گاوں کا طرز زندگی-میری یاداشتیں


نصف صدی پہلے گاوں کی زندگی

آج کل ہمارے گاوں میں، ہر گھر میں خود کار واٹر پمپ لگے ہوے ہیں۔باورچی خانے اور غسل خانوں وغیرہ میں جدید طریقے کار سے پانی کی فراہمی کا انتظام ہے۔ٹھنڈے اور گرم پانی کی علیحدہ علیحدہ ٹوٹیاں ہیں۔پانی کو گرم کرنے کیلیے گیزر اور اور محفوظ کرنے کیلیے ہر گھر میں ٹینکیاں بنی ہوئ ہیں۔ ٹھنڈے پانی اور برف کیلیے تقریبا ہر گھر میں فریج موجود ہے۔اشیاے خوردونوش اور گوشت کو محفوظ بنانے کیلیے ریفریجیریٹر موجود ہیں۔ اوریہ سارا نظام بجلی کی فراہمی پر منحصر ہے۔ لیکن گاوں میں یہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ تقریبا تیس چالیس پہلے یہ سب ناپید تھا۔چنانچہ اس کالم میں اپنے قارئین کو گاوں کی زندگی کے اس پہلو سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس دور میں ان جدید سہولیات کے بنا کیسے زندگی بسر ہوتی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماررے گھر میں ایک کنواں ہوتا تھا اور اسکے منڈیر پر لکڑی کے دو پول متوازی نصب ہوتے تھے اور دونوں پول کے درمیان ایک اور لوہے کا راڈ پیوست ہوتا تھا اور اس پر ایک گھومنے والی چرخی نصب ہوتی تھی۔چنانچہ ڈول کو ایک لمبی رسی کے ساتھ باندھ کر چرخی کی مدد سے کنویں میں اتارا جاتا اورپانی سے بھرے ہوے ڈول کو پلی کی مدد سے اوپر کھینچ لیا جاتا۔بچپن میں اس کنویں کے ساتھ رہٹ کا نظام بھی نصب دیکھا تھا۔ اس کا میں کسی اور مضمون میں ذکر کروں گا۔ پھر اس پانی کو مٹی کے گھڑوں میں ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ پانی کو زیادہ دیر ٹھنڈا رکھنے کیلیے گڑھوں کے نیچے ریت ڈال دی جاتی تھی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ ان کو چھاوں میں رکھا جائے۔

چولھوں کو جلانے کیلیے خشک لکڑی کا ہونا بہت ضروری تھا۔ اور بعض لوگ مٹی کا تیل بھی استعمال کرتے تھے۔چولھا کیا تھا بس چار پانچ اینٹوں کو گھوڑے کی نعل کی شکل میں بنا لیا جاتا اور اسکے اوپر مٹی کا لیپ کر دیا جاتا۔ جب خواتین ہانڈی روٹی کرتی تو تو چولھے کے اندر چند لکڑیاں ڈال کر اسکے اوپر تھوڑا سا تیل چھڑک دیتی اور لکڑی اس سے جلدی آگ پکڑ لیتی تھی۔آگ کو تیزاور قابو کرنے کیلیے پھونکنے اور اچے کا بھی استعمال ہوتا تھا۔ لیکن ایسے چولھے بھی ٹاواں ٹاواں نظر انے لگے جو کسی دھا ت کے بنے تھے اور مٹی کے تیل سے جلتے تھے۔ہمیں ان دونوں قسم کے چولھوں کا استعمال کرنا آتا تھا۔اور ان نئے چولہوں نے خواتین کو دھویں کے عذاب سے بھی نجات دے دی- گرمیوں مییں تنور کا استعمال عام تھا۔ تنور کا اوون بنا کر اسکے ارد گرد مٹی کا لیپ کردیا جاتا تھا اور روٹیاں پکانے سے پہلے تنور میں بالن یعنی ایندھن ڈال کر اچھی طرح گرم کیا جاتا اور پھر اس کے اندر روٹیاں لگا کر پکنے کیلیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔۔

میں نے بجلی کے زمانے میں ہی آنکھ کھولی تھی لیکن پھر بھی روشنی حاصل کرنے قدیم طریقہ کار سے واقف تھا۔زیادہ تر گھروں میں دھات کی بنی ہوِی لالٹین موجود ہوتی جو مٹی کے تیل سے جلتی تھی مجھے اس کا شیشہ اور بتی تبدیل کرنے کا کافی تجربہ تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور دھات اور شیشے کا بنا کوئی لیمپ نما چیز ہوتی جس میں باریک سے کپڑے کی طرح کوئی آگ پکڑنے والا ایلیمنٹ فٹ کر دیا جاتا تھا اور جب اسکو جلایا جاتا تو اسکی روشنی لالٹین سے تیز اور سفید رنگ کی ہوتی۔ یہ شعلہ نھیں دیتا تھا بلکہ آئستہ آئستہ انگارے کی طرح اسکی روشنی تیز ہو جاتی تھی۔ ہم زیادہ تر امتحان کے دوران اس گیس لیمپ کو استعمال کرتے تھے۔تقریبا ایک دو گھنٹے اس سے روشنی رہتی تھی۔ مٹی کے دیے بھی خال خال نطر آ جاتے تھے جن کو مٹی کے تیل سے جلایا جاتا تھا۔

دودھ کو محفوظ رکھنے کیلیے اسکو اچھی طرح ابالا جاتا اور رات کو سونے سے پہلے دودھ والے برتن کو پانی یا کسی ٹھنڈی جگہ رکھ دیا جاتا اس طریقہ سے دودھ اگلے دن تک خراب نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال گوندھا ہوا آٹا بعض اوقات خمیرہ ہو جاتا تھا۔ یہی حال گوشت وغیرہ کا بھی ہوتا۔لیکن سبزیاں اور پھل دو تین تک قابل استعمال ہوتے تھے۔ خوراک کو محفوظ رکھنے کیلیے ٹوکروں کا استعمال عام تھا تاکہ جانوروں کی دستبرد سے بچا جا سکے۔بعد اوقات دودھ اور سالن کے برتنوں کو بلندی پر چھکے سے لٹکا دیا جاتا۔جانوروں سے تو بچ جاتے پرمہم جوافراد کا خطرہ پھر بھی رہتا تھا۔

گھروں کی چھتیں زیادہ تر مٹی کے بنے گارے سے لیپ کر دی جاتی تھی۔ جن سے گھر گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے۔جب لیپ کرنے کیلیے گارا تیار کیا جاتا تو ہم مدد کیلیے سامنے آ موجود ہوتے۔ گارا بنانے کیلیے مٹی،بھس اور بعض اوقات جانوروں کا فضلہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ ہم اس کو "کہاڑیں مارنا" بھی کہتے تھے۔ بیلچے اور کئ یا کدال کی مدد سے ان اجزاء کو پانی میں مکس کیا جاتا اور خوب لتاڑا جاتا یہاں تک کے گارا گاڑھے کیچڑ کی شکل اختیار کر لیتا۔اب یہ استعمال کیلے تیار تھا۔ متمول افراد کے گھر پکی اینٹوں سے بنے ہوتے جن پر سیمنٹ سے ٹیپ کر دی جاتی لیکن ایسے گھر بہت کم تھے۔ٹی۔آئرن،گاڈر اور لنٹر کا استعمال کافی دیر بعد شروع ہوا تھا۔

سردیوں میں حرارت حاصل کرنے کیلیے انگیٹھیوں کا استعمال عام تھا۔ لکڑی کے دہکتےکوئلے انگیٹھی میں رکھ دی جاتے اور اس کو کمرے کے درمیان رکھ دیا جاتا اورسب اس کے گرد جمع ہو کر آگ کو تاپتے تھے۔سردیوں میں پنجیری،نشاستے جیسی دیسی سوغاتوں سے ہم خوب لطف اندوز ہوتے اور سردی سے بچنے کیلیے ہم سویٹرز کے علاوہ گرم چادر ضرور اوڑھتے تھے۔ پھر بھی خشک سردی کا یہ عالم تھا کہ ہم سب بچوں کے ہاتھ پاوں لازمی پھوٹتے تھے۔سردیوں میں یہ بیماری عام ہوتی تقریبا ہر چھوٹا بڑا اسکا شکار ہو ہی جاتا تھا۔

گاوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت کیلیے مڈل سکول موجود تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہم میں سے ہر کوئی گھر سے ایک بوری اپنے ساتھ کلاس میں بیٹھنے کیلیے لاتا۔بعض میں سکول کی طرف سے ٹاٹ بھی بچھا دیے گئے تھے۔سکول کا بہترین نطم و نسق تھا۔اساتذہ کرام بڑی محنت اور توجہ سے طلباء کو پڑھاتے تھے۔پرائیویٹ ٹویشن سنٹر اور سکولز کا رواج نہ تھا۔یہ رجحان بعد میں شروع ہوا تھا۔

گھروں میں اناج کو ذخیرہ کرنے کیلیے جست کے بنے بڑے گودام "پڑولے" ہوتے تھے۔جن میں سال بھر کیلیے اناج کو محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ اناج کو کیڑے سے محفوظ رکھنے کیلیے کوئی کیمیکل مثلا فینائل وغیرہ ڈال دیتے تھے۔ یہی حال کپڑوں اور لحافوں کا تھا۔ جنکی اس موسم میں ضرورت نہ ہوتی ان کو بڑے بڑے جستی صندوقوں میں بند کر کے رکھ دیا جاتا اور ان میں فینائل وغیرہ کی گولیاں رکھ دی جاتیں۔ لیکن روز مرہ کے کپڑے چھوٹے بکسوں یا اٹیچی کیسز میں رکھے جاتے تھے۔ فالتو برتن چھتیوں پر جبکہ روز مرہ کے برتن چلدانی یا باورچی خانے کی الماری میں رکھ دیے جاتے۔ زیادہ تر برتن مٹی،چینی اور بعض دھاتوں کے بھی بنے ہوتے تھے۔

آمدورفت کے ذرائع محدود ہوتے تھے۔ سائیکل کا رواج عام تھا۔متمول آدمی موٹر بائیک یا سکوٹر استعمال کرتے تھے۔ زیادہ تر لوگ چل کر مدوکالس سے گزرتے ہوے میل پر جاتے اور وہاں سے تانگہ،ویگن یا بس پر سوار ہوکر اپنے کاموں پر جاتے۔گاوں کے طالب علم جو شہر میں حصول تعلیم کیلیے جاتے زیادہ تر بسوں پر سفر کرتے تھے کیونکہ ان کو حکومت کی جانب سے کرائے کی چھوٹ تھی۔

گاوں میں درختوں کی فراوانی تھی۔،ٹاہلیاں، دھریک،پیپل،کیکر،پلاہی، بیری اور شہتوت کے درخت عام تھے۔بعض گھروں یا حویلیوں میں پھلدار درخت مثلا جامن،آم،امرود،لیموں وغیرہ بھی نظر آتے تھے۔ہم لوگ پلاہی کی مسواک بڑی باقاعدگی سے کرتے تھے۔ لسوڑے اور سوانجنے کے بھی اکا دکا درخت نظر آ جاتے تھے۔لوگ لسوڑے سوانجنے اور آم کے پھلوں کا اچار بھی ڈالتے تھے۔

اس دور کے گاوں کی یاد اس کے لینڈ سکیپ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔گاوں کے مشرق میں ایک ریلوے لائن موجود تھی۔جو موہڑہ سیداں کے بلکل پاس سے گزرتی تھی۔اور ساتھ ہی ایک متروک اینٹوں کا بھٹہ ہوتا تھا۔ ہماری توجہ کا باعث وہ دو پل بھی بنتے تھے۔ایک پل پلاہی کے رقبہ کے پاس تھا جبکہ دوسرا ہوائی اڈے کے سامنے تھا۔ان دو پلوں کے ساتھ دو تالاب بھی موجود تھے جن کو ہم بنیاں کہتے تھے۔جن میں ہم اپنی بھینسوں کے ساتھ خود بھی نہاتے تھے حالانکہ ہمیں جونکوں کا ڈر بھی رہتا تھا۔ گاوں کے شمال میں ایک کس"ندی" بھی بہتا تھا جس کا پانی زیادہ تر ساگری کے پہاڑوں سے آتا تھا۔یہ کس ہوائی اڈے والے پل کے نیچے سے گزر کر نامعلوم مقام پر گرتا تھا۔بعض اوقات اس کا پانی اس سمت موجود گھروں میں بھی داخل ہو جاتا تھا۔

گاوں میں رسم ورواج


اس مضمون میں چند رسموں کا ذکر کروں گا جو خوشی اور غمی کے مواقع پر رائج تھیں۔ہم نے خود ان رسوم کا بڑی باریکی سے مشاھدہ کیا تھا اور آپ سب بھی ان سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ ابھی بھی زیادہ تر رسوم ورواج ایسے ہی ہیں جیسے ایک صدی پہلے تھے۔ابھی تک یہ رسم ورواج تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ جاری ہیں۔ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ ان کا کیا جواز ہے۔ہم یہاں اپنے مشاھدے کو بیان کر رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس گاوں کے رسم و رواج کا پتہ چل سکے۔

گاوں میں ایک رواج ہے جب بھی کوئی خوشی کا موقع ہو تو لوگ ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونے کیلیے پہنچ جاتے ہیں۔کسی کے گھر اولاد پیدا ہو،کسی کو کوئی خاص کامیابی حاصل ہو تو ہدیہ تبریک پیش کیا جاتا ہے۔گھر والے مہمانوں کی چائے،مٹھا ئی یا شربت وغیرہ سے تواضع کرتے ہیں۔ ایک معمول یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جونہی کسی کی شادی ہوئی یا بچہ پیدا ہوا تو کھسرے یا ڈوم بلائے ناگہانی کی طرح سر پر آپہنچتے ہیں۔کچھ دے دلا کر ہی جان چھوٹتی ہے۔

شادی بیاہ کی کی رسومات میں مہندی،تیل کا رواج ابھی تک موجود ہے۔نسبت طے ہو جانے کے بعد جب خاندان شادی کی تاریخ متعین کر لیتے تو پھر جلد ہی یہ رسوم شروع ہو جاتی ۔ دولہا اپنے بھائی چارے"پچارے" اور دلہن اپنی سہیلیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ مہمانوں کی لسٹ وغیرہ تیار کر کے نائی کے ذریعے مہندی تیل اور بارات میں شامل ہونے کا سندیسہ بھجوا دیا جاتا۔اس کے ساتھ ہی شادی والے گھروں میں ڈھولکی رکھ دی جاتی۔ ترامی اور ڈھولکی پر گیت گاے جاتے۔تیل اور مہندی والے دن ڈھول بجانے والے مراثیوں کی ٹیم آ پہنچتی۔ڈھول کی آواز سن کر مہمان لڑکے والے گھر آ پہنچتے۔پھر تیل والی رسم کا آغاز ہوتا۔ہرمہمان تھوڑا سا تیل دولھا کے سر پر لگاتے۔پھر مہمانوں میں بتاشے اور چھوہارے وغیرہ تقسیم کیے جاتے۔پھر مہمان دولھا کی ہاتھ پر نیندرہ رکھ کر رخصت ہو جاتے۔مہندی والے دن دولہا اور دلہن کے ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی اور سلامی دی جاتی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بارات والے دن دولہا کو گھوڑے پر بٹھا کر گاوں کا چکر بھی لگایا جا تا تھا اور بھائی چارے کے گھر سے دولہا اور اسکے دوست کو دودھ وغیرہ بھی پلایا جاتا تھا۔ بارات والے دن دولھا بزرگوں یعنی میاں صاحب، شاہ مجید ولی اور شاہ صدیق ولی ٹالیاں والے مزارات پر سلام کرنےکیلیے اپنے دوستوں کا ساتھ جاتا تھا۔ اس کے بعد بارات کی روانگی ہوتی تھی۔

بارات اگر گاوں سے باہر جانا ہوتی تو بس وغیرہ کا انتظام ہوتا تھا۔ گاوں میں بارات اور ولیمے کے دن بڑے بڑے شامیانے لگا کر مہمانوں کی میزبانی کی جاتی تھی۔ ایک دور تھا مہمان دریوں یا قالینوں پر بیٹھ کھانا کھاتے تھے۔لیکن بعد میں کرسی اور میز کا دور آگیا۔اب تو میرج ہال کا رواج بھی چل پڑا ہے۔مہمان کھانا کھا کر دولہا دلہن کو سلامی دے کر رخصت ہوجاتے ہیں۔

رسومات مرگ میں، "پھوہڑی" کی رسم عام ہے جو تقریبا سات دن تک جاری رہتی ہے۔جس میں لوگ سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ مرحومین کے ایصال ثواب کیلیے جمعراتوں اور چالیسوِیں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ مکانڑ اور کوڑے وٹے کی رسم بھی ان مواقع پر رائج تھی۔

سلامی،نیندرہ اور مکانڑ چونکہ نقدی کی صورت میں برتے جاتے تھے اسلیے ان کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا کہ کس کو کتنا لوٹانا ہے۔ کوڑے وٹے کی روٹی ان لوگوں کیلیے جو مرحوم کے جنازہ میں شامل ہونے کیلیے باہر سے مہمان آتے تھےقریبی اقربا دیتے تھے ۔

باجرے کی راکھی اور کٹائی کا بخار

ہمیں زراعت کا مضمون اچھا نہیں لگتا تھا گو کہ ہمارا تعلق ایک نیم کاشتکار گھرانے سے تھا۔لیکن مجبوری تھی کہ یہ ہمارے نصاب میں شامل تھا۔ہمیں ہمیشہ فصل ربیع اور خریف کا مغالطہ ہو جاتا تھا اور ساتھ ہی جو مرغی کی علامات بیماری ہم بیان کرتے تو ہمارے استاد مکرم ان کو بھی سخت ناپسند فرماتے ۔ مزید ان کا اصرار ہوتا کہ جواب چار پانچ صفحات سے کم نہ ہو اور اس کے علاوہ وہ ہمارے جوابات کو پڑھنے کی بجائے گٹھ ناپ کر نمبر دیتے تھے۔اب آپ خود سوچیں کہ اب ان صفحات پر ہم نے کیا اناپ شناپ لکھا ہوگا۔ یہ تو برسبیل تذکرہ بات تھی۔ہم کسی مضمون میں گندم کی کٹائی کا احوال بیان کر چکے ہیں۔اس مضمون میں آپ کو بتائیں گے کہ ہمارے گاوں میں کسان باجرے کی فصل کیسے کاشت کرتے تھے اور ہمارا زراعت کے مضمون کی طرح، اس فصل کی کٹائی ہونے تک کیا پر اسرار کردار تھا۔

گندم کی کٹائ کے بعد زمینوں کو کچھ عرصے کیلیے بےکار چھوڑ دیا جاتا تا کہ وہ اگلی فصل کیلیے تیار ہو جائیں۔چنانچہ وقت مقررہ پر کسان اپنے ہل اور بیلوں کی جوڑی لے کر ایک بار پھر زمینوں کا سینہ چیرنے نکل پڑتے۔بیج کی بوائی کے بعد کسان کو انتظار رہتا کہ کب فصل سر اٹھائے اور وہ کٹائی سے فارغ ہوں۔ لیکن یہ ھنوز دلی دور است والا معاملہ ہوتا کیونکہ فصل کے سر اٹھانے اور تیار ہونے تک اس کو کئی خطرات چرند ،پرند اور اور انسانوں سے بھی لاحق ہوتے تھے۔ چنانچہ ان خطرات کی صحیح ترجمانی کسی گلوکارہ نے بھی کی تھی۔آپ نے بھی تو"تیرے باجرے کی راکھی" والا گانا سن رکھا ہو گا۔

چنانچہ رات کو چرند ،پند کے ساتھ ساتھ، ہم بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ شام کی چہل قدمی کیلیے نکلتے تو چہل قدمی کے ساتھ پکنک بھی ہو جاتی تھی۔رات کے وقت ماچس بھی ساتھ رکھتے تھے تا کہ خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔ جب باجرے کے کھیت سے گزرتے تو ہم بھی سٹے توڑ توڑ کر اکٹھے کر لیتے اور پھر کھلی فضا میں آگ جلا کر ان سٹوں کو بھون کر کھا جاتے۔ اس وقت ہمارے پاس اس فعل کا کوئ اچھا یا برا جواز نہ تھا اور نہ ہی اس بارے میں ہم نے کبھی سوچ و بچار کی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارا دو عجیب کرداروں سے واسطہ پڑھا یعنی مارک ٹوین اور حافظ صاحب۔

مارک ٹوین ایک امریکی ادیب تھا۔ اس کا ایک کردار نو عمرلڑکا اپنے گھریلو حالات سے تنگ آ کر ایک جزیرے میں چلا جاتا ہے جہاں اسکی ملاقات ایک بھگوڑے غلام سے ہوتی ہے چنانچہ خورد ونوش کی تلاش میں ایک دن کسی کے کھیت سے مکئ کی چھلیاں "بھٹے" چراتے ہیں تو غلام لڑکے سے کہتا ہےکہ ہم نے چوری نہیں کی بلکہ ادھار لیا ہے اورجب ہم خوشحال ہوں گے تو واپس کردیں گے۔مجھے بھی مارک ٹوین کی یہ توجیہ بڑی پسند آئی۔پھر میری ملا قات حافظ صاحب سے ہوئ جنکا کسی روحانی سلسلہ سے تعلق تھا۔ایک دن بتانے لگے کہ میرے فلاں پیر بھائ کو کشف صدور حاصل ہے۔لیکن ایک دن انجانے میں اس نے راستے میں کسی کے کھیت سے ایک خوشہ گندم کھا لیا تو اس کی یہ صلاحیت ختم ہو گئی۔

پتہ نہیں میں بات کو کہاں سے کہاں لے گیا، چلیں واپس باجرے کی کٹائ کی طرف۔ موسم اب تھوڑا خنک ہو چکا ہے۔فصلیں پک کر تیار ہو چکی ہیں۔ایک دفعہ پھر ونگاروں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ باجرے کی کٹائی کے بعد اس کو یا توباہر کھلاڑوں میں گریوں یا منڈلیوں کی صورت میں رکھا جاتا ہے۔ یا کسان اس کو اپنے گھر یا حویلی وغیرہ میں لے آتے ہیں۔ اس بار پھلہوں کی ضرورت نہیں پڑتی اس دفعہ ایک اور قسم کی ونگار ہوتی ہے۔دیہاتی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔چنانچہ ہم سب بچے بھی خواتین کے ساتھ سٹے علیحدہ کرنے میں جت جاتے اور جب ان کو مسلتے تو دانے ٹوٹ ٹوٹ کر برتنوں میں گرتے۔پھر ان کو چھج اور چھاننوں سے صاف کر کے بوریاں بھر لیتے۔

باجرے کے اناج کو پیس کر آٹا بنایا جاتا اور اسکی میٹھی اور سلونی روٹیاں بنائ جاتی اور ہم لسی کے ساتھ ان کو نوش جان کرتے۔اسکے علاوہ باجرے کے دانوں کو گڑ کے شیرے میں ملا کر مرونڈے بھی بنائے جاتے جو ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھے


گندم کی کٹائی اور ہم

یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ٹریکٹر،ٹرالی اور تھریشر نہ ہوتے تھے۔ آپ

سو چتے ہوں گے پھر کام کیسے ہوتا ہو گا۔چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں تب ہمارے گاوں میں کسان کیسے کام کرتے تھے۔

موسم گرما میں گندم کی کٹائی کا کام شروع ہو جاتا تھا۔قابل کاشت رقبہ چونکہ گھروں سے دور ہوتا تھا اور ہر کسان کو کٹائی کیلیے مختلف مقامات پر جانا پڑتا تھا۔چنانچہ کسانوں نے اپنی سہولت کیلیے رقبہ کو مختلف نام دے رکھے تھے۔مثال کے طور گاوں کے مغربی حصہ کو گورا،میاں صاحب کی اطراف کی زمینوں کو عبدلیمہ اور مشرق میں ریلوے لائن کے دائیں بائیں حصہ کو متیں،پلاہی وغیرہ کا نام دے رکھا تھا۔ ہوائی اڈے سے جڑی زمین کو ناگا کہا جاتا تھا۔کسانوں نے رقبہ کو یہ نام ہی کیوں دیے تھے نہ تو ہمیں آج تک کسی نے بتایا اور نہ ہی ہم نے کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ ہمارے لیے بس اتنا جاننا ضروری تھا کہ فلاں رقبہ کس طرف ہے کیونکہ ہم نے وہاں پیہہ "دوپہرکا کھانا" پہنچانا ہوتا تھا۔

جب فصلوں کے کٹنے کے دن قریب آ جاتے تو کسان فکرمند ہو جاتے کہ کہیں بارش نہ ہو جائے اور کٹائی کے بعد کٹی ہوئی فصل کو کہاں رکھا جائے اور کھلاڑہ کیسے تیار کیا جائے۔ فصل کو کاٹنے کیلئے کیسے مدد لی جائے وغیرہ وغیرہ۔ اسکے ساتھ ہی کسانوں نے تمام اوزار مثلا درانتیاں،ترینگلیں وغیرہ تیار کر رکھیں ہوتی تھیں-پھرکٹائی کا دن آ جاتا اور کسان اللہ کا نام لے کر اکیلے ہی کام کا آغاز کر دیتے چونکہ یہ اکیلے ممکن نہ تھا اس لیے ونگار کا سندیسہ بھی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھیج دیا جاتا تھا۔ ونگارایک بہت ہی اچھی رسم تھی جس میں تمام تعاون باہمی کے طریقے کار پر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا دیتے اور کٹائ کا کام بھی بغیر کسی مشقت کے جلدی نپٹا دیا جاتا۔ ہم بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اپنے حصے کی درانتی خوب چلاتے تھے گو کہ ہمیں کم عمری کی وجہ سے چند ہلکی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی۔ جیسا کہ کٹی ہوئی فصل کی چھوٹی چھوٹی گڈیاں بنا کر ان کی منڈلیاں کھڑی کرنا ہوتی تھی جو کہ چندآں مشکل نہ تھی لیکن اس کیلیے ایک خاص مہارت کی ضرورت ہوتی جو کہ ہمیں سکھا دی جاتِی۔

ہمارا اصل کام دوپہر کے وقت شروع ہوتا تھا۔ ہمیں ان ونگاریوں کیلیے گھروں سے کھانا لے کر جانا ہوتا تھا۔بس آپ یوں سمجھ لیں کہ ونگار کا دن دعوت شیراز کے مترادف ہوتا کیونکہ گھر آئے مہمان مددگاروں کی خوب خاطر مدارات کی جاتی۔اور حسب استطاعت کھانے میں میٹھے کے علاوہ چائے اور لسی کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ہم اپنے یار دوستوں کے ساتھ مل کر یہ تمام لوازمات کھیتوں میں مصروف کسانوں کو پہنچاتے۔

فصلوں کی کٹائی مکمل ہونے سے کٹی شدہ فصل کو سٹاک کرنے کیلیے مختص جگہ کو جو کہ کسان کے گھر کے نزدیک ہی ہوتی تھی اچھی طرح صاف کر کے کھلاڑے بنا لیے جاتے تھے۔ اونٹوں ،گدھوں یا بیل گاڑیوں کی مدد سے فصل کھلاڑوں تک پہنچا دی جاتی اور وہاں منڈلیاں اور گریاں لگا دی جاتی۔اب کسان اپنی سال بھر کی محنت کا پھل حاصل کرنےکے نزدیک تھے۔

اگلا مرحلہ پھلے واہنے کا تھا جو ہمارے لیے کافی دلچسپی کا باعث بنتا۔ یہ ایک روایتی طریقہ تھا جس میں اناج اور بھس کو علیحدہ کرنے کیلیے اس پر کوئ بوجھ والی چیز رکھ کر اچھی طرح رگڑا دیا جاتا تھا۔اس دور میں چونک ٹریکٹر اور تھریشر وغیرہ نہ ہوتے تھے اسلیے بیلوں کی جوڑی کو جوت کر اسکے پیچھے کیکر وغیرہ کی گھنی شاخیں جوڑ کو باندھ دی جاتی اور انکے اوپر کچھ گڈیوں کو کھول کر پھیلا دیا جاتا اور کچھ پتھر وغیرہ رکھ دیے جاتے۔ یہ مرحلہ مجھے بہت پسند تھا کیونکہ یہ ہمارے لیے میری گو راوئنڈ کی شکل کا جھولا بن جاتا تو ہم سب بچے کسانوں سے فرمائش کر کے اس پھلے کے اوپر بیٹھ جاتے اور اس سواری سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔پھر جب فصل اچھی طرح رگڑا کھا جاتی تو بھس کو ترینگلوں کے ذریٰعے ہوا میں اڑا کر اناج کو علیحدہ کر لیا جاتا تھا۔بھس جانوروں کے کام آتا اور اناج کسان اپنے اپنے گھروں کو لے جاتےاور یوں فصلوں کی کٹائی اختتام کو پہنچتی۔

میرے بچپن اور گاوں کے ہیرو

ایک افریقی کہاوت ہے کہ ایک بچے کی تعلیم وتربیت میں پورا گاوں لگتا ہے۔ہمارا گاوں بھی ہمارے لیے ایک جہاں سمیٹے بیٹھا تھا۔جہاں ہم نے ہرفرد سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔لیکن ان میں کچھ شخصیات ایسی تھی جس نے ہماری زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ۔ان میں سے کوئی بھی اعلی تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن ان میں سے ہر ایک اپنے ہنر میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ آپ بھی شاید ان میں سے چند ایک کو جانتے ہوں۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ انکی محبتوں اور برکتوں کو اپنے الفاظ میں بیان کر سکوں جو وہ اپنے وجود میں ہم سب کیلیے سمیٹے ہوئے تھے۔ آئیے، آج میں انکی آپ سے ملاقات کراتا ہوں۔

ان کا نام توسید محمد یعقوب تھا لیکن لوگ انہیں "سائیں جی" کہہ کر پکارتے تھے۔لوگون کو ان سے عقیدت تھی لیکن مجھے ان سے محبت بھی تھی اور عقیدت بھی۔وہ میرے تایا جی تھے لیکن میں انکے عتاب سے بھی ڈرتا تھا۔ہم انکے زیر سایہ رہتے اور انکے ہر حکم بجا لانے میں جلدی کرتے۔ان کے دو رنگ تھے، باطن میں "فقرمولا علی رضی اللہ عنہ" کا رنگ تھا اور ظاہر میں ایک کاشتکار اور دستکار تھے۔کاشتکاری میں ہماری دلچسپی کا باعث سائیں جی بنے تھے۔ان سے ہم نے درانتی پکڑنا،گڈیاں بنانا اور منڈلیاں لگانا سیکھا تھا۔ لیکن مجھے ان کی دستکاری کا فن، اپنے سحر میں کھینچ لیتا اور میں گھنٹوں ان کے سامنے بیٹھ کر ان کو دیکھتا رہتا۔جب تل یعنی"تلی" اور سینڑھ کی فصل کی کاشت مکمل ہوتی تو فصل کو بنگلے کے صحن میں رکھ دیتے۔ پھر ہم بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ترپال اور چادریں زمین پر بچھانے میں مدد کرتے۔پھر ان پر تل کے خوشوں کو پھنڈتے تو انکے تل ایسے گرتے یعنی "کیرتے" جیسے مٹھی سے ریت کے ذرات گرتے ہوں۔ پھر تلی کے دانوں کو اکٹھا کر کے بوری وغیرہ میں ڈال کر گھر لے جاتے تھے۔ لیکن ابھی کام ختم نہیں ہوا تھا۔اب وہ سینڑھ کے ٹانڈے کو بھی استعمال میں لاتے ان ٹانڈوں کو کچھ عرصہ پانی میں رکھا جاتا اور جب انکا اوپری حصہ اچھی طرح تر ہو جاتا تو انکو گھرلے آتے۔ اوپری چھلکے کو جن کو "ودر" کہتے تھے بڑی مہارت سے اتارا جاتا۔ یہی وہ فن تھا جس کو میں سیکھنا چاہتا تھا پر کبھی مہارت نہ حاصل کر سکا۔ہمارا کام یہ ہوتا کہ ٹانڈوں سے ودر اتار کر سائیں جی کے سامنے ڈھیر لگا دیتے اور وہ اپنے ہاتھ مین ایک لٹو نما چرخی تھامے ہوتے اور ودر کو اس میں ایک ہاتھ سے پروتے جاتے اور اور دوسرے ہاتھ سے چرخی کو گھماتے جاتے۔ہماری آنکھوں کا سامنے وہ ودر ایک رسی کی شکل میں تبدیل ہو جاتے تھے۔پھر ان رسیوں کے پنے"گولے" بنا لیے جاتے۔ جب کام اختتام کو پہنچتا تو بعض اوقات ہمارے گھر بھی وہ رسیوں کے گولے بھیجتے تاکہ بچوں کیلیے سوتر کی چارپائ بنا لی جاے ظاہر ہے کہ پٹھے سے بنی چارپائی زیادہ آرام دہ نہ ہوتی تھی۔ چارپائی بنانے کیلیے ایک دستکار کی ضرورت تھی۔آئیے میں آپ کو ایک اور دستکار سے ملواتا ہوں۔

ان کا نام تو مرزا عبدالرشید تھا لیکن سب ان کو ماما شیدا کے نام سے پکارتے۔وہ ہر فن مولا تھے۔وہ گاوں کے کوچوان،مستری،دستکار اور گورکن بھی تھے۔جب ہم ان کو سندیسہ پہنچاتے کہ ہمیں نئی چارپائ بنانے کی ضرورت ہے تو آپ اپنے اوزار لے کر صبح کے وقت تشریف لے آتے۔اس دن ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ آج کا دن گھر پر ہی گزرنا ہے۔آپ کام بڑی نفاست مگر آئستگی سے کرتے۔ہم بعض اوقات انکے ساتھ بطور معاون شامل ہو جاتے۔ہمارا کام پائے کو پکڑ کر بیٹھنا ہوتا تھا۔ماما جی سوتر کی رسیوں سے نٹنگ کرتے۔کئی دفعہ نٹنگ کو کھول کر دوبارہ جوڑنا پڑتا۔بہرحال شام تک چارپائ تیا ر ہو جاتی تھی۔اور ساتھ ہی ہمارے علم میں بھی اپنے تجربات زندگی کی کہانیاں سنا کر اضافہ بھی کرتے۔ایک دفعہ میں نے دوران گفتگو نادانی سے کہہ دیا کہ امریکن چاند پر پہنچ چکے ہیں تو ماماں جی سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے توبہ کرِیں کیا کافر لوگ بھی اس پاک جگہ پر پہنچ سکتے ہیں۔بعض اوقات برسات کے موسم میں دیوار وغییرہ گر جاتی تو ماما شیدا تشریف لاتے اور مرمت وغیرہ کرتے اور ساتھ ہی ہدایات دے کر جاتے کہ دو گھنٹے اس پر کسی پرندے وغیرہ کو بیٹھنے نہیں دینا۔یہ رمز تو ہماری سمجھ میں نہ آتی لیکن ہم نےان سے چارپائ میں داون ڈالنے اور انکساری اور خوش اخلاقی کا سبق خوب سیکھا تھا۔

ایک اور شخصیت جن سے میں بچپن میں بہت متاثر ہوا وہ "بابا دانا" تھے۔ان کا اصل نام غالبا محمد عالم تھا۔گو کہ آپ کا تعلق ہمارے گاوں سے تو نھیں تھا لیکن آپ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ تھے۔آپ بیک وقت ایک بہترین شیف بھی تھے اور حکیم اور ہیر کٹر بھی۔آپ سے ہمارا اکثر واسطہ پڑتا۔گاہے بگاہے بال کٹوانے کیلیے ان کے گھر جاتے۔ہمیں جو بات پسند نہ آتی وہ ان کا استرا ہوتا جو ہمیشہ ہماری ٹنڈ کرنے کیلیے تیار ہوتا گو کہ ہم چلاتے رہ جاتے کہ ہم نے ٹنڈ نھیں کروانی لیکن وہ ہماری ایک نہ سنتے چونکہ وہ ہمارے گھر والوں کے احکامات کے پابند تھے۔شادی بیاہ ہو یا مرگ،عرس برسی ہو یا مجلس سب لوگ کھانا پکوانے کیلیے ان سے رجوع کرتے۔گرمیوں میں جب سب کے اکثر پھنسی پھوڑے نکل آتے تو اسوقت بابا دانا ہی مرہم پٹی بھی کرتے تھے۔وہ آج ہم میں موجود تو نھیں پر ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔اللہ سبحانہ و تعالی ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

گاوں کی ایک اور ہردلعزیز شخصیت جن کا ذکر کیے بنا یہ مضمون مکمل نہ ہو گا۔وہ "پا جی" ہیں ان کا آصل نام تو سید محمود تھا لیکن سب انکو نک نیم سے ہی پکارتے۔آپ غالبا میٹرک پاس تھے۔انکی شخصیت کا جو پہلو مجھے پسند تھا وہ انکی بے لوث خدمت خلق تھی۔آپ بلا امتیاز سب کی مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے۔آپ نے طویل عرصہ سکول میں بطور رضا کار کام کیا۔پھر گاوں کے ڈاکخانے میں بھی بطو رضاکار کام کیا۔آپ کی دیانت داری اور اصول پسندی مسلم تھی۔خط جس کے نام آتا تھااسی کے ہاتھ میں تھما کر جاتے خواہ اس گھر کے دو چکر ہی کیوں نہ لگانے پڑیں۔مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہ ایک ہیرا تھا جس کی ہم نے صحیح معنوں میں قدر نہ کی۔

چک عبد الخالق اور تعلیم نسواں

گاوں کی یادیں کھٹی مییٹھی بھی ہیں اور تلخ و شیریں بھی لیکن یہ سب مجھے دل و جان سے عزیز ہیں کیونکہ یہ میری اپنی یادیں ہیں۔ آپ نے مسرت نذیر کا وہ گیت تو سن رکھا ہو گا "ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے بابل اسیں اڈ جاڑاں"۔ یہی کچھ حال ہماری ہمارے گاوں میں لڑکیوں کے سکول کا تھا۔یہ داستاں دراز بھی ہے اور دل گداز بھی اور اسی بہانے آپ کو گاوں کی ان شخصیات کا تعارف بھی ہو جائے گا جنہوں نے اپنے گھروں کے دروازے لڑکیوں کے عارضی سکول کے قیام کیلیے وقتا فوقتا کھولے تھے۔لڑکیوں کے عارضی سکول کی تاریخ ایک صدی پر محیط ہے۔ لڑکیوں کا موجودہ مستقل سرکاری سکول غالبا 1985 کے بعد معرض وجود میں آیا تھا۔

جہاں تک میری تحقیق ہے اسکے مطابق لڑکیوں کے پہلے عارضی سکول کا قیام مشہور شاعر سید ضمیر جعفری مرحوم کے گھر پر ہوا تھا۔یہ گھر اب کسی اور فیملی کی ملکیت ہے۔

کچھ عرصہ بعد یہ سکول مولوی افضل شاہ مرحوم"عالم شاہی فیملی" کے گھر منتقل ہو گیا۔ اس ایک کمرے والے سکول کا ایک بڑا سا صحن تھا۔گرمی ہو یا سردی لڑکیوں کو صحن میں بی بیٹھ کرہی تعلیم حاصل کرنا پڑتی تھی۔

اسکے بعد یہ سکول سید افتخار مرحوم "والد ٹیپو شاہ" سابقہ امیدوار برائے کونسلر کے گھر ٹرانسفر ہو گیا۔

تھوڑی مدت بعد یہاں سے سکول مرزا غلام رسول مرحوم"مغل برادری" کے متروک گھر میں قائم ہوا۔ مرزا غلام رسول کا بیٹا طارق اور زیادہ تر فیملی انگلینڈ میں مقیم ہے۔ یہ میرے کلاس فیلو مرزا اقبال کے تایا تھے۔

اسکے بعد یہ سکول سید عبداللہ شاہ بخاری کے گھر منتقل ہو گیا۔آپکو سب لوگ لالہ جی کہتے تھے۔آپ نے گھر میں ایک میڈیکل سٹوربھی کھول رکھا تھا۔انکا نواسہ اسد بخاری ہمارا جونیئر دوست تھا۔

جس جگہ یہ سکول اب مستقل بنیادوں پر قائم ہے۔ اسکیلیے زمین ایک مخیر انسان ماسٹر امجد حسین شاہ صاحب نے دی تھی۔آپ ہمارے پڑوسی تھے۔

اس سکول کی خواتین اساتذہ زیادہ تر ہمارے گاوں سے ہی تھیں۔ ان باہمت اور عزت مآب اساتذہ نے نامساعد حالات اور گرم سرد موسم کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔لیکن اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کیلیے کم ازکم مڈل یا ہائی سکول کی تعلیم گاوں میں ہی ہونی چاہیے تا کہ انہیں جو زحمت ہڈالی یا دینہ جانے کیلیے حصول تعلیم کیلیے اٹھانی پڑتی ہے اس کا سدباب ہو سکے۔گاوں کے متمول اور بااثر افراد اگر اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

چک عبد الخا ق کے اساتذہ کرام

شیر شاہ سوری اور پھرمغلیہ دور میں ہمارے اس علاقے کو پرگنہ/علاقہ رہتاس کہا جاتا تھا۔انگریزوں کے دور میں غالبا آبادی کی بنیاد پر 1849 عیسوی کو جب جہلم کو ایک ضلع کی جیثیت حاصل ہوئی تو پرگنہ روہتاس کو تحصیل جہلم میں شامل کر دیا گیا اور حال ہی میں یہ تحصیل دینہ کا حصہ بن چکا ہے۔ہمارے جد اعلی سید عبد الخالق خورازمی رح شیرشاہ سوری کے دور میں ہی پرگنہ روہتاس میں تشریف لائے تھے۔ہمارا گاوں اس پرگنہ روہتاس کا ہی حصہ تھا اور آجکل یہ تحصیل دینہ،ضلع جہلم کا حصہ ہے۔

چک عبدالخالق اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے خواہ وہ تعلیم دنیاوی ہو یا روحانی،صدیوں سے یہ گاوں اپنے اس وصف کے ساتھ پورے علاقہ میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ایک اچھے استاد کے بغیر بہترین تربیت نہیں ہو سکتی اور ہمارے گاوں کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے گاوں میں بہت سے افراد اس مقدس پیشہ معلمی سے وابستہ رہے اور ہیں۔اس مضمون میں گاوں کے ان عزت مآب اساتذہ کا ذکر کروں گا جنہوں نے تقریبا پچھلی ایک صدی سے علم کی شمع روشن رکھی۔ان اساتذہ میں چند ستارے وہ ہیں جن کی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے لارڈ ویول کو خراج تحسین پیش کرنے کیلیے اس گاوں میں آنا پڑا۔ سید امجد حسین شاہ جو کہ سید چنن شاہ مرحوم کے پوتے ہیں کے مطابق اس سال یعنی 1944 میں پنجاب یونیورسٹی سےصرف چودہ طلباء نے بی-اے کا امتحان پاس کیا اور ان میں سے آٹھ صرف چک عبد الخالق سے تھے۔میرے تایا جان سید رفیع الدین مرحوم بھی ان طلباء میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ چنن شاہ مرحوم اس استقبالیہ کمیٹی کے ممبر تھے جنہوں نے لارڈ ویول کا استقبال کیا تھا۔

آج ہم ان اساتذہ کرام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اگر ترتیب اور ذکر میں کچھ غلطی ہو گئی ہو تو میری کم علمی کو در گزر فرمائیے گا۔

سید محمد شاہ مرحوم [حکیم فیملی]

آپ نے گاوں کے سکو ل میں بطور ہیڈ ماسٹر فرائض سرانجام دیے۔آپ کے دور میں سکول کا نظم ونسق مثالی تھا۔دور دراز سے آنے والےآٹھویں جماعت کے طلباء کو آپ سکول کے ہاسٹل میں ٹھہراتے تھے تا کہ وہ دلجمعی سےآپ کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کر سکیں۔چنانچہ سکول کے ہمیشہ اچھے نتائج آتے تھے۔بعد ازاں گاوں کا پوسٹ آفس بھی اپ کے زیر انتظام رہا۔آپ کے پوتے وقار حسین شاہ اور نواسے سید بابر حسین مرحوم پہلی سے آٹھویں جماعت تک میرے ہم جماعت تھے۔

سید علی اکبر شاہ مرحوم

آپ نے بطور معلم اور صدر معلم مختلف تعلیمی درس گاہوں میں فرائض سر انجام دیے۔بالآخر آپ چک عبدالخالق میں بطورہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے۔آپ نے بھی سکول کے مثالی نظم و نسق کو برقرار رکھا اور ہاسٹل کی روایت بھی آپ کے دور میں قائم تھی۔آپ نے سکول کی مسجد میں نماز کا بھی اہتمام کیا۔آپ کے بیٹے سید مسعود احمد مرحوم جو کے میرے استاد بھی تھے بھی اسی سکول میں فرائض معلمی ادا کرتے رہے۔ آپ کے پوتے سید جواد حیدر اورفواد حیدر اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور فواد حیدر محکمہ تعلیم میں ایجوکیشن آفیسر ہیں۔

سید غلام حسین مرحوم

آپ سید سعادت حسین مرحوم کے تایا جان تھے۔آپ نے مختلف تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔آپ میرے والد ماجد پروفیسر محمد فاروق شاہ کے استاد تھے۔نیز آپ کےبھائی کا پوتا علی اسد جعفری میرا ہم جماعت تھا۔

سید عبداللہ شاہ مرحوم

آپ میرے نانا جان نمبردار فضل حسین شاہ مرحوم کے بڑے بھائی تھے۔آپ نے مختلف تعلیمی درسگاہوں میں فرائض سرانجام دیے۔ چونکہ آپ کا تعلق ایک روحانی خانوادے سے تعلق تھا۔ بعض میں آپ پر فقیری رنگ غالب آگیا اور اپ کی بزرگی کی شہرت دور دور تک پھیل گئ۔

سید اکبر شاہ مرحوم

آپ محمد حسین شاہ کے والد ماجد اور پیر حسنات احمد کے قریبی رشتہ دار تھے۔ آپ نے بحیثیت معلم مختلف تعلیمی درسگاہوں میں فراءض سرانجام دیے۔

سید رسول شاہ مرحوم

آپ میرے دادا جان پیر محمد غوث شاہ رح کے بھائی ہیں۔آپ اعلی تعلیم یافتہ تھے اور آپ نے مختلف تعلیمی درسگاہوں میِں بطور معلم اورصدر معلم فرائض سر انجام دیے۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر شمس رسول ایک اعلی درجے کے ماہر نفسیات ہیں اور امریکہ میں آباد ہیں۔آپ کے نواسے سید عزیز الحق بھی ہائرسیکنڈری سکول دینہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔اپ سائنس کے استاد تھے اور مجھے آپ کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔

سید رفیع الدین شاہ مرحوم

آپ رشتے میں میرے تایا جان تھے۔اور آپ ہماری فیملی میِں پہلی شخصیت تھے جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی بلکہ ایم-اے فلاسفی میں پنجاب یونیورسٹی سے سلور میڈل بھی حاصل کیا۔ آپ نے بحیثیت معلم اور صدر معلم مختلف تعلیمی درسگاہوں میں خدمات سرانجام دیں اور بحیثیت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریٹائرڈ ہوے۔

سید منظور حسین جعفری مرحوم

آپ سید ضمیر جعفری کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ نے مختلف اعلی تعلیمی درسگاہوں میں اپنے فرائض سر انجام دیے اور بحیثیت پرنسپل ریٹائرڈ ہوے۔

پرفیسرمحمد فاروق شاہ

آپ میرے والد ماجد ہیں۔آپ نے بحیثیت معلم گورنمنٹ کالج جہلم میں اپنی خدمات سر انجام دی اور بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ریٹائرڈ ہوے۔

سید افتخار الدین شاہ

آپ نے بطور معلم اور صدر معلم مختلف تعلیمی درسگاہوں میں اپنی خدمات سرانجام دی ۔آپ ہائرسیکنڈری سکول دینہ سے ریٹائرڈ ہوئے آپ میرے چچا زاد بھائی اور استاد بھی تھے۔

سید اکرام حسین شاہ مرحوم

آپ ہمارے پڑوسی تھے اور عرصہ دراز تک آپ نے موضع نکودر میں معلمی کے فرائض سر انجام دیے۔آپ کے بیٹے شاہد اکرام اور واجد اکرام بھی معلمی کے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں۔ سید شاہد اکرام کوضلع جہلم کے بہترین استاد کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

سید غضنفر علی شاہ

آپ میرے اساتذہ میں سے تھے اور اپ نے طویل عرصے تک گاوں کے مڈل سکول میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔آپ سید افتخار حسین شاہ سابقہ کونسلر کے بڑے بھائی ہیں۔

راجہ محمد لطیف خان

آپ میرے اساتذہ میں سے تھے اور اپ نے طویل عرصے تک گاوں کے مڈل سکول میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔آپ ایک بہترین منتظم اور صاحب الرائے تھے۔آپ کا بیٹا راجہ سہیل بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہے۔

راجہ محمد افضل خان مرحوم

آپ نے بطور معلم اور صدر معلم اسلامیہ ہائی سکول جہلم میں اپنی خدمات سرانجام دی۔گاوں میں آپ کی تعلیم کے علاوہ بہت سی سماجی ،طبی اور سیاسی خدمات بھی ہیں۔ آپ کا بیٹا راجہ نوید افضل ایک تعلیم یافتہ جوان ہے اور خدمت خلق کاموں میں متحرک ہے۔

راجہ محمد اشرف خان

آپ نے گاوں کے سکول میں اپنی ریٹائرمنٹ تک معلمی کے فرائض سر انجام دیے ۔ آپ میرے محترم اساتذہ میں سے تھے۔

چک عبد الخالق- ایک مردم خیز زمین اور علم وروحانیت کا مرکز

تاریخ عالم کے اوراق کا جائزہ لیں تو آپکو کئی ایک ایسے علاقے نظر آئیں گے جو اپنی مردم خیزی کی وجہ سے مشہور ٹھہرے۔ ملک فارس میں شیراز کا قصبہ شیخ سعدی رح اور حافظ شیرازی رح کی وجہ سے مشہور ہے اور بخارا کا شہر امام بخاری رح کی وجہ سے ابدی شہرت کا حامل ہے۔اس طرح اور بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن آج میں جس علاقے کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں وہ پاکستان کے ضلع جہلم کے ایک چھوٹے سے گاوں کا ہے جس کی آبادی بمشکل دو ہزار کے قریب ہے۔ لیکن یہ گاوں اپنی علمی،سیاسی اور روحانی خدمات اور چند ستاروں کی وجہ سے تابناک ماضی رکھتا ہے۔

یہ گاوں اپنی تعلیمی خدمات کی وجہ سے سارے علاقہ میں شہرت کا حامل ہے۔اس گاوں کی آبادی سو فیصد تعلیم یافتہ ہے اور اس کی یہ حیثیت آج کے دورسے نھیں بلکہ انگریزوں کے دور میں بھی نمایاں مقام رکھتا تھا۔ چنانچہ برطانوی راج کی سرکاری دستاویزات میں اسکے تعلیمی تناسب کو دیکھ کر اس گاوں کا نام "چک عبد الخالق سٹی" نظر آتا ہے۔ یعنی اس گاوں کو ایک شہر کا درجہ حاصل تھا۔اس سلسلے میں نے گاوں کے کافی سارے بزرگوں سے یہ روایت بھی سنی ہے گو کہ اس پر مزید تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل تھے کہ وائسراے ہند نے اس چھوٹے سے دیہات کا دورہ کیا اور کیا یہ ذاتی دورہ تھا یا اسکی کوئ سرکاری حیثیت بھی تھی اور آیا یہ دورہ لارڈ کرزن"1899" یا لارڈ ویول "1944" نے کیا تھا۔ جن لوگوں سے میں نے روایت لی ہے انکو سال اور وائسراے کا نام یاد نہِیں تھا۔ لیکن یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ یہ دورہ وائسرائے نے گاوں کی تعلیمی قابلیت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلیے کیا تھا۔ چنانچہ پیر محمد ولایت شاہ رح،پیر محمد غوث شاہ رح اور سید چنن شاہ مرحوم جو مشہور شاعر ضمیر جعفری کے قریبی رشتہ دار تھے نے گاوں کے دیگر عمائدین کے ساتھ استقبال کیا اور وائسرائے کی رخصتی کے وقت پیر محمد ولایت شاہ رح نے گاوں کے کسانوں کی طرف ایک بھیڑ تحفے کے طور پر پیش کی جو وائسراے نے قبول کر لی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک مشہور پروگرام طارق عزیز کے "نیلام گھر" شو میں ایک سوال کے جواب میں یہ جواب درست مانا گیا کہ کہ پاکستان میں سب سے زیادہ خواندگی کی شرح والا گاوں کا نام چک عبد الخالق ہے۔ مزید برآں برطانوی دور میں اس گاوں میں پہلا مڈل سکول قائم کیا گیا جہاں آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی۔تمام اہل علاقہ اسی سکول میں حصول تعلیم کیلیے آتے تھے اور یہان باقاعدہ دور دراز آنے والے طلباء کے لیے ہاسٹل کی سہولت بھی موجود تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل گاوں کس قدر علم اور حصول علم کے قدر دان تھے۔

دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ گاوں دینی اور روحانی تربیت کا مرکز بھی تھا۔آپ کے لیے بھی یہ حقائق شاید دلچسپی کا باعث ہوں گے۔میری نظر سے ایک کتاب "مناقب سلطانی"گزری ہے جو کہ صاحبزادہ حامد سلطان رح کی لکھی ہوئ ہے جو کہ حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں۔ وہ اپنے سفر روحانیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مرشد کی تلاش میں مختلف مقامات پر گئے تو وہ علاقہ روہتاس میں سید شیر شاہ کی شہرت سن کران کے پاس بھی تشریف لائے۔ تو شیر شاہ رح نے ان کو نصیحت کی کہ آپ کے دادا حضور خود منبع فیض ہیں۔ چنانچہ صاحبزادہ صاحب واپس جا کر اپنے والد ماجد حضرت غلام باھو رح کی بیعت ہو گئے۔گوہ کہ اس بات میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ وہ بزرگ شیر شاہ رح کون تھے۔لیکن میرے خیال میں ان کا زمانہ اور چک عبد الخالق کے ولی کامل کا زمانہ حیات ایک ہی تھا اورحضرت شیر شاہ رح کی شہرت بحیثیت مفتی اور ولی کامل پورے پنجاب میں پھیل چکی تھی جیسا کہ میں نے اپنی کسی مضمون میں حضرت شیر شاہ رح کے چند قلمی نسخوں کا ذکر کیا تھا جو سن ۱۸۳۱ کے لگ بھگ لکھے گئے تھے۔اسی طرح امیرملت سید جماعت علی شاہ رح محدث علی پور شریف جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے روحانی راہنما اور قریبی رفقائے کار میں سے ہیں وہ اکثر چک عبدالخالق کے پیران عظام یعنی پیر محمد ولایت شاہ رح اور پیر محمد غوث شاہ رح کے ہاں جلوہ افروز ہوتے تھے۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ نے آستانہ عالیہ سیداں شریف کو ایک جاری دریا کے نام سے پکارا تھا۔

اب میں آپ کو موجودہ دور کے ان ستاروں سے روشناس کراتا ہوں جو اس گاوں کی نیک نامی اور شہرت کا باعث بنے۔ان میں سید ضمیر جعفری کا نام سر فہرست ہے جن کا شمار ملک کے نامور شعراء میں ہوتا ہے۔پاکستان ٹیلی وژن پر آپ کے پروگرام "آپ کا ضمیر" نے کافی شہرت پائی۔آپ کے بیٹے احتشام ضمیر پاک آرمی میں جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ اس طرح انڈس واٹر کمیشن کے سابق سربراہ سید جماعت علی شاہ بھی اسی گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔سید اسد علی ایک مشہور ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ،کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے۔اس طرح وکالت کے شعبے میں بھی سید اکبرشاہ مرحوم اور حیدر شاہ مرحوم ایڈوکیٹ کے نام نمایاں ہیں۔سید ممتاز جعفری مرحوم اور راجہ محمد افضل مرحوم گاوں کی بہت نمایاں تعلیمی،سماجی اور سیاسی شخصیت تھے۔ گاوں کی مقامی سیاست میں راجہ نوید افضل،افتخار حسین شاہ اور شاہد شاہ کافی عرصے سے سرگرم عمل ہیں اورانہوں نے گاوں کے ترقیاتی کاموں میں بہت کوششیں کی ہیں۔

میرا شاعر- سید ضمیر حسین جعفری مرحوم

ساحر لدھیانوی کے گانے کے یہ بول"میں پل دو پل کا شاعر ہوں" جب میری سماعت سے ٹکراتے تو ایک شاعر کی شخصیت کا سحر مجھ پر طاری ہو جاتا۔اس شاعر کو دیکھنے اور ملنے کی تمنا دل و دماغ پر طاری ہو جاتی تھی۔لیکن میری یہ جستجو ہمیشہ ادھوری ہی رہی اس کوئل کی تلاش کیطرح۔ جب بھی وہ بیری اور شہتوت کے درختوں پر اپنی سریلی آواز میں "کو کو" کرتی۔ تو میں بے ساختہ کبھی اکیلا کبھی دوستوں کی ساتھ اس کی تلاش کو چل پڑتا۔ میں اس کی میٹھی آواز کے سحر میں مبتلا ہو چکا تھا۔وہ کبھی ایک درخت پر بیٹھی ہوتی تو ہمارے پہنچنے سے پہلے پھر سے اڑ کر کہیں اور محو پرواز ہو جاتی۔ہم اسکی کھوج میں سرگرداں ہی رہتے وہ ہمیں اپنی میٹھی آ واز سنا جاتی پر نظر نہ آتی۔ہم میں سے کسی کو اسکی ایک جھلک بھی نظر آ جاتی تو وہ اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب تصور کرتا تھا۔ کچھ یہی حال ہمارا شاعر کی تلاش میں بھی ہوا۔ہم نے بچپن میں سن رکھا تھا کہ ایک بہت بڑے شاعر ہمارے گاوں میں رہتے ہیں۔ان کو دیکھنے کی تمناے شدید بھی ہمارے دل کے کسی کونے دبکی اس شاعر کے شوق دیدار میں بیتاب رہتی۔ انکا گھر شاہ مجید ولی کے احاطے کے اس پار تھا۔ہمارے مدرسے کا رستہ اس گھر کے قریب سے ہی گزرتا تھا تو آتے جاتے ہم کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے کہ شاید ہماری خوش نصیبی جاگ اٹھے اور ہمیں ان کا دیدار مل جائے پرنجانے کیوں اس کوئل کے حصول کی طرح یہ خواہش تشنہ ہی رہی۔ چلیں میں آپ کوصرف اتنا بتائےہی دیتا ہوں ان شاعر کا نام سید ضمیر حسین جعفری ہے۔

وقت پنکھ لگا کر اتنا تیزی سے گزرا کہ ہمیں بچپن سے سن شعور میں داخل ہونے کا پتہ ہی نہ چلا اب ہم کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر ڈگری یافتہ ہو چکے تھے۔ لیکن اس شاعر کی تلاش سے فارغ نہ ہوے تھے۔ایک روز بس یونہی اپنے بزرگوں کی کتابوں کی الماری کو کھنگال رہے تھے تو ایک چھوٹا سا کتابچہ نظر آیا۔اس میں کسی ولی خدا کا تذکرہ زندگی درج تھا۔ اس بزرگ کا نام سید محمد شاہ آف کھنیارہ شریف تھا اور کتاب کے مصنف کا نام ضمیر جعفری تھا۔ یہ میرے لیے چونکا دینے والا انکشاف تھا کیونکہ ہم تو ان کو صرف شاعر سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ میرا انکے ساتھ دوسرا غائبانہ تعارف تھا۔

شاعرکے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط کرنے میں ایک اور شخصیت کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ان کا پورا نام تو مجھے معلوم نہ تھا لیکن وہ منشی سواریا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ ہمارے ایک قریب گاوں سدھ تاجپور علیا کے باسی تھے۔آپ اغلبا کسی سکول میں مدرس تھے اور آپ ضمیر جعفری مرحوم کے بہت بڑے مداح تھے۔مجھے منشی سواریا کی شخصیت میں جو چیز متاثر کرتی تو وہ انکا اونچا شملہ اور انتہائی سرخ داڑھی تھی۔آپ ہمارے گاوں تب ہی تشریف لاتے جب محترم ضمیر جعفری صاحب کی گاوں میں آمد متوقع ہوتی تھی۔ کیونکہ ضمیر جعفری ایک عوامی شخصیت تھے اور میلوں ٹھیلوں میں بھی شرکت فرماتے تھے اس طرح آپ نے اپنے لوگوں کے ساتھ یہ رابطہ ہمیشہ قائم رکھا۔

زندگی میں مجھے آپ سے براہ راست ملاقات کرنے کا موقعہ تو نہ مل سکا کیونکہ آپ ایک بہت بڑی اور مصروف شخصیت تھے۔لیکن آپ کی شاعری اور ٹی وی پروگرام "آپ کا ضمیر" کے ذریٰعے آپ سے رابطہ بنا رہا۔پھر ایک دن پی ٹی وی کے نیوز چینل کے ذریعے پتہ چلا کہ ملک کے معروف شاعرضمیرجعفری کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور بغرض علاج امریکہ اپنے بیٹے کے پاس منتقل ہو گئے ہیں،پھرایک منحوس شام کو خبر ملی کہ آپ اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکے۔آپکی آخری آرام گاہ گوجر خان،راولپنڈی میں اپنے نانا جان پیر محمد شاہ آف کھنیارہ شریف کے پہلو میں ہے۔

اب میں اس شاعر کو تو شاید کبھی نہ مل سکوں پر اس کی جستجواور شاعری ہمیشہ ساتھ رہے گی۔میں تو کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہوں لیکن سنا ہے کہ حکومت نے ایک سٹیڈیم اور گاوں کے سکول کا نام سید ضمیر جعفری مرحوم کی ادبی خدمات کے صلے میں انکے نام پر کر دیا ہے

بچپن کے کھیل ۔ نصف صدی کی کہانی

اس دور میں گاوں میں تفریح اورکھیلوں کی وہ سہولیات تو میسر نہ تھی جو آج کل بچوں کو اس الیکٹرانک دور میں میسر ہیں۔لیکن یہ رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ آج کل بچوں کا زیادہ تر وقت ٹی وی یا کمپیوٹر پر گزرتا ہے اور جسمانی کھیلوں کی طرف رجحان کم دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بہر حال کرکٹ جیسی گیم میں ہر عمر والے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے دور میں انٹرنیٹ تو تھا ہی نہیں لیکن ٹی وی اور ریڈیو بھی چند ہی لوگوں کے پاس تھا لہذا بچوں کا آوٹ ڈور کھیلوں کی طرف زیادہ میلان تھا۔

اس مضمون میں ان چند کھیلوں کا ذکر کروں گا جو ہم بچپن کے دور میں کھیلا کرتے تھے۔چنانچہ سکول میں اور سکول کے بعد بھی" چھپن چھپائی "بچوں میں کافی مقبول تھا۔جس میں ایک بچہ کی ڈھونڈنے اور پکڑنے کی باری ہوتی تھی اور اسی قسم کا ایک اور کھیل بھی ہوتا تھا۔جس کو ہم ٹیلو ایکس پریس کہتے تھے اور یہ کھیل اکیلے اور ٹیم کی صورت میں کھیلا جاتا تھا۔ چنانچہ باری والی ٹیم کو مخالف ٹیم کے ہر کھلاڑی کو ڈھونڈ کر ٹیلو ایکس پریس کہنا ہوتا تھا۔ اگر باری والی ٹیم کے کسی کھلاڑی کومخالف ٹیم ہاتھ لگا لیتی تو باری والی ٹیم کو دوبارہ کوشش کرنا ہوتی۔ "اونچ نیچ" کا کھیل بھی کافی مقبول تھا۔ جس میں باری دینے والا اگر اونچی جگہ پر چڑھ جاتا تو وہ پکڑنے والے کی زد سے بچ جاتا۔اسی طرز پر"برف پانی" کا کھیل بھی کھیلا جاتا اور باری دینے والا برف کہنے پر پکڑ نہیں سکتا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہم "باجی" یعنی بازی کی گیم بھی کھیلنا نہ بھولتے۔اس میں ایک گیند کی ضرورت ہوتی تھی جو ہم کے ٹو اور ایمبیسی سگرٹس کی خالی پیکٹس سے بنا لیتے اور والی بال کی طرز پر کھیلتے تھے۔ "چدی تراپا" لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں میں بھی مقبول تھا۔

بعض اوقات چار کونوں والا گیم بھی کھیلتے تھے۔ "باندری قلعہ" کا کھیل بھی ناقابل فراموش ہے۔اس کھیل میں ایک دائرہ کھینچ لیا جاتا اور اور درمیان میں باری دینے والا جوتوں کی حفاطت کیلیے کھڑا ہو جاتا اور باقی لڑکے جوتے چھیننے کی کوشش کرتے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو باری والے کھلاڑی کو جوتوں کی مار سے بچنے کیلیے بھاگ کر جان بچانی پڑتی لیکن اگر وہ جوتے چھیننے کی کوشش کے دوران کسی کو پکڑ لیتا تو وہ اس مار سے بچ جاتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دلچسپی دوسرے کھیلوں کی طرف مبذول ہو گئی جس میں زیادہ اہم "بنٹے" کا کھیل تھا۔ہر لڑکے کے پاس کافی تعداد میں بنٹے ہوتے تھے۔اس کے لیے ایک ہول کی ضرورت ہوتی تھی جو کسی بھی دیوار کے ساتھ تین چار انچ کے سائز کا کھود لیا جاتا اور شرائط طے ہو جاتی کہ "ہاسی ہاسی" یا "جتن جتن " کھیلنا ہے۔اگر ہاسی ہاسی ہوتا تو بنٹے واپس مل جاتے تھے اور اگر دوسری صورت ہوتی تو نقصان کی صورت میں خالی ہاتھ گھر جانا پڑتا تھا۔ بنٹوں کے ایک اور کھیل میں ایک بڑا سا دائرہ کھینچ لیا جاتا اور بنٹوں کو ایک انگلی کے ساتھ ایک خاص انداز میں نشانہ لگانا ہوتا تھا۔ اور دائرے والی شکل میں آپ" کیڑی" بھی کھیل سکتے تھے۔جس میں آپ ایک بنٹے کو رول کر کے نشانہ لگاتے تھے۔جیتنے کیلیے بنٹے کا دائرہ سے باہر آنا ضروری تھا۔بٰض اوقات ہم بنٹے سکول لے جاتے اور اگر استاد محترم کو پتا چل جاتا تو سزا بھی ملتی تھی۔

اسکے علاوہ پٹھو گرم اور گلی ڈنڈا کا کھیل بھی بہت مقبول تھا۔ گلی ڈنڈا میں ایک ڈنڈا اور ایک گلی کی ضرورت ہوتی تھی۔ایک خانہ کھینچ لیا جاتا اور اور ٹلے کے بعد ڈنڈا خانے میں رکھ دیا جاتا اور مخالف ٹیم اگر ڈنڈے کو گلی کے ساتھ نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی یا کیچ کر لیتی تو ٹلا مارنے والا کھلاڑی آوٹ ہو جاتا اور یہ کھیل ٹیم کی صورت میں بھی کھیلا جاتا تھا۔کیچ کی صورت میں ساری ٹیم آوٹ ہو جاتی۔ پٹھو گرم کے کھیل میں ایک گیند اور پھیکروں کی ضرورت پڑتی اور ایک دائرے میں پھیکروں کو نصب کر کر دیا جاتا تھا۔ یہ کھیل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا تھا۔باری والی ٹیم کو نصب شدہ پھیکروں کو نشانہ مار کر گرانا ہوتا تھا اور پھر ان کو جوڑنا ہوتا تھا۔مخالف ٹیم کی کوشش ہوتی کہ ان پھیکوں کو جڑنے نہ دیا جائے اور وہ گیند کے ساتھ باری والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو نشانہ لگاتے اگر ایسا ہو جاتا تو باری والی ٹیم ہار جاتی۔

بعض اوقات ہم" باڑی" کا کھیل بھی کھیلتے۔ایک کھلے میدان میں ایک بڑا سا مربع نما خانہ کھینچ لیتے اور درمیان میں ایک لکیر کھینچ کر مربع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ پھر اس میں چھوٹے چھوٹے خانے متوازی بنا لیتے۔باری والی ٹیم نے باڑی باڑی کا نعرہ لگا کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا ہوتا جبکہ مخالف ٹیم ان کو ایسا کرنے سے روکتی تھی۔ اگر مخالف ٹیم باری والے کسی کھلاڑی کو ہاتھ لگا لیتی توجیت ان کا مقدر ہوتی بصورت دیگر دوسری ٹیم جیت جاتی تھی۔

چونکہ اس زمانے میں ہاکی کا کھیل بھی مقبول عام تھا تو ہم اس کھیل پر بھی مشق آزمائی کرتے تھے۔ہمارے پاس باقاعدہ ہاکیاں تو نہ ہوتی لیکن ہم کیکر یا آک کی شاخوں سے ہاکی بنا لیتے اور موم وغیرہ کو جلا کر گیند بنا لیتے تھے اور یہ گیند کافی سخت ہوتی تھی۔ گو کہ بعض میں باقاعدہ ہاکی اور گیند سے کھیلنے لگے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے فٹ بال،بیڈمنٹن اور کرکٹ جیسی ماڈرن کھیل کھیلنا شروع کر دیے اور ان کھیلوں میں کرکٹ تو ہمیں اتنا پسند ہے کہ آج اور ابھی بھی کھیلنے کو تیار ہیں۔

مڈل سکول چک عبد الخالق۔چند یا داشتیں

غالبا انیس سو چھہتر کی بات ہے کہ جب ایک نئے طالب علم کا داخلہ گورنمنٹ مڈل سکول چک عبد الخالق میں ہوا تھا اور وہ طالب علم ہم ہی تھے۔میرے ماموں سید عابد حسین مرحوم مجھے سکول میں داخل کرانے گئے تھے۔ہم گھر سے ہی اپنے حصے کا ٹاٹ جماعت میں بیٹھنے کیلیے لے کر گئے تھے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے پہلے استاد ماسٹر مالک تھے اور میں اب تک اس بات کو نہیں بھولا جب پہلے دن انہوں نے ہمیں ٹافیاں دی تھی اور ایک بوری ریس کا واقعہ بھی یاد ہے جب سب نے اپنی اپنی بوری میں پاوں رکھ کر دوڑ لگائی تھی۔اسکے بعد پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت تک ٹیچر بدلتے گئے لیکن جس شفیق استاد کو ہم آج تک نہیں بھولے وہ سدھ تاجپور علیا کے ماسٹر محمود صاحب تھے۔پھر اسی پرائمری سکول سے ہمیں کچھ ایسے دوست ملے جن کے ساتھ ہم نے دسویں جماعت تک تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ سید بابر حسین مرحوم،چوہدری واجد حسین مرحوم آف مدوکالس،چوہدری اکرم آف مدوکالس،داود شاہ،عمر شاہ ،الیاس شاہ،جعفرشاہ،ثقلین شاہ ،مسعود شاہ،علی اسد جعفری،سید سرفراز،سید وقار ہمارے اس دور کی یادوں کا حصہ ہیں۔

پھر ہم سکول کے اوپر والے حصہ میں شفٹ ہو گئے کیونکہ اب ہم چھٹی جماعت میں تھے۔یہاں پر ہمارے دوستوں میں اضافہ ہوا۔یہ نئے دوست گردو نواح کے دیہاتوں سے یہاں حصول تعلیم کیلیے آئے تھے۔ان میں چوہدری مظہر، ماسٹر لال کے بھتیجے،شبیر،ساجد،منیر اور وادی حسین سدھ،جلو چک وغیرہ سے تھے جبکہ غلام شبیر اور شاہد بوڑا پنڈی سے آتے تھے۔کالووال اور چھمالہ سے حبیب الرحمان،راشد،واجد مرحوم،اظہر،خرم اور صفدر بھی ہمارے ساتھی تھے۔ خانہ بوکی سے رضا خان اور ڈھوک کھوکھر سے راجہ عامر ہمارے بہترین دوستوں میں سے تھے۔

چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ہمیں بہتریں اساتذہ ملے۔آپ سب اساتذہ میرے لیے قابل احترام تھے۔ہڈالی سے چوھدری نذیر مرحوم،سید مسعود احمد مرحوم،سید غضنفر علی صاحب، راجہ لطیف صاحب،راجہ اشرف صاحب،چوہدری جہاں داد صاحب آف مدوکالس، ماسٹر اخترآف کالو وال اور قاضی اکرام صاحب آف رانجھا میرا ہمارے مشفق اساتذہ میں سے تھے اورہم ان سب کے احسان مند ہیں جنہوں نے ہمیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ پہلی سے آٹھویں تک ہمارے ہیڈ ماسٹر شیخ عبدالقادر صاحب تھے جن کا تعلق ہڈالی سے تھا۔آپ ایک رعب دار شخصیت کے مالک اور بہتریں منتظم تھے۔

آئیے اب میں آپ کو سکول ک تعارف کراتا ہوں۔اس سکول کا پہلا نام گورنمنٹ مڈل سکول چک عبد الخالق تھا۔ لیکن حال ہی میں غالبا سن 2000 کےبعد اس کا نام ملک کے نامور شاٰعر سید ضمیر جعفری مرحوم کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سکو ل کے پرائمری حصہ کی بنیاد سن انیس سو عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ جبکہ 1920 میں اس سکول کو مڈل کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

یہاں طلباء کیلیے ایک ہاسٹل ،کینٹین اور مسجد بھی موجود تھی۔لیکن یہ سب سہولیات ہمارے دور سے پہلے تھی۔ہم نے ہاسٹل اور کینٹین کے آثار تو دیکھے ہیں لیکن یہ قابل استعمال نہ تھے یا یہ سہولت نا معلوم وجوہات کی بنا پر ختم کر دی گئ تھی۔ بہرحال ہم کینٹین کے حصہ میں تفریح یا وقفہ کے وقت کھیلا کرتے تھے۔پرائمری حصہ تین یا چار کمروں پر مشتمل تھا اور اسکے ساتھ ایک بڑا صحن تھا جس میں صبح کے وقت اسبملی ہوتی تھی اور سردیوں میں دھوپ کیلیے کلاسیں بھی صحن میں ہی لگائی جاتی تھی۔پرائمری سکول کے عقب میں ایک چھپڑ بھی تھا۔ اسی سے ہم تختیاں وغیرہ دھوتے تھے اور خشک کرنے کیلے زور زور سے ہلاتے اور ساتھ ہی" کالیے پنبھیریے کالے کپڑے پانی ہیں" والا گیت بھی گاتے تھے۔اس پانڈ کی ایک عجیب خاصیت تھی کہ اسکے اوپر سبزی مائل رنگ کی تہہ جمی رہتی تھی اور اکثربھینسیں بھی اشنان کیلیے موجود ہوتی۔

مڈل سکول کا حصہ تھوڑی سی اونچائی پر تھا اور اس میں داخل ہونے کیلیے تین چار زینے چڑھنے پڑتے تھے۔اسی حصے میں ہیڈماسٹر صاحب کا دفتر بھی تھا۔ یہ حصہ تقریبا چھ کمروں پر مشتمل تھا۔اس حصہ میں ایک کنواں بھی تھا جہاں سے ہم پینے کیلیے پانی حاصل کرتے تھے اسکے ساتھ ہینڈ پمپ یعنی نلکا بھی نصب تھا۔

یہ سکول چونکہ ہمارے دورمیں ہیڈ کوارٹر ہوتا تھا۔ لہذا گرد و نواح کے پرائمری سکولوں سے اساتذہ ہر مہینے جمع ہوتے تھے۔اس دن کا ہمیں بڑے شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس دن کو سنٹر بولتے تھے جب اساتذہ کرام اپنی ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لیتے تھے اور اس روز ہمیں آدھے دن کی چھٹی مل جاتی تھی۔

سکول کا آغاز باقٰاعدہ مارننگ اسمبلی سے ہوتا تھا۔ طلباء میں سے ایک طالب علم تلاوت قرآن شریف کرتا تھا۔ پھرنعت شریف پڑھی جاتی اور اسکے بعد قومی ترانہ گایا جاتا۔ہم نصابی سرگرمیوں میں تقریری مقابلے ہوتے،قوالی اور سنگیت بھی پیش کیے جاتے تھے۔مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب موہڑہ سیداں کے چند طلباء نے "بھر دو جھولی میری یا محمد صلی االلہ علیہ والہ وسلم" والی قوالی گائی تھی۔

موسم گرما میں سکول دو ماہ کیلے بند ہو جاتا تھا۔اساتذہ کرام ہمیں چھٹیوں مین مصروف رکھنے کیلیے خوب ہوم ورک دیتے تھے۔جس کیلیے ہم بڑے بڑے رجسٹر خریدتے اور ہوم ورک مکمل کرتے تھے۔کیونکہ چھٹیوں کے اختتام پر اساتذہ کرام ہوم ورک چیک کرتے تھے اور نامکمل کام پرسزا بھی ملتی تھی۔

حال ہی میں اس سکول کے دونوں حصے دوبارہ تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ سکول ایک نئی عمارت اور ایک نئے عزم کے ساتھ اب بھی سرگرم عمل ہے