واقعہ کربلا


محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مولا علی علیہ السلام کی شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پیشن گوئیاں

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حسنین کریمین علیہما ا لصلا ۃ والسلام، محمد مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام و آلہ کے سامنے کھیل رہے تھے تو فرشتہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام و آلہ آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کرے گی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔ یہ سن کر حضور علیہ الصلاۃ والسلام و آلہ روئے اور مولا حسین کو اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا۔ پھر کربل کی وہ مٹی جو فرشتہ نے آپ کو دی تھی میرے حوالے کردی اور فرمایا اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون بن جائے گی میرا حسین شہید ہو جائے گا۔

سرجیل ابن مدرک جعفی روایت کرتے ہیں عباللہ بن نجی سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد سے جو ایک سفر میں مولا علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔جب نینوا کے مقام پر پہنچے جو صفین کا راستہ تھا تو مولا علی علیہ السلام نے مکرر یہ آواز دی کہ اے ابو عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرو اور آپ کی چشمان مبارک میں آنسو جاری تھے ۔ میں نے عرض کی کہ میرے مولا ابو عبداللہ کون ہے تو مولا علی علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حسین فرات کے کنارے پر شہید ہوں گے اور کربلا کی مٹی سنگھائی جس کی وجہ سے میرے آنسو جاری ہو گئے۔

مولا علی علیہ السلام حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے توکعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا انکی اولاد میں سے ایک فرد ایک جماعت کے ساتھ شہید ہو گا۔ اتنے میں حسنین کریمین گزرے تو آپ نے مولا حسین کی طرف اشارہ کیا کہ یہ شہید ہوں گے۔

علی بن حرم روایت کرتے ہیں کہ جب صفین سے لوٹتے ہوئے مولا علی علیہ السلام کربلا میں اترے تو آپنے مٹھی بھر ہرن کی مینگنیاں طلب فرمائیں اور انہیں سونگھ کر فرمایا کہ افسوس افسوس یہاں ایسی قوم شہید کی جائے گی جو بلا حساب جنت میں جائے گی۔

اسحاق بن سلیمان رازی روایت کرتے ہیں کہ زوج ہرثمہ بن سلمی مولا علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ مولا علی علیہ السلام کربل میں ایک درخت کے نیچے اترے اور نماز ادا کی اور پھر اس مٹی کو سونگھ کر فرمایا کہ افسوس ایک ایسی قوم یہاں قتل ہو گی جو بلا حساب جنت میں جائے گی۔ بعض از شہادت مولا علی علیہ السلام یہی شخص یعنی زوج بن ہرثمہ سلمی اس فوج میں شامل تھا جس نے امام حسین علیہ السلام پر چڑھائی کی تو اسکو وہ درخت دیکھ کر مولا علی کی حدیث یاد آگئی تو وہ یزیدی لشکر چھوڑ کر امام پاک کے پاس حاضر ہوا اور مولا علی علیہ السلام کی حدیث بشارت سنائی تو امام پاک نے فرمایا کہ کیا تم ہمارے ساتھ رہو گے تو اس شخص نے معذرت کی تو امام پاک نے فرمایا تو بھاگ کر اس جگہ سے غائب ہو جاو کیوںکہ آج جو بھی ہمارے قتل میں حاضر ہو گا وہ سیدھا جہنم میں جائے گا۔

تفصیل واقعہ کربلا برروایت سیدنا امام محمد باقر علیہ السلام

سیدنا امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب امیر معاویہ فوت ہوئے تو اس وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان حاکم مدینہ تھا۔ اس نے مولا حسین علیہ السلام کی طرف یزید کی بیعت لینے کو قاصد بھیجا تو آپ اس سے مہلت لے کر مکہ تشریف لے گئے۔مکہ مکرمہ میں آپ کو اہل کوفہ کے قاصد پہنچے کہ آپ کوفہ تشریف لائیں تاکہ وہ آپ کے دست مبارک ہر بیعت کر سکیں۔ اس وقت نعمان بن بشیر انصاری کوفہ کے حاکم تھے۔ امام پاک نے حالات کا جائزہ لینے کیلیے اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا۔

حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ آمد

جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو انکی آمد کی خبر پا کر بارہ ہزار آدمیوں نے آپ کی بیعت کر لی۔ ان میں سے ایک شخص عبید اللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی جو یزیدی مخبر تھا نے نعمان بن بشیر کو اطلاع کر دی اور کہا کہ شہر میں فساد برپا ہو رہا ہے اور آپ ضعیف بنے بیٹھے ہیں۔لیکن نعمان بن بشیر کا انکار سن کر اس نے یزید کو اس معاملہ کی خبر کی۔ تو یزید ملعون نے سرعون غلام سے مشورہ کر کے عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا اور اسےحضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے قتل کی ذمہ داری سونپ دی۔ ابن زیاد منہ ڈھانپ کرحجازی لباس میں کوفہ اس رستہ سے وارد ہوا جہاں سے امام حسین علیہ السلام کی آمد متوقع تھی۔ لوگ اسے امام حسین علیہ السلام سمجھ کر سلام کرنے لگے۔ ابن زیاد نے اپنے ایک غلام کو مخبری کیلیے دراہم دے کر مسلم بن عقیل کی بیعت کرنے کیلیے بھیجا اوراس مخبر نے کسی کے توسط سے مل کر ان کی بیعت کر لی اور واپس جا کر ابن زیاد کو خبر کر دی۔ دریں اثنا مسلم بن عقیل اس جگہ کو چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے اور امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا کہ آپ تشریف لے آئیں کیونکہ بارہ ہزار کوفی بیعت کر چکے ہیں۔

حضرت مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت

ادھرابن زیاد نے مخبر سے خبر پاتے ہی تمام سرداران کوفہ کو اپنے دربار طلب کر لیا لیکن ہانی بن عروہ نہ گئے تو اس نے محمد بن اشعث کو انکو گھرسے لینے اور نہ آنے کی وجہ پوچھنے کیلیے بھیجا۔ تھوڑی رد وکد کے بعد ہانی بن عروہ سوار ہو کر انکے ساتھ چل دیے۔اس وقت ابن زیاد دربار میں قاضی شریح کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہانی بن عروہ کی وفاداری پر شک کرتے ہوئے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ابن زیاد نے اس مخبر کو سامنے کر دیا جو مسلم بن عقیل کو انکے ساتھ دیکھ چکا تھا۔چنانچہ ہانی بن عروہ کو قید کر لیا گیا۔قبیلہ مذحج کے لوگ یہ خبر پاتے ہی ابن زیاد کے محل کے باہر احتجاج کیلیے جمع ہو گئے تو ابن زیاد نے قاضی شریح کومسلح نگرانی میں ان لوگوں کے پاس اس معاملے کی وضاحت کیلیے بھیجا تو قاضی نے لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ صرف تفتیش کیلیے حراست میں لیا گیا ہے کسی اندیشے کی ضرورت نہیں چنانچہ لوگ مطمئن ہوکر چلے گئے۔

ہانی بن عروہ کی کرفتاری کی اطلاع پا کر مسلم بن عقیل نے چالیس ہزار کوفیوں کو جو بیعت کر چکے تھے کا لشکر ابن زیاد کے محل پر حملے کیلیے تیار کیا۔ ادھر ابن زیاد نے سرداران کوفہ کو اپنے پاس بلا لیا۔جب حضرت مسلم بن عقیل لشکر کے ساتھ قصر ابن زیاد پہنچے تو سرداران کوفہ نے اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ کر لیا چنانچہ شام کے اندھیرا پڑنے تک سب کوفی فرار چکے تھے۔ اب حضرت مسلم اکیلے رہ گئے تھے تو انہوں نے ایک گھر میں پناہ لے لی تو اس گھر والوں نے دھوکے سے محمد بن اشعث کے ذریعے ابن زیاد کو اطلاع کر دی اور اس نے کوتوال شہر کو بھیج کر وہاں سے گرفتار کر لیا۔ پھر ابن زیاد نے آپ کے قتل کا حکم دے دیا اور آپ کا جسم مبارک لوگوں پر پھینک دیا گیا اور ہانی بن عروہ کو کناسہ میں لے جا کر سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اور یوں امام حسین علیہ السلام کے پہلے دو جان نثار شہید ہوئے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی کوفہ روانگی

حضرت مسلم بن عقیل کا خط وصول ہوتے ہی آپ علیہ السلام عازم کوفہ ہوئے تو قادسیہ سے تین میل پہلے حربن یزید تمیمی آپ کو ملے اور کہا کہ اے امام علیہ السلام واپس لوٹ جائیے آگے کی طرف کوئی بھلائی نہیں تو آپ علیہ السلام نے لوٹنے کا قصد کیا تو حضرت مسلم کے بھائیوں نے بدلہ لیے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا چنانچہ امام پاک نے کوفہ کی طرف سفر جاری رکھا تو راستے میں آپ کا ابن زیاد کے پہلے دستے کا سامنا ہوا۔تو آپ نے کربلا کا رخ کیا اور فرات کو پشت پر لے کر خیمے لگائے تا کہ پشت کی جانب سے حملہ نہ ہو۔ آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور ایک سو پیادے تھے۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد بن وقاص کو امام پاک کو روکنے اور بیعت لینے پر مقرر کر دیا۔ امام پاک ان پلید لوگوں سے جنگ نہ چاہتے تھے لہذا آپ نے عمر بن سعد کا سامنے تین شرطیں رکھیں۔

۱۔ مجھے ان سرحدوں سے باہر جانے دیا جائے

۲۔ یا مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے

۳۔ یا مجھے واپس حجاز مقدس جانے دیا جائے

عمر بن سعد نے تینوں شرائط ابن زیاد کو لکھ بھیجی تو اسنے جواب میں لکھا کہ جب تک امام پاک بیعت نہیں کرتے کوئ شرط تسلیم نہیں کی جاسکتی۔

امام حسین علیہ السلام اور انکے خاندان اوراصحاب کی شہادت

امام پاک نے بیعت کی شرط کو تسلیم نہ کیا اور آمادہ جنگ ہوئے۔چنانچہ دس محرم الحرام کو آپ کے سب ساتھی شہید ہوے ان میں دس سے زائد اہل بیت کے پھول تھے۔ ظالموں نے چھ ماہ کے معصوم علی اصغر کو بھی نہ چھوڑا۔آپ بچہ کے چہرہ سے خون صاف کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے اے اللہ تو فیصلہ کر ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے ہمیں بلایا کہ ہم مدد کریں گے اور پھر ہمیں قتل کیا۔ پھر آپ نے دست مبارک پر چرمی ٹکڑا باندھ کر تلوار تھام لی اور مقاتلہ کیا بے جگری سے لڑ کر شہید ہوے۔آپ کی شہادت کے بعد آپ کا سر اقدس اور خاندان نبوت،ملک شام یزید ملعون کے پاس روانہ کر دیا گیا۔اس قافلہ اہل بیت نبوت میں خواتین مطہرہ کےعلاوہ صرف ایک مرد امام زین العابدین علیہ السلام تھے جن کو بوجہ بیماری معرکہ میں شامل ہونے کی اجازت نہ ملی تھی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

قاتلین امام حسین علیہ السلام کا انجام بد

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حق تعالی نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وحی بھیجی کہ میں نے یحیی نبی کے عوض ستر بندے قتل کیے اور آپ کے نواسے کے عوض ستر ہزار قتل کرں گا۔

جب امام حسین علی السلام شہید ہوئے تھے اس دن آسمان سیاہ ہو گیا تھا۔ اور دن میں ستارے نظر آنے لگے۔ جنوں کو روتے سنا گیا۔

جو شخص شہادت امام پاک کی خبر دینے یزید کو گیا تھا وہ اندھا ہو کر مرا تھا۔

امام زہری فرماتے ہیں کہ شہادت امام پاک کے دن بیت المقدس کے پتھروں کے نیچے سے خون نکلتا تھا۔

امام پاک کے اونٹوں کو کو جب یزیدیوں نے ذبح کر کے کھانے کی کوشش کی تو وہ گوشت کی کڑواہٹ کی وجہ سے انہیں کھا نہ سکے۔

اور جو بھی قتل امام پاک میں موجود تھا یا شریک تھا انجام بد کا ہی شکار ہو کر مرا۔

نوٹ: یہ مضمون کتاب نزہۃ البساتین مولف امام ابی محمد عبد اللہ بن اسعد یمنی یافعی سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مترجم اشرف علی تھانوی ہیں۔