(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
بائی پولر ڈس آرڈر موڈ یعنی مزاج کی ایک بیماری ہے جس میں انسان کا موڈ اوپر بھی جا سکتا ہے اور نیچے بھی، یعنی اسے غیر معمولی حد تک خوشی بھی ہو سکتی ہے جو اگر کئی دن تک چلے تو اسے مینیا کہتے ہیں، اور غیر معمولی حد تک اداسی بھی جو اگر کم از کم دو ہفتے تک برقرار رہے تو اسے ڈپریشن کہتے ہیں۔
یونی پولر (unipolar) اور بائی پولر (bipolar) ڈس آرڈر میں کیا فرق ہوتا ہے؟
- یونی (مطلب ایک) پولر ڈپریشن میں تمام دورے یا اٹیکس ایک ہی طرح کے یعنی ڈپریشن کے ہوتے ہیں۔
- بائی (مطلب دو) پولر ڈس آرڈر میں کم از کم ایک دورہ مینیا یا ہائیپو مینیا کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ باقی تمام دورے کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں، چاہے مینیا کے چاہے ڈپریشن کے۔
موڈ کی بیماری کے دوروں کی قسمیں
- مینیا (mania):
مینیا کے دورے کی بنیادی علامات ہوتی ہیں موڈ کا بغیر کسی وجہ کے، بے انتہا، نارمل سے کہیں زیادہ خوش رہنا، بدن میں نارمل سے کہیں زیادہ طاقت و توانائی محسوس ہونا، اپنے بارے میں بڑے بڑے خیالات آنے لگنا کہ میں کوئی غیر معمولی ہستی ہوں، مجھ میں عام لوگوں سے کہیں زیادہ غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔
- ہائیپو مینیا (hypomania):
ہائیپو مینیا کی علامات مینیا سے ملتی جلتی ہوتی ہیں لیکن نسبتاً کم شدّت کی ہوتی ہیں، اور ان سے مریض کی روز مرّہ کی کارکردگی اتنی شدت سے خراب نہیں ہوتی جتنی کہ مینیا میں ہوتی ہے۔
- ڈپریشن:
ڈپریشن کی بنیادی علامات ہیں ہر وقت یا بیشتر وقت اداس رہنا، کسی چیز یا کام میں مزا نہ آنا خوشی محسوس نہ ہونا، ایسا محسوس ہونا کہ جیسے بدن میں توانائی ہی نہیں ہے۔
- مکسڈ افیکٹو اسٹیٹ (mixed affective state):
اس میں یا تو مینیا اور ڈپریشن کی علامات بیک وقت موجود ہوتی ہیں مثلاً ایک مریض نارمل کے مقابلے میں بہت زیادہ بولنے لگا ہو اور ایکٹو ہو گیا ہو، لیکن اس کے ذہن میں ڈپریشن کے منفی خیالات آ رہے ہوں، یا پھر ڈپریشن اور مینیا کی علامات ایک ہی مریض میں جلدی جلدی نظر آئیں مثلاً ایک مریض میں صبح مینیا کی علامات نظر آ رہی ہوں، دوپہر میں وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو جائے، اور شام میں مینیا کی علامات واپس آ جائیں۔
مینیا کے دورے کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
- موڈ (مزاج): ہم سب کبھی نہ کبھی حد سے زیادہ خوش ہو جاتے ہیں مثال کے طور پہ کوئی مشکل امتحان پاس ہو جائے، بہت اچھی ملازمت مل جائے، کوئی بہت اچھا دوست بہت عرصے کے بعد مل جائے، اس خوشی کو مینیا نہیں کہتے۔۔ مینیا کے مریض کا مزاج بغیر کسی ظاہری وجہ اس کے عام موڈ کے مقابلے میں بے انتہا، حد سے زیادہ خوش رہنے لگتا ہے، اور کئی دنوں، یا علاج کے بغیر کئی ہفتوں یا مہینوں تک ایسا ہی رہتا ہے۔ بعض مریضوں کا مزاج خوش رہنے کے بجائے چڑچڑا ہو جاتا ہے۔
- طاقت توانائی: مریض کو ایسے لگتا ہے کہ اس کے بدن میں بے انتہا توانائی آ گئی ہے۔ وہ دن میں بیس گھنٹے، چوبیس گھنٹے کام کرنے لگتا ہے، لیکن نہ اسے تھکن ہوتی ہے، اور نہ ہی نیند کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے بولنے کی رفتار بھی بہت تیز ہو جاتی ہے اور خیالات جلدی جلدی تبدیل ہونے لگتے ہیں، جیسے کہ وہ تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ باتیں کہنے کی کوشش کر رہا ہو۔
- مریض کی جھجک (social inhibition)ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایسے کام کرنے لگتا ہے جو وہ ٹھیک ہوتا تو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ بہت زیادہ سوشل ہو جاتا ہے لیکن اس میں خطرہ یہ ہوتا ہے وہ ایسے کام بھی کر گزرتا ہے جو اس کی فطرت کے خلاف ہوتے ہیں، اور جن کی وجہ سے ٹھیک ہونے کے بعد بہت نقصان بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ہوتی ہے۔
- توجہ: مریض کو اپنی توجہ کسی ایک طرف دینے پہ اور ایک بات پہ مرکوز رکھنے میں بہت زیادہ مشکل ہونے لگتی ہے۔ اس کی توجہ ذرا سی آواز سے بھی ایک بات کی طرف سے ہٹ کے دوسری طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
- مریض کو اپنے بارے میں بڑے بڑے خیالات آنے لگتے ہیں کہ وہ کوئی بہت بڑی ہستی ہے یا اس میں کوئی ایسی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں جو کسی اور انسان میں نہیں ہیں۔
- مریض کی صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت شدید خراب ہو جاتی ہے۔ وہ بڑے بڑے منصوبے بنانے لگتا ہے، خیالی پلاؤ پکانے لگتا ہے، اور کبھی کبھی ان بے حقیقت اسکیموں پہ لاکھوں روپے ضائع کر دیتا ہے۔ وہ پیسے پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ خرچ کرنے لگتا ہے۔
- عام طور سے یہ علامات ایک ہفتے سے زیادہ موجود رہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ مریض کو مینیا کی بیماری ہو گئی ہے۔
- مینیا کی بیماری اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس میں مریض اپنے روز مرہ کے کام کرنے اور لوگوں سے عام طور سے جس طرح ملنا جلناکرتا تھا اس کے قابل نہیں رہتا۔
ڈپریشن کے دورے کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
ہم سب کبھی نہ کبھی کسی بات پہ وقتی طور پہ اداسی محسوس کرتے ہیں۔ اس کو ڈپریشن نہیں کہتے۔ میجر ڈپریشن یا بائی پولر ڈپریشن کی بیماری میں یہ علامات بہت شدید ہو جاتی ہیں، ہر وقت یا بیشتر وقت موجود ہوتی ہیں، اور طویل عرصے تک چلتی ہیں۔
جذباتی علامات
- اداسی محسوس کرنا جو بیشتر یا ہر وقت موجود رہتی ہے اور ختم ہی نہیں ہوتی
- بلا وجہ رونا آنا یا ایسا محسوس ہونا کہ جیسے رونا آ رہا ہو
- جن کاموں یا چیزوں میں پہلے دلچسی تھی یا مزا آتا تھا اب وہ دلچسپی ختم ہو جانا یا مزا آنا بند ہو جانا
- اپنے اوپر سے اعتماد ختم ہو جانا
- زندگی اچھی نہ لگنا، مرنے کے یا خود کشی کے خیالات آنے لگنا
سوچنے میں مشکل ہونا
- امید کے اور مثبت خیالات ختم ہو جانا، ہر وقت نا امیدی اور مایوسی کے خیالات آنا
- روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنا بھی مشکل ہو جانا
- کاموں پہ یا باتوں پہ توجہ دینا بہت مشکل ہو جانا
جسمانی علامات
- بھوک اڑ جانا، وزن کم ہونے لگنا
- نیند آنے میں مشکل ہونے لگنا
- صبح معمول کے وقت سے بہت پہلے آنکھ کھل جانا اور دوبارہ سو نہ پانا
- ہر وقت تھکے تھکے رہنا
بائی پولر ڈس آرڈر میں سائیکوسس کی علامات
اگر مینیا اور ڈپریشن کا بر وقت علاج شروع نہ ہو اور وہ بہت شدید ہو جائیں تو بعض دفعہ ان میں سائیکوسس کی علامات مثلاً ڈیلیوزن (delusions) یا ہیلیوسی نیشن (hallucination) پیدا ہو جاتے ہیں۔
مینیا: مریض کو ایسے خیالات آنے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی بہت بڑی ہستی، بہت عظیم شخصیت ہے، اس میں غیر معمولی طاقتیں ہیں جو کسی اور انسان کے پاس نہیں ہیں، مثلاً ایک مریض نے مجھے کہا کہ وہ حضرت مہدی علیہ السلام ہے، ایک کا یقین تھا کہ وہ خدا ہے۔ ایک مریض کا یقین تھا کہ وہ صرف اپنے ذہن کی طاقت سے سڑک پہ چلنے والی تمام گاڑیوں کو روک سکتا ہے۔ اسی طرح مریض کو ایسی غیبی آوازیں آنے لگتی ہیں جو انہیں بتاتی ہیں کہ وہ کوئی غیر معمولی ہستی ہیں، انہیں کسی بہت بڑے مشن یا مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
ڈپریشن: شدید ڈپریشن میں مریض کو اس طرح کے خیالات آنے لگتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی خراب ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہو رہا ہے، وہ ہر بری چیز کے لیے قصور وار ہے، دنیا میں کوئی انسان ان سے زیادہ برانہیں ہے۔ مریض بتاتے ہیں کہ جب وہ بیمار تھے تو انہیں اس طرح کی آوازیں آتی تھیں کہ تم دنیا پہ بوجھ ہو، تم اپنے آپ کو مار لو تو یہ دنیا پاک ہو جائے گی۔
مینیا یا ڈپریشن کے دوروں کےختم ہو جانے کے بعد
بائی پولر ڈس آرڈر کے بہت سے مریض جب ایک اٹیک سے ٹھیک ہو جاتے ہیں تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہیں اور ان میں مینیا یا ڈپریشن کی کوئی علامات نہیں ہیں۔ اس کے بر عکس بہت سے مریضوں کو شدید علامات ختم ہو جانے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ مکمل ٹھیک نہیں ہوئے، ان کو اب بھی تھوڑی بہت اداسی رہتی ہے، سوچنے میں مشکل ہوتی ہے، یا اپنے روز مرّہ کے کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کی بیماری کتنی عام ہے؟
دنیا بھر میں عام طور سے تقریباً ہر پچاس میں سے ایک شخص (یعنی دو فیصد) کو بائی پولر ڈس آرڈر ہوتا ہے۔
یہ بیماری عام طور سے پندرہ سے پچیس سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے، اور شاذ و نادر ہی پچاس سال کی عمر کے بعد شروع ہوتی ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟
بائی پولر ۱ڈس آرڈر
- اس قسم کے بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اس وقت کی جاتی ہے جب مریض کو مینیا کا کم از کم ایک دورہ ہوا ہو، جس کی علامات کم از کم ایک ہفتہ جاری رہی ہوں۔ عام طور سے یہ دورہ ایک ہفتے سے کافی زیادہ طویل ہوتا ہے۔
- یہ بھی ممکن ہے کہ مریض کو صرف مینیا ہی کے دورے ہوئے ہوں، لیکن بائی پولر ۱ ڈس آرڈر کے زیادہ تر مریضوں کو ڈپریشن کے دورے بھی ہوئے ہوتے ہیں۔
- اگر مینیا کے دورے کا علاج نہ کیا جائے تو یہ تین سے چھ مہینے تک جاری رہ سکتا ہے۔
- ڈپریشن کے دورے عام طور سے زیادہ طویل ہوتے ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو یہ چھ سے بارہ مہینے تک جاری رہ سکتے ہیں۔
بائی پولر ۲ ڈس آرڈر
اس طرح کے بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اس وقت کی جاتی ہے جب مریض کو ہائیپو مینیا کا دورہ ہوا ہو، جو مینیا کی نسبتاً کم شدت کی قسم ہے، اور مینیا کا مکمل دورہ نہ ہوا ہو۔ اس کے علاوہ عام طور سے مریض کو ڈپریشن کے ایک سے زیادہ دورے ہوئے ہوں۔
تیزی سے بار بار ہونے والا بائی پولر ڈس آرڈر (rapid cycling)
- یہ اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب مریض کو پچھلے بارہ مہینے کے اندر اندر موڈ کے چار یا اس سے زیادہ دورے ہوئے ہوں، جن میں سے کم از کم ایک ایپی سوڈ ہائیپومینیا یا مینیا کا ہو۔ باقی تمام دورے ڈپریشن یا مکسڈ بھی ہو سکتے ہیں۔
- اس طرح کی بیماری بائی پولر ڈس آرڈر کے تقریبا دس فیصد مریضوں کو ہوتی ہے، اور بائی پولر ڈس آرڈر ۱ اور ۲ دونوں کے مریضوں کو ہو سکتی ہے۔
سائیکلوتھائیمیا (cyclothymia)
یہ اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب مریض کے موڈ کے دورے کی شدت مکمل بائی پولر ڈس آرڈر کی شدت سے کم ہو، لیکن زیادہ طویل عرصے تک چلے۔ اس کی شدت وقت کے ساتھ بڑھ کے مکمل بائی پولر ڈس آرڈر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کی وجوہات
جینیاتی وجوہات
کچھ جینز ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے بائی پولر ڈس آرڈر، شدید ڈپریشن، اور شیزوفرینیا تینوں بیماریاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔
ماحولیاتی وجوہات
جن لوگوں میں وہ جینز موجود بھی ہوں جن کی وجہ سے بائی پولر ڈس آرڈر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، ان لوگوں میں کچھ ماحولیاتی وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ بیماری ہونے کاخطرہ کم یا زیادہ ہو جاتا ہے، مثلاً اگر ایسا بچہ صحتمندانہ اور پیار محبت والے ماحول میں پلے بڑھے تو اسے بائی پولر ڈس آرڈر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
والدین کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری (severe mental illness) ہونا
والدین میں سے کسی ایک کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری مثلاً بائی پولر ڈس آرڈر ہونا اب تک اس بیماری کی جتنی بھی وجوہات معلوم ہیں، ان کے مقابلے میں سب سے زیادہ اس خطرے کو بڑھاتا ہے کہ ان کے بچوں کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو۔ جن بچوں کے والدین کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو، ان میں سے ہر تین میں سے ایک بچے (۳۳ فیصد) کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہوا کہ بائی پولر ڈس آرڈر کی کوئی "ایک" وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ہونے میں بہت سارے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کی بہت ساری "وجوہات" ہوتی ہیں جو اس بات کے خطرے کو بڑھاتی یا کم کرتی ہیں کہ کسی ایک انسان کو بائی پولر ڈس آرڈر ہو جائے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کا علاج
بائی پولر ڈس آرڈر میں استعمال ہونے والی دوائیاں
بائی پولر ڈس آرڈر میں دوائیں بنیادی طور سے دو مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں:
- موڈ کو ہموار رکھنے یعنی اس کو ڈپریشن یا مینیا کی طرف جانے سے روکنے کے لیے
- اگر کسی مریض کو مینیا یا ڈپریشن کا دورہ شروع ہو گیا ہو تو اس دورے کا علاج کرنے کے لیے
موڈ کو ہموار رکھنے والی ادویات (Mood stabilizers)
لیتھیم
لیتھیم کسی سائیکائٹرسٹ کے زیرِ نگرانی استعمال کی جانی چاہیے کیوں کہ اس کا خون میں لیول مطلوبہ سطح پر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ لیول کم ہو تو یہ کام نہیں کرتی۔ اگر لیول زیادہ ہو جائے تو اس سے بہت شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے لیتھیم شروع کرنے سے پہلے، اور اس کے بعد انسان جب تک لیتھیم استعمال کرتا رہے ا س تمام عرصے میں لیتھیم سے متعلق کچھ خون کے ٹیسٹ کرواتے رہنا لازمی ہوتا ہے۔
خون میں لیتھیم کے لیول پہ اس بات سے بہت فرق پڑتا ہے کہ مریض کے جسم میں پانی کتنا زیادہ یا کم ہے۔ اگر مریض پانی کی کمی کا شکار ہو جائے تو خون میں لیتھیم کا لیول بڑھ جاتا ہے اور اس سے شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔اس وجہ سے جو مریض لیتھیم لے رہا ہو اس کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ:
- وہ وافر مقدار میں پانی پیتا رہے، خاص طور سے گرمیوں کے موسم میں یا جب وہ جسمانی ورزش کر رہا ہو
- چائے اور کافی کے استعمال میں احتیاط کرے کیوں کہ ان دونوں سے بدن سے پانی خارج ہوتا ہے اور اس سے خون میں لیتھیم کا لیول بڑھ سکتا ہے۔
لیتھیم کو صحیح طور سے کام کرنے میں تین مہینے یا اس سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اگر اس عرصے میں انسان کا موڈ اوپر نیچے بھی ہو تب بھی انسان باقاعدگی سے دوا لیتا رہے۔
لیتھیم کے ممکنہ مضر اثرات
لیتھیم کے مندرجہ ذیل مضر اثرات دوا شروع کرنے کے پہلے چند ہفتوں کے اندر شروع ہو سکتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ تو ہو سکتے ہیں لیکن اگر انسان دوا لیتا رہے تو عام طور سے یہ کچھ عرصے میں کم یا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
- پیاس زیادہ لگنا
- معمول سے زیادہ پیشاب آنے لگنا
- وزن بڑھنا
کم نظر آنے والے مضر اثرات
- چیزیں دھندلی نظر آنے لگنا
- عضلات (مسلز) میں کچھ کمزوری محسوس ہونا
- کبھی کبھی پتلا پاخانہ ہو جانا
- ہاتھوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ یا رعشہ ہونا
- اپنی طبیعت خراب محسوس کرنا
عام طور سے یہ مضر اثرات دوا کا ڈوز کم کرنے سے کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ کو مندرجہ ذیل مضر اثرات نظر آنا یا محسوس ہونا شروع ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے خون میں لیتھیم کا لیول بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے ڈاکٹر سے فوراً رابطہ کریں:
- اگر آپ کو شدید پیچش ہو جائے یا الٹیاں شروع ہو جائیں
- اگر آپ کے ہاتھوں پیروں میں واضح کپکپاہٹ یا رعشہ نظر آنے لگے
- اگر آپ کے عضلات پھڑکنے لگیں یا خود بخود حرکت کرنے لگیں
- اگر آپ کے ہوش و حواس مکمل برقرار نہ رہیں مثلاً آپ کو تاریخ یا وقت یاد نہ رہیں، حال کی باتیں بھولنے لگیں
خون کے ٹیسٹ
- لیتھیم شروع کرنے سے پہلے تھائی روائڈ گلینڈ اور گردوں کی کارکردگی کے خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں کیونکہ لیتھیم ان اعضاء کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ ٹیسٹ ہر کچھ مہینے پہ کیے جاتے ہیں جب تک کہ مریض لیتھیم لے رہا ہو۔
- بعض صورتوں میں پیرا تھائیروائڈ گلینڈ کی کارکردگی کے خون کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔
- لیتھیم استعمال کرنے کے دوران اس کا لیول خون میں ایک موزوں سطح پہ رکھنا بہت زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ لیول کم ہونے پہ یہ کام نہیں کرتی، اور لیول زیادہ ہونے سے شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے جو مریض لیتھیم استعمال کر رہا ہو اس کے خون میں لیتھیم کا لیول ہر کچھ عرصے کے بعد چیک کیا جاتا ہے۔ شروع میں ہو سکتا ہے کہ آپ کے ڈاکٹر ہر ہفتے دو ہفتے پہ آپ کے خون میں لیتھیم کا لیول چیک کروائیں، لیکن کچھ مہینوں کے بعد جب لیتھیم کا لیول ایک ہموار سطح پہ آ جائے تو اسے ہر کچھ مہینوں میں چیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے لیے خون لیتھیم کے آخری ڈوز کے تقریباً بارہ گھنٹے بعد دینا چاہیے۔
لیتھیم استعمال کرنے کے دوران اپنی صحت کا خیال رکھنا
- روزانہ کم از کم آٹھ سے بارہ گلاس پانی روز پیئیں۔ جسم میں پانی کم ہونے سے لیتھیم کا لیول بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
- خصوصاً اگر گرم موسم ہو یا آپ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہوں تو اس کا بہت خیال رکھیں کہ آپ کے جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔
- کوشش کریں کہ پانی کی کمی کولا ڈرنکس یا بہت چینی والے سافٹ ڈرنکس سے پوری کرنے کی کوشش نہ کریں۔
- متناسب غذا کھائیں۔ اگر کسی وجہ سے، مثلاً بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے، آپ کم نمک والا کھانا کھاتے ہوں تو لیتھیم شروع کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتا دیں۔ خون میں نمک کی کمی سے لیتھیم کے لیول پر اثر پڑتا ہے۔
- کولا ڈرنکس، چائے، کافی، سب میں کیفین ہوتی ہے۔ کیفین کی وجہ سے پیشاب زیادہ خارج ہوتا ہے۔ اگر آپ لیتھیم استعمال کر رہے ہوں تو ان سب کے بہت زیادہ استعمال سے بچیں۔
دوسری موڈ اسٹیبلائزر ادویات
لیتھیم کے علاوہ دوسری اور بھی موڈ اسٹیبلائزر یعنی موڈ کو ہموار رکھنے والی ادویات ہیں جیسے کہ:
- سیکنڈ جنریشن اینٹی سائیکوٹکس مثلاً اولینزاپین، رسپیریڈون، کوٹائیپین، ایری پیپرازول وغیرہ،
- اور وہ دوائیں جو عام طور سے مرگی کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں جیسے کہ سوڈیم ویلپروئیٹ، کاربامازیپین، لیموٹریجین وغیرہ۔
ان میں بعض دوائیں مینیا کا علاج کرنے اور اسکو دوبارہ آنے سے روکنے میں زیادہ کارآمد ہوتی ہیں، اور بعض ڈپریشن میں۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
سوڈیم ویلپروئیٹ کے ساتھ خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ زچگی کے دوران لی جائے تو پیٹ میں موجود بچے میں پیدائشی نقائص ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اب اس کی ممانعت ہے کہ ویلپروئیٹ کو ان خواتین کو پریسکرائب کیا جائے جو اس عمر میں ہوں جب وہ حاملہ ہو سکتی ہیں۔
بائی پولر ڈس آرڈر میں اگلے اٹیک کو روکنے کی دوا کب شروع کی جانی چاہیے؟ (Prophylaxis)
جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا بائی پولر ڈس آرڈر میں دوائیں دو وجہ سے استعمال کی جاتی ہیں: ۱۔ مینیا یا ڈپریشن کا جو اٹیک ابھی ہو رہا ہے اس کی علامات کو ختم کرنے کے لیے، اور ۲۔ اس اٹیک کی علامات ختم ہو جانے کے بعد اگلے اٹیک کو روکنے کے لیے۔
ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جن لوگوں کو پہلی دفعہ مینیا کا دورہ ہوا ہو اس کے ختم ہو جانے کے بعد بعض اسٹڈیز کے مطابق تیس فیصد اور بعض کے مطابق پچاس فیصد سے بھی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اگلے بارہ مہینے کے اندر ایک اور اٹیک ہو گا۔ لیکن چونکہ اس کا بھی کافی امکان ہوتا ہے کہ اگلا اٹیک نہ ہو یا بہت عرصے کے بعد ہو، اس لیے بہت سے مریض پہلے اٹیک سے صحتیاب ہو جانے کے بعد دوا جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ لیکن اگر ان کا پہلا دورہ بہت شدید تھا، اور اس کی وجہ سے ان کو نقصانات ہوئے تھے، مثلاً مینیا کے خیالات کے زیرِ اثر اپنی ساری سیونگ ضائع کر دینا، بہت قرض چڑھا لینا، یا ایسی حرکات کرنا جو انسان ٹھیک ہوتا تو کرنے کا تصوّر بھی نہ کرتا، تو ایسی صورتوں میں مریض کو پہلے اٹیک سے صحتیاب ہونے کے بعد اگلے اٹیک سے بچنے کے لیے دوا کو جاری رکھنا تجویز کرنا چاہیے۔
اگر کسی کو بائی پولر ڈس آرڈر میں مینیا یا ڈپریشن کے دو اٹیک ہو چکے ہوں تو ان لوگوں کو تیسرا اٹیک ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو ٹھیک ہونے کے بعد بھی موڈ اسٹیبلائزر دوا لیتے رہنے کے بارے میں لازماً سوچنا چاہیے۔
موڈ اسٹیبلائزر دوا کتنے عرصے کے لیے لینی چاہیے؟
رائل کالج آف سائیکائٹرسٹس، برطانیہ، کے مطابق:
- دوا کم از کم دو سال کے لیے جاری رکھنی چاہیے اگر کسی کو بائی پولر ڈس آرڈر کا ایک دورہ ہوا ہو۔
- دوا کم از کم پانچ سال کے لیے جاری رکھنی چاہیے اگر کسی مریض کو؛
o پہلے کئی دفعہ اٹیکس ہو چکے ہوں
o ان اٹیکس میں سائیکوسس کی علامات ہوئی ہوں
o اگر وہ نشہ آور چیزیں بشول الکحل استعمال کرتے رہے ہوں
o اگر ان کے گھر یا ملازمت پہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ ہو
مینیا کے اٹیک سے صحتیاب ہونے کے بعد اگر میں دوا نہ لوں تو کیا ہو گا؟
اگر ایک انسان مینیا کے اٹیک سے صحتیاب ہونے کے بعد بھی باقاعدگی سے لیتھیم لیتا رہے تو لیتھیم اگلا اٹیک ہونے کے خطرے کو تیس سے چالیس فیصد تک کم کر دیتی ہے۔ لیکن ایک انسان کو مینیا کے جتنے زیادہ دورے ہوئے ہوں اس کو اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔
مثال کے طور پہ اگر ایک شخص کو مینیا کے ایک سے دو دورے ہوئے ہوں تو اگر وہ ٹھیک ہونے کے بعد لیتھیم بند کر دے تو اسے اگلے ایک سال کے اندر مینیا کا ایک اور اٹیک ہونے کا دس فیصد خطرہ (یعنی سو لوگوں میں سے دس کو) ہوتا ہے، لیکن اگر وہ باقاعدگی سے لیتھیم لیتا رہے تو اسے اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ ۶ سے ۷ فیصد ہوتا ہے یعنی ۱۰۰ میں چھ سے سات لوگوں کو۔
اس کے مقابلے میں اگر ایک شخص کو مینیا کے پانچ یا اس سے زیادہ دورے ہوئے ہوں تو اگر وہ لیتھیم نہ لے رہا ہو تو اسے اگلے ایک سال کے اندر اگلا اٹیک ہونے کا تقریباً چالیس فیصد خطرہ (سو میں سے چالیس لوگوں کو) ہوتا ہے، لیکن اگر وہ باقاعدگی سے لیتھیم لے رہا ہو تو یہ خطرہ چھبیس فیصد (سو میں سے چھبیس لوگوں کو) تک کم ہو جاتا ہے۔
اگر ایک انسان بہت سالوں تک ٹھیک بھی رہا ہو تو اسے مینیا کا اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ کبھی سو فیصد ختم نہیں ہوتا۔
زچگی اور بائی پولر ڈس آرڈر
جو خواتین بائی پولر ڈس آرڈر کا علاج کروا رہی ہوں اگر وہ پریگننٹ ہونا چاہیں یا ہو جائیں تو انہیں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ پریگنینسی میں کون سی دوا محفوظ رہے گی۔
جو خواتین حاملہ ہوں یا ہونا چاہ رہی ہوں انہیں لیتھیم اور خصوصاً سوڈیم ویلپروئیٹ نہیں لینی چاہیے۔
اگر کوئی خاتون لیتھیم لے رہی ہوں اور حاملہ ہو جائیں تو انہیں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ ایسی صورت میں لیتھیم لیتے رہنے کے نقصانات کیا ہیں، اسے بند کرنے کی صورت میں مینیا یا ڈپریشن واپس آنے کا خطرہ کتنا ہے، کون سی متبادل دوائیاں استعمال کی جا سکتی ہیں، اور حمل کی حالت میں مینیا یا ڈپریشن کی علامات واپس آنے کے کیا خطرات ہو سکتے ہیں۔
گو کہ لیتھیم زچگی کے دوران دوسری موڈ اسٹیبلائزر ادویات مثلاً سوڈیم ویلپروئیٹ سے نسبتاً زیادہ محفوظ ہوتی ہے، پھر بھی ماں کے حمل کے دوران لیتھیم لینے سے نوزائیدہ بچے کو دل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ زچگی کے پہلے تین مہینوں میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ زچگی کے چھبیسویں ہفتے کے بعد لیتھیم لینا محفوظ ہوتا ہے، لیکن جو عورتیں بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہوں انہیں لیتھیم نہیں لینی چاہیے کیونکہ لیتھیم ماں کے دودھ کے ذریعے بچے میں منتقل ہوتی ہے اور اس سے بچے کو شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
بائی پولر ڈس آرڈر کا نفسیاتی علاج
مینیا کا تو نفسیاتی علاج نہیں ہو سکتا اور اس کا علاج دوائیوں کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے، لیکن دوروں کے درمیان جب مریض ٹھیک ہو، یا کسی کو بائی پولر ڈپریشن ہو جائے تو ان صورتوں میں نفسیاتی علاج کے مندرجہ ذیل طریقوں سے فائدہ ہو سکتا ہے:
- بائی پولر ڈس آرڈر کی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے:
جب کسی کو پہلی دفعہ مینیا کی علامات شروع ہوں تو بہت سے لوگوں اور ان کے گھر والوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا عزیز اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگا ہے اور اس کا رویّہ اچانک اتنا عجیب و غریب کیوں ہو گیا ہے۔ ان کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اور اس کا فوراً علاج کروانا چاہیے۔ اسی لیے جب مریض ٹھیک ہو جائے تو یہ معلومات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ بیماری دوبارہ واپس آنے کا خطرہ کتنا ہے، اس خطرے کو کم کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے،دوا کتنے عرصے لینا ضروری ہے، دوا کے کن مضر اثرات پہ نظر رکھنا ضروری ہے، بیماری واپس آنے کی ابتدائی علامات کون سی ہو سکتی ہیں، اور اگر وہ نظر آنا شروع ہوں تو فوراً کیا کرنا چاہیے؟
- اپنے موڈ پہ نظر رکھنا:
اس کو موڈ ڈائری بھی کہتے ہیں۔ اس سے انسان کو خود یہ پتہ چل سکتا ہے کب تک میرا موڈ نارمل حدوں کے اندر اوپر نیچے ہو رہا تھا، اور کب وہ بیماری کی حد تک اوپر یا نیچے جانا شروع ہو گیا ہے۔
- تکلیف کا مقابلہ کرنے میں جو صلاحیتیں مدد دیتی ہیں ان کو سیکھنا:
- کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی):
یہ ڈپریشن کے دوروں میں بھی کار آمد ہوتی ہے اور دوروں کے درمیان بھی
- انٹر پرسنل تھراپی:
- شادی شدہ جوڑوں کی تھراپی
بائی پولر ڈس آرڈر میں مینیا کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
- ایک ریسرچ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینیا کے علاج میں اولینزاپین (olanzapine)، رسپیریڈون (risperidone)، ہیلوپیریڈول (haloperidol)، اور کوٹائپین (quetiapine) سب موثر بھی ہیں اور مریض ان کے مضر اثرات کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔
- اس موضوع پہ کوکرین ریویو (Cochrane review) کا نتیجہ یہ تھا کہ اولینزاپین مینیا کے علاج کے لئے لیتھیم (lithium) اور ویلپروئیٹ (valproate) سے زیادہ کارآمد ہے۔
- انٹر نیشنل گائیڈلائنز کے مطابق اگر مینیا کے مریض کو اینٹی سائیکوٹک اور موڈ اسٹیبیلائزر ملا کر دی جائیں تو مریض ان میں سے صرف ایک دوا دینے کے مقابلے میں زیادہ جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں، اور اس کومبی نیشن سے فائدہ بھی تقریباً ۲۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
- اس کے برعکس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی گائیڈ لائنز کے مطابق پہلے اینٹی سائیکوٹک دوا استعمال کرنی چاہیے۔ اگر اس سے فائدہ نہ ہو تو پھر اس کے ساتھ کسی موڈ اسٹیبیلائزر کو ملا کر دینا چاہیے۔
مینیا کے دوا سے علاج کے بنیادی اصول یہ ہیں:۔
سب سے پہلے تو اگر مریض اینٹی ڈپریسنٹ لے رہا ہو تو اسے بند کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے جاری رہنے سے مینیا مزید خراب ہو سکتا ہے اور اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر مریض پہلے سے مینیا کی کوئی دوا نہ لے رہا ہو تو؛
- اسے اینٹی سائکو ٹک، ویلپروئیٹ، یا لیتھیم شروع کی جا سکتی ہے۔
- ویلپروئیٹ دینے میں اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اگر حاملہ خواتین حمل کے دوران ویلپروئیٹ لے رہی ہوں تو بچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لئے جو خواتین اس عمر میں ہوں کہ حاملہ ہو سکتی ہوں انہیں حتی الامکان ویلپروئیٹ نہیں دینی چاہیے۔
- لیتھیم اگر شروع کرنے کے بعد جلدی بند کر دی جائے تو اس سے مینیا کا اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، اس لئے لیتھیم شروع کرنے سے پہلے اس بات پہ غور کر لینا چاہیے کہ مریض صحتیاب ہونے کے بعد بھی لیتھیم لیتا رہے گا کہ نہیں۔
- اگر ایک دوا سے فائدہ نہ ہو تو لیتھیم اور موڈ اسٹیبیلائزر کو ملا کے دیا جا سکتا ہے۔
- تمام مریضوں میں جسمانی بیچینی، نیند کی کمی اور جارحیت کو کم کرنے کے لئے وقتی طور پہ بینزو ڈایازیپین ادویات دی جا سکتی ہیں۔
اگر مریض پہلے سے مینیا کی کوئی دوا لے رہا ہو تو ؛
- اگر مریض کو اینٹی سائیکوٹک دوا دی جا رہی ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے دوا لے رہا تھا کہ نہیں۔ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ دوا کا ڈوز اگر کم تھا تو اسے بڑھایا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ اگر ا س سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کے ساتھ ساتھ لیتھیم یا ویلپروئیٹ شروع کی جا سکتی ہیں۔
- اگر مریض پہلے سے لیتھیم لے رہا ہو تو اس کا خون میں لیول چیک کرنا چاہیے۔اگر لیول کم ہو تو ڈوز بڑھانا چاہیے کیونکہ مینیا کے اٹیک کے دوران مریض کو لیول زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
- اگر مریض پہلے سے ویلپروئیٹ لے رہا ہو تو اس کا خون میں لیول چیک کرنا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو اسے بڑھانا چاہیے۔ اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
بائی پولر ڈس آرڈر میں ڈپریشن کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
بائی پولر ڈپریشن کے بارے میں کچھ معلومات
- یونی پولر ڈپریشن کے مقابلے میں (یعنی وہ مریض جن کو ہر دورہ صرف ڈپریشن کا ہی ہوتا ہو) بائی پولر ڈپریشن میں مریض کم وقت میں زیادہ بیمار ہو جاتا ہے، بائی پولر ڈپریشن کے دورے زیادہ کثرت سے ہوتے ہیں، ان دوروں کی شدّت زیادہ ہوتی ہے، ان کا دورانیہ نسبتاً کم ہوتا ہے، اور ان میں ڈیلیوزن پیدا ہو جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یونی پولر ڈپریشن میں زیادہ مریضوں میں نیند اور بھوک کم ہوتی ہے، جبکہ بائی پولر ڈپریشن میں نیند اور بھوک بڑھ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
- بائی پولر ڈپریشن میں تقریباً پندرہ فیصد مریضوں میں خود کشی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔
- بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کا بیمار رہنے کا وقت مینیا کے مقابلے میں ڈپریشن میں زیادہ گزرتا ہے۔
بائی پولر ڈپریشن کا دوائیوں سے علاج
- برطانیہ کے ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور کلینیکل ایکسی لینس کا کہنا ہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر میں ہونے والے ڈپریشن کے علاج کے لئے سب سے پہلے فلوآکسیٹین اور اولینزاپین کو ملا کر دینا چاہیے۔
- متبادل پہلی لائن کی دوائیں کوئی ٹائیپین (quetiapine)، اولینزاپین (olanzapine)، لیو راسیڈون (lurasidone)، لیموٹریجین (lamotrigine)، اور ویلپروئیٹ (valproate) ہو سکتی ہیں۔
- کوئی ٹائیپین بائی پولر ڈپریشن کے علاج کے لئے موثر ہے، اور اس کے علاوہ مریض کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اس میں مینیا اور ڈپریشن کی علامات واپس آنے سے بھی روکتی ہے۔ اسی لئے اسے بائی پولر ڈپریشن کے علاج کے لئے پہلا انتخاب بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بائی پولر ڈپریشن کے استعمال سے ڈپریشن کے دورے کا مینیا کے دورے میں بدل جانے کا امکان بھی نہیں ہوتا۔
- لیتھیم ہو سکتا ہے کہ بائی پولر ڈپریشن کے علاج میں موثر ہو لیکن اس کے بارے میں ریسرچ کا ثبوت اتنا مضبوط نہیں جتنا کہ مینیا کے دورے کے علاج کے بارے میں ہے۔ اسی طرح سے اس بارے میں تو ریسرچ واضح طور پر کہتی ہے کہ مریض کے ٹھیک ہو جانے کے بعد لیتھیم مینیا کی علامات کو واپس آنے سے روکتی ہے، لیکن ڈپریشن کی علامات کو واپس آنے سے روکنے کے بارے میں ثبوت اتنا واضح نہیں۔
- بائی پولر ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ کو کبھی بھی اینٹی سائیکوٹک یا موڈ اسٹیبیلائزر کی غیر موجودگی میں نہیں دینا چاہیے، کیونکہ بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کو صرف اینٹی ڈپریسنٹ دینے سے ڈپریشن کے دورے کا مینیا کے دورے میں بدل جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
جس کو بائی پولر ڈس آرڈر ہو وہ خود اپنے موڈ کو نارمل رکھنے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟
اپنے موڈ پہ خود نظر رکھیں
مینیا اور ڈپریشن دونوں پہلے دن سے ہی مکمل شدت کے ساتھ شروع نہیں ہوتے بلکہ زیادہ تر لوگوں میں پہلے ہلکی علامات، مثلاً نیند کا خراب ہو جانا، شروع ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہیں۔ علامات کے شروع ہونے کے بعد جتنا جلدی ان کا علاج شروع کر دیا جائے، بیماری اتنا ہی جلدی ٹھیک ہوتی ہے اور عام طور سے دوا کے کم ڈوز سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان علامات کو بڑھنے دیا جائے اور علاج شروع کرنے میں دیر کی جائے تو اتنا ہی زیادہ اس کا امکان ہوتا ہے کہ شاید ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے، بیماری ٹھیک ہونے میں زیادہ دیر لگے اور زیادہ ڈوز یا دوائیوں کی ضرورت پڑے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض اپنے موڈ کو خود مانیٹر کرنا سیکھیں تا کہ جیسے ہی بیماری کی علامات شروع ہوں وہ اپنے ڈاکٹر سے فوراً رابطہ کر سکیں۔
ہم مریضوں کو ایک موڈ ڈائری استعمال کرنا سکھاتے ہیں۔ آج کل یہ انٹرنیٹ پہ بھی مل جاتی ہیں۔ پھر ان سے کہتے ہیں کہ ہمیں اس گراف پہ بتائیں کہ "ان" کے نارمل موڈ کی رینج کیا ہے، مثلاً اگر ایک سے دس کا ایک فرضی اسکیل ہو تو ان کا نارمل موڈ ۷ سے ۱۰ کے درمیان رہتا ہے۔ دس کا مطلب ہے نارمل بہت خوش، سات کا مطلب ہے بس ٹھیک۔ اب اگر موڈ دس سے اوپر جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ موڈ مینیا کی طرف جا رہا ہے، اور اگر پانچ سے نیچے جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ موڈ ڈپریشن کی طرف جا رہا ہے۔ جن لوگوں کو مینیا اور ڈپریشن ہو چکا ہو ان کا اندازہ بہت صحیح ہوتا ہے کہ ان کا موڈ اس وقت کہاں ہے، اور اگر نارمل رینج سے نیچے یا اوپر ہے تو انہیں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
اپنی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں
کہتے ہیں کہ پرانا مریض آدھا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو طویل عرصے کی بیماری ہو، چاہے جسمانی مثلاً ذیابطیس اور بڑھا ہوا بلڈ پریشر، یا نفسیاتی مثلاً بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزوفرینیا، ان کو اپنی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں جتنا زیادہ علم ہو اتنا ہی بہتر اس کے علاج میں حصّہ لے سکتے ہیں، مثلاً یہ جاننا کہ ان کی بیماری کے دورے کی ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں، ان کی دوا کے زیادہ شدید مضر اثرات کیا ہوتے ہیں (ان دونوں صورتوں میں جتنا جلدی انسان ڈاکٹر سے رابطہ کرے اتنا ہی جلدی ان کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے)، کن باتوں سے ان کی علامات بڑھتی ہیں، کن سے کم ہوتی ہیں۔
ذہنی دباؤ یا اسٹریس
ہر انسان کو کسی نہ کسی بات یا باتوں پہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے اور ہمیشہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن دو مختلف باتوں سے اس میں فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ سیکھنا کہ انسان ایک فہرست بنائے کہ اس کی زندگی میں کن باتوں سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر ایک بیلنس شیٹ بنائے کہ ان میں سے کن کا مجموعی طور پہ فائدہ زیادہ ہے اور کن کا نقصان زیادہ ہے۔ پھر یہ دیکھے کہ جن کا نقصان زیادہ ہے کیا ان کو اپنی زندگی سے الگ کرنا ممکن ہے کہ نہیں۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ ہم بہت دفعہ مریضوں میں دیکھتے ہیں کہ ان کو کسی وجہ سے بہت ذہنی دباؤ ہو رہا ہے، لیکن جب ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ پھر آپ انہیں اپنی زندگی سے ہٹا کیوں نہیں دیتے، تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا یا انہوں نے اس کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
دوسری بات جس سے فائدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان وہ طریقے سیکھے جن سے ذہنی دباؤ کم کیا جا سکتا ہے مثلاً ریلیکسیشن ایکسرسائزز وغیرہ۔ یہ طریقے انسان کسی تھراپسٹ سے بھی سیکھ سکتا ہے لیکن آج کل اس کی ایپس بھی موبائل فون پہ ملتی ہیں اور اس کے طریقے فری میں انٹر نیٹ پہ بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
باہمی تعلقات
چونکہ نفسیاتی بیماریوں کی علامات عام طور سے لوگوں کو اس وقت تک سمجھ نہیں آتیں جب تک انہوں نے کسی مریض کے ساتھ کچگ وقت گزارا ہو اس لیے کسی خاندان میں پہلی دفعہ کسی کو نفسیاتی بیماری ہوتی ہے تو بہت دفعہ لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ شخص بیمار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رشتہ دار کاہل ہو گیا ہے، مکر کر رہا ہے، اس لیے کوئی کام نہیں کرتا۔ اس وجہ سے بہت دفعہ مریض کے تعلقت قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے خراب یا ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم جب مریضوں کو دیکھتے ہیں اور خاص طور سے جب وہ بہتر ہو جاتے ہیں تو انہیں یہی تاکید کرتے ہیں کہ اپنے رشتہ داروں دوستوں سے تعلقات دوبارہ جوڑنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مریض کے گھر والوں سے ملیں اور انہیں مریض کی بیماری اور علاج کے بارے میں بتائیں تا کہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں ایک دو ایسے لوگ ضرور ہونے چاہیئیں جن سے وہ کھل کے ہر بات شیئر کر سکے، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔ ہم مریضوں سے یہی کہتے ہیں کہ ہر ایک کے سامنے اپنی بیماری کی تفصیلات نہ بیان کریں کیونکہ آپ کا اس پہ کوئی کنٹرول نہیں ہو گا کہ وہ آپ کے پیچھے میں کیا کہے گا۔ لیکن ایک دو لوگ ایسے ضرور ہونے چاہیئیں جن کو آپ سب بتا سکیں، اور اگر آپ کو اپنی طبیعت خراب ہوتی ہوئی لگ رہی ہے تو ان سے بات کر کے مشورہ کر سکیں۔ اس کے بہت فائدے ہوتے ہیں۔
مصروف رہیں
مصروف رہنا بے شمار بیماریوں کا ایک علاج ہے لیکن اس میں اعتدال کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ ایسے مریض دیکھتے ہیں جو کام کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور ٹھیک ہوتے ہی بلکہ بعض دفعہ پورا ٹھیک ہونے سے پہلے ہی کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت دفعہ بیماری کی علامات واپس آ جاتی ہیں۔ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں کہ آپ کو ٹھیک ہونے کے بعد مصروفیات کو دوبارہ کس طرح سے شروع کرنا چاہیے۔
اپنے لیے روزانہ کچھ ایسا وقت ضرور رکھیں جس میں آپ ریلیکس کر سکیں جس کو ہم ڈاؤن ٹائم (down time) کہتے ہیں۔ ایسے کاموں میں باقاعدگی سے ضرور حصّہ لیں جن کو آپ انجوائے کرتے ہیں۔ اس سے موڈ خوشگوار رہنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر آپ بے روزگار ہیں تو کوئی والنٹیری یعنی بغیر تنخواہ کے کام کر لیں، یا کوئی کورس شروع کر دیں جس سے آپ کے علم اور آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ مکمل فارغ رہنا صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے ،اور جتنا طویل عرصہ کوئی بھی انسان بغیر کسی مصروفیت کے گزارتا ہے اتنا ہی اس کے لیے کام میں واپس جانا مشکل ہوتا جاتا ہے۔
ورزش
تقریباً بیس منٹ درمیانی شدت کی ورزش ہفتے میں تین دفعہ کرنے سے انسان کا موڈ بہتر ہونے میں مدد ملتی ہے۔
دوائیاں خود سے بند نہ کریں
بائی پولر ڈس آرڈر کے بہت سے مریض ٹھیک ہو جانے کے بعد اپنی دوا بند کرنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو مینیا کے دو اٹیک ہو چکے ہیں ان کو تیسرا اٹیک ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے، اور اس کے بعد مزید ہر اٹیک ہونے کے بعد اس سے اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔
اگر آپ دوا پھر بھی بند کرنا چاہیں تو اپنی فیملی کے ساتھ جا کے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں کہ دوا بند کرنے کا نسبتاً کم نقصان دہ طریقہ کیا ہے، آپ کی بیماری میں نیا اٹیک شروع ہونے پہ ابتدائی علامات عام طور سے کون سی ہوتی ہیں، اور یہ کس کی ذمّہ داری ہو گی کہ وہ ان ابتدائی علامات کو پہچانے اور اگر وہ شروع ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرے۔
بشکریہ: https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/mental-illnesses-and-mental-health-problems/bipolar-disorder
بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہوتا ہے؟
ڈپریشن کے دورے کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
بائی پولر ڈس آرڈر میں سائیکوسس کی علامات
بائی پولر ڈس آرڈر کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟
موڈ کی بیماریوں کے دوروں کی قسمیں
مینیا کے دورے کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
بائی پولر ڈس آرڈر کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
بائی پولر ڈس آرڈر کے علاج میں استعمال ہونے والی دوائیاں
لیتھیم کے استعمال میں کیا احتیاط کرنا ضروری ہے؟
لیتھیم کے خون میں نارمل لیول پہ نظر آنے والے مضر اثرات
لیتھیم کا خون میں لیول بڑھ جانے سے نظر آنے والے شدید مضر اثرات
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
TYPES OF MOOD (AFFECTIVE) EPISODES
- MANIA: elevation of mood, increased energy, grandiose ideas
- HYPOMANIA: state of elevated mood that is of lesser extent than mania
- DEPRESSION: sadness, anhedonia, reduced energy
- MIXED AFFECTIVE STATE: Depressive and manic symptoms at the same time, or follow each other in a short space of tome
THE DIFFERENCE BETWEEN BIPOLAR AND UNIPOLAR DISORDER
- In Unipolar Disorder, all episodes are of depression
- In Bipolar Disorder, ONE episode has to be of mania (Bipolar 1 Disorder) or hypomania (Bipolar 2 Disorder). All other episodes can be manic, depressive, or mixed.
Credit: Oxford Shorter Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
- موڈ (مزاج): ہم سب کبھی نہ کبھی حد سے زیادہ خوش ہو جاتے ہیں مثال کے طور پہ کوئی مشکل امتحان پاس ہو جائے، بہت اچھی ملازمت مل جائے، کوئی بہت اچھا دوست بہت عرصے کے بعد مل جائے، اس خوشی کو مینیا نہیں کہتے۔۔ مینیا کے مریض کا مزاج بغیر کسی ظاہری وجہ اس کے عام موڈ کے مقابلے میں بے انتہا، حد سے زیادہ خوش رہنے لگتا ہے، اور کئی دنوں، یا علاج کے بغیر کئی ہفتوں یا مہینوں تک ایسا ہی رہتا ہے۔ بعض مریضوں کا مزاج خوش رہنے کے بجائے چڑچڑا ہو جاتا ہے۔
- طاقت توانائی: مریض کو ایسے لگتا ہے کہ اس کے بدن میں بے انتہا توانائی آ گئی ہے۔ وہ دن میں بیس گھنٹے، چوبیس گھنٹے کام کرنے لگتا ہے، لیکن نہ اسے تھکن ہوتی ہے، اور نہ ہی نیند کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے بولنے کی رفتار بھی بہت تیز ہو جاتی ہے اور خیالات جلدی جلدی تبدیل ہونے لگتے ہیں، جیسے کہ وہ تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ باتیں کہنے کی کوشش کر رہا ہو۔
- مریض کی جھجک (social inhibition)ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایسے کام کرنے لگتا ہے جو وہ ٹھیک ہوتا تو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ بہت زیادہ سوشل ہو جاتا ہے لیکن اس میں خطرہ یہ ہوتا ہے وہ ایسے کام بھی کر گزرتا ہے جو اس کی فطرت کے خلاف ہوتے ہیں، اور جن کی وجہ سے ٹھیک ہونے کے بعد بہت نقصان بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ہوتی ہے۔
- توجہ: مریض کو اپنی توجہ کسی ایک طرف دینے پہ اور ایک بات پہ مرکوز رکھنے میں بہت زیادہ مشکل ہونے لگتی ہے۔ اس کی توجہ ذرا سی آواز سے بھی ایک بات کی طرف سے ہٹ کے دوسری طرف منتقل ہو جاتی ہے۔
- مریض کو اپنے بارے میں بڑے بڑے خیالات آنے لگتے ہیں کہ وہ کوئی بہت بڑی ہستی ہے یا اس میں کوئی ایسی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں جو کسی اور انسان میں نہیں ہیں۔
- مریض کی صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت شدید خراب ہو جاتی ہے۔ وہ بڑے بڑے منصوبے بنانے لگتا ہے، خیالی پلاؤ پکانے لگتا ہے، اور کبھی کبھی ان بے حقیقت اسکیموں پہ لاکھوں روپے ضائع کر دیتا ہے۔ وہ پیسے پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ خرچ کرنے لگتا ہے۔
- عام طور سے یہ علامات ایک ہفتے سے زیادہ موجود رہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ مریض کو مینیا کی بیماری ہو گئی ہے۔
- مینیا کی بیماری اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس میں مریض اپنے روز مرہ کے کام کرنے اور لوگوں سے عام طور سے جس طرح ملنا جلناکرتا تھا اس کے قابل نہیں رہتا۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- A systematic review says that Olanzapine, risperidone, haloperidol, and quetiapine are all efficacious and tolerable
- Olanzapine more effective than lithium and valproate (Cochrane)
- International guidelines; Antipsychotic-mood stabiliser combination; works faster, 20% more effective
- ANZ Guidelines; try antipsychotic first, if not effective add mood stabiliser
STOP ANTIDEPRESSANT!
IF PATIENT NOT TAKING TREATMENT
- Antipsychotic, or
- Valproate (except in women of child-bearing age), or
- Lithium (if future adherence likely)
- If response inadequate, consider AP+MS combination
- Short-term benzodiazepines (lorazepam or clonazepam)
IF PATIENT TAKING ANTIMANIC TREATMENT
- If taking AP; check compliance, review dose, consider adding lithium or valproate
- If taking lithium; check plasma level, review dose, consider adding AP
- If taking valproate; check plasma level, review dose, consider adding AP
- Short-term benzodiazepines
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
- ایک ریسرچ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینیا کے علاج میں اولینزاپین (olanzapine)، رسپیریڈون (risperidone)، ہیلوپیریڈول (haloperidol)، اور کوٹائپین (quetiapine) سب موثر بھی ہیں اور مریض ان کے مضر اثرات کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔
- اس موضوع پہ کوکرین ریویو (Cochrane review) کا نتیجہ یہ تھا کہ اولینزاپین مینیا کے علاج کے لئے لیتھیم (lithium) اور ویلپروئیٹ (valproate) سے زیادہ کارآمد ہے۔
- انٹر نیشنل گائیڈلائنز کے مطابق اگر مینیا کے مریض کو اینٹی سائیکوٹک اور موڈ اسٹیبیلائزر ملا کر دی جائیں تو مریض ان میں سے صرف ایک دوا دینے کے مقابلے میں زیادہ جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں، اور اس کومبی نیشن سے فائدہ بھی تقریباً ۲۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
- اس کے برعکس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی گائیڈ لائنز کے مطابق پہلے اینٹی سائیکوٹک دوا استعمال کرنی چاہیے۔ اگر اس سے فائدہ نہ ہو تو پھر اس کے ساتھ کسی موڈ اسٹیبیلائزر کو ملا کر دینا چاہیے۔
مینیا کے دوا سے علاج کے بنیادی اصول یہ ہیں:۔
سب سے پہلے تو اگر مریض اینٹی ڈپریسنٹ لے رہا ہو تو اسے بند کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے جاری رہنے سے مینیا مزید خراب ہو سکتا ہے اور اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر مریض پہلے سے مینیا کی کوئی دوا نہ لے رہا ہو تو؛
- اسے اینٹی سائکو ٹک، ویلپروئیٹ، یا لیتھیم شروع کی جا سکتی ہے۔
- ویلپروئیٹ دینے میں اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اگر حاملہ خواتین حمل کے دوران ویلپروئیٹ لے رہی ہوں تو بچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لئے جو خواتین اس عمر میں ہوں کہ حاملہ ہو سکتی ہوں انہیں حتی الامکان ویلپروئیٹ نہیں دینی چاہیے۔
- لیتھیم اگر شروع کرنے کے بعد جلدی بند کر دی جائے تو اس سے مینیا کا اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، اس لئے لیتھیم شروع کرنے سے پہلے اس بات پہ غور کر لینا چاہیے کہ مریض صحتیاب ہونے کے بعد بھی لیتھیم لیتا رہے گا کہ نہیں۔
- اگر ایک دوا سے فائدہ نہ ہو تو لیتھیم اور موڈ اسٹیبیلائزر کو ملا کے دیا جا سکتا ہے۔
- تمام مریضوں میں جسمانی بیچینی، نیند کی کمی اور جارحیت کو کم کرنے کے لئے وقتی طور پہ بینزو ڈایازیپین ادویات دی جا سکتی ہیں۔
اگر مریض پہلے سے مینیا کی کوئی دوا لے رہا ہو تو ؛
- اگر مریض کو اینٹی سائیکوٹک دوا دی جا رہی ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے دوا لے رہا تھا کہ نہیں۔ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ دوا کا ڈوز اگر کم تھا تو اسے بڑھایا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ اگر ا س سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کے ساتھ ساتھ لیتھیم یا ویلپروئیٹ شروع کی جا سکتی ہیں۔
- اگر مریض پہلے سے لیتھیم لے رہا ہو تو اس کا خون میں لیول چیک کرنا چاہیے۔اگر لیول کم ہو تو ڈوز بڑھانا چاہیے کیونکہ مینیا کے اٹیک کے دوران مریض کو لیول زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
- اگر مریض پہلے سے ویلپروئیٹ لے رہا ہو تو اس کا خون میں لیول چیک کرنا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو اسے بڑھانا چاہیے۔ اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو اینٹی سائیکوٹک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- A systematic review says that Olanzapine, risperidone, haloperidol, and quetiapine are all efficacious and tolerable
- Olanzapine more effective than lithium and valproate (Cochrane)
- International guidelines; Antipsychotic-mood stabiliser combination; works faster, 20% more effective
- ANZ Guidelines; try antipsychotic first, if not effective add mood stabiliser
STOP ANTIDEPRESSANT!
IF PATIENT IS NOT TAKING TREATMENT
- Antipsychotic, or
- Valproate (except in women of child-bearing age), or
- Lithium (if future adherence likely)
- If response inadequate, consider AP+MS combination
- Short-term benzodiazepines (lorazepam or clonazepam)
IF PATIENT IS TAKING ANTIMANIC TREATMENT
- If taking AP; check compliance, review dose, consider adding lithium or valproate
- If taking lithium; check plasma level, review dose, consider adding AP
- If taking valproate; check plasma level, review dose, consider adding AP
- Short-term benzodiazepines
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
بائی پولر ڈپریشن کے بارے میں کچھ معلومات
- یونی پولر ڈپریشن کے مقابلے میں (یعنی وہ مریض جن کو ہر دورہ صرف ڈپریشن کا ہی ہوتا ہو) بائی پولر ڈپریشن میں مریض کم وقت میں زیادہ بیمار ہو جاتا ہے، بائی پولر ڈپریشن کے دورے زیادہ کثرت سے ہوتے ہیں، ان دوروں کی شدّت زیادہ ہوتی ہے، ان کا دورانیہ نسبتاً کم ہوتا ہے، اور ان میں ڈیلیوزن پیدا ہو جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یونی پولر ڈپریشن میں زیادہ مریضوں میں نیند اور بھوک کم ہوتی ہے، جبکہ بائی پولر ڈپریشن میں نیند اور بھوک بڑھ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
- بائی پولر ڈپریشن میں تقریباً پندرہ فیصد مریضوں میں خود کشی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔
- بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کا بیمار رہنے کا وقت مینیا کے مقابلے میں ڈپریشن میں زیادہ گزرتا ہے۔
بائی پولر ڈپریشن کا دوائیوں سے علاج
- برطانیہ کے ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور کلینیکل ایکسی لینس کا کہنا ہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر کے علاج کے لئے سب سے پہلے فلوآکسیٹین اور اولینزاپین کو ملا کر دینا چاہیے۔
- متبادل پہلی لائن کی دوائیں کوئی ٹائیپین (quetiapine)، اولینزاپین (olanzapine)، لیو راسیڈون (lurasidone)، لیموٹریجین (lamotrigine)، اور ویلپروئیٹ (valproate) ہو سکتی ہیں۔
- کوئی ٹائیپین بائی پولر ڈپریشن کے علاج کے لئے موثر ہے، اور اس کے علاوہ مریض کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اس میں مینیا اور ڈپریشن کی علامات واپس آنے سے بھی روکتی ہے۔ اسی لئے اسے بائی پولر ڈپریشن کے علاج کے لئے پہلا انتخاب بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بائی پولر ڈپریشن کے استعمال سے ڈپریشن کے دورے کا مینیا کے دورے میں بدل جانے کا امکان بھی نہیں ہوتا۔
- لیتھیم ہو سکتا ہے کہ بائی پولر ڈپریشن کے علاج میں موثر ہو لیکن اس کے بارے میں ریسرچ کا ثبوت اتنا مضبوط نہیں جتنا کہ مینیا کے دورے کے علاج کے بارے میں ہے۔ اسی طرح سے اس بارے میں تو ریسرچ واضح طور پر کہتی ہے کہ مریض کے ٹھیک ہو جانے کے بعد لیتھیم مینیا کی علامات کو واپس آنے سے روکتی ہے، لیکن ڈپریشن کی علامات کو واپس آنے سے روکنے کے بارے میں ثبوت اتنا واضح نہیں۔
- بائی پولر ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ کو کبھی بھی اینٹی سائیکوٹک یا موڈ اسٹیبیلائزر کی غیر موجودگی میں نہیں دینا چاہیے، کیونکہ بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کو صرف اینٹی ڈپریسنٹ دینے سے ڈپریشن کے دورے کا مینیا کے دورے میں بدل جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
SOME FACTS ABOUT BIPOLAR DEPRESSION
- Episodes; more rapid onset, more frequent, more severe, shorter, more likely to involve delusions, more likely to have increased sleep and appetite
- 15% die by suicide
- With regards to time, majority of symptomatic illness in Bipolar Disorder is depression
DRUG TREATMENT OF BIPOLAR DEPRESSION
- Fluoxetine + Olanzapine (NICE)
- Alternative first-line treatments; quetiapine, olanzapine, lurasidone, lamotrigine, valproate
- Quetiapine; clear efficacy in treating Bipolar 1 and 2 depression, prevents relapse into depression and mania hence treatment of choice in Bipolar Depression, not known to cause switching into mania
- Lithium; probably effective, stronger evidence for preventing manic relapses, strong evidence that it reduces suicidality in bipolar disorder
- Antidepressants alone may precipitate mania
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
مینیا کے دورے کو ختم کرنے کے لئے
- اگر کسی مریض کو مینیا کا دورہ شروع ہو چکا ہو، تو لیتھیم اس کو کنٹرول اور اس کی علامات کو ختم کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے خون میں لیتھیم کا لیول اعشاریہ ۸ سے ایک (0.8-1.0) ملی مول فی لیٹر تک ہونا چاہیے۔
- لیکن جس مریض میں مینیا کی علامات شدید ہوں اس میں خون میں لیتھیم کا لیول بار بار چیک کرنا، کہ کہیں وہ کم یا زیادہ نہ ہو، مشکل ہوتا ہے۔ ا سلئے بہت دفعہ مینیا کے ا یکیوٹ اٹیک میں اینٹی سائیکوٹک دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
بائی پولر ڈپریشن کے علاج کے لئے
- لیتھیم بہت دفعہ اس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے، لیکن ریسرچ سے اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ وہ اس مقصد میں موثر ہوتی ہے۔
- البتّہ اس بات کا ریسرچ سے ثبوت زیادہ واضح ہے کہ لیتھیم ڈپریشن کے دوروں کو واپس آنے سے روکنے میں موثر ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کے اگلے اٹیک کو ہونے سے روکنا
- لیتھیم اس مقصد کے لئے کار آمد ہے۔ اس مقصد کے لئے خون میں اس کا لیول اعشاریہ ۶ سے اعشاریہ ۸ (0.6-0.8) ملی مول تک ہونا چاہیے۔ اگر واضح فائدہ ہو مگر مضر اثرات بھی ہوں تو اسے اعشاریہ ۴ سے اعشاریہ ۶ ملی مول تک کم کیا جا سکتا ہے، اور اگر واضح فائدہ نہ ہو اور مضر اثرات بھی شدید نہ ہوں تو اسے اعشاریہ ۸ سے ایک ملی مول تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
- ایک ریسرچ نے ان مریضوں کا جو بائی پولرڈس آرڈر کے اگلے اٹیک کو ہونے سے روکنے کے لئے صرف ایک دوا لے رہے تھے، طویل عرصے تک فالو اپ کیا جب تک کہ ان میں سے ۷۵ فیصد مریضوں کو اگلا اٹیک نہیں ہو گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ جو مریض صرف لیتھیم لے رہے تھے ان کو اگلا اٹیک مجموعی طور پہ دو سال بعد ہوا، اولینزاپین لینے والے مریضوں کو اگلا اٹیک ۱ اعشاریہ ۱ (1.1) سال کے بعد ہوا، ویلپروئیٹ لینے والے مریضوں کو اگلا اٹیک صفر اعشاریہ ۹۸ (0.98) سال کے بعد ہوا، جبکہ کوئی ٹائپین لینے والے مریضوں کو اگلا اٹیک صفر اعشاریہ ۷۶ (0.76) سال کے بعد ہوا۔ اس سے پتہ چلا کہ لیتھیم اگلے اٹیک کو روکنے میں سب سے زیادہ موثر تھی۔
یونی پولر ڈپریشن میں اینٹی ڈپریسنٹ کے ساتھ لیتھیم کا استعمال
- ڈپریشن کے تقریباً ۳۰ سے ۵۰ فیصد تک مریضوں کو وہ جو پہلی یا دوسری اینٹی ڈپریسنٹ دوا لیتے ہیں اس سے فائدہ نہیں ہوتا۔
- ریسرچ کہتی ہے کہ ایسے مریضوں میں لیتھیم یا کوئی ٹائپین اینٹی ڈپریسنٹ کے ساتھ ملا کے دینے سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
- اس مقصد کے لئے لیتھیم لیول اعشاریہ ۶ سے ایک (0.6-1.0) تک سب سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔
یونی پولر ڈپریشن میں اگلے اٹیک کو ہونے سے روکنا
- ایک ریسرچ کے مطابق اتنی شدّت کے ڈپریشن کے اٹیک جس میں مریض کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے، اس کو روکنے کے لئے لیتھیم اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔
خود کشی
ایک ریسرچ کے مطابق بائی پولر ڈس آرڈر میں لیتھیم خودکشی کے اقدامات اور مکمل خود کشی کے خطرے کو ۸۰ فیصد تک کم کر دیتی ہے۔
لیتھیم یونی پولر ڈپریشن کے مریضوں میں بھی خود کشی کے خطرے کو کم کرتی ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Acute treatment of mania
- Effective for treatment of acute mania at a plasma level 0.8-1.0 mmol/L
- Difficult to titrate in acute mania, may need antipsychotic
Bipolar Depression
- Widely used but evidence supporting strong efficacy is lacking
- Stronger evidence for prevention of depressive episodes
Prophylaxis of Bipolar Disorder
- Aim for 0.6-0.8 mmol/L, reduce to 0.4-0.6 if good response but significant side effects, increase to 0.8-1.0 if insufficient response but no significant side effects
- Monotherapy failure in 75% of each cohort by: 2 years for lithium, compared to 1.1 years for olanzapine, 0.98 years for valproate, and 0.76 years for quetiapine
Antidepressant augmentation in unipolar depression
- 30-50% of patients fail to respond to first or second-line Antidepressant (AD)
- Research says that lithium or quetiapine are agents of first choice for augmentation of AD
- Most effective at plasma level of 0.6-1.0 mmol/L
Prophylaxis of Unipolar Depression
- Lithium significantly superior to ADs in preventing relapses that required hospitalization (Cipriani 2006)
Suicide
- In a meta-analysis, Lithium reduced the risk of attempted and completed suicide by 80% in patients with Bipolar Disorder
- Protective effect against suicide in patients with Unipolar Depression as well
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
لیتھیم شروع کرنے پہ ہونے والے مضر اثرات
- پیٹ کا خراب ہونا
- ہاتھوں میں رعشہ ہو جانا
- بہت زیادہ پیاس لگنا، پیشاب بار بار آنا
- جلد کی بعض بیماریوں مثلاً سورائیسس (psoriasis) یا کیل مہاسے نکلنے کا زیادہ خراب ہو جانا
- زبان کے ذائقے کا خراب ہو جانا
- ٹخنوں کا سوج جانا
- وزن بڑھ جانا
لیتھیم طویل عرصے تک لینے سے ہونے والے مضر اثرات
- گردوں کا پیشاب کو گاڑھا کرنے کی صلاحیت کا خراب ہو جانا۔ شروع میں تو لیتھیم بند کرنے سے یہ اثر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جو لوگ طویل عرصے تک مثلاً پندرہ سال سے زیادہ تک لیتھیم لیتے رہے ہوں، ان کے گردوں میں یہ صلاحیت مستقلاً خراب ہو سکتی ہے۔
- گردوں کی پیشاب بنانے کی صلاحیت خراب ہو سکتی ہے۔ جن مریضوں کا لیتھیم اعشاریہ ۸ سے زیادہ رہتا ہے، ان میں یہ مضر اثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
- ہائیپو تھائیرائیڈازم (hypothyroidism): ادھیڑ عمر خواتین میں تقریباً ۲۰ فیصد تک عورتوں میں لیتھیم طویل عرصے تک لینے سے یہ بیماری ہو سکتی ہے۔
- ہائیپر تھائیرائڈازم (hyperthyroidism):
- ہائیپر پیرا تھائیرائڈ ازم(hyperparathyroidism): اس بیماری میں خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے جس سے جسم کے کئی اعضاء میں پتھریاں بن سکتی ہیں اور مزید بیماریاں ہو سکتی ہیں۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Upon starting:
- Gastrointestinal upset
- Fine tremor
- Excessive thirst and frequent passing of urine
- Psoriasis and acne may be aggravated
- Metallic taste in mouth
- Ankle edema
- Weight gain
Long-term use
- Reduction in urinary concentrating capacity – initially reversible, can become irreversible after long-term treatment (more than 15 years)
- Reduction in Glomerular Filtration Rate (levels higher than 0.8 more risk)
- Hypothyroidism; in middle-aged women up to 20%
- Hyperthyroidism
- Hyperparathyroidism – increased calcium levels
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب وڈیو دیکھیں
کن باتوں سے لیتھیم کا لیول خون میں زیادہ بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے؟
جسم میں پانی کی کمی مثلاً پیچش یا اونچے درجے کے بخار کی صورت میں جسم سے پانی کا زیادہ نکل جانا، کم نمک والی خوراک، بعض دوائیں، بعض بیماریاں مثلاً ایڈیسن ڈیزیز
خون میں لیتھیم لیول بڑھ جانے کا علاج؟
لیتھیم کا لیول زیادہ بڑھ جانا ایک بہت خطرناک نوعیت کی بیماری ہے، اور علامات بہت شدید ہو جائیں تو اس کا علاج آئی سی یو میں کیا جاتا ہے۔ اس میں کم لیول پہ ڈرپ کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پیشاب زیادہ سے زیادہ خارج ہو تا کہ خون میں لیتھیم کا لیول کم ہو جائے۔ لیول بہت زیادہ ہونے کی صورت میں ڈایا لیسس کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
RISK FACTORS FOR LITHIUM TOXICITY
- Dehydration, low salt diet, drug interactions, illnesses such as Addison’s disease
TREATMENT OF LITHIUM TOXICITY
- Osmotic or forced alkaline diuresis
- Peritoneal or Haemodialysis
Neurotoxicity at normal plasma levels as brain levels maybe higher than plasma levels
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس تحریر کی یو ٹیوب ویڈیو دیکھیں
لیتھیم ان دوائیوں میں سے ہے جن کے علاج کے لئے استعمال کئے جانے والے لیول اور مضر اثرات والے لیول کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا ہے۔ اس کو (narrow therapeutic index) کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پہ مینیا کی دورے کے دوران لیتھیم لیول ایک اعشاریہ صفر تک اس کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا خون میں لیول ایک اعشاریہ صفر ( 1.0 mmol/L) ملی مول فی لیٹر سے زیادہ بڑھ جانے کے بعد سے جسمانی اور ذہنی مضر اثرات کا خطرہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد مزید یہ لیول جتنا بڑھتا ہے، اتنا ہی زیادہ شدید اور خطرناک مضر اثرات کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مریض اس کا خون میں لیول باقاعدگی سے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق کرواتا رہے اور اس میں غفلت نہ کرے۔
لیتھیم لیول ایک اعشاریہ پانچ 1.5 ملی مول فی لیٹر سے زیادہ ہوجانے سے ہونے والے مضر اثرات
- نظامِ ہاضمہ میں ہونے والے اثرات:
بھوک کا مزید کم ہو جانا، متلی کی سی کیفیت محسوس ہونا، پیچش لگ جانا
- نروس سسٹم میں ہونے والے مضر اثرات:
پٹھوں میں کمزوری محسوس ہونا، غنودگی کی سی کیفیت رہنا، ہوش و حواس مکمل برقرار نہ رہنا، چلنے میں توازن قائم نہ رکھ پانا، لڑکھڑاہٹ ہو جانا، ہاتھوں میں رعشے کا واضح طور پہ بڑھ جانا، عضلات میں جھٹکے سے لگنے لگنا
اگر لیتھیم لیول مزید بڑھ جائے اور ۲ اعشاریہ صفر (2.0) سے بڑھ جائے تو یہ خطرات ہوتے ہیں
- ہوش و حواس مزید خراب ہو جانا، اپنے آس پاس کے ماحول اور لوگوں کو پہچاننے میں دشواری ہونے لگنا
- مرگی کے دورے شروع ہو جانا
- بے ہوشی کی کیفیت ہو جانا
- انتقال ہو جانا
(ماخوذ: دی ماڈسلی پریسکرائیبنگ گائیڈ لائنز ان سائیکائٹری، چودھواں ایڈیشن)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
LEVELS MORE THAN 1.5 mmol/L
- Gastrointestinal effects: increasing anorexia, nausea, diarrhea
- CNS effects: muscle weakness, drowsiness, confusion, ataxia, coarse tremor, muscle twitching
LEVELS ABOVE 2.0 mmol/L
- Increased disorientation,
- Seizures
- Coma
- Death
(Credit: The Maudsley Prescribing Guidelines in Psychiatry, 14th edition)
Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں بائی پولر ڈس آرڈر میں اولینزاپین کے فوائد، اس کے مضر اثرات، اور اس کے محفوظ استعمال کے لئے کی جانے والی مانیٹرنگ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
In this video, the benefits of Olanzapine in Bipolar Disorder, its side effects, and its monitoring requirements have been described.