےسے یہ معلوم ہوا کہ اس کے باطن میں حسد کی بری صفت ہے۔
حسد سے ملتی جلتی صفت حقد ہے جسے بغض یا کینہ بھی کہتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ کے کہنے کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو کسی دوسرے انسان سے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو اور پھر اس کے دل میں اس دوسرے انسان کے لیے مستقلاً ایسے برے جذبات پیدا ہو جائیں کہ اگر اس دوسرے انسان کو کوئی تکلیف یا دکھ پہنچ جائے تو اس پہلے شخص کو خوشی ہو، تو اس کو حقد کہتے ہیں۔
اس ملفوظ میں لفظ "مادّے" سے کیا مراد ہے؟
حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ میں "مادّے" کے لفظ سے مراد انسان کی فطرت یا طبیعت کی صفات ہیں جسے انگریزی میں (trait) کہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں انسان طبیعتاً غصّے والا ہے، یا فلاں انسان فطرتاً ہی کنجوس ہے۔اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کو چھوٹی چھوٹی یا معمولی سی بات پہ بھی بہت غصّہ آ جاتا ہے، اور ہر ہر وقت بہت زیادہ غصّہ آتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی انسان فطرتاً ہی تحمل یا ٹھنڈے مزاج کا مالک ہوتا ہے، یعنی اس کے باطن کی صفت ہوتی ہے کہ اسے غصّہ آتا ہی بہت کم ہے، اور آ بھی جائے تو وہ اس کا اظہار بہت سوچ سمجھ کے کرتا ہے۔ اسی طرح کسی انسان کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ اس کے لیے پیسہ خرچ کرنا حتی کہ اپنے آرام پہ بھی پیسہ خرچ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، یعنی یہ اس کی فطرت کی اس کے باطن کی ایک صفت ہوتی ہے کہ پیسہ خرچ کرتے ہوئے اس کا دل بہت دکھتا ہے۔ اس کے برعکس بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے باطن کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ بہت فضول خرچ ہوتے ہیں اور ہر فضول مصرف میں بے دردی سے سوچے سمجھے بغیر پیسہ خرچ کرتے ہیں، اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کہیں اس سے قرض کا بوجھ تو نہیں ہو جائے گا۔
"مگر مادہ پہ مواخذہ نہیں۔"
اس جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پہ کسی کو تکلیف پہنچنے پہ خوشی کے جذبات ابھریں، تو جب تک یہ محض غیر اختیاری جذبات یا احساسات کی حد تک رہیں، ان پہ مواخذہ نہیں ہو گا، یعنی اس سے جواب نہیں طلب کیا جائے گا کہ اس کے دل میں غیر اختیاری طور پہ بھی ایسے جذبات ابھرے ہی کیوں۔
قرآن کریم میں بہت جگہ اس مفہوم کے الفاظ آئے ہیں کہ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا یعنی یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کسی انسان پہ ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو اس کی وسعت یعنی اس کی طاقت یا اختیار سے باہر ہو۔ اس پیرائے میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ بعض انسان کی فطرت یا ان کی باطنی صفت ایسی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی خوشی سے کڑھتے ہیں۔ اس لیے جب تک یہ صفت اس کے باطن میں غیر اختیاری حد تک رہے یعنی اس کے دل میں کسی دوسرے کے بارے میں بری خبر سن کے غیر اختیاری طور پہ خوشی کے جذبات ابھر آتے ہوں تو صرف اس باطنی صفت کے ہونے پہ مواخذہ نہیں۔
"اگر اس کے مقتضا پہ عمل کیا جائے تو مواخذہ ہے، اور عمل اختیاری ہے، اس سے بچنا اختیاری ہے۔"
البتہ اگر وہ اس غیر اختیاری خوشی کے مقتضا، یعنی اس حسد یا بغض کی وجہ سے اس کا دل جو غلط کام کرنا چاہتا ہے، مثلاً اس شخص کی غیبت کرنا چاہتا ہے یا اس شخص کو کسی اور طرح سے نقصان پہنچانا چاہتا ہے، ایسے عمل کرے گا، تو چونکہ یہ عمل کرنا بھی انسان کے اختیار میں ہے، اور اس عمل سے بچنا بھی انسان کے اختیار میں ہے، اس لیے اس عمل کے لیے اس سے مواخذہ کیا جائے گا، یعنی اس کو اس بات کا حساب دینا ہو گا کہ اس نے وہ کام کیوں کیا، اور اس کام سے اپنے آپ کو کیوں نہیں روکا۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک انسان کے دل میں کسی دوسرے شخص کے لیے حسد تھا۔ اس دوسرے شخص کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو اس کے دل میں غیر اختیاری طور پہ خوشی ہوئی کہ اس کے ساتھ اچھا ہوا۔ اس حد تک تو چونکہ یہ جذبات اس کے اختیار سے باہر تھے اس لیے اس سے ان جذبات کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ لیکن اب وہ یہ خبر سننے کے بہت دنوں بعد تک بھی دل میں اختیاری طور پہ اس طرح کے خیالات لا کے اور اس بات کو یاد کر کر کے خوش ہو رہا ہے کہ اس دوسرے شخص کے ساتھ بہت اچھا ہوا، اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، یا پھر اختیاری طور پہ یہ خواہش کرتا ہے یا دعا کرتا ہے کہ (معاذ اللّٰہ) اس دوسرے شخص کے ساتھ اور بھی برا ہو، اللّٰہ کرے اس کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچ جائے ، یا پھر اختیاری طور پہ اس شخص کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتا ہے، یہ سب کام چونکہ وہ اپنے اختیار سے اپنے ارادے سے کر رہا ہے اس لیے ان تمام کاموں کا گناہ ہو گا اور اس کا آخرت میں بھی، اور بہت دفعہ دنیا میں بھی، حساب دینا ہو گا۔
"مادہ کو مضمحل کرنا ضروری ہے تا کہ بڑھ نہ جائے۔"
حضرت تھانویؒ کے اس جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ حالانکہ انسان کی فطری خصوصیات یا صفات اس کے باطن کا یا نفس کا حصّہ ہوتی ہیں اور کچھ حد تک اس کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں، لیکن ان پہ اس حد تک قابو پانا ضروری ہوتا ہے کہ یہ انسان کو گناہ پہ مائل اور آمادہ نہ کر دیں۔ محاورہ ہے کہ العلاج بالضد۔ باطن کی اصلاح میں بالکل یہی ہوتا ہے کہ انسان کے باطن میں جو بری صفت ہوتی ہے وہ انسان کو جس کام کے کرنے پہ آمادہ اور مائل کرتی ہے، انسان کو اپنے نفس پہ جبر اور زبردستی کر کے اس کام کے بالکل خلاف اور الٹ کرنا ہوتا ہے۔شروع شروع میں ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور دل پہ پتھر رکھ کے ایسا کرنا پڑتا ہے، لیکن جب انسان اپنے آپ کو مجبور کر کے ایک مدت تک ایسا کرتا رہتا ہے تو اس کے نفس کی جو بری باطنی صفت مثلاً حسد وغیرہ ہوتی ہے وہ کمزور پڑنے لگتی ہے، اور اس کے لیے اس باطنی صفت کی مخالفت کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔
حضرت نے جو فرمایا کہ اس مادّے یعنی اس باطنی صفت کو مضمحل یعنی کمزور کرنا ضروری ہے تا کہ وہ بڑھ نہ جائے۔ اس کمزور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس تقاضے کی اتنے عرصے تک انسان ہمت کر کے مخالفت کرتا رہے کہ اپنے آپ کو اس سے روکنا آسان ہو جائے اور اس کا خلاف کرنا آسان ہو جائے۔ ہر انسان میں کچھ اچھی باطنی صفات ہوتی ہیں اور کچھ بری باطنی صفات ہوتی ہیں۔ تزکیہ یا تصوف کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان پہلے اپنے اندر کی اچھی بری صفات کو پہچانے۔ اس کے بعد ایسے کام کرے جن سے اچھی باطنی صفات زیادہ طاقتور ہو جائیں اور ان کے تقاضے پر عمل کرنا اور نیک کام کرنا آسان ہو جائے، اور بری صفات اتنی کمزور پڑ جائیں کہ ان کی مخالفت کرنا اور ان سے پیدا ہونے والے گناہوں کے تقاضوں سے بچنا آسان ہو جائے۔ ریاضت یعنی طویل عرصے کے مجاہدے سے یہ بری صفات مکمل طورپہ اور جڑ سے ختم تو نہیں ہو جاتیں، لیکن انسان کے لیے ان کا مقابلہ کرنا اور ان سے پیدا ہونے والے گناہوں کے تقاضوں سے اپنے آپ کو روکنا آسان ہو جاتا ہے۔
"اس کی تدبیر یہی ہے کہ شرمندہ ہوں، اور اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ کریں، اور دعا کریں کہ اس کو دفع کریں۔۔۔"
حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ میں علاج کا پہلا حصّہ یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ تو سمجھے، یعنی دل میں کسی کی تکلیف پہ خوشی کا احساس ابھرے تو اسے برا سمجھے، دل سے اس خیال پہ شرمندہ ہو۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ کرے کہ دل میں ایسا خیال آیا ہی کیوں اور اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ آئندہ کسی کی تکلیف پہ خوشی کا احساس نہ ہو چاہے دل میں اس شخص کی طرف کتنی ہی ناراضگی ہو، بلکہ اس کی تکلیف پہ دکھ ہو۔ گناہ کا پہلا علاج ہی گناہ کو گناہ سمجھنا، اور اس پہ شرمندہ ہونا ہے۔ جب انسان کو یہ احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے تو اس کی اصلاح اسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے۔
"اور اس شخص کی اعانت کریں، خواہ مال سے یابدن سے خواہ دعا سے۔ اس سے وہ مادہ کالعدم ہو جائے گا۔"
جب ہمارے دل میں کسی کی طرف سے شدید ناراضگی ہوتی ہے، حسد ہوتا ہے، تو قدرتی طور پہ اس کی تکلیف پہ اچھا لگتا ہے۔ دل چاہتا ہے (معاذاللّٰہ) کہ اس کے ساتھ اور برا ہو۔ لیکن جیسا کہ پچھلی تحریروں میں آیا، باطنی بیماریوں کا علاج ہمت کر کے اور دل پہ جبر کر کے ان کی مخالفت کرنا ہے۔ اسی لیے حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ جس شخص سے حسد ہو اگر اس کو تکلیف پہنچے تو اس شخص کی مدد کریں۔ یہ مدد مال سے بھی ہو سکتی ہے مثلاً اگر اس کو مالی نقصان پہنچا ہو، اور بدن سے بھی ہو سکتی ہے مثلاً یہ کہ جسمانی طور پہ اس کی تکلیف دور کرنے کی اور اس کی مدد کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ دونوں کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو کم از کم دل سے دعا کرتا رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کے حالات بہتر فرما دیں، اس کی تکلیف دور فرما دیں۔
حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ جب انسان پہلی دفعہ ایسا کرے گا تو اس کے دل پہ گویا آرے چل جائیں گے، کیونکہ دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ اس کا اور بھی بہت نقصان ہو، یہ تباہ و برباد ہو جائے، لیکن اب دل پہ جبر کر کے یہ دعا کر رہا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور فرما دیں، اس کے حالات بہتر فرما دیں۔ نفس تو یہ چاہ رہا تھا کہ میں اس کو نقصان پہنچاؤں، اس کی پریشانی کو ہر جگہ مزے لے لے کے بیان کروں، لیکن اب نفس کے تقاضوں کو مغلوب کر کے اس کی مدد کر رہا ہے، اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ جب انسان اپنے آپ کو مجبور کر کے اپنے نفس کی مخالفت کرتا رہے گا اور اپنے باطن میں موجود حسد کے تقاضوں کے برخلاف اس شخص کی مدد کرتا رہے گا، اس کے لیے دعا کرتا رہے گا تو نفس کی اس مخالفت کرتے رہنے سے اس کے باطن میں موجود حسد کی صفت کمزور پڑنا شروع ہو جائے گی۔
(ایک اعتراف: حضرت تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات پہلی دفعہ میں نے کوئی چالیس سال پہلے پڑھنے شروع کیے تھے، اور الحمداللّٰہ اب بھی روزانہ ان کے کچھ نہ کچھ صفحات پڑھے بغیر نہیں سوتا۔ ان کی بہت سی باتیں جو میں نقل کرتا ہوں وہ کئی سال پہلے پڑھی ہوتی ہیں اس لیے الفاظ ہمیشہ بعینہ ان کے نہیں ہوتے لیکن مفہوم ان شاءاللّٰہ صحیح اور ان کا ہی ہو گا۔ اللّٰہ تعالیٰ کسی نادانستہ غلطی سے محفوظ رکھیں۔ آمین)
کئی قارئین نے یہ سوال پوچھا کہ اگر کسی کے حقوق کی خلاف ورزی کی تھی اور اب اس سے معافی مانگنا ممکن نہ ہو، مثلاً وہ انسان کہیں دور جا کے بس گیا اور اب اس سے رابطے کی کوئی صورت معلوم نہیں یا اس کا انتقال ہو گیا،اور اب اپنی غلطی اور اس سے معافی مانگنے کی ضرورت کا احساس ہوا تو اب کیا کریں؟ کیا ان گناہوں کا وبال ساری عمر ہمارے اوپر رہے گا؟ کیا ان کی تلافی کی کوئی صورت نہیں؟
حضرت تھانویؒ سے کسی نے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے کہ اس میں مایوس ہونے کی ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، امید ہی امید ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا بھی راستہ بتلایا ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس وقت انسان کو اپنی غلطی کااحساس ہو جائے، ندامت ہو، اور توبہ کرنا چاہے، اس وقت اس غلطی کی تلافی کی جو جو صورتیں اس کے اختیار میں ہیں ان تمام کو پورا کرے۔ ان شاء اللّٰہ سچے دل سے اپنی پوری کوشش کر لے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی غلطیوں کا ازالہ فرما دیں گے۔ اس کی تھوڑی تفصیل یہ ہے۔
اگر کسی کو زبان سے تکلیف پہنچائی تھی، مثلاً اس کے پیٹھ پیچھے اس کی غیبت کی تھی یا اس کے منہ پہ اس کو برا بھلا کہا تھا، اور اب اس سے معافی مانگنا ممکن نہیں کیونکہ وہ شخص موجود نہیں اور اس سے کوئی رابطہ ممکن نہیں، تو اس بات کی عادت ڈال لیں کہ اس کے لیے کثرت سے دعائے خیر اور مغفرت کی دعا کیا کریں، اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ وہ قیامت میں اس شخص سے راضی ہو جائیں، اور اس شخص کو بھی آپ سے راضی کر دیں تا کہ وہ آپ سے ان زیادتیوں کا بدلہ نہ لے جو آپ نے اس کے ساتھ کی تھیں۔ لوگوں کے قلوب اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان صدقِ دل اور سچی ندامت سے یہ دعائیں کرتا رہے گا تو بہت امید ہے کہ ان شاءاللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ آخرت میں اس شخص کو بہت سی نعمتیں دے کے آپ سے راضی کر دیں گے۔
اگر کسی کو مالی نقصان پہنچایا تھا
ایک دوست نے سوال پوچھا تھا کہ ان کے ایک دوست نے کسی سے ایک بڑی رقم ادھار لی۔ اس کو واپس کیے بغیر بہت سال گزر گئے۔ اس ادھار دینےوالے کا انتقال ہو گیا، اس کے وارثوں کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔ اس کو شدید ندامت ہے۔ اب وہ کیا کرے؟
لیکن یہ دعا کے ذریعے معافی مانگنا اس صورت میں کافی نہیں اگر کسی کو مالی نقصان پہنچایا تھا، مثلاً کسی کا مال دھوکے سے چوری سے یا جھوٹ بول کے لے لیا، یا کسی سے ادھار کے نام پہ پیسے لیے مگر کبھی واپس نہیں لیے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ مال لینے والے کے لیے حرام ہوتا ہے اور اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا، اور دعائے مغفرت یا توبہ کرنے سے اس دوسرے شخص کا حق ختم نہیں ہو جاتا۔ پہلے تو پوری کوشش کریں کہ کسی طرح اس شخص کا کوئی پتہ مل جائے کہ اس کا مال اس کو واپس کر سکیں۔
اگر اس شخص کا انتقال ہو چکا ہے تو پتہ کریں اس کے ورثاء کون ہیں کیوں کہ یہ مال اب ان ورثاء کا حق ہو گیا۔ اگر ورثاء مل جائیں تو یہ مال ان کے حوالے کر دیں۔
ورثا بھی نہ ملیں تو پھر یہ مال اس کی طرف سے صدقہ کر دیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے لیے استغفار اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔
حرام مال سے صدقہ کرنے یا اس سے عمرہ کرنے سے وہ حلال نہیں ہو جاتا
بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو مال کسی بھی ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، کسی سے زبردستی لیا گیا ہو، کسی سے حدیث کے الفاظ کے مطابق اس کی طیبِ خاطر یعنی دل کی خوشی کے بغیر یا دباؤ ڈال کر لیا گیا ہو، تو ایسا مال ہمیشہ حرام ہی رہتا ہے۔ وہ اس مال کا کچھ حصّہ صدقہ کرنے سے، اس سے حج و عمرہ کرنے سے، اس کے لیے استغفار کرنے اور زبانی کلامی توبہ کرنے سے، کبھی بھی حلال نہیں ہو سکتا۔ اس کا حل صرف دو ہیں، حقدار مل جائے تو اس کو واپس کردیں، حقدار کے ملنے کی کسی طرح بھی کوئی صورت نہ ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کر دیں۔
بزرگوں نے یہاں تک احتیاط کی ہے کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ انسان کے حلال مال میں اگر حرام مال شامل ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صدقے کی نیت کے بغیر اپنے مال سے نکال دے اور کسی مستحق کو دے دے۔
جس شخص سے رابطہ ممکن ہو اس سے حقوق معاف کروانا لازم ہے
اسی سے یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ جو شخص موجود ہے اس کے ضائع کردہ حقوق چاہے وہ زبانی ہوں، جسمانی ہوں، یا مالی، وہ صرف توبہ استغفار کرنے، یا ان کے اور اپنے لیے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوتے۔ وہ حقوق تو ہر حال میں تو اس سے معاف کروانے ہی پڑیں گے۔ بعض لوگوں کو اس میں بہت شرم آتی ہے کہ جی اس کو برا بھلا تو کہا تھا یا اس کی غیبت کی تھی، اب اس سے معافی کیسے مانگیں؟ یہ تو بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔ اس میں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس معاملے میں رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّت کیا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پہ رسول اللّٰہ ﷺ نے صحابہ کے مجمع میں اعلان فرمایا کہ میں نے جس کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو وہ اس کا بدلہ لے لے۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ ﷺ! فلاں موقع پہ آپ نے صف سیدھی کرتے ہوئے مجھے لکڑی سے چھوا تھا۔ اس سے مجھے تکلیف پہنچی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنا بدلہ لے لو۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت میرے بدن پہ کرتا نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا کرتا اٹھا دیا۔ انہوں نے بڑھ کے مہرِ نبوت کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ۱ میری جراٴت تھی کہ آپ سے بدلہ لیتا؟ میرا مقصد تو بس یہی تھا۔ انہوں نے بدلہ نہیں لیا لیکن رسول اللّٰہ ﷺ کا طرزِ عمل دیکھئے کہ وہ کوئی عذر کیے بغیر بدلہ دینے کو تیار تھے۔
تو بھائی اس دنیا کی شرمندگی آخرت کی شرمندگی سے کہیں بہتر ہے۔
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ غصّے میں بچوں کو ہرگز نہ مارا جائے بلکہ غصّہ فرو ہونے کے بعد سوچ سمجھ کر سزا دی جائے۔۔۔ملا جی مارنے میں اس واسطے آزاد ہیں کہ ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔مگر یاد رکھو، جس حق کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہ ہو اس کا مطالبہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر کافر ذمی پر کوئی حاکم ظلم کرے تو حدیث میں آیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ ﷺ اس کی طرف سے مطالبہ کریں گے۔
نابالغ کی معافی معتبر نہیں ہوتی
تشریح: اس ملفوظ کی تھوڑی تفصیل ہے جسے جاننا بہت ضروری ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ نابالغ کی معافی شرعاً معتبر نہیں ہوتی۔ اگر کسی بڑے شخص نے کسی نابالغ بچے کو مارا،یا اس کے ساتھ کسی اور طرح سے زیادتی کی اور اسے جسمانی یا مالی نقصان پہنچایا، چاہے وہ بچہ اپنا ہو یا کسی اور کا، تو اگر بعد میں احساس ہونے پہ اس نے اس بچے سے معافی مانگ بھی لی تو شریعت میں وہ معافی معتبر نہیں ہوتی۔ اگر وہ بچہ خدانخواستہ بالغ ہونے سے پہلے مر گیا یا کہیں دور کسی اور جگہ چلا گیا جہاں اس سے رابطہ ممکن نہیں تو اس کے حقوق کی خلاف ورزی کا وبال ساری عمر اس شخص کے سر پہ رہے گا۔ اور جیسا کہ حصرت تھانویؒ نے فرمایا کہ وہ بچہ خود تو اس زندگی میں اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کر سکتا، لیکن آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ اس کے حقوق کی خلاف وزی پہ حساب لیں گے۔اللّٰہ بچائے یہ کتنی خطرناک بات ہے۔
جس کسی نے بھی کسی بچے کے حقوق کی ناجائز خلاف ورزی کی ہو، اور اس میں انسان کے اپنے بچے بھی شامل ہوتے ہیں، اس دنیا میں اس کی تلافی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، اور یہ کہ وہ بچہ بالغ ہو اور پھر انسان اس ے معافی مانگے۔ اس لیے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا بہت سنگین انجام ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں غیر مسلموں کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے حقوق
اس ملفوظ کے آخر میں جو حدیث ہے اس کی تشریح جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ ذمّی اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے جزیہ ادا کرتا ہے اور اس کے بدلے اسلامی ریاست اس کی جان، مال، عزت، مذہبی آزادی اور دیگر شہری حقوق کی ذمّہ داری لیتی ہے۔ شریعت کا اصول یہ ہے جو ذمی غیر مسلم کسی مسلم اکثریتی ملک میں رہتا ہو اور اس کے قوانین کی پابندی کرتا ہو، اس کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے حقوق بالکل وہی ہوتے ہیں جو کسی مسلمان کے ہوتے ہیں، اور اسلامی حکومت پہ اس کے حقوق کی حفاظت کرنا اور اس کا حقوق کی تلافی کا بدلہ لینا اسی طرح سے فرض ہے جس طرح کسی مسلمان کے حقوق کی حفاظت کرنا اور ان کی تلافی کا بدلہ اسلامی حکومت کے ذمّے فرض ہے۔
ظاہر ہے کہ کسی مسلم اکثریتی ملک میں غیر مسلم اقلیت میں ہوتے ہیں اور اگر اکثریت ان کے ساتھ زیادتی کرے تو ان کے پاس خود ہمیشہ اس قدر طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا بدلہ لے سکیں یا اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں۔ اسی لیے حدیث شریف میں اتنے سخت الفاظ آئے ہیں کہ اگر کسی غیر مسلم ذمّی پہ حاکم ظلم کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ کے رسول ﷺ اس کی طرف سے ان حقوق کا مطالبہ کریں گے۔
ہمارے حضرت سے یہ واقعہ سنا کہ جب حقیقی اسلامی حکومتیں تھیں تو حکمرانوں نے غیر مسلموں کے حقوق کی اس قدر حفاظت کی کہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جب بیت المقدس مسلمانوں کی حکمرانی میں تھا تو وہاں اسلامی فوج کا کچھ حصّہ رہتا تھا۔ اک دفعہ کسی اور محاذ پہ ان فوجوں کو بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حکم دیا کہ تمام غیر مسلموں کو ان کا جزیہ واپس کر دو اور ان سے معذرت کہہ دو کہ یہ جزیہ ہم اس لیے لیتے تھے کہ ہم آپ کی جان و مال کی حفاظت کی ذمّہ داری لیتے تھے۔ اب چونکہ ہمیں ہماری فوجوں کی کہیں اور ضرورت ہے اور ہم آپ کی جان و مال کی ذمّہ داری فی الحال نہیں لے سکتے،اس لیے ہم آپ کا یہ جزیہ واپس کرتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ غصّہ جب آئے تو یہ گر یاد رکھے کہ قول یا فعل میں ہرگز تعجیل نہ کرے۔ تھوڑے دنوں میں اس طرح کرنے میں تعدیل ہو جائے گی۔
تشریح: اس ملفوظ کا مفہوم بھی وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب کبھی غصّہ آئے اس کا اپنی زبان یا اپنے عمل سے اظہار کرنے میں جلدی نہ کریں، بلکہ جو تدابیر پہلے بیان کی گئیں ان پہ عمل کرتے ہوئے اس غصّے کے اظہار کو تھوڑی دیر کے لیے ٹال دیں۔ اس ے غصّے کی شدّت کم ہو جاتی ہے اور پھر انسان اس غصّے کا اظہار سوچ سمجھ کے کر سکتا ہے اور اس میں دوسروں کے ساتھ زیادتی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ تھوڑے دن اس طرح کوشش کر کے اپنے غصّے کے اظہارکو ٹالتے رہیں تو غصّے میں اعتدال ہو جائے گا۔
ایک سالک نے حضرت تھانویؒ سے اپنے غصّے کے علاج کے بارے میں پوچھا تو فرمایا، بہ تکلف اس تقاضے کی مخالفت کریں۔ جب کوتاہی ہو جائے استغفار کریں، اور اگر کسی شخص کے حق میں کوئی زیادتی و تجاوز حدودِ شرعی سے ہو گیا ہے تو اس سے معاف کرائیں۔ چند روز ایسا کرنے سے اصلاح ہو جائے گی۔
تشریح: اس ملفوظ کے پہلے حصّے کی تشریح تو پچھلے کئی ملفوظات کے ذیل میں آ چکی ہے کہ جب غصّہ آئے تو اپنے دل پہ جبر کر کے اپنے آپ کو اس غصّے کے فوری اظہار اور ردِّ عمل سے روکیں۔ جب غصّے کی شدت کم ہو جائے اس وقت سوچ سمجھ کر غصّے کا اظہار کریں۔ اگر ایسا کرنے میں غلطی ہو جائے تو اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ جب کچھ عرصہ ہمّت اور ضبط سے کام لے کے ایسا کرتے رہیں گے تو ان شاءاللّٰہ غصّہ قابو میں آنا شروع ہو جائے گا۔ یہاں اس ملفوظ کے دوسرے حصّے یعنی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی تلافی کی تشریح کی جائے گی۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ عبادات میں کوتاہی کو حقوق اللّٰہ کی خلاف ورزی اور لوگوں کے حقوق میں غفلت کو حقوق العباد کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق کو بندوں کے حقوق سے زیادہ عظیم الشان سمجھتے ہیں،اس وجہ سے بہت سےبظاہر دیندار لوگ بھی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور ان سے بچنے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی حقوق اللّٰہ کی خلاف ورزیوں سے بچنے کو دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حقوق اللّٰہ کی خلاف ورزی سے ایک حق ضائع ہوتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا حق، اور بندوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے دو حق ضائع ہوتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کا حق اور بندے کا حق، کیونکہ بندوں کے حقوق بھی تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کے متعین کیے ہوئے ہیں۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہی تو بتایا ہے کہ دوسروں کا مال غلط طریقے سے مت لو، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کرو، کسی کو ناجائز تکلیف نہ پہنچاؤ۔ تو جوشخص کسی دوسرے شخص کے حقوق ضائع کرتا ہے، وہ حقیقت میں اللّٰہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی کر رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح سے حقوق العباد کی معافی کا معاملہ بھی حقوق اللّٰہ کی معافی سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اگر انسان نے حقوق اللّٰہ میں کوتاہی کی ہو، مثلاً فرض نماز قضا کی ہو، یا فرض روزے نہ رکھے ہوں، تو ان کی معافی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن بھی احساس ہو جائے اس دن حساب کرے کہ کتنی قضا نمازیں یا روزے رہتے ہوں گے، ان کو ایک ایک کر کے ادا کرنا اور رکھنا شروع کر دے، اور وصیّت کر دے کہ اگر یہ تمام قضا نمازیں ادا کرنے یا روزے رکھنے سے پہلے میرا انتقال ہو جائے تو میرے ترکے سے ان کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ اگر ایک انسان یہ دونوں کام کرنا شروع کر دے اور چند ہی دن بعد اس کا انتقال ہو جائے تو ان شاء اللّٰہ تعالیٰ اس کی نجات ہو جائے گی کہ اس کے اختیار میں جو عمل تھا اس نے اس پہ عمل کرنا شروع کر دیا۔
اس کے برعکس اگر کسی نے کسی دوسرے انسان کو ناجائز طور پہ جانی یامالی نقصان پہنچایا ہو یا اس کو ذہنی اذیّت پہنچائی ہو، یا اس کے پیٹھ پیچھے اس کو برا بھلا کہا ہو، تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک انسان جس کے حقوق پامال کیے ہیں اس سے معافی نہ مانگے اور اس کے جو ضائع حقوق ادا کر سکتا ہے مثلاً مالی نقصان کا تاوان دینا وہ پورے نہ کرے، اس وقت تک اللّٰہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنے سے بھی اس کی معافی نہیں ہو گی اور توبہ قبول نہیں ہو گی۔ اسی لیے حضرت تھانویؒ فرما رہے ہیں کہ اصلاح صرف اس سے پوری نہیں ہوتی کہ اب غصّہ کرنا چھوڑ دیا، بلکہ اصلاح اس وقت پوری ہوتی ہے جب انسان غصّے کی شدت میں جس پہ زیادتی کی ہے، اس سے معافی مانگے، اور اگر اس کا نقصان کیا ہے تو اس نقصان کو پورا کرے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا، "اگر طبعی طور سے غصہ زیادہ آ جاتا ہو اور ذرا سی بات پر حد سے زیادہ غصّہ آ جاتا ہو کہ اس وقت عقل نہ رہتی ہو، بہترین علاج یہ ہے کہ جس پر غصّہ کیا جائے، بعد غصّہ فرو ہو جانے کے مجمع میں اس کے سامنے ہاتھ پاؤں جوڑے، پاؤں پکڑے بلکہ اس کے جوتے اپنے سر پہ رکھ لے، اور ایک دو بار ایساکرنے سے نفس کو عقل آ جائے گی۔"
تشریح: شاید کسی کو خیال ہو کہ یہ تو بہت سخت علاج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیماری جتنی شدید ہو، علاج بھی اتنی ہی شدت کا چاہیے ہوتا ہے۔ جس شخص کا غصّہ اس شدت کا نہ ہو اور آسانی سے اس کے قابو میں آ جائے اس کے لیے اتنے سخت علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایاکہ اگر کسی کو ذرا سی بات پہ اتنا شدید غصّہ آ جاتا ہو کہ عقل ماؤف ہو جائے اور بغیر سوچے سمجھے اپنے غصّے کا شدید اظہار کرنے لگے، اس شخص کے لیے اتنے ہی شدید علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ غصّہ کی جڑ تکبّر میں ہوتی ہے، اور جس انسان کو بہت شدت کا غصّہ آتا ہے اس میں کہیں نہ کہیں تکبّر ہوتا ہے۔اس کو شدید غصّہ آتا ہی اس لیے ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ مجھ جیسے بڑے (معاذ اللّٰہ) شخص کی نافرمانی کرنے کی کسی نے جراٴت کی کیسے۔ جب وہ اپنے نفس کو اس طرح اس شخص کے سامنے ذلیل کرتا ہے کہ مجمع میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے، اپنی غلطی کا اظہار کرتا ہے، اس سے گر کر معافی مانگتا ہے، تو اگلی دفعہ اس کا نفس بھی شدید غصّہ کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچتا ہے کہ سب کے سامنے پھر ذلیل ہونا پڑے گا۔ اگر وہ اس طرح اپنے نفس کا علاج کرتا رہے تو ان شاء اللّٰہ جلد ہی اس کا غصّہ قابو میں آ جائے گا۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا "جس وقت غصّہ آئے امورِ ذیل کی پابندی کریں:
۱۔ یہ خیال کریں کہ میں بھی حق تعالیٰ کا خطا کار ہوں۔ اگر وہ بھی اسی طرح غصّہ کریں تو میرا کہاں ٹھکانہ ہو،
۲۔ اگر میں اس کو معاف کر دوں گا تو اللّٰہ تعالیٰ مجھ کو معاف فرما دیں گے،
۳۔ اس وقت بے کار نہ رہیں، فوراً کسی کام میں لگ جائیں خصوصاً مطالعہ کتب میں،
۴۔ اس جگہ سے ہٹ جائیں،
۵۔ اعوذ باللّٰہ پڑھنے کی کثرت کریں،
۶۔ پانی پی لیں،
۷۔ وضو کر لیں۔
فرمایا: سرعتِ غضب امرِ طبعی ہے۔ اختیار سے خارج ہے۔ اس پر ملامت نہیں۔ البتّہ اس کے مقتضا پر عمل جب کہ حدود سے تجاوز ہو جائے مذموم ہے، اور اس کا علاج بجز ہمت کے کچھ نہیں۔ اس ہمت میں مغضوب علیہ سے فوراً دور چلا جانا، اعوذ باللّٰہ پڑھنا، اپنی خطاؤں اور اللّٰہ تعالیٰ کے غضب کے احتمال کو یاد کرنا، یہ بھی بہت معین ہے۔ اور نرمی وغیرہ مدت تک تکلف سے سوچ سوچ کر اختیار کرنا چاہیے۔ مدت کے بعد ملکہ ہو گا۔ ہمت نہ ہارے۔ (مولانااشرف علی تھانویؒ)
تسہیل و تشریح: حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ کا آسان اردو میں مفہوم یہ ہوا کہ انسان کو کسی بات پہ جو فوراً شدید غصّہ آ جاتا ہے وہ تو طبعی ہے، یعنی اس کے اختیار سے باہر ہے۔ صرف اس غصّہ آنے یا غصّہ محسوس ہونے پہ اس سے آخرت میں سوال جواب نہیں ہو گا۔ لیکن اس غصّے کے زیرِ اثر وہ جو عمل کرتا ہے، یعنی دوسروں پہ اپنے غصّے کا اظہار کرنا، ان پہ چیخنا چلانا، ان پہ ہاتھ اٹھا لینا، اس اظہار میں اگر وہ شریعت کی حدود سے آگے نکل جائے تو اسے آخرت میں اس کا حساب دینا ہو گا۔ اپنے آپ کو غصّے کے اظہار میں حد سے آگے نکلنے سے روکنے کا علاج سوائے اپنی ہمّت کو استعمال کرنے، اور اس ہمّت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو بے جا غصّہ کرنے سے روکنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
اس ہمّت کو استعمال کرنے کے عمل میں جن کاموں سے فائدہ ہوتا ہے، وہ یہ ہیں؛ جس انسان پہ غصّہ آ رہا ہو، اس سے دور چلے جانا یعنی ایک ہی جگہ نہ رہنا، اعوذ باللّٰہ۔۔۔ پڑھنا، اپنی غلطیوں اور اپنے گناہوں کو یاد کرنا اور یہ سوچنا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ ہم سے ہر ہر گناہ کا حساب لینے لگیں تو ہمارا کیا بنے گا۔ انسان کو یہ سب باتیں سوچ سوچ کر غصّے کے اظہار سے رکنا چاہیے، اور کوشش کر کے اپنے الفاظ میں، اپنے لہجے میں، اپنے برتاؤ میں نرمی اختیار کرنا چاہیے۔ جب انسان ایک مدّت تک کوشش کر کے یہ سب اعمال کرتا رہے گا تو ان شاء اللّٰہ یہ سب باتیں اس کی فطرت کا حصّہ بن جائیں گی۔ بس تب تک ہمت کو استعمال کرتا رہے اور ہمت نہ ہارے۔
اگر انسان اپنے غصّے پہ غور کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ غصّے کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ پہلے کسی ناگوار یا اپنی مرضی کے خلاف بات پہ انسان کے دل و دماغ میں غصّے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اس غصّے کا اپنی زبان سے یا اپنے عمل سے اظہار کرتا ہے، مثلاً چیخنا چلانا، کسی کو برا بھلا کہنا، یا کسی پر ہاتھ اٹھانا۔ جو لوگ تحمّل مزاج ہوتے ہیں ان میں ان دونوں مراحل میں وقفہ زیادہ ہوتا ہے، یعنی انہیں سوچنے کا وقت مل جاتا ہے کہ اس وقت اپنے غصّے کا اظہار کرنا مناسب ہے کہ نہیں، اور اگر ہے تو کس حد تک غصّہ کرنا چاہیے، اور ا سکا اظہار کس طریقے سے کرنا چاہیے۔ لیکن جو لوگ مشتعل مزاج ہوتے ہیں ان کے غصّے کے ان دو مراحل، یعنی غصّے کے جذبات محسوس کرنے، اور اس کا اظہار کرنے میں نہ ہونے کے برابر وقفہ ہوتا ہے، اس لیے انہیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اس وقت غصّہ کرنا مناسب یا جائز ہے کہ نہیں، اور وہ سوچے سمجھے بغیر ہی چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں یا ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو دل و دماغ میں کسی ناگوار بات سے غیر اختیاری طور پہ غصّے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یہ چونکہ انسان کے اختیار سے باہر ہیں، اور اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود جگہ جگہ اس طرح کے الفاظ فرمائے ہیں کہ لا یکلف اللّٰہ نفساً اِلّا وسعہا یعنی ہم نے انسان کو کسی ایسی بات کا مکلف یعنی جوابدہ نہیں بنایا جو اس کے اختیار سے باہر ہو، اس لیے ان شاء اللّٰہ غصّے کے ان غیر اختیاری جذبات پہ مواخذہ نہیں ہو گا۔ البتہ اس کے مقتضا پہ عمل، یعنی غصّے کے ان جذبات کے زیرِ اثر انسان جو بھی کام کرتا ہے، مثلاً کسی کو زبان سے، ہاتھ سے، یا مالی طور پہ تکلیف پہنچا دینا، وہ چونکہ انسان کے اختیار میں ہے اس لیے اگر ان اعمال میں وہ شریعت کی حدود سے باہر نکلے گا تو اس سے ان اعمال اور ان الفاظ کا جواب و حساب طلب کیا جائے گا۔
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جی ہمیں جب غصّہ آ جاتا ہے تو ہمیں اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا، اس لیے ہمارا غصّہ تو غیر اختیاری ہے۔ میں ان سے یہی کہا کرتا ہوں کہ جیسا تم غصّے میں اپنے سے کمزور پہ یا اس انسان پہ چیختے چلاتے ہو یا ہاتھ اٹھاتے ہو جو تمہیں برابری سے جواب نہ دے سکے، مثلاً اپنے ملازموں پہ، ماتحتوں پہ یا گھر والوں پہ، کبھی ایسا بھی ہوا کہ تمہیں اپنے غصّے میں اتنا قابو نہ رہا ہو کہ تم نے اپنے باس پہ، یا باس کے باس پہ، یا کسی بڑے افسر پہ ہاتھ اٹھا لیا ہو؟ اس وقت کیسے غصّے پہ کنٹرول یا قابو ہو جاتا ہے؟ اس لیے کہ اس وقت دماغ یاد دلاتا ہے کہ اگر اس وقت چیخوں چلاؤں گا یا اس شخص پہ ہاتھ اٹھاؤں گا تو نوکری سے نکالا جاؤں گا، بہت مالی نقصان ہو گا، آئندہ کہیں نوکری نہیں ملے گی، اور یہی خیالات اس غصّے کے بے قابو اظہار سے روک دیتے ہیں۔ تو اس سے پتہ چلا کہ ہر انسان کا غصّہ اس حد تک اس کے قابو میں ہوتا ہے جس حد تک وہ چاہے۔
حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا کہ غصّہ حد سے زیادہ کرنے اور بغیر جائز وجہ کے کرنے کا علاج سوائے ہمّت کے استعمال کے کچھ اور نہیں ہے۔ اور غصّے کے وقت اپنے آپ کو زیادہ غصّہ کرنے سے روکنے میں یہ باتیں مدد کرتی ہیں؛ اس شخص سے وقتی طور پہ دور چلا جائے جس پہ غصّہ آ رہا ہو جب تک غصّے کی شدّت کم نہ ہو جائے اور غصّہ اپنے قابو میں نہ آ جائے، اعوذ باللّٰہ۔۔۔ پڑھنا جس کی تاکید قرآن کریم میں بھی آئی ہے کہ جب شیطان تمہیں کچوکا لگائے یعنی کسی برے کام پہ آمادہ کرنے کی کوشش کرے تو اعوذ باللّٰہ۔۔ پڑھو، اور اپنی خطاؤں اور اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کے امکان کو یاد کرے۔
اس تیسری بات کی تشریح کرتے ہوئے ہمارے حضرت نے فرمایا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں غصّہ کب آتا ہے، جب کوئی شخص کوئی کام ہماری مرضی کے خلاف کرتا ہے۔ لیکن انسان اگر غور کرے تو اس نتیجے پہ پہنچے گا کہ ہمیں جس پہ غصّہ آ رہا ہوتا ہے ہم نے اس کو پیدا نہیں کیا، ہم نے اس کو پروان نہیں چڑھایا، ہم اس کو رزق نہیں دیتے، حقیقت میں ہمارا اس پہ کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوئی معمولی سی بات بھی ہماری مرضی کے خلاف کرتا ہے تو ہم طیش میں آ جاتے ہیں اور اس پہ چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ اس کے بر عکس اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں اتنی زندگی دی کہ ہم اتنے بڑے ہو جائیں، ہمارا رزق ہمیں دیتے ہیں، لیکن اس سب مہربانیوں اور نعمتوں کے باوجود ہم ہر وقت ان کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ تو جس وقت انسان کو کسی پر غصّہ آئے تو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ میں خود اللّٰہ تعالیٰ کی کتنی نافرمانیوں میں مبتلا ہوں، اور اگر اللّٰہ تعالیٰ اسی طرح ہر غلطی پہ مجھ سے حساب لینے لگیں اور ناراض ہو جائیں تو میرا کیا حشر ہو۔ اس سے غصّہ بہت ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
غصّے کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان
"اور اپنے ربّ کی طرف سے مغفرت اور وہ جنّت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللّٰہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصّے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کر دینے کے عادی ہیں۔ اللّٰہ ایسے نیک لوگوں (محسنین) سے محبّت کرتا ہے۔" (۲: ۱۳۳تا ۱۳۴)
معارف القرآن میں ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت (۲: ۱۳۴) میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ان پسندیدہ لوگوں کے تین درجات بیان فرمائے ہیں جو اپنے غصّے کو قابو میں رکھتے ہیں۔
ان میں سے پہلا اور سب سے نچلا درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے یا ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ غصّے میں بے قابو نہیں ہوتے اور اس شخص سے انتقام نہیں لیتے ۔
ان میں سے دوسرے اور درمیانے درجے کے وہ لوگ ہیں جو جب کوئی ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو نہ صرف اس سے بدلہ نہیں لیتے، بلکہ اس کو معاف کر دیتے ہیں اور اس کی زیادتیوں کو اپنے دل و دماغ سے بھلا دیتے ہیں۔
اور اللّٰہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں میں تیسرے اور سب سے اعلیٰ درجے کے وہ لوگ ہیں جو جب ان کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو نہ صرف وہ اس شخص سے بدلہ نہیں لیتے اور اس کو معاف کر دیتے ہیں، بلکہ جواب میں وہ اس کے ساتھ بھلائی (احسان) کرتے ہیں، اور رسول اللّٰہ ﷺ کا یہی طریقہ تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللّٰہ ان سے محبّت کرتا ہے۔
بزرگوں سے سیکھا کہ اگر کسی کو غصّہ بہت زیادہ آتا ہو اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ جب انسان کو غصّہ آئے تو اپنے آپ کو قرآن کریم کی یہ آیات یاد دلائے اور خود سوچے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں کے کس درجے میں شامل ہونا چاہتا ہے، اور یہ کہ اگر وہ بدلہ نہیں لے گا اور بدلے میں اس شخص کے ساتھ بھلائی کرے گا جس نے اس کو تکلیف پہنچائی ہو تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ محبّت کرتے ہیں۔
یہ کیسے پتہ چلے کہ کس حد تک غصّہ کرنا جائز ہے، اور کس حد کے بعد ناجائز؟
حقیقت میں ایسا کوئی ایک اصول نہیں ہے جس کی بنیاد پہ انسان تمام حالات اور واقعات میں یہ جانچ سکے کہ اس صورتِ حال میں کہاں تک غصّہ کرنا جائز ہے، اور کس حد کے بعد ناجائز ہے۔ جب انسان اپنی اصلاح کا سفر شروع کرتا ہے تو اسی لیے اسے کسی استاد سے مدد لینی پڑتی ہے جو خود اپنی اصلاح کے مرحلے سے گزر ہو چکا ہو۔ پھر وہ ہر صورتِ حال میں اس استاد سے پوچھتا ہے کہ اب غصّہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں، اور اگر ٹھیک ہے تو کس حد تک؟ جب وہ ایک عرصے تک ایسا کرتا رہتا ہے تو اسے خود اس بات کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کر سکے کہ کہاں غصّہ کروں،اور کتنا کروں۔لیکن جب تک انسان کو کوئی ایسا استاد نہ ملے تب تک کے لیے بزرگوں کے بتائے ہوئے کچھ ایسے اصول ہیں جن سے اس بات کا فیصلہ کرنے میں کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی ہے۔
جو مظلوم اپنا بدلہ خود لینے کی سکت نہیں رکھتا اس کا بدلہ اللّٰہ تعالیٰ لیتے ہیں
سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کسی بھی ایسے شخص پہ غصّہ کرنے میں بہت زیادہ احتیاط کریں جو آپ کو برابری سے جواب نہ دے سکتا ہو۔ مثال کے طور پہ انسان کے ماتحت ہوتے ہیں، ملازمین ہوتے ہیں، کوئی غریب لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہو، چھوٹے بچے ہوتے ہیں، ان کو اگر آپ بے جا طور پہ غلط بات کہہ دیں تو ان کو کسی اور طرح تکلیف پہنچائیں تو بہت دفعہ مالی یا معاشی مجبوریوں یا حیثیت میں فرق کی وجہ سے وہ آپ دل ہی دل میں جتنا کڑھتے رہیں، وہ پلٹ کے جواب نہیں دے سکتے۔ ایسے انسان کو تکلیف پہنچانا بہت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جو شخص اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ خود نہیں لے سکتا، بہت دفعہ اس کا بدلہ اللّٰہ تعالیٰ لیتے ہیں، اور اس سے زیادہ خطرناک بات کسی بھی انسان کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
شدید اشتعال کی حالت میں اپنے غصّے کا اظہار مت کریں
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ماتحت ، ملازم یا بچہ کوئی غلطی کرے تو آپ اس کو ٹوک نہیں سکتے یا اس کی غلطی کی تصحیح نہیں کر سکتے، لیکن ایسا کرنے میں کچھ باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ اگر آپ غور کریں تو جس وقت انسان کو غصّہ آتا ہے شروع میں انسان کو شدید طیش ہوتا ہے، اشتعال ہوتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے، مفلوج ہو جاتی ہے، بس یہ دل چاہتا ہے کہ سامنے والے پہ چیخنے چلانے لگوں، اسے ایسا سبق سکھاؤں کہ اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس وقت اگر انسان ہمت کر کے اس غصّے کا اظہار نہ کرے، وہاں سے ہٹ جائے، یا کوئی اور طریقہ اختیار کرے جس سے تھوڑا وقت گزر جائے، تو انسان کا شدید اشتعال کم ہونے لگتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آنے لگتی ہے۔ اپنی ناراضگی کا اظہار انسان پھر بھی کر سکتا ہے لیکن سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔
اس وقت غور کرنے کی بات یہ ہے کہ غصّہ کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا غصّہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مثلاً اپنے بچے کو جو غلطی اس نے کی ہے اس کے لیے تکلیف پہنچائی جائے، اس سے بدلہ لیا جائے؟ یا مقصد یہ ہے کہ اس کی اصلاح ہو، وہ آئندہ دوبارہ ایسی غلطی نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ ہر سمجھدار ماں باپ یہی کہے گا کہ اس کا مقصد بچے کی اصلاح کرنا ہے۔ اسی لیے حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ جب شدید غصّہ آ رہا ہو، اس وقت اس کا اظہار مت کرو، وہاں سے ہٹ جاؤ یا جس پہ غصّہ آ رہا ہو اس کو اپنے سامنے سے ہٹا دو۔ شدید غصّے کی حالت میں اس کا اظہار کرنے سے ڈر یہ ہوتا ہے کہ انسان کوئی ایسی بات کہہ دے گا، کوئی ایسا کام کر گزرے گا جس پہ اسے بعد میں شدید ندامت ہو گی، افسوس ہو گا، پچھتاوا ہو گا۔ جب تھوڑی دیر میں غصّے کی شدّت کم ہو جائے، اس وقت بچے کو اپنے پاس بلاؤ، اس کی غلطی اسے بتاؤ، اور اسے نصیحت کرو کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسا کرنا چاہیے۔ انسان ایسا طویل عرصے تک کرتا رہے تو اس کے غصّے کی شدت اس کے قابو میں آنے لگتی ہے۔
دوسروں کے سامنے کسی کی تحقیر نہ کریں
اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی تحقیر نہ کریں، چاہے وہ آپ کا بچہ ہو، کوئی ملازم ہو، یا کوئی ماتحت ہو۔ ان سے اگر ناراضگی کا ظہار کرنا بھی ہے، ان کی غلطی بتانا بھی ہے، تو اکیلے میں کریں، دوسروں کے سامنے انہیں شرمندہ نہ کریں۔ ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ نصیحت وہ ہوتی ہے جو اکیلے میں کی جائے۔ جو نصیحت بھرے مجمع میں کی جائے، وہ نصیحت نہیں ملامت ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ اپنے بچوں کو ٹوکتے ہوئے اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ خاص طور سے ہمارے کام میں بہت دفعہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ والدین بچوں کے ساتھ چیخ چلا کے بات کرتے ہیں، انہیں برے الفاظ کہتے ہیں، اور بعض دفعہ ہمارے سامنے ہی گالیاں تک بھی دیتے ہیں۔ لیکن ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تب تو ڈر کے خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن جب وہ تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی اسی طرح بدتمیزی سے اور سخت لہجے اور الفاظ کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ پھر والدین ہمارے پاس آتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ جی میرا بچہ بدتمیز ہو گیا ہے، اس کو تمیز کیسے سکھاؤں۔ ہم انہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ وہی کر رہے ہیں جو آپ نے انہیں ساری عمر سکھایا ہے۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اگر آپ ان کا رویہ بدلنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا رویہ بدلیں۔ ان کے ساتھ نرمی سے عزت سے بات کرنا شروع کریں۔ ان کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا کہ آپ کا رویہ واقعی تبدیل ہو گیا ہے، اور یہ محض وقتی تبدیلی نہیں ہے۔ لیکن جب انہیں اس کا یقین آ جائے گا تو ان کا رویہ بھی آپ کے ساتھ بدلنا شروع ہو جائے گا۔
اپنے چہرے کے تاثرات، لہجے اور الفاظ کا بہت خیال رکھیں
جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا، "اور نرمی وغیرہ مدت تک تکلف سے سوچ سوچ کر اختیار کرنا چاہیے۔ مدت کے بعد ملکہ ہو گا۔ ہمت نہ ہارے"۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہماری نرمی یا سختی کا دوسرے لوگوں کو پتہ کیسے چلتا ہے۔ انسان کے اندر کی نرمی یا سختی تین طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے، ایک تو اس کے چہرے کے تاثرات سے، دوسرے اس کے لہجے سے، اور تیسرے اس کے الفاظ سے۔ ان تینوں طریقوں میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّت کیا تھی۔
آج کل بہت بڑی بیماری یہ ہو گئی ہے کہ لوگ سارا دن محنت سے کام کرتے ہیں اور ان کی ساری خوش اخلاقی اسی میں ختم ہو جاتی ہے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا مزاج چڑچڑا ہوتا ہے، اور وہ سارے دن کی تھکن بیوی بچوں پہ چیخ چلا کے اور ان سے بد مزاجی کر کے اتارتے ہیں۔
اس کے برعکس امہات المومنین رضی اللّٰہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو ان کے چہرے پہ ہمیشہ تبسم ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے جن مشکل حالات میں زندگی گزاری آج ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پیدائش سے پہلے والد کا انتقال ہو گیا۔ چند سال کی عمر میں ہی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جب تک مکّہ مکرمہ میں رہے، جانی دشمنوں کے نرغے میں رہے۔ جب مدینہ شریف تشریف لے گئے، اس کے بعد بھی تین بڑے غزوات کا سامنا کرنا پڑا جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔ صرف فتح مکّہ کے بعد کے جو چند سال تھے اس میں امن و امان سے رہنا نصیب ہوا۔ ان سب مشکلات کے باوجود آپ ﷺ کے چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی اور آپ نے کبھی باہر کی مشکلات سے وجہ سے گھر کے اندر کے حالات کو خراب نہیں ہونے دیا۔ یہی ایک اتنی بڑی سنّت ہے کہ اگر انسان اسی کی اتباع کر لے تو اس کی زندگی بدل جائے۔
رسولِ کریم ﷺ کا بات کہنے کا طریقہ
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ بات کہنے کے تین طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ بات صاف ہو اور لہجہ سخت ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بات گول مول ہو اور لہجہ نرم ہو۔
اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بات صاف ہو اور لہجہ نرم ہو، اور یہی طریقہ سب سے افضل ہے، اور رسول اللّٰہ ﷺ کا یہی طریقہ تھا۔
"ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللّٰہ علیہ (حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکّی ؒ) کے سلسلہ میں بہت ہی جلد نفع شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں بطریقِ جذب نفع پہنچتا ہے، نہ بطریقِ سلوک۔ اور اس جذب کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں اتباعِ سنّت کا بڑا اہتمام ہے۔ جب حق تعالیٰ کے محبوب کا اتباع کیا جاتا ہے تو محبوب کا اتباع کرنے والا بھی محبوب ہو جاتا ہے، اور جب محبوب ہو جاتا ہے تو محبّت کا خاصہ ہے انجذاب، پس حق تعالیٰ فوراً اس کو اپنی طرف منجذب فرما لیتے ہیں۔ چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔" (مولانااشرف علی تھانویؒ)
سلوک کا طریقہ
تشریح و تسہیل: بزرگوں کا کہنا ہے کہ ویسے تو اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنے انسان ہیں، یعنی ہر ایک کا راستہ تھوڑا الگ ہوتا ہے، لیکن بنیادی طور سے کوشش کے اعتبار سے اس کے دو طریقے ہیں، ایک تو سلوک کا طریقہ، اور دوسرا جذب کا طریقہ۔ سلوک کا طریقہ یہ ہے کہ انسان تمام فرائض و واجبات ادا کرنے کے بعد بھی بہت نفلی عبادات کرتا رہے، مثلاً بہت ذکر و تسبیح کرے، بہت نفلی نمازیں پڑھے، قرآن کریم کی بہت تلاوت کرے،اور خصوصاً گناہوں سے بہت بچتا رہے، تو ایک دن اس طرح کرتے کرتے اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجّہ ہو جاتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اس کو قبول فرما لیتے ہیں۔
جذب کا طریقہ
سلوک کے طریقے کے مقابل جذب کا طریقہ یہ ہے کہ بعض اعمال ایسے ہیں کہ جو انسان ان کو کرتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف بہت جلدی متوجّہ ہوتی ہے اور اس انسان کو خود اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس لیے اس انسان کا اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق تھوڑے سے اعمال کے بعد ہی استوار ہو جاتا ہے، اور اسی لیے اسے جذب کا طریقہ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کون سے اعمال ہیں کہ جن کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت جلدی متوجّہ ہوتی ہے؟ جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے اپنے ملفوظ میں فرمایا، اس کا جواب اللّٰہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں دے دیا ہے کہ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔ ترجمہ: (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہدو کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللّٰہ تعالیٰ تم سے محبّت کرے گا۔۔۔ (۳: ۳۱)
البتّہ اس اتّباعِ سنّت کی کچھ تفصیل ہے جو ان شاء اللّٰہ اگلی تحریروں میں آئے گی۔
اتّباعِ سنّت کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے حضرت سے بہت دفعہ سنا کہ بہت سے لوگ جو اتّباعِ سنّت کی کوشش کرتے بھی ہیں وہ اپنے آپ کو اس حد تک محدود کر لیتے ہیں کہ اپنے ظاہری حلیے میں اور کچھ عبادات کی حد تک تو رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّتوں کا اتباع کرنے لگتے ہیں، لیکن اپنی باقی زندگی کو اتباعِ سنّت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپنے ظاہری حلیے میں سنّت کا اتباع کرنا اپنی ذات میں خود بہت بڑی عبادت نہیں ہے، بلاشبہ یہ خود ایک عطیم الشان طاعت ہے، لیکن اتباعِ سنت کو یہاں تک محدود نہیں کر لینا چاہیے۔ رسول اللّٰہ ﷺ کی سنّتیں زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہیں اور ہمیں
اپنی استطاعت کی حد تک ان تمام سنّتوں کی اتباع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جیسا کہ پہلے کئی دفعہ آیا، حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ ہمارے دین کے پانچ اجزاء یا شعبے ہیں، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، اور اخلاق۔ اور انسان حقیقی معنوں میں اسی وقت اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو سکتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم کی آیت کا مضمون ہے، جب وہ ان پانچوں شعبوں پہ پورا عمل کرے، یا کم از کم اپنی استطاعت کی حد تک ان پہ عمل کرنے کی پوری وری کوشش کرے۔ تو جہاں انسان اپنے عقائد اور اپنی عبادات کو صحیح کرنے کی کوشش کرے، وہاں یہ بھی جاننے
کی کوشش کرے کہ رسول اللّٰہ ﷺ جب کسی سے کوئی مالی معاملہ کرتے تھے مثلاً خرید و فروخت، ادھار لینا یا دینا،تجارت، تو اس میں ان کا عمل کیسا ہوتا تھا، آپ ﷺ
کا اپنے گھر والوں سے، اپنے اصحاب سے، یہاں تک اپنے دشمنوں سے بھی سلوک کیسا تھا، آپ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے مثلاً آپ میں کس قدر تواضع تھی، اللّٰہ تعالیٰ پہ توکّل
اور بھروسہ تھا، کس قدر شکر کی کیفیت آپ پہ غالب رہتی تھی، آپ نے تکلیف کے مواقعوں پر کس قدر صبر فرمایا۔ جب انسان دین کے ان تمام شعبوں میں رسول اللّٰہ کی سنّتوں
کا علم حاصل کرنے اور ان پہ عمل کرنے کی کوشش کرے، تب ہی وہ صحیح معنوں میں متبع سنّت کہلا سکتا ہے۔
حصولِ نسبت کی ترتیب و حقیقت یہ ہے کہ اول بہ تکلف اعمالِ ظاہرہ و باطنہ کی اصلاح کرے، بالخصوص اعمالِ باطنہ کی اصلاح زیادہ اہم اور دشوار ہے۔ جب اعمالِ صالحہ ظاہرہ و باطنہ پہ ایک معتدبہ مدت تک مواظبت رہتی ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت پیدا ہونے لگتی ہے، اور ایک کیفیتِ راسخہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سہولت ہی کے لیے عام مراقبات، ریاضات، مجاہدات، اذکار و اشغال مقرر کیے گئے ہیں۔ باقی اصل چیز اصلاحِ اعمالِ ظاہرہ و باطنہ ہی ہے، جس پر نسبتِ حقیقی مرتب ہوتی ہے۔جب بندہ اعمالِ صالحہ ظاہرہ و باطنہ پہ مداومت کرتا ہے تو حق تعالیٰ کو اس کے ساتھ رضائے دائمی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے نسبت مع اللّٰہ کی۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ کا آسان اردو میں مفہوم کچھ یوں ہوا کہ جو انسان اللّٰہ تعالیٰ کے راستے پہ چلنا شروع کرتا ہے اسے شروع میں ہمّت کر کے اور اپنے دل پہ جبر کر کے اپنے اعمالِ ظاہرہ و باطنہ کی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ اعمالِ ظاہرہ سے مراد ہوتی ہے وہ اعمال جو انسان اپنے بدن سے، اپنے اعضاء سے مثلاً ہاتھ پاؤں یا زبان سے انجام دیتا ہے۔ اس میں کچھ اوامر ہوتے ہیں یعنی وہ کام جن کے کرنے کا حکم ہے جیسے کہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، حج کرنا، اور کچھ نواہی ہوتے ہیں یعنی وہ کام جن کے کرنے سے روکا گیا ہے مثلاً جھوٹ بولنا، چوری کرنا، شراب پینا۔
اعمالِ باطنہ سے مراد ہوتی ہے وہ اعمال جو انسان اپنے دل میں، اپنے ذہن و دماغ میں انجام دیتا ہے۔ اس میں بھی کچھ اوامر ہوتے ہیں کہ جیسے کہ دل سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا، صبر کرنا، توکّل کرنا، عبادات میں اخلاص اختیار کرنا، اور کچھ نواہی ہوتے ہیں جیسے کہ ریا یعنی دکھاوے کی نیّت سے عبادات انجام دینا، تکبّر کرنا یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، حسد کرنا یعنی دوسرے کی ترقی سے اس حد تک جلنا کہ دل میں خواہش رکھے یا اس کی کوشش کرے کہ دوسرے کا نقصان ہو جائے۔
باطن کی اصلاح زیادہ اہم کیوں ہے؟
حضرت فرما رہے ہیں کہ ان دونوں طرح کے اعمال میں بھی اعمالِ باطنہ کی اصلاح زیادہ اہم اور زیادہ مشکل ہے۔ اس کی زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ اگر انسان کا باطن درست نہ ہو تو بہت دفعہ اس کے ظاہری اعمال بھی ضائع اور نامقبول ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث کا مضمون ہے کہ آخرت میں ایک عالم، ایک سخی اور ایک مجاہد سے یہ کہا جائے گا کہ تم نے جو کچھ بھی نیک اعمال کیے تھے اس نیّت سے کیے تھے کہ لوگ تمہیں بہت بڑا عالم کہیں، سخی کہیں، شجاع کہیں، تمہیں وہ فائدہ دنیا میں مل گیا، جاؤ اب آخرت میں تمہارا کوئی حصّہ نہیں۔ تو اتنے نیک اعمال کیے لیکن چونکہ اخلاص سے، اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی نیّت سے نہیں کیے، بلکہ ریا کی نیّت سے کیے، اس نیّت سے کیے کہ لوگ تعریف کریں، تو وہ سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ نماز پڑھی، بہت اچھی طرح پڑھی، بہت طویل سجدے کیے، طویل سورتیں پڑھیں، لیکن اس نیت سے پڑھی کہ لوگ کہیں کہ واہ کتنا بڑا عابد و زاہد ہے، اس لئے نہ صرف اس نماز کا کوئی ثواب نہ ملا، بلکہ ریا جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب ہوا جسے شرکِ اصغر یعنی چھوٹا شرک کہا گیا ہے۔ تو اعمالِ باطنہ کی اصلاح کیے بغیر اعمالِ ظاہرہ کا بھی پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
اعمالِ باطنہ کی اصلاح زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ بہت دفعہ انسان ان باطنی بری صفات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، یا بہت چھوٹی عمر میں سیکھ لیتا ہے اور یہ اس کے باطن میں پختہ ہو جاتی ہیں۔ ان کا علاج کروانے کے لیے انسان کو کسی ایسے باطنی بیماریوں کے معالج سے علاج کروانا پڑتا ہے جو خود اس اصلاح کے مرحلے سے گزر چکا ہو۔ اور پھر اس معالج کے مشورے سے، انسان کی بری باطنی صفات کے جو فطری تقاضے ہیں مثلاً بے انتہا بیجا چھوٹی چھوٹی بات پہ غصّہ کرنا، یا اس حد تک بخیل یعنی کنجوس ہونا کہ انسان زکوٰة بھی پوری ادا نہ کرے، اپنے قریبی لواحقین کے مالی حقوق بھی ادا نہ کرے، دلپہ جبر کر کے اور پتھر رکھ کے اتنے عرصے تک ان فطری تقاضوں کے خلاف عمل کرنا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ باطنی بری صفات کمزور پڑ جائیں۔ اسکی بہت تفصیل ان شاء اللّٰہ آگے آئے گی۔
اعمالِ باطنہ کی اصلاح زیادہ مشکل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کو خود اپنی باطنی کمزوریوں کا ادراک یا احساس نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پہ معاذاللّٰہ کوئی شخص نماز نہ پڑھتا ہو یا روزے نہ رکھتا ہو، یا جھوٹ بولتا ہو، یا چوری کرتا ہو، تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کام کر رہا ہے یا نہیں کر رہاہے۔یہ ادراک اس شدت کا نہ ہو کہ وہ یہ غلط کام چھوڑ دے وہ ایک علیحدہ بات ہے، لیکن بہر حال اسے ان سب کاموں کے کرنے یا نہ کرنے کا علم ہوتا ہے۔اس کے بر عکس معاذ اللّٰہ ایک شخص تکبّر میں مبتلا ہو تو اسے علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ تکبّر کا ارتکاب کر رہا ہے جو ایک بہت بڑا گناہ ہے وہ تو واقعی اسبات کو حقیقت سمجھتا ہے کہ وہ سب سے بہتر اور برتر ہے، اور دوسرے سب لوگ اس سے کمتر ہیں۔ اگر کسی انسان کو علم ہو کہ وہ جو خیالات رکھتا ہےوہ تکبّر کرے ہی کیوں؟ وہ تکبّر کرتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے خیال میں یہ حقیقت ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے باطنی بیماریوں اور خرابیوں کے علاج میں دوگنی مشقت ہوتی ہے، پہلے یہ جاننا اور سمجھنا کہ انسان جو خیالات رکھتا ہے اور جس طرح سے سوچتا ہے، اور ان خیالات کی وجہ سے اس کے اعمال پہ جو اثر پڑتا ہے وہ سب غلط اور گناہ ہے، اور اس کے بعد ان اندرونی خیالات اور اعتقادات کو تبدیل کرنا، اور جان بوجھ کے ان غلط خیالات کے اثر میں وہ جو عمل کیا کرتا تھا، کسی رہنما سے پوچھ کے ان اعمال کے بالکل برخلاف اعمال کرتے رہنا تا کہ اس کے یہ غلط خیالات اور صفات کمزور پڑیں۔ مثلاً اگر وہ پہلے بہت زیادہ بلاوجہ ناجائز غصّہ کیا کرتا تھا تو اب غصّہ کرنا بالکل چھوڑ دے اور جائزمقامات پہ بھی غصّہ نہ کرے۔ جب انسان ایک عرصے تک مشقت کر کے ایسا کرتا رہے تو اس کی بری باطنی صفات کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہیں، اوراچھی باطنی صفات طاقتور ہونے لگتی ہیں۔
"جب اعمالِ صالحہ ظاہرہ و باطنہ پہ ایک معتدبہ مدت تک مواظبت رہتی ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت پیدا ہونے لگتی ہے، اور ایک کیفیتِ راسخہ پیدا ہو جاتی ہے۔" (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ جب انسان اپنے ظاہری و باطنی اعمال کی اصلاح ضروری حد تک کر لیتا ہے اور اس کے بعد ایک مناسب مدت تک ان کا پابند رہتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے لیے یہ اعمال کرنا آسان ہونے لگتا ہے۔ تھوڑی بہت مشقت تو ابھی بھی ہوتی ہے، اور اسی کا اسے ثواب ملتا ہے، لیکن مثلاً پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرنا یا اپنے غصّے کو کنٹرول کرنا شروع شروع میں جتنا مشکل لگتا تھا، اب اتنا مشکل نہیں لگتا۔
کیفیتِ راسخہ سے مراد یہ ہے کہ انسان ان نیک اعمال کا اس حد تک پابند ہو جائے کہ سوائے اس کے اختیار سے باہر غیر معمولی حالات مثلاً شدید بیماری کے اس کو ان اعمال کی پابندی کرنے میں غفلت نہ ہو اور وہ ان کا پابند رہے۔
"اس سہولت ہی کے لیے عام مراقبات، ریاضات، مجاہدات، اذکار و اشغال مقرر کیے گئے ہیں۔ باقی اصل چیز اصلاحِ اعمالِ ظاہرہ و باطنہ ہی ہے، جس پرنسبتِ حقیقی مرتب ہوتی ہے۔ جب بندہ اعمالِ صالحہ ظاہرہ و باطنہ پہ مداومت کرتا ہے تو حق تعالیٰ کو اس کے ساتھ رضائے دائمی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اوریہی حقیقت ہے نسبت مع اللّٰہ کی۔" (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
حضرت نے مزید فرمایا کہ تصوّف میں جتنے بھی مجاہدے کروائے جاتے ہیں اور معمولات کی تلقین کی جاتی ہے، ان کا اصل مقصد یہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر اور ان کی یاد کی کثرت سے انسان کے لئے اپنے ظاہری اور باطنی اعمال کی اصلاح کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی اعمال کی اصلاح دین کی روح ہے، اور اسی سے انسان کا اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور پھر دوبارہ ناراض نہیں ہوتے۔ اسی خاص تعلق کو نسبت مع اللّٰہ کہا جاتا ہے۔
اگر یہ شبہ ہو کہ جبلّت تو کسی کی بدل نہیں سکتی پھر جبلّی صفاتِ رذیلہ کی اصلاح کیوں کر ہو سکتی ہے، تو خوب سمجھ لو کہ مادّہ جبلّی ہوتا ہے مگر فعل اختیار میں ہے۔ پس مادّہ بیشک زائل نہیں ہوتا مگر اس کے مقتضا پر عمل کرنا نہ کرنا اختیار میں ہے، اور اس کا انسان مکلّف ہے۔ اور بار بار اس متضاء کی مخالفت کرنے سے وہ مادّہ بھی ضعیف ہو جاتا ہے۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
جبلّی: جو بات فطرت میں ہو
صفاتِ رذیلہ: باطن کی وہ صفات جو شرعاً ناپسندیدہ ہوں مثلاً ریا، بخل، بے جا غصّہ آنا
مادّہ: باطنی صفت مثلاً پیسے خرچ کرنے سے دل پہ گرانی ہونا
مقتضا: باطنی صفت جو کام کرنے پر مجبور کرے
مکلّف: جوابدہ
تسہیل و تشریحِ ملفوظ: ہر انسان کی ایک فطرت (جبلّت) ہوتی ہے، مثلاً کچھ لوگوں کو طبعاً غصّہ بہت آتا ہے، اور کچھ لوگ طبعاً دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ فراخ دل ہوتے ہیں اور
ان کے لئے دوسروں پہ پیسہ خرچ کرنا آسان ہوتا ہے، جبکہ کچھ لوگ باطنی طور پہ پہ کنجوس ہوتے ہیں اور ان کے لئے پیسہ خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے کہجیسے ان کے دل پہ پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔ان کی طبیعت یا فطرت ہی شروع سے اس طرح کی ہوتی ہے۔ اور عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسان اپنی فطرت بدل نہیں سکتا۔ اس پہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی فطرت بدل ہی نہیں سکتا تو اس کے اندر جو فطرتی طور پہ بری صفات ہیں مثلاً غصّہبلا وجہ اور بہت زیادہ آنا، بخل (کنجوسی)، تکبّر ، وغیرہ، ان کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟
فطری تقاضے غیر اختیاری ہیں، لیکن ان پہ عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیارمیں ہے
حضرت تھانویؒ اس کا جواب دے رہے ہیں کہ بیشک اپنی فطرتی صفات کو بدلنا تو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا، لیکن ان صفات کے زیرِ اثر وہ جو کام یا اعمال کرتا ہے مثلاً اپنے بے قابو غصّے کے زیرِ اثر بلا وجہ دوسروں پہ چیخنا چلانا، ان کو زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف پہنچانا، یا اپنی کنجوسی کی صفت کے زیرِ اثر زکوٰة ادا نہ کرنا، بیوی بچوں کے مالی حقوق پورے نہ کرنا، یہ اعمال ضرور انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ انسان اپنی باطنی صفات کا مکلّف یعنی جوابدہ نہیں کہ اس کے باطن میں اس طرح کی صفات تھیں ہی کیوں۔ لیکن اسے اس بات کا حساب دینا ہوگا کہ اس نے اپنے دل پہ جبر کر کے اور اپنی باطنی صفات کی مخالفت کر کے وہ تمام اعمال کئے کہ نہیں جن کا شریعت نے اسے حکم دیا ہے۔ اور انسان جب بار بار اپنی بری باطنی صفات کی مخالفت کر کے نیک اعمال کرتا رہتا ہے تو اس کے اندر کی یہ صفات بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑ جاتی ہیں اور اس کے لیے ان کی مخالفت کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔
سارے مجاہدے بس اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ اختیارِ اوامر اور اجتنابِ نواہی میں سہولت پیدا ہو جائے۔ اور اوّل اوّل تو ہر کام مشکل ہوتا ہے مگر کرتے کرتے مشق ہو جاتی ہے اور پھر نہایت سہولت کے ساتھ ہونے لگتا ہے، جیسے حفظ کا سبق شروع میں دشوار ہوتا ہے مگر رٹتے رٹتے یاد ہو جاتا ہے۔ اگر شرو ع کی کلفت اور تعب کو دیکھ کر ہمت ہار دی تو پھر کوئی صورت ہی کامیابی کی نہیں۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
اختیارِ اوامر: جو کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو بجا لانا
اجتنابِ نواہی: جن کاموں کو کرنے سے منع کیا گیا ہے، ان کو نہ کرنا
کلفت: پریشانی، تکلیف
تعب: کسی مشقت کی وجہ سے تھکن ہونا
تو حضرت تھانویؒ کے ا س ملفوظ کا آسان اردو میں مفہوم یہ ہے کہ سارے مجاہدے مثلاً ذکر کی کثرت، معمولات، کم بولنا، لوگوں سے کم ملنا جلنا، ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کے لئے اوامر (یعنی جن اعمال کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے) پہ عمل کرنا اور نواہی (یعنی جن کاموں کو نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے) سے بچنا آسان ہو جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ شروع میں کہتے ہیں کہ جی عبادت کرنا، مثلاً روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنا یا گناہوں سے بچنا بہت مشکل ہے، کوئی ایسی ترکیب یا وظیفہ بتا دیں جس سے یہ آسان ہو جائیں۔ حضرت تھانویؒ نے اس بات کا یہ جواب دیا ہے کہ جب انسان کوئی بھی نیا کام شروع کرتاہے تو اس کو پابندی سے کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر انسان دل مضبوط کر کے ہمّت کر کے اس کو کرتا رہے تو پھر آہستہ آہستہ عادت ہونے لگتی ہے۔ لیکن اگر انسان شروع کی مشکل دیکھ کے ہی ہمّت ہار دے اور کوشش ہی نہ کرے تو اس کو نہ فرائض و واجبات ادا کرنے کی عادت پڑے گی اور نہ ہی گناہ چھوٹیں گے۔
جنت اتنی سستی نہیں ہے
ہمارے حضرت نے اسی سلسلے میں بہت دفعہ فرمایا کہ جنّت اتنی سستی نہیں ہے کہ زبردستی کسی کے سر ڈال دی جائے۔ انسان کو ایک معمولی نوکری مل جاتی ہے تو اس کے لئے اتنی تگ و دو کرتا ہے کہ صبح منہ اندھیرے بیدار ہوتا ہے، جلدی جلدی تیار ہوتا ہے اور علی الصبح ملازمت کے لئے نکلتا ہے، کبھی کبھی اسے دو دو بسیں بدلنی پڑتی ہیں۔ پھر سارا دن کام کرتا ہے۔ رات کو اندھیرے میں گھر پہنچتا ہے۔ بچے سو چکے ہوتے ہیں تو انہیں دیکھ بھی نہیں پاتا۔ لیکن اگر کوئی اس سے ہمدردانہ طور پہ کہے کہ بھائی تمہیں اس معمولی سی نوکری کے لئے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ چلو میں اسے چھڑوا دیتا ہوں، تو وہ کہے گا کہ تم "میرے دوست ہو یا دشمن ہو؟ اتنی مشکل سے یہ نوکری ملی ہے اور تم اسے چھڑوانے کی بات کرتے ہو۔" کیوں؟ اس لئے کہ اسے اس تنخواہ سے محبّت ہے جو اس ساری مشقّت کے بعد اسے مہینے کے آخر میں ملنے والی ہے۔ یہ محبّت اس ساری مشقت کو راحت میں بدل دیتی ہے۔
حضرت نے فرمایا کہ ہم لوگ اللّٰہ تعالیٰ سے محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بغیر کسی محنت کسی مشقّت کے ہمیں جنّت مل جائے۔ لیکن بھائی جنّت اتنی سستی نہیں ہے۔ انسان اس کے لئے اتنی محنت تو کرے جتنی دنیا میں ان چیزوں کے لئے کرتا ہے جن سے اسے محبّت ہوتی ہے۔
اختیاری امور میں کوتاہی کا علاج بجز ہمّت اور استعمالِ اختیار کے کچھ نہیں۔ اسی پر مدار ہے تمام اصلاحات کا اور یہی ہے علاج تمام کوتاہیوں کا۔ سارے افعال شریعہ اختیاری ہیں، ورنہ نصوص کی تکذیب لازم آتی ہے۔ پس جب اختیار کا استعمال کرے گا تو کامیابی لازم ہے۔ البتّہ دشواری اور کلفت اوّل اوّل ضرور ہو گی لیکن اس کا علاج بھی یہی ہےکہ باوجود کلفت کے ہمت سے اور اختیار سے برابر، بہ تلف اور با جبر کام لیتا رہے۔ رفتہ رفتہ و کلفت مبدل بسہولت ہو جائے گی۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
اختیاری اور غیر اختیاری اعمال کا فرق
اس ملفوظ کو سمجھنے سے پہلے اختیاری اور غیر اختیاری کاموں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ تصوّف کی حقیقت اختیاری اور غیر اختیاری کاموں کا فرق سمجھنا ہے۔ پھراس کے بعد اختیاری کاموں کو زیادہ سے زیادہ کرے، اور غیر اختیاری کاموں کی فکر بالکل چھوڑ دے۔ مثلاً کوئی شخص اگر یہ شکایت کرتا کہ میرا نماز میں دل نہیں لگتا، تو فرماتے کہ دل کا لگنا فرض نہیں، دل کا لگانا فرض ہے۔ مطلب یہ کہ انسان کے ذمّہ جو کام فرض ہیں یعنی وقت پر نماز پڑھنا، نماز کے تمام باطنی اور ظاہری آداب کو بجا لانا، اپنے اختیار سے نماز میں قرآن کریم کی طرف اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف توجہ لگائے رکھنے کی کوشش کرنا، یہ تمام کام اختیاری ہیں اور انسان کے ذمّہ ضروری ہے کہ اپنے اختیار سے ان کو مکمل صحیح طور سے ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ لیکن یہ کہ نماز میں غیر اختیاری وساوس نہ آئیں، مکمل وقت دل پہ رقّت کی کیفیت طاری رہے، یہ باتیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں اور ان کی فکر میں نہیں پڑنا چاہئے۔
ہمارے حضرت سے کئی دفعہ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا یہ قول سنا کہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس کو ساری عمر نماز میں لطف نہ آیا، لیکن وہ نماز پڑھتا رہا۔ اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نماز میں لطف آنا غیر اختیاری ہے، لیکن نما زپڑھنا اختیاری عمل ہے۔ اور خصوصاً جو شخص لطف نہ آنے اور دل نہ لگنے کے باوجود صرف اس لئے نماز پڑھتا رہا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس کے اخلاص میں تو کوئی شبہ ہو ہی نہیں سکتا۔
سستی کا علاج چستی
تو حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ کا مفہوم یہ ہوا کہ جب یہ معلوم ہو گیا کہ فلاں عمل انسان کے اختیار میں ہے، تو اب اس اختہاری عمل کو انجام دینے میں سستی ہونے کا علاج سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ انسان ہمّت سے کام لے۔ حضرت سے کوئی کہتا کہ حضرت سستی یا کم ہمتی کی نماز کی پابندی نہیں ہوتی، اس کے لئے کوئی وظیفہ بتا دیجئے۔ تو حضرت جواب دیتے کہ ابھی نماز پڑھنے میں سستی ہوتی ہے، میں وظیفہ بتاؤں گا تو اس وظیفے کو پڑھنے میں سستی ہوگی۔ پھر اس وظیفے کی سستی کو دور کرنے کے لئے ایک اور وظیفہ پوچھو گے۔ یہ سلسلہ کہاں ختم ہو گا؟اس سستی کا علاج سوائے چستی کے کچھ اور نہیں۔
ہمارے حضرت نے ایک دفعہ فرمایا کہ کم ہمّتی اور سستی کا علاج بجز ہمّت کے استعمال کے کچھ اور نہیں ہے۔ اسی بات پر ایک قصّہ سنایا کہ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور اپنا کچھ کمال دکھانے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے دربار کے فرش میں ایک سوئی گاڑ دی۔ پھر کئی گز دور کھڑے ہو کر اس نے ایک سوئی پھینکی جو اس پہلی سوئی کے ناکے سے پار ہو گئی۔ پھر اسی طرح یکے بعد دیگرے اس نے کئی سوئیاں پھینکیں جو تمام کی تمام اس کھڑی ہوئی سوئی کے ناکے سے پار ہو گئیں۔ ہاروں الرشید نے اس کمال کو دیکھنے کے بعد حکم دیا کہ اس شخص کو سو دینار انعام میں دیے جائیں، اور دس کوڑے لگائے جائیں۔ درباریوں نے جب اس عجیب و غریب "انعام" کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ "انعام تو اس بات کا ہے کہ اس کا کمال واقعی حیرت انگیز ہے، اور سزا اس بات کی ہے کہ اس نے اپنی تمام تر توانائیوں کو ایسے کام میں خرچ کیا جو بالکل فضول ہے اور جس سے کسی کا دو پیسے کا بھی فائدہ نہیں۔ اگر یہی محنت یہ کسی مفید کام میں کرتا تو اس کا اپنا یا دوسروں کا کتنا فائدہ ہوتا۔" یہ قصّہ سنانے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی ہمّت میں اتنی قوّت رکھی ہے کہ ایسے ایسے محیّر العقول کام بھی کر لیتا ہے، لیکن شرط یہی ہے کہ اس سے کام لے اور اسے استعمال میں لائے۔
"مجاہدہ اضطراریہ سے عمل میں قلت بھی ہو جائے اور محض فرائض و واجبات ہی پر اکتفا ہوتا رہے تب بھی مجاہدہ کاملہ کا ثواب ملتا ہے۔" (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
اس ملفوظ سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک انسان کو نفلی عبادات باقاعدگی سے کرنے کی عادت ہو، جن کو معمولات کہا جاتا ہے، مثلاً نفل نمازیں پڑھنا، قرآنکریم کی روزانہ تلاوت کرنا، تسبیحات پڑھنا، اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، لیکن کبھی اس کے اختیار سے باہر کسی عذر کی وجہ سے، مثلاً اس کو یا گھر میں کسیکو کوئی شدید بیماری ہو جائے اور اس بیماری، اس کے علاج یا تیمارداری کی وجہ سے وہ اپنے روزانہ کے معمولات ادا نہ کر سکے، لیکن فرائض و واجباتادا کرتا رہے مثلاً فرض نمازیں پڑھتا رہے، تو ان شاء اللّٰہ اس بیماری یا عذر کی حالت میں اسے نہ ادا کر سکنے کے باوجودان تمام نفل عبادات کا ثواب ملتارہے گا جو وہ صحت کی حالت میں ادا کیا کرتا تھا۔
فرمایا: جس طرح وصول کی ایک صورت یہ ہے کہ حرم میں نماز پڑھو، یہ بھی ایک صورت ہے کہ کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھو اور حرم کو ترستے رہو۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کا قول ہے کہ میں نے اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔
بزرگوں سے سیکھا کہ جس طرح عزیمت (یعنی مشکل کام) پہ عمل کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے، اسی طرح رخصت (یعنی چھوٹ یا دین میں آسانی) پہ عمل کرنا بھی بڑی فضیلت کی بات ہے۔ جس حال میں وہ رکھیں، اسی حال میں خوش رہنا چاہئے۔ اپنی طرف سے شکایت نہیں کرنا چاہئے کہ مثلاً میری صحت کیوں خراب ہو گئی، میں اگر صحت مند ہوتا تو فلاں فلاں عمل کرتا، عبادت کرتا۔ حضرت تھانویؒ کے سامنے اگر کوئی بیمار اس طرح کا شبہ ظاہر کرتا کہ تیمّم کرنے سے پتہ نہیں نماز صحیح ہو گی کہ نہیں ہو گی، تو اس پہ ناراض ہوتے اور فرماتے کہ وضو کرنا بھی ان ہی کا دیا ہوا حکم ہے، اور تیمّم کرنا بھی ان ہی کا دیا ہوا حکم ہے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے یہ رخصت دی ہے کہ بیماری ہے، اس میں پانی سے وضو کرنا صحت کے لئے خطرنا ک ہو گا، تو تیمّم کر کے نماز پڑھ لو، تو اس وقت تیمّم کرنا ہی افضل ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے بہادری نہیں کرنا چاہئے، اور یہ شک شبہ نہیں کرنا چاہئے کہ تیمّم کر کے پڑھنے سے نماز اتنی اچھی نہیں ہو گی جتنی وضو سے ہوتی۔ یہ بیماری بھی ان ہی کی دی ہوئی ہے۔ جب انہوں نے حکم دیا ہے کہ تیمّم کرو، تو تیمّم کر کے مطمئن رہو۔
اسی طرح جب کوئی یہ افسوس ظاہر کرتا کہ بیماری کی وجہ سے معمولات (قرآن کریم کی تلاوت، ذکر، تسبیح) نہیں ہو پارہے، یا مسجد جا کے جماعت سے نماز پڑھنا چھوٹ گیا ہے، تو بھی یہی فرماتے کہ جس حال میں محبوب رکھے، وہی حال اچھا ہے۔ جب ان ہی کی دی ہوئی بیماری کی وجہ سے مسجد نہیں جانا ہو پا رہا، اور دل میں افسوس بھی ہے کہ مسجد نہیں جا پا رہا، تو ان شاء اللّٰہ اس عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھنے کا وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں پڑھنے سے ملتا۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی ؒ (خلیفہ مجاز حضرت تھانویؒ) کے سامنے کوئی یہ افسوس ظاہر کرتا کہ رمضان المبارک میں بیماری کی وجہ سے کچھ روزے نہیں رکھ سکا، اب بعد میں رکھوں گا تو وہ رمضان المبارک کی برکت نہیں ہوگی، تو فرماتے کہ بھائی جب ان کی دی ہوئی بیماری (یعنی اپنے اختیار سے باہر وجوہات) کی وجہ سے روزے نہیں رکھ پائے، تو ان شاء اللّٰہ جب بھی روزے رکھو گے تو تمہارے لئے وہی رمضان المبارک کا مہینہ لوٹ آئے گا، اور وہی برکات حاصل ہوں گی جو رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے ملتیں۔
حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکّی ؒ (مولانا اشرف علی تھانویؒ کے شیخ) کے سامنے کوئی شوق ظاہر کرتا کہ ہندوستان (یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے) سے ہجرت کر کے مکّہ مکرمہ منتقل ہو جائیں تو فرماتے کہ بھائی دیکھ لو۔ جسم ہندوستان میں رہے اور دل مکّہ میں، یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ جسم تو مکّہ میں ہو اور دل ہندوستان میں۔
دین شوق پورا کرنے کا نام نہیں
ہمارے حضرت سے بہت دفعہ یہ بات سنی کہ دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں، دین اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ ﷺ کے حکم کی اتباع کا نام ہے۔ فرمایا کہ مثلاً کسی کو شوق ہو گیا کہ مسجد میں جا کے جماعت سے نماز پڑھیں گے، جو کہ بہت اچھی بات ہے اور شرعاً واجب ہے۔ لیکن خدا نہ کرے گھر والوں کو اتنی شدید بیماری ہو گئی کہ اگر ان کو گھر میں اکیلے چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو ان کی صحت کو یا جان کو شدید اندیشہ ہو گا۔ ایسی صورت میں اگر انسان یہ کہے کہ جی مجھے تو مسجد میں نماز پڑھنے کا شوق ہے۔ میں تو وہیں جا کے نماز پڑھوں گا چاہے گھر والوں کی بیماری کیوں نہ بڑھ جائے یا جان کیوں نہ چلی جائے، تو اب یہ عمل جو ہو رہا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی اتّباع میں نہیں ہو رہا، یہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے ہو رہا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھو اور بیمار کی تیمارداری کرو۔ اس وقت ثواب گھر میں نماز پڑھنے میں ہے، مسجد جا کے نماز پڑھنے میں نہیں ہے۔
حضرت نے ایک اور مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ مثلاً کسی کو عالمِ دین بننے کا شوق ہو گیا۔ اب اپنے شہر میں مدرسہ نہیں ہے، دوسرے شہر میں ہے، لیکنگھر میں ماں باپ بوڑھے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ ایسے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ گھر میں رہ کے ماں باپ کی دیکھ بھالکرے، کیونکہ خودعمل کرنے کے لئے جتنا دین کا علم چاہئے، اس حد تک علمِ دین حاصل کرنا تو فرضِ عین ہے، لیکن باقاعدہ عالمِ دین بننا فرضِ کفایہ ہے،یعنی امّت میں سے کچھ افراد نے یہ ذمّہ لے لیا تو سب کی طرف سے یہ فرض پورا ہو گیا۔ ایسے میں بوڑھے ماں باپ کو گھر میں چھوڑ کے جانا جس سےان کو شدید تکلیف ہو جائے، یہ شریعت کا اتّباع نہیں ہے۔ یہ تو شوق پورا کرنا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں شریعت کا حکم تو یہی ہے کہ گھر میں رہ کےماں باپ کی خدمت کرو۔ اس صورت میں اصل ثواب عالمِ دین بننے میں نہیں، عالمِ دین نہ بننے میں ہے۔
فرمایا: مجاہدہ اختیاریہ میں تو فعل کا غلبہ ہے اس لئے اس میں انوار زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ انوار کا ترتب عمل پر ہوتا ہے، اور مجاہدہ اضطراریہ میں فعل کم ہوتا ہے، اس میں نورانیت کم ہوتی ہے، لیکن انفعال کا غلبہ ہوتا ہے اس سے قابلیت میں قوت بڑھتی ہے، اور اس انفعال و قابلیت کی خود اعمالِ اختیاریہ کے راسخ ہونے کے لئے سخت ضرورت ہے، اسی لئے بزرگوں نے ایسے مجاہدات بہت زیادہ کرائے ہیں۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
جیسا کہ پہلے آیا تھا، تصوّف میں مجاہدے کا مطلب ہوتا ہے اپنی اصلاح کی غرض سے اور قرآن و سنّت کے احکامات کی اتباع میں ایسے کام کرنا جو انسان کے نفس کی خواہش اور مرضی کے خلاف ہوں۔ یہ مجاہدے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ جو انسان خود اپنی مرضی اور اختیار سے کرتا ہے، اور دوسرے وہ جو غیر اختیاری حالات اور واقعات جو انسان کی مرضی کے خلاف اور اس کےاختیار کے بغیر اس کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
ا س پہلی طرح کے مجاہدے کو جو انسان خود اپنی مرضی سے انجام دیتا ہے، مجاہدہ اختیاریہ کہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہیں کہ جیسے انسان کا نفس کسی گناہ کا کام کرنے کو جتنی بھی شدت سے چاہ رہا ہو اور اسے اس گناہ کو کرنے کا کتنا ہی تقاضہ ہو، وہ اپنے نفس کی ان خواہشات اور ان تقاضوں کو کچلے اور اس گناہ سے بچے۔ اسی طرح سے خصوصاً ابتدا میں انسان کو نیکی کے کام کرنے میں سستی ہوتی ہے۔ اس وقت اپنی اس باطنی سستی کا مقابلہ کرنا اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانا بھی مجاہدہ ہے۔
حدیث شریف کا مضمون ہے کہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، یہاں تک کہ کانٹا بھی نہیں چبھتا،جس کے بدلے اسے ثواب نہ ملتا ہو۔ البتّہ اس غیر اختیاری تکلیف پہ ثواب ملنے کی شرط یہ ہے کہ انسان صبر کرے، اور شکوہ شکایت نہ کرے۔
ایک دفعہ میں نے حضرت سے پوچھا کہ مجھے فلاں بیماری میں بہت شدید درد تھا تو جو کوئی عیادت کے لئے آتا تھا اس سے میں پوچھنے پہ کہتا تھا کہ ہاں جب درد ہوتا ہے تو بہت شدید ہوتا ہے۔ کیا ایسا کہنا صبر کے خلاف ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ بیماری میں درد یا تکلیف کا تذکرہ کرنا، درد یا تکلیف کی شدّت سے آنسو نکل آنا، اللّٰہ تعالیٰ سے بیماری یا تکلیف کے دور ہو جانے کی دعا کرنا، ان میں سے کچھ بھی صبر کے خلاف نہیں۔ صبر کے خلاف صرف یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے لگے اور معاذ اللّٰہ اس طرح کی باتیں کرنے لگے کہ کیا اس تکلیف کے لئے میں ہی رہ گیا تھا، مجھے ہی ہر تکلیف یا بیماری کیوں ہوتی ہے، اور کسی کو تو کچھ نہیں ہوتا، وہ سب تو خوش ہیں۔
تو حضرت تھانویؒ کے اس ملفوظ کا لفظی مفہوم یہ ہوا کہ جو مجاہدہ انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے، مثلاً عبادت زیادہ کرنا، گناہوں سے بچنا، اس میں انوار زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ انوار نیک اعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور جو مجاہدہ غیر اختیاری ہوتا ہے، یعنی انسان کے اختیار کے بغیر کوئی تکلیف یا پریشانی پیش آ جائے اور انسان اس پہ صبر کرے، اس میں نورانیت کم ہوتی ہے کیونکہ اس میں انسان کا اپنا اختیاری عمل کم ہوتا ہے، لیکن اس میں جذبات کی شدّت اور ان کا غلبہ زیادہ ہوتے ہیں۔
لیکن ان جذبات کی شدّت ( خصوصاً صبر اختیار کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا پہ استقامت اختیار کرنے) کی وجہ سے انسان کی اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں ترقی کرنے کی جو صلاحیت اور قابلیت ہے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی قوت بڑھتی ہے۔ اور ان جذبات اور اس قابلیت کی اختیاری اعمال مثلاً عبادات کے راسخ ہو جانے، یعنی انسان کے ان نیک اعمال پہ پختہ اور پکّے ہو جانے کے لئے سخت ضرورت اور اہمیت ہے۔
فرمایا: "مجاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ معاصی (گناہوں) کو تو مطلقاً ترک کرے اور یہ نفس کی مخالفت واجب ہے۔ اور مباحات میں تقلیلاً مخالفت کرے اور یہ مخالفت مستحب ہے، مگر ایسا مستحب ہے کہ مخالفتِ واجبہ کا حصولِ کامل اس مخالفتِ مستحبہ پر موقوف ہے، جیسے بہت سونا، بہت کھانا، بہت عمدہ کپڑے پہننا، ، بہت باتیں کرنا، لوگوں سے زیادہ ملنا ملانا، سو ان میں تقلیل کرے۔" (مولانا اشرف علی تھانویؒ)
تصوّف میں مجاہدہ کی اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپ کو زبردستی اپنے نفس کی وہ خواہشات پوری کرنے سے روکنا جن کی شریعت نے ممانعت کی ہو۔
حضرت کے اس ملفوظ کا مفہوم یہ ہے کہ مجاہدہ کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ انسان گناہوں کو مکمل طور پہ ترک کر دے اور چھوڑ دے، اور نفس کی اس درجے کی مخالفت، یعنی ان گناہ کے کاموں کو کرنے سے اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے رک جانا جن کو کرنے کا انسان کا نفس چاہتا ہو۔ مجاہدے کا یہ درجہ شریعت کے حساب سے واجب ہے۔
مستحب مجاہدے کی اہمیت
مجاہدے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان مباحات، یعنی ان کاموں جن کے کرنے سے نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ثواب، میں اپنا انہماک اور ان کو کرنا کم کر دے، یعنی ان کاموں کو کرنے کا دل چاہے بھی تو ان کو مکمل تو نہ چھوڑے لیکن ان میں کمی کردے۔ تصوّف میں اس طرح کے چار مجاہدات معروف ہیں، کم کھانا (قلتِ طعام)، کم سونا (قلتِ منام)، کم بولنا (قلتِ کلام) اور لوگوں سے ملنا جلنا کم کرنا (قلتِ اختلاط مع الانام)۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ نفس کی اس درجے کی مخالفت شریعت کے اعتبار سے مستحب ہے ، یعنی اس کو کرنے سے ثواب ملے گا اور اس پہ عمل نہ کرنے سے گناہ نہیں ہو گا، لیکن یہ مستحب ایسا مستحب ہے کہ جب تک انسان اس پر عمل نہیں کرتا اس کے لئے نفس کی واجب مخالفت کرنا، یعنی گناہوں کو مکمل طور پہ چھوڑنا، عام طور سے ممکن نہیں ہوتا، ا سلئے ان تمام کاموں کو کم کرنا ضروری ہے۔
اصلاح کے شروع میں جائز کاموں کو کیوں چھوڑنا ہوتا ہے؟
بہت دفعہ لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ گناہوں سے منع کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن جب انسان کسی بزرگ سے اپنی اصلاح کے لئے رجوع کرتا ہے تو وہ شروع میں بعض جائز کاموں سے کیوں منع کر دیتے ہیں؟ مثلاً سونا جائز ہے، کھانا جائز ہے، لوگوں سے ملنا جلنا اور باتیں کرنا جائز ہے، پھر وہ ان کاموں سے کیوں منع کر دیتے ہیں؟
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ مولانا یعقوب نانوتویؒ صاحب سے ایک دفعہ کسی نے یہی سوا ل کیا۔ انہوں نے اس شخص کو ایک کاغذ دیا اور کہا کہ اس کو دوہرا تہہ کر دو۔ اس نے کر دیا۔ پھر فرمایا کہ اب اس کو سیدھا کر دو۔ اب وہ اس کاغذ کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بار بار اسی طرف مڑ جاتا ہے جس طرف اس کو پہلے تہہ کیا گیا تھا، اور سیدھا ہوتا نہیں۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ اچھا اب اس کو دوسری طرف تہہ کردو۔ اس شخص نے کر دیا۔ فرمایا کہ اب اس کو سیدھا کردو۔ وہ کاغذ بالکل سیدھا ہو گیا۔
حضرت نے اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا نفس بھی گناہوں کی طرف مڑا ہوا ہے، گناہوں کا عادی بنا ہوا ہے۔ ویسے گناہ چھوڑنے کی کوشش کرو تو وہ سیدھا ہوتا نہیں، کچھ وقت صحیح رہتا ہے اور پھر گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے اور گناہوں کا ارتکاب ہونے لگتا ہے۔ اس سے گناہ مستقلاً چھڑوانے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو دوسری طرف موڑ دو، یعنی اسے بعض جائز لذّات کو بھی چھوڑنے کی عادت ڈالو۔ جب وہ ایک عرصے تک جائز لذّات کو بھی چھوڑنے کا عادی ہو جائے گا تو پھر اس کے لئے گناہوں کو چھوڑے رکھنا آسان ہو جائے گا۔
گناہ سے بچنے کے لئے گناہ کے مقدمات سے بھی بچنا پڑتا ہے
اسی بات کی تشریح کرتے ہوئے کہ اصلاح کی ابتدا میں بعض دفعہ جائز کاموں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے، ہمارے حضرت نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مردوں کو غضِ بصر کا حکم دیا یعنی کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ کیوں یہ حکم دیا؟ مثلاً راستہ چلتے ہوئے جو عمارتیں آتی ہیں کیا ان کو دیکھنا حرام ہے؟ کوئی گاڑیاں گزرتی ہیں کیا ان کو دیکھنا حرام ہے؟ نہیں، ان سب کو دیکھنا جائز ہے۔ تو پھر کیوں یہ حکم دیا؟ یہ حکم اس لئے دیا کہ اگر انسان کو لاپرواہی سے ہر جگہ نظر ڈالنے کی عادت ہو گی تو ایک نا ایک وقت نظر کسی حرام جگہ پہ بھی پڑے گی اور گناہ میں مبتلا ہو گا۔ اسی لئے حکم دیا کہ اپنی گناہوں کی حفاظت کی عادت ڈالو، یہاں تک کہ اگر اس کے لئے بعض دفعہ جائز چیزوں کو دیکھنے سے بھی گریز کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز کرو۔
ارشاد: "اہلِ طریق کے یہاں یہ مقرر ہے کہ طلب مقصود ہے، وصول مقصود نہیں۔ شرح اس کی یہ ہے کہ مقصود کے حصول کا قلب میں تقاضہ نہ رکھے کہ یہ بھی حجاب ہے، کیونکہ ا تقاضے سے تشویش ہوتی ہے اور تشویش برہم زنِ جمیعت و تفویض ہے، اور جمیعت و تفویض ہی شرطِ وصول ہے۔ اس کو خوب راسخ کر لیا جائے کہ روحِ سلوک ہے۔" (حضرت تھانویؒ)
طریق، طریقت، سلوک، تصوّف، ان تمام اصطلاحات کی حقیقت ایک ہی ہے جو کہ تزکیہٴ باطن ہے جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول اللّٰہ ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں
سے بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ: "ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے)، اور تمہیں کتاب اور حکمت
کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔" (۲: ۱۵۱)
تصوّف کی حقیقت
تصوّف کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے بعض ایسے اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے (جن کو اوامر کہا جاتا ہے) جو بدن سے یا اعضاء سے ادا کئے جاتے ہیں، اسی طرح بعض ایسے اعمال کرنے کا حکم دیا ہے جو اعضاء سے نہیں بلکہ باطن میں یا دل و دماغ سے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ نے بعض ایسے کاموں کے کرنے سے منع فرمایا ہے (جنہیں نواہی کہا جاتا ہے) جو بدن سے اعضاء سے کئے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح بعض ایسے کاموں کے کرنے سے منع فرمایا ہے جو انسان کے باطن میں یا اس کے دل و دماغ سے صادر ہوتے ہیں۔ بس ان ہی باطن کے اوامر کو کرنے اور باطن کے نواہی سے بچنے کا نام تصوّف ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جیسے ظاہر یا بدن کے کچھ اوامر ایسے ہیں جو ہاتھوں پیروں یا زبان سے انجام دیے جاتے ہیں مثلاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، لوگوں سے نرمی سے بات کرنا، بالکل ایسے ہی اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ ایسے اوامر کا حکم دیا ہے جو جسمانی اعضاءسے نہیں دل و دماغ سے انجام دیئے جاتے ہیں، مثلاً قرآن کریم میں آیا ہے کہ اخلاص پیدا کرو، تواضع پیدا کرو، توکّل کرو، تفویض اختیار کرو، رضا بالقضاء اختیارکرو۔ اب انسان توکّل یا تفویض ہاتھوں یا پیروں سے نہیں کرتا، بالکل یہ دل کا فعل ہے۔
اسی طرح جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسے نواہی سے منع کیا ہے جو انسان بدن سے یا اعضاء سے انجام دیتا ہے مثلاً جھوٹ نہ بولنا، غیبت نہ کرنا، کسی کو ہاتھ پیر سے تکلیف نہ پہنچانا، بالکل اسی طرح بعض ایسے نواہی سے منع کیا ہے جو انسان کے دل و دماغ کے فعل ہیں مثلاً اپنے کو برتر اور دوسروں کو کمتر نہ سمجھنا، ریا نہ کرنا، اپنے دل میں کسی کی طرف بغض اور کینہ نہ رکھنا۔ یہ سب فعل اعضاء سے انجام نہیں دیئے جاتے، بلکہ انسان کے باطن کے یا ذہن کے افعال ہیں۔
بس ان ہی باطن کے اوامر کو ادا کرنا، اور باطن کے نواہی سے بچنا یہی تصوّف کا مقصودِ اصلی ہے۔
اس ملفوظ میں "وصول" کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح میں بندہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہتا ہے اور ان کی نافرمانی سے بچتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آ جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ایسا ہو جاتا ہے کہ پھر اس تعلق کے ختم ہوجانے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے۔
حضرت تھانویؒ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا فرض یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طلب میں اپنی ہر ممکن کوشش کرتا رہے، تمام فرائض و واجبات کو انجام دے، اپنی زندگی کو زیادہ
سے زیادہ سنّتِ رسول اللّٰہ ﷺ کے مطابق بنانے کی کوشش کرے، تمام گناہوں کو چھوڑنے کی کوشش کرتا رہے، لیکن یہ سب کرنے کے بعد اس بات کی فکر اور جستجو میں نہ لگا رہے کہ اب وصول ہوا کہ نہیں، اب وصول ہوا کہ نہیں، یا یہ کہ یہ کب ہو گا۔ اگر وہ اس فکر میں لگا رہے گا کہ وصول ہوا کہ نہیں، تو اس سے دو باتوں کا خدشہ ہے۔
پہلا خدشہ تو یہ ہے کہ مستقل اس فکر میں رہنے سے کہ وصول ہوا کہ نہیں اس کو پریشانی ہو گی، اور اس پریشانی سے اس کے دل کی جمعیت یعنی اطمینان کی کیفیت خراب ہو گی، اور یہ جمیعت خود وصول کی شرط ہے۔
حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ عبادت کر کے اس کے نتیجے کے انتظار میں رہنا تفویض کے خلاف ہے۔ تفویض کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کسی نتیجے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں کرے لیکن دل سے اس بات پہ راضی رہے کہ میرا اللّٰہ میرے جو بھی فیصلہ کرے گا میں اس فیصلے سے راضی اور خوش ہوں۔ اور تفویض کی کمی یا اس کے نہ ہونے کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوشش کا نتیجہ بندے کی خواہش کے خلاف نکلے تو وہ اس سے راضی نہ ہو اور دل میں یا زبان سے شکایت کرے کہ ایسا کیوں ہوا اور جو میں چاہتا تھا وہ کیوں نہیں ہوا۔ (معاذ اللّٰہ) حضرت فرما رہے ہیں کہ یہ تفویض بذاتِ خود وصول کے لئے شرط ہے، کہ بندہ تمام کوششیں کرے لیکن دل سے اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے جو فیصلہ فرمائیں اس پہ راضی رہے۔ اگر ان کی رضا یہ ہے کہ وصول نہ ہو، تو اپنی رائے کو ان کی رضا میں فنا کردے، اور ان کی رضا میں خوش رہے۔
اس طریق کا حاصل یہ ہے کہ اپنے کو مٹانا چاہئے (حضرت تھانویؒ)
اس ملفوظ کی تشریح کی آخری بات یہ کہ تصوّف میں ایک اصطلاح ہوتی ہے جسے عجب کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ عجب کی ایک حد "ناز" ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھنے لگے کہ میں اتنی بڑی چیز ہوں کہ (معاذ اللّٰہ) اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک میری کچھ حیثیت ہے، میرا کچھ مقام ہے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنّت میں کوئی اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں جائے گا، جو جائے گا صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے جائے گا، اور میں بھی۔ جب
رسول اللّٰہ ﷺ نے یہ فرمایا تو کسی ہما شما کی کیا مجال ہے کہ معاذ اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی کچھ وقعت سمجھے۔
تو جو انسان کچھ عبادت کر کے اس انتظار میں بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اب وصول کا مستحق ہو گیا، میں نے اتنی عبادت کر لی، اب تو میں اس قابل ہو گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے قریب ہو جاؤں، وہ بہت بڑی غلطی، بہت بڑے دھوکے میں ہے۔ اس طریق کا حاصل تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بالکل حقیر سمجھے، کچھ بھی نہ سمجھے، یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب دوسرے مجھ سے بہتر ہیں، اور میں سب سے کمتر ہوں، سب سے خطاکار ہوں۔ جو انسان کچھ عبادت کر کے اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کا مقرّب سمجھنے لگے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اصلاح کا سفر حقیقی معنوں میں ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔