ایک دن نور حسین ارکانی کے ساتھ
ایک دن نور حسین ارکانی کے ساتھ
تحریر: سمیر عبداللہ، بختاور ذاکر
گزشتہ سال شائع ہونے والی غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روہنگیا مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں کا تعلق میانمار کی مغربی ساحلی پٹی پر موجود ایک صوبہ راکھین سے ہے، جیسے ماضی میں اس صوبے کا نام ارکان تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے ارکان صوبے پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظلم و ستم سے تنگ آکر روہنگیا مسلمانوں نے برما سے ہجرت کرنا شروع کی تو پاکستان کے پہلے فوجی صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نےسال 1962ء میں روہنگیا کے مسلمانوں سے ہمدردی کی خاطر تقریباََ ڈیڑھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو پاکستان میں پناہ دی اور اُس کے بعد روہنگیا کے مسلمانوں کی پاکستان میں ہجرت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مگر پاکستان آنے کے بعد بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کم نہ ہوئے۔
نور حسین ارکانی کے مطابق، اس وقت پاکستان میں بالخصوص کراچی میں روہنگیا مسلمان بہت سی مشکلات کہ شکار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستان پر بوجھ سمجھا جارہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ روہنگیا برادری ایک محنت کش قوم ہے، ہمارے نوجوانوں کی اکثریت ماہی گیروں کا کام کر رہےہیں، سمندری طوفانوں ، موجوں اور لہروں کا سامنا کرتے ہوئےاعلیٰ نسلوں کی مچھلیاں اور دیگر سمندری اشیاء لیکر آرہے ہیں، اُنہی مچھلیوں کو حکومتِ پاکستان دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کرکےماہانہ اربوں ڈالر کمارہی ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے نور حسین ارکانی کا تفصیلی انٹرویو کیا جو کہ روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن ارکان پاکستان کے سربراہ ہیں اور اس عہدے کے تحت وہ روہنگیا برادری کے تمام مسائل کو دیکھتے ہیں۔
اس سوال پر، کہ پاکستان میں موجود روہنگیا مسلمان برادری کے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ اس پر نور حسین ارکانی نے جواب میں کہا کہ، روہنگیا برادری کا سب سے بڑا مسلہ پاکستانی شہریت نہ ہونا ہے۔ جو کہ تمام مسائل کی جڑ ہے۔
نور حسین ارکانی ہمیں ارکان آباد میں موجود اپنے دفتر میں انٹرویو دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں
1951 کے پاکستانی شہریت کے قانون کے مطابق،
• وہ شخص پاکستان کا شہری بن سکتا ہے، جن کہ والدین یا آباؤاجداد کی پیدائش پاکستان بننے کے بعد ہوئی ہو(14 اگست 1947)۔
• وہ شخص جس کے والدین یا آباؤاجداد کی پیدائش (31 مارچ 1937) کے وقت انڈیا کہلائے جانے والے ملک میں ہوئی ہو۔
• وہ شخص جو بنیادی طور پر برطانوی ہو اور اس نے پاکستان میں ہجرت کی ہو اس قانون کے آنے سے پہلے۔
مگر 1978 میں صدر جنرل ضیاء الحق نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی جو کہ پاکستان شہریت ترمیم آرڈیننس کہلاتا ہے۔ جس کی بدولت تین طرح کے شخص کو پاکستان کا شہری تسلیم کیا جائے گا۔
• وہ شخص جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں مقیم رہا۔
• وہ شخص جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں ہجرت کی۔
• وہ شخص جس کے پاس مشرقی پاکستان کا ڈومیسائل ہو لیکن علیحدگی کے وقت وہ کسی غیر ملک میں مقیم ہو اور اس کے پاس شہریت کا سرٹیفیکیٹ ہو جو کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہو۔
جب ہم نے نور حسین ارکانی سے پوچھا کہ نادرا روہنگیا برادری کے لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کیوں نہیں کرتا؟
نور حسین ارکانی: نادرا سسٹم سے پہلے تمام روہنگیا مسلمانوں کے پاس شہریت تھی۔ لیکن جب نادرا ادارہ بنا تو اُس وقت انہوں نے ایک پالیسی نکالی کہ تمام روہنگیا مسلمانوں سے شہریت لے لی جائے کیونکہ یہ تاریک وطن ہیں۔ لہٰذا انہیں پاکستان میں شہریت حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں،پالیسی میں کہا گیا کہ روہنگیا مسلمان صرف پاکستان میں رہ سکتے ہیں ، یہ یہاں پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں بنا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے جو دیگر پاکستانی عوام کو میسر ہیں۔
ہم نے جب یہ سوال کیا کہ، شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں آپکی برادری کو کیا مسائل پیش آتے ہیں؟
نور حسین ارکانی: شہریت نہ ملنے کی وجہ سے روہنگیا برادری کےلوگوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں، ہمارے بچوں کو اسکولوں میں داخلے نہیں دیے جارہے ہیں ، اسپتالوں میں ہمارا علاج مکمن نہیں ہے، نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان غلط کاموں کی طرف جارہے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنا پیٹ بھرنا ہے جب نوکری ہی نہیں ہوگی تو وہ اپنی اور اپنے اہلخانہ کی بھوک کیسے ختم کریں گے۔
روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نور حسین ارکانی سے گفتگو کرتے ہوئے
سوال: کراچی کے کس علاقے میں روہنگیا برادری کے افراد زیادہ آباد ہیں؟
نور حسین ارکانی: کراچی میں روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کورنگی کے انڈسٹریل ایریا میں رہائش پذیر ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے اور ہماری برادری نے ہی محنت مزدوری کرکے اس صنعتی علاقے کو کامیاب اور زندہ رکھا ہوا ہے۔
ہم نے پوچھا کہ آپ حکومت پاکستان کو کیا کہنا چاہتے ہیں؟
نور حسین ارکانی: میں حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ مہربانی کرکے روہنگیا برادری کی شہریت کے معاملے پر توجہ دی جائے تاکہ ہم بھی دیگر پاکستانی عوام کی طرح سکون سے زندگی گُزار سکیں، ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
انٹرویو کے دوران نور حسین ارکانی نے ہمیں اپنے ساتھ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے رہنما کے ساتھ ہونے والی پریس کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔
نور حسین ارکانی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے
پریس کانفرنس کے اختتام پر ہم نے نور حسین ارکانی سے جانے کی کوشش کی کہ کیا ان کو لگتا ہے جو انہوں نے اپنے مطالبات رکھے ہیں کیا وہ پورے ہوسکتےہیں؟
Writers are the Students of Journalism in Sindh Madressatul Islam University-Karachi.
Sumair Ahmed Tweets @sumairahmed
Bakhtawar Zakir Instagram @bakhtawarzakir