مجذوب حق قلندر دوراں حضرت سید محمد یعقوب المعروف سائیں جی حفظہ اللہ

آپ قبلہ عالم پیر سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں۔آپ سن 1932ء میں چک عبد الخالق ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم وتربیت کے واسطے آپ کو والد ماجد نے مدرسہ میں داخل کروایا لیکن آپ کا رجحان اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح تعلیم کی طرف نہ تھا۔ اور مدرسہ کیلیے آپ کی طبیعت موزوں نہ دیکھ کر آپ کے والد ماجد نے اپنی نگرانی میں آپ کی پرورش کی۔ آپ ایک پیدائشی ولی ہیں اور ظاہری علم کی بجائے آپ کو علم لدنی حاصل ہے۔جیسا کہ مشہور ہے کہ ہر ولی کی اولاد میں سے ایک بچے کو یہ نعمت باطنی ملتی ہے تو آپ کو اپنے والد ماجد قبلہ عالم پیر سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہ نعمت ولایت پہنچی۔

شخصیت

آپ کا قد دراز ہے اور شانوں تک آپ کے بال ہوتے ہیں اور آپ مانگ ہمیشہ درمیان سے نکالتے ہیں۔آپ کا لباس ہمیشہ کرتے اور دھوتی پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو زیادہ تر سفید رنگ کا ہوتا ۔ آپ کی داڑھی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہوتی جو بھی ایک بار آپ کی شخصیت کو دیکھ لیتا تو آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔

بیعت و خلافت

آپ کے والد ماجد قبلہ عالم پیر سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ موہڑہ شریف،مری بیعت تھے۔ایک دفعہ آپ اپنے بیٹے حضرت سید محمد یعقوب کو اپنے ساتھ لے گئے جو اس وقت چھوٹی عمر کے تھے جب آپ کے والد ماجد اپنے مرشد کی دست بوسی کیلیے آگے بڑھے تو آپ پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور استفسار پر فرمایا کہ میں اس لیے پیچھے ہٹ گیا کہ کہیں آپ کے مرشد میری ولایت جذب نہ کر لیں۔آپ نے ظاہری طور پر کسی کی بیعت نہ کی تھی۔

کسب معاش

چونکہ آپ ظاہری طور پر ناخواندہ تھے اور آپ کا میلان بھی کھیتی باڑی کی طرف تھا چنانچہ زمینوں کی دیکھ بھال اور کاشتکاری کا فریضہ آپ کے ذمہ لگا دیا گیا جو آپ ضعیف العمری میں بھی کرتے رہے۔اسی کسب حلال سے آپ اپنے خاندان والوں کی مختلف طریقوں سے مدد کرتے تھے۔ راقم الحروف نے سخت گرمی میں آپ کو روزے کی حالت میں کام کرتے دیکھا اور کبھی آپ سے روزہ قضا نہ ہوا۔

رشتہ ازدوج

آپ کی شادی ایک عفیفہ خاتون سے ہوئی جو گیلانی سید خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

فریضہ حج کی ادائیگی

آپ نے حج کا فریضہ اپنے بھتیجے صاحبزادہ پیر محمد داود شاہ حسنینی سیفی کی معیت میں ادا فرمایا۔

کرامات

ایک دفعہ آپ اپنے تایا جان حضرت پیر محمد ولایت رح کے ساتھ کھیتوں میں کام کررہے تھے اور اس وقت آپ کی عمر چھوٹی تھی تو اچانک آپ نے تایا جان کو بتایا کہ کام بند کردیں کیونکہ بارش آ رہی ہے حالانکہ اس وقت بادل کا نام ونشان تک نہ تھا۔ابھی سب سوچ ہی رہے تھے کہ بادلوں کے آثار نظر آنے لگے اور پھر خوب مینہ برسا۔

ایک دفعہ آپ کا ایک مرید چوہدری سلیمان رات گئے اداس و پریشان حاضر خدمت ہوا اور کہنے لگا کہ میرا ایک چھوٹا بھانجا یا بھتیجا اغوا ہو گیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ وہ گھر خیر خیریت سے آ جائے۔آپ نے اسے تسلی دی کہ خدا خیر کرے گا۔اگلے ہی روز وہ واپس لوٹ آیا اور بتانے لگا کہ ایک جگہ خرکاروں پر نیند طاری ہو گئی تو اسکو بھاگنے کا موقع مل گیا۔اس نے وہی وقت بتایا جب آپ نے دعا فرمائی تھی۔

سدھ تاجپور علیا سے آپ کے ایک مرید جن کی فیملی ناروے میں مقیم تھی۔ تقدیر الہی سے یہ فیملی ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئی اور ان کا صرف ایک بچہ ہی بچ پایا۔ اس بچے نے بتایا کہ ایکسیڈنٹ کے وقت اسے ایک بزرگ نے بچایا تھا۔ چنانچہ جب وہ بچہ پاکستان اپنے لواحقین کے ساتھ سیداں شریف آیا تو آپ کو دیکھ کر کہنے لگا کہ یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مجھے بچایا تھا۔

آپ سے اہل علاقہ کو اتنی عقیدت تھی کہ کچھ عرصہ پہلے آپ کچھ بیمار ہوے تو سارا علاقہ آپ کی عیادت کو آیا ایسے لگتا تھا کہ یہاں کوئ میلا لگا ہوا ہے۔ اس سے آپ کی تسخیرقلوب کی کرامت ظاہر ہوتی ہے۔

راقم الحروف نے کئی سالکین کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے دیکھا۔جو آپ کے پاس خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ان میں سے تو کئی کشف قلوب کا ملکہ بھی رکھتے تھے۔

ایک دفعہ راقم الحروف نے اپنا ایک خواب بیان کیا جو کسی شخصیت کے بارے میں تھا تو آپ نے فرمایا اچھا وہ ہندو، تو مجھے حیرت ہوئی کہ آپ نے اس شخصیت کے بارے میں ایسے کیوں فرمایا جو طریقت کے ایک بڑے سلسلہ سے تعلق رکھتی ہے۔ بعض میں مطالعہ کتب سے پتہ چلا کہ وہ شخصیت وحدت الوجود کی قائل تھی لیکن زیادہ حیرت سائیں جی کے علم پر ہوئ حالانکہ آپ ان پڑھ تھے۔ یقینا یہ بات آپ کے علم لدنی کی غمازہے۔

خلفاء

آپ کے بےشمار مریدین اور خلفاء ہیں۔جن میں چوہدری بنارس آف جلو چک اورچوہدری نسیم آف کھاریاں کا نام سر فہرست ہے۔