(ڈاکٹر سید احمر ایم آر سی سائیک، کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ، نیوزی لینڈ)
ریسرچ بھی یہی کہتی ہے، اور ہم اپنی کلینیکل پریکٹس میں بھی روزانہ یہی دیکھتے ہیں، کہ جن بچوں کا بچپن خوشگوار اور ہنسی خوشی گزرتا ہے، وہ عام طور سے بڑے ہو کے بھی خوش و خرم انسان بنتے ہیں، اور ان کو نفسیاتی بیماریوں ہونے کا امکان بھی ان لوگوں سے کافی کم ہوتا ہے جن کا بچپن دکھ اور تکلیف میں، اذیت میں، ناخوشی میں گزرا ہو۔ اسی لئے میں ہمیشہ والدین سے کہا کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہوں کہ بڑے ہو کے آپ کا بچہ خوش رہے اور اس کو نفسیاتی بیماری
ہونے کا امکان کم سے کم ہو، تو اس بات کی حتی الامکان کوشش کریں کہ اس کا بچپن بہت خوشگوار ہو۔
بچپن کو خوش رہنے کے لئے بہت پیسے نہیں چاہیے ہوتے، گاڑی اور بنگلہ نہیں چاہیے ہوتا، ان کی خوشی کا سب سے زیادہ دارومدار اس بات پہ ہوتا ہے کہ ان کے
ماں باپ کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہے، ان کے والدین ان کو وقت دیتے ہیں کہ نہیں، ان کے والدین ان کے ساتھ پیار کا اظہار کرتے ہیں کہ نہیں، ان کے والدین ان کی کسی اچھی بات پہ اچھے کام پہ ان کی تعریف کرتے ہیں کہ نہیں۔
ایک دفعہ میری ایک جاننے والے خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ ان کا ۷،۸ سال کا بیٹا بہت بدتمیزی کرتا ہے، اس کا رویہ کیسے ٹھیک کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں چائلڈ سائیکائٹرسٹ تو نہیں ہوں، لیکن ایک اصولی بات بتا سکتا ہوں۔ وہ یہ کہ روز کم از کم آدھا گھنٹہ رکھیں جس میں وہ اپنے بچے کے ساتھ کوالٹی ٹائم (quality time) گزاریں۔ کوالٹی ٹائم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آدھے گھنٹے میں آپ وہ صرف وہ کام کریں جو بچہ چاہتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ فٹ بال کھیلے تو اس کے ساتھ مل کے فٹ بال کھیلیں، اگر وہ چاہتا ہے کہ ڈرائنگ کرے، تو اس کے ساتھ مل کے ڈرائنگ کریں۔ اس آدھے گھنٹے کو اس کی مرضی کے مطابق گزاریں۔ اس میں ہوم ورک نہ کروانا شروع کر دیں۔
ایک مہینے بعد وہ خاتون دوباره آئیں تو انہوں نے آفس میں آتے ہی رونا شروع کر دیا۔ میں تو گھبرا گیا کہ شاید میں نے کوئی غلط ایڈوائس دے دی جس سے کوئی نقصان ہو گیا۔ لیکن جب وہ بیٹھ گئیں تو پتہ چلا کہ وہ خوشی کے آنسو تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تو لگتا ہی نہیں ہے کہ ان کا بیٹا وہی بچہ ہے جو وہ ایک مہینے پہلے تھا۔ اب وہ ان کی ہر بات سنتا ہے، کوئی بدتمیزی نہیں کرتا، کوئی تھوڑ پھوڑ نہیں کرتا، اپنا ہوم ورک آرام سے بغیر کسی بحث یا لڑائی جھگڑے کے کر لیتا ہے۔ اور اس سب کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے روز کا ٹائم فکس کر دیا کہ مثلاً شام پانچ سے ساڑھے پانچ بجے تک کا وقت صرف اس بچے کا ہے۔ اس وقت میں وہ اس کے ساتھ مل کے وہی ایکٹیوٹی کرتی ہیں جو وہ بچہ چاہتا ہے۔ اور ا سکے بعد سے خود بخود یہ سب مثبت تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔
اس ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوا کہ ہمارے بچے ہم سے سوائے تھوڑی سی محبت اور تھوڑے سے وقت کے اور کچھ نہیں مانگتے، اور اگر یہ دونوں چیزیں ہم ان کو دے سکیں تو ان کی آئندہ کی تمام زندگی پہ اس کا بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔