۱۔ انسومنیا (نیند کی کمی کی بیماری) کی ایک خاص طرح کی کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی) ہوتی ہے جس سے اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا کہ دوائیوں سے ہوتا ہے، لیکن اس کا مزید فائدہ یہ ہے کہ اس کا فائدہ ایک عرصے تک برقرار رہتا ہے جبکہ نیند کی دوائیوں کا فائدہ کچھ ہفتوں کے بعد ختم ہونے لگتا ہے۔
۲۔ روزانہ سونے اور جاگنے کا وقت مقرّر ہو نا چاہیے، اور انسان کو ہفتے کے ساتوں دن ایک ہی وقت پہ سونے اور جاگنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل خصوصاً نوجوان لوگوں میں یہ بڑی وبا ہو گئی ہے کہ ہفتہ وار چھٹی کے دنوں میں رات دیر دیر تک جاگتے ہیں اور صبح دیر تک سوتے ہیں۔ اس سے دماغ میں نیند کا جو مرکز ہے اس میں جو اٹھنے جاگنے کا ٹائم ہے (sleep architecture) وہ خراب ہو جاتا ہے۔ پھر جب کام کا ہفتہ شروع ہوتا ہے تو اسے دوبارہ سیٹ ہونے میں کئی دن لگتے ہیں۔ پھر اگلا ویک اینڈ آ جاتا ہے تو وہ پھر خراب ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح لوگوں کی نیند اتنی اچھی نہیں ہوتی جتنی کہ ہو سکتی ہے اور دن میں تھکن رہتی ہے۔
۳۔ دن میں اور خصوصاً صبح کے وقت میں اپنے آپ کو سورج کی روشنی سے ایکسپوژ کریں یعنی سورج کی روشنی میں کچھ وقت گزاریں۔ سورج کی روشنی سے دماغ میں جو نیند کا وقت سیٹ کرنے والال مرکز ہے اس کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اب جاگنے کا وقت ہے اور اس طرح سونے کا وقت سیٹ ہونے میں بھی مدد ملتی ہے۔
۴۔ سونے کے وقت سے کچھ گھنٹے پہلے گھر کی بتیاں مدھم کر دیں، اور تقریباً ایک گھنٹہ پہلے سے تمام اسکرینز مثلاً ٹی وی، موبائل، اور کمپیوٹر کا استعمال بند کر دیں کیونکہ ان کی روشنی بھی دماغ کو یہ غلط سگنل دیتی ہے کہ ابھی سونے کا وقت نہیں ہوا۔ آج کل کی ریسرچ کے مطابق یہ جتنی بھی اسکرینز ہوتی ہیں مثلاً موبائل، ٹی وی، لیپ ٹاپ، ان سب سے ایک نیلی روشنی نکلتی ہے۔ یہ جب آنکھوں کے ذریعے دماغ میں جاتی ہے تو دماغ کو جگا دیتی ہے اور الرٹ کر دیتی ہے۔ اس سے سونا مشکل ہو جاتا ہے۔
۵۔ باقاعدگی سے روزانہ کچھ نہ کچھ ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ورزش کا مطلب یہ ہے کہ انسان جمنازیم جائے اور مشینوں پہ ورزش کرے۔ ہفتے میں پانچ دن آدھا گھنٹہ واک یعنی تیز رفتار سے چہل قدمی کرنا بھی صحت اور نیند کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہ واک یا چلنا اتنی رفتار سے ہونا چاہئے کہ انسان کو تھوڑا سا پسینہ آئے، اور تھوڑا سا سانس پھولے۔ اگر پہلے سے ورزش کی عادت نہیں ہے تو کم سے مچلاً ہفتے میں دو تین دن دس پندرہ منٹ کی واک سے شروع، کریں اور جب اس کی عادت ہو جائے تو اسے آپستہ آہستہ بڑھائیں۔ ہم لوگ اپنے مریضوں کو کہتے ہیں کہ باقاعدہ ورزش سے بہتر نیند کی کمی کی بیماری کا کوئی علاج آج تک دریافت نہیں ہوا۔
۶۔ سونے سے پہلے اپنے آپ کو ریلیکس کرنے یعنی پرسکون کرنے کی ایک روٹین بنائیں، مثلاً کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھیں، یا ریلیسیشن ایکسرسائزز کریں۔ آج کل موبائل پہ ایسی ایپس (Apps) مل جاتی ہیں جو ریلیکسیشن کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ پہ بھی فری ریلیکسیشن ایکسرسائزز کی آڈیوز اور وڈیوز بھی مل جاتی ہیں۔ آج کل موبائل پہ ایسی ایپس بھی دستیاب ہیں جو سپاٹ آواز (white noise) پیدا کرتی ہیں۔ اس سے دماغ کو اور باتوں اور سگنلز کی طرف سے توجہ ہٹانے میں مدد ملتی ہے۔ جن لوگوں کو ہر رات سونے سے پہلے ایک مخصوص روٹین کی پابندی کرنے کی عادت ہوتی ہے ، ان کے لئے سونا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ جو بھی آپ کی بستر پہ جانے سے پہلے کی روٹین ہو، اس کی پابندی کرنے سے فائدہ ہوتا ہے، مثلاً سونے کے کپڑے پہننا، دانت برش کرنا وغیرہ، کیونکہ اس سے دماغ کو یہ سگنل ملتا ہے کہ اب سونے کا وقت ہے۔
۷۔ بستر میں جانے سے فوراً پہلے ایسے کام کرنے سے گریز کریں جن سے آپ کو دماغ اور زیادہ الرٹ اور چاق و چوبند ہو جائے، مثلاً دفتر کے ایسے کام کرنا جن سے بہت اسٹریس ہو اور جن کے لئے بہت زیادہ توجّہ چاہیے ہو۔ ایسے کام کرنے کے بعد دماغ کو وائنڈ ڈاؤن (wind down) کرنے یا سوئچ آف (switch off) ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اور اس میں سونا مشکل ہوتا ہے۔
۸۔ بستر صرف سونے کے لئے ہونا چاہیے۔اگر بستر پہ جانے کے بعد لیٹے ہوئے آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے اور نیند نہیں آ رہی تو بستر میں نہ لیٹے رہیں۔ بستر سے نکل جائیں، کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھیں، کوئی ایسا کام کریں جس سے آپ کو ریلیکسیشن ہوتی ہو، ٹینشن کم ہوتی ہو۔ پھر جب دوبارہ نیند آنے لگے تو بستر میں جائیں۔ بستر میں لیٹے لیٹے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دماغ الرٹ ہو جائے مثلاً موبائل استعمال کرنا شروع کر دینا۔
۹۔ چاہے رات میں نیند کتنی خراب رہی ہو، دن میں نہ سونے کی کوشش کریں۔
بہت سے لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اگر ایک رات ان کونیند اچھی نہیں آتی اور وہ دن میں تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو وہ دوپہر میں سو جاتے ہیں۔دن کی نیند کافی گہری ہوتی ہے اور اگر انسان دوپہر میں کچھ گھنٹے سو لے تو اس سے اگلی رات کی نیند بھی خراب ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس رات کی نیند کی کمی کو دور کرنے کے لئے پھر اگلی دوپہر میں سوتے ہیں اور اس سے اگلی رات کی نیند پھر خراب ہو جاتی ہے، اور یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے ہم جن لوگوں کو نیند کی شکایت ہو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ رات میں نیند جتنی بھی خراب رہی ہو دن میں بھرپور کوشش کر کے بالکل بھی نہ سوئیں۔ اس سے اگلی رات کی نیند بہتر ہو جائے گی۔
پاکستان سمیت بہت سے گرم ملکوں میں لوگوں کو دوپہر میں ایک دو گھنٹہ سونے کی، جس کو قیلولہ بھی کہتے ہیں، عادت ہوتی ہے۔ اگر اس سے آپ شام میں چاق و چوبند ہو جاتے ہیں اور آپ کی اگلی رات کی نیند خراب نہیں ہوتی، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
۱۰۔ اسموکنگ یعنی سگریٹ نوشی:
سگریٹ نوشی سے انسانی جسم کو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں جس میں گلے کا کینسر، پھیپڑوں کاکینسر، اور کئی اور کینسر شامل ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ سگریٹ میں جو کیمیکل نکوٹین ہوتا ہےاس سے دماغ اسٹیمیولیٹ ہوتا ہے یعنی زیادہ چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے نیند خراب ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو نیند کا مسئلہ ہو ان کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ شام تقریباً چار بجے کے بعد سے سگریٹ پینا بند کر دیں۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے دماغ کو سگریٹ پینے سے سکون ملتا ہے اور نیند اچھی آتی ہے۔ ان کی بات تو اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی اور نشے کی چیز کی طرح دماغ سگریٹ کا بھی عادی ہو جاتا ہے، اور سگریٹ پئے ہوئے زیادہ دیر ہو جائے تو نشہ ٹوٹنے لگتا ہے یعنی ودڈرال (withdrawal) ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں جن میں سے ایک نیند آنے میں مشکل ہونا ہے۔ جب انسان سگریٹ پی لیتا ہے تو وقتی طور پہ یہ ودڈرال ختم ہو جاتا ہے اور اسے سکون مل جاتا ہے، لیکن کچھ گھنٹے بعد یہ سائیکل دوبارہ دہرایا جاتا ہے، اور لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ وقتی سکون کے لئے طویل عرصے کے اوپر اپنی بیماری کو اور زیادہ بڑھا رہے ہیں ۔
۱۱۔ چائے کافی:
میں بھی ایک اسٹیمیولنٹ کیفین ہوتا ہے اس لئے جن لوگوں کو نیند کا مسئلہ ہو ان کو شام ہو جانے کے بعد چائے کافی نہیں پینی چاہیے۔
۱۲۔ رات کا کھانا:
رات کا بھاری کھانا بستر پہ جانے سے تقریباً تین گھنٹے پہلے کھانے کی عادت ڈا لیں، خاص طور سے اگر اس میں تیل ہو یا مرچیں ہوں۔ ورنہ اگر آپ اس طرح کا کھانا کھا کے فوراً بستر پہ سونے کے لئے جائیں گے تو کھانا ہضم نہیں ہوا ہو گا۔ اس کی وجہ سے آپ کو ہاضمے کی شکایت مثلاً جلن وغیرہ بھی ہو گی اور نیند بھی خراب ہو گی۔ رات دیر سے کچھ کھانا ہی ہو تو ہلکا پھلکا اسنیک کھا لیں، پورا کھانا مت کھائیں۔
۱۳۔ بعض محققین کے نزدیک رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پینے سے نیند اچھی آتی ہے۔
۱۳۔ الکحل:
الکحل پہ بھی انہی ساری باتوں کا اطلاق ہوتا ہے جو میں نے سگریٹ نوشی کے بارے میں کہی تھیں۔ الکحل پینے سے نیند آتی ہے، لیکن جن لوگوں کو الکحل پینے کی عادت پڑ جائے انہیں رات میں ودڈرال (الکحل اچانک بند کرنے کی تکلیف دہ علامات) شروع ہو سکتا ہے اور اس سے ان کی نیند خراب ہو سکتی ہے۔
مغربی ممالک میں بھی جہاں الکحل پینا عام ہے، وہاں بھی اچھی نیند کے لئے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنی الکحل پینے کی مقدار کو کم کریں، روزانہ ہر گز نہ پیئیں ورنہ دماغ عادی ہو جائے گا اور بعد میں نیند سمیت بہت مسائل ہوں گے، اور شام ہونے کے بعد الکحل ہرگز نہ پیئیں۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
نیند کے دوران ہمارے دماغ اور جسم میں کیا ہوتا ہے؟
پرانے لوگوں سے سنا تھا کہ نیند وقتی موت ہے، اور موت دائمی نیند ہے۔ نیند کے دوران انسان ایک بے ہوشی کی سی کیفیت میں ہوتا ہے اور اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے ارد گرد کے ماحول میں اور دنیا میں کیا ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس دوران اس کا دماغ اور جسم معطّل نہیں ہوتے اور ان میں بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔ نیند کے دو بنیادی مراحل ہوتے ہیں، اور ہم سب رات کے مختلف اوقات میں مختلف مراحل سے گزرتے ہیں:
۱۔ ریپڈ آئی موومنٹ سلیپ (Rapid eye movement sleep)
یہ نیند کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں انسان خواب دیکھتا ہے اور اس کی آنکھیں بہت تیزی سے حرکت کر رہی ہوتی ہیں۔ اگر اس وقت کوئی دوسرا شخص سوتے ہوئے انسان کو دیکھے تو اسے اس کے سوتا ہوا ہونے کے باوجود اس کی بند آنکھیں اپنے حلقوں میں تیزی سے حرکت کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ اس مرحلے میں انسان کا دماغ کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن اس کا جسم اور اس کے عضلات بہت سکون کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور بالکل بھی حرکت نہیں کرتے۔
۲۔ نان آر ای ایم نیند (NREM sleep)
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ نیند کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں آنکھیں حرکت نہیں کرتیں۔ اس کے دوران انسان کا دماغ پرسکون ہوتا ہے، لیکن اس کا بدن نسبتاً زیادہ حرکت کرتا ہے۔ یہ نیند کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس میں مختلف ہارمونز ریلیز یعنی خارج ہوتے ہیں۔ اس کو اس طرح سے سمجھیں کہ دن بھر میں انسان کے جسم اور دماغ میں جتنی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے یہ وقت اس کی ریپیئر یعنی اس کی مرمّت کرنے کا ہوتا ہے۔
نان ریم نیند کے اپنے تین مراحل ہیں:
· نیند سے فوراً پہلے والا مرحلہ: اس میں جسم کے عضلات ریلیکس یعنی پر سکون ہونا شروع ہو جاتے ہیں، دل کی دھڑکن آہستہ ہو جاتی ہے، اور انسان کے بدن کا درجہٴ حرارت کم ہونے لگتا ہے۔
· ہلکی نیند: انسان نیند کے اس مرحلے سے بآسانی مکمل ہوش و حواس کے ساتھ جاگ جاتا ہے۔
· آہستہ لہروں والی نیند (Slow wave sleep): نیند کے اس مرحلے میں انسان کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، اس میں کچھ لوگ نیند کے دوران ہی بولتے ہیں یا چلتے ہیں، اور اس مرحلے سے جاگنامشکل ہوتا ہے۔ اگر کسی کو نیند کے اس مرحلے سے جگا دیا جائے تو اس کے مکمل جاگنے اور ہوش و حواس بحال ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔
ایک رات کی نیند کے دوران انسان تقریباً پانچ دفعہ نیند کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں جاتا ہے۔ خواب، اور خاص طور پر وہ خواب جو انسان کو یاد رہتے ہیں، عام طور سے صبح کے قریب زیادہ آتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ رات میں تقریباً ہر دو گھنٹے پہ ایک دو منٹ کے لیے اٹھتے ہیں۔ عام طور سے لوگوں کو یہ جاگنا یاد نہیں رہتا، لیکن اگر انسان کو شدید گھبراہٹ ہو، یا کوئی اور ایسی بات ہو جس سے نیند خراب ہو مثلاً کسی قسم کا شور یا روشنی، تو ایسی صورت میں انسان کو یہ جاگنا یاد رہتا ہے۔
ہمیں روزانہ کتنی نیند چاہیے ہوتی ہے؟
اس کا انحصار بنیادی طور پہ انسان کی عمر پہ ہوتا ہے۔
· بہت چھوٹے بچوں کو روزانہ تقریباً ۱۷ گھنٹے کی نیند چاہیے ہوتی ہے۔
· بڑے بچوں کوہر رات تقریباً ۹ سے ۱۰ گھنٹے نیند چاہیے ہوتی ہے۔
· بڑے لوگوں کو ہر رات تقریباً آٹھ گھنٹے کی نیند چاہیے ہوتی ہے۔
· معمّر لوگوں کو بھی ہر رات تقریباً آٹھ گھنٹے کی نیند چاہیے ہوتی ہے، لیکن عام طور سے ان کو رات میں صرف ایک دفعہ گہری نیند آتی ہے، جو کہ پہلے تین سے چار گھنٹے میں ہوتی ہے۔اس کے بعد ان کی آنکھ معمولی سی بات سے بھی کھل جاتی ہے۔ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ خواب کم دیکھنے لگتا ہے۔
لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر انسان انوکھا ہوتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو رات میں آٹھ گھنٹے کی نیند چاہیے ہوتی ہے، لیکن ہم میں سے معدودے چند لوگ ایسے بھی ہیں جو رات میں صرف تین چار گھنٹہ سو کے بھی بالکل تازہ دم ہو جاتے ہیں۔
مجھے تو رات میں نیند ہی نہیں آتی
جیسا کہ پہلے آیا، ہم میں سے بیشتر لوگوں کی آنکھ تقریباً ہر دو گھنٹے پہ چند منٹ کے لیے کھلتی ہے اور پھر ہم دوبارہ سو جاتے ہیں۔ اس بار بار آنکھ کھلنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ پوری رات سوئے ہی نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ سوئے ہوتے ہیں جتنا ان کو لگتا ہے۔ اس بات کو جاننے کے لیے کہ انسان ایک رات میں حقیقتاً کتنے گھنٹے سو رہا ہے بعض دفعہ سلیپ ڈائری یعنی نیند کی ڈائری کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر میں بالکل نہ سو پاؤں تو کیا ہو گا؟
اگر کوئی انسان کبھی کبھی ایک رات نہ سو پائے تو اگلے دن اسے تھکن تو ہو گی لیکن اس کی صحت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔
لیکن اگر کوئی انسان مسلسل کئی راتوں تک نہ سو پائے تو اسے اپنے آپ میں یہ تبدیلیاں محسوس ہونا شروع ہو جائیں گی:
- ہر وقت تھکا تھکا رہنا
- دن میں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے شدید نیند کے جھونکے آنا
- توجہ دینے اور برقرار رکھنے میں مشکل ہونا
- روز مرّہ کے کاموں کے فیصلے کرنے میں مشکل ہونا
- اداس محسوس کرنے لگنا
- نیند کا وقت آنے سے پہلے ہی اس بارے میں پریشان ہونا شروع ہو جانا کہ اس رات بھی نیند نہیں آئے گی۔
اگر انسان اس کیفیت میں گاڑی چلا رہا ہو یا بھاری مشینری آپریٹ کر رہا ہو تو اس سے بہت خطرہ ہوتا ہے۔ ہر سال جتنے لوگوں کا گاڑی کے حادثوں میں انتقال ہوتا ہے اس کی ایک بہت عام وجہ یہ ہوتی ہے کہ گاڑی چلانے والا گاڑی چلاتے چلاتے سو جاتا ہے۔
ذہنی علامات کے علاوہ، اگر کسی شخص کی نیند مسلسل خراب رہے تو اس کو بلڈ پریشر بڑھنے کی بیماری، ذیابطیس، کی بیماری اور وزن بہت زیادہ بڑھ جانے کا خطرہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
کن عادتوں کو اپنانے سے آپ کی نیند بہتر ہو سکتی ہے؟
کیا کرنا چاہیے؟
- کوشش کریں کہ آپ کا بستر اور سونے کا کمرہ آرام دہ ہوں۔ جہاں تک ممکن ہو، رات میں کمرے میں بہت زیادہ شور نہ آئے، کمرہ بہت ٹھنڈا نہ ہو اور بہت گرم نہ ہو۔
- باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں، نیند لانے کا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ لیکن رات کو سونے سے فوراً پہلے بہت زیادہ ورزش نہ کریں کیونکہ اس سے نیند کے اڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
- رات کو بستر پہ جانے سے پہلے کچھ وقت رکھیں جس میں آپ اپنے آپ کو ریلیکس کر سکیں، یا جس کو ڈاؤن ٹائم (down time) کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو سونے سے پہلے کوئی کتاب پڑھنے یا سننے سے سکون ہوتا ہے، اور ان کے لیے سونا آسان ہو جاتا ہے۔ آج کل ایسی موبائل ایپس بھی ملتی ہیں جن سے سونے میں مدد ملتی ہے۔
- اگر آپ کسی وجہ سے پریشان ہوں لیکن رات سونے سے پہلے اس کے بارے میں کچھ نہ کر سکتے ہوں، تو اسے ایک نوٹ بک یا ڈائری میں لکھ لیں کہ آپ اگلے دن اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
- اگر آپ کو بستر میں لیٹے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہو اور نیند نہ آ رہی ہوتو مزید بستر میں لیٹے رہنے کے بجائے اٹھ جائیں۔ کوئی ایسا ہلکا پھلکا کام کریں جس سے آپ ریلیکس ہوں، جس سے آپ کو سکون ملے۔ پھر جب نیند آنے لگے تو دوبارہ بستر پہ جائیں۔
کیا نہیں کرنا چاہیے؟
- اپنے سونے جاگنے کا ایک روٹین یعنی نظم الاوقات بنائیں۔ ہفتے کے ساتوں دن اسی وقت پہ سونے کے لیے بستر میں جائیں،اور ساتوں دن اسی وقت پہ صبح بستر سے نکل جائیں، چاہے کسی صبح آپ کو تھکن ہی کیوں نہ محسوس ہو رہی ہو۔
- بغیر سوئے بہت طویل وقت مت گزاریں۔ اس سے دماغ میں نیند کا نظم الاوقات یا سلیپ آرکیٹیکچر (sleep architecture) خراب ہو جاتا ہے۔
- کیفین کو بدن سے خارج ہونے میں چائے یا کافی کی آخری پیالی کے بعد بھی کئی گھنٹے لگتے ہیں۔ اب بہت سے ٹھنڈے مشروبات مثلاً کوکا کولا یا یا انرجی ڈرنکس مثلاً ریڈ بل وغیرہ میں بھی کیفین ہوتی ہے۔کیفین دماغ کو چوکنّا کر دیتی ہے اور نیند کو دور کر دیتی ہے۔ دوپہر چار پانچ بجے کے بعد چائے کافی نہ پیئیں ورنہ اس سے آپ کی رات کی نیند خراب ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی گرم مشروب پینے کو دل چاہے تو گرم دودھ پی لیں۔ رات کے وقت گرم دودھ پینے سے ویسے بھی نیند آنے میں مدد ہو سکتی ہے۔
- زیادہ الکحل نہ پیئیں۔ اس سے اس وقت تو نیند آ جائے کی لیکن اس بات کا بہت زیادہ امکان ہو گا کہ رات میں آپ کی نیند خراب ہو جائے۔
- رات کابھاری کھانا بہت دیر سے نہ کھائیں، بلکہ کوشش کریں کہ اسے سونے کے وقت سے تقریباً تین گھنٹے پہلے تک کھا لیں۔ بھرپور کھانا بہت دیر سے کھانے سے بدہضمی بھی ہوتی ہے اور نیند بھی خراب ہوتی ہے۔
- اگر کسی رات کسی وجہ سے آپ کو خراب نیند بھی آئی ہے تو کوشش کریں کہ اگلے دن دوپہر میں نہ سوئیں، ورنہ آپ کی اگلی رات کی نیند بھی خراب ہو گی۔
- نشہ آور اشیاء مثلاً کوکین، ایمفیٹامینز (amphetamines)، یا ایکسٹسی (ecstasy) کے استعمال سے بھی نیند خراب ہوتی ہے۔
نیند کی خرابیوں کے لیے کس طرح کے علاج موجود ہیں؟
نیند کی خرابیوں کا نفسیاتی طریقہ علاج
کوگنیٹو تھیراپی (Cognitive therapy)
اس طریقہ علاج میں باتوں کے ذریعے انسان کے سوچنے کے طریقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کے سوچنے کا طریقہ غیر صحت مندانہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کی گھبراہٹ برقرار رہتی ہے۔اس گھبراہٹ کی وجہ سے پھر ان کی نیند خراب ہوتی ہے۔ سی بی ٹی کے ذریعے ان کی ان غیر صحت مندانہ سوچوں کو چیلنج کرنے اور بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ ان کی گھبراہٹ کم اور نیند بہتر ہو سکے۔
اپنے عضلات کو ریلیکس کرنا ( progressive muscle relaxation)
اس میں انسان اپنے سانس کی رفتار کو کنٹرول کرتا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ سر سے شروع کر کے پیروں تک، یا پیروں سے شروع کر کے سر تک، اپنے عضلات کو پہلے سخت (contract) کرتا ہے اور پھر ان کو ڈھیلا (relax) چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے مشق کرتے کرتے انسان کا دماغ بھی ریلیکس ہونے لگتا ہے اور نیند آنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کی مشقیں اردو زبان میں انٹرنیٹ پہ اب دستیاب ہیں اور انسان صرف ان کی ہدایات پہ عمل کر کے اپنے آپ کو ریلیکس کرنا سیکھ سکتا ہے۔
نیند کی خرابی کا دوا کے ذریعے علاج
ریسرچ بتاتی ہے کہ نیند کی دوائیں:
- کچھ عرصے کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔
- لینے سے انسان اگلے دن تھکا تھکا اور چڑچڑا رہتا ہے۔
- بہت جلدی اپنا اثر کھو دیتی ہیں اس لیے انسان کو اتنا ہی فائدہ حاصل کرنے کے لیے جو پہلے کم ڈوز پہ ہوا تھا کچھ عرصے بعد ڈوز بڑھانا پڑتا ہے۔
- انسان ان کا عادی بن سکتا ہے۔ انسان جتنا زیادہ عرصے تک نیند کی دوائیں لیتارہتا ہے اتنا ہی اس بات کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے کہ وہ ان دوائیوں کا عادی بن جائے گا اور اسے بند کرنا اس کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا جائے گا۔
اگر کسی کبھی بہت شدید پریشانی یا جسمانی بیماری کی وجہ سے نیند کی دوا لینی بھی پڑےتو اسے ان دوائیوں کو ایک ساتھ دو ہفتے سے زیادہ کے لیے نہیں لینا چاہیے۔
لیکن اگر آپ پہلے ہی سے نیند کی کوئی دوا طویل عرصے سے لے رہے ہوں تو اسے اچانک خود سے بند کرنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنے سے شدید مضر اثرات مثلاً مرگی کے دورے وغیرہ تک ہو سکتے ہیں۔ اسے اپنے ڈاکٹر کے زیرِ نگرانی بہت آہستہ آہستہ بند کریں۔
میلاٹونن (Melatonin)
میلاٹونن ایک قدرتی طور پہ پایا جانے والا ہارمون ہے جو نیند بہتر کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ بہت سارے ملکوں میں اس کے استعمال پہ کچھ پابندیاں ہیں مثلاً یہ کہ برطانیہ میں اس کو صرف ۵۵ سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں تجویز کیا جا سکتا ہے، یا بعض اور جگہ اسے جن بچوں کو آٹزم ہو ان میں تجویز کیا جا سکتا ہے۔ میلاٹونن کو ایک دفعہ میں تین ہفتے سے زیادہ کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو جگر یا گردوں یا بیماری ہو تو اسے میلاٹونن نہیں استعمال کرنا چاہیے۔
میلاٹونن سے یہ مضر اثرات ہو سکتے ہیں:
- دن میں بھی غنودگی محسوس ہونا
- چڑچڑاپن
- چکر آنا
- مائیگرین کا درد
- قبض
- پیٹ میں درد
- وزن بڑھنا
راتوں کو مستقل جاگنے کے اثرات
بعض لوگوں کی ملازمت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں انہیں راتوں کو جاگنا ہوتا ہے، مثلاً ڈاکٹر، نرس، پولیس والے۔ اگر کسی کو ایسا شاذ و نادر کرنا پڑے تو دن میں جاگنے اور رات کو سونے کے معمول پہ واپس آنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کام کی نوعیت ایسی ہو کہ انہیں اکثر ایسا کرنا پڑے تو اس سے ان کی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔
جن لوگوں کو ہر کچھ دنوں یا ہفتوں پہ رات کی ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے ان کے لیے اپنے نیند کے معمول کو واپس لانے کا صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے کہ چاہے رات میں کتنی ہی دیر سے سوئے ہوں اگلے دن میں نہ سوئیں، بلکہ بستر پہ جانے کے لیے اپنے رات کے معمول کے وقت کا انتظار کریں۔ اگلے دن صبح اپنے معمول کے وقت پہ اٹھ جائیں چاہے کتنی ہی نیند آ رہی ہو، اور چاہےاس کے لیے الارم کلاک کی مدد لینی پڑے۔ اگلی رات کو اپنے معمول کے وقت سے پہلے بستر پہ سونے کے لیے نہ جائیں۔ اس سے چند دنوں میں انسان اپنے معمول کے وقت پہ سونے اور جاگنے لگتا ہے۔
کچھ لوگوں کو محدود عرصے کے لیے راتوں کو جاگنا ہوتا ہے جیسے کہ نوزائیدہ بچے کے والدین۔ لیکن کچھ لوگوں کی ملازمت کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کو سالوں تک رات کو جاگنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں میں مندرجہ ذیل علامات پیدا ہو سکتی ہیں:
- چڑچڑا پن
- سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرنا
- دل کے دورے یا اسٹروک کا خطرہ بڑھ جانا
- ذیابطیس ہو جانے کا خطرہ بڑھ جانا
بشکریہ: https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/mental-illnesses-and-mental-health-problems/sleeping-well
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
نیند اور ذہنی صحت کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جن لوگوں کو کبھی کوئی نفسیاتی بیماری نہ ہوئی ہو، انہیں بھی شاید یہ تجربہ کبھی ہوا ہو کہ اگر کسی بھی مثلاً آن کال ڈیوٹیز یا ملازمت کی وجہ سے انسان تین چار دن نہ سو پائے تو اس کا مزاج ناخوشگوار اور چڑچڑا ہونے لگتا ہے، وہ تھکا تھکا سا رہتا ہے، اس کی توجہ خراب ہونے لگتی ہے، اس کی کارکردگی پہ اثر پڑنے لگتا ہے۔ اگر انسان متواتر کچھ عرصے تک نہ سوئے تو اسے ہیلیو سی نیشنز (مثلاً) بھی ہو سکتی ہیں۔
بہت ساری نفسیاتی بیماریوں ،مثلاً ڈپریشن اور مینیا دونوں، میں اگر انسان کچھ دن نہ سو پائے تو ڈپریشن اور مینیا دونوں کا اٹیک دوبارہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بہت ساری نفسیاتی بیماریوں میں نیند کا خراب ہو جانا بیماری واپس آنے کی پہلی علامتوں میں سے ایک علامت ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ نیند اور انسان کی ذہنی صحت کا گہرا تعلّق ہے۔
عام طور سے زیادہ تر جوان لوگوں کو ۷ سے ۹ گھنٹے کی نیند روزانہ چاہیے ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس سے کم سو کر بھی فریش رہتے ہیں اور اپنا روز مرّہ کا کام کر پاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ جو لوگ سات گھنٹے سے کم روزانہ سوتے ہیں ان کو ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بیماریاں ہو سکتی ہیں جو کم از کم سات گھنٹے سوتے ہیں۔
بچوں اور نوجوانوں کو نسبتاً زیادہ نیند چاہیے ہوتی ہے، مثلاً ۱۳ سے ۱۸ سال عمر کے نوجوان لوگوں کو آٹھ سے دس گھنٹے روزانہ نیند چاہیے ہوتی ہے، جبکہ ۹ سے ۱۲ سال کے بچوں کو ۹ سے ۱۲ گھنٹے روزانہ نیند چاہئے ہو تی ہے۔
۶۵ سال سے زیادہ عمر والے لوگوں کو ۷ سے۹ گھنٹے روزانہ نیند چاہیے ہوتی ہے، لیکن اس سے فرق پڑتا ہے کہ ان کی عمومی صحت کیسی ہے، اور ان کی نیند کی کوالٹی کیسی ہے، مطلب یہ کہ ان کی نیند کتنی گہری ہوتی ہے۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس کو اس طرح سے سمجھیں کہ دماغ میں ایک سینٹر یا مرکز ہوتا ہے جو ایک ہارمون کے ذریعے پورے دماغ کو بتاتا ہے کہ اب سونے کا وقت ہے، اب اٹھنے کا وقت ہے۔ وہ ایک طرح کا کلاک یا گھڑیال ہے جس کو ہم خود اپنی عادتوں سے سیٹ کرتے ہیں۔ اس کو سیٹ کرنے میں یہ عادتیں مدد دیتی ہیں۔
- اپنے سونے اور اٹھنے کا وقت سیٹ کریں، مثلاً یہ طے کریں کہ میں روز دس بجے رات کو سوؤں گا اور صبح چھ یا سات بجے اٹھوں گا۔ اب اس روٹین کی روزانہ، ہفتے کے ساتوں دن، پابندی کریں۔ کچھ ہفتے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ جب سونے کا وقت قریب آئے گا تو آپ کو خودبخود نیند آنا شروع ہو جائے گی، اور جاگنے کا وقت قریب آئے گا تو خودبخود آنکھ کھلنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ روزانہ اس معمول کی پابندی کریں۔ آج کل یہ بہت فیشن ہو گیا ہے کہ ویک اینڈ یعنی ہفتہ وار چھٹی کے دنوں میں لوگ معمول سے بہت زیادہ دیر سے سوتے ہیں۔ جب وہ مثلاً جمعہ اور ہفتہ کو ایسا کرتے ہیں (جن ملکوں میں کام کا ہفتہ پیر سے شروع ہوتا ہے) تو اکثر ان کا تجربہ ہوتا ہے کہ اتوار کی رات جب وہ جلدی سونے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں نیند نہیں آتی اور وہ پیر کی صبح تھکے ہوئے اٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دماغ میں جو الارم کلاک ہے وہ ان دو راتوں کو دیر سے سونے کی وجہ سے کنفیوز ہو جاتا ہے کہ شاید اب سونے کا نیا وقت یہی ہے، اس لئے اسے دوبارہ سے سیٹ کرنے میں دو تین دن لگتے ہیں اور انسان جلدی سو نہیں پاتا۔
- دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے کسی ایک خاص وقت پہ اٹھ تو سکتا ہے، اپنے اختیار سے کسی ایک خاص وقت پہ سو نہیں سکتا۔ لیکن سونے کا وقت ہمیشہ اٹھنے کے وقت کے تابع ہوتا ہے، اس کو فالو کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو دیر سے سونے کی عادت ہو، وہ اچانک ایک دن چاہے کہ میں آج جلدی سو جاؤں یا آج سے جلدی سونا شروع کر دوں تو وہ نہیں سو سکے گا، اور اسے نیند اپنے معمول کے وقت کے مطابق ہی آئے گی۔ لیکن اگر وہ یہ ہمّت کرے کہ آج سے میں جلدی اس وقت پر اٹھ جایا کروں گا چاہے اس کے لئے الارم لگائے یا کسی دوسرے کی مدد لے، اور پھر روز اس کی پابندی کرے اور دن میں نہ سوئے جب تک رات کا وہ وقت نہ آئے جب وہ سونا چاہتا ہے، تو فوراً تو نہیں لیکن کچھ ہفتے میں وہ دیکھے گا کہ اسے نیند جلد آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ اس لئے کہ دماغ میں اٹھنے اور جاگنے کا مرکز اس تجربے سے "سیکھ" لیتا ہے کہ اب سے سونے اور جاگنے کا نیا وقت یہ ہے۔
- دن میں سونا چھوڑ دیں۔ جن لوگوں کو رات کی نیند کا مسئلہ ہوتا ہے، انہیں ہم پہلی ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ دیتے ہیں کہ دن میں چاہے کتنی ہی تھکن ہو، لیکن دن میں بستر پہ نہ جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کی نیند بہت گہری ہوتی ہے، اور انسان چاہے کتنا بھی سوچے کہ میں صرف لیٹ کے آرام کروں گا، سوؤں گا نہیں، لیکن پھر بھی اسے تھوڑی تھوڑی دیر کی نیند آنے لگتی ہے۔ اس سے اگلی رات کی نیند خراب ہوتی ہے۔ دن میں تھکن کو برداشت کریں اور رات میں ہی بستر پہ جائیں۔ اس سے آپ یہ دیکھیں گے کہ کچھ ہفتے میں رات کی نیند بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔ البتّہ بعض خصوصاً گرم ممالک میں لوگوں کو دوپہر کو قیلولہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر اس سے ان کی رات کی نیند خراب نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
آج کا سبق: ہفتے کے ساتوں دن ایک ہی وقت پہ سونے کے لئے جائیں، اور ایک ہی وقت اٹھیں۔ اور ایسا ہمیشہ کریں۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جن لوگوں کو ہر رات سونے سے پہلے ایک مخصوص روٹین کی پابندی کرنے کی عادت ہوتی ہے ، ان کے لئے سونا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس روٹین میں عام طور سے ان باتوں کے شامل ہونے سے فائدہ ہوتا ہے۔
- جو بھی آپ کی بستر پہ جانے سے پہلے کی روٹین ہو، اس کی پابندی کرنے سے فائدہ ہوتا ہے، مثلاً سونے کے کپڑے پہننا، دانت برش کرنا وغیرہ، کیونکہ اس سے دماغ کو یہ سگنل ملتا ہے کہ اب سونے کا وقت ہے۔
- بستر پہ جانے سے تقریباً ایک دو گھنٹہ پہلے تیز روشنیاں گل کر دیں اور ہلکی روشنی جلائیں۔ تیز روشنی دماغ میں ایک کیمیکل میلاٹونن کو بننے سے روکتی ہے جو ہمیں سونے میں مدد دیتا ہے۔
- سونے سے تقریباً آدھا ایک گھنٹہ پہلے تمام اسکرینز کا استعمال چھوڑ دیں مثلاً موبائل فون، ٹی وی، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ۔ ان تمام چیزوں کی اسکرین سے جو روشنی نکلتی ہے خصوصاً اس میں جو نیلے رنگ کی روشنی ہوتی ہے، وہ دماغ کو یہ سگنل دیتی ہے کہ ابھی تک سونے کا وقت نہیں ہوا۔
- سونے کے وقت سے آدھے گھنٹہ پہلے سے کچھ ایسے کام کریں جن سے عام طور سے آپ کو پرسکون ہونے میں اور آپ کا اسٹریس لیول کم ہونے میں مدد ملتی ہے، مثلاً کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھنا، ریلکسیشن ایکسرسائزز کرنا جو اب با آسانی انٹر نیٹ پہ مفت دستیاب ہیں۔
- بستر میں جانے سے فوراً پہلے ایسے کام کرنے سے گریز کریں جن سے آپ کو دماغ اور زیادہ الرٹ اور چاق و چوبند ہو جائے، مثلاً دفتر کے ایسے کام کرنا جن سے بہت اسٹریس ہو اور جن کے لئے بہت زیادہ توجّہ چاہیے ہو۔ ایسے کام کرنے کے بعد دماغ کو وائنڈ ڈاؤن (wind down) کرنے یا سوئچ آف (switch off) ہونے میں کافی وقت لگتاہے اور اس میں سونا مشکل ہوتا ہے۔
بستر صرف سونے کے لئے ہونا چاہیے۔اگر بستر پہ جانے کے بعد لیٹے ہوئے آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے اور نیند نہیں آ رہی تو بستر میں نہ لیٹے رہیں۔ بستر سے نکل جائیں، کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھیں، کوئی ایسا کام کریں جس سے آپ کو ریلیکسیشن ہوتی ہو، ٹینشن کم ہوتی ہو۔ پھر جب دوبارہ نیند آنے لگے تو بستر میں جائیں۔ بستر میں لیٹے لیٹے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دماغ الرٹ ہو جائے مثلاً موبائل استعمال کرنا شروع کر دینا۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- دن میں سورج کی روشنی کا سامنا کریں:
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا، دماغ میں ایک سینٹر یا مرکز ہوتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ یہ رات ہے اور اب سونے کا وقت ہے، یہ دن ہے اور اب جاگنے کا وقت ہے۔ سورج کی روشنی، خاص طور سے صبح اور دن کے ابتدائی حصے میں سورج کی روشنی کا ایکسپوژر، اس سینٹر کو یہ جاننے میں مدد دیتا ہے کہ دن کا یعنی جاگنے کا، اور رات کا یا سونے کا، وقت کون سا ہے۔ اس لئے صبح میں سورج کی بھرپور روشنی کا زیادہ سے زیادہ ایکسپوژر حاصل کرنے یعنی سامنا کرنے سے رات کو سونے میں مدد ملتی ہے۔
- باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں:
جن لوگوں کو باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ہوتی ہے، ان کی نیند مجموعی طور سے ان لوگوں سے بہتر ہوتی ہے جو کوئی جسمانی ورزش نہیں کرتے۔ اور اس مقصد کے لئے روزانہ جمنیزیم جانا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان اگر ہفتے میں چار پانچ دن بھی آدھا گھنٹہ قدرے تیز رفتار سے واک کرنے یعنی چہل قدمی کی عادت ڈال لے جس سے تھوڑا پسینہ آئے اور تھوڑا سانس پھولے، تو اس سے صحت سے متعلق بے شمار اور فائدے حاصل ہونے کے علاوہ نیند بھی بہتر ہوتی ہے۔
- اسموکنگ یا سگریٹ نوشی:
سگریٹ نوشی سے انسانی جسم کو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں جس میں گلا، پھیپڑے اور کئی اور کینسر شامل ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ سگریٹ میں جو کیمیکل نکوٹین ہوتا ہےاس سے دماغ اسٹیمیولیٹ ہوتا ہے یعنی زیادہ چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے نیند خراب ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو نیند کا مسئلہ ہو ان کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ شام تقریباً چار بجے کے بعد سے سگریٹ پینا بند کر دیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے دماغ کو سگریٹ پینے سے سکون ملتا ہے اور نیند اچھی آتی ہے۔ ان کی بات تو اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی اور نشے کی چیز کی طرح دماغ سگریٹ کا بھی عادی ہو جاتا ہے، اور سگریٹ پئے ہوئے زیادہ دیر ہو جائے تو نشہ ٹوٹنے لگتا ہے یعنی ودڈرال (withdrawal) ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری تکلیف دہ علامات ہوتی ہیں جن میں سے ایک نیند آنے میں مشکل ہونا ہے۔ جب انسان سگریٹ پی لیتا ہے تو وقتی طور پہ یہ ودڈرال ختم ہو جاتا ہے اور اسے سکون مل جاتا ہے، لیکن کچھ گھنٹے بعد یہ سائیکل دوبارہ دہرایا جاتا ہے، اور لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ وقتی سکون کے لئے طویل عرصے کے اوپر اپنی بیماری کو اور زیادہ بڑھا رہے ہیں ۔
- چائے کافی:
میں بھی ایک اسٹیمیولنٹ کیفین ہوتا ہے اس لئے جن لوگوں کو نیند کا مسئلہ ہو ان کو شام ہو جانے کے بعد چائے کافی نہیں پینی چاہیے۔
- رات کا کھانا:
رات کا فل کھانا بستر پہ جانے سے تقریباً تین گھنٹے پہلے کھانے کی عادت ڈا لیں، خاص طور سے اگر اس میں تیل ہو یا مرچیں ہوں۔ ورنہ اگر آپ اس طرح کا کھانا کھا کے فوراً بستر پہ سونے کے لئے جائیں گے تو کھانا ہضم نہیں ہوا ہو گا۔ اس کی وجہ سے آپ کو ہاضمے کی شکایت مثلاً جلن وغیرہ بھی ہو گی اور نیند بھی خراب ہو گی۔ رات دیر سے کچھ کھانا ہی ہو تو ہلکا پھلکا اسنیک کھا لیں، پورا کھانا مت کھائیں۔
- الکحل:
الکحل پہ بھی انہی ساری باتوں کا اطلاق ہوتا ہے جو میں نے سگریٹ نوشی کے بارے میں کہی تھیں۔ الکحل پینے سے نیند آتی ہے، لیکن جن لوگوں کو الکحل پینے کی عادت پڑ جائے انہیں رات میں ودڈرال (withdrawal) شروع ہو سکتا ہے اور اس سے ان کی نیند خراب ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک میں بھی جہاں الکحل پینا عام ہے، وہاں بھی اچھی نیند کے لئے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنی الکحل پینے کی مقدار کو کم کریں، روزانہ ہر گز نہ پیئیں ورنہ دماغ عادی ہو جائے گا اور بعد میں نیند سمیت بہت مسائل ہوں گے، اور شام ہونے کے بعد الکحل ہرگز نہ پیئیں۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ہر انسان کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسے کسی بات کسی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ اسے انسومنیا یا نیند کی کمی کی بیماری نہیں کہتے۔ نیند کی خرابی کو بیماری اس وقت سمجھا جا تا ہے جب انسان کو ہر ہفتے کم از کم تین راتوں کو نیند کی خرابی کا سامنا ہو اور ایسا ایک مہینے تک چلتا رہے۔ اگر نیند اتنی زیادہ خراب رہے تو پھر اس کا اثر انسان کی دن کی کارکردگی پہ بھی پڑنے لگتا ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
Everyone can have disturbed sleep off an on. That is completely normal. Clinically, it is considered insomnia when a person has disturbed sleep for about 3 days per week for at least a month despite having adequate opportunity and circumstances of sleep. This level of insomnia can lead to daytime impairment, excessive distress and impairment of social and occupational functioning.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ نیند کی کمی یا خرابی اگر کچھ عرصے تک برقرار رہے تو اس کے ذہن اور جسم پر کیا اثرات ہوتے ہیں مثلاً تھکن، یادداشت اور توجہ کا خراب ہو جانا، مزاج چڑچڑا ہو جانا، کام پہ یا سوشل تعلقات پہ اثر پڑنا، کسی کام کا شوق کم ہو جانا، حادثات ہونے کا خطرہ بڑھ جانا وغیرہ۔
In this video the mental behavioural effects of longterm sleep disturbance have been described, for example, daytime sleepiness and tiredness, irritability, impairment of attention, concentration and memory, impaired functioning, reduced motivation, and increased risk of accidents.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں ان بعض عام دوائیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کے لینے سے نیند خراب ہو سکتی ہے مثلاً بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات، کینسر کی دوائیاں، دل اور بلڈ پریشر کے امراض کی دوائیاں، اسٹیرائڈز، اور کیفین اور نکوٹین وغیرہ۔
In this video it has been described that certain medication such as antidepressants, medications for cardiovascular diseases, steroids, and stimulants including caffeine and nicotine can also cause sleep disturbance.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی نیند کو خود کسیے بہتر کر سکتے ہیں مثلاً سونے کے کمرے کے ماحول کو کنٹرول کر کے، سونے کی اچھی عادات اپنا کے، اور ریلیکسیشن ٹریننگ کے ذریعے۔
In this video principles of sleep hygiene have been described such as establishing good sleeping habits, stimulus control, relaxation training and sleep restriction, etc
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں ان دوائیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کم عرصے، مثلاً تین سے چار ہفتے تک، نیند کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں مثلاً سکون آور ادویات (بینزوڈایازیپین)، "زی" ادویات جیسے کہ زوپیکلون، اور نیند لانے والی اینٹی سائیکوٹک، اینٹی ڈپریسنٹ، اور اینٹی ہسٹامین ادویات، وغیرہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیند کی کمی کا بہترین علاج اپنی نیند کی عادات اور لائف اسٹائل کو بدلنا ہے۔ دوائیں صرف ایک وقتی حل ہیں۔ خاص طور سے اگر کوئی بھی شخص کسی بینزو ڈایا زیپین یا "زی" ڈرگ کو چار ہفتے سے زیادہ روزانہ لے تو وہ اس کا عادی بن سکتا ہے۔
In this video some of those medications have been described which can be used for short-term treatment of insomnia, for example, the 'Z' drugs, benzodiazepines, and sedating antipsychotics, antidepressants and antihistamines. It must be remembered that the ideal treatment of sleep difficulties is through sleep hygiene and changing one's lifestyle. Medications are only a temporary solution. In particular, if anyone takes a benzodiazepines or a 'Z' drug daily for more than 3 or 4 weeks they run the risk of getting addicted to it.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی نیند کو بہتر کرنے کے لئے، بغیر دواؤں کا سہارا لیے، خود کیا کر سکتے ہیں
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
نیند انسان کے جسم و دماغ کا ایک نارمل فنکشن ہے، کسی بھی صحتمند انسان کو سونے کے لئے طویل عرصے تک دوا کی ضرورت ہونی نہیں چاہیے! دوسرے یہ کہ ہفتے میں ایک آدھ رات صحیح نہ سو پانا بہت ہی عام سی بات ہے جس کے لئے علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نیند کی وہ دوائیاں جن سے جسمانیعادت (physical dependence) پڑ سکتی ہے
شارٹ ایکٹنگ (یعنی جو بدن سے جلدی خارج ہو جاتی ہیں) بینزوڈایازیپین دوائیاں مثلاً ٹیمازیپام یا لورازیپام وغیرہ، اور زی ڈرگس جن میں زوپی کلون، زولپیڈیم وغیر شامل ہیں، اکثر ان لوگوں کو تجویز کی جاتی ہیں جو ڈاکٹر کے پاس نیند کی خرابی کی شکایت لے کر آتے ہیں۔ لیکن ان دوائیوں کے استعمال میں کچھ باتوں کی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ یہ انسان کے دماغ میں اس طرح کی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں کہ اگر کوئی انسان ان کو تین سے چار ہفتے سے زیادہ "روزانہ" لے تو وہ ان کا ذہنی اور جسمانی طور پہ عادی بن سکتا ہے۔ پھر وہ ان کو چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ودڈرال یعنی دوا بند کرنے کی علامات شروع ہو سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ تین مہینے کے روزانہ استعمال کے بعد گھبراہٹ کی کمی اور نیند کی بہتری میں ان دوائیوں اور پلے سیبو (ملتی جلتی گولی جس میں کوئی دوا نہ ہو) کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
اس لئے یہ دوائیں دو تین ہفتے کے لئے لی جائیں تو ٹھیک ہے، لیکن چار ہفتوں سے زیادہ ان کے روزانہ استعمال سے بہت سے خطرات ہو سکتے ہیں۔ ہم مریض کو اس طرح سے سمجھاتے ہیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم ہمارے پاس ایک بیماری مثلاً گھبراہٹ یا نیند کی کمی لے کر آؤ، اور دو بیماریاں (دوسری ان دواؤں کی عادت پڑ جانا) لے کر جاؤ۔
البتّہ بعض دفعہ ہم یہ کرتے ہیں کہ جس مریض کو نیند کا بہت ہی مسئلہ ہو اور لگے کہ اسے دوسرے طریقوں سے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، اسے ان میں سے کوئی دوا ہفتے میں تین سے چار دن کے لئے دے دیتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں اس کی بہت سختی ہوتی ہے کہ فارمیسی اتنی ہی دوائی دے گی جتنی نسخے پہ لکھی ہے، اس لئے ہم نسخے پہ لکھ دیتے ہیں کہ اس دوا کی ہر ہفتے مثلاًصرف تین گولیاں دی جائیں۔ اس ے عادت پڑنے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ ہم ہریض کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ اسے ایک رات نیند خراب بھی آئے تو کم از کم اسے امید ہو گی کہ اگلی رات اسے اچھی نیند آئے گی، اور اس طرح سے اسے ان دوائیوں کی جسمانی عادت پڑنے کا خطرہ بہت کم ہو جائے گا۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
نیند کی وہ دوائیاں جن سے جسمانی عادت (physical dependence) نہیں پڑتی
الرجی کی بعض پرانی دوائیں مثلاً فینرگن (Phenergan) وغیرہ بہت دفعہ نیند کی خرابی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے جسمانی عادت پڑنے (physical dependence) کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لئے مریض یہ دوائیں نسبتاً طویل عرصے کے لئے لے بھی سکتا ہے، اور جب ان کی ضرورت نہ رہے تو آسانی سے بند بھی کر سکتا ہے۔ ان سے ودڈرال (withdrawal) یعنی بند کرنے کی علامات کا خطرہ نہیں ہوتا۔اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس کو بدن سے مکمل طور پہ خارج ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اس لئے اس سے دن میں بھی غنودگی کی سی کیفیت رہ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ نیند کی تمام دوائیاں نیند کے آرٹیکچر پر اثر ڈالتی ہیں اس لئے جو شخص طویل عرصے تک نیند کی کوئی بھی دوا استعمال کرے، جب وہ اسے بند کرے گا تو بیشک اس سے جسمانی عادت نہ بھی پڑے تو پھر بھی اسے دوبارہ سے دوا کے بغیر صحیح سے سونا شروع کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
بعض ایسی اینٹی سائیکوٹک دوائیں مثلاً کوٹائپین (quetiapine) یا اولینزاپین (olanzapine)، اور اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں مثلاً مرٹازاپین (mirtazapine) ہیں جن کا سائیڈ ایفیکٹ یعنی مضر اثر ہے کہ ان سے بہت نیند آتی ہے۔ بعض دفعہ ان دوائیوں کو اسی غنودگی کے سائیڈ ایفیکٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، کم مقدار یعنی ڈوز میں ان لوگوں کو جنہیں سائیکوسس یا ڈپریشن نہ بھی ہو، تجویز کیا جاتا ہے جنہیں نیند کا مسئلہ ہو۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ ان دوائیوں سے جسمانی عادت نہیں پڑتی۔ مختصر مدّت کے لئے ایسا کرنا تو کچھ حد تک ٹھیک ہے، لیکن اول تو یہ دوائیاں اس مقصد کے لئے لائسنسڈ نہیں ہیں یعنی قانونی طور سے اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتیں۔ دوسرے یہ کہ ان کے اور بھی شدید مضر اثرات ہوتے ہیں، مثلاً وزن، خون میں شوگر، خون میں کولیسٹرول کا بڑھنا جن کا خطرہ ان کو طویل عرصے تک لینے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوٹائیپین تو خون میں کم دیر کے لئے رہتی ہے اس لئے اس سے دن میں غنودگی ہونے کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے، جبکہ اولینزاپین اور مرٹازاپین خون میں کافی تک رہتی ہیں اس لئے ان سے دن میں غنودگی ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا، ایک صحتمند شخص کو نیند کے لئے دوائیں لینے کی ضرورت ہونی نہیں چاہیے، اور اگر کسی وجہ سے نیند خراب ہو تو بغیر دوا کے اپنے نیند کو بہتر کرنے کے جو طریقے پہلے بتائے گئے تھے ان کو استعمال کرنا چاہیے۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- انسومنیا کی ایک خاص طرح کی کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی) ہوتی ہے جس سے اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے جتنا کہ دوائیوں سے ہوتا ہے، لیکن اس کا مزید فائدہ یہ ہے کہ اس کا فائدہ ایک عرصے تک برقرار رہتا ہے جبکہ نیند کی دوائیوں کا فائدہ کچھ ہفتوں کے بعد ختم ہونے لگتا ہے۔
- سونے اور جاگنے کا وقت مقرّر ہو نا چاہیے اور انسان کو ہفتے کے ساتوں دن ایک ہی وقت پہ سونے اور جاگنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
- دن میں اور خصوصاً صبح کے وقت میں اپنے آپ کو سورج کی روشنی سے ایکسپوژ کریں یعنی سورج کی روشنی میں کچھ وقت گزاریں۔
- سونے کے وقت سے کچھ گھنٹے پہلے گھر کی بتیاں مدھم کر دیں، اور تقریباً ایک گھنٹہ پہلے سے تمام اسکرینز مثلاً ٹی وی، موبائل، اور کمپیوٹر کا استعمال بند کر دیں کیونکہ ان کی روشنی بھی دماغ کو یہ غلط سگنل دیتی ہے کہ ابھی سونے کا وقت نہیں ہوا۔
- باقاعدگی سے روزانہ کچھ نہ کچھ ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔ ہفتے میں پانچ دن آدھا گھنٹہ واک یعنی تیز رفتار سے چہل قدمی کرنا بھی صحت اور نیند کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
- سونے سے پہلے اپنے آپ کو ریلیکس کرنے یعنی پرسکون کرنے کی ایک روٹین بنائیں، مثلاً کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھیں، یا ریلیسیشن ایکسرسائزز کریں۔ آج کل موبائل پہ ایسی ایپس مل جاتی ہیں جو ریلیکسیشن کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ پہ بھی فری ریلیکسیشن ایکسرسائزز کی آڈیوز اور وڈیوز بھی مل جاتی ہیں۔
- چاہے رات میں نیند کتنی خراب رہی ہو، دن میں نہ سونے کی کوشش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کی نیند گہری ہوتی ہے اور اگر انسان کئی گھنٹے سو لے گا تو اس ے اگلی رات کی نیند بھی خراب ہو گی۔
- دوپہر کے بعد سے کافی نہ پیئیں اور سگریٹ نوشی نہ کریں۔
(دی ماڈسلی ڈی پریسکرائبنگ گائیڈلائنز، ۲۰۲۴)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Cognitive-Behaviour Therapy for Insomnia; as effective as medicines, benefits last longer
- Stable sleep-wake schedule; try to sleep and wake up exactly at the same time seven days a week
- Exposure to sunlight in the morning; this helps set the sleep-wake cycle in the brain
- Light restriction at night; dim the lights at home a few hours before your usual sleeping time, stop using all screens including mobile phones, computers, TV, at least an hour before your sleeping time
- Exercise; regular physical exercise is one of the best sleeping aids
- Relaxation routine; relaxation exercises as well as calming apps, white noise aps freely available
- Limit daytime naps; if you have not slept the night before, try not to catch up on it next day and try to keep yourself awake till your usual sleep time at night. Otherwise when the night you may not be tired enough to sleep, and may end up in a vicious of not sleeping well at night, and catching up on your sleep during the day.
- Limit caffeine and smoking in the afternoon; both are stimulants and activate the brain, making it difficult to fall asleep at night if used later in the day
(Credit: The Maudsley Deprescribing Guidelines 2024)