(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسٹنٹ سایئکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
شیزوفرینیا اور سائیکوسس میں کیا فرق ہوتا ہے؟
کیا شیزوفرینیا کے ہر مریض میں تمام علامات موجود ہوتی ہیں؟
شیزوفرینیا ہو جانے کی نفسیاتی اور سماجی وجوہات
شیزوفرینیا ہو جانے کی جسمانی وجوہات
شیزوفرینیا کے مریضوں کا مستقبل کیسا ہوتا ہے؟
شیزوفرینیا سے صحتیابی کے لیے مصروفیت کی اہمیت
شیزوفرینیا کی علامات شروع ہونے کے بعد علاج جلدی شروع کرنے کی اہمیت
کیا شیزوفرینیا میں اینٹی سائیکوٹک دوائیں لینے سے فائدہ ہوتا ہے؟
شیزوفرینیا کے علاج کے لیے اینٹی سائیکوٹک دوا کتنے عرصے تک لینی چاہیے؟
شیزوفرینیا میں اینٹی سائیکوٹک دوائیں استعمال کرنے کے بارے میں کچھ بنیادی اصول
شیزوفرینیا کے علاج میں بیماری کی ابتدائی علامات پہچاننے کی اہمیت
شیزوفرینیا کی بیماری کو واپس آنے سے روکنے کے لیے مریض خود کیا کر سکتا ہے؟
شیزوفرینیا کی بیماری میں غیبی آوازوں کو کنٹرول کرنا
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
اینٹی سائیکوٹک دوائیاں کن بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں؟
اینٹی سائیکوٹک دوائیاں بنیادی طور سے شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان کو شدید ڈپریشن کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیں لینے سے کس طرح کے فائدے ہوتے ہیں؟
اینٹی سائیکوٹک دوائیاں اس طرح کی علامات کو کم کرتی ہیں:
- غیبی آوازیں آنا یعنی ایسی آوازیں سننا جو کسی دوسرے کو سنائی نہ دیں۔ (ہیلیو سی نیشن)
- ایسے خیالات ہونا جن کی کوئی بنیاد نہ ہو لیکن مریض کو ان پہ اتنا پکا یقین ہو کہ ان کے غلط ہونے کے پختہ ثبوت دیکھنے اور سننے کے بعد بھی وہ اپنا یقین بدلنے کو تیار نہ ہو۔ (ڈیلیوزن)
- خیالات گڈمڈ ہو جانا، سوچیں الجھ جانا اور واضح نہ رہنا (تھاٹ ڈس آرڈر)
- بائی پولر ڈس آرڈر میں موڈ کا بہت زیادہ اوپر یا نیچے جانا یعنی بغیر کسی ظاہری وجہ کے بے انتہا خوشی اور بے انتہا اداسی ہونا
- اتنا شدید ڈپریشن جو صرف اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں سے ٹھیک نہ ہو رہا ہو
اینٹی سائیکوٹک دوا کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
بہت سارے مریض ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں سب سے اچھی اینٹی سائیکوٹک کون سی ہے، یا یہ بتائیں کہ میرے لیے سب سے اچھی دوا کون سی ہو گی؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہ تھوڑی سی تفصیل سمجھنا ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کلوزاپین کو چھوڑ کے تمام اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے تقریباً برابر ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے کسی ایک مریض کے لیے اینٹی سائیکوٹک دوا کا انتخاب اس بنیاد پہ نہیں کیا جاتا کہ کون سی دوا زیادہ موثر ہے (اس لیے سب تقریباً برابر ہی موثر ہیں) بلکہ اس بنا پہ کیا جاتا ہے اس دوا کے سائیڈ ایفیکٹس یعنی مضر اثرات کیا ہیں۔ مثلاً کسی مریض کو زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسی دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے جس سے نیند آتی ہو۔ اس کے برعکس کسی مریض کے لیے اہم ہوتا ہے کہ اس کو دن میں نیند نہ آئے تا کہ وہ اپنا کام کر سکے، اس لیے اس کے لیے ایسی دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے جس سے نیند نہ آتی ہو۔
کلوزاپین دوسری تمام اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے زیادہ موثر ہے، لیکن اس سے کچھ شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں اس لیے اس کو صرف اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب مریض کم از کم دو اور اینٹی سائیکوٹک دوائیں استعمال کر چکا ہو اور اسے یا ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا ہو، یا اتنے شدید مضر اثرات ہوئے ہوں کہ اسے وہ دوائیں بند کرنی پڑی ہوں۔
یہ پہلے سے بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کس مریض کو کس اینٹی سائیکوٹک دوا سے فائدہ ہو گا۔ اس لیے پہلے مریض سے یہ پوچھ کے کہ اس کے لیے کن مضر اثرات سے بچنا زیادہ اہم ہے، مثلاً یہ کہ دن میں نیند نہ آئے یا وزن نہ بڑھے، ایک دوا تجویز کی جاتی ہے۔ اگر چار سے چھ ہفتوں میں اس دوا سے فائدہ نہ ہو، یا اس دوا کے مضر اثرات اتنے زیادہ ہوں کہ مریض کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو، تو اسے بند کر کے کوئی دوسری دوا دی جاتی ہے جس کے مضر اثرات مریض کے لیے اتنے نقصان دہ نہ ہوں۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیں کئی شکلوں میں آتی ہیں مثلاً گولی، کیپسول، شربت، اور انجیکشن کی شکل میں۔ بعض انجیکشن ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو دو سے چار ہفتے میں ایک دفعہ لینا ہوتا ہے۔ اس سے دوا عضلات میں اسٹور ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ خون میں شامل ہوتی ہے۔ بہت سے مریض انجیکشن کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اس سے روزانہ گولی کو لینا یاد نہیں رکھنا پڑتا اور دو سے چار ہفتے میں ایک دفعہ انجیکشن لے کے جان چھوٹ جاتی ہے۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے ممکنہ مضر اثرات
ساری اینٹی سائیکوٹک دوائیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں سے بعض کے مضر اثرات یعنی سائیڈ ایفیکٹس ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان دوائیوں کا اثر ہر مریض پہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایک ہی دوا سے ایک مریض کو بہت فائدہ پہنچتا ہے، جبکہ دوسرے مریض کو بالکل بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک دوا سے کسی مریض کو بہت شدید مضر اثرات ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے مریض کو اسی دوا سے کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے۔ اسی لیے جب مریض یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بہترین اینٹی سائیکوٹک کون سی ہے؟ تو ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ ہر مریض کے لیے بہترین اینٹی سائیکوٹک دوا الگ ہوتی ہے، اور اس کا انحصاراس بات پہ ہوتا ہے کہ ا سکو کس دوا سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اور بہت کم مضر اثرات ہوتے ہیں۔ اور یہ جاننا عام طور سے اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ مریض وہ دوا کچھ عرصے کے لیے استعمال نہ کرے۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے عام طور سے نظر آنےوالے اور زیادہ شدید مضر اثرات یہ ہیں:
- بلڈ پریشر کا کم ہو جانا، بعض دفعہ اس کا اس طرح سے پتہ چلتا ہے کہ مریض کو لیٹے یا بیٹھے سے اچانک کھڑے ہونے پر چکر آنے لگتے ہیں
- دن میں نیند آتے رہنا
- وزن بڑھ جانا
- ذیابطیس ہونے کا خطرہ بڑھ جانا
- منہ خشک رہنا
- قبض ہو جانا
- عضلات میں سختی آ جانا یا رعشہ ہونا
- سوچنے میں سستی محسوس ہونا، توجہ دینے میں مشکل ہونا
- ایسی بے چینی ہونا جس کی وجہ سے آرام سے بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے
- عورتوں میں ماہواری بےقاعدہ ہوجا نا یا آنا بند ہو جانا
- منہ، زبان یا جبڑوں میں غیر ارادی حرکات شروع ہو جانا۔ کچھ مریضوں میں یہ غیر ارادی حرکات کمر، بازوؤں یا ٹانگوں میں بھی نمودار ہو سکتی ہیں۔ یہ مضر اثرات عام طور سے ان لوگوں میں نظر آتے ہیں جو طویل عرصے سے اینٹی سائیکوٹک دوا لے رہے ہوں یا معمّر ہوں
اگر آپ اینٹی سائیکوٹک شروع کرنے والے ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور پوچھیں کہ اس دوا کے عام طور سے نظر آنے والے مضر اثرات کون سے ہوتے ہیں، اور یہ کہ ان میں سے کون سے مضر اثرات وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض شروع میں مضر اثرات نظر آنے پہ گھبرا کے دوا نہیں بند کر دیتا۔ اسی طرح سے یہ بھی پوچھیں کہ کس طرح کے مضر اثرات ہوں تو یہ خطرے کی بات ہو سکتی ہے اور فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
ڈیپو (طویل عرصے تک کام کرنے والا) اینٹی سائیکوٹک انجیکشن
بعض مریضوں کے لیے دوا کی گولی کو روزانہ لینا یاد رکھنا اور وقت پر لینا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے بعض ایسے اینٹی سائیکوٹک انجیکشن آتے ہیں جن کو چند ہفتے میں ایک دفعہ مسلز (عضلات) میں لگانا ہوتا ہے۔ اس سے دوا انسان کے عضلات میں محفوظ ہو جاتی ہے اور اگلے کئی ہفتوں میں آہستہ آہستہ عضلات سے خون میں شامل ہوتی ہتی ہے۔ یہ انجیکشن زیادہ تر دو سے چار ہفتے میں ایک دفعہ لگانے ہوتے ہیں۔
ڈیپو انجیکشن کے فوائد
چونکہ ڈیپو انجیکشن صرف کوئی نرس یا ڈاکٹر ہی لگا سکتے ہیں جس کے لیے مریض کو ہر چند ہفتوں میں انہیں دیکھنا ہوتا ہے، اس وجہ سے مریض کا ہر کچھ ہفتے پہ خود بخود ہی چیک اپ ہوتا رہتا ہے۔ اگر مریض کو بیماری کی کچھ علامات ہو رہی ہوں، یا دوا سے کچھ مضر اثرات محسوس ہو رہے ہوں، تو اس ملاقات میں مریض اپنے ڈاکٹر یا نرس کو یہ باتیں بتا سکتا ہے، اور ان شکایات کا ازالہ جلدی ہو سکتا ہے۔
ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ جن مریضوں کو روزانہ گولیاں لینا یاد رکھنا پڑتا ہے، ان کے مقابلے میں جو لوگ ڈیپو انجیکشن کے ذریعے علاج کروا رہے ہوتے ہیں ان کو بیماری کے اٹیک بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں اور ہسپتال میں داخلے کی ضرورت بھی نسبتاً کم پڑتی ہے۔
ڈیپو انجیکشن سے ہونے والے ممکنہ مضر اثرات
انجیکشن لگنے کے بعد بعض لوگوں کو بدن میں جس جگہ پہ انجیکشن لگتا ہے وہاں کچھ وقت کے لیے درد یا تکلیف ہو سکتے ہیں۔
اگر کسی وجہ سے دوا کا ڈوز بڑھانا پڑے مثلاً مکمل فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے، یا ڈوز کم کرنا پڑے مثلاً مضر اثرات کی وجہ سے، تو دونوں صورتوں میں خون میں دوا کی مقدار مستقل طور پر بڑھنے یا کم ہونے میں کچھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ فوری طور پہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ دوا کا ڈوز بڑھانے کی وجہ سے فائدہ ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اسی طرح سے اگر دوا کی وجہ سے مضر اثرات ہو رہے ہوں تو گولیوں کے مقابلے میں انجیکشن کا ڈوز کم کرنے یا بند کرنے کی صورت میں بھی ان مضر اثرات کو ختم ہونے میں نسبتاًزیادہ وقت لگتا ہے۔
کلوزاپین شیزوفرینیا کے علاج کے لیے کب استعمال کی جاتی ہے؟
کلوزاپین وہ واحد اینٹی سائیکوٹک دوا ہے جس کا فائدہ ریسرچ کے مطابق دوسری تمام اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، اور اس سے ان مریضوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے جن کو دوسری اینٹی سائیکوٹک ادویات سے مکمل افاقہ نہ ہوا ہو۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی سوچے کہ اگر کلوزاپین اتنی زیادہ موثر ہے تو شروع سے ہی اور اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کا تجربہ کرنے کے بجائے کلوزاپین ہی کیوں نہیں دے دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلوزاپین سے بعض شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں (جن کی تفصیل آگے آئے گی)۔ ان میں سے ایک مضر اثر، جو کہ ۲ سے ۳ فیصد مریضوں میں خون میں سفید خلیات کم ہو جانے کا امکان ہے، کی وجہ سے جو مریض اس کو لے رہے ہوں انہیں اپنے خون کے خلیات کے ٹیسٹ شروع میں ہر ہفتے، اور کچھ مہینوں یا ایک سال کے بعد ہر مہینے کروانے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہ پابندی ہے کہ کلوزاپین شیزوفرینیا کے صرف ان مریضوں کو تجویز کی جا سکتی ہے جو کم از کم دو اینٹی سائیکوٹک دوائیں مناسب ڈوز میں مناسب مدّت کے لیے لے چکے ہوں اور انہیں ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا ہو۔ لیکن یہ ظاہر ہو جانے کے بعد کہ اور دوائیوں سے فائدہ نہیں ہو رہا کلوزاپین جتنی جلدی شروع کر دی جائے اتنا ہی اس سے فائدہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
کلوزاپین کے بہت سارے مضر اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) دوسری اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے ملتے جلتے ہیں، لیکن چونکہ اس کا دماغ کے ڈوپامین سسٹم پر، جو ہماری جسمانی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے، اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اس لیے اس سے رعشہ، عضلات کی سختی اور اکڑن، حرکات کا سست ہو جانا، یا جسمانی بے چینی جیسے مضر اثرات نہیں ہوتے جو کہ بہت ساری اور اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس سے طویل عرصے کے استعمال کے بعد چہرے ، منہ، زبان اور جسم کے دوسرے حصوں کے عضلات کی وہ غیر ارادی حرکات بھی نہیں ہوتیں جنہیں ٹار ڈو ڈس کائینیسیا (tardive dyskinesia) کہتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ اس کو ان حرکات کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر آیا، کلوزاپین کے سب سے شدید مضر اثرات میں سے یہ ہے کہ اس سے ہڈیوں کے گودے میں خون کے سفید خلیات بننا کم ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے مریض کی جراثیم کے خلاف قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، اس کو بار بار انفیکشن ہونے اور شدید انفیکشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور اس سے اس کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر خون کے سفید خلیات ایک خاص حد سے کم ہو جائیں تو دوا کو فوراً بند کرنا پڑتا ہے تا کہ ہڈیوں کے گودے میں ان کا دوبارہ بننا شروع ہو سکے۔
کلوزاپین سے بعض اور تکلیف دہ مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں مثلاً منہ میں تھوک کا جمع ہو جانا اور رال بہنا، وزن بڑھ جانا، شدید قبض، گنے چنے مریضوں میں آنتوں کا غیر معمولی حد تک سست ہو جانا، دل کی دھڑکن تیز ہو جانا، بعض گنے چنے مریضوں میں دل کی بیماری ہو جانا، مرگی کے دورے ہو جانا۔
حالانکہ بعض مریضوں کو کلوزاپین لینے سے یہ شدید قسم کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں، اور ہر کچھ عرصے پہ خون کے ٹیسٹ کرواتے رہنے کی زحمت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ صرف ان مریضوں کو دی جاتی ہے جن کو دوسری اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے فائدہ نہیں ہوا ہوتا۔ اور اگر ان کو کلوزاپین سے فائدہ ہو جائے، جو کہ بہت سارے مریضوں کو ہوتا ہے، تو اس سے ان کی زندگی کی کوالٹی بدل سکتی ہے۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے کس حد تک فائدہ ہوتا ہے؟
شیزوفرینیا کے علاج میں
جن لوگوں کو پہلی دفعہ شیزوفرینیا کی بیماری کی علامات شروع ہوتی ہیں ان میں سے بیشتر لوگوں میں بیماری کی علامات اینٹی سائیکوٹک دوا لینے سے بہت حد تک کم ہو جاتی ہیں۔ لیکن ان کو ٹھیک ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک دوا لیتے رہنا ہوتا ہے، ورنہ اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ بیماری کی علامات واپس آ جائیں گی۔
جن لوگوں کو شیزوفرینیا کے ایک سے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں ان میں دوائی لیتے رہنے کے باوجود بعض دفعہ شیزوفرینیا کی علامات دوبارہ واپس آ سکتی ہیں۔ البتّہ اگر مریض علامات ختم ہونے کے بعد بھی باقاعدگی سے دوائی لیتا رہے تو اس بات کا امکان کافی حد تک کم ہو جاتا ہے کہ اسے بیماری کا اگلا اٹیک ہو گا، اور اگر کبھی اٹیک ہو بھی تو اس کی شدّت کافی کم ہوتی ہے۔
موڈ ڈس آرڈر (بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن) کے علاج میں
جن لوگوں کو بائی پولر ڈس آرڈر کی بیماری ہو ان میں بعض مخصوص اینٹی سائیکوٹک دوائیں ہائیپو مینیا یا مینیا (Hypomania) کی علامات، مثلاً موڈ بغیر کسی وجہ کے بہت دنوں تک بے انتہا خوش رہنا اور بہت زیادہ حرکت میں رہنا، اور ڈپریشن کی علامات، مثلاً طویل عرصے کی اداسی اور ہر چیز میں دلچسپی ختم ہوجانا، میں مدد کرتی ہیں۔
عام طور سے جس دوا سے مینیا یا ڈپریشن کے اٹیک میں فائدہ ہوا ہو، ٹھیک ہونے کے بعد بھی اس دوا کو لیتے رہنا بیماری کے اگلے اٹیک کو واپس آنے سے روکنے کا بہترین طریقہ ہوتا ہے۔
مینیا یا ڈپریشن میں اینٹی سائیکوٹک دوائیں صرف ان مریضوں میں ہی کام نہیں کرتیں جن کو سائیکوسس کی علامات ہوں (مثلاً ڈیلیوزن، ہیلیو سی نیشن)، بلکہ ان مریضوں میں بھی کام کرسکتی ہیں جن کو سائیکوسس نہ ہو لیکن ان کو مینیا میں صرف موڈ اسٹیبلائزر مثلاً لیتھیم یا ڈپریشن میں صرف اینٹی ڈپریسنٹ سے فائدہ نہ ہو رہا ہو۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیں بند کرنے کا محفوظ طریقہ
جن مریضوں کو شیزوفرینیا کا اٹیک پہلی دفعہ ہوا ہو ان کے لیے گائیڈ لائنز یہ تجویز کرتی ہیں کہ بالکل ٹھیک ہونے کے بعد بھی انہیں اینٹی سائیکوٹک دوا کم از کم بارہ سے اٹھارہ مہینے تک جاری رکھنی چاہیے، اور اس کے بعد اسے کم از کم تین مہینے کے اوپر آہستہ آہستہ بند کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو شیزوفرینیا کے ایک سے زیادہ اٹیکس ہو چکے ہوں ان کے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ انہیں دوا کم از کم کئی سال تک جاری رکھنی چاہیے۔
اگر کوئی مریض اپنی اینٹی سائیکوٹک دوا بند کرنا چاہے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے بیماری کے پچھلے حملوں میں کیا ہوا تھا اور اس کی علامات کتنی شدید تھیں۔ مریض کے ساتھ یہ تبادلہء خیال کرنا ضروری ہے کہ اس کے لیے کیا چیز زیادہ اہم ہے یا زیادہ خطرناک ہے، دوا کے مضر اثرات برداشت کرنا، یا بیماری کے پچھلے اٹیک میں اسے جو علامات ہوئی تھیں اور اس کی زندگی میں جتنی مشکلات ہوئی تھیں ان کا دوبارہ سامنا کرنا؟
جن لوگون کو شیزوفرینیا کا ایک سے زیادہ اٹیک ہو چکا ہو ان میں اینٹی سائیکوٹک دوا بند کرنے سے بیماری واپس آنے کا اور ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑنے کا خطرہ دو گنا سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر اس کے باوجود کوئی مریض دوا بند کرنا چاہے تو اس کے اور اس گھر والوں کے ساتھ اس کی بیماری کی ابتدائی علامات (early warning signs) کے بارے میں تفصیلی بات کرنی چاہیے۔ عام طور سے ایک مریض کی شیزوفرینیا کی بیماری پہلی یا دوسری دفعہ جن علامات کے ساتھ شروع ہوتی ہے اس بات کا کافی امکان ہوتا ہے کہ اگر اس کو دوبارہ اٹیک ہو گا تو اس میں بھی ان ہی سے ملتی جلتی علامات ہوں گی، مثلاً نیند اڑ جانا، خاموش ہو جانا، اپنے کاموں میں دلچسپی نہ لینا، اپنے کمرے میں بند رہنے لگنا وغیرہ۔ عام طور سے زیادہ شدید علامات مثلاً ڈیلیوزن یا ہیلیو سی نیشن ان ابتدائی علامات کے شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ اگر مریض کو اور اس کے گھر والوں کو اچھی طرح معلوم ہو کہ اس مریض میں ابتدائی علامات کس طرح کی ہوتی ہیں تو اٹیک کے شروع ہوتے ہی علاج دوبارہ شروع کر کے اس اٹیک کو زیادہ شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ علاج اگر فوراً شروع کر دیا جائے تو عام طور سے دوا کا زیادہ ڈوز بھی نہیں چاہیے ہوتا اور اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے اس طرح سے تو عادت نہیں پڑتی جس طرح سے نیند لانے والی یا گھبراہٹ کم کرنے والی بعض دوائیوں سے پڑتی ہے، لیکن اگر انہیں بھی اچانک بند کیا جائے تو مریض کو بعض جسمانی اور ذہنی تکلیف دہ علامات ہو سکتی ہیں۔ اس لیے انہیں بند بھی کرنا ہو تو ہمیشہ آہستہ آہستہ بند کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ آہستہ آہستہ بند کرنے سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اگر مریض کو اپنا ڈوز کسی خاص حد تک کم کرنے کے بعد دوبارہ بیماری کی علامات نمودار ہونے لگیں تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مریض کا کم از کم ضروری ڈوز (minimum effective dose) کیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر اس آخری ڈوز پہ واپس جانے سے مریض کی علامات ختم ہو جاتی ہیں اور واپس سے زیادہ ڈوز دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
کیا شیزوفرینیا کا اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے علاوہ بھی کوئی علاج ہے؟
ریسرچ سے اس بات کا بہت واضح ثبوت موجود ہے کہ شیزوفرینیا کی زیادہ شدّت کی علامات کے علاج کے لیے علاج کا کوئی اور طریقہ اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے برابر موثر نہیں ہے۔
البتّہ ریسرچ سے اس بات کا بھی بہت واضح ثبوت موجود ہے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کے ایک بھرپور اور مطمئن زندگی گزارنے کے لیے صرف اینٹی سائیکوٹک دوائیاں دینا کافی نہیں۔
کئی دہائیاں پہلے برطانیہ میں ایک ریسرچ ہوئی تھی جسے تھری ہاسپٹل اسٹڈی (تین ہسپتالوں کی اسٹڈی) کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ اگر مریضوں کے دو گروپس کو بالکل ایک اینٹی سائیکوٹک دوا دی جا رہی ہو، لیکن ایک گروپ کے مریضوں کو مصروف رکھا جائے، ان کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ مختلف کاموں میں مصروفیات میں حصّہ لیں، لوگوں سے بات چیت کریں، ملتے جلتے رہیں، تو ان میں ان لوگوں کے مقابلے میں جن کو صرف دوا دے لے بستر پہ لیٹا چھوڑ دیا جائے، شیزوفرینیا کی وہ بہت سی علامات جو اس بیماری کے طویل عرصے تک رہنے سے پیدا ہوتی ہیں (مثلاً کام کرنے، لوگوں سے بات کرنے، تعلقات استوار کرنے، اپنا خیال رکھنے کی صلاحیتوں میں کمی ہو جانا یا ان کا ختم ہو جانا) یا تو پیدا نہیں ہوتیں، یا ہوتی بھی ہیں تو ان کی شدّت کم ہوتی ہے۔
اس لیے آج کل اس پہ بہت زور دیا جاتا ہے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کو صرف دوا دے کے چھوڑ نہ دیا جائے، بلکہ ان کو کام میں، لوگوں سے ملنے جلنے میں، ورزش کرنے میں، سب لوگوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔ اس سے طویل عرصے کے اوپر ان کی ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور جسمانی صحت بھی۔
بشکریہ: https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/treatments-and-wellbeing/antipsychotics
Last accessed: 26 July 2024
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
شیزوفرینیا اور سائیکوسس میں کیا فرق ہوتا ہے؟
سائیکوسس کا بنیادی مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی مریض کو ڈیلیوزنز (delusions)اور ہیلیو سی نیشنز (hallucination) ہوں، اور اس کو انسائٹ (insight) نہ ہو۔ ڈیلیوزن کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایسے خیالات پہ پکا یقین ہو جائے جن کی کوئی حقیقت نہ ہو، مثلاً یہ کہ مریخ کے باشندے اس کو وہیں بیٹھے بیٹھے ٹیلی پیتھی سے کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہیلو سی نیشن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کو بغیر کسی اسٹیمیولس (stimulus) کے ادراک یا پرسیپشن (perception) ہوں مثلاً ایسی غیبی آوازیں سننا جو کسی اور کو سنائی نہ دیں، یا ایسی غیر مرئی چیزیں دیکھنا جو کسی اور کو نظر نہ آئیں۔ انسائٹ کا مطلب یہ ہو کہ انسان کو یہ سمجھ ہو کہ جو علامات مثلاً ڈیلیوزن یا ہیلیو سی نیشن اس کو ہو رہے ہیں یہ بیماری کی وجہ سے ہیں اور اس کو علاج کی ضرورت ہے۔ اگر انسان کو پکا یقین ہو کہ جو کچھ اسے سنائی یا دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت میں ہو رہا ہے چاہے کسی اور کو سنائی یا دکھائی نہ دے رہا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے انسائٹ نہیں ہے جو سائیکوسس کی ایک علامت ہے۔
سائیکوسس اور بہت ساری بیماریوں کے ساتھ ہو سکتا ہے مثلاً شدید ڈپریشن یا مینیا میں، ہذیان (delirium) میں، ڈیمینشیا میں، اور ان کے علاوہ کئی جسمانی بیماریوں میں بھی۔ یہ بذاتِ خود الگ سے کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ اوپر بیان کی گئی تین علامات کا مجموعہ ہے۔ اس کے برعکس شیزوفرینیا سائیکوسس کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر لوگوں میں طویل عرصے تک چلتا ہے اور اس میں مریض کو کوئی دوسری نفسیاتی یا جسمانی بیماری نہیں ہوتی۔
شیزوفرینیا کی مثبت (positive symptoms) اور منفی (negative symptoms) علامات کیا ہوتی ہیں؟
شیزوفرینیا کی مثبت علامات:
مثبت علامات ان علامات کو کہا جاتا ہے جو شیزوفرینیا کے مریض میں موجود ہوتی ہیں، لیکن ایک صحت مند شخص میں نہیں ہوتیں، مثلاً ڈیلیوزن، ہیلو سی نیشن وغیرہ۔ اسی لئے انہیں "مثبت" علامات کہا جاتا ہے، یعنی وہ اپنے ہونے سے نمایاں ہوتی ہیں۔
ہیلو سینیشن (hallucinations)
- ہیلیو سینیشن اس ادراک یا اس پرسیپشن (perception) کو کہتے ہیں جو کسی حواسِ خمسہ کو کسی محرّک (stimulus) کا سامنا ہوئے بغیر خودبخود ہی شروع ہو جائے۔ - اس کو سمجھنا ایک مثال کے ذریعے زیادہ آسان ہو گا۔ مثال کے طور پہ جب کوئی شخص ہم سے بات کر رہا ہوتا ہے تو اس کی آواز ہمارے کان (یعنی ہمارے حواسِ خمسہ میں سے ایک حس) کے لئے محرّک (stimulus) کا کام کرتی ہے اور اس کے ذریعے یہ سگنل دماغ کو جاتا ہے اور ہم وہ آواز سنتے اور اس کا مطلب سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض نفسیاتی بیماریوں میں ایسا ہوتا ہے کہ دماغ کا وہ حصّہ جو آوازوں کو سنتا اور سمجھتا ہے، وہ کسی بیرونی آواز یعنی محرّک کی غیر موجودگی میں ہی خود بخود کام کرنے لگتا ہے اور اور انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے کہ وہ کوئی آواز سن رہا ہے یا اس سے کوئی باتیں کر رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں کوئی اس سے بات نہیں کر رہا ہوتا۔ اسی کو بعض دفعہ اردو میں غیبی آوازیں بھی کہتے ہیں، یا اگر کوئی چیز نظر آ رہی ہو تو اسے فریبِ نظر بھی کہتے ہیں۔
جس مریض کو حقیقی (true) ہیلو سی نیشن ہو، اس کو پورا یقین ہوتا ہے کہ اسے جو آواز آ رہی ہے وہ حقیقت میں اس سے کوئی بات کر رہا ہے ۔ یہ محض ا سکے دماغ کی پیداوار نہیں ہے، یا اس کی بیماری کی وجہ سے اسے ایسا نہیں لگ رہا ہے۔ اسے سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ وہ آواز سو فیصد اصلی ہے چاہے وہ کسی اور سنائی دے رہی ہو یا نہ سنائی دے رہی ہو۔
ڈیلیوزن (delusion)
- ڈیلیوزن ایک ایسا خیال یا یقین ہوتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، لیکن مریض کو اس پہ اتنا پکّا یقین ہوتا ہے کہ چاہے کوئی اس کو حتمی ثبوت بھی دے دے کہ جو وہ سوچ رہا ہے وہ غلط ہے، لیکن مریض پھر بھی اپنا خیال نہیں بدلتا اور اس پہ مصر رہتا ہے۔ یہ خیال مریض کا اپنا ذاتی یعنی پرائیویٹ خیال ہوتا ہے اور اس کی تعلیم، اس کے کلچر، یا اس کے مذہب سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ کلینیکلی اس کی خاص پہچان یہ ہوتی ہے کہ ہم مریض کے گھر والوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے گھر یا خاندان میں کوئی اور بھی ہے جو اس بات پہ یقین رکھتا ہے، تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی کو اس بات پہ یقین نہیں ہے سوائے اس (یعنی مریض) کے، لیکن یہ کسی کی بات نہیں مانتا اس کو جتنا بھی قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس کا یہ خیال غلط ہے لیکن وہ اپنا خیال بدلنے پہ تیار نہیں ہوتا۔
ڈیلیوزن بہت سی مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ لوگ ان کے دشمن ہیں، گورنمنٹ ان کے خلاف ہے، چاند پہ بیٹھے لوگ ان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، ان کے خاندان والے یا دوست یا کام پہ کولیگ ان کو مارنا چاہتے ہیں۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ اپنے کو اپنے جسم پہ اختیار نہیں رہا، اور کوئی اور ان سے ان کی مرضی کے بغیر کام کرواتا ہے۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ ان کو اپنے خیالات پر قابو نہیں رہا۔ دوسرے لوگ ان کے بتائے بغیر ان کے خیالات سے واقف ہو جاتے ہیں، ان کے ذہن میں اپنے خیالات ڈال دیتے ہیں، مریض کے ذہن سے اس کے خیالات نکال لیتے ہیں۔
خیالات کا گڈمڈ ہوجانا (Thought disorder)
شیزوفرینیا جب شروع ہوتا ہے تو اس کے مریضوں کو اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خیالات اب اتنے واضح نہیں رہے، اور یہ کہ کسی سوچ پہ توجہ دینا، غوروفکر کرنا اب ان کے لئے کافی مشکل ہو گیا ہے۔ جو لوگ پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں اکثر ان کے لئے پڑھائی کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور وہ پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ جو لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی کام پہ پرفارمنس ویسی نہیں رہتی اور بہت سارے مریض جاب چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں خیالات بھٹکتے رہتے ہیں اور ایک خیال کا دوسرے خیال سے تعلق نہیں ہوتا۔ جب یہ کیفیت بڑھتی ہے تو دوسرے لوگوں کے لئے مریضوں کی بات سمجھنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔
شیزوفرینیا کی منفی علامات
جس طرح سے شیزوفرینیا کی مثبت علامات اپنی موجودگی سے نمایاں ہوتی ہیں یعنی کہ یہ مریضوں میں ہوتی ہیں اور صحت مند لوگوں میں نہیں ہوتیں، اس کے برعکس شیزوفرینیا کی منفی علامات اپنی غیر موجودگی سے نمایاں ہوتی ہیں، مطلب یہ کہ یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جو صحت مند لوگوں میں موجود ہوتی ہیں لیکن شیزوفرینیا کے مریضوں میں موجود نہیں ہوتیں۔
شیزوفرینیا کی منفی علامات میں لوگوں سے بات چیت کرنا، کام کرنا، اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ مریض کے دل میں کوئی امنگ باقی نہیں رہتی۔ اس کو کسی کام میں کسی بات میں دلچسپی نہیں رہتی، کسی بات سے نہ خوشی محسوس ہوتی ہے اور نہ اداسی۔ اس کا گھر سے بالکل بستر سے باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ اس کے لئے کسی بھی بات پہ توجہ دینا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے لئے لوگوں سے بار چیت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
بہت سی دفعہ مریض کے گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ مریض سست ہے، کاہل ہے، اس لئے کچھ نہیں کرتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری علامات شیزوفرینیا کی بیماری کا بنیادی حصّہ ہوتی ہیں۔ منفی علامات مثبت علامات کے مقابلے میں اتنی واضح اور نمایاں نظر آنے والی نہیں ہوتیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا مریض کی زندگی پہ مثبت علامات سے کہیں زیادہ گہرا اور نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔
کیا شیزوفرینیا کے ہر مریض میں یہ تمام علامات ہوتی ہیں؟
شیزوفرینا کے ہر مریض کو یہ تمام علامات نہیں ہوتیں۔ بعض دفعہ ہم ایسے مریضوں کو دیکھتے ہیں جن کے گھر والے کہتے ہیں کہ تین چار مہینے پہلے تک تو یہ بالکل ٹھیک تھا، اسکول جاتا تھا، اس کے دوست تھے جن کے ساتھ گھومتا پھرتا تھا، فلاں فلاں اسپورٹس کھیلتا تھا۔ لیکن پچھلے تین میں یہ عجیب و غریب باتیں کرنے لگا ہے۔ کہتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں، نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ اکیلے بیٹھے بیٹھے پتہ نہیں کس سے باتیں کرتا رہتا ہے، ہمیں تو کوئی نظر نہیں آتا۔ تو اس طرح کے مریضوں میں شیزوفرینیا کی مثبت علامات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس بعض مریضوں میں اس طرح کی ہسڑی ملتی ہے کہ پانچ چھ سال سے اس نے پہلے پڑھائی کرنا، اسکول جانا چھوڑ دیا، پھر دوستوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ اب دو سال سے گھر میں بھی کسی سے بات نہیں کرتا۔ کمرے میں اکیلا گم سم بیٹھا رہتا ہے۔ ہفتوں نہاتا نہیں ہے، کپڑے بھی گندے ہو جاتے ہیں لیکن ہفتہ ہفتہ نہیں بدلتا۔ تو ان مریضوں میں شیزوفرینیا کی منفی علامات کی ہسٹری زیادہ ملتی ہے، مثبت علامات کی نہیں ملتی۔ اسی لئے بہت دفعہ لوگ جب ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب، ہمارے بیٹے یا بھائی کو شیزوفرینیا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اس کا فلاں مریض دیکھا تھا، وہ تو ایسے ایسے کرتا تھا، تو ہمیں انہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ ہر مریض کا شیزوفرینیا الگ ہوتا ہے، کوئی ایک طرح کی علامات کے ساتھ پریزنٹ کرتا ہے اور کوئی دوسری طرح کی علامات کے ساتھ۔
شیزوفرینیا کی بیماری دنیا بھر میں کتنے فیصد لوگوں کو ہوتی ہے؟
دنیا بھر میں شیزوفرینیا زندگی بھر میں کسی بھی ملک کی آبادی کے تقریباً ایک فیصد لوگوں میں ہوتا ہے۔
اس کی شرح مردوں اور عورتوں میں تقریباً برابر ہوتی ہے۔
دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں کے رہنے والوں میں شیزوفرینیا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
پہندرہ سال سے کم عمر کی بچوں میں شیزوفرینیا شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر کے بعد یہ بیماری کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے، اور اس کے ہونے کا امکان سب سے زیادہ ۱۵ سے ۳۵ سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
شیزوفرینیا ہونے کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
ابھی تک کسی کو وثوق سے نہیں معلوم کہ شیزوفرینیا کیوں ہو جاتا ہے۔ اس کی غالباً کئی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، کسی مریض میں کچھ وجوہات ہوتی ہیں، اور کسی میں دوسری۔
جینز (Genes)
چاہے کسی مریض کو شیزوفرینیا ہو، شدید ڈپریشن ہو، یا بائی پولر ڈس آرڈر ہو (ان سب بیماریوں کو ملا کے شدید نفسیاتی بیماری بھی کہا جاتا ہے)، ان سب میں جینیٹک رسک فیکٹرز ( یعنی وہ جینز جو ان بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں) ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے ماحول میں بھی کچھ ایسی وجوہات ہوتی ہیں جو ان جینز کے ساتھ مل کے کام کرتے ہوئے ان بیماریوں کا خطرہ بڑھا بھی سکتی ہیں اور کم بھی کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پہ ایک بچے میں وہ جینز ہو سکتی ہیں جو شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ بڑھا دیں۔ لیکن اگر وہ ایک اچھے مثبت گھریلو ماحول میں پروان چڑھیں تو ان کوشدید نفسیاتی بیماری پیدا ہونے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔
والدین کو شیزوفرینیا ہونا
والدین میں سے کسی ایک کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہونا اب تک اس بیماری کی جتنی بھی وجوہات معلوم ہیں، ان کے مقابلے میں سب سے زیادہ اس خطرے کو بڑھاتا ہے کہ ان کے بچوں کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو۔ جن بچوں کے والدین کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہو، ان میں سے ہر تین میں سے ایک بچے (۳۳ فیصد) کو کوئی شدید نفسیاتی بیماری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اگرچہ عام پاپولیشن میں سو میں سے صرف ایک شخص کو شیزوفرینیا ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہو ان میں سے ہر دس میں سے ایک مریض کے والدین میں سے ایک کو شیزوفرینیا ہوتا ہے۔دوسری طرف سے دیکھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہو، نوّے فیصد امکان یہ ہے کہ ان کے بچوں کو شیزوفرینیا نہیں ہو گا، اور صرف دس فیصد امکان ہے کہ ان کے بچوں کو شیزوفرینیا ہو گا۔
یہ سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ جب میں پاکستان میں کام کرتا تھا تو بہت سے مریضوں کے والدین ہم سے یہ پوچھتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب اس کی شادی کر سکتے ہیں کہ نہیں۔ عموماً یہ وہ مریض ہوتے تھے جو دوا کے ساتھ بالکل ٹھیک ہوتے تھے لیکن دوا بند کرنے سے علامات دوبارہ شروع ہو جاتی تھیں۔ میں یہ جواب دیتا تھا کہ پہلی بات یہ ہے کہ دوسری طرف والوں کو سب کچھ صاف بتا دیں۔ اس کی وجہ ایمانداری اور دھوکہ نہ دینے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ آپ کتنے عرصے تک اپنے شوہر یا بیوی سے چھپا کے دوائی لے سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کسی اسٹیج پہ تو ان کو پتہ چلنا ہے اس لیے خود ہی شروع سے بتا دیں۔ جب ممکنہ سسرال والے آتے تھے تو ہم ان کو بتا دیتے تھے کہ دس فیصد امکان یہ ہے کہ ان کے کے بچوں کو شیزوفرینیا ہو، لیکن نوے فیصد امکان یہ ہے کہ نہ ہو۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیں۔
جڑواں بچوں پہ ریسرچ
مماثل جڑواں بچوں (identical twins) کی تمام یعنی سو فیصد جینز (genes) سو فیصد ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر مماثل جڑواں بچوں میں سے ایک کو شیزوفرینیا ہو تو دوسرے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان پچاس فیصد ہوتا ہے، سو فیصد نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جینیاتی وجوہات کے علاوہ بھی کچھ اور ماحولیاتی وجوہات ہوتی ہیں جو کسی شخص کو شیزوفرینیا ہونے کا باعث بنتی ہیں۔
غیر مماثل جڑواں بچوں (non-identical twins) کی جینز ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان بچوں میں سے اگر ایک کو شیزوفرینیا ہو تو دوسرے بچے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان دوسرے غیر جڑواں بہن بھائیوں کے مقابلے میں تھوڑا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جینز کی وجہ سے جو شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، وہ جینز کے ساتھ مخصوص ہے، صرف ایک گھر میں ساتھ پلنے بڑھنے اور ایک ماحول میں پروان چڑھنے کی وجہ سے نہیں ہے۔
دماغ پہ چوٹ آنا
دماغ کے اسکینز (scans) سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہو ان میں سے کچھ لوگوں کے دماغ میں جن لوگوں کو شیزوفرینیا نہ ہو ان کے مقابلے میں کچھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں، لیکن تمام مریضوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ جن مریضوں میں یہ تبدیلیاں نظر آتی ہیں ان میں ہو سکتا ہے کہ؛
- پیدائش کے عمل کے دوران کوئی مسئلہ ہوا ہو جس کی وجہ سے بچے کے دماغ کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہ ملی ہو
- حمل کے ابتدائی مہینوں میں کوئی وائرل انفیکشن ہوا ہو
نشہ آور چیزیں اور الکحل
شیزوفرینیا بعض دفعہ نشہ آور چیزوں کے لینے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔
ایمفی ٹامینز (amphetamines): ایمفی ٹامینز لینے سے سائیکوسس کی علامات شروع ہو سکتی ہیں۔ اگر انسان ان کو لینا چھوڑ دے تو عام طور سے یہ ختم ہو جاتی ہیں۔ ابھی تک وثوق سے یہ نہیں معلوم کہ ان کے لینے سے طویل عرصے کا سائیکوسس، جیسے کہ شیزوفرینیا، شروع ہو سکتا ہے کہ نہیں، لیکن جن لوگوں میں پہلے سے شیزوفرینیا پیدا ہونے کا خطرہ ہو ان میں ایمفی ٹامین لینے سے یہ امکان بڑھ سکتا ہے۔
بعض لوگ شیزوفرینیا کی تکلیف دہ علامات، مثلاً غیبی آوازیں آنا، کو دبانے کے لیے الکحل یا نشہ آور ڈرگس استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ان علامات کو اور خراب کرتی ہیں۔
چرس (کینابس) (cannabis)
جو لوگ باقاعدگی سے چرس زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان کو شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ کینابس کی جو نئی زیادہ طاقتور اقسام مثلاً اسکنک (skunk) ہیں ان سے شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح سے جن لوگوں نے کینابس کم عمر میں استعمال کرنا شروع کر دی ہو، ان کو بھی شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ اگر کسی نے ٹین ایج (۱۳ سے ۱۹ سال کی عمر) میں کینابس پچاس دفعہ سے زیادہ استعمال کی ہو اس کو شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ عام لوگوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔
جب لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ میں خود کیا کر سکتا ہوں کہ ایسی بیماری پھر نہ ہو، تو ہم کہتے ہیں کہ دو کام ہیں ، ایک کرنے کا، اور ایک نہ کرنے کا، کہ جن سے آپ اس کا رسک یا خطرہ خود کم کر سکتے ہیں کہ آئندہ سائیکوسس نہ ہو۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا نہ چھوڑیں۔ نہ کرنے کا کام یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی بھی نشہ آور چیز مت لیں، اس میں الکحل اور سگریٹ بھی شامل ہیں۔
اسٹریس یا ذہنی دباؤ
اب تک جو ریسرچ ہوئی ہے وہ یہ کہتی ہے کہ شیزوفرینیا اسٹریس یا ذہنی دباؤ کی وجہ سے "شروع" تو نہیں ہوتا، لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ شیزو فرینیا کا نیا اٹیک آنے سے پہلے یا علامات زیادہ شدید ہونے سے پہلے مریض کی زندگی میں اسٹریس والے واقعات بڑھ گئے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہوتا ہے ان کے دماغ میں پہلے سے کچھ تبدیلیاں ہو چکی ہوتی ہیں جن کو ہم پری ڈس پوزیشن (predisposition) کہتے ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ میں وہ تبدیلیاں پہلے سے نہ ہوں، ان کو اسٹریس سے شیزوفرینیا نہیں ہوتا۔ لیکن جن لوگوں کے دماغ میں یہ پری ڈس پوزیشن ہوں ان کو اسٹریس کی وجہ سے شیزوفرینیا شروع ہو سکتا ہے۔
یہ اچانک ناگہانی واقعات بھی ہو سکتے ہیں مثلاً گاڑی کا بڑا حادثہ ہو جانا، یا کسی قریبی عزیز یا دوست کا انتقال ہو جانا۔ یہ کوئی روز مرّہ کی مشکلات بھی ہو سکتی ہیں مثلاً پڑھائی، امتحانات یا ملازمت میں مشکلات پیش آنا۔ اور یہ کوئی طویل المدّتی مسائل بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ گھریلو تعلقات میں دشواریاں اور تلخیاں۔
گھریلو تعلقات کی خرابیاں
ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کسی کو شیزوفرینیا ہو جانے کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس گھرمیں رہنے والے افراد کی کمیونیکیشن یعنی بات چیت میں کچھ خاص طرح کی خرابیاں ہوتی ہیں۔ لیکن بعد کی ریسرچ سے پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کو شیزوفرینیا کی بیماری ہو تو اس کی علامات گھریلو تلخیوں کی وجہ سے ضرور خراب ہوسکتی ہیں۔
سائیکائٹری میں ایک اصطلاح ہے جسے ہائ ایکسپریسڈ ایموشن (high expressed emotion) کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس گھر میں لوگوں کے آپس میں بات چیت کرنے کے طریقے میں دو چیزیں شامل ہوتی ہیں، ایک تو ہر وقت تنقید کرتے رہنا، دوسرے بیشتر وقت غصّے سے اور جارحانہ انداز میں بات کرنا، ان گھروں میں جو شیزوفرینیا کے مریض رہتے ہیں، ان کو بار بار اٹیک ہونے کا امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو ایسے گھروں میں رہتے ہیں جہاں ہر وقت اور بیجا تنقید، اور غصّے اور جارحیت سے بات نہیں ہوتی۔
بچپن کی مشکلات
جن لوگوں کو بچپن میں بہت تنگی کی حالت میں رہنا پڑا ہو یا انہیں جسمانی یا جنسی تشدّد کا سامنا کرنا پڑا ہو، انہیں اور نفسیاتی بیماریوں کی طرح شیزوفرینیا ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہوا کہ شیزوفرینیا کی کوئی "ایک" وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ہونے میں بہت سارے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس وقت کی ریسرچ کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ گو شیزوفرینیا کی علامات عام طور سے ۲۰ سال کی عمر کے قریب نظر آنا شروع ہوتی ہیں لیکن جن دماغی اور جینیاتی تبدیلیاں کی وجہ سے کسی کو شیزوفرینیا کی بیماری ہوتی ہے، وہ تبدیلیاں پیدائش کے وقت سے ہی اس انسان میں موجود ہوتی ہیں۔ پھر ماحول میں کچھ ایسی وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اس بات پہ فرق پڑتا ہے کہ کسی کو شیزوفرینیا جلدی شروع ہو جاتا ہے کسی کو دیر سے، اور کسی کو اٹیک زیادہ ہوتے ہیں اور کسی کو کم۔
شیزوفرینیا کے مریضوں کا مستقبل کیسا ہوتا ہے؟
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر کسی کو شیزوفرینیا ہو گیا ہے تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ساری عمر اپنے خاندان پہ بوجھ بنا رہے گا، وہ کبھی پڑھائی نہیں کر سکے گا، کبھی کام نہیں کر سکے گا، اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔لیکن اب ایسا نہیں ہے، خصوصاً اگر علاج بیماری کی علامات نظر آنے کے فوراً بعد شروع کر دیا جائے جس کی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔ آج کے دور میں شیزوفرینیا کے بیشتر مریضوں کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت سارے مریض کام بھی کرتے ہیں اور ان کی فیملیز بھی ہوتی ہیں۔
شیزوفرینیا کے ہر سو مریضوں میں سے؛
- ۲۰ فیصد مریض بیماری شروع ہونے کے پانچ سال کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ان کو پھر کبھی بیماری کا دورہ نہیں ہوتا۔
- ۶۰ فیصد مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن ان کو بیماری کا دورہ پھر ہو سکتا ہے۔ اگر مریض دوا لیتے رہیں، اور ان کے گھر کا ماحول پرسکون اور ان کو ڈھارس دینے والا ہو تو بیماری کا اگلا اٹیک کم ہونے کا امکان کافی کم کیا جا سکتا ہے۔
- ۲۰ فیصد مریضوں کو طویل عرصے تک تکلیف دہ علامات رہتی ہیں۔
ٹھیک ہونے کے بعد بھی دوا جاری رکھنے کی اہمیت
زیادہ تر نفسیاتی بیماریوں اور خصوصاً شیزوفرینیا کے علاج میں اس بات کی بے انتہا اہمیت ہے کہ مریض کے بہتر ہونے کے فوراً بعد دوا بند نہ کر دی جائے۔ دوا جلدی بند کر دینے سے اگلا اٹیک ہونے کا امکان کافی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ایک مریض کو جتنے زیادہ اٹیکس ہوتے ہیں اس کو اگلا اٹیک ہونے کا امکان اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ اس سے دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ شیزوفرینیا کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ مریض کو جتنے زیادہ اٹیکس ہوتے ہیں اتنا ہی اس کی مکمل ریکوری (recovery) کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کا پہلے اٹیک سے ٹھیک ہونے کے بعد اپنے کام کاج کرنے، لوگوں سے ملنے جلنے اور ایک نارمل زندگی گزارنے کا جس قدر زیادہ امکان ہوتا ہے، مریض کو جتنے زیادہ اٹیک ہوتے جائیں اتنا ہی یہ امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کو (deficit state) کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ اگلے اٹیک کے ہونے کے امکان کو باقاعدہ دوا جاری رکھنے کے ذریعے کم از کم کیا جائے۔
بیماری کی علامات نظر آنے کے بعد علاج جلدی شروع کرنے کی اہمیت
ریسرچ کہتی ہے کہ اگر شیزوفرینیا کا علاج جلدی شروع ہو جائے تو اس بات کا امکان کم ہو جاتا ہے کہ؛
- مریض کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے
- مریض کو گھر پہ بہت قریب سے دیکھ بھال کی ضرورت پڑے
- اگر مریض کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش آ بھی جائے تو عام طور سے اسے وہاں کم دن کے لیے رہنا پڑتا ہے
- اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ مریض پڑھائی اور کام کر سکے گا اور خود مختار ہو سکے گا
اگر آپ کو یا آپ کے کسی قریبی عزیز کو شیزوفرینیا کی علامات پہلی دفعہ شروع ہو تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ دوا جلد از جلد شروع کر دیں،ا ور اسے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے جلدی بند نہ کریں۔
میں نیوزی لینڈ میں جس ٹیم میں کام کرتا ہوں اسے ارلی انٹروینشن ان سائیکوسس سروس (early intervention in psychosis service ) کہتے ہیں۔ اس ٹیم اور دنیا بھر میں اس طرح کی جو بھی ٹیم ہوتی ہے اس کو قائم کرنے کے پیچھے بنیادی خیال یہی ہے کہ اگر سائیکوسس کی بیماری (جس کی ایک قسم شیزوفرینیا ہے) شروع ہوتے ہی مریض کا بہت موثر علاج کیا جائے تو اس کا امکان ہے کہ آئندہ زندگی میں اس بیماری کے طویل المدتی اثرات اور نقصانات کم ہوں۔ چنانچہ جیسے ہی مریض کو پہلی دفعہ اس طرح کی علامات نظر آتی ہیں اسے ہمارے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
ہم مریض کو دوائیوں کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں سکھاتے ہیں تا کہ وہ دوا جلدی بند نہ کرے۔ اس کے لیے مناسب دوا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ اس بیماری کی بہت ساری دوائیں ہیں جن کے مضر اثرات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، کسی مریض کو ایک دوا سے فائدہ ہوتا ہے اور کسی کو دوسری سے۔ عام طور سے جب مریض بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے تو اس کے تقریباً ایک ڈیڑھ سال کے بعد اس کی دوا آہستہ آہستہ کم اور بند کر کے دیکھ کے کہ اسے علامات واپس آتی ہیں کہ نہیں۔ اگر اسے علامات واپس آ جائیں تو پھر اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے دوا کم از کم کئی سال تک لینی ہوگی۔
پھر یہ کہ جلدی علاج والی سروس میں صرف دوا پر ہی زور نہیں دیا جاتا بلکہ اس بات پہ بہت زور دیا جاتا ہے اور اس کی بہت مدد کی جاتی ہے کہ مریض اپنی عمر کے حساب سے ہر وہ کام کر سکے جس اس کو یہ بیماری نہیں ہوتی تو وہ اس عمر میں کرتا، مثلاً جو مریض اسکول جانے والی عمر میں ہوتے ہیں ان کو دوبارہ اسکول میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد کی جاتی ہے۔ جو مریض اس سے بڑی عمر کے ہوتے ہیں ان کو کام ڈھونڈنے، چاہے وہ جز وقتی یعنی پارٹ ٹائم ہی کیوں نہ ہو، اور اس میں باقاعدگی سے جانے میں مدد کی جاتی ہے۔ باقاعدگی سے ورزش کرنے اور اپنی جسمانی صحت کو برقرار رکھنے پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مریض اپنی عمر کے دوسرے لوگوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ملتا جلتا رہے اور کٹ کر نہ رہ جائےکیونکہ سوشل تعلقات سے، مریض کس حد تک بہتر ہوتا ہے، اس پہ بہت فرق پڑتا ہے۔
جلدی علاج والی سروس میں ہم مریض اور ا س کے گھر والوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ علاج کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مریض کی بیماری کی علامات ختم ہو جائیں (symptom recovery) مثلاً ان کے غلط خیالات ختم ہو جائیں اور غیبی آوازیں آنا بند ہو جائیں، گو یہ بھی علاج کا بہت اہم مقصد ہوتا ہے۔ لیکن علاج کا اتنا ہی اہم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض جس حد تک ممکن ہو اتنی ہی نارمل زندگی گزار سکے (مثال کے طور پہ پڑھائی کرے، کام کرے، اس کی اپنی ایک فیملی ہو، اس کی دلچسپیاں ہوں، لوگوں سے ملنا جلنا ہو) جتنی وہ اس وقت گزارتا اگر اس کو یہ بیماری نہیں ہوتی، جس کو فنکشنل ریکوری (functional recovery) کہتے ہیں۔
شیزوفرینیا کے علاج کے مختلف طریقے
اینٹی سائیکوٹک دوائیں
اینٹی سائیکوٹک دوائیں شیزوفرینیا کے علاج کا ایک بہت اہم حصّہ ہیں، لیکن مکمل علاج نہیں ہیں۔ البتّہ شیزوفرینیا کی زیادہ شدید علامات کو کنٹرول کر کے یہ دوائیں علاج کے اور دوسرے طریقوں کو ممکن بنا دیتی ہیں۔
یہ دوائیں؛
- ڈیلیوزن (delusion) اور ہیلیو سینیشن (hallucination) کوکمزور اور بہت سے مریضوں میں مکمل ختم کر دیتی ہیں۔ جن مریضوں میں یہ علامات مثلاً غیبی آوازیں آنا مکمل ختم نہیں بھی ہوتیں، وہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی غیبی آوازیں بہت کمزور ہو جاتی ہیں، مثلاً ہر وقت آنے کے بجائے کبھی کبھی آنے لگتی ہیں، اور اگر وہ کسی کام میں مصروف ہوں تو ان آوازوں کی طرف ان کا دھیان بھی نہیں جاتا۔
- مریض کے خیالات زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے اپنے خیالات کو سمجھنا اور ان کو دوسروں کو بتانا آسان ہو جاتا ہے۔
- مریضوں کے لیے کام میں دلچسپی لینا، لوگوں سے ملنا جلنا، اپنا خیال رکھنا، نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگردوا کا ڈوز زیادہ ہو تو ان باتوں پہ منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح بعض مریضوں کو بعض دوائیوں سے زیادہ سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں مثلاً دن میں بھی بہت زیادہ نیند آتی ہےاور ان کے لیے کام کاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو اپنے ڈاکٹر سے دوبارہ مشورہ کریں تا کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ دوا کا ڈوز کم کرنے یا دوا بدلنے کی ضرورت تو نہیں ہے۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیں کس طرح لی جاتی ہیں؟
یہ دوائیں گولیوں، کیپسول، اور سیرپ کی شکل میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ابتدا میں ہو سکتا ہے کہ یہ دوا آپ کو دن میں دو سے تین دفعہ لینی پڑے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں سے بیشتر دوائیں دن میں ایک دفعہ لی جا سکتی ہیں۔
بعض لوگوں کے لیے روزانہ دوا لینا یا دوا لینا یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو یہی دوائیں انجیکشن کی شکل میں بھی دستیاب ہیں جو دو، تین، یا چار ہفتے میں ایک دفعہ لینا ہوتا ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ جو لوگ گولیوں کے مقابلے میں انجیکشن پہ ہوتے ہیں، ان کو بار بار اٹیک ہونے اور ہسپتال میں داخل ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ انجیکشن نرس یا ڈاکٹر کو لگانا ہوتا ہے۔
اینٹی سایئکوٹک دوائیوں سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
- تقریباً ہر پانچ میں سے چار یعنی ۸۰ فیصد مریضوں کو اینٹی سائیکوٹک دوا لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ دوائیں علامات کو کم یا وقتی طور پہ ختم تو کرتی ہیں لیکن جڑ سے نہیں اکھاڑتیں۔اس لیے علامات ختم ہونے کے بعد بھی دوا لیتے رہنا ضروری ہوتا ہے تا کہ بیماری کی علامات واپس نہ آ جائیں۔
- بعض مریضوں میں دوا لیتے رہنے کے باوجود بیماری کی علامات واپس آ سکتی ہیں، لیکن جو مریض ٹھیک ہونے کے بعدبھی باقاعدگی سے دوا لیتے رہتے ہیں ان میں اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ ان مریضوں کے مقابلے میں کافی کم ہو جاتا ہے، جو ٹھیک ہونے کے فوراً بعد دوا لینا بند کر دیتے ہیں۔
مجھے اینٹی سائیکوٹک دوا کتنے عرصے کے لیے لینی ہوگی؟
- ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جن لوگوں کو شیزوفرینیا کا حملہ پہلی دفعہ ہوا ہو، وہ جس وقت سے بالکل ٹھیک ہو جائیں، اس کے بعد بھی انہیں دوا کم از کم ایک سے دو سال کے لیے جاری رکھنی چاہیے، ورنہ بیماری کی علامات کے واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
- جن لوگوں کو شیزوفرینیا کے ایک سے زیادہ اٹیکس ہوچکے ہوں، انہیں دوا بند کرنے کی صورت میں اگلا اٹیک ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں دوا بہت طویل عرصے تک جاری رکھنی چاہیے۔
- اگر آپ دوا بند کرنا چاہیں تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
- اگر دوا بند بھی کرنی ہو تو بہت آہستہ آہستہ کم کر کے بند کرنی چاہیے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو کافی امکان ہے کہ آپ کو مکمل شدید اٹیک ہونے سے پہلے ہی کچھ علامات واپس آنے کا اندازہ ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں علاج کرنا مکمل شدید اٹیک کا علاج کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔
اگر میں اپنی اینٹی سائیکوٹک دوا بند کر دوں تو کیا ہوگا؟
ایسی صورت میں بیشتر لوگوں میں بیماری کی علامات واپس آنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ علامات دوا بند کرنے کے فوراً بعد دوبارہ شروع نہیں ہوتیں، بلکہ ان کو واپس آنے میں عام طور سے تین سے چھ مہینے لگتے ہیں۔
اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات
(اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کی مزید تفصیل آگے آئے گی)
- کلوزاپین کے علاوہ تمام اینٹی سائیکوٹک دوائیاں تقریباً ایک دوسرے کے برابر ہی موثر ہوتی ہیں۔ آپ کو کون سی اینٹی سائیکوٹک دی جانی چاہیے، یہ آپ کے ڈاکٹر کو آپ سے ٖڈسکس کرنا چاہیےکیوں کہ یہ اکثر اس پہ منحصر ہوتا ہے کہ کس دوائی کے مضر اثرات کیا ہیں۔
- اب بہت ساری اینٹی سائیکوٹکس موجود ہیں لیکن یہ پہلے سے جاننا ممکن نہیں ہوتا کہ کسی ایک مخصوص مریض کو کس دوا سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ عام طور سے پہلے اس کے سائیڈ ایفیکٹس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایک اینٹی سائیکوٹک تجویز کی جاتی ہے۔ اگر اس سے کچھ ہفتوں میں فائدہ نہ ہو، یا اس سے ناقابلِ برداشت مضر اثرات ہونے لگیں، تو پھر اس کو بدل کے دوسری دوا تجویز کی جاتی ہے۔
- واحد اینٹی سائیکوٹک جس کے بارے میں ریسرچ سے یہ واضح ثبوت موجود ہے کہ وہ دوسری اینٹی سائیکوٹک دوائیوں سے زیادہ موثر ہے کلوزاپین ہے۔ لیکن چونکہ اس کے بعض مضر اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں اس لیے یہ صرف ان صورتوں میں دی جا سکتی ہے جب مریض کو پہلے کم از کم دو اینٹی سائیکوٹکس لینے سے فائدہ نہ ہوا ہو یا ناقابلِ برداشت مضر اثرات ہوئے ہوں۔ اگر آپ دو مختلف اینٹی سائیکوٹکس مناسب ڈوز میں تقریباً آٹھ ہفتے کے لیے لے چکے ہوں اور آپ کو ان سے فائدہ نہ ہوا ہو، تو پھر کلوزاپین ٹرائی کی جا سکتی ہے۔
- آپ کی اینٹی سائیکوٹک دوا اور اس کے ڈوز پر ہر سال کم از کم ایک دفعہ آپ کے سائیکائٹرسٹ کو نظرِ ثانی کرنا چاہیے۔
کوگنیٹو بیہیویئر تھراپی (سی بی ٹی) (Cognitive Behaviour Therapy)
شیزوفرینیا میں کوگنیٹو بیہیویئر تھیراپی (سی بی ٹی) ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جو اینٹی سائیکوٹک دوا لے رہے ہوں۔ یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ دوا نہیں لے رہے ہوں ان کو بھی سی بی ٹی سے فائدہ ہوتا ہے کہ نہیں۔ سی بی ٹی اس وقت زیادہ موزوں ہوتی ہے جب بیماری کی علامات حال میں ہی شروع ہوئی ہوں۔
سی بی ٹی سے اس طرح کے فائدے ہوتے ہیں؛
- ان علامات کا مقابلہ کرنا سیکھنا جو آپ کے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث ہوں، مثلاً بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والے خیالات، غیبی آوازیں آنا، ایسا ڈر خوف لگنا کہ لوگ آپ کے دشمن ہو گئے ہیں اور آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
- اس بات پر غور کرنا کہ آپ علامات کے بارے میں کس طرح سے سوچتے ہیں۔ بہت دفعہ انسان علامات کے بارے میں جو خیال رکھتا ہے، ان خیالات کو بدلنے سے علامات کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔
- اس پہ غور کرنا کہ آپ ان علامات کے نتیجے میں کس طرح ری ایکٹ کرتے ہیں۔ بعض ری ایکشن خطرناک بھی ہوتے ہیں اور تکلیف کا باعث بھی۔ ان کو بدلنے سے خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
- سی بی ٹی میں اس بات پہ غور کیا جا سکتا ہے کہ انسان اپنی علامات کے بارے میں جس طرح سے "سوچتا" ہے اور جس طرح سے "ری ایکٹ" کرتا ہے، ان کو کیسے بدلا جا سکتا ہے۔مثلاً آوازوں کا ایک ری ایکشن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں سے لڑنے لگے کہ یہ مجھے بری باتیں کہہ رہے ہیں۔ لیکن علاج کے نتیجے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو سمجھ آ جائے کہ یہ علامات مجھے بیماری کی وجہ سے ہو رہی ہیں، اور مجھے اگر ایسا محسوس بھی ہو تو اپنے ڈاکٹر سے مل کر اس بارے یں بات کرنی چاہیے اور لوگوں سے لڑنا نہیں چاہیے۔
اس طرح کی سائیکوتھراپی سے آپ اپنے آپ میں بہتر محسوس کر سکتے ہیں اور مسائل کے حل کے نئے طریقے سیکھ سکتے ہیں۔
صحتیابی کے اور پہلو
پہلے شیزوفرینیا کی بیماری سے صحتیابی صرف اس کو سمجھا جاتا تھا کہ مریض کی ایکیوٹ علامات ختم ہو جائیں، مثلاً اس کو غیبی آوازیں آنا بند ہو جائیں، یا لوگوں کے خلاف شکوک و شبہات ختم ہو جائیں۔ لیکن اب علامات سے صحتیابی (symptom recovery) کے ساتھ ساتھ مریض کی کارکردگی کی بحالی (functional recovery) پہ بھی بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوشش یہ کی جاتی ہے مریض اس بیماری اور اس کے علاج کے ساتھ اتنی ہی نارمل اور ویسی ہی زندگی گزار سکے جو اس کی عمر کے وہ دوسرے لوگ گزارتے ہیں جنہیں شیزوفرینیا کی بیماری نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مصروف رہنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ ہم جب مریضوں کو ریویو کے لیے دیکھتے ہیں تو ان سے ان کی بیماری کی علامات اور دوا کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں پوچھنے کے علاوہ یہ تین سوال ضرور پوچھتے ہیں؛
۱۔ آپ باقاعدگی سے ورزش کر تے ہیں کہ نہیں؟
۲۔ آپ کیا کام کر رہے ہیں؟ ( اس میں فل ٹائم، پارٹ ٹائم یعنی جز وقتی کا، والنٹری ورک یعنی پیسے کے بغیر کام کرنا، پڑھائی کرنا سب شامل ہیں)
۳۔ کام کے علاوہ آپ کے کیا مشاغل اور دلچسپیاں ہیں؟ مثلاً دوستوں سے ملنا جلنا، وغیرہ۔ مکمل صحتیابی کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہوتے ہیں۔
شیزوفرینیا کے مریض اپنے آپ کو بہتر رکھنے کے لیے خود کیا کر سکتے ہیں؟
اپنی ابتدائی علامات کو پہچاننا سیکھیں
شیزوفرینیا کی بیماری آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہے اور مریض میں پہلے دن سے وہ تمام علامات نہیں ہوتیں جو کچھ ہفتے یا کچھ مہینے بعد نظر آتی ہیں۔ ان ابتدائی علامات کو ارلی وارننگ سائنز (early warning signs) کہتے ہیں۔ عموماً ایک مریض میں اگلے جتنے بھی اٹیکس ہوتے ہیں ان کی ابتدائی علامات ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ جب مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہیں یاد ہے کہ جب ان کی بیماری بالکل شروع ہوئی تھی اس وقت ان کو سب سے پہلی علامات کیا ہوئی تھیں۔ اگر مریض کو خود یاد نہ ہوں تو بہت دفعہ گھر والے بتاتے ہیں کہ مریض کے رویے یا اس کی باتوں میں سب سے پہلے یہ تبدیلیاں آئی تھیں۔ ہم پھر مریض کو یہ بتاتے ہیں کہ اگر آئندہ کبھی آپ کو اس طرح کی علامات محسوس ہونا شروع ہوں تو فوراً ہم سے رابطہ کریں۔ جن مریضوں کی انسائٹ (insight) یا خود شناسی اچھی ہوتی ہیں اگر ان کو اس طرح کی ابتدائی علامات شروع ہوں تو وہ خود یا ان کے گھر والے فوراً ہم سے رابطہ کر لیتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کی شدت بتدریج بڑھتی ہے۔ اگر اس کو بہت جلدی پہچان لیا جائے تو بہت دفعہ دوا میں تھوڑی سی تبدیلی سے ہی اور نیند کے بہتر ہونے سے اس اٹیک کی شدت بڑھنا رک جاتا ہے، بہت زیادہ دوا کا ڈوز نہیں بڑھانا پڑتا، ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش نہیں آتی،اور وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس اٹیک کو بڑھنے دیا جائے اور وہ اپنی پوری شدت تک پہنچ جائے تو دوا کا ڈوز بھی عام طور سے کافی زیادہ دینا پڑتا ہے اور ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
ویسے تو ہر مریض کی بیماری کی ابتدائی علامات الگ ہوتی ہیں لیکن بہت سے مریض اس طرح کی علامات بیان کرتے ہیں؛
- ان کی نیند اڑ جاتی ہے، اتنی بھوک نہیں لگتی، گھبراہٹ ہونے لگتی ہے، روز مرّہ کے کام کرنا مشکل ہونے لگتا ہے۔
- ہو سکتا ہے کہ آپ کے قریبی لوگ دیکھیں کہ آپ اتنی باقاعدگی سے کپڑے نہیں بدلتے یا اپنی صفائی ستھرائی کا اتنا خیال نہیں رکھتے جتنا پہلے رکھتے تھے۔
- ہو سکتا ہے کہ آپ کو لوگوں کے بارے میں تھوڑے بہت شبہات شروع ہو جائیں کہ وہ شاید آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن اس پہ پورا یقین نہ ہو۔
- ہو سکتا ہے کہ آپ کو کبھی کبھی ایسی آوازیں آنا دوبارہ شروع ہو جائیں تو دوسروں کو نہ سنائی دیں۔
ان چیزوں سے بچیں جن سے آپ کی بیماری واپس آنے کا خدشہ ہو
بعض دفعہ لوگوں کو وقت کے ساتھ ساتھ پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی بیماری کی علامات کن باتوں سے زیادہ شدید ہو جاتی ہیں، یا اگر وہ ٹھیک ہوں تو ان باتوں یا کاموں سے ان کی بیماری واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ عام طور سے ان باتوں سے لوگوں کی بیماری خراب ہوتی ہے؛
- اپنی دوا کو ڈاکٹر کے مشورے کے خلاف یا بغیر جلدی بند کر دینا
- نشہ آور اشیاء مثلاً چرس، افیم، شراب، وغیرہ استعمال کرنا
- جہاں تک ممکن ہو اس طرح کی صورتِ حال سے بچنا جس سے انسان کو اسٹریس یعنی ذہنی دباؤ بڑھتا ہو
- گھر والوں اور خاندان والوں سے تلخیوں سے بچنا، اس پہ بہت ریسرچ ہے کہ جن مریضوں کے گھروں میں بہت تنقید والا یا غصّے والا ماحول ہو ان کو دوا لینے کے باوجود شیزوفرینیا کا اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے
ریلیکسیشن یعنی اپنے آپ کو پرسکون کروانے والی ایکسرسائزز سیکھیں (Relaxation exercises)
یہ ایسی مشقیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی سانس کی رفتار کو کنٹرول کر کے،اور اپنے عضلات یعنی مسلز کو اکڑا کے اور پھر ریلیکس کر کے اپنی گھبراہٹ اور پریشان کو خود کم کرنا سیکھتا ہے۔ پہلے یہ ایکسرسائزز تھیراپسٹ کرواتے تھے لیکن اب انٹرنیٹ پہ ان ایکسرسائزز کی ہدایات اردو زبان میں بھی مفت میں دستیاب ہیں۔
ایسی دلچسپیوں میں حصّہ لیں جن میں آپ کو مزا آتا ہو
بہت سے صحتمند لوگ بھی اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے کہ اپنی ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایسی دلچسپیاں میں حصّہ لینا جن کو انسان انجوائے کرتا ہو کتنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم اپنے تمام مریضوں کو چاہے ان کا ڈائیگنوسس یعنی تشخیص کچھ بھی ہو بہت شدودمد سے یہ تجویز کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسی چیزوں میں حصّہ لیتے رہیں جو وہ انجوائے کرتے ہوں۔ یہ چیزیں ہر ایک کے لیے مختلف ہوتی ہیں، مثلاً بعض لوگ اسپورٹس کھیلتے ہیں، بعض لوگوں کو کتابیں پڑھنے میں مزا آتا ہے، بعض کو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے میں مزا آتا ہے۔ بیمار ہونے کے بعد بھی ان سب چیزوں میں حصّہ لیتے رہنے سے صحتیابی میں بہت مدد ملتی ہے۔
اپنی غیبی آوازوں کو کنٹرول کرنا سیکھیں
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ سائیکوسس کی جو مثبت علامات ہوتی ہیں، مثلاً غیبی آوازیں آنا، ان کا علاج صرف دوائیوں سے ہو سکتا ہے۔ بعد میں پھر یہ پتہ چلا کہ دوائیوں کے علاوہ سائیکوتھراپی اور کاؤنسلنگ سے بھی ان سے ہونے والی تکلیف میں بہت کمی کی جا سکتی ہے۔
سب سے پہلے ہم اپنے مریضوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ آوازیں ان کی بیماری کا ایک حصّہ ہیں۔ ہم انہیں یہ بتاتے ہیں کہ دماغ کا ایک حصّہ ہے جس کا کام آوازیں سننا اور ان کو سمجھنا ہے۔ یہ حصّہ اس وقت ایکٹی ویٹ (activate) ہوتا ہے، یعنی کام کرنے لگتا ہے، جب ہمارے کانوں میں کوئی آواز آتی ہے اور اس کا سگنل کانوں کے ذریعے ہمارے دماغ کے اس حصّے تک پہنچتا ہے۔ لیکن بعض بیماریوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مریض کے دماغ کا وہ حصّہ بغیر کسی بیرونی آواز کے خود بخود ہی ایکٹی ویٹ ہوجاتا ہے، اور اسی لیے مریض کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کے کانوں میں کوئی آواز آرہی ہے۔ مریض کے لیے یہ آواز اتنی ہی حقیقی ہوتی ہے جتنی کہ کوئی اور آواز،کیونکہ اس کے "دماغ" میں یہ آوازیں اسی حصے میں آ رہی ہیں جس میں اور آوازیں آتی ہیں۔
جب مریضوں کو ایک دفعہ یہ سمجھ آ جائے کہ یہ آوازیں بیماری کی وجہ سے آ رہی ہیں، یہ حقیقت میں کسی انسان کی یا دشمن کی آوازیں نہیں ہیں، تو ان آوازوں سے ان کا ڈر خوف اور ان کا اس پہ اثر بہت کم ہوجاتا ہے۔ بہت سے مریض ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی آوازوں کی شدّت ان کاموں یا باتوں کی وجہ سے بہت کم یا ختم ہو جاتی ہے۔
- جب وہ ایسے کسی کام میں مصروف رہتے ہیں جس پہ انہیں ذہنی توجہ دینی پڑتی ہے۔
- جب وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
- جب وہ ریڈیو سن رہے ہوتے ہیں یا ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آج کل ہیڈ فونز کی وجہ سے یہ بھی آسانی ہوتی ہے کہ اس سے دوسرے لوگ ڈسٹرب نہیں ہوتے۔
- جب وہ اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ یہ آوازیں حقیقی نہیں ہیں، بلکہ بیماری کی وجہ سے ان کے دماغ کا آوازیں سننے والا حصّہ ایکٹی ویٹ ہو رہا ہے۔
- جب وہ اپنے آپ کو یہ یقین دہانی کروا سکیں کہ یہ آوازیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔
- جب وہ اپنے آپ کو یہ یقین دہانی کروا سکیں کہ ان آوازوں کا ان کے اوپر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہ ان سے کوئی کام نہیں کروا سکتیں۔
اپنی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں
جتنی بھی طویل عرصے کی بیماریاں ہیں، جیسا کہ شیزوفرینیا میں بیشتر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان میں مریض کو اپنی بیماری کے بارے میں جتنا زیادہ علم ہوتا ہے، وہ وہ اتنا ہی اس کو بہتر مینیج کر سکتا ہے اور اس پہ قابو پا سکتا ہے۔
- اپنے ڈاکٹر سے اپنی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔
- ان سے پوچھیں کہ آپ کی بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں تحریری معلومات ملنے کے مستند ذرائع کیا ہیں۔
- اگر آپ کو لگے کہ آپ کو دوا سے فائدہ نہیں ہو رہا ہے، یا بہت شدید مضر اثرات ہو رہے ہیں، تو اپنے ڈاکٹر سے دوبارہ رابطہ کریں اور ان سے پوچھیں کہ اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے، اور اس دوا کا کوئی متبادل ہے کہ نہیں۔
اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیں
جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہوتا ہے ان کی جسمانی صحت عام طور سے ان لوگوں سے زیادہ خراب ہوتی ہے جن کوشیزوفرینیا نہیں ہوتا۔ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں؛
- شیزوفرینیا کی بیماری بذاتِ خود۔
- لائف اسٹائل یعنی طرزِ زندگی۔ اس میں خوراک کی نوعیت اور مقدار، ورزش کرنا یا نہ کرنا، سگریٹ نوشی سب شامل ہیں۔
- بعض اینٹی سائیکوٹک ادویات سے وزن بڑھنے، اور اس کی وجہ سے ذیابطیس، بلڈ پریشر، اور دل کی بیماریوں کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اس جسمانی صحت کی خرابی کی وجہ جو بھی ہو، شیزوفرینیا کے مریض ان باتوں پہ عمل کر کے اپنی جسمانی صحت کو خود بہتر کر سکتے ہیں۔
- خوراک میں تیل، چکنائی، اور چینی کا استعمال کم کریں۔ سبزیاں، سلاد، اور پھل زیادہ کھائیں۔
- باقاعدگی سے ورزش کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے لیے جمنیزیم جانا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اگر انسان ہفتے میں کئی روز بیس سے تیس منٹ تک قدرے تیز رفتار سے چلنے کی عادت ڈال لے تو اس سے جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
- اپنا وزن ہر کچھ عرصے پہ چیک کرتے رہیں۔ وزن بڑھنے سے بہت ساری جسمانی بیماریاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، مثلاً ذیابطیس، بلڈ پریشر زیادہ ہونا، دل کی بیماری، وغیرہ۔
- سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش کریں۔
- اپنا بلڈ پریشر، اور خون میں شوگر اور کولیسٹیرول کا لیول کم از کم سال میں ایک دفعہ ضرور چیک کروائیں۔ اگر یہ بڑھے ہوئے ہوں تو ان کا علاج کروانے کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
- سال میں ایک دفعہ دل کی کارکردگی کا چیک اپ کروائیں۔
- نشہ آور ادویات کے استعمال سے سختی سے گریز کریں۔ ان سے نہ صرف نفسیاتی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے، بلکہ بعض سے جسمانی بیماریوں مثلاً دل کے دورے اور اسٹروک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
شیزوفرینیا کے مریضوں کے گھر اور خاندان والوں کے لیے کچھ معلومات اور ہدایات
جب کسی انسان کو شیزوفرینیا کی بیماری شروع ہوتی ہے تو بہت دفعہ اس کے گھر والوں کو خاندان والوں کو سمجھ نہیں آتا کہ ان کے عزیز کا رویّہ کیوں تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بہت دفعہ ان کو سمجھ بھی نہیں آتا کہ ان کے عزیز کو کوئی بیماری ہو گئی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ آپ کے عزیز کا رویّہ عجیب ہو گیا ہے، وہ آپ سے کٹ سا گیا ہے، اس نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے، وہ جو کام پہلے کیا کرتا تھا اب اس نے وہ کام کرنے چھوڑ دیے ہیں۔
اگر اس کو ڈیلیوزنز (بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والے غلط خیالات جو حقیقت پہ مبنی نہیں ہوتے لیکن مریض کو ان پہ پختہ یقین ہوتا ہے) ہوں تو ہو سکتا ہے وہ ایسی باتیں کرے جو آپ کو عجیب سی اور غیر معمولی لگیں۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کسی کو بھی نہ بتائے۔ اگر اس کو ہیلیو سی نیشنز ہو رہی ہوں، یعنی ایسی آوازیں آ رہی ہوں جو کسی اور کو سنائی نہ دیں، تو ہو سکتا ہے آپ کو اس کے اکیلے میں کسی سے بات کرنے کی آواز سنائی دے، یا وہ اچانک کسی اور طرف متوجہ ہو جائے جیسے وہ کسی سے بات کر رہا ہو۔
ہو سکتا ہے وہ آپ سے بات کرنا کم کر دیں، آپ کی باتوں کا جواب نہ دیں، یا ان کی باتیں آپ کی سمجھ میں نہ آ رہی ہوں۔
ان کی نیند کا معمول تبدیل ہو سکتا ہے مثلاً وہ رات بھر جاگنے اور دن میں سونے لگیں۔
اگر آپ کو ایسا لگنے لگے کہ آپ کے کسی عزیز کا رویّہ پچھلے کچھ عرصے میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تبدیل ہو گیا ہے ،اور خاص طور سے اگر وہ ایسی باتیں کرنے یا کہنے لگے جو آپ کو عجیب و غریب لگیں، کوئی ایسے کام کرنے لگے جس سے ا سکو یا دوسروں کو ممکنہ طور پہ خطرہ ہو، یا جو کام وہ پہلے کیا کرتا تھا مثلاً پڑھائی، ملازمت، یا کاروبار، وہ بالکل چھوڑ دے اور اپنے کمرے میں بند ہو جائے، تو بہتر ہو گا کہ آپ اس صورتِ حال کے بارے میں کسی سائیکائٹرسٹ سے مشورہ کر لیں۔
شیزوفرینیا کے بارے میں پھیلی ہوئی کچھ غلط فہمیاں
کیا شیزوفرینیا کے مریض دوسروں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں؟
عام طور سے شیزوفرینیا کے مریض دوسروں کے لیے خطرناک نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہو تو اکثر اس کی وجہ نشہ آور اشیاء بشمول الکحل کا استعمال ہوتا ہے۔ یہی بات ان لوگوں پہ بھی صادق آتی ہے جو دوسروں کو جسمانی نقصان پہنچاتے ہیں اور جن کو شیزوفرینیا نہیں ہوتا۔
جب مریض یا ان کے گھر والے ہم سے یہی سوال پوچھتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ کافی عرصہ پہلے میں نے ایک ریسرچ پڑھی تھی جو ان لوگوں کے بارے میں تھی جنہوں نے کسی دوسرے انسان کی جان لی تھی۔ ایسے لوگوں کو سزا سنانے سے پہلے برطانیہ میں ان کا نفسیاتی معائنہ ضروری ہوتا ہے۔ اس ریسرچ سے یہ پتہ چلا کہ ان لوگوں میں سے صرف دس فیصد کو شیزوفرینیا سمیت کوئی بھی نفسیاتی بیماری تھی۔ باقی نوے فیصد لوگ ذہنی طور پہ "بالکل صحتمند" تھے۔
شماریات کے اعتبار سے جن لوگوں کو شیزوفرینیا ہوتا ہے، ان کا کسی قسم کے جارحیت کا عمل کرنے کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوتا ہے جنہیں شیزوفرینیا نہیں ہوتا، لیکن جتنا خطرہ نشہ آور اشیاء بشمول الکحل کے استعمال سے ہوتا ہے اس کے مقابلے میں یہ بہت کم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کو نقصان پہنچائیں۔
کیا شیزوفرینیا کبھی ٹھیک نہیں ہوتا؟
وہ لوگ جن کو پہلی دفعہ شیزوفرینیا ہونے کی تشخیص کی جاتی ہے ان میں سے تقریباً ۲۰ سے پچیس فیصد (ہر چار میں سے ایک سے لے کے ہر پانچ میں سے ایک تک) لوگ بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں اور انہیں دوبارہ کبھی شیزوفرینیا کی علامات نہیں ہوتیں۔
ہر پانچ میں سے تین (یعنی تقریباً ساٹھ فیصد) لوگوں کوعلاج سے کچھ حد تک فائدہ پہنچتا ہے یا وہ اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(@ “Mental Health Made Easy” on Facebook, YouTube and Google sites)
اس سوال کا جواب دینے کے لیے سب سے پہلے سائیکوسس اور شیزوفرینیا کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۔ سائیکوسس کی اصطلاح کا بنیادی مطلب ہوتا ہے کہ کسی مریض کو ڈیلیوزن اور ہیلیو سی نیشن ہوں۔ ڈیلیوزن (delusion) کی اصطلاح کا مطلب ہوتا ہے ایسے غلط خیالات پیدا ہو جانا جن کی کوئی حقیقت نہ ہو لیکن مریض کو ان پہ اتنا پختہ یقین ہو کہ اس کو اگر حتمی ثبوت بھی دے دیے جائیں کہ اس کا خیال غلط ہے تب بھی وہ اپنا خیال نہ بدلے۔ ہیلیو سی نیشن (hallucination) کا مطلب ہے کہ مریض کو کسی حقیقی محرک (stimulus) کی غیر موجودگی میں ادراک (perception) ہونے لگے مثلاً غیبی آوازیں آنے لگیں جو کسی اور کو سنائی نہ دیں، یا غیر مرئی چیزیں دکھائی دینے لگیں جو کسی اور کو دکھائی نہ دیں۔
یہی علامات شیزوفرینیا کی بھی بنیادی علامات ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ اور بہت سی بیماریوں میں نظر آ سکتی ہیں مثلاً شدید ڈپریشن، شدید مینیا، ایکیوٹ سائیکوٹک ڈس آرڈر (acute psychotic disorder) جو شیزوفرینیا کی طرح کی ہی بیماری ہوتی ہے لیکن مہینے بھر سے کم میں ختم ہو جاتی ہے، جو شخص الکحل پینے کا عادی ہو وہ اگر اچانک سے پینا بند کر دے، اور کئی جسمانی بیماریاں۔
جب کسی شخص کو پہلی دفعہ سائیکوسس کی علامات ہوتی ہیں تو اکثر یہ فوراً بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ اسے شیزوفرینیا ہے یا کوئی اور بیماری ہے۔ بعض دفعہ یہ وثوق سے پتہ چلنے میں مہینوں لگتے ہیں۔ اس لیے پہلے اٹیک یا ایپی سوڈ کے بعد اینٹی سائیکوٹک دوا بند کرنے کی جتنی بھی گائیڈلائنز ملتی ہیں ان میں فرسٹ ایپی سوڈ سائیکوسس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، شیزوفرینیا کی نہیں۔
سائیکوسس (شیزوفرینیا) کے پہلے اٹیک سے صحتیاب ہو جانے کے بعد دوا کتنے عرصے چلنی چاہیے؟
نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (نائس، برطانیہ) کہتا ہے کہ سائیکوسس کے پہلے اٹیک کے بعد جس وقت مریض بالکل ٹھیک ہو جائے، اس وقت سے اینٹی سائیکوٹک دوا کم از کم بارہ سے اٹھارہ مہینے تک کے لیے چلنی چاہیے۔ اس کے بعد اس دوا کو آہستہ آہستہ کم کرتے ہوئے کم از کم تین مہینے کے اوپر بند کرنا چاہیے۔ اگر دوا مریض کے ٹھیک ہونے کے فوراً بعد بند کر دی جائے، یا اسے آہستہ آہستہ کے بجائے اچانک بند کر دیا جائے، تو سائیکوسس کی علامات واپس آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
فرسٹ ایپی سوڈ سائیکوسس کے علاج پہ اور اینٹی سائیکوٹک دوا بند کرنے پہ جو ریسرچ ہے وہ یہ کہتی ہے کہ اگر دوا مریض کے ٹھیک ہونے ایک سے دو سال کے بعد آہستہ آہستہ بند کی جائے تو تقریباً بیس سے تیس فیصد مریضوں کو بیماری کا اٹیک پھر نہیں ہوتا۔
جن لوگوں کو سائیکوسس (شیزوفرینیا) کا ایک سے زیادہ اٹیک ہوا ہو ان کی اینٹی سائیکوٹک دوا کتنے عرصے چلنی چاہیے؟
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا جن لوگوں کو شیزوفرینیا کا ایک اٹیک ہوا ہو، ان میں سے تقریباً ۸۰ فیصد لوگوں کو مزید اٹیکس ہوتے ہیں۔
جن لوگوں کی پہلے اٹیک کی علامات مکمل طور سے ختم نہ ہوئی ہوں، جن لوگوں کو دوا سے بہت زیادہ سائیڈ ایفیکٹس ہوئے ہوں، اور جن لوگوں کو دوا کی افادیت اور ضرورت پہ پورا بھروسہ نہ ہو، ان لوگوں کو اگلا اٹیک ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
مریض کو جتنے زیادہ اٹیک ہوتے جاتے ہیں اتنا ہی اس کی اپنا روز مرہ کا معمول کا کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ خرابی سب سے زیادہ بیماری کے پہلے دس سالوں میں ہوتی ہے۔
شیزوفرینیا کے تقریباً دس فیصد مریضوں میں عمر بھر میں خودکشی کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس خطرے کا زیادہ امکان بھی بیماری کے پہلے دس سالوں میں ہوتا ہے۔
اگر اینٹی سائیکوٹک دوائیں باقاعدگی سے لی جائیں تو ان سے قلیل اور درمیانی مدت میں اگلا اٹیک ہونے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وثوق سے ثابت نہیں کہ ان سے طویل مدت میں اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے کہ نہیں۔
جو لوگ صرف اس وقت اینٹی سائیکوٹک دوا لیتے ہیں جب انہیں بیماری کی علامات دوبارہ نظر آنا شروع ہو جائیں ان کو بیماری کا اگلا اٹیک ہونے کا خدشہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو ٹھیک ہونے کی حالت میں بھی باقاعدگی سے دوا لیتے رہتے ہیں، اور ان کو ٹارڈو ڈس کائینیزیا (Tardive Dyskinesia) (اینٹی سائیکوٹک دوائیوں کے طویل المدتی استعمال سے ہونے والے ایک سائیڈ ایفیکٹ جس میں زبان، منہ یا ہاتھوں پیروں وغیرہ کی غیر ارادی حرکات شروع ہو جاتی ہیں) ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
کئی اینٹی سائکوٹک دوائیں ٹیبلٹ کے علاوہ انجیکشن کی شکل میں بھی آتی ہیں مثلاً ایری پیپرازول، زوکلوپینتھکزول، اولینزاپین، پیلی پیریڈون، وغیرہ۔ ان میں دوا وہی ہوتی ہے جو ٹیبلٹ میں ہوتی ہے لیکن انجیکشن کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسے دو یا چار ہفتے میں صرف ایک دفعہ لگانا ہوتا ہے اس لیے ٹیبلٹ لینے کی طرح روزانہ یاد نہیں رکھنا پڑتا اور بھولنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انجیکشن چونکہ نرس یا ڈاکٹر کو لگانا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے پاس ریکارڈ رکھتے ہیں کہ اگلا انجیکشن کب لگنا ہے۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ وہی دوا انجیکشن کی شکل میں لیتے ہیں ان میں ان لوگوں کے مقابلے میں جو ٹیبلٹ لے رہے ہوتے ہیں اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ کافی کم ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں کو شیزوفرینیا کے کئی اٹیک ہو چکے ہوں ان کو اینٹی سائیکوٹک دوا اسی ڈوز پہ جاری رکھنی چاہیے جس ڈوز پہ ان کی علامات ٹھیک ہوئی تھیں۔ گو جیسا کہ پہلے آیا پہلے اٹیک کے بعد ڈوز کو بہت آہستہ آہستہ کم کیا جا سکتا ہے۔
ریسرچ یہی کہتی ہے کہ جن لوگوں کو شیزوفرینیا کا اٹیک کئی دفعہ ہو چکا ہو ان کو دوا بند کرنے سے اگلا اٹیک کا خطرہ بہت زیادہ، تقریباً یقینی ہوتا ہے، گو اس میں سال سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اگر مریض یہ جانتے ہوئے بھی دوا بند کرنا چاہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ یہ دوا بہت آہستہ آہستہ بند کی جائے کیونکہ اس طریقے سے دوا بند کرنے سے اگلا اٹیک ہونے کا خطرہ بھی نسبتاً کم ہو جاتا ہے، اور اگر مریض کو دوا ایک خاص حد (جو ہر مریض کے لیے الگ ہوتی ہے) سے کم کرنے سے ّتھوڑی بہت علامات شروع ہو جائیں تو ان کا علاج کرنا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
For details please see this YouTube video
Schizophrenia is a clinical diagnosis which is made on the basis of the history given by the patient and/or their family, and observations made by the doctor duringt heir examination of the patient.
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
For details please see this YouTube video
ICD-10 SCHIZOPHRENIA
1. AT LEAST ONE OF THE FOLLOWING
• Thought echo, insertion, withdrawal, or broadcasting
• Delusions of control, influence or passivity; clearly referred to body or limb movements or specific thoughts, actions, or sensations; and delusional perception
• Hallucinatory voices giving a running commentary on the patient’s behaviour or discussing him/her between themselves, or other types of hallucinatory voices coming from some part of the body
• Culturally inappropriate or implausible delusions (e.g. religious/political identity, superhuman powers and ability)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, consultant psychiatrist, New Zealand)
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ اینٹی سائیکوٹک دوائیوں میں کون سی زیادہ موثر ہے، اور یہ کہ ان کے مضر اثرات یعنی سائید ایفیکٹس میں کیا فرق ہوتا ہے۔
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو اینٹی سائیکوٹک دوائیں عام طور سے استعمال کی جاتی ہیں، ان کا کم از کم کتنا ڈوز دینا فائدے کے لئے ضروری ہوتا ہے، اور قانوناً ان کا زیادہ سے زیادہ کتنا ڈوز دیا جا سکتا ہے۔
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)
ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ
اس وڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ شیزوفرینیا کے علاج میں دوائیوں کے علاوہ مریض کو دوسری سرگرمیوں اور کاموں میں حصّہ لیتے رہنے کی کیا اہمیت ہے۔
Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand
(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
(Dr Syed Ahmer MRCPsych, Consultant Psychiatrist, New Zealand)