میری کہانی میری زبانی
by Tanzeel Ali .
December 24, 2021.
میرا نام محمد علی ہے اور میں ۷۵ سال کا ہوں ، بچپن سے ہی آزمائشوں کا سامنا رہا ہے۔ میرے والد کاٹھیاواڑ گونڈل اسٹیٹ کے شہری تھے۔ کم عمری میں گھر سے جھگڑا کر کہ رنگون چلے گئے اور آزادی سے کچھ عرصے پہلے ان کی شادی ہوگئی اور ۲۶ اگست ۱۹۴۷، آزادی کے ٹھیک دس دن کے بعد میں مشرقی پاکستان کے ایک دیہات جیسور میں پیدا ہوا۔ اور تین سال بعد ایک اور بھائی کلکتہ میں پیدا ہوا ۔ بد قسمتی سے اتنی کم عمر میں ہم دونوں بھائی یتیم ہوگئے یعنی میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والد صاحب نے دونوں بچوّں کو لے کر پاکستان ہجرت کی، کیونکہ والد کا سارا خاندان جان بچا کر پاکستان پہنچ چکا تھا ۔ ہجرت کے دوران سکھوں نے ٹرین پر حملہ کیا اور کچھ ہندو عورتوں نے ہمیں چھپا کر بچایا ۔ ہم کچھ دیر میں حیدرآباد سندھ پہنچیں تو چچا نے بےرخی کی پھر ہم مایوس ہو کر کراچی پہنچے ، میرے دادا اور دادی پہلے سے کراچی میں تھے۔ چھوٹا بھائی بہت بیمار ہو گیا تھا اور ہم دونوں بھائیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی تھی ۔ میری دادی کی ایک مچھیرن کام والی نے میرے چھوٹے بھائی کو گود لے لیا اور میں تین سال کی عمر میں بالکل تنہا ہو گیا۔ اس مچھیرن کی ایک بانجھ بیٹی تھی، انہو ں نے مجھے گود لے لیا اور یوں میرا بچپن مچھیروں کے یہاں گزرا۔ جب میں ساتھ سال کا ہوا تو ابّو نے دوسری شادی کی اور یوں ہم دونوں بھائی ایک سوتیلی ماں کے پاس آگئے۔
زندگی یوں ہی گزرتی رہی اور جب میں نے میٹرک پاس کیا تو مجھے ایک موقع ملا اور میں ٹیکس ٹائل کے کورس کے لئے جرمنی چلا گیا اور وہاں سے مجھے امریکا میں جانے کا موقع ملا لیکن اس وقت بدقسمتی سے ابّو بہت بیمار رہنے لگے اور میرے علاوہ میرے ۱۰ بھائی بہن سب چھوٹے چھوٹے ان کو سمبھالنے کا مسئلہ ہو گیا، یوں اپنے ابّو اور سارے بھائی بہنوں کی خاطر مجھے پاکستان آنا پڑا اور یوں میرے اچھے مستقبل کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ابّو کا انتقال ہو گیا اور کم عمری ہی میں مجھ پر گیارہ افراد کی کفالت کا بوجھ آگیا ۔ دن گزرتے گئے اور پہلے میں نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کی پھر تین بہنوں کی شادی کی اور پھر اپنی شادی اپنی کزن سے کی ، دو سال بعد میری بیوی فوت ہوگئی ، کچھ عرصے کے بعد میری ایک سالی کو طلاق ہو گئی ، اس کی ایک بیٹی بھی تھی ، میں اپنی اس متعلقہ سالی سے شادی کی ، اس دوسری بیوی سے مجھے تین بچّے ہوئے ، ان کی پرورش کرتے کرتے اب بوڑھاپے تک پہنچا ہوں ۔ میری چھوٹی بیٹی تقریبًا ۴ سال کی تھی کہ میری دوسری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا ، اپنی اس بیٹی کی پرورش کے لئے مجھے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا پڑا ۔ میری دوسری بیوی کے انتقال کو تقریبّا ۲۰ سال ہو چکے ہیں ، میرا ایک بیٹا بال بچّوں والا ہے، چھوٹی بیٹی گریجویشن کے فائنل ایئر میں ہے اور امید ہے کہ شاید اب مزید آزمائش کے دن ختم ہوگئے اور اختتام بخیر کا انتظار ہے۔