شان مولا علی علیہ السلام

آجکل ہر فرد سوشل میڈیا کی وجہ سےایک گو مگو کی کیفیت میں ہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار فواید ہیں اسکے ساتھ ہی یہ ایک فتنہ عالم کی صورت بھی اختیار کر چکا ہے۔ مفہوم حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی نت نئے فتنوں کا ظہور ہونا بھی ہے۔ اور جو بھی کسی فتنے کی طرف دیکھے گا ،فتنہ اس کو اچک لے گا۔اصحاب رضی اللہ عنہم کے دریافت کرنے پر فرمایا گیا تو پہاڑوں کی طرف بھاگ جاو اور غاروں میں پناہ لے کر اپنے ایمان کو بچاو۔

آجکل آئے روز نت نئی پوسٹیں آ رہی ہیں جو فرقہ واریت پر مبنی ہوتی ہیں ہر کوئی دلائل کے انبار لگا دیتا ہے ایک عام آدمی کو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کرے۔ میں کوئی عالم فاضل نہیں کہ اپ کو کوئی وعظ و نصیحت کروں بہر حال اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اعتدال کا رستہ اختیار کیا جائے اور یہی دین متین میں حکم بھی ہے۔ہر بات کا جواب دینا بھی ضروری نہیں ہوتا کیونکہ عافیت و سلامتی خاموشی میں پوشیدہ ہے اورنہ اپنا چھوڑو اورنہ دوسروں کو چھیڑو والی بات بھی بہتریں حکمت عملی ہے۔ بہرحال بہتر جواب دینا اس وقت ضروری ہو جاتا ہے جب آپ کے ایمان اور سلامتی دونوں خطرے میں ہوں۔ کیونکہ حکم خدا وندی بھی یہی ہے" و جادلہم بالتی ھی احسن۔۔۔۔الاخر"۔

جب ہم کسی ایک شخصیت کے فضائل بیان کر رہے ہوتے ہیں تو ضروری نہیں ہوتا کہ جھٹ سے اسکے مد مقابل بلا ضرورت ایک اور شخصیت کھڑی کر دی جائے۔ تاریخ عالم میں بےشمار مذاہب ہیں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے انبیاء اور ہیروز کا احترام کرتے ہیں۔لہذا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم جوش میں آ کر دوسروں کے ہیروز کا احترام ملحوظ خاطر نہ رکھیں کیونکہ مخالفین بھی جواب میں ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمارا دین دوسروں کے جھوٹے خداوں کو بھی برا کہنے سے منع کرتا ہےمبادا وہ ہمارے سچے رب کو گالیاں نہ دے بیٹھیں۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار کے نمائندے نے محمد رسول اللہ کے لفظ پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی علیہ السلام سے لفظ حذف کرنے کو فرمایا تو مولا علی حد ادب کی وجہ سے معذرت خواہ ہوے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے رسول اللہ کے الفاظ حذف فرما دیے اور کفار کے اس موقف پر کوئی مجادلہ نہ فرمایا۔

تاریخ اسلام میں بھی بےشمار اکابرین امت ہیں جن میں سر فہرست خود آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکے بعد اہل بیت اطہار اور اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔اور اصحاب میں خلفائے راشدین کا نام پہلے آتا ہے۔خلفائے راشدین میں ہرشخصیت کے فضائل ہیں جو کتب احادیث میں مرقوم ہیں۔انکے فضایل انکی شخصیت کو سمجھنے کے واسطے ہیں اور ان میں تقابلی جائزہ پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی تاریخ اس تقابلی عیب سے داغدار ہے اور اسی پس منظر میں بے پناہ کشت و خون بھی ہوا جس کی تفصیل میں ہمیں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔

آج میں جس شخصیت کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں وہ مولا علی علیہ السلام/ رضی اللہ عنہ ہیں۔ حدیث غدیر خم کی بنیاد پر انکی عظمت و شان کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ میں امام عبدللہ یافعی کا یہ قول اپنے دلایل کیلیے پیش کرتا ہوں کہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جوبغیر دلیل کے آپ کی بات مان لیں گے اور دوسری قسم کے لوگ دلیل کے باوجود بھی آپ کی بات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس بات کے ساتھ میں اپنی بات بغیر کسی حوالہ نمبرکے آپ کے سامنے رکھوں گا کیونکہ شان مولا علی علیہ السلام کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن مقدس میں کئ آیات موجود ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر مولا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔آیات تطہیر اور مباہلہ میں جن پاک ہستیوں کا ذکر ہے اس میں آپ بھی شامل ہیں۔ اس طرح ایثار نفس والی آیہ مبارکہ" یوثرون علی انفسہم۔۔۔الآخر" میں آپ اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی ذات ہی مقصود ہے۔ اس طرح ایک اور آیہ مبارکہ ترجمہ" ہر قوم اپنے امام کے پیچھے ہوگی۔۔الآخر" کی تفسیر کے مطابق روز حشر سیدنا و نبینا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت محمدیہ کا جھنڈا مولا علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دے دیں گے۔ حدیث غدیر خم کے پس منظر میں جس آیہ مبارکہ کا حوالہ دیا جاتا ہے اسکے مقام اور شان نزول کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔بہرحال ایک گروہ کی رائے میں اس سے مراد مولا علی علیہ السلام کی ذات پاک تھی۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

صحاح ستہ مولا علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب سے بھری پڑی ہے۔ بہت سی روایات کے مطابق آپ دنیا اور آخرت دونوں میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بھائ ہیں اور یہ ارشاد نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم مواخات مدینہ کے وقت ہوا۔آپ باب علم ہیں۔ "انا مدینۃ العلم و علی بابھا"۔ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق صرف منافق ہی مولا علی علیہ السلام سے بغض رکھے گا۔ ایک روایت کے مطابق مولا علی علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں تو جواب ملا کہ اے علی کیا آپ اسے خوش نہیں کہ جنت میں جو چار افرد پہلے داخل ہوں گے آپ ان میں شامل ہیں۔اور وہ چار افراد محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم،مولا علی اور حسنین کریمین علیہم السلام ہیں۔ تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اور ہمارے چاہنے والے تو ارشاد نبی علیہ الصلوۃ والسلام ہوا وہ بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ حدیث غدیر خم "من کنت مولہ فھذا علی مولہ" مولا علی علیہ السلام کی رفعت شان کا مظہر ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی ارشاد مبارکہ ہے کہ جنت علی کی مشتاق ہے اس حدیث مبارکہ چند اور اصحاب کے نام بھی ہیں۔آپ کا نام گرامی عشرہ مبشرہ اور چودہ نقباء والی احادیث میں شامل ہے۔ ایک روایت کے مطابق مولا علی علیہ السلام سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے تھے۔ایک رویت کے مطابق آپ اہل عرب کے سردار اور مرد ہیں۔ ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق مولا علی کی بابت دو گروہ جہنم میں جائیں گے۔پہلا گروہ انکی محبت میں غلو کر کے آپکو الوہیت کے درجے پر بٹھا دے گا جبکہ دوسرا بغض علی کی وجہ سے ان کی تخفیف کرے گا اور دونوں جہنم میں جائیں گے۔

اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر میں منزلت مولا علی علیہ السلام

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق انکے والد یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت علی علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھتے مولا علی علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتے رہتے تو انہوں نے پوچھا کہ ابا جان آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ سن رکھا ہے کہ مولا علی کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کا جنازہ نہ پڑھتے جس کے دل میں مولا علی علیہ السلام کے خلاف بغض ہوتا۔ آپ کے دور میں مولا علی قاضی القضاۃ تھے تو ایک بدو نے مولا علی علیہ السلام کے فیصلہ کے خلاف ان سے شکایت کی اور نازیبا الفاظ استعمال کیے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضبناک ہو گئے اور اس بدو کو زد و کوب کیا۔ یاد رہے کہ بدو کو اس سزا کی حیثیت سرکاری تھی نہ کہ ذاتی کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت امیر المومنین تھے۔ حضرت عمر امور خلافت میں لازمی طور پر مولا علی علیہ السلام سے مشورہ فرماتے۔ خطبہ غدیرخم کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی علیہ السلام کو مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ اب آپ ہمارے صبح و شام مولا ٹھہرے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ جب ہم کوئ مسئلہ سیدنا علی علیہ السلام سے پوچھ لیتے تو اسکے بعد کسی اور سے اس امر کے متعلق دریافت کرنا ضروری نہ سمجھتے۔

تابعین و ائمہ اہل سنت والجماعت اور ائمہ حدیث کی نظر میں شان علی علیہ السلام

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے والدین ایک روایت کے مطابق مولا علی کے ذاتی خدمت گار تھے جبکہ خود امام صاحب نے ائمہ اہل بیت اطہار سیدنا امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کے سامنے زانوئے تلمذ کیا۔بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر ابو حنیفہ ان پاکباز ہستیوں کی خدمت میں وقت نہ گزارتا تو برباد ہو جاتا۔آپ نے بنو عباس کے خلاف اہل بیت اطہار کے حق کی حمایت کی تھی چنانچہ آپ کو اسی ضمن میں جیل اور کوڑوں کی سزا بھی ہوئ اور ان کوڑوں کی اذیت سے ہی آپ کی وفات ہوئی۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان زبان زد عام ہے اگر اہل بیت اطہار کی محبت سے کوئی شیعہ ہوتا ہے تو میں شیعہ ہوں اور اگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و احترام کی وجہ سے کوئی سنی ٹھہرتا ہے تو میں سنی ہوں۔

موطا امام مالک رحمۃاللہ علیہ، مسند امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ اور صحاح ستہ میں بے شمار روایات مولا علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے فضائل ومناقب بارے میں ہیں۔

عصرحاضر کے ایک مجتہد کے مطابق کم و بیش چار ہزار روایات ائمہ اہل بیت اطہار سے صحاح ستہ میں درج ہیں جبکہ خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تقریبا دو سو روایات مروی ہیں۔ اس طرح مولا علی علیہ السلام کی"نہج البلا غہ" مکمل طور پرصحاح ستہ میں سے ایک کتاب میں درج ہے۔

سنن نسائی صحاح ستہ میں سے ایک کتاب ہے۔اس کے مولف امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے جب فضائل مولاعلی علیہ السلام پر شام کی جامعہ دمشق میں خطبہ دیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کی مولا علی علیہ السلام کے تقابل میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا رائے ہے تو آپ نے فرمایا کہ کوئی تقابل نہیں بلکہ اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بخشش بھی ہو جائے تو انکیلیے کافی ہو گا۔ شامیوں نے آپ کی یہ بات سن کر آپ کو اتنا زدوکوب کیا کہ آپ اس صدمے سے وفات پا گئے۔

ایمان حضرت ابو طالب اور تقاضہ حب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حب مولا علی علیہ السلام

اس امرمیں علمائے اہل سنت مختلف الآراء ہیں۔عصر حاضر کے ایک مجتہد اعلیحضرت احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اس ضمن میں مقالہ موجود ہے۔ ایک اور مجتہد وقت ڈاکٹر طاہر القادری حفظہ اللہ کا بیان بھی موجود ہے۔ یہ وہ حساس ایشو ہے جس پربات کرتے ہوئے سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت، نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے رو پڑی تھی۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو اس امر میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ کہیں تخفیف شان مولا علی علیہ السلام کا پہلو نہ نکل آئے۔کیونکہ یہ شروع سے ہی کچھ لوگوں کا وطیرہ رہا جس کی تکرار بنو امیہ کے بعد بنو عباس نے بھی جاری رکھی۔ بنو عباس بزعم خود حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد علی علیہ السلام کا ہم پلہ بلکہ بہتر سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ وہ ایمان حضرت ابو طالب کا ابہام بتاتے تھے۔اس بارے میں امام علی رضا رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہارون الر شید سے علمی مجادلہ بھی ہوا تھا تب جا کر خلیفہ کو آل نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اولاد علی علیہ السلام کے تخصص اور عظمت کا احساس ہوا۔ آجکل بھی نجد اور پاک و ہند کچھ حصوں میں یہ روش جاری ہے۔ان لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر ہونی چاہیے کہ کہیں انکا مقصد اس بحث سے تخفیف شان علی علیہ السلام تو نہیں۔

کرامات مولا علی علیہ السلام

ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ بنو عباس کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ شکار کیلیے اس علاقے میں نکلا جہاں نجف اشرف ہے۔ ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے کتے ایک ٹیلے کے سامنے رک گئے اور اوپر چڑھنے سے گریزاں تھے اور ہرن پھلانگ کر ٹیلے کے اوپر چڑھ گیا اور وہاں موجود ایک قبر کے پاس پناہ لے لی۔ تو خلیفہ نے مقامی لوگوں سے اس قبر کے بارے میں پوچھا تو ایک بوڑھے نے جو محرم راز تھا بتایا کہ یہ مولا علی علیہ السلام کی قبر مبارک ہے۔ چنانچہ اس کرامت کے ظہور کے بعد خلیفہ نے مقبرہ تعمیر کروایا۔

ابن بطوطہ لیلۃ المحیاط کا بھی ذکر کرتا ہے جو ستائیس رجب کو وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اپاہج لوگ اس رات کو نجف اشرف میں روضہ علی علیہ السلام پر رات عبادات و مناجات میں میں گزارتے اور صبح شفایاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔

مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "نفحات الانس" میں بھی مولا علی علیہ السلام کی کافی کرامات کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے سورج کا واپس پلٹ آنا، دجلہ کے سیلاب کا ختم ہونا وغیرہ ہے۔

آخر میں مشہور قوال عزیزمیاں کی قوالی کی تضمین پیش کرتا ہوں اس امید اور دعا کے ساتھ گر قبول افتد زہے عز و شرف

مجھے چھوڑ دو میں بیمار ہوں

نہیں نہیں میں بیمار علی ہوں

مجھے نہ چھیڑو لوگو نہ ستاو

مجھے در علی پہ رہنے دو

کبھی تو نظر کرم ہو گی

کبھی تو میرا سلام ہو گا

وما علینا الا البلاغ