(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
بعض دفعہ انسان کو ایسی بڑی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے جس سے اس کو اتنی شدید گھبراہٹ اور پریشانی ہو جاتی ہے کہ اس کے اعصاب بالکل ماؤف ہو جاتے ہیں، اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اور اس کا ذہن اس قابل بھی نہیں رہتا کہ وہ سوچ سکے کہ اس پریشانی کا مقابلہ کیسے کرنا ہے یا اس سے باہر کیسے نکلنا ہے۔ انسان کی جو کوپنگ اسٹریٹیجیز ہوتی ہیں یا پریشانی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملیاں ہوتی ہیں، وہ اسے اس میں مدد دیتی ہیں کہ اس مصیبت کی وجہ سے اس کے دل و دماغ پہ جو شدید اثر ہو رہا ہے اسے کم کیا جا سکے، اور اس کی پریشانی اور گھبراہٹ اس حد تک تو کم ہو جائے کہ وہ اس پریشانی کا مقابلہ کر سکے، یا اس کو دور کرنے کے طریقے سوچ سکے اور ان پر عمل کر سکے۔
کوپنگ اسٹریٹیجیز ایک انسان کے اپنے اسٹریس کو کم کرنے، اور اپنی اندرونی پریشانی اور گھبراہٹ کو کم کرنے کی ان حکمت عملیوں کو کہا جاتا ہے جو انسان خود اپنے اختیار سے عمل میں لاتا ہے، اور جن سے وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ڈیفنس میکینزم (Defence mechanisms) پریشانی اور گھبراہٹ کو کم کرنے کے ان طریقوں کو کہا جاتا ہے جن کو انسان کا ذہن اس کے علم میں آئے بغیر اور اس کے اختیار کے بغیر انجام دیتا ہے، اور انسان اس سے آگاہ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی تفصیل بعد کی تحریروں میں آئے گی۔
کوپنگ اسٹریٹیجیز یا پریشانی کوکم کرنے کی حکمت عملیوں کو ایک مثال سے سمجھانا زیادہ آسان ہو گا۔ فرض کریں کہ ایک انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اسے کینسر ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اتنی بڑی بیماری ہے جو کسی بھی انسان کو شدید پریشانی اور گھبراہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے، صرف اس ایک تشخیص سے ہی اس کی پوری زندگی تبدیل ہو سکتی ہے۔ وہ انسان اس نئی پریشانی کا مقابلہ کرنے کے لئے ان مندرجہ ذیل حکمت عملیوں کو استعمال کر سکتا ہے جن میں سے بعض فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں اور بعض نہیں۔
کوپنگ اسٹریٹیجیز کی دو بنیادی قسمیں ہیں، پرابلم سولونگ (problem solving) اسٹریٹیجیز جو اس مسئلے کے حل کے عملی اقدامات میں مدد دیتی ہیں، اور ایموشن ریڈیوسنگ اسٹریٹیجیز (emotion reducing strategies) جو انسان کو اس مسئلے کے پیش آنے کی وجہ سےاس کے پریشانی اور گھبراہٹ کے جو جذبات شدید حد تک بڑھ جاتے ہیں، ان کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
پرابلم سولونگ یا مسئلہ حل کرنے والی اسٹریٹیجیز یا حکمت عملیاں
- مسئلے کے بارے میں مستند معلومات یا مشورہ حاصل کریں:
اگر ہم اوپر لکھی کینسر کی مثال کو ہی استعمال کریں، تو بہت سے لوگوں کو جب کینسر کی پہلی دفعہ تشخیص ہوتی ہے تو وہ بالکل مایوس ہو جاتے ہیں کہ بس اب تو ان کے مرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہیں خیال نہیں رہتا یا علم نہیں ہوتا کہ کینسر کی بعض قسمیں ایسی ہیں جن کا علاج ہو سکتا ہے، اور بہت سے کینسر ایسے ہیں جن کا بالکل ہی شروع کے اسٹیج میں پتہ چل جائے تو ان کا مکمّل علاج ہو سکتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی پریشانی ہو، اس کے حل کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرے۔ لیکن یہ لازمی ہے کہ وہ یہ معلومات مستند ذرائع سے حاصل کرے، اور مشورہ کرے تو ایسے لوگوں سے کرے جنہیں اس بارے میں مستند معلومات حاصل ہوں۔
- مسئلے کا حل تلاش کرنا:
اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب انسان مستند معلومات حاصل کر چکا ہوتو پھر ایک فہرست بنائے کہ اس مسئلے کے کون کون سے حل ممکن ہیں، مثلاً کینسر کی مثال میں سرجری ہے، کیمو تھراپی پے، یا ریڈیو تھراپی ہے۔ پھر ایک ٹیبل بنائے اور ایک طرف ہر ممکنہ حل کے فوائد لکھے اور دوسرے طرف نقصانات یا خطرات لکھے۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ حلوں کا موازنہ کرنے کی کوشش نہ کرے، اور بڑے مسائل کے عام طور سے ایک وقت میں تین سے زیادہ مستند حل ہوتے بھی نہیں ہیں۔ پھر ان تینوں حلوں کے فوائد اور نقصانات کا موازنہ کوتے ہوئے فیصلہ کرے کہ سب سے بہتر، یا کم از کم سب سے کم نقصان دہ، حل کون سا ہے۔ اگر خود سمجھ میں نہ آئے تو کسی ایسے انسان کی مدد لے جس کا علم بھی اس بارے میں معتبر ہو اور اس کی رائے بھی۔ جب ایک حل کو منتخب کر لے تو پھر اس پہ عمل شروع کر دے۔ ساتھ میں ایک وقت بھی متعّین کر لے کہ ایک مہینے بعد یا تین مہینے بعد دوبارہ غور کروں گا کہ فائدہ ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اگر فائدہ نہ لگے تو دوبارہ یہی ایکسر سائز کرے۔
- پریشانی کا سامنا کرنا:
بعض لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بڑی پریشانی آتی ہے تو وہ بالکل ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے بیشتر پریشانیاں چلی نہیں جاتیں، بلکہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو سمجھائے کہ روتے رہنے یا یہ شکایت کرتے رہنے سے کہ مجھے یہ پریشانی کیوں آ گئی، پریشانی حل نہیں ہو گی۔ ہر انسان کے حصّے میں جو پریشانیاں لکھی ہوتی ہیں، ان کا سامنا تو اسے کرنا ہی پڑتا ہے، چاہے ہمّت اور مستقل مزاجی سے، چاہے روتے دھوتے۔ بلکہ جتنا جلدی انسان اس پریشانی کا سامنا کرنا شروع کر دے، عام طور سے اتنا ہی جلد پریشانی کے حل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
جذبات کی شدّت کو کم کرنے والی اسٹریٹیجیز کا بیان اگلی تحریر میں آئے گا۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
When we come across a situation which is extremely stressful for us, it may overwhelm us to the extent that we are unable to think clearly, and we are not even able to think about how to get out of or deal with that situation. Coping strategies are a person’s way of reducing the impact of a stressful event upon themselves and reducing it to manageable levels, so that the emotions arising from that event do not overwhelm them, and they can continue to function as normally as possible under the circumstances.
Coping Strategies are the activities which a person performs consciously to reduce their stress, and reduce the emotional impact of that stress upon them, and is aware of.
Responses of which a person is unaware, and which he performs unconsciously, are called Defence Mechanisms.
It would be easier to explain coping strategies by using some real-life examples. Suppose a person has just been told that he has got cancer. It clearly would be a highly stressful and potentially life-changing event for anyone. He can now employ the following strategies some of which will be helpful, and some not so helpful, in dealing with this news.
There are two types of coping strategies: problem-solving strategies, and emotion-reducing strategies.
PROBLEM SOLVING STRATEGIES
- Obtaining information or advice:
The first thing this person ought to do is to get as much information as possible, about his illness and its treatment. Which would be the best doctor/hospital for receiving treatment for this illness? What treatment options are available? What if I don’t receive any treatment?
- Solving problems:
We tell our patients that when they have to deal with a stressful situation, it is often helpful to make a list of maybe up to three valid solutions to that problem. Then make a table of pros and cons of each option. It helps people reflect on the relative advantages and disadvantages of each option. Then when you have considered the benefits and risks of each option, make a decision, and implement it. Set a timeframe after which you will re-evaluate whether it is working or not. If it is working, continue with it. if it is not working, do the whole exercise again and decide which option seems better now.
- Confrontation:
This strategy is more useful in certain social situations such as bullying or harassment for example at work. You have to decide whether to stand up for your rights and force them to re-think and possibly change their behaviour.
It may also be applied to the cancer example we used above. We often have to decide that we have to play the hand that life has dealt us. Just by ignoring it or avoiding it, the cancer is not going to go away. So, the person accept the situation for what it is, and start preparing to confront his cancer head on.
- The details of emotion-reducing strategies will be described in the next write-up.
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جب بھی انسان کی زندگی میں بہت شدید پریشانی آتی ہے تو اس کے دل و دماغ میں بہت شدید جذبات ابھرتے ہیں۔
اگر انسان کو کسی قسم کا خطرہ ہو یا کسی بات کا شدید ڈر خوف ہو کہ کہیں ایسا یا ویسا نہ ہوجائے تویہ جذبات عام طور سے گھبراہٹ اور پریشانی کے ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی قیمتی اور عزیز چیز اس سے چلی گئی ہویا کھو گئی ہو، مثلاً کسی بہت قریبی عزیز کا انتقال ہو جانا، تو شدید اداسی بھی ہو سکتی ہے۔
بعض دفعہ یہ جذبات اتنے شدید ہو جاتے ہیں کہ انسان کی فیصلہ کرنے کی اور کوئی کام صحیح طریقے سے کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس بات کے لئے کہ انسان کے لئے اس وقت جو کام کرنے ضروری ہوں وہ ان کو کرنے کے قابل رہے، جذبات کی اس شدّت کو اس حد تک کم کرنا ضروری ہوتا ہے کہ انسان کی قوّتِ عملی اور قوّتِ فیصلہ بحال ہو جائے۔ جو کوپنگ اسٹریٹیجیز جذبات کی اس شدّت کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں وہ یہ ہیں؛
- اپنے جذبات کا کسی سے سامنے اظہار کرنا:
بہت سے لوگ، خاص طور سے ہمارے معاشرے میں مرد، یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دوسرے کے سامنے پریشانی کا اظہار کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ یہ خیال غلط ہے اور بیشتر انسانوں کا غم دوسرے سے بانٹنے سے ہلکا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اس کے لئے پریشر ککر کی مثال استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ نے پریشر ککر میں کھانا پکتے دیکھا ہے تو یہ دیکھا ہو گا کہ اس میں ایک چھوٹا سا والوو (valve) ہوتا ہے۔ جب پریشر ایک حد سے بڑھ جائے تو اس والو کے ذریعے پریشر ریلیز ہو جاتا ہے یا کم ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ والو خراب ہو جائے اور اس کے ذریعے پریشر کا اخراج نہ ہو سکے، تو پورا پریشر ککر ہی پھٹ جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح ایک انسان کا ذہن ایک حد تک ہی جذبات کی شدّت کا پریشر برداشت کر سکتا ہے، اور ا سکے بعد اس کا دماغ ماؤف ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں سے بات کرنا اور ان کے سامنے پریشانی کا اظہار کرنا ان جذبات کے لئے پریشر کم کرنے والے والو کا کام دیتا ہے، اور ا سکو بہتر محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے۔ البتّہ یہ لازمی ہے کہ انسان صرف کسی ایسے قابلِ بھروسہ شخص کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرے جس کے بارے میں اس کو پتہ ہو کہ وہ اس کی بات ہمدردی سے سنے گا، کوئی تکلیف دہ بات نہیں کہے گا اورکسی دوسرے کے سامنے ان کی ذاتی باتوں کا ذکر نہیں کرے گا۔
- پریشانی کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرنا:
پریشانیوں کی صحت مندانہ کوپنگ یا ان کا صحت مندانہ مقابلہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ تجزیہ کر پائے کہ جو مسئلہ اسے درپیش ہے، اس کے کون سے اجزاٴ کو تبدیل کرنا اس کے اختیار میں ہے، اور اس کے کون سے اجزاٴ ہیں جن کو تبدیل کرنا اس کے اختیار سے باہر ہے۔ پھر جن باتوں یا چیزوں کو وہ تبدیل کر سکتا ہے، ان کو (پرابلم سولونگ اسٹریٹیجیز کے ذریعے) تبدیل کرنے کی کوشش کرے، اور جن باتوں یا چیزوں کو تبدیل نہیں کر سکتا، ان پہ دل سے راضی ہو جائے اور ان کو تسلیم کر لے کہ یہ حقیقت ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، اس کو تبدیل کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے۔
- صورتحال کے مثبت پہلوؤں کو دیکھنا:
کسی بھی انسان کے سوچنے کے انداز سے اس بات پہ بہت زیادہ اثر پڑتا ہے کہ وہ کسی پریشان کن صورتحال کا کتنی اچھی طرح سامنا کر پاتا ہے، یا نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پہ دو لوگوں کو ایک ہی طرح کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔ ایک کا تو یہ سنتے ہی خوف سے آدھا خون خشک ہو جاتا ہے کہ اس کو کینسر ہے۔ دوسرا یہ سوچتا ہے کہ ہاں کینسر تو ہے، لیکن شکر ہے وہ والا کینسر ہے جس کا علاج ممکن ہے، یا شکر ہے کہ یہ کینسر جلدی تشخیص ہو گیا تو اس سے مکمل چھٹکارا مل جائے گا۔
حالانکہ بیماری دونوں کی ایک ہی ہے لیکن صرف سوچ کے فرق سے ایک کی گھبراہٹ آسمان کو چھو رہی ہو گی، جبکہ دوسرے کی گھبراہٹ بہت قابو میں ہو گی اور وہ اس بیماری کا سامنا بہت بہتر طور پہ کر سکے گا۔ ہمارے سوچنے کا انداز، چاہے مثبت ہو یا منفی، اس پہ ہمارے بچپن کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور یہ چیزیں ہم اپنے والدین سے، اپنی زندگی میں موجود دوسرے اہم لوگوں سے، اور اپنے حالات سے سیکھتے ہیں۔ لیکن کوشش سے اور علاج سے اس کو بڑے ہونے کے بعد بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
- پریشان کن صورتحال میں خود کو ڈالنے سے گریز کرنا:
اپنی پریشانی اور گھبراہٹ کم کرنے کی یہ حکمت عملی بعض حالات میں فائدہ مند ہوتی ہے اور بعض میں نقصان دہ۔ مثال کے طور پہ اگر اسی کینسر والی مثال کو لیا جائے تو ظاہر ہے کہ اگر انسان اس کا سامنا کرنے سے گریز کرے گا تو کینسر اپنی جگہ رکے گا تو نہیں، یا خود بخود ختم تو نہیں ہو جائے گا۔ وہ تو بڑھتا چلا جائے گا۔
اس کے بر عکس ایک دوسری مثال بڑے بچوں میں سائبر بلیئنگ (cyber bullying) کی ہے یعنی سوشل میڈیا پہ کسی کو خوف و ہراس کا شکار کرنا۔ جب ایسی صورت میں نوجوان لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم انہیں یہ سمجھاتے ہیں کہ جن لوگوں کا ہماری زندگی میں ہونا مستقل تکلیف کا باعث بنے ایسے لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیے، چاہے ایسا حقیقی زندگی میں ہو یا آن لائن زندگی میں۔ دوسری اہم بات یہ کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس پہ خوش ہوتے ہیں اگر کوئی ان کی حرکتوں یا باتوں پہ ردِّ عمل دے یا ری ایکٹ کرے، چاہے وہ ان کو برا بھلا ہی کیوں نہ کہے، یا گالیاں ہی کیوں نہ دے۔ اس کو ری انفورسمنٹ (reinforcement) کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی ان کی تکلیف دہ حرکتوں یا باتوں کو مکمل نظرانداز کردے تو انہیں بہت شدید تکلیف ہوتی ہے، اور اگر دوسرا کچھ عرصے تک مسلسل انہیں نظر انداز کرتا رہے تو وہ بور ہو کے اس کو تنگ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی دوسرا شکار ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہم بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو کوئی بھی ردِّ عمل نہ دیں، نہ اچھا نہ برا۔ وہ خود ہی تنگ آ کے ان کا پیچھا چھوڑ دیں گے۔ اس حرکتِ عملی کی حقیقت یہ ہے کہ خود سے اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Highly stressful events almost always give rise to very strong emotions.
Events that pose a threat such as of something untoward happening in the future, give rise to anxiety responses, which can be both physical such as increased heart and muscle tension, and psychological such as worry, anxiety, apprehension, feelings of impending doom.
Events that lead to a loss, such as death of a loved one, or loss of a highly valued job, give rise to depressive responses, such as low mood, losing interest in everything, reduced activity.
If a person is to function normally, these emotions need to be brought down to manageable levels. The coping strategies that specifically work on reducing emotions include:
- Ventilation of emotion:
We often use the example of a pressure cooker with patients. If the pressure continues to build inside and the valve that helps release the pressure stops functioning, the cooker will blow up at some point. Similarly, human beings can tolerate only so much heightened emotions before they are at risk of having a break down. It is important to have people in life with whom a person can share his inner-most feelings, and release that internal emotional pressure. It is important to do so only in front of people you can trust to be understanding and non-judgmental, and who can keep your private affairs private.
- Evaluation of the problem:
This saying, also called the serenity prayer, is attributed to Reinhold Niebuhr that “God, grant me the serenity to accept the things I cannot change, the courage to change the things I can, and the wisdom to know the difference.”
For healthy coping, it is important for people in dealing with a stressful situation that they can assess and evaluate what part of the problem be changed and then try to change it (through problem solving strategies), and what part of the problem cannot be changed and try to accept it. This second bit is easier said than done.
In the previous talk/write-up we used the example of a person who has just been diagnosed with cancer. It is very common to see two very different sort of responses in such circumstances. Some people just accept the hand that life has dealt them, accept the problem, and try to get on with life as best as they can. Then there are others who just cannot accept that such a tragedy has befallen them, and keep making complaining statements like “why does every bad thing always happen to me? everybody else is healthy, why is it always me who becomes sick?”, and so on.
People who can accept the problems that they cannot change have a much better chance of bringing their heightened emotions down.
- Positive reappraisal of the problem:
A person’s way of thinking has a huge impact on how well or how poorly they cope with a stressful life event. For example, using the example of cancer again, one person may go to pieces upon just hearing the word cancer. In exactly the same circumstances, another person may feel lucky that his cancer was diagnosed early, or is of a type which is curable.
It is this ability to look at what is good in a person’s life at the same time when something bad happens, which makes a huge difference to how easily or not they can cope with a stressful event after it has happened.
- Avoidance of the problem:
This coping strategy may be appropriate in some circumstances, but not others. For example, in the cancer example above, avoiding to accept that it has happened and avoiding seeking further assessment and treatment, may have clear impact on the prognosis. On the other hand, if a person is being cyberbullied, avoiding and refusing to engage with the bullies and completely ignoring them may be the best strategy to reduce distressing emotions. Most people have enough good people in their lives. There is no need to exposing oneself to people who always give them pain.
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جیسا کہ میں نے پچھلی تحریروں میں عرض کیا تھا، کوپنگ اسٹریٹیجیز وہ حکمت عملیاں ہوتی ہیں یا طریقے ہوتے ہیں جو انسان کسی بڑی پریشانی کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پریشانیوں کی وجہ سے انسان کے دل و دماغ پہ شدید دباؤ پڑتا ہے اور ان میں جو شدید جذبات پیدا ہوتے ہیں، ان کو اس حد تک کم کیا جا سکے کہ جس حد تک ممکن ہو انسان اپنے ضروری کام کرنے کے قابل رہے۔
یہ حکمت عملیاں انسان بڑے ہو کر ہی پہلی دفعہ نہیں سیکھتا بلکہ بیشتر وقت یہ انسان اپنے بچپن کے تجربات سے، اور اس نے اپنے بڑوں خصوصاً والدین کو پریشانی میں جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا ہوا ہوتا ہے، اس سے سیکھتا ہے۔ بڑے ہو کر یہ عادتیں مزید پختہ ہو جاتی ہیں اور انسان انہی کو دہراتا رہتا ہے۔ لیکن یہ کوپنگ اسٹریٹیجیز ہمیشہ صحتمندانہ نہیں ہوتیں بلکہ بعض اپنے شروع کے ماحول سے غلط کوپنگ اسٹریٹیجیز سیکھ لیتے ہیں۔ ان غلط یا غیر صحتمندانہ کوپنگ اسٹریٹیجیز سے وقری طور پہ تو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے اور گھبراہٹ میں کمی واقع ہو سکتی ہے، لیکن اگر انسان ان کو طویل عرصے تک یا بار بار استعمال کرتا رہے تو ان سے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ ان غیر صحتمندانہ کوپنگ اسٹریٹیجیز کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
- الکحل یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنا:
بعض لوگ اپنی پریشانی یا اداسی کو کم کرنے کے لئے، یا غم کی باتوں یا تکلیف دہ حالات کو بھلانے کے لئے الکحل یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ان چیزوں سے وقتی طور پر تو کچھ افاقہ ہو سکتا ہے لیکن بار بار کے استعمال سے ان تمام چیزوں کی عادت پڑنے کا ڈر ہوتا ہے، بعض سے صرف نفسیاتی طور پر عادت پڑتی ہے، اور بعض جیسے کہ الکحل سے جسمانی طور پر بھی عادت پڑ جاتی ہے جس کے بہت سارے خطرات ہوتے ہیں۔ ان نشہ آور اشیاء سے بہت ساری نفسیاتی بیماریاں ہو سکتی ہیں جن میں ڈپریشن ہونے کا امکان کافی بڑھ جاتا ہے۔ الکحل جگر، دماغ، اور دوسری نسوں کو براہِ راست نقصان پہنچاتی ہے جس سے بہت ساری جسمانی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔
- اپنے آپ کو نقصان پہنچانا:
بعض لوگوں کو کم عمری سے یہ عادت پڑ جاتی ہے کہ جب انہیں شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو کسی تیز دھار چیز سے نقصان پہنچاتے ہیں یا کسی دوا کا بڑی مقدار میں اوور ڈوز لے لیتے ہیں۔ جو لوگ عادتاً پریشانی میں اپنی جلد کو کسی تیز دھارچیز مثلاً چاقو سے کاٹ لیتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی ٹینشن اور گھبراہٹ کم ہو جاتی ہے، اور ان کو تھوڑا سکون ملتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا کرنے سے ان کی توجّہ ایموشنل یعنی جذباتی درد یا تکلیف سے ہٹ کے جسمانی تکیلف کی طرف مبذول ہو جاتی ہے جس سے ان کی ایموشنل تکلیف میں تھوڑی سی وقتی کمی ہو جاتی ہے۔ اوور ڈوز یا زیادہ مقدار میں دوا لینے کی وجہ عام طور سے یہ ہوتی ہے کہ اس انسان کو جس پریشانی میں وہ ہوتا ہے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا ہوتا، یا پھر ایک طرح سے یہ ایک ڈسٹریس سگنل ہوتا ہے کہ میں بہت تکلیف میں ہوں اور مجھے مدد کی فوری اور شدید ضرورت ہے۔
ان دونوں طریقوں کے بہت سے خطرات ہیں۔ اگر غلطی سے کوئی رگ کٹ جائے اور فوری طبّی امداد نہ مل پائے تو زیادہ خون بہنے کی وجہ سے انسان کی موت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اوور ڈوز سے جگر کو یا دماغ کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔
- بغیر سوچے سمجھے اپنے جذبات کا اظہار کرنا:
ہم میں سے اکثر لوگ جب بڑے ہوتے ہیں تو اپنے ایموشنز یعنی جذبات کو کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں۔ ہم سیکھتے ہیں کہ بض دفعہ غصّہ آ بھی رہا ہوتا ہے تو ہر جگہ اس کا اظہار نہیں کرنا ہوتا ہے، ہر جگہ چیخنا چلّانا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بعض کبھی بھی اپنے جذبات کو کنٹرول یا ریگولیٹ کرنا سیکھ نہیں پاتے۔ کسی چھوٹی سی پریشانی پہ بھی ان کے جذبات کا اظہار انتہا درجے تک ہوتا ہے۔ معمولی سی بات پہ وہ چیخنے چلّانے لگتے ہیں، دوسروں کو الزام دینے لگتے ہیں، چیخ چیخ کے رونے لگتے ہیں، دوسروں کو برا بھلا کہنا گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں، اور ایسا بہت کثرت سے اور بہت چھوٹی سی بظاہر معمولی باتوں پہ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح سے چیخ چلّا کے اور اپنے جذبات کا بے محابا اظہار کر کے ان کے جذبات کی شدّت وقتی طور پہ تو کم ہو جاتی ہے، لیکن طویل عرصے کے اوپر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے آس پاس کے لوگ ان سے دور ہو جاتے ہیں اور پہلے جو ان کی مدد کرنے کو تیّار ہوتے بھی، وہ ان کے ان رویّوں سے بددل ہو کے ان کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔
- ہر وقت جارحیت کا مظاہرہ کرنا:
بعض لوگ شروع ہی سے جارحانہ مزاج کے ہوتے ہیں اور ہر معمولی سی چھوٹی سی پریشانی یا مخالفانہ بات پہ ان کا پہلا ردِّ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور دوسروں پہ اٹیک کر دیتے ہیں۔ یہ حملہ زبانی بھی ہو سکتا ہے مثلاً گالی گلوچ کرنا، دھمکیاں دینا، دوسروں پہ چیخنا چلّانا، اور جسمانی بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کی ٹینشن اس طرح سے دوسروں اپنے دل کی بھڑاس نکال کے اور شدید غصّے کا اظہار کر کے وقتی طور پہ تو کم ہو جاتی ہے، لیکن طویل عرصے پہ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ بالکل تنہا رہ جاتے ہیں۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
As mentioned in previous write-ups, coping strategies are the actions people employ to cope better with difficult circumstances. Their purpose is to reduce the emotional burden and impact of these difficulties upon their psyche, so that they can continue to function as normally as possible under the circumstances.
These coping strategies usually develop in a person’s childhood as a result of their unique childhood experiences, or as modelled for them by their primary caregiving figures such as parents, and even as adults most people fall back on the ways of coping they have always utilized since childhood. However, these long-term patterns are not always healthy or helpful. Some of them may reduce anxiety or distress in the short-term, but may aggravate the problems in the long run. Following are some of the more common maladaptive coping strategies that people employ:
- Use of alcohol or unprescribed drugs:
In the short-term, alcohol or other recreational drugs like cannabis may reduce emotional distress and may make them feel better, or may help them forget distressing circumstances, but in the long run most of these psychoactive drugs are associated with psychiatric disorders including depression. Alcohol can damage both liver cells and nerve cells, so its chronic heavy use can cause a whole gamut of physical health disorders.
- Deliberate self-harm:
Some people cut their skin with sharp instruments at times of emotional distress, because they feel relief in their distress, or it helps to shift the focus the pain away from emotional pain to physical pain. Some people take drug overdoses because they feel it is the only way to extricate themselves from the difficult circumstances they find themselves in, or take an overdose as a cry for help. Of course, in the long run, both of these behaviours carry their own very serious risks.
- Unrestrained display of feelings:
Most of the people have learnt to control how they express their emotions, even in very difficult circumstances. However, some people have never learnt to regulate their emotions. When they face difficult circumstances, or even the slightest of difficulties, they can express their emotions without any filter, which may result in extreme crying, screaming, yelling, name calling, blaming others for one’s own circumstances, etc. While in the immediate term, it may make them feel better having directed their distressing emotions towards someone else, but in the long term, it may damage relationships, and people who may otherwise have been willing and keen to help may be discouraged from doing so.
- Aggressive behaviour:
From time to time we see people whose primary way of expressing their distress is aggression. This aggression may be verbal, such as screaming, yelling, threatening, bullying, or it may be physical resulting in physical violence towards others. In the short-term, they may experience immediate release of tension by doing so, but in the long term, it almost always compounds their difficulties.
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
کرائسٹ چرچ کے سانحے میں ۵۱ مسلمانوں کی شہادت نیوزی لینڈ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں نفرت کی بنیاد پہ اتنے سارے انسانوں کی ایک ساتھ جان لی گئی ہو۔ اگر ہم اس سانحے کو، اور اس کے بعد جس طرح سے لوگوں کو مدد پہنچانے کی کوشش کی گئی، ذہن میں رکھیں تو ان اصولوں کو سمجھنا اور یاد رکھنا زیادہ آسان ہو گا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اصول صرف کسی سانحے کے بعد نفسیاتی مدد فراہم کرنے اور آئندہ کی طویل المدّتی نفسیاتی بیماریوں سے لوگون کو بچانے کی کوشش کے بارے میں، جسمانی، معاشرتی یا مالی مدد کے بارے میں نہیں۔
- متاثر(ین) کو آرام اور سکون پہنچانے کی کوشش کرنا:
اس سانحے کے بعد تقریباً پورے ہی نیوزی لینڈ سے مسلمان کرائسٹ چرچ پہنچ گئے تھے۔ اس سے جو لوگ وہاں موجود ہونے کے باوجود بچ گئے تھے اور ان کے لواحقین کو بڑی ڈھارس ملی کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور کوئی ان کا پوچھنے والا ہے، ان کا خیال کرنے والا ہے۔ اس وقت ضروری یہ ہوتا ہے کہ آپ یعنی مدد کرنے والے خود یہ فیصلہ نہ کریں کہ متاثّرین کو کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے، بلکہ ان ہی سے پوچھیں کہ اس وقت ان کے لئے کس قسم کی مدد زیادہ فائدہ مند ہو گی۔
- متاثّر(ین) کو مزید خطرے اور تکلیف سے بچانا:
نیوزی لینڈ میں اور دوسرے ملکوں میں جو اس طرح کے واقعات کے بعد جوبہت بڑا فرق نظر آیا وہ یہاں کے عام لوگوں کا ردِّ عمل تھا۔ ایک مسلمان نے اس سانحے میں بال بال بچ گئے تھے ایک بڑی کانفرنس میں اپنا حال بتایا کہ وہ اس کے فوراً بعد اس قدر خوفزدہ تھے کہ اپنے گھر پہنچ کے سارے دروازے کھڑکیاں پردے بند کر کے اپنے بستر کےنیچے چھپ گئے تھے۔ شام میں ان کو اریب قریب سے آوازیں آئیں۔ انہوں نے نکل کے دیکھا تو نظر آیا کہ ان کے سارے پڑوسی جن میں ہر قوم اور نسل کے لوگ شامل تھے، ان کے گھر کے گرد حفاظتی حصار بنائے کھڑے تھے۔ ان کو یہ دیکھ کے اس قدر شدید تحفّظ کا احساس ہوا کہ پھر انہیں باہر نکلنے میں ڈر نہیں لگا۔
- جسمانی ابتدائی طبّی امداد فراہم کرنا:
اس میں ایمبولینس اسٹاف، ہسپتالوں اور طبّی عملے کا بہت اہم کردار شامل ہے۔
- متاثّرین کو اپنے لواحقین سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے میں مدد کرنا:
جب کرائسٹ کرچ میں ۲۰۱۱ میں شدید زلزلہ آیا تھا جس میں دو سو سے زیادہ لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں، میرے ایک دوست نے جو ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کرتے ہیں، یہ بتایا تھا کہ اس وقت انہیں کمپنی نے یہ ہدایت کر کے فوراً کرائسٹ چرچ بھیجا تھا کہ جو لوگ بھی اس زلزلے سے متاثّر ہوئے ہیں، جن کے موبائل کھو گئے ہیں یا ان کے پاس موبائل کریڈٹ لینے کا ذریعہ نہیں ہے، ان میں مفت موبائل بانٹیں ، انہیں مفت موبائل کا کریڈٹ دیں، اور ان کی جتنا جلدی ممکن ہو ان کے گھر والوں اور قریبی لوگوں سے بات کروانے کی کوشش کریں۔
- لوگ اگر خود سے جس سانحے سے وہ گزرے ہیں اس کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو ان کی بات غور سے اور ہمدردی سے سنیں، لیکن انہیں اس بارے میں بات کرنے پہ مجبور مت کریں:
بہت سال پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جب لوگ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں مثلاً ٹرین حادثہ یا زلزلہ، تو اس کے بعد ان سے اس سانحے کے بارے میں ضرور بات کریں چاہے وہ چاہیں یا نہ چاہیں، اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس سے ان کا غم ہلکا ہونے میں مدد ملے گی۔ اسے سائیکولوجیکل ڈی بریفنگ کہا جاتا ہے۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ نہ صرف ایسا کرنے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ بعض لوگوں کو نقصان ہوتا ہے، اور ان کی نفسیاتی علامات زیادہ طویل عرصے تک چلتی رہتی ہیں۔ اس لئے اب یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ خود سے بات کرنا چاہیں تو ان کی بات ضرور توجّہ اور ہمدردی سے سنیں، لیکن ان کو زبردستی اس بارے میں بات کرنے پر مجبور مت کریں جب تک وہ خود اس کے لئے تیّار نہ ہوں۔
- لوگوں کا ان اداروں سے رابطہ کروانا جو ان کی مدد کر سکتے ہوں:
کرائسٹ چرچ کی مسجد کا جو سانحہ ہوا تھا اس میں بہت سے مرد شہید ہوگئے تھے۔ ان میں بہت سے لوگوں کی جیبوں میں کریڈٹ کارڈ وغیرہ تھے۔ چونکہ مسجد ایک کرائم سین بن گئی تھی اس لئے کوئی چیز اس سے باہر نہیں لائی جا سکتی تھی جب تک کہ قانونی تحقیقات پوری نہ ہو جائیں۔ بعض ایسے گھرانے تھے جن کی پیچھے رہ جانے والی خواتین کے پاس اپنے کارڈ نہیں تھے یا انہیں کارڈ استعمال کرنا اور بینک سے پیسے نکالنا نہیں آتا تھا، یا انہیں ڈرائیونگ کرنا نہیں آتا تھا۔ چنانچہ نہ صرف انہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا، بلکہ ایکدم سے وہ بینک میں پیسے ہوتے ہوئے بھی غربت کا بھی شکار ہو گئی تھیں اور کہیں مدد لینے کے لئے آ جا بھی نہیں سکتی تھیں۔ ایسی صورت میں بہت ضروری ہوتا ہے کہ ایسے متاثرین کا فوراً ایسے حکومتی اور دوسرے اداروں سے رابطہ کرایا جائے جو ان کی مدد کر سکتے ہوں۔
- لوگوں کو کنٹرول کا احساس دلائیں:
اس طرح کے بڑے سانحے کے بعد بہت سے لوگ مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بہت اچھی نیّت سے کرتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ مدد کرنے والے لوگ یا ادارے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ متاثرین ابھی صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے، یا ان کی تعلیم اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے صحیح فیصلہ کر سکیں، اس لئے ہم ان کے لئے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بہت غلط خیال ہے۔ بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بڑی میٹنگ میں ایک متاثرہ خاتون نے کھڑے ہو کر کہا بھی تھا کہ ہمارے لئے فیصلہ مت کریں، ہم سے پوچھیں کہ ہمیں کس بارے میں مدد چاہئے۔
- ان لوگوں کا پتہ چلانا جنہیں مزید علاج کی ضرورت ہو گی:
کسی بھی بڑے سانحے کے بعد سو فیصد لوگوں کو ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی نہیں ہوتا، لیکن ایک خاص تعداد کو ہوتا ہے۔ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہیں باقاعدہ علاج کی ضرورت ہو گی، کیونکہ ضروری نہیں کہ وہ خود سامنے آ کر اس بات کا اظہار کریں۔
ماخوذ: الیگژنڈر ۲۰۰۵، معرفتِ شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتوں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Comfort and consolation
- Protection from further threat and distress
- Immediate physical care
- Helping reunion with loved ones
- Sharing the experience (but not forced)
- Linking survivors with sources of support
- Facilitating a sense of being in control
- Identifying those who need further help (triage)
(Alexander 2005, via Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر اس نفسیاتی بیماری کو کہتے ہیں جو کسی شدید صدمے یا سانحے کے دوران یا اس کے فوراً بعد شروع ہوتی ہے۔
ان علامات کو ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر اس وقت کہتے ہیں جب یہ علامات کم از کم دو دن، اور زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ جاری رہیں۔ اگر یہ علامات ایک مہینے سے زیادہ عرصہ چلتی رہیں تو پھر ان کو پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کہا جاتا ہے۔
ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ صدمہ یا سانحہ بہت زیادہ شدید نوعیت کا ہو، مثلاً اس شخص کو خود کوئی شدید جسمانی نقصان پہنچے، وہ کسی کو اپنے سامنے شدید جسمانی نقصان پہنچتا ہوا دیکھے، اس کو یا کسی اورکو جان جانے کا خطرہ ہو، یا کسی پہ جنسی نوعیت کا حملہ ہو۔ عام چھوٹے موٹے مسئلوں سے جو گھبراہٹ ہوتی ہے اسے ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر نہیں کہتے۔
ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص کے لئے:
- مندرجہ ذیل علامات پانچ علامات میں سے کوئی تین علامات ہونا ضروری ہے؛
۱۔ انسان کو ایسا لگے کہ جیسے اس کے احساسات بالکل ختم ہو گئے ہیں، اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا ہے، (numbness or detachment)
۲۔ اس کو اس چیز کا احساس یا ادراک نہ رہے کہ اس کے ارد گرد کے ماحول میں کیا ہو رہا ہے، جیسے کہ وہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں نہیں ہے، (reduced awareness of surroundings)
۳۔ اس کو ایسا لگنا کہ جیسے ا سکے ارد گرد کے ماحول میں کوئی چیز بھی اصلی نہیں ہے، سب کچھ مصنوعی ہے، (derealization)
۴۔ اس کو ایسا لگنا کہ جیسے اس کا اپنا جسم بھی اصلی نہیں ہے، مثلاً اس کا جسم گوشت پوشت کے بجائے پلاسٹک کا بنا ہوا ہے، (depersonalization)
۵۔ اس کو ایسا لگے کہ جیسے اس سانحے کی کوئی بھی بات اسے یاد نہیں ہے، جیسے کہ وہ سانحہ اس کے ساتھ ہوا ہی نہیں۔ (dissociative amnesia)
- انسان ایسی تمام باتوں اور چیزوں سے گریز کرنے لگے یا فرار اختیار کرنے لگے جن سے اسے وہ سانحہ یاد آئے (avoidance)، مثلاً میں نے بہت زمانہ پہلے ایک مریض دیکھا تھا جس کو ایک کالی گاڑی میں اغوا کیا گیا تھا، وہ اس کے مہینوں بعد تک کوئی کالی گاڑی نہیں دیکھ سکتا تھا، اور کالی گاڑی سامنے آ جاتی تو اسے اتنی شدید گھبراہٹ ہو جاتی تھی کہ وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا تھا یا آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتا تھا۔
- اس کی علامات اتنی شدید ہوں کہ ان کی وجہ سے اس کی زندگی بہت تکلیف دہ ہو گئی ہو، یا وہ اپنے روز مرہ کے کام کرنے یا جس طرح لوگوں سے ملتا جلتا تھا اس کے قابل نہ رہا ہو۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Starts while or after experiencing a severely traumatic event
- Lasts for at least 2 days, and no more than 4 weeks, after 4 weeks ASD become Post Traumatic Stress Disorder
- The stressor must be of an exceptional nature – actual or threatened serious injury to self or others, or sexual violation
DSM-5 criteria
- Marked symptoms of anxiety or increased arousal
- Re-experiencing of the event
- 3 of the following 5;
o A sense of numbness or detachment
o Reduced awareness of the surroundings (being in a daze)
o Derealization
o Depersonalization
o Dissociative amnesia
- Avoidance of reminders of trauma
- Clinically significant distress or impairment of social or occupational functioning
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
- عام طور سے کسی سانحے کے بعد بہت سارے لوگ کسی دوست، رشتہ دار، یا ابتدائی امداد فراہم کرنے والے عملے جیسا کہ پولیس یا ایمبولینس کے اسٹاف سے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس سے ان کی گھبراہٹ میں کمی ہوتی ہے، لیکن اگر وہ خود سے اس بارے میں بات نہ کرنا چاہیں تو انہیں مجبور نہیں کرنا چاہئے۔
- اگر گھبراہٹ یا پریشانی بہت زیادہ شدید ہو تو ایک دو دن کے لیے گھبراہٹ کی دوا دی جا سکتی ہے۔ لیکن سکون آور دوائیں یعنی بینزو ڈایازاپینز کسی سانحے کے بعد ہر ایک متاثّر شخص کو دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان دوائیوں سے new learning خراب ہوتی ہے اور اس لئے اس سانحے کو نفسیاتی طور پہ پراسیس کرنے میں یعنی اس کا سامنا کرنے میں رکاوٹ یا دیر ہوتی ہے۔
- اگر نیند بہت زیادہ خراب ہوئی ہو تو ایک دو راتوں کے لئے نیند کی دوا دی جا سکتی ہے، اس لئے کہ اچھی اور گہری نیند سے صحتیابی میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کو بھی زیادہ دن کے لئے نہیں دینا چاہیے۔
- ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر کے بہت سارے کیسز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں، اس لئے علاج میں بہت زیادہ جلدی نہیں کرنی چاہیے اور از خود صحتیابی کے لیے انسان کو تھوڑا سا وقت دینا چاہیے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ کسی ایک ناگہانی سانحے جیسے کہ جنسی حملے کے فوراً بعد دو تہائی تک خواتین کو ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر کی علامات ہو سکتی ہیں، لیکن جب یہ سوالنامہ ہر ہفتے دوبارہ پوچھا گیا تو بہت ساری خواتین میں دو تین ہفتے کے بعد علامات کی شدّت کافی کم ہو چکی تھی۔ اس عرصے میں ان کو محفوظ ماحول فراہم کرنا البتّہ لازمی ہوتا ہے۔
- بہتر یہ ہوتا ہے کہ سانحے کے تقریباً دو ہفتے کے بعد دوبارہ متاثّرہ شخص کا نفسیاتی چیک اپ کیا جائے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ کون لوگ ہیں جن میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) شروع ہونے کا خطرہ ہے۔
- اگر شدید علامات دو ہفتے تک برقرار رہیں تو پی ٹی ایس ڈی شروع ہونے سے بچنے کے مندرجہ ذیل طریقہ ہائے علاج کو آزمایا جا سکتا ہے،
o ایکسپوژر تھراپی، تا کہ اوائیڈنس (avoidance)، یعنی متاثر شخص اس سانحے کی یادوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے جو طریقے اختیار کرتا ہے، اس سے بچا جا سکے، کیونکہ اوائیڈنس جتنی زیادہ شدید ہو گی، علامات کے علاج میں اتنی ہی تاخیر ہو گی اور علامات کے طویل عرسے تک چلتے رہنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
o کوگنیٹو بیہیوئرتھراپی (سی بی ٹی) کی وہ قسم جس میں سانحے پر فوکس کیا جاتا ہے۔
o اب تک کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ ایکیوٹ اسٹریس ڈس آرڈر میں پی ٹی ایس ڈی سے بچنے کے لئے ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات دینے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ اب تک نظر نہیں آیا۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Talking to relative/friend/staff member (shouldn’t be forced)
- If anxiety severe, Anxiolytic drug for a day or two
- If sleep severely disrupted, a hypnotic drug for one or two nights
- Most cases, stress reactions resolve with time, so watchful waiting!
- Follow up after 2 weeks – identify those at risk of PTSD
- If persistent and severe symptoms after 2 weeks, treatments to prevent PTSD;
o Prolonged exposure therapy – to minimize avoidance
o Trauma-focused Cognitive Behaviour Therapy
o Use of SSRIs in ASD to prevent development of PTSD has not generally proved to be helpful.
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
پی ٹی ایس ڈی اس نفسیاتی بیماری کو کہتے ہیں جو کسی بڑے سانحے یا صدمے کے کچھ عرصے کے بعد شروع ہوتی ہے اور بہت سارے مریضوں میں طویل عرصے تک چلتی ہے۔
:پی ٹی ایس ڈی کی بنیادی علامات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں:
۱۔ بار بار ایسا محسوس ہونا جیسے انسان اس صدمے سے دوبارہ گزر رہا ہو، جیسے کہ وہ شدید سانحہ پھر سے ہو رہا ہو۔ ا سکی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔
بعض مریضوں کو جاگتے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سانحہ پھر سے ہو رہا ہو۔ وہ بالکل گم سم ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو پھر انہی حالات میں محسوس کرتے ہیں جیسے کہ وہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہو۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جاگتے میں وہ پورا سانحہ یا اس کے کچھ حصّے بار بار اس کے ذہن کی اسکرین پہ گزرتے ہیں جیسے کہ اس کے ذہن کے پردے پہ اس سانحے کی فلم سی چل رہی ہو۔ یہ یادیں اتنی شدّت کی ہوتی ہیں کہ انسان انہیں اپنے دماغ میں آنے سے روکنا بھی چاہے تو روک نہیں سکتا۔
بعض مریضوں کو سوتے میں اسی سانحے سے متعلّق بہت ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور نیند میں ایسا لگتا ہے کہ وہ سب کچھ پھر سے ہو رہا ہو۔ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں جو زلزلہ آیا تھا اس کے کچھ مہینے کے بعد میرا وہاں کے ڈاکٹروں کی نفسیاتی بیماریوں کے علاج کی ٹریننگ کے سلسلے میں وہاں جانا ہوا تھا۔ ہمارے ایک کولیگ تھے جو زلزلے کے وقت وہاں موجود تھے۔ وہ رات کو اچانک نیند سے اٹھ کے "زلزلہ آگیا، زلزلہ آ گیا" چیختے ہوئے بھاگنا شروع کر دیتے تھے۔
۲۔ شدید ہیجان کی سی کیفیت کا شکار رہنا
- ہر وقت شدید گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہنا
- مزاج کا چڑچڑا ہونا، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ بہت جلدی غصّہ آ جانا
- نیند آنے میں بہت مشکل ہونا، یا سونے کے تھوڑی دیر بعد سے ہی بار بار آنکھ کھلنا شروع ہو جانا
- اپنے کام پر، کتاب پڑھنے میں یا ٹی وی دیکھنے پہ توجّہ دینے یا برقرار رکھنے میں بہت مشکل ہونا
۳۔ جو باتیں یا چیزیں اس سانحے کی یاد دلائیں ان کا سامنا کرنے سے گریز کرنا
- سانحے کی تفصیلات کو یاد کرنے میں مشکل ہونا
- جو چیزیں اس سانحے کی یاد دلائیں ان کا سامنا کرنے سے گریز کرنا۔ بہت زمانہ پہلے میں نے ایک مریض دیکھا تھا جس کو ایک کالی گاڑی میں گن پوائنٹ پہ اغوا کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ اس جگہ سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن آزاد ہونے کے کافی عرصے بعد تک بھی وہ کسی بھی کالی گاڑی کو نہین دیکھ سکتا تھا اور یا تو اس کی طرف سے منہ پھیر لیتا تھا، یا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتا تھا۔ اسی طرح وہ ٹی وی کے کسی پروگرام میں گن نہیں دیکھ سکتا تھا۔
- لوگوں سے اور روز مرّہ کی باتوں سے بالکل الگ ہو جانا
- ایسا محسوس ہونا کہ جیسے جذبات سن ہو گئے ہوں، اس سانحے سے متعلّق تمام جذبات کا سامنا کرنے سے یا ان کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرنا
ایک تہائی کے قریب مریض تین مہینے میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، جبکہ ۴۰ فیصد مریضوں میں یہ بیماری طویل عرصے تک چلتی ہے۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
“PTSD refers to an intense, prolonged, and somewhat delayed reaction to an exceptionally stressful event.” (SOTP)
The core features of PTSD are;
1. Re-experiencing (re-living) of the traumatic event
o ‘flashbacks’,
o Intense intrusive imagery
o Recurrent dreams/nightmares
2. (Autonomic) Hyperarousal (enhanced fight or flight response)
o Persistently on the lookout for danger
o Exaggerated startle response
o Persistent anxiety
o Irritability
o Insomnia
o Poor concentration
3. Persistent avoidance (of reminders, memories and emotions related to the event)
o Difficulty in recalling the traumatic event
o Avoidance of reminders of the traumatic event
o Detachment
o ‘Numbness’ (avoidance of associated emotions)
- Course: 1/3rd cases get better within 3 months, 40% chronic
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
:پی ٹی ایس ڈی کسی اتنے بڑے سانحے سے گزرنے یا اس کے خطرے کا سامنے کرنے سے شروع ہوتا ہے جس میں:
- کسی انسان کی جان جانے کا خطرہ ہو،
- اس کو شدید جسمانی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو،
- یا کسی انسان کو جنسی تشدّد کا سامنا کرنا پڑے۔
ان خطرات کا سامنا کرنے کی کئی صورتیں ہوتی ہیں جن کے بعد پی ٹی ایس ڈی شروع ہو سکتا ہے، مثلاً
- مریض خود کسی اتنے بڑے خطرے سے گزرے۔
- مریض کسی اور کو اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرتے ہوئے یا خطرے سے گزرتا ہوا دیکھے۔ جس شخص کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو، اس سے انسان کا جتنا قریبی تعلّق ہو گا اتنا پی ٹی ایس ڈی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوگا۔
- آج کل بہت سی بہیمانہ تشدّد کی وڈیوز آن لائن بھی پوسٹ کر دی جاتی ہیں۔ ان کو دیکھنے سے بھی پی ٹی ایس ڈی ہو سکتا ہے۔ بہت زمانہ پہلے میں نے ایک نوجوان مریض دیکھا تھا جس کو انٹرنیٹ پہ کسی کا سر قلم کئے جانے کی وڈیو دیکھنے کے بعد پی ٹی ایس ڈی کی علامات شروع ہو گئی تھیں۔
- اپنے کسی قریبی جاننے والے کے بارے میں یہ سننے یا جاننے کے بعد کہ وہ کسی شدید سانحے سے گزرا ہے، پی ٹی ایس ڈی کی علامات شروع ہو سکتی ہیں۔
- جو لوگ اس طرح کے پیشے میں ہوں جس میں بار بار ان لوگوں کو دیکھنا پڑتا ہو جو کسی شدید سانحے سے گزرے ہوں مثلاً پولیس آفیسرز یا ایمبولینس اسٹاف، ان کو بھی پی ٹی ایس ڈی ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
جس طرح کے سانحات میں کوئی انسان دوسرے انسان کو جان بوجھ کر نقصان پہنچاتا ہے مثلاً جنسی یا جسمانی تشدّد، ان میں قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور زلزلے کے مقابلے میں پی ٹی ایس ڈی کی علامات شروع ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Exposure to actual or threatened exceptionally traumatic event such as
- Death
- Serious injury
- Sexual violence
Either;
- Directly
- Witnessing it (vicarious trauma), including online
- Learning about it happening to someone else
- Repeated exposure: such as Police or emergency staff
Interpersonal trauma such as physical or sexual violence carries as greater risk of giving rise to PTSD than natural disasters such as earthquakes or floods
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
خواتین میں مردوں کے مقابلے میں پی ٹی ایس ڈی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
حالانکہ مرد عام طور سے خواتین کے مقابلے میں زیادہ سانحات سے زیادہ گزرتے ہیں، لیکن اس طرح کے سانحات جن کے بعد پی ٹی ایس ڈی شروع ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے مثلاً بچپن میں یا بڑے ہونے کے بعد جنسی تشدّد کا نشانہ بننا، یا گھر میں جسمانی تشدّد کا نشانہ بننا، خواتین کا مردوں کے مقابلے میں ان سانحات کا سامنا کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
پی ٹی ایس ڈی کا خطرہ کچھ حد تک جینیاتی یا موروثی ہوتا ہے، یعنی جن لوگوں میں وہ جینز اپنے والدین سے آئی ہوں، ان میں پی ٹی ایس ڈی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل لوگوں میں پی ٹی ایس ڈی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؛
- جن لوگوں میں پہلے سے موڈ ڈس آرڈر، مثلاً ڈپریشن، یا اینگزائٹی ڈس آرڈر کی ہسٹری ہو،
- جو زندگی میں پہلے کبھی کسی بڑے صدمے کا سامنا کر چکے ہوں،
- جن میں ذہانت کی استعداد عام لوگوں سے کم ہو،
جن لوگوں کی نفسیاتی ساخت میں نیوروٹیزم ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں شروع سے منفی جذبات مثلاً غصّہ، گھبراہٹ، اداسی، چڑچڑاپن، جذبات کا شدیداتار چڑھاؤ ہوتے رہنا، محسوس کرنے کا امکان عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے،
- یا جن لوگوں کو رشتہ داروں یا دوست احباب کی سپورٹ نہ ہو۔
ان اسباب کے علاوہ کچھ بدن میں ایسی جسمانی تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ نفسیاتی وجوہات کی تھیوریز بھی ہیں جن کی وجہ سے پی ٹی ایس ڈی ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے، لیکن ان کی تفصیل یہاں بیان کرنا بہت طویل ہو جائے گا۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Women more likely to develop PTSD than men
Women more likely to experience PSTD-related trauma such as CSA, rape, domestic violence
GENETIC FACTORS
- Susceptibility to PTSD partly genetic
OTHER PREDISPOSING FACTORS
- History of mood or anxiety disorder
- History of previously traumatic life events
- Neuroticism “the trait disposition to experience negative affects, including anger, anxiety, self‐consciousness, irritability, emotional instability, and depression.”
- Lower intelligence
- Lack of social support
NEUROBIOLOGICAL AND PSYCHOLOGICAL FACTORS
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
پی ٹی ایس ڈی کے علاج میں عام طور سے سائیکوتھراپی یعنی باتوں کے ذریعے علاج صرف دواؤں کے ذریعے علاج کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
دوائیں اس وقت فائدہ مند ہوتی ہیں جب پی ٹی ایس ڈی کی علامات کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کی علامات بھی کافی زیادہ ہوں، یا صرف سائیکو تھراپی سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہورہا ہو۔
ٹراما یعنی صدمے کے فوکس والی کوگنیٹو بیہیوئر تھراپی (سی بی ٹی) اور ای ایم ڈی آر (آئی موومنٹ ڈی سینسیٹائزیشن اور ری پراسیسنگ) سائیکوتھیراپیز دوسری عمومی سائیکو تھراپیز مثلاً ریلیکسیشن ایکسرسائز سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں۔
پی ٹی ایس ڈی کی سی بی ٹی کے اجزاء:
کسی شدید صدمے کے بعد جو انسان کا نارمل ریسپانس یا ردِّ عمل ہوتا ہے اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا
- صدمے کی یادوں اور حالات واقعات، اور ان سے جڑے جذبات کا سامنا کرنے کی اہمیت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا
- اپنی علامات پہ خود نظر رکھنا
- انسان صدمے یا سانحے کی وجہ سے جن حالات و واقعات کا سامنا کرنے سے گریز کرنے لگا ہو، اپنے ذہن میں اور حقیقی زندگی میں ان کا سامنا کرنا
- سانحے کی یادوں اور ان سے منسلک ذہنی تصویروں کو دوبارہ اپنے ذہن میں لانا تا کہ وہ انسان کے ایکسپیریئنس یعنی تجربات کا ایک حصّہ بن سکیں
- جن لوگوں کو ابھی تک اس سانحے کے ہونے پر یا ا سکی ممکنہ وجوہات پر شدید غصّہ آتا ہو، ان کو اپنے غصّے پہ قابو پانے کے کورسز فراہم کرنا
سی بی ٹی کے علاوہ پی ٹی ایس ڈی کے علاج کے لئے ای ایم ڈی آر اور نیریٹو ایکسپوژر تھراپی بھی استعمال ہوتی ہیں۔ میں خود ان میں ٹرینڈ تھراپسٹ نہیں ہوں اس لئے میرے لئے ان کو سمجھانا بھی مشکل ہو گا اور پڑھنے والے کے لئے صرف تحریر کی مدد سے ان کو سمجھنا بھی۔ جو لوگ ان کے بارے میں زیادہ جاننا چاہیں، وہ ان ویب سائٹس کی مدد لے سکتے ہیں۔
www.emdr.com
https://www.apa.org/ptsd-guideline/treatments/narrative-exposure-therapy
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
- Psychological treatments are generally preferred
- Medications useful when significant co-morbid depression, or psychological treatments not working
- Trauma-focused Cognitive Behaviour Therapy or CBT and Eye Movement Desensitization and Reprocessing or EMDR more effective than less specific treatments such as relaxation exercises
MAIN COMPONENTS OF TRAUMA-FOCUSED CBT
- Information about the normal response to severe trauma,
- Information about the importance of confronting situations and memories related to the traumatic event
- Self-monitoring of symptoms
- Exposure in imagination, and then in real life, to situations that are being avoided
- Recall of the images of the traumatic events, to integrate these with the rest of the patient’s experience
- Cognitive restructuring “methods that help people to think differently about a traumatic or negative event” through the discussion of evidence for and against the appraisals and assumptions
- Anger management for people who still feel angry about the traumatic events and their causes
EYE MOVEMENT DESENSITIZATION AND REPROCESSING (EMDR)
- “Shapiro’s (2001) Adaptive Information Processing model posits that EMDR therapy facilitates the accessing and processing of traumatic memories and other adverse life experience to bring these to an adaptive resolution.”
For more info please see www.emdr.com
NARRATIVE EXPOSURE THERAPY
- It is understood that the story a person tells himself or herself about their life influences how the person perceives their experiences and wellbeing. Framing one’s life story solely around the traumatic experiences leads to a feeling of persistent trauma and distress. With the guidance of the therapist, a patient establishes a chronological narrative of his or her life, concentrating mainly on their traumatic experiences, but also incorporating some positive events.
https://www.apa.org/ptsd-guideline/treatments/narrative-exposure-therapy
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
SSRISs
- Paroxetine (20-40 mg/day) and Sertraline (50-200 mg per day) are licensed for treatment of PTSD
- Others such as fluoxetine and citalopram are not licensed but used commonly
- Venlafaxine and Mirtazapine can also be used if SSRIs don’t work
SLEEP
- Difficulty in falling and staying asleep, and nightmares, common in PTSD
- Mirtazapine up to a dose of 45 mg at night can be used
- Prazosin is sometimes used for nightmares though this is still not a licensed indication for Prazosin
- Zopiclone on a short-term basis can be used, should not be used every night for more than 2-3 weeks because of the risk of addiction
HYPER-AROUSAL
- Symptoms include extreme vigilance, persistent anxiety, always on the lookout for dange
- Benzodiazepines such as diazepam can be used, should not be used daily for more than 2-3 weeks because of the risk of addiction
- Buspirone can be used
- Antidepressants may be helpful
- Propranolol can be used for autonomic symptoms such as tremors, rapid heart rate, palpitations
Credit: Oxford Handbook of Psychiatry, 4th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
آسٹریلیا میں چار ہزار خواتین کا جسمانی اور جنسی تشدّد کے بارے میں ایک سروے ہوا تھا۔ اس کے کچھ نتائج یہ ہیں۔
- تقریباً ایک چوتھائی (پچیس فیصد) خواتین نے یہ بتایا کہ وہ جنسی یا جسمانی تشّد کا نشانہ بن چکی ہیں جس میں گھریلو تشدّد کا نشانہ بننا اور مستقلاً پیچھا کیا جانا شامل ہیں۔
- جو خواتین اس طرح کے سانحات سے گزر چکی تھیں، ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی میں پی ٹی ایس ڈی کی بیماری کی علامات موجود تھیں۔
- اس سے بھی زیادہ تعداد میں خواتین میں موڈ ڈس آرڈر مثلاً ڈپریشن (۳۴ فیصد)، اور اینگزائٹی ڈس آرڈر یعنی گھبراہٹ کی بیماری (۳۸ فیصد) کی علامات موجود تھیں۔
- تقریباً ۳۰ فیصد خواتین کسی نشے کے استعمال کی بیماری کا شکار تھیں۔
ان بیماریوں کے علاوہ متاثّرہ خواتین میں اس طرح کی نفسیاتی تکالیف بھی موجود تھیں،
- بے انتہا شرمندگی اور ندامت محسوس کرنا
- ہر وقت یہ ڈر خوف محسوس کرنا کہ کہیں دوبارہ اس طرح کے تشدّد کا سامنا نہ کرنا پڑے
- خود اعتمادی کھو دینا، اپنے آپ کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگنا
- ہر وقت یہ سوچتے رہنا کہ میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوا
- جو کچھ ہوا اس کے لئے اپنے آپ کو الزام دینا اور یہ سوچنے لگنا کہ ضرور میری ہی کوئی غلطی ہو گی اس لئے میرے ساتھ ایسا ہوا
- اگر جنسی تشدّد کرنے والا خاندان کا کوئی فرد ہو تو انسانیت پہ سے اعتبار ختم ہوجانا، عموماً ایسے خاندانوں میں دوسرے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسے گھناؤنے عمل کا ارتکاب کر رہا ہے، لیکن خاندان کی "عزّت" کم ہو جانے کے خوف سے کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور سب خاموش رہتے ہیں
- ہر وقت غصّے میں رہنا، چڑچڑاپن پیدا ہو جانا
- اپنے اوپر بھروسہ اتنا کم ہو جانا کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں کا محتاج سمجھنے لگے
ماخوذ: آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
AUSTRALIAN SURVERY OF 4000 WOMEN
- 25 % - gender-based violence (rape and sexual assault, domestic violence, stalking)
- PTSD – 25%
- Mood Disorders – 34%
- Anxiety Disorders – 38%
- Substance use disorders – 29%
Victims also feel;
- Humiliated and ashamed
- Vulnerable to further attack
- Lose self-confidence and self-esteem
- “why me?” /
- blame themselves
- Intra-familial abuse: betrayal and secrecy, wall of silence
- Problems in trusting
- Persistent anger and irritability
- Excessive dependence
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جسمانی اور جنسی تشدّد کے قلیل اور طویل المدّتی نفسیاتی اثرات کی تحقیق پہلے عورتوں پہ کی گئی تھی۔ بعد میں جب مردوں پہ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جو مرد اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں، ان میں بھی اسی طرح کے نفسیاتی مسائل نظر آتے ہیں۔
ان صورتوں میں ان نفسیاتی مسائل کے طویل عرصے تک نظر آتے رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے:
- جب حملے کا شکار بننے والے انسان کو لگے کہ اس حملے میں اس کی جان خطرے میں تھی
- جب متاثّرہ فرد پہلے سے ہی معاشرتی یا نفسیاتی مسائل کا شکار تھا
- جن لوگوں میں بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کی ہسٹری ہو
- جو لوگ پہلے کسی نفسیاتی بیماری یا نشے کی عادت کا شکار رہ چکے ہوں
- جن لوگوں کے آس پاس سہارا دینے والے دوست یا خاندان والے موجود نہ ہوں
علاج:
- جو لوگ جنسی یا جسمانی تشدّد کا نشانہ بنے ہوں ان کے علاج کے اصول بنیادی طور پر وہی ہوتے ہیں جو کسی اور وجہ سے پی ٹی ایس ڈی شروع ہونے والے لوگوں کے علاج کے ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت سائیکوتھراپی یعنی باتوں کے ذریعے نفسیاتی طریقہٴ علاج کی ہوتی ہے
- حالانکہ ان واقعات اور سانحات کو یاد کرنا بہت شدید تکلیف کا باعث بنتا ہے، لیکن سائیکو تھراپی میں ذہنی طور سے ان سانحات سے دوبارہ گزرنا ان کے علاج کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
- جو متاثرہ لوگ اپنے آپ کو اس سانحے کا الزام دینے لگے ہوں، یا اپنے آپ کو ہر وقت اس ڈر خوف میں محسوس کریں کہ وہ اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ ایسا سانحہ دوبارہ ہونے سے نہیں روک سکیں گے، ان کے ان خیالات کا علاج بھی ضروری ہوتا ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Similar problems in males as in females
Problems more likely to persist if;
- Actual or perceived threat to life
- Previous psychological and social problems
- Past victimization, particularly CSA
- Past psychiatric illness or substance abuse
- Lack of social support
TREATMENT – similar to that for other kinds of PTSD
- Prolonged exposure by reliving the events in imagination
- Overcoming feelings of vulnerability and self-blame
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
کسی انسان کے کسی قریبی عزیز یا دوست کا انتقال ہو جائے تو اس کے بعد اس انسان کا جو جذباتی اور عملی ردّ عمل ہوتا ہے، اسے گریف کہتے ہیں۔ یہ بالکل نارمل ہوتا ہے اور کوئی بیماری نہیں ہے۔
گریف ری ایکشن کو عام طور سے تین اسٹیجز یا مرحلوں میں بانٹا جاتا ہے۔ ہر انسان میں یہ مرحلے اسی ترتیب سے نہیں ہوتے لیکن ان سے اس ری ایکشن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
پہلا مرحلہ:
- یہ مرحلہ انتقال کی خبر ملنے کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور کچھ دن تک جاری رہ سکتا ہے۔
- ڈینائل یعنی انکار۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی انسان کو کسی بہت قریبی شخص کے انتقال کی خبر اچانک ملتی ہے تو بہت سے لوگوں کا پہلا ردِّ عمل یہ ہوتا ہے کہ "نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا!" اس کی تفصیل یہ ہے کہ کسی حقیقت کو ماننے کے دو درجے ہوتے ہیں، ایک علم کا، اور ایک جذبات کا۔ علم کے طور پر یا انٹیلیکچوئلی تو انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ ایسا واقعی ہو چکا ہے، لیکن جذباتی طور پہ اسے اس حقیقت کو ماننے اور تسلیم کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
- بے حس ہو جانا، کوئی جذباتی ردِّ عمل ظاہر نہ کرنا۔ بہت سے لوگ جب اچانک شاک میں آتے ہیں تو بالکل خاموش، گم سم، بے حس ہو جاتے ہیں، جیسے کہ ان کے جذبات ہی نہیں ہیں۔ اس کی بھی وجہ یہ ہے کہ دل و دماغ کو اس نئی حقیقت کو جذباتی طور پہ تسلیم کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور اس کے بعد ان کا جذباتی ردِّ عمل شروع ہوتا ہے۔
- جب انسان کو یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی ایسا ہو گیا ہے تو اس کو شدید بے چینی ہوتی ہے اور وہ بے تابی سے گزرے ہوئے شخص کی تلاش کرنے لگتا ہے جیسے کہ ڈھونڈنے سے وہ شاید مل جائے۔
دوسرا مرحلہ:
- یہ مرحلہ چند ہفتوں سے لے کے چھ مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے، لیکن بعض لوگوں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک چلتا ہے۔
- اس میں شدید اداسی ہوتی ہے، رونا آتا ہے، شدید تنہائی محسوس ہوتی ہے۔
- انسان کو رہ رہ کے چلے جانے والے شخص کا خیال بہت شدّت سے آتا ہے اور اس کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔
- بہت سے لوگوں کو شدید گھبراہٹ ہوتی ہے اور گھبراہٹ کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔
- نیند اور بھوک اڑ جاتی ہے۔
- شدید ندامت اور گِلٹ ہوتی ہے کہ ہم نے چلے جانے والے کا اس طرح سے خیال نہیں رکھا جس طرح رکھنا چاہیے تھا، اور یا اس کے لئے فلاں فلاں کام نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
- بعض لوگوں کو شدید غصّہ آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ چلے جانے والے انسان پہ تو اپنا غصّہ نہیں نکال سکتے، اس لئے اس کے بدلے مثلاً ڈاکٹروں یا نرسوں پہ اپنا غصّہ نکالتے ہیں کہ انہوں نے صحیح طرح سے ہمارے عزیز کا خیال نہیں رکھا، اور اگر وہ صحیح سے علاج کرتے تو اس کا انتقال نہیں ہوتا۔
- بہت سے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انتقال کر جانے والا کہیں قریب میں موجود ہے۔ بعض لوگوں کو اس کی شبیہ نظر آتی ہے، بعض کو اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
- چلے جانے والے کی یادیں ہر وقت دماغ میں آتی رہتی ہیں۔
- انسان دوسرے لوگوں سے کٹ جاتا ہے اور ملنا جلنا کم کر دیتا ہے۔
- بعض لوگوں کو مختلف قسم کی جسمانی بیماریوں کی علامات ہونے لگتی ہیں۔ بعض کو اسی طرح کی علامات ہونے لگتی ہیں جیسی کہ انتقال کر جانے والے کو تھیں۔
تیسرا مرحلہ:
- اس میں صدمے کی شدّت آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے اور انسان نارمل زندگی کی طرف واپس لوٹنے لگتا ہے۔
- اس کے روزمرّہ کے کام دوبارہ شروع ہونے لگتے ہیں۔
- چلے جانے والے کی یادیں ختم تو نہیں ہوتیں لیکن جب انسان اس کو یاد کرتا ہے تو اس یاد سے منسلک جذبات کی شدّت کم ہو جاتی ہے۔
- بچھڑ جانے والے شخص کے ساتھ گزارے وقت کے خوشگوار لمحات کو یاد کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Grief is the emotional and behavioural response to losing a loved one though death.
The 1st stage of grief – a few hours to several days
- Denial – difficult to believe that it has actually happened
- Numbness – lack of emotional response
- Pining and searching
The 2nd stage of grief – a few weeks to about 6 months, may be longer
- Extreme sadness, weeping, loneliness
- Overwhelming waves of yearning
- Anxiety, panic attacks
- Poor sleep and appetite
- Guilt
- Anger, projection of that anger/blame on healthcare providers
- Presence/hallucinations
- Preoccupation with memories of the deceased – intrusive images
- Social withdrawal
- Physical symptoms
The 3rd stage of grief – resolution – (weeks to months)
- Experiences of grief diminish
- Resumption of normal activities
- Memories remain but emotions become less intense
- Good memories remain
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
کسی قریبی عزیز کے انتقال پہ انسان کا ردِّ عمل ہوتا ہے جس کو انگریزی میں گریف کہتے ہیں، اس کو اس وقت غیر صحت مندانہ اور ابنارمل سمجھا جاتا ہے جب؛
جب انسان کا قدرتی ردِّ عمل شروع ہونے میں بہت دیر ہو، یا اس کا انتقال کرنے والے سے جتنا قریبی تعلّق تھا اس کی مناسبت سے وہ کوئی ردِّ عمل ہی ظاہر نہ کرے، مثلاً گریف کا پہلا مرحلہ دو ہفتے تک شروع ہی نہ ہو، یا
گریف بہت زیادہ شدّت کا ہو یا بہت طویل عرصے تک چلے مثلاً گریف کا دوسرا مرحلہ چھ مہینے سے زیادہ طویل عرصے تک چلتا رہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا کوئی لگا بندھا قانون یا اصول نہیں ہے کہ گریف کا پہلا مرحلہ اتنے دنوں میں اور دوسرا اتنے دنوں میں ختم ہو جانا چاہئے۔ ہر انسان کا گریف الگ ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا گریف بعض وجوہات کی بناء پہ زیادہ طویل عرصے تک چلتا ہے اور آہستہ آہستہ ختم ہوتا ہے، جس کی تفصیل اگلی تحریر میں آئے گی۔
بعض لوگ جس عزیز کا اتنقال ہوا ہو، اس سے متعلّقہ تمام باتوں سے، ان کی چیزوں کو دیکھنے سے، یا ان ان تمام باتوں سے گریز کرنے لگتے ہیں جو انہیں اس شخص کی یاد دلائیں۔ ایسا کرنے سے صدمے کی شدّت کا عرصہ کم ہونے کے بجائے اور طویل ہو جاتا ہے۔
پیچیدہ گریف:
جیسا کہ پہلے آیا، جب گریف یا کسی عزیز کے انتقال کے صدمے کا ردِّ عمل بے انتہا شدید ہو اور بہت طویل عرصے تک چلتا رہے، اسے پیچیدہ (کومپلکس) گریف کہتے ہیں۔
جس شخص کو کومپلکس گریف ہو وہ انتقال کرنے والے کو بہت زیادہ شدّت سے یاد کرتا ہے اور اس کی مفارقت میں تڑپتا رہتا ہے۔ اس کا دل شدّت سے یہ چاہتا رہتا ہے کہ انتقال کر جانے والا کہیں سے واپس آ جائے۔ اس کے دل کو اس بات پہ قرار ہی نہیں آتا کہ وہ انتقال کر جانے والا اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
اس کو زندگی بے مقصد اور بے معنی لگتی ہے۔
یا تو وہ ہر وقت بہت شدّت سے انتقال کر جانے والے کی باتوں، یادوں اور چیزوں سے گریز کرتا ہے، یا دوسری انتہا پہ جا کے ہر ہر وقت اسی کی باتوں، یادوں، یا اس کی چیزوں کو دیکھنے میں لگا رہتا ہے۔
اس میں اکثر لوگوں کی نیند خراب ہو جاتی ہے، وہ سکون کے لئے دوائیوں یا نشہ آور چیزوں کا سہارا لینے لگتے ہیں، اور ان کے روز مرّہ کے کاموں اور لوگوں سے ملنے جلنے میں فرق پڑنے لگتا ہے۔
ماخوذ: آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Grief is considered abnormal if;
- It is delayed or inhibited, - first stage not occurred by 2 weeks, or
- Unusually intense and prolonged – lasts for more than 6 months – complicated or pathological
Grief is very individual
Avoidance makes grief worse
COMPLICATED GRIEF
- Intense and prolonged reaction to bereavement
- Strong yearnings for the deceased
- Life looks pointless
- Reminders of loss either persistently avoided, or continuously sought out
- Disturbed sleep, substance use, impaired functioning
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
کسی کے انتقال کا صدمہ بہت زیادہ شدید ہونے یا طویل عرصے تک چلنے کا امکان اس وقت بڑھ جاتا ہے کہ جب کسی کا انتقال اچانک یا بالکل غیر متوقع طور پہ ہوا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی شدید بیماری مثلاً کینسر میں کچھ عرصے سے مبتلا ہو تو گھر والوں کے ذہن میں یہ خیال ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کا انتقال کسی وقت ہو سکتا ہے۔ اس کو ہم ایسے بھی کہتے ہیں کہ ان کا گریف مریض کی بیماری کے دوران ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی نوجوان صحت مند شخص صبح روز کے معمول کے مطابق کام پہ جانے کے لئے نکلے اور اچانک یہ انہونی خبر آئے کہ اس کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تو گھر والوں کے ذہن کے لئے اس صدمے کو قبول کرنے میں وقت لگتا ہے اور ان کا گریف بہت طویل عرصے تک چلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اگر پیچھے رہ جانے والوں میں سے کسی کا مرحوم سے بہت زیادہ قریبی تعلق رہا ہو، یا اس طرح کا تعلق رہا ہو جس میں وہ مرحوم پہ اپنی ضروریات کے لئے بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہو یا رہی ہو، اور اس طرح کا اتار چڑھاؤ والا تعلّق رہا ہو جس میں کبھی بہت قریب ہو جائیں اور کبھی بہت لڑائی ہو یا غصّہ و نفرت ہو جائے، ان تمام صورتوں میں گریف کے پیچیدہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر پیچھے رہ جانے والے؛
میں خود اعتمادی بہت کم ہو اور جھجک اور ہچکچاہٹ بہت زیادہ ہو،
اس کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں شدید دشواری ہوتی ہو،
یا اس میں پہلے سے کسی نفسیاتی بیماری کی ہسٹری ہو، تو ان تمام صورتوں میں گریف طویل عرصے تک چلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر مثال کے طور پہ شوہر یا بیوی میں سے ایک کا انتقال ہو جائے اور ان کے پیچھے رہ جانے والوں میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوں جن کی وجہ سے اور جن کے سامنے رہ جانے والا پیرنٹ کھل کے اپنے صدمے کے جذبات کا اظہار نہ کرسکے اس صورت میں گریف کے پیچیدہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- When death was sudden or unexpected
- Very close, dependent, or ambivalent relationship
- Survivor;
o Insecure
o Difficulty in expressing feelings
o Previous psychiatric disorder
- Dependent children, cannot express grief openly
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا، گریف ایک بالکل نارمل قدرتی ردِّ عمل ہے جو کسی قریبی عزیز یا دوست کے انتقال کے بعد تقریباً ہر انسان میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی بیماری نہیں ہے جس کے علاج کی ضرورت ہو۔ زیادہ تر لوگوں میں عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ اپنا غم بانٹنے اور ان سے بات کرنے سے یہ غم آہستہ آہستہ ہلکا ہوتا جاتا ہے اور انسان اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔
تقریباً تمام معاشروں میں کسی کے انتقال کے بعد اپنے مخصوص رسوم و رواج ہوتے ہیں جن کو پورا کیا جاتا ہے، مثلاً ہمارے معاشرے میں نمازِ جنازہ اور تدفین ہے۔ بہت سے لوگوں کو ان سے سکون ملتا ہے اور ایک کام کے پورا ہونے (کلوژر) کا احساس ہوتا ہے۔
بعض دفعہ لوگوں کے اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ان کے گریف کی نوعیت میں بہت فرق پڑ جاتا ہے، مثلاً ایک ایسی خاتون کے شوہر کا انتقال ہونے میں جب شوہر کی آمدنی پہ گھر چلتا تھا اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں، اور ایسی خاتون کے شوہر کا انتقال ہونے میں جس کے بچے بڑے ہوں اور مالی طور سے خود مختار ہوں اور اس کو سہارا دے سکتے ہوں، بہت فرق ہوتا ہے۔
دوائیاں:
- گریف کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے جس کا دوائیوں کے ذریعے علاج کیا جائے۔
- اگر پہلے مرحلے میں نیند بالکل اڑ گئی ہو یا گھبراہٹ بہت زیادہ شدید ہو تو نیند یا گھبراہٹ کی دوائیں چند دن کے لئے دی جا سکتی ہیں۔
- دوسرے مرحلے میں اگر ڈپریشن کی علامات اتنی زیادہ ہوں کہ اس کی تشخیص کی جا سکے، تب تو اینٹی ڈپریسنٹ دینے سے فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن ایسی کوئی ریسرچ نہیں ہے جو یہ بتاتی ہو کہ صرف گریف کے لئے اینٹی ڈپریسنٹ دینے سے کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Grief is a normal human response to loss.
Most people pass through it with the help of family and friends.
Medications
- Do not have a proven role except maybe anti-anxiety or hypnotic medicines for a few days
- Antidepressants only if clinically depressed
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
o بعض دفعہ لوگوں کے مخصوص حالات کی وجہ سے، یا ان کا صدمہ بہت شدید ہونے یا بہت طویل عرصے تک چلنے کی وجہ سے ان کو کاؤنسلنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کاؤنسلنگ کی بنیادی باتیں یہ ہیں۔
o ان لوگوں کو اپنے صدمے کے بارے میں بات کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔
o انسان کے دل میں جو شدید جذبات ہوں، مثلاً شدید اداسی، یا اس بات کا افسوس کہ میں نے مرحوم کے لئے فلاں فلاں چیزیں نہیں کیں جو کرنی چاہئیں تھیں، یا شدید غصّے کے جذبات کہ ایسا کیوں ہوا، ان سب کا اظہار کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
o لوگوں کے لئے اچھا ہوتا ہے کہ ان کو گریف یا صدمے کے بعد کے نارمل ردِّ عمل کے بارے میں بتایا جائے تا کہ انہیں پتہ چلے کہ یہ غم کس طرح سے آہستہ آہستہ ہلکا ہوتا ہے، اور یہ کہ ہر انسان اس طرح کے حالات میں انہیں تکالیف کا سامنا کرتا ہے۔
o بعض لوگوں کو ایسی علامات کا سامنا ہوتا ہے جو بظاہر بہت عجیب یا پریشان کن لگتی ہیں مثلاً مرحوم کی آواز سنائی دینا، اس کی شبیہ یا اس کا سایہ نظر آنا، ایسا محسوس ہونا کہ جیسے وہ یہیں موجود ہے۔ ان کو اگر پہلے سے یہ پتہ ہو کہ کسی قریبی عزیز کے انتقال کے فوراً بعد ایسا ہونا نارمل ہے اور بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے، تو ان کی پریشانی کم ہو جاتی ہے۔
o ان کو اس حقیقت کو مان لینے میں مدد دی جاتی ہے کہ یہ سانحہ رونما ہو چکا ہے اور اب ایک حقیقت ہے۔
o ان کو گریف کے مختلف مرحلوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور ان سے گزرنے میں مدد دی جاتی ہے۔
o ان کو اس میں مدد دی جاتی ہے کہ اب باقی ماندہ زندگی کو بچھڑے ہوئے عزیز کے بغیر کس طرح گزارنا ہے۔
o انسان جب تک انکار یعنی ڈینائل کے مرحلے سے نہیں گزرتا، یعنی یہ تسلیم کر لینا نہیں شروع کرتا کہ وہ بچھڑا ہوا شخص اب واپس نہیں آئے گا، اس کا غم ہلکا ہونا اور اس نئی حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنا شروع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں مرحوم کے جسم کو دیکھنے، ان کی تدفین میں خود حصّہ لینے، اور اس کی چھوڑی ہوئی چیزوں کا انتظام کرنے سے مدد ملتی ہے۔
o انسان کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ سے اپنی نارمل زندگی گزارنا شروع کرے، لوگوں سے ملنا جلنا شروع کرے، ان لوگوں سے جن پہ ا سکو بھروسہ ہو ان سے اس صدمے کے بارے میں بات کرے، اور مرحوم کے ساتھ جو اچھی خوشگوار یادیں ہوں ان کو یاد کیا کرے۔
o یہ سوچے کہ مرحوم کی کیا خواہش ہوتی کہ وہ اس کے انتقال کے بعد کیا کام کرے، اور ان کاموں کو کرنا شروع کرے۔
ماخوذ: شارٹر آکسفورڈ ٹیکسٹ بک آف سائیکائٹری، ساتواں ایڈیشن
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
- Talk about the loss
- Express feelings of sadness, guilt or anger
- Learn about the normal process of grieving
- Warn about unusual experiences such as hallucinations, illusions, feeling a presence
- Accept that the loss is real
- Work through the stages of grief
- Adjust to life without the deceased
- Viewing the dead body, putting away the belongings
- Discuss practical matters like impact on life
- Resume social contact, talk to other people about the loss, remember happy times
- Consider positive activities that the deceased would have wanted the survivor to undertake
Credit: Shorter Oxford Textbook of Psychiatry, 7th edition