ولی کامل آفتاب ولایت حضرت پیر محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ

پیدائش

آپ کی ولادت شعبان المعظم ۱۳۲۴ ھجری، بمطاپق اپریل،1924 عیسوی کو چک عبد الخالق، ضلع جہلم میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام پیرسید محمد ولایت رح ہے- پیر محمد غوث شاہ رح آپ کے چچا جان ہیں۔

تعلیم

آپ نے آٹھویں تک تعلیم گاوں کے مڈل سکول میں حاصل کی۔ اور اسکے ساتھ ساتھ آپ اور آپ کے چچا زاد سید عبد الحق شاہ رح گھر پر ایک عالم دین مولانا فضل الہی سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت کے بعد آپ نے ڈنگہ، ضلع گجرات میں ایک دینی مدرسہ میں داخلہ لے لیا جس کے ناظم سید زین العابدین اف کمالیہ تھے۔یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے برصغیرکے مشہور مدرسہ، دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ کو شیخ الحدیث اور مفتی اعظم پاکستان علامہ ابو البرکات سید احمد شاہ رح کی تلمیذی کا شرف حاصل ہوا۔جس کا آپ اکثر بڑے فخر و احترام سے تذکرہ فرماتے تھے۔ پاکستان کے مشہور قاری غلام رسول رح بھی آپ کے ہم جماٰعت تھے۔

روحانی تربیت اور بیعت

آپ نے ایک روحانی اور دینی گھرانے مین آنکھ کھولی تھی۔آپ کی روحانی اور دینی تربیت میں اپ کے والد ماجد اور چچا جان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔لیکن آپ نے باضابطہ طور پر اپنا رشتہ ارادت حضرت پیر نظیر احمد موہڑوی رح سے استوار کیا جو خواجہ محمد قاسم موہڑوی کے بیٹے اور جان نشین تھے۔آپ کے والد ماجد کی وفات کے بعد 1966میں حضرت پیر گل بادشاہ موہڑوی رح اورآپ کے چچا جان قبلہ عالم پیر محمد غوث رح نے آپ کی دستار بندی فرمائی۔

رشتہ ازدواج اور اولاد

آپ کی شادی اپنے چچا جان کی اکلوتی صاحبزادی سے ہوئی جو ایک نہایت عفیفہ،عابدہ اور تہجد گزار خاتون ہیں۔ ان سے آپ کے چار صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں تھی۔آپ کے بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں۔

پیرشاہد احمد شاہ جو اپنی اولاد کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں۔

پیر زاہد محمود شاہ۔ کینیڈا میں مقیم ہیں۔

پیر خالد حسنین شاہ۔ کینیڈا مقیم ہیں۔

پیرسید محمد عمر شاہ۔ کینیڈا میں مقیم ہیں۔

آپ کے معمولات زندگی اور روحانی تصرفات

اگر کسی نے پرانے دور کے بزرگوں کی زیارت کرنا ہوتی تو وہ آپ کی زیارت کر لیتا تو اس کیلیے کافی ہوتا۔آپ کی زندگی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت تھی۔آپ کی زندگی سادگی کا بہترین نمونہ تھی۔میں نے ہمییشہ آپ کو سفید لباس زیب تن کرتے دیکھا جو سفید قمیص اور دھوتی پر مشتمل ہوتا اور سر پر سفید رومال یا عمامہ ہوتا۔آپ کا کسب معاش کاشتکاری تھا۔ میں نے سخت گرمی اور سردی میں بھی آپ کو اپنے ہاتھوں سے کام کرتے دیکھا حالانکہ آپ کی خدمت میں بہت سے مریدین بھی موجود ہوتے۔آپ مسجد میں باجماعت نماز ادا فرماتے اور جمعہ کے دن نماز کی امامت اور خطبہ بھی ارشاد فرماتے۔ہم نےتو دین بھی آپ سے ہی سیکھا تھا۔ آپ بچوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے سے احترام سے پیش آتے اور آپ کے حسن اخلاق کی وجہ ہر کوئی آپ کی شخصیت کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔

آپ ایک فقیہ دین بھی تھے۔لوگ آپ سے اپنے دینی، شرعی اور روحانی مسائل کے حل کیلیے آپ سے رجوع کرتے۔چونکہ آپ سے میرا ایک قریبی تعلق بھی تھا لہذا آپ کے معمولات زندگی کا مشاہدہ کرنے کا بہت موقع ملا۔ میں اکثر دیکھتا کہ رات کو بستر پر سونے سے پہلے آپ اسکو جھاڑ لیتے حالانکہ بستر بلکل صاف ہوتا توپتہ چلا کہ آپ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں ایسا کرتے ہیں۔ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ رقبہ میں کام کر رہے تھے تو غالبا نمازعصر کا وقت ہو گیا چونکہ گاوں دورتھا اور پانی نایاب تھا لہذا آپ نے ہمیں تیمم کرنا سکھایا اور ہم نے باجماعت نماز ادا کی۔اسی طرح 1988 عیسوی میں آپ نے موہڑہ شریف کی زیارت کیلیے اپنے مریدین کے ایک وفد کے ساتھ دورہ فرمایا تو راقم الحروف بھی آپ کی معیت میں تھا۔راستے میں نماز کا وقت ہو گیا تو آپ نے قصر کر کے نما ز پڑھوائی اور ہمیں صلاۃ القصر کی ضرورت و افادیت بیان فرمائی۔ ہمارے گھر میں کنویں کا پانی استعمال ہوتا تھا چونکہ اس کا منہ ننگا تھا تو اس میں کوئی نہ کوئی پرندہ گر جاتا تو آپ سے رجوع کیا جاتا تو پھر آپ مسئلہ کے مطابق حل تجویز فرماتے کہ کتنے ڈول نکالنے چاہیے اور اسی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔

آپ صلاۃ و صیام کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔یہاں تک کہ بانویں سال کی عمر میں بھی آپ بغیر کسی سہارے کے تمام ارکان بغیر کسی سہارے کے ادا فرماتے۔اس بات کا مشاہدہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیمپنگ کے دوران کیا تھا جب آپ ہمارے پاس کینیڈا تشریف لائے تھے۔اور اس عمر میں آپ کی یاداشت بھی غضب کی تھی اس بات کا اندزہ مجھے دو بار ہوا۔ایک دفعہ اپ نے میرے استفسار پر امیر ملت سید جماعت علی شاہ محدث علی پور شریف رح اور انکے ایک مرید کی نافرمانی اور معافی کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ سنایا۔آپ جب پہلی دفعہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو میں نے دعا کی درخواست کی تو آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ ایک دو اور مواقع پر میں نے پھر ایسی درخواست کی تو اپ نے مجھ سےصرف یہ فرمایا کہ دعا ہو چکی۔میں اسے بھی آپ کی کرامت مانتا ہوں۔

روحانی تصرفات

آپ کا مقام اولیائے معاصرین میں نمایاں تھا۔ چنانچہ خواجہ فیض اللہ میروی رح چھبر شریف،سوہاوہ کے جاننشین پیر غلام علی شاہ فرماتے ہیں کہ آپ یعنی آفتاب ولایت پیر محمد شاہ سیداں شریف والے بڑی پہنچ والے بزرگ تھے۔ چنانچہ چھبر شریف سے اکثر لوگ سیداں شریف چک عبدالخالق میں آپ کے پاس دعا کروانے کیلیے حاضر ہوتے۔

راجہ مسعود جو محکمہ کسٹم میں انسپکٹر تھے وہ اپنے مرشد کی تلاش میں چھبر شریف پہنچے تو انکی ملاقات ایک مجذوب سائیں شان سے ہوئی جو آستانہ عالیہ چھبر شریف کے خلیفہ مجاز تھے اور اکثر ایک غار میں رہتے تھے۔ انہوں نے راجہ مسعود کو بتایا کہ تمہارا فیض سیداں شریف والے قبلہ پیر محمد شاہ رح کے پاس ہے۔چنانچہ راجہ صاحب مرحوم یہاں آ کر بیعت ہوے۔

راقم الحروف کو مرشد کی تلاش تھی۔ایک دفعہ اپنے ایک دوست پرفیسرشاہد بشیرکے ساتھ جہلم شہر میں ایک نعت خوانی کی محفل میں شرکت کی۔اس محفل پاک کی صدارت سید نصیر الدین نصیر رح پیر آف گولڑہ شریف فرما رہے تھے۔محفل کے اختتام پر ہم نے صبح کی نماز جی-ٹی-ایس بس سروس کے اڈے والی مسجد میں ادا کی۔تو ناگاہ ایک مجزوب قرآنی ایات کی تلاوت کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوا۔ میں اسوقت مسجد کی دیوار پر لگے روضہ پاک کی تصویر کو محویت سے دیکھ رہا تھا۔ اسکو دیکھ کر ہم اسکی طرف متوجہ ہو گئے اور اسکی ضرورت پوری کی۔ اورحصول مرشد کی دعا کی درخواست کی۔تواس نے میرے دوست سے کہا کہ تیرا مرشد کامل ہے اور وہ طاہر القادری صاحب کے مرشد کی بیعت تھے اور مجھ سے کہنے لگا کہ تیرا مرشد تبارک شاہ ہے اورکوشش کرو گے تو مل جائے گا۔بات آئی گئی ہو گئی۔پھر کچھ عرصے بعد شاہد بشیر صاحب نے بتایا کہ تمہارے گاوں سے ہی ایک خدا رسیدہ نوجوان ہمارے محلے میں رہتا ہے اس سے ملاقات کر کے دیکھ لو۔اس طرح ہماری ملاقات اس نوجوان اسد شاہ سے ہوئی جومیرے جد حافظ شیر شاہ رح کے بیٹے اکبر شاہ رح کی اولاد میں سے ہیں تو انہوں نے بھی میری اس شخصیت کی طرف راہنمائی فرمائی۔چنانچہ بعد میں میرا اسی شخصیت کی طرف دل مائل ہو گیا اور میں پیرو مرشد قبلہ پیر محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت سے مشرف ہوا اور آپ ہی وہی شخصیت تھے جن کو مجذوب نے تبارک شاہ کے نام سے یاد کیا تھا۔

آپ صلاۃ و صیام کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔یہاں تک کہ بانویں سال کی عمر میں بھی آپ بغیر کسی سہارے کے تمام ارکان بغیر کسی سہارے کے ادا فرماتے۔اس بات کا مشاہدہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیمپنگ کے دوران کیا تھا جب آپ ہمارے پاس کینیڈا تشریف لائے تھے۔اور اس عمر میں آپ کی یاداشت بھی غضب کی تھی اس بات کا اندزہ مجھے دو بار ہوا۔ایک دفعہ اپ نے میرے استفسار پر امیر ملت سید جماعت علی شاہ محدث علی پور شریف رح اور انکے ایک مرید کی نافرمانی اور معافی کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ سنایا۔آپ جب پہلی دفعہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو میں نے دعا کی درخواست کی تو آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ ایک دو اور مواقع پر میں نے پھر ایسی درخواست کی تو اپ نے مجھ سے صرف یہ فرمایا کہ دعا ہو چکی۔میں اسے بھی آپ کی کرامت مانتا ہوں۔

آپ سے جب کوئی استفسار کرتا تو آپ جواب دینے سے پہلے آنکھیں بند کر کےقلب کی جانب دیکھتے اور پھر جواب دیتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ میں نے فرعون سے متعلق کوئی سوال پوچھا تو آپ نے اسی مخصوص انداز میں میرے سوال کا جواب دیا چناچہ بعد مییں میری نظر سے ڈاکٹر مورس بکائل کی کتاب "دا بائیبل،قرآن اینڈ سائنس" گذری۔اس میں بھی یہی کچھ لکھا پایا جو آپ نے فرمایا تھا۔

میں نے اولیاء اللہ کے بارے میں کافی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے جن میں انکی کرامات وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے تو میں نے آپ سے استفسار کیا کہ ایسے اولیاء اللہ تو اب کتابوں میں ہی ملتے ہیں تو آپ مسکرا دیے اور انکساری سے فرمایا کہ ہم تو لکیرکے فقیر ہیں۔ حالانکہ میں آپ کی کرامات کا مشاہدہ کر چکا تھا۔

آپ کے خلیفہ مجاز جناب ملک یوسف نقشبندی نے اپنی کتاب "شہنشاہ ولایت" میں آپ کی کافی کرامات کا ذکر کیا ہے۔ چند ایک کا تذکرہ حصول برکت کیلیے ہہاں کیا جاتا ہے۔

مدوکالس کے چوھدری باور آپ کے مرید تھے۔ایک دفعہ ان کا بیٹا نذیر چند اور لوگوں کے ساتھ کنواں کھود رہا تھا کہ اچانک کنواں بیٹھنا شروع ہو گیا۔ وہاں موجود لوگوں نے کافی کوشش کی مگر بچانے مین ناکام رہے۔یہ دیکھ کر اس کا بوڑھا باپ روتا دھوتا سیداں شریف آگیا۔آپ اس وقت اپنی حویلی میں جانوروں کو چارہ وغیرہ ڈال رہے تھے۔اسکی بپتا سن آپ اسکے ساتھ مدوکالس روانہ ہو گئے جو زیادہ دور نہ تھا۔آپ نے وہاں پہنچ کر وضو فرمایا اور کلام مقدس کی آیات پڑھ کر کنویں کی طرف منہ کر کے پھونک ماری تو کنویں کی مٹی گرنا بند ہو گئی اور لوگوں سے کہا کہ اب بلا خوف کھینچ لو چنانچہ سب لوگ صحیح سلامت وہاں سے نکل آئے۔آپ کی اس کرامت کے بہت سے شاہد ہیں اور ابھی تک زبان زد عام ہے۔

ملک یوسف نقشبندی رقمطراز ہیں کہ انکے ایک دوست کی بیٹی کے گھر اولاد نرینہ نہ تھی تو اسکے سسرال والے اس وجہ سے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرنا چاہتے تھے۔تو ملک صاحب کے دوست نے یہ دکھڑا جب ان کو سنایا تو وہ انہیں لے کر آستانہ عالیہ سیداں جناب قبلہ پیر محمد شاہ رح کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دعا فرمائی اور تعویذ بھی دیے چنانچہ خدا کے حکم سے ان کی بیٹی کے گھر اولاد نرینہ آگئی اور دوسری شادی کی نوبت نہ پہنچی۔ سچ کہتے ہیں دعا فقیراں رحم اللہ۔

وفات اور مزار شریف

کل نفس ذائقۃ الموت۔آپ کی وفات مارچ 2016 عیسوی میں ہوئی۔آپ کا جنازہ آپ کے برادر نسبتی اور قبلہ عالم پیر محمد غوث شاہ رح کے چھوٹے صاحبزادے پیر سید عبدالخالق حفظہ اللہ نے پڑھایا۔آپ کے جنازے میں ایک جم غفیر شامل تھا۔ آپ کی آخری آرام گاہ جامعہ مسجد حنفیہ چک عبد الخالق کے ساتھ ملحق قبرستان مین اپنے بزرگوں کے ساتھ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کی مرقد پر اپنے انوار کی بارش نازل فرمائے۔آمین