مجموعہ خیالات

نعتیہ اشعار - تضمین

میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

میں بہک جاوں یہ مجال کیا

میرا رہنما وہ میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

پھول نہ کاغذ عملاں والے

دھک نہ در توں مینوں

سامنے دیکھتا وہ میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جب لحد میں ڈالیں گے مجھے

کہہ دوں گا فرشتوں سے تب

سامنے کھڑا وہ میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

بلہا کہندا پھردا سب نوں اے

میں کی جانان میں کون

بول،محمد مصطفی میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


نہ روکو مجھے خلد سے اے فرشتو

کہہ دو جا کر رضوان سے

سبطین کا بابا،میرا نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سن لے ہر زمانہ یہ صدا

لا نبی بعدی لا نبی بعدی

محمد مصطفی آخری نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


الکوفی لا یوفی

امام محمد باقر رضی اللہ عنہ ایک جگہ تشریف فرما تھے تو انکے سامنے انکے بھائی زید بن علی رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میرا یہ بھائی شہید کر دیا جائے گا۔چنانچہ سیدنا زید بن علی بنو امیہ کے خلاف سینہ سپر ہوے تو ایک بار پھر کوفیوں نے بے وفائی کا ثبوت دیا اور اہل بیت کے اس مرد مجاہد کا ساتھ عین موقع پر چھوڑ دیا اور یوں امام سجاد علیہ السلام کا لخت جگر شہید ہوا۔

اسی طرح سیدنا نفس ذکیہ رضی اللہ عنہ نے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ انہوں نے سیدنا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ کیا تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اے میرے سردار، اہل کوفہ نے آپ کے جد امام حسین علیہ السلام سے وفا نہیں کی اور یہ آپ سے بھی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حسب روایت کوفی ساتھ چھوڑ گئے اور نفس ذکیہ کو شہید کر دیا گیا۔

اہل کوفہ کی اس سرشت بد کی وجہ سے کوفی اور بے وفائی ایک سکے کے دو رخ بن گئے چنانچہ اسی وجہ سے کوفیوں کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا "الکوفی لا یوفی"۔ بڑے بڑے پارسا اور زاہد لوگ بھی کوفی کہلانے سے کتراتے تھے۔ امام عالی مقام سے کوفیوں کی اس بے وفائی کی وجہ سے اہل عرب و عجم، اہل کوفہ سے گھن کھاتے تھے۔ایک دفعہ ایک کوفی نے دوران حج سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ احرام پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا نما ز ہو جائے گی تو عبداللہ بن عمر نے غضبناک انداز میں جواب دیا کہ کوفیوں پر سبط نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خون ہے وہ اتنے پارسا کیسے بن گئے کہ وہ مچھر کے خون کے بارے میں پوچھتے ہیں۔


حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ

سلطان محمود غزنوی نے کم و بیش سترہ حملے کیے لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور سومنات پر حملہ تھا۔ اس جنگ میں فتح کے بعد سلطان نے ہزار لالچ کے باوجود اس مندر میں موجود تمام بتوں کو توڑ دیا تھا اور اس مندر سے اسے بے پناہ دولت بھی حاصل ہوئی تھی جو اس مندر کے ہوس پرست پجاریوں نے بتوں کے نیچے چھپا رکھی تھی۔آپ سب کو اس بات کا تو علم ہو گا۔ لیکن میں اس فتح کے تناطر میں ایک روحانی واقعہ کا ذکر کرتا چلوں جو شاید آپ نے نہ سنا ہو اور یہ یقینا آپ کیلیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔

سلطان کے دور میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں جن کا نام حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ آپ کی عظمت کے بارے میں اتنا جان لینا کافی ہو گا کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے پیشن گوی فرمائی تھی کہ خرقان کے علاقے مین ایک بڑی برکت والا ولی پیدا ہو گا۔ چنانچہ جب آپ خرقان کی طرف دیکھتے تو ادب سے کھڑے ہو جاتے۔آپ کے مریدیں کیلیے بڑی اچنبھے کی بات تھی تو انہوں نے آپ سے استفسار کیا کہ کیا وہ مرتبے میں آپ سے بڑے ہوں گے تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا ہاں وہ مجھ سے مرتبے میں بڑا ہو گا کیونکہ اس پرعبادت و ریاضت کے علاوہ خانگی اور عائلی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہو گا جبکہ میں نے شادی نہیں کی۔ دوسری جانب شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور وہ جب مزار بایزید سے واپس لوٹتے تو الٹے پاوں واپس آتے۔

سومنات کے حملے سے پہلے سلطان شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور آپ سے دعا کی درخواست کی۔ دوران گفتگو سلطان نے سوال کیا کہ اگر صحابیت کا درجہ نبی ختمی المرتبت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صرف ظاہری آنکھوں سے ہی دیکھنے سے مل سکتا ہے تو اس دور کے سب لوگ اصحاب کیوں نہ ٹھہرے۔ شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان کو جھڑک دیا اور کہا کہ ادب کے دائرہ میں رہو اورصحابی وہی کہلائےگا جس نے ایمان کی حالت میں ظاہری آنکھوں سے نبی ختمی المرتبت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دیدار کیا ہو۔اسکے بعد آپ نے سلطان کیلیے دعا فرمائی اور اسے اپنا خرقہ عطا فرمایا اور اور ارشاد فرمایا جو دعا اس خرقے کو ہاتھ میں لے کر مانگو گے منظور ہو گی۔

سومنات کی جنگ میں جے پال نے ہندوستان کے تمام راجاوں کی مدد سے بے پناہ فوج اکٹھی کر لی تھی اور یہ سلطان کی فوج سے پانچ گنا بڑی تھی۔ جب مسلمان فوج نے کفار کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھا تو فطری طور پر انکے حوصلے ماند پڑگئے جب سلطان نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ خرقہ مبارک سر پر ڈال کر خدا کی بارگاہ میں سربسجود ہو گیا اور گڑگڑا کر اپنی فتح کی دعا مانگی۔ چنانچہ گھمسان کا رن پڑا جو کفار کی شکست پر منتج ہوا۔ چنانچہ واپسی پر جب سلطان کی دوبارہ حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے سلطان سے فرمایا کہ تو نے میرے خرقے کی بہت کم قیمت لگائ اگر تو ان سب کے مسلمان ہونے کی دعا مانگتا تو یہ بھی قبول ہو جاتی۔

تصویر ابدی

مکمل جہاں کسے ملا تھا جو اسے مل جاتا۔ خواب دیکھنا گناہ تو نہیں تھا لیکن ایسے خواب دیکھے ہی کیوں جائیں جو تعبیر نہ پا سکیں۔ مصوری اسکا جنون تھا وہ ایک تصویر کامل بنانا چاہتا تھا جو مٹائی نہ جا سکے۔ بھلا یہ بھی کوئی خواب تھا اور کیسے ممکن تھا۔ شاید کوئی جادوئی برش یا رنگ یا سحر آفریں مصور ہی اسکے نقوش بنائے تو مٹائے نہ مٹ سکیں۔ وہ جانتا تھا یہ ایک امر محال تھا۔ وہ اس بادشاہ کی طرح مذاق بھی نہیں بننا چاہتا تھا جو ایک غیر مرئی لباس کا خواہش مند تھا۔ چاپلوس درباریوں نے اس کی خوشنودی کیلیے چال چلی۔ تخیلاتی لباس تیار ہو گیا۔ عوام کو لب ساکت رکھنے کا امرکر دیا گیا۔ بادشاہ شان و شوکت سے نکلا۔ عوام غیر مرئی لباس پر فرضی واہ واہ کرنے لگی۔ پھر ایک بچہ بول اٹھا کہ بادشاہ سلامت تو عریاں ہیں۔ بادشاہ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ نادم اپنے محل کو لوٹ گیا۔

نہیں نہیں وہ ایسا انجام نہ چاہتا تھا ۔ وہ حقیقت شناس تھا، جانتا تھا برگزیدہ ہستیوں کی تصاویر وجود میں لائی گئی لیکن ان کو دوام نہ ملا۔۔ باوجود فرمان عالیشان علیہ الصلوۃ والسلام کہ نہ ہٹایا جائے، ابن مریم کی تصویر کو بھی کعبہ مقدس سے ہٹا دیا گیا۔ وہ جو امر ربی سےمٹی کی تصویروں میں جان ڈال دیتے تھے ۔ ان کی تصویر مقدس بنانے کو ہی ممنوع ٹھرا دیا گیا۔

پھر وہ اپنے خواب کا کیا کرے۔ ناممکن کو کیسے ممکن کر دکھائے۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم ایک دن بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک بھیک مانگتی ہوئی بچی پر اسکی نظر پڑی۔ معصوم سی، خوبصورت آنکھیں لیے ہوے، بڑی لجاجت کے ساتھ ہر راہ گیر کے آگے کشکول بڑھاتی۔ وہ دل گرفتہ ہوا اس بات پر کہ ہر کوئی اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس بچی کی آنکھوں میں ہر ایک انکار پر ویرانی سی چھا جاتی۔ اس سے برداشت نہ ہوا اس نے چند نکرئی سکے اسکے کشکول میں ڈال دیے۔ ایک بجلی کی چمک، ایک زندگی کی رمق اس بچی کی آنکھوں میں ظاہر ہوئی۔ ایک عجب سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر سمٹ آئی۔ یہ کیا اسکے خواب کی تعبیر تو نہ تھی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے وہ لمحہ اپنے دل کے کینوس پر اتار دیا۔ اس نے مصور حقیقی کی تصویر پر رنگ بکھیر دیا تھا اپنی ایک چھوٹی سی نیکی سے۔ تصویر اب مکمل ہو چکی تھی۔ اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا تھا۔


عزت سادات کا تقاضہ

چل بُھلیا ! ہُن اوتھے چلیے جتھے سارے انھے

ناں کوئی ساڈی ذات پچھانے ، ناں کوئی سانوں منے

ایک دو صدی پہلے، بابا بھلے شاہ نے یہ فرمایا تھا کیونکہ وہ سید تھے اور لوگوں کی اندھی عقیدت یا زمانے کی بےرخی نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ایسی جگہ چلے جائیں،جہاں لوگ انکے حسب نسب کو نہ جانتے ہوں اور نہ ہی مانتے ہوں۔ لیکن شاید انکی دعا ہمارے حق میں قبول ہو گئی اور ہمیں ایسی جگہ بٹھا دیا گیا، جہاں ہمارے ارد گرد متنوع الاقسام عقیدوں والے لوگ موجود تھے۔مسلمان شاذ ہی تھے چنانچہ ہمیں وہ ادب و آداب نہ ملتا جسکے ہم عادی ہو چکے تھے۔ لیکن ایک روز ایک ہم عقیدہ بھائی سے ملاقات باسعید ہوئی تو انہوں نے استفسار فرمایا کہ اگر جناب سید ہیں تو جھولی میں انگارے رکھ کر دکھائیں تو وہ مان جائیں گے۔ اب نہ تو ہمارے پاس کوئی سید ہونے کی سند تھی اور نہ ہی کشف و کرامات کا دعوی تھا ،لہذا شرمند ہ سے ہو گئے اور ہمارے منہ میں جو دہکتا ہوا انگارہ زبان تھا، اسکو قابو میں رکھ کر عزت سادات بچا لی۔ یہ تو اپنوں کی بات تھی، غیروں نے بھی کبھی کبھار نکتہ اعتراض اٹھا دیا۔ چنانچہ ایک ہندو ڈاکٹر ہمارے نام کےساتھ سید کا لاحقہ دیکھ کر چونکے اور بولے کہ آپ سید ذات ہیں تو کیا اسلام میں بھی ذات پات ہوتی ہے جیسا کہ انکے دھرم میں ہے۔ میں نے مقدور بھر انکو جواب دینے کی کوشش کی کہ اسلام میں ذات پات کی تو کوئی گنجائیش نہیں مگر باہمی تعارف کیلیے خاندان اور قبیلے کا تصور ضرور موجود ہے جس کا حوالہ قرآن مقدس میں موجود ہے۔ لیکن وہ صاحب ہندو مذہب کے بنیادی اصول یعنی ذات پات، اور مسلما نوں میں عمومی برادری نظام یعنی سید، قریشی، ہاشمی، فاروقی، چوہدری،جاٹ،مرزا وغیرہ کو ہم پلہ ہی سمجھ رہے تھے۔لیکن آج میں جو بات کرنے جارہا ہوں، وہ خاندان سادات سے متعلق ہے۔ اگر اسلام میں ذات پات نہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کا احترام کیوں ضروری ہے؟

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو دنیوی اور اخروی کامیاب زندگی بسر کرنے کیلیے ہر پہلو پر راہنمائی کرتا ہے۔اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں ہماری مدد فرماتا ہے جس میں کوئی انسان اپنے آپ کو رنگ،نسل،زبان،قومیت اور دولت وسرمائے کی بنیاد پر، دوسروں سے اعلا اورارفع نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اسلام میں عزت وشرف کا معیار محض تقوی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالا کے نزدیک معزز وہی ہے جو زیادہ تقوی والا ہے۔

ہندوستان میں قدیم دور سے آریائی معاشرہ ذات پات کے بندھن میں منقسم تھا۔اگرکوی کمتر ذات، یعنی شودر ذات، میں پیدا ہو جاتا تو مرتے دم تک اسکو ایسی ذلتیں برداشت کرنا پڑتی جسکا ازالہ کبھی بھی ممکن نہ تھا اور وہ کبھی بھی رذالت کی لکیر کو پار کرکے اشراف کے دائرے میں شامل نہ ہو پاتا۔دوسری طرف برہمن ذات میں پیدا ہونے والا، پیدایشی معزز ٹھہرتا۔اس ننگے تضاد کی وجہ، آریائی معاشرے کے خود ساختہ قوانین تھے جن کی رو سے برہمن، "دیوتا" کے منہ سے جنم لیتے تھے اور شودر اسکے پاوں سے پیدا ہوتے تھے۔ لیکن اسلام نے مساوات کا درس دے کر جاہلیت کے اس بت کو پاش پاش کر دیا اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ جیسے کالے غلاموں کیلیے بھی ممکن ہو گیا کہ لوگ انکے ایمان وتقوی کی بدولت انکو سیدنا کہہ کر پکاریں۔

میری اس تمہید کا مقصود یہی ہے کہ اسلام کا یہ اصول آج بھی اسی طرح کارفرما ہے اور اسمیں ردوبدل کی قطعن گنجائش نہیں۔ لیکن میں آج چند نکات پر بحث کر رہا ہوں جن سے آپ کا ایمان بنتا ہے اور اس بنیادی شرط یعنی ایمان کے بغیر محض تقوی کا حصول سعی لاحاصل ہے۔ کوئی شخص تقوی کے کتنے ہی بلند مقام کا دعوی رکھے اور حب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں خام ہو تو تو اسکے سارے دعوے باطل ٹھہریں گے۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد ہی حب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی جاننا ہوگا کہ حب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا تقاضہ کرتی ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں اتا ہے کہ جب تک سیدنا عمر نے اپنی ہر خواہش پر، حب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مقدم نہ جانا انکو کامل نہ سمجھا گیا یہاں تک کہ وہ مقصود ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سمجھ گئے۔

حب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک تقاضا انکی عترت اور اہل بیت سے محبت کا اقرار بھی رکھنا ہے۔جیسا کہ مختلف روایات کا مفہوم یوں سامنے آتا ہے کہ" میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،اللہ کی کتاب اور میری عترت" مفسرین کے مطابق عترت سے مراد آل نبی اور پنجتن پاک ہیں یعنی سیدناعلی،سیدتنا فاطمہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ بعض روایات میں آل نبی کو سفینہ نوح سے بھی تشبیہ دی گئی۔ اور مولا علی وجہ اللہ الکریم کی یہ روایت بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اپنی اولاد کوقرآن، اللہ،اللہ کے رسول اور اہل بیت کی محبت سکھلاو۔ اور بعض روایات میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ جس نے حسنین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ اور بھی بےشمار روایات قرآن وحدیث سے بیان کی جا سکتی ہیں۔

اس محبت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ جو فرد بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عترت میں سے ہو گا، انکا احترام بھی قیامت تک، امت پر واجب ہو گا۔ کیونکہ مفہوم حدیث رسول خدا ہے کہ روز قیامت میری عترت اور قرآن اکٹھے ہو کر آئیں گے۔

اس ضمن میں چند واقعات ، جو رحلت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدیوں بعد، آل نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رونما ہوَے اور مشہور کتب تاریخ میں درج ہیں،آپ کو سادات فاطمہ علیہاالسلام کی عظمت کا احساس دلائیں گے۔


گندھا را آرٹ کا نجات دہندہ

یہ قدیم شہر تصاویر سے اٹا پڑا تھا۔ کیونکہ لوگوں کا لفظوں پر اٰعتماد اٹھ چکا تھا۔ الفاظ اپنا اعتبار کھو چکے تھے ان جھوٹھے وعدوں، دعوں اور قسموں کی وجہ سے جو انسان کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی مدعا تصویروں میں بیان ہونے لگا۔ عبادت خانووں میں، طعام خانوں مین،قیام خانوں میں،تجارت میں، غرضیکہ ہر ضرورت کیلیے تصویروں کا ادل بدل ہونے لگا۔ شہر والوں نے اس مقولے کو حرز جان بنا لیا تھا کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے۔

الفاظ احساس محرومی کا شکار ہو گئے۔ وہ تصویرون سے جلنے لگے۔ الفاظ تانے بانے بننے لگے کہ تصویر کا رتبہ کسی طرح کم ہو جائے۔ وہ اپنا دکھ لے کر تصویروں کے بادشاہ کے پاس چل پڑے لیکن وہ گونگا تھا اور سب تصاویر گونگی تھی۔ دوسرے ان کو دیکھ کر اپنی راہ تو پا لیتے تھے۔ ان کو داد و تحسین تو مل جاتی۔ لیکن ایک تشنگی، ایک کمی پھربھی رہتی کا ش وہ بول سکتی لیکن وہ تو خود لفظوں کی محتاج تھی۔ وہ لفظوں کو کیسے سمجھاتی کہ وہ بےقصور ہیں۔ وہ خود بھی دکھی ہیں کیونکہ لوگ انکو دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں اور پھر ان بےچاری تصویروں کو بدنام ہونا پڑتا ہے۔

پھر ایک عجوبہ رونما ہوا۔ الفاظ اور تصاویر دونوں کو کو ایک نجات دہندہ مل گیا کیونکہ شہر کا ایک د د مند اہل زبان، الفاظ اور تصاویر کے اس درد سے آشنا ہو چکا تھا۔ وہ تصاویر کی زبان بن کر سامنے آگیا۔ خاموش اور ساکت تصویروں سے الفاظ کے اب چشمے جاری ہو چکے تھے۔ وہ تصاویر اب بول سکتی تھی۔ الفاظ اور تصاویر کو اپنا نجات دہندہ مل چکا تھا۔


مقام بدلنے کی سزا

اڑن سواری نے زمین کو چھوا تو ایک ہلچل سی مچ گئی- ہر کوئی باہر نکلنے کی تگ و دو میں مصروف تھا لیکن وہ کسی گہری سوچ میں گم اپنی نشست پر ابھی تک براجمان تھا۔ کسی کی کہنی جب اسے زور سے لگی تو وہ ہڑبڑا کر اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور اترنے والوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ لیکن انجانے وسوسوں نے ابھی تک اسکے دماغ کو جھکڑ رکھا تھا۔ اب یہ محض اتفاق تھا کہ عین اس وقت جب وہ بیرونی دروازے کے پاس پہنچا تو ایک تیز بو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔ اس نے بغور دیکھا تو آگے والے مسافر کے بچے نے قے کر دی تھی اور وہ مسافر اسے ایسے دیکھنے لگا جیسے یہ اسی کا قصور تھا۔ وہ دوسرے مسافر کی تیز نظروں کا سامنا نہ کر سکا اور پہلو بچا کر گندگی کو پھلانگتے ہوے دروازے سے باہر نکلا تو یکلخت گرم ہوا کا جھونکا اسکے چہرے سے ٹکرایا- اسے یوں محسوس ہوا کہ شاید جہاز غلطی سے کسی صحرا میں اتر گیا ہے۔ لیکن تپش کے احساس نے اسے خیالات کی دنیا سے باہر نکال کھڑا کیا۔ تھوڑی دیر میں وہ پسینے سے اس قدر شرابور ہو چکا تھا کہ پچھلے بیس سالوں مِیں اسکا اتنا اخراج نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے اپ کو ان سب واقعات کا ذمہ دار سمجھتا تھا کیونکہ اسنے سفر کیلیے یہی موسم چنا تھا۔ حالانکہ وہ یہاں اتنا عرصہ گزار بھی چکا تھا کبھی اسے گرمی اور بو کا احساس نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب وہ سمجھ گیا کہ مقام کی تبدیلی نے اسکے جسم اور احساسات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

پھر وہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہو گیا جو قطار در قطار اپنے بوجھوں کا معاینہ کروا رہے تھے۔ معاینہ کار بڑی مہارت کے ساتھ چہروں اور سامان کا جائزہ لیتے جاتے اور باہر کی طرف روانہ کر دیتے۔ باہر کھڑے لواحقین اپنے اپنے ہم نفسوں کو پہچاننے کیلیے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے چنانچہ سب مسافر اپنے شناساوں کو پہچان کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتے۔ اسے بھی پہچان لیا گیا اور اسکے ہم مشرب و پیالہ اپنے ساتھ باہر لے گئے۔ وہ اپنا بوجھ تھامے ہوےانکے ساتھ چل رہا تھا کہ ایک نامانوس آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی"چاچا جی، سامان مجھے دیجیے"۔ ایک اور جھٹکا اسے محسوس ہوا۔ اسے تو اپنا بوجھ خود اٹھا نا تھا۔ کیا وہ اتنا بوڑھا ہو گیا تھا؟۔

اب سواری منزل کی طرف گامزن تھی۔ اسے محسوس ہوا شاید وہ کسی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ گاڑیاں اسکے آگے پیچھے ہارن دیتے گزر رہی تھی۔بس ایک بھگدڑ سی محسوس ہو رہی تھی۔پھر اسے منزل قریب آتی نظر آئی۔ اب سواری پگڈنڈیوں پر دوڑ رہی تھی۔

اچانک آسمان ابر آلود ہو گیا۔ بجلیاں چمکنے لگی۔ ایک خوشگوار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکی پسینے سے چپکی ہوئی ْقمیص سے ٹکرایا تو ایک فرحت افزا کیفیت اس پر طاری ہو گئی۔ ساتھیوں نے شور مچا دیا" ڈرائیور لالہ گاڑی تیز چلاو" کہیں ہم اپنے بوجھوں کے ساتھ کیچڑ کی دلدل میں نہ پھنس جائیں۔ لیکن وہ سب اس سے پہلے ہی منزل پر اتر چکے تھے۔

مسرت و شادمانی کا سماں تھا۔ بچھڑی روحیں ایک دوسرے سے مل رہی تھی۔ پھر ایک گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ گھر کے اندر گھر کے باہر بس جل تھل تھا۔ وہ بھاگ کر باہر نکلا تو اسے لگا کے شاید باہر سیلاب اگیا ہے۔ شاید یہ منظر اسنے بڑے عرصے بعد دیکھا تھا۔ وہ پھر تذبذب کا شکار ہو گیا۔اسے یہ سب عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بارش رک چکی تھی۔ اب پھر اسے حبس اور گھٹن محسوس ہونے لگی۔

وہ جتنا عرصہ وہاں رہا ایک ذہنی کشمکش کا شکار رہا۔ اسے وہ گلیاں کوچے عجیب سے لگے۔نالیوں اور گوبر کی بو سے اس کا سر پھٹنے لگتا۔ دیواروں کے سائے اور پنکھوں کی ہوا بھی گرمی کو دور نہ کرپاتی۔وہ شاور کے نیچے کھڑا ہو جاتا پانی جسم پر گرتا اور پسینے میں تبدیل ہو جاتا۔ گرمی اور بو سے اسکا برا حال ہو چکا تھا وہ بھاگ کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کرتا۔ ہر کوشش سعی لاحاصل تھی۔ وہ اپنا یہ کرب کسی کو بتا تو سکتا تھا لیکن سب بے بس تھے۔ کوئی کسی کیلیے کچھ نہ کر سکتا تھا۔

صبح ہوتے ہی جالیوں والے دروازے بند کر دیے جاتے تا کہ مکھیاں اندرنہ آسکیں۔ لیکن مکھیوں کے لشکر بلائے ناگہانی کی طرح صحن میں،برآمدے میں اور کمروں میں یورش کر دیتے۔ اسکو ناشتہ کرنے میں مشکل پیش آتی۔ وہ ایک ہاتھ سے مسلسل مکھیاں اڑانے کی کوشش کرتا اور دوسرے ہاتھ سے کھانا کھانے کی کوشش میں لگا رہتا۔ یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تھا لیکن اب وہ اس کرب سے کیوں گزر رہا ہے۔ وہ سوچنے لگتا؛

ناشتہ مکمل ہوتے ہی وہ چھت پر چڑھ جاتا۔ پرندے غول در غول نظر آتے۔ چڑیاں،بلبلیں کوے،لالیاں،فاختائیں اپنی اپنی سریلی بولیوں کے راگ الاپ رہے تھے۔ لیکن اسے چھت پر کووں کا شور کسی بھید سے آشکار کرتا۔ ایک راز جو اسے ابھی تک مضطرب رکھے ہوے تھا۔ وہ سوچتا کیا یہ سب عجیب نہیں ہے۔

وہ کئی دفعہ رکشا پر بیٹھ کرقریب شہر چلا جاتا وہ لوگوں کا اژدہام دیکھ کر دنگ رہ جاتاا۔ ٹوٹی سڑکیں، تعفن پھیلاتی ہوئ ابلتی نالیاں،بے ہنگم ٹریفک،گداگروں کی ٹولیاں اسے پریشان کر کے رکھ دیتی۔ گداگر بچے اور بچیاں مکھیوں کی طرح لوگوں کے ارد گرد جمع ہو جاتے۔ اسے یہ سب عجیب تر لگ رہا تھا۔ وہ بازار اور گھر میں لوگوں کی بھیڑ سے چاہنے کے باوجود نہ بھاگ سکتا تھا۔ حالانکہ وہ خود کبھی اسی ہجوم کا حصہ رہ چکا تھا۔

شام کا اندھیرا ڈھلتے ہی وہ دیکھتا دن کے پنچھی اور انسان اپنی اپنی مساکن میں کہیں چھپ جاتے۔ بازار میں، گلیوں میں سناٹا چھا جاتا۔ اندھیرے کے باسی جاگ پڑتے۔ وہ چمگادڑوں اور مچھروں کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھتا جو اس کے سر کے اوپرمنڈلا رہے ہوتے۔ مارے خوف کے وہ جائے پناہ ڈھونڈتا۔ کبھی وہ بھی ان شاموں کا راہی تھا۔ اب وہ کیوں اتنا سہم گیا تھا؟

پھر وہ ایک شب ہمت جتا کر اپنے ہم نفسوں کے ساتھ چھت پر چڑھ گیا۔ بڑی مدت بعد اسے رات اتنی سیاہ اور تاریک لگی۔ ناگاہ اسکی نطر آسمان پر پڑی۔ حد نگاہ ستارے ہی ستارے جگمگا رہے تھے۔ اس قدر تارے اس نے ایک مدت ہوئی اسکی چشم نہ دیکھ پائی تھی۔ اسکا جی مچل اٹھا کہ مٹھیاں بھر بھر کر انکو اپنے دامن میں سمیٹ لے اور سب لوگوں کو دکھائے جو اپنی مصروف زندگی میں ان نظاروں کو بھلا بیٹھے تھے۔ جن لوگون کو وہ دکھانا چاہتا تھا وہاں تو رات کو بھی اندھیرا نہیں ہوتا تھا وہ اسکی بات کو ایک خواب ہی مانتےتو کیا یہ سب خواب تھا جو وہ دیکھ رہا تھا۔؟

پھر اسے جسم پر کھجلی سی محسوس ہوئی۔ وہ بھول بیٹھا تھا کہ ننگے آسمان تلے بیٹھا ہے۔ مچھر اسکو کاٹ رہے تھے۔ وہ بری طرح اپنے جسم کو کھجانے لگا جس پر سرخ رنگ کے نشان پڑ چکے تھے۔ وہ گھبرا سا گیا کہیں اسے ملیریا نہ ہو جائے۔ وہ جلدی سے نیچے اتر آیا اور اپنے بستر پر دراز ہوگیا۔ وہ کمرے کے اندر تھا مگر ایک انجانا سا خوف اس پر طاری تھا کہ کہیں کوئی چور اچکا دیوار پھلاند کر گھر میں داخل نہ ہو جائے۔ نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یہ اس میں کیسی تبدیلی تھی کہ وہ ایک مانوس ماحول میں اجنبیت اور خوف محسوس کر رہا تھا۔

پھر وہ اگلے دن، اپنے ان پیاروں سے ملنے، جو اب نہ رہے تھے شہر خموشاں میں داخل ہوا۔ وہ یہاں آتا رہا تھا۔ پتہ نہیں اب کیوں وہاں اگی لمبی لمبی گھاس اور ویرانگی دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔ پھر کووں کے شور اور لمبے ہوتے سایوں نے اسکو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ زیادہ دیر اس جگہ نہ رک سکا مبادا وہ اس ماحول کا حصہ نہ بن جائے۔ کسی زمانے میں تو وہ رات کو بھی یہاں سے گزرا تھا نجانے کیوں اب وہ دن کو بھی اس جگہ خوف محسوس کر رہا تھا۔

اس نے اپنی یہ کیفیت ان ہم نفسوں سے بیاں کی جو یہاں کے مکین تھے۔ وہ کہنے لگے ہمیں تو گرمی محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی کہیں سے بو آتی ہے۔ نہ ہی ہمیں رات کو چور اچکوں،چمگادڑوں اور مچھروں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ شاید تم سب کچھ بھول چکے ہو کیونکہ اتنا عرصہ جو بیت گیا ہے کہ تم غیروں کے دیس میں رہ رہے ہو۔ شاید تم ان جیسے ہو گئے ہو لگتا ہے تمہیں مقام بدلنے کی سزا مل رہی ہے۔


آتش فشاں کا فتنہ

ان پہاڑوں کے دامن میں بےشمار بستیاں اباد تھیں۔ لیکن یہ سرسبز بستی ایک وسیع زرخیز وادی میں آباد تھی۔ دوسری بستیوں سے مختلف اسکے ایک طرف دریا بہتا تھا اور جنگلات اور لہلاتے کھیتوں کا وسیع سلسلہ تھا تو دوسری طرف پتھریلے رستوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جو اس پہاڑی سلسلہ پر ختم ہوتا تھا۔ دیکھنے میں یہ بستی واقعی خوبصورت لگتی تھی ہر موسم اس پر جچتا تھا۔ لیکن اس بستی کے اس پار اس پہاڑی سلسلہ کے بیچوں بیچ ایک آتش فشان پہاڑ بھی موجود تھا جس سے ابھی تک لاوا کسی نے ابلتا تو نہیں دیکھا تھا۔لیکن اس کی تپش گاہے بگاہے ہر موسم میں محسوس کی جاسکتی تھی۔اور یہ لوگوں کا ماننا تھا کہ کہ آتش فشاں کے اس پار طاغوتی طاقتوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اگر غور سے دیکھا جاے تو آتش فشاں کے دہانے پر بڑے بڑے پنکھ نصب تھے جب وہ ہلتےتھے تو گرم ہوا کے جھونکے باد سموم کی طرح بستی کی طرف بڑھتے اور لوگوں کے دماغ پھٹنے لگتے اور اعصاب تن جاتے اور لوگ بلا وجہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے لگتا تھا کہ ان میں برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے یا کسی نے ان پر سحر کر دیا ہو۔ یہ صورت حال اکثر دیکھنے میں آتی تھی جب ان گرم ہوا کے جھونکے ماند پڑ جاتے تو لوگوں کا غصہ کم ہوتا تو وہ حیران وپشیمان ہوتے کہ وہ کیوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں لیکن ان کو اسکی کوئی وجہ سمجھ نہ آتی۔

در حقیقت یہ گھناونا کھیل پس پردہ وہ طاغوتی طاقتیں کھیل رہی تھی اور انہوں نے اس بستی سے ہی چند زر پرست لوگوں کو اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔ یہ لالچی لوگ دولت کی ہوس میں ان کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ جب بھی بستی خوشحالی اور امن کے راستے کی طرف گامزن ہوتی یا ہوس پرست لوگوں کی دھن دولت کم پڑتی تو وہ یہ کھیل شروع کر دیتے۔ اس شر پسند ٹولے نے لوگوں کی مذہبی،اخلاقی اور سماجی کمزوریوں کو جان لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ان کمزوریوں کو ایک غیر مرئی طریقے سے آتش فشاں کے ان پنکھوں سے نتھی کر دیا تھا۔ ایسے جیسے واے فاے آلات بڑے بڑے کھمبوں سے اشارے پاتے ہیں۔ چنانچہ اشارہ پاتے ہی طاغوتی طاقتیں ان پنکھوں سے آتش فشاں کو ہوا دیتی رہتی اور اس ہوا سے لوگوں میں اختلافات بڑھتے۔ ایک دوسرے کو نیچا د کھانے میں لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتےبحث مباحثے طول پکڑتے آوازیں اونچی ہوتی پھر برداشت کا عنصر ختم ہو جاتا اور یوں لوگ باہم دست و گریبان ہی رہتے اور یہ سب کچھ تو طاغوتی طاقتوں کے فائدے میں تھا۔ چنانچہ وہ ان ہوا دینے والوں کو سیم و زر اور مراعات و انعامات سے نوازتی اور یہ سب کچھ گہری رازداری سے کیا جاتا۔

بستی والے اس صورت حال سے عاجز آ چکے تھے پھر اچانک ایک دن انہیں وہ لوگ یاد آے جن کو بستی سے دھکے دے کر نکالا گیا تھا۔نکالے جانےلوگ بستی سے نزدیک ایک جنگل میں آباد ہو گے تھے۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بستی والوں کو سمجھاتے تھے کہ باہمی اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کریں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں کہیں طاغوتی ہوا تمہاری طاقت اور اور سلامتی کو تتر بتر نہ کردے۔ لیکن ان بھلے مانسوں کی ایک نہ سنی گئی اور طاغوت کے چیلوں کی ایما پر انہیں بستی سے بارہ پتھر کردیا گیا۔

چنانچہ بستی کے عمائدین جنگل کی طرف روانہ ہوے تا کہ وہ ان دانا لوگوں سے مشورہ کر سکیں۔ داناوں نے مشورہ دیا کہ اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو پہچانیں جو معاملات کو سلجھانے کی بجاے صرف اپنے فائدے کی خاطر اختلافات کو ہوا دیتی ہیں اور تمہارے ہر طرح کے جذبات سے کھیل کرتمہیں لڑواتی ہیں اور طاغوتی طاقتوں کے مقاصد کو پورا کرتی ہیں۔ اہل بستی نے کہا کہ کہ ان شرپسندوں کو قابو کرنا ہماری بساط سے باہر ہے۔ تو دانا لوگوں نے کہا تو پھر آتش فشاں کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرو جو کہ تمہارے ہی نفس کے ساتھ طاغوت نے نتھی کر دیا ہے۔اپنے اندر بردباری پیدا کرو دوسروں کی بات سنو اور اگر پسند نہ آے تو انہیں پیار سے سمجھاو۔دوسروں کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو ہو سکتا ہے وہ تم سے بہتر ہوں۔دوسروں کی تمسخر اور گالی گلوچ سے تذلیل نہ کرو اور اگر تم اچھے خصائل اپناو گے تو تم طاغوت کے آتش فشانی حربوں کے خلاف فصیل پناہ بنانے میں کامیاب ہو جاو گے اور وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بستی کے عمائدین نے عہد کیا کہ وہ ان دانا لوگوں کی ہدایات پر عمل کریں گے ۔ آج بھی اس بستی میں طاغوتی چیلے موجود ہیں لیکن ان کا اہل بستی پر بس نہیں چلتا کیونکہ بستی کے لوگ ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں گو کہ اختلافات اب بھی موجود ہیں لیکن ان کو اچھالنے نہیں دیا جاتا اب طاغوتی آتش فشاں کی باد سموم بھی بے اثر ہو چکی ہے کیونکہ اخلاق عالی کی غیر مرئی فصیل پناہ اس کا رستہ روکے کھڑی ہے اور بستی پھر سے امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔


نظام جہول کے اثرات بد

اگر بچھو کو اپنے گھر میں دیکھ کر مار نہ دیا جائے تو وہ ضرور کسی کو ڈنگ مار دے گا۔ کیونکہ یہی اسکی فطرت ہے اسکو نیک وبد کا احساس نہیں جو اس کے رستے میں آئے گا اس کو کاٹ لے گا۔ ایک رحمدل شخص کےگھر کے بیرونی دروازے پر بھڑوں نے چھتہ لگا دیا تو لوگوں نے اس سے کہا کہ کہ بھئ انہِیں بھگا دو لیکن اس آدمی نے کسی کی نہ سنی چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ ایک دن بھڑوں نے اسے کاٹ کھایا۔ یہی حال انسانوں کا بھی ہے ہم میں بھی نیک اور بد ہر طرح کی خصلتیں موجود ہیں لیکن انسان اور دوسری مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ انسان کی خصلت بد نیک تربیت اور ماحول سے بدلی جا سکتی ہے لیکن جانوروں کی جبلت تبدیل نہیں ہو سکتی گو کہ تربیت کی جا سکتی ہے مگر دھڑکا لگا رہتا ہے۔ لیکن انسان اگر برائی اور بدی کی طرف مائل ہو جائے تو وہ اسفل سافلین کے درجے میں چلا جاتا ہے۔

آجکل معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ لازمن نظام میں اخلاقی تعلیم اور نطم و ضبط کے فقدان کا نتیجہ ہے۔چنانچہ اگر مجرموں اور بدکاروں کو بغیر تربیت اور اصلاح کے چھوڑ دیا جائے تو ایسے ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ جن کو سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ زینب اور سانحہ موٹروے تو ایک نظیر بن کر سامنے آئے ہیں لیکن آئے روز اس نطام جہول میں سینکڑوں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کی کسی کو بھی کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی۔

مہذب معاشروں میں ایسے جرائم اور مجرموں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔سزا کے بعد بھی ان پر کڑی نگرانی مقرر کی جاتی ہے۔اور عوام کو بھی ان مجرموں کی نقل وحرکت کے بارے میں باخبر رکھا جاتا ہے۔کینیڈا میں کارلا ہموکہ نامی ایک عورت ایک جنسی جرم میں گرفتار ہوئی جس میں اس نے اپنی ہی بہن کو اپنے یار سے ریپ کروانے کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔وہ ابھی زندہ ہے اور سزا پانے کے بعد بھی معاشرتی بائیکاٹ کا شکار ہے اور اسکی کسی بھی نقل و حرکت سے عوام کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔

سزا کے ساتھ اصلاح کا پہلو نہ ہو تو سزا بیکار ہے۔ لہذا ان محرکات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جو کسی کو مجرم بنا دیتے ہیں۔ محض سزا لوگوں میں عبرت اور خوف تو پیدا کر دیتی ہے لیکن اصلاح محرکات واحوال کے بغیر عادی مجرم اور اناڑی پھر جرم کی اس بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ْقحط پڑا تو لوگوں نے بھوک مٹانے کیلیے چوریاں شروع کر دیں تو محرکات کا پتہ چلنے پر آپ نے چوری کی سزا مٰعطل کر دی کیونکہ لوگ مجبورن خوراک کیلیے چوری کر رہے تھے اور خود امیر المومنین نے بھی جب تک قحط ختم نہ ہوا اپنی خوراک بھی ایک دو نوالہ تک محدود کر دی تا کہ عوام کی تکلیف کا احساس باقی رہے۔

سوچ بدلے بغیر کوئی نطام بدلا نہیں جا سکتا۔ حکم ربی بھی یہی ہے کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی نہیں بدلتے۔ صدیوں پہلے عربوں پر اسلام کا نظام زندگی پیش کیا گیا تو انہون نے بسر وچشم قبول کیا اور اپنے نطام جہول کو ترک کرکے اسلام کو د ل و جان سے اپنایا تو یہ جاہل عرب دنیا کے مختار بن بیٹھے۔ چین کی عظیم قوم میں اپنے آپ کو بدلنے کا خیال آیا تو انہوں نے سوشل ازم کو دل و جان سے اپنایا اور آج وہ سرخ انقلاب کی برکات سمیٹ رہے ہیں۔ مغربی عیسائی اقوام نے سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوری اصولوں کو سینے سے لگایا تو اج ساری دنیا ان کی طرف دیکھتی ہے۔ تو ہم بحیثیت قوم کب تک انگریز آقاوں کے نظام جہول کو سینے سے لپٹائے رکھیں گے اور سنہرے نورانی نظام کو غلافوں میں لپیٹ کر طاقوں کی زینت بنائے رکھیں گے کہ اس سنہری نظام سے روشنی لے کر غیر اقوام نے اپنے دیار چمکا رکھے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنی حالت تبدیل کرنے کیلیےنورانی نطام کی ضرورت ہے یا نظام جہول کی۔میرے دوستو اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے وگرنہ ہم یونہی نظام جہول کی چکی میں پستے رہیں گے۔

امن اور دفاع

امن ایک خوبصورت لفظ ہے جو سب کو پسند ہے مگراس کو حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کیلیے ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ امن کی خواہش بیکار ہے اگر آپ کے پاس مضبوط دفاع نہیں گر چہ آپ آزاد اور خود مختار بھی ہوں۔ اجارہ داری اور توسیع پسندی کے عزائم امن کے دشمن ہیں جو اپنے دفاع سے غافل قوموں اور افراد سے آزادی تک چھین لیتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے یا ریاست کے امن کو دو طرح کے یعنی اندرونی اور بیرونی خطرات در پیش ہوتے ہیں۔

بیرونی خطرات میں طاقتور ہمسایہ ریاستوں کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی خاطر کمزور ریاستوں فتح کرنے یا ہمیشہ ان کو دبا کر رکھنا چاہتی ہیں۔ موجودہ دور میں آپ اسکی مثال امریکہ یا انڈیا کی لے سکتے ہیں۔ انڈیا ہمیشہ اپنی پڑوسی ریاستوں کے امور میں دخل اندازی کرتا رہتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سرحدی تنازعات کو بھی ہوا دیتا رہتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی کمزور ریاستوں کو اپنی آزادی برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ فلسطین،عراق اور لیبیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چنانچہ بیرونی خطرات سے نپٹنے کیلیے ریاست کو اپنے دفاع کو کبھی بھی کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ تاکہ نظر آنے والے اور خفیہ دونوں قسم کے دشمنوں پر رعب قائم رہے۔ عقل وفہم بھی یہی کہتی ہے اور دین متین کا بھی یہی حکم ہے۔

سرحدوں کے دفاع کے ساتھ اندرونی خطرات کو بھی بطریق احسن نپٹنے کی ضرورت در پیش رہتی ہے یہ معاشرے کی اپنے ساتھ لڑائی ہے اسی لیے جھاد نفس کو جھاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انصاف کی فراہمی معاشرے کے توازن کو بگڑنے نہیں دیتی اور اسی وصف کی وجہ سے ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ قانون کی بالادستی بھی لازم ہے جو ریاستیں یا نظام طاقتور کو چھوٹ اور کمزور کو قابل گرفت سمجھتے ہیں وہاں امن تباہ برباد ہو جاتا ہے اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ بنیادی حقوق کی عدم فراہمی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم احساس محرومی پیدا کرتی ہے جو بعض اوقات بغاوت کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔چنانچہ اس صورت حال میں ریاست کو بیک وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔روس کی ٹوٹ پھوٹ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی تقریبا یہی عوامل کارفرما تھے۔

پاکستان کی افواج اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں رہی اور نہ صرف جغرافیائ بلکہ نطریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع کیلیے کئ جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1971،1965،1948 اور کارگل کے محاذ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے، افواج پاکستان نے ملکی سلامتی کو محفوظ بنایا۔ اور آج تک اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں اور دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ آئیے ہم سب مل کر یوم دفاع کو منا کرقوم اور افواج پاکستان کے ان بہادر سپوتوں کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے شہادت کو گلے لگا کر ریاست پاکستان کو محفوظ بنایا۔

پاکستان زندہ باد

افواج پاکستان پائندہ باد

خصلتیں

ایک بزرگ دریا کے کنارے پر بیٹھے ہوےَ تھے۔انکو پانی میں ایک بچھو نظر آیا جو ڈبکیاں کھا رہا تھا تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اسے باہر نکال دیا لیکن اس دوران وہ ان کے ہاتھ پر ڈنگ مار گیا۔ وہ بچھو دوبارہ پانی میں گر پڑا انہوں نے ہاتھ پر ڈنگ کھا کر پھر اسے بچا لیا تو پاس بیٹھے ہوے لوگوں نے کہا کہ حضرت اسے بار بار کیوں بچاتے ہیں جبکہ وہ ہر دفعہ آپ کو اذیت پہنچاتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ جب وہ اپنی خصلت بد سے باز نہیں آتا تو ہم نیکی کی عادت کیوں چھوڑ دیں۔

بس یہی مومن یا نیکوکار کی نشانی ہوتی ہے وہ اپنے بدخواہ سے بھی حسن سلوک کرتا ہےگر چہ بر روایت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا پھر بھی وہ اپنی رقیق القلبی اور خوے نیک کی بنا پر اپنے بدخواہ سے بھی در گزر کرتے ہوے نیکی روا رکھتا ہے۔

نیکی کر دریا میں ڈال والی کہاوت بھی اس لحاظ سے درست ہے کہ کسی سے نیکی کرنے کے بعد اسے بھول جانا چاہیے کیونکہ اجر دینے والی ذات تو اللہ کی ہے۔اس لیے جس سے نیکی یا احسان کیا جاے اس سے توقع نہیں رکھنی چاہیےاور اس کے شر سے بھی بچ کر رہنا چاہیے۔ بہر حال نیکی یا احسان کر کے جتانا نہیں چاہیے وگرنہ احسان کر کے جتانا ایسی نیکی کو ضائع کر دیتا ہے۔

لیکن اسکے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی نیکی کرتا ہے تو بحیثیت ایک شکر گزار انسان اس احسان کو یاد رکھیں اور بوقت ضرورت آپ بھی دوسروں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکی حکم بھی ہے"ولا تنسوالفضل بینکم۔۔الآخر"۔ کیونکہ شکر گزاری ایک بہت اعلی خوبی ہے جو کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔اور جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔

ہمارا معاشرہ بہت سی اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے۔حسد،بغض،کینہ،غیبت،جھوٹ،ناشکری و احسان فراموشی جیسی رذیل خصلتیں عام ہیں اور ہمارے معاشروں کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ہمیں بحیثیت فرد اور قوم سوچنا ہو گا کہ تعلیم و تربیت کے دوران کس مقام پر کمی رہ جاتی ہے کہ تعلیمی ادروں سے نکلنے کے بعد ہم اچھی عادات اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اچھا وکیل،بیوروکریٹ اور صحافی بننے کیلیے جھوٹ بولنا ضروری ہے۔ جب ہم راشی اور مرتشی کا انجام جانتے ہیں تو کیوں اس فعل سے باز نہیں آتے۔کب تک ہم بنانے اور لگانے والی سوچ کو بڑھاوا دیتے رہیں گے۔ ملاوٹ،ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کو معیشت کے زریں اصول سمجھتے رہیں گے۔ کیا ہم واقعی اخلاقیات کو اہمیت نہیں دینا چاہتے یا اخلاقی اصولوں کو صرف کتابی یا فلسفیانہ باتیں سمجھتے ہیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔یا خود غرضی اور بے حسی نے ہمیں اخلاقیات سے عاری قوم بنا دیا ہے

گورنمنٹ ہائی سکول دینہ۔۔۔۔چند یادیں

یہ جینا بھی کوئی جینا ہے

جہلم سے آگے دینہ ہے

یہ مزاحیہ خراج تحسین غالبا ایک موقر روزنامے کے مشہور کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے دینہ شہر کو پیش کیا تھا جب انکی ملاقات جرمنی میں دینہ کے ایک نابغے سے ہوئ تھی۔ آج دینہ کا تذکرہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ایک مدت تک ہمیں ہر کاروبار زیست کیلیے اس شہر تک یا اس شہر سے لازمی گزرنا پڑتا تھا۔ سب سے بڑھ کر اسی شہر میں ہمارا دوسرا مادر علمی یعنی گورنمنٹ ہائی سکول دینہ بھی تھا۔

آٹھویں جماعت میں کامیابی کے بعد ہمارا داخلہ گورنمنٹ ہائی سکول دینہ میں ہوا تھا۔ چونکہ ہماری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے باقاعدہ طور پر گاوں سے باہر قدم رکھا تھا۔اسکے لیے ہمیں گھر والوں نے ایک عدد سائیکل بھی خرید کر دی جس پر ہم بیٹھ کر دینہ حصول علم کیلیے جایا کرتے تھے۔ گاوں سے اور طلباء بھی اس سکول جاتے تھے جن میں میرا بھائی داود شاہ اور کزنز،حسن شاہ خالد شاہ،عمر شاہ اور دوسرے دوست بابر،علی اسد،سرفراز بھی تھے۔

اب اس سفر میں ہمارے دوستوں کے کارواں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا گو کہ مڈل سکول کے کچھ ہم سبق جدا بھی ہوے۔ اب ہمارے دوستوں میں کچھ شہری دوست بھی شامل تھے۔ان میں مرزا خالد مرحوم، مرزا عرفان ،میاں محمود، میاں مبشر،امجد،میاں قیصر،اعجاز،وسیم پال،الیاس، حیدر نقوی اور سلیم وغیرہ تھے۔ میرے قریبی دوستوں میں سے جو میری طرح دوسرے دیہاتوں سے آئے تھے ان میں سے چوہدری الطاف آف نکی، نعیم کرامت آف ہڈالی ،چوہدری ظفر اسلام مدوکالس سے اور محمد اخلاق ایوب آباد سے تھے۔ ان ہم سبقوں میں کچھ سے تو ابھی بھی رابطہ ہے۔

چوہدری اقبال صاحب ہمارے کلاس انچارج تھے۔آپ کا تعلق ہمارے نزدیکی گاوں مدوکالس سے تھا۔ اس کلاس میں بلحاظ تعلیمی نصاب دو گروپ آرٹس اور سائنس بنے ہوئے تھے۔چونکہ میرا تعلق آرٹس گروپ سے تھا اور اس گروپ کو چوہدری اقبال صاحب انگلش اور ریاضی کا مضمون پڑھاتے تھے۔ محترم یونس شاہ مرحوم ہمارے اردو کے استاد تھے آپ ایک نہایت نفیس اور سلجھی ہوئی شخصیت تھی۔آپکا بیٹا تنویر سکول کا ایک زبردست مقرر تھا۔ محترم عزیزالحق شاہ صاحب ہمیں جنرل سائنس پڑھاتے تھے ۔ آپ ہمارے رشتہ دار اور گاوں سے بھی تھے۔ اسکے علاوہ ہمارے اساتذہ میں محترم قربان حسین مرحوم،جناب ولایت بھٹی صاحب،محترم بشیر صاحب، چوہدری اسلم صاحب بھی تھے۔ اس دور میں ہمارے پرنسپل محترم مرزا عبد القیوم صاحب تھے۔آپ دینہ کے رہائشی تھے اور آپ کے دور میں سکول کا نظم ونسق مثالی تھا۔

یہ سکول نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں مثالی حیثیت رکھتا تھا۔اس وقت تحصیل دینہ میں یہی ایک واحد ہائی سکول تھا۔ اساتذہ نے بچوں میں ایک مقابلے کا رجحان پیدا کررکھا تھا۔ہر طالب علم دوسروں سے آگے نکلنے کی ہر ممکن سعی کرتا نظر آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سکول نہ صرف نصابی سرگرمیوں بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی نہ صرف ضلع بلکہ پوری ڈویژن میں ایک نمایاں مقام کا حامل تھا۔ ہمارے سیشن میں دو طلباء نے آرٹس گروپ میں راولپنڈی بورڈ میں پہلی اور دوسری پوزیشن لگاتار دو سال حاصل کی تھی۔ ان ذہین اور محنتی طلباء کے نام امجد حسین آف ساگری اورمیاں آصف آف دینہ تھے۔ ڈسٹرکٹ لیول کے مقابلوں میں مجھے سکول کی جنرل نالج کی ٹیم میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہَے۔ اس ٹیم سے حیدر نقوی نے انفرادی مقابلے میں ضلع بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔نقوی کا تعلق سید حسین سے تھا۔ سکول میں ایتھلیٹکس اور سپورٹس کی ٹیمیں بھی موجود تھی۔

دو سال دینہ میں اتنی جلدی سے گذرے کہ پتہ ہی نہ چلا اور ہم نے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کر کے گورنمنٹ انٹر کالج جہلم میں داخلہ لے لیا اور یہ ہماری زندگی کا تیسرا سنگ میل تھا۔

جشن آزادی مبارک۔ دیار غیر سے مکتوب

ٹیپو سلطان نے مملکت خدادا کی بنیاد رکھی تھی اور پھر اسکے دفاع اور آزادی کو برقرار رکھنے میں اپنی جان عزیز کا نذرانہ بھی پیش کر دیا تھا۔ اسکے بعد بھی مسلمانوں نے حصول آزادی کا یہ سلسلہ جاری رکھا اور برصغیر کے مختلف حصوں میں آزادی کی تحریکیں اٹھتی رہیں۔ انہی تحریکوں میں سے ایک حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی تحریک بھی تھی۔ وہ ایک علاقے میں اپنا اسلامی حکومت کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد انگریز فوج جب انکو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی تو ایک ننگ دھڑنگ مجذوب انکے رستے میں آگیا اور اس نے پکار کر حاجی صاحب کو کہا کہ تیرا اسلامی ریاست کا خواب آج سے ٹھیک ایک صدی بعد پورا ہو کر ضرور سامنے آئے گا۔ اس مجذوب کی پیشین گوئی ٹھیک نوے سال بعد ایک اسلامی مملکت کی صورت میں دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آچکی تھی۔ یہ اسلامی ریاست مملکت خدادا پاکستان تھی جو چودہ اگست 1947 کو قائم ہوئی تھی جس کا آج ہم ہم سب جشن منا رہے ہیں۔

میرے دوستو یہ آزادی ہمیں یونہی نہیں مل گئی تھی۔ہمارے پرکھوں نے اس حصول آزادی کیلیے بے پناہ قربانیاں دی تھی۔ہزاروں لاکھوں نے اس مقصد عظیم کیلیے اپنی جانوں اور عصمتوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ تاریخ عالم نے سب سے بڑی ہجرت دیکھی جب لاکھوں کروڑوں لوگوں اپنا تن من دھن واری کر کے اپنی اس نئی سوھنی دھرتی کو آباد کرنے کیلیے ہندوستان کو لات مار کے پاکستان میں آ بسے۔ آئیے ہم ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ ہمیں آزادی کی نعمت کیسے ملی۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہوَے جب غلامی کے شکنجے نے انکو بےبس اور مفلوک الحال کر دیا تو سر سید احمد خان ایک روشنی کی امید بن کر ابھرے اور انہوں نے مسلمانوں کی عزت نفس کو بحال کرنے میں از حد کوششیں کی۔چنانچہ تحریک علی گڑھ مسمانان ہند کیلیے ایک مشعل راہ ثابت ہوئ۔ لیکن اسکے ساتھ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے علیحدہ رہنے کی ہی نصیحت کی۔

ہندو اپنی مکاری اور چاپلوسی کی وجہ سے انگریزوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے چنانچہ وہ 1885 میں اے او ہیوم کی نگرانی میں ایک سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ بظاہر تو وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انکے مقاصد بدلنے لگے۔ اب پڑھے لکھے مسلمانوں نے بھی آل انڈیا کانگریس میں شمولیت شروع کر دی تھی کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کیلیے ایک سیاسی پلیٹ فارم کا ہونا ضروری ہے۔

انہی مسلمانوں میں کراچی کا ایک نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح بھی تھا جو آل انڈیا کانگریس میں شامل ہو گیا۔ بعض میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ آل انڈیا کانگریس انکے مفادات کے تحفظ کیلیے غیرمعقولی کا برتاو کرتی ہے تو انہوں نے باہمی صلاح مشورے سے 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بیناد رکھ دی۔ پھر بھی کچھ لیڈر ہندو اور مسلمان اتحاد کیلیے کوشاں تھے تا کہ مشترکہ طور پر آزادی کی جدوجہد کی جا سکے۔ ان میں محمد علی جناح پیش پیش تھے چنانچہ ان ہی کی کوششوں سے لکھنو پیکٹ طے پایا۔ اسکے بعد کئی واقعات ہوے۔جنگ عظیم اول، علی برادران کی تحریک خلافت، ترکی خلافت کا خاتمہ،ریشمی رومال کی تحریک، مسلمانوں کی ناکام ہجرت افغانستان، نہرو کی متعصبانہ رپورٹ،قائد اعظم کے چودہ نکات ، گول میز کانفرنسیں اور علامہ اقبال کا خطبہ الہ باد وغیرہ۔

محمد علی جناح گول میز کانفرنس کے بعد سیاست سے دست بردار ہو کر لندن میں رہائش پزیر ہو گئے لیکن پھر علامہ اقبال اور اور دوسرے راہنماوں کے اصرار پر واپس آنے کیلیے رضامند ہو ئے۔1937 کی کانگریسی وزارتوں نے مسمانوں کی آنکھیں صحیح معنوں میں کھول دیں تو انہوں نے محمد علی جناح کی قیادت میں 1940 میں مینار پاکستان لاہور والی جگہ پر ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ اب وہ محمد علی جناح نہیں تھے اب وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔اور مسلمانان ہند کو اپنا قائد اور مقصد دونوں مل چکے تھے۔انکا ماٹو اب ایمان، اتحاد اور تنظیم تھا اور منزل پاکستان تھی۔

انیس سو چھیالیس کے انتحابات نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبہ کی کھل کر عکاسی کی تھی پھر بھی انگریز حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ حکومت سازی کر کے کانگریس بھی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتی تھی۔ چنانچہ ہندو اور انگریزوں نے ساز باز کر کے مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کو منظور تو کر لیا لیکن علاقے کی تقسیم میں بندر بانٹ کا اصول اپنایا۔ لیڈی ماونٹ بیٹن نے گورداس پور کا علاقہ نہرو کے حوالے کروا دیا جو یقینا جنسی رشوت کا ایک سرکاری راز تھا۔ اور اسی رستے سے انڈیا نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دی تھیں۔

اور یوں 14 اگست 1947 کو، مسلمانان ہند کو پاکستان کی صورت میں ایک علیحدہ وطن نعمت خداوندی کے طور پر حاصل ہو گیا۔ قائد اعطم محمد علی جناح اسکے پہلے وفاقی سربراہ تھے۔

پاکستان زندہ باد

اپنے گھر سے پرائے گھر تک

میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد واپسی کا فییصلہ کر لیا تھا اوراب زیادہ دیر اس جگہ نہیں رکنا چاہتا تھا۔ میں پچیس سال پہلے اس ملک میں آیا تھا۔شادی ہوئی اور پھر بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں وقت ایسے گزرا کہ یہ عرصہ پلک جھپکتے ہی گزرگیا۔ گو کہ اس جگہ سے بھی اب انسیت سی ہو گئی تھی،عیش و آرام تھا لیکن جو سکون اور مسرت آبائی قصبے والی زندگی سے حاصل تھی وہ پردیس میں کہاں۔ میں کھلی فضاوں کا عادی تھا اور دوستوں یاروں کے ساتھ جو بے فکری کا وقت گزارا تھا بار بار واپسی کیلیے پکار رہا تھا۔ پھر میری آبائی قصبہ میں کچھ زمین وغیرہ تھی چنانچہ یہی اپنا گھر بھی بنانا چاہتا تھا اوراپنے بچوں کو بھِی اپنا آبائ گھر اور ورثہ دکھانا چاہتا تھا۔چنانچہ اس بار میں نے زیادہ نہیں سوچا اور فورا سیٹیں بک کرا دی اور کل فلائٹ تھی۔

جب میں اپنے پرانے قصبہ میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ ہر طرف مکانات ہی مکانات نظر آے یہاں تک کہ اپنی گلی کو ڈھونڈنے میں بھی دشواری پیش آئی لیکن بھلا ہو اس راہگیر کا جس نے میرے آبائی مکان کی طرف راہنمائی کی۔جب میں نے دروازہ پر دستک دی توایک قریبی عزیز نے دروازہ کھولا۔میری اچانک آمد ان کیلیے حیرت کا باعث تھی لیکن وہ بےحد خوش تھے کہ اتنے سالوں کا بچھڑا بھائ واپس آگیا ہے۔میری آمد کی اطلاع پا کر دیگر عزیز و رشتہ دار اور دوست بھی ملاقات کیلیے آ گئے۔ ایک دو روز بعد میں نے اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور انکے مدد سے رہنے کیلیے ایک عارضی مکان ڈھونڈ لیا۔ کچھ دن دعوتوں کے دور چلے جب ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ تھما تو میں نے قصبہ کے حالات کا جائزہ لینے کا سوچا۔

چنانچہ اگلے روز میں علی الصبح اذا ن کی آواز سن کر اٹھا جو کسی قریبی مسجد کے لاوڈ سپیکر سے آرہی تھی۔ اتنے عرصے بعد اذان کی آواز سنی تو روح سرشار ہو گئی۔میں جلدی سے نماز کیلیے مسجد کی طرف بڑھا۔ نماز سے فارغ ہوکر صبح کی سیر کیلیے روانہ ہوا تا کہ لینڈ سکیپ کا جائزہ لے سکوں۔کوئی جگہ بھی پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ جہاں ہم دوست مل کر کرکٹ وغیرہ کھیلا کرتے تھے وہاں مکانات بن چکے تھے۔ قصبہ کے اس سمت ایک ریلوے لائن ہوتی تھی اسکی جگہ ایک سڑک نظر آرہی تھی۔قصبہ کے چاروں طرف کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے وہ بھی زیادہ تر مکانات اور بغلی سڑکوں کی نذر ہو رہے تھے۔اب کافی وقت ہو چکا تھا تو میں نے سوچا کہ کل مزید جائزہ لوں گا اور اب مجھے یہاں زیست کیلیے کچھ اور بندوبست بھی کرنے تھے۔

یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قصبہ میں کوئی مناسب گراسری سٹور نہیں تھا جہاں سے دودھ،سبزی اور گوشت وغیرہ خریدا جا سکے۔ میرے میزبان نے اس سلسلہ میں میری راہنمائی کی اور ایک قریبی دیہات کے گوالے سے میرا تعارف کرا دیا جو ہر روز میرے گھر دودھ پہنچا دیا کرے گا۔ سبزی فروش تو تقریبا ہر روز ہی گلی میں آواز لگاتے تھے۔ ایک دو چھوٹے کریانہ کے سٹور تھے جہاں سے روز مرہ کی چیزیں مل سکتی تھی لیکن گوشت اور دوسری ضروریا ت کیلیے قریبی شہر جانا پڑتا تھا۔میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ایک چھوٹا سا ْقصبہ ہے جس میں کوئی ریسٹورانٹ نہیں اور نہ ہی یہاں مکڈانلڈ، ٹم ہارٹنز جیسی فاسٹ فوڈ کا تصور تھا چنانچہ اس کیلیے بھی قریبی شہر ہی جانا پڑتا تھا۔ ان سب سہولتوں کی عدم دستیابی نے مجھے بعد میں ایک مشکل فیصلہ لینے پر مجبور کردیا جس پر میرا دل راضی نہیں تھا۔

اگلے روز میں ایک بار پھر جائزہ لینے کیلیے نکلا تو گلیاں سنسان نظر آئیں حالانکہ بیس سال پہلے تو ہر طرف چہل پہل ہوتی تھی۔ میری منزل قریبی سکول تھا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملاقات ہوئ تو میں انہیں بتایا کہ میں بھی اس سکول کا ایک طالب علم تھا تو وہ بڑے خوش ہوے اور کہنے لگے آجکل تو سکول میں بچوں کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ لوگ اب اپنے بچوں کو پرائویٹ سکولز میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔سکول کے پاس ہی پوسٹ آفس تھا تو میں نے وہاں بھی اپنا تعارف کرانا ضروری سمجھا تاکہ اگر کوئی خط وغیرہ میرے پتہ پر آئے تو مجھے وہ پہنچا سکیں۔ تقریبا شام ہو چکی تھی جب میں واپس گھر لوٹا۔

ابھی ہم لوگ ڈنر کر رہے تھے تو بجلی چلی گئی تو ہم نے جنریٹر چلا کر روشنی کا انتظام کیا۔بعض میں پتہ چلا یہ تو روزانہ کی ڈرل ہے۔چونکہ یہ اکثر ہوتا تھا لہذا ہم رات کو ٹی وی نہ دیکھ پاتے ار نہ ہی بچے کمپوٹر وغیرہ کا استعمال کر سکتے تھے۔نتیجتا سب ہی سخت بوریت کا شکار تھے۔ مزید یہ گرمیوں کا موسم تھا جب ہم یہاں آئے تھے تو ایر کنڈیشن بھی لوڈ شیڈنگ کے وقت بند ہو جاتا تھا۔ رات کو سکون کی نیند سونا بھی مشکل ہو گیا۔

ہم نے تقریبا ایک مہینہ اپنے آبائی قصبہ میں گزارا اور میری فیملی سہولتوں کی عدم دستیابی اور کئی دوسرے سماجی رویوں کی وجہ سے سخت نالاں تھی اور یہاں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ میرے لیے یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن دل پر پتھر رکھ کر واپسی کا ٹکٹ کٹوا لیا


چوڑیوں والے مرد

سیف الملوک پہاڑوں،دریاوں،صحراوں، ہرشہر اور ہر بستی میں اپنی دلربا بدیع الجمال کی کھوج میں سر گرداں ہے۔ ناگاہ اس کا گزر ایک بستی سے ہوتا ہے۔اس بستی میں صرف عورتیں ہی عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ان میں ہر عمر کی عورتِیں ہیں۔بچیاں،لڑکیاں،جوان اور بورڑھی لیکن اسے کوئی مرد دکھائی نہیں دیتا۔بستی کی عورتیں اپنے درمیان ایک مرد کو دیکھ کر اسکے گرد اکٹھا ہو جاتی ہیں اور چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ یہ مرد کون ہے۔کہاں سے آیا ہے۔کس نے اسے شہر نساء میں آنے کی اجازت دی ہے۔بات کوتوال شہر تک پہنچ جاتی ہے۔وہ بھی ایک عورت ہوتی ہے وہ اسے گرفتار کرکے حاکم شہر کے پاس لے جاتی ہے۔حاکم شہر اور اسکی مشیر، وزیر سب عورتیں ہیں۔ملکہ سیف الملوک سے اسکا احوال پوچھتی ہے تو وہ بدیع الجمال پری کے متعلق بتاتا ہے۔ ملکہ اسکے حسن اخلاق اور مردانہ وجاہت سے متاثر ہو کر اسکی گرویدہ ہو جاتی ہے۔سیف الملوک ایک دن ملکہ سے پوچھتا ہے یہ کیا راز ہے کہ میں تیرے شہر میں کوئ مرد نہیں دیکھتا اور ہرعمر کی عورتیں بھی نظر آتی ہیں۔ ملکہ اسے بتاتی ہے کہ شہر کے باہر ایک پہاڑ کے دامن میں ایک کراماتی چشمہ ہے جب عورت بالغ ہوتی ہے اور اولاد کی خواشمند ہوتی ہے تو اس میں جا کر غسل کرتی ہے تو حاملہ ہو جاتی ہے اور اسکے ہاں صرف بچی ہی پیدا ہوتی ہے۔ شہر نساء میں ہونے کے باوجود سیف الملوک کو بدیع الجمال کی یاد تڑپاتی ہے تو آگے رونہ ہو جاتا ہے۔

میرا بھی ایک قوم کی بستی سے گزر ہوا جہاں مرد اور عورتیں موجود ہیں۔ لیکن عجب بات دیکھی کہ مردوں نے چوڑیاں پہنی ہوئ ہیں۔ چوڑیاں مختلف رنگوں کی ہیں۔ہر رنگ مختلف خاصیت اور طبیعت کا عکاس ہے لیکن ان سب رنگوں میں بےحسی کا عنصر مشترک ہے۔ ان میں سے ہر ایک کولہو کے بیل کی طرح اپنے اپنے کنوِیں کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے۔ کسان رنگ اپنے کھیتوں میں جتا ہوا ہے وہ نہیں جاننا چاہتا کہ پیداوار میں کیسے اضافہ ہو۔ طبیب رنگ نسخے لکھنے میں مصروف ہے نہیں جاننا چاہتا کہ نت نئی بیماریوں کا کیسے سدباب ہو۔ مذہب رنگ رسومات ادا کر رہا ہے نہں جاننا چاہتا کہ اسے برکات کیوں نہیں حاصل ہوتی۔ استاد رنگ سبق پہ سبق دیے جا رہا ہے نہیں جاننا چاہتا کہ معاشرے پر اسکے اثرات کیوں نہیں مرتب ہو رہے۔ لکھاری رنگ لکھ رہا ہے نہیں جاننا چاہتا اسکی تحریریں اتنی بے جان کیوں ہیں۔

میرے ہاتھ پر چوڑی نہ دیکھ کر سب کو حیرت ہوتی ہے وہ مجھے بستی کے مکھیا کے پاس لے جاتے ہیں۔مکھیا مجھ سے وجہ پوچھتا ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس بستی میں کوئی ہے جو جاننا چاہتا ہے۔میں اسے بتاتا ہوں کہ مجھے بھی چوڑی پہننے میں کوئی اعتراض نہیں میں صرف اپنی پسند کی چوڑی پہننا چاہتا ہوں اور مجھے جستجو اور آزادی کی چوڑی پسند ہے۔چوپال میں شور مچ جاتا ہے کہ یہ کون گستاخ ہے جو آزادی اور جستجو کی چوڑیوں کا خواہشمند ہے اسے بستی سے نکال باہر کرو۔ میں نظرامید سے مکھیا کی طرف دیکھتا ہوں تو میری نظر مکھیا کی کلائی کی طرف پڑتی ہے تو اس پر بے بسی کی چوڑی چڑھی ہوتی ہے۔وہ مجھ سے معذرت کرتا ہے کہ میں بے بس ہوں تم یہاں سے چلے جاو۔ میں آج بھی ٹرائے والی ہیلن کے بوڑھے شاعر کی طرح قریہ قریہ بین کرتے پھر رہا ہوں۔


قصور وار کون؟

آج فیس بک پر سرفنگ کرہا تھا تو ایک وڈیو نظر سے گذری جو راجہ محمد عرفان صاحب نے شیئر کی تھی۔راجہ صاحب کو سکول کے زمانےسے جانتا ہوں۔وہ ایک سیلف میڈ آدمی ہے جس نے نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہ ہاری اور آج وہ دبئی میں ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہے۔

اس وڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کہ ایک ہجوم جو ہر عمر کے کے افراد پر مشتمل ہے وہ ایک میدان میں لگے نئے پودوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر پھینک رہے ہیں اور سرکاری عملہ بے بسی کی تصویر بنے کھڑا ہے۔یہ منظر دیکھ کر کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ ہم معاشرتی اور سیاسی طور پر کتنے بالغ نظر ہو چکے ہیں۔ کوئ بھی منصوبہ کتنی بھی اہمیت و افادیت کا حامل ہو اگر وہ ہماری پسند اور ناپسند کے مطابق نہ ہو تو ہم اسے قبول ہی نہیں کرتے اور اگر بس چلے تو اسے ملیا میٹ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ دوسروں کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے اور اپنی جیت اور اقتدار کو دوام دینے کیلیے دوسروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کو بھی تیار ہیں۔

ایک فرانسیسی مفکر کا قول ہے "آج تم نے اپنی قوم کیلیے کیا خدمت سر انجام دی ہے"۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر فرد ہی ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ چنانچہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق کر اجتماعی اور قومی مفاد کو مدنظر رکھنا ہو گا وگرنہ قومی اور اجتماعی ترقی کا راسہ مسدود ہو کر رہ جائے گا۔ میں جس معاشرے کا فرد ہوں وہ ابھی تک معاشرت کے ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ ہم ابھِی تک گروہی،علاقیت،اشرافیہ اور ذات وبرادری کے جال میں الجھے ہوئے ہیں۔تعلیم وتربیت کی کمی نے ہمیں شدت پسند بنا دیا ہے۔تحمل اوربرداشت کی خوبیاں اسی لیے ناپید ہیں۔ملک عزیز کی اکثریت ابھی تک خواندگی کے بنیادی حق سے محروم ہے۔جن بچوں کے ہاتھ میں قلم دوات ہونی چاہیے تھی انکے ہاتھوں مزدوری،محنت مشقت اور تشدد کے اوزار و ہتھیار تھما دیے جاتے ہیں۔

جس طرف نظر پڑتی ہے مفاد پرستی کا کاروبار عروج پر نظر آتا ہے۔تعلیم،صحت یا کسی بھی نظام کی بات کرو ہر طرف منافع خور باس بنے نظر آتے ہیں۔سرکاری سکول ویران نظر آتے یا بہت کم تعداد ہے جو صرف غریب طلباء پر مشتمل نظر آتی ہے۔ یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہے۔ڈاکٹر ڈیوٹیوں سے غائب پائے جاتے ہیں۔غریب لوگ علاج کرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور متوسظ طبقہ پرائیویٹ کلینک سے مہنگے داموں علاج کرانے پر مجبور ہیں۔

جب ان مسائل پر بات کی جائے تو خوشحال طبقے کو ہر طرف ہریالی ہی ہر یالی نظر آتی ہے اور مقتدر طبقہ راوی چین لکھتا ہے کی رپورٹ سے مطمئن نظر آتے ہیں اور اتمام حجت کیلیے جادوئی اعداد و شمار سامنے رکھ دیتے ہیں۔


کھارا پانی

میرا ایم- اے کا رزلٹ آ چکا تھا۔ پاس تو ہو گیا تھا لیکن بمشکل سیکنڈ ڈویژن ہی حاصل کر پایا۔میری ذہنی قابلیت ایک متوسط طالب علم کی سی تھی۔ لیکن اب اس ڈگری اور قابلیت کے ساتھ امید ہو چلی تھی کہ شاید کسی دفتر یا کالج میں نوکری حاصل کر سکوں۔چنانچہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوے ہر قسم کی نوکری کیلیے درخواست دے دی۔چپڑاسی اور کلرک سے لے کر لیکچرار تک کی آسامی کیلیے انٹرویو دیے لیکن کوئی امید بر نہ آئی ایک دن میں نوکری کی تلاش میں اخبار کی ورق گردانی کر رہا تھا تو اچانک ایک ملازمت کے اشتہار پر پڑی جس میں ایک برف والے کارخانے کو چند عارضی ملازم درکار تھے جو انکے مہیا کردہ آئس کرم پارلر لے کر بستی بستی آئس کریم بیچیں۔تنخواہ کے علاوہ بونس وغیرہ کی بھی پیشکش تھی۔ میں تو پہلے ہی بے روزگاری سے تنگ تھا چنانچہ اس پیشکش کو موقعہ غنیمت جان کر درخواست دے دی اور یوں میں اگلے چھ مہینے کیلیے باروزگار افراد کی صف میں شامل ہو گیا۔ میری جاب کل شروع ہونی تھی۔

اگلے ہی روز میں اپنا آئس کریم پارلر لے کر شہر سے قریب تر بستیوں کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ ایک دو بستیوں سے گزر کر مجھے احساس ہوا کہ یا تو یہاں آبادی کم ہے یا لوگ کرونا وبا کی وجہ سے باہر نکلنے سے کتراتے ہیں،اب میری منزل آگے والی بستی سید پور تھی۔ میرے پاس کمپنی کی طرف سے مہیا کردہ روٹ پلان تھا اس میں نا معلوم وجوہات کی بنا پر اس بستی کا نام نہیں تھا۔لیکن میں نے سوچا کہ قسمت آزمائ کرنے میں کیا حرج ہے اور ویسے بھی کمپنی کی لسٹ والی بستیوں میں میری سیل کم ہی ہوئی تھی۔ چنانچہ میں نے سید پور والی روڈ پکڑ لی۔

میں اس بستی میں شمال کی سمت سے داخل ہوا تھا۔ بستی کے اس حصہ میں کافی چہل پہل تھی۔بچے آئس کریم کا پارلر دیکھ کر میرے گرد اکٹھے ہو گئے۔یہاں میرے اچھی خاصی سیل ہو گئی۔ اب میں آئستہ آئستہ بستی کے جنوبی حصے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگانے کیلیے دودھ کا ٹینک چیک کیاجوتقریبا خالی ہو چکا تھا۔اب مجھے ری فل کی ضرورت تھی چنانچہ کریم کو تھوڑا پتلا کرنے کیلیے مجھے پانی کی ضرورت محسوس ہوئ تو میں نے ایک دروازہ کھٹکھٹا کر گھر والوں سے پانی مانگا تو وہ کہنے لگا کہ پانی کڑوا ہے۔ایک دو اور گھروں سے بھی یہی جواب ملا تو میں مایوس ہو گیا۔ کافی وقت ہو چکا تھا چنانچہ سستانے کیلیے ایک ٹاہلی کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔

درخت کی چھاوں میں بیٹھ کر تھوڑا سا سکون ملا تو اب یاد آیا کہ کیوں کمپنی والوں کی لسٹ میں اس بستی کا نام نہیں تھا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ اس بستی کا پانی کھارا ہے۔اتنے میں ایک آدمی میرے پاس سے گزرا تو میں نے اس سے کھارے پانی کی بابت پوچھا تو اس نے کہا کہ تم بستی کے شمالی حصہ کی طرف چلے جاو اور بستی کے مکھیا کے گھر سے پانی حاصل کر سکتے ہو کیونکہ اس نے اپنے گھرمیں واٹر فلٹر پلانٹ لگایا ہوا ہے۔ یا پھر بڑے مینار والی مسجد میں چلے جاو وہاں کراماتی طور پر پانی میٹھا ہے اور بستی کے زیادہ تر لوگ وہیں سے پانی لیتے ہیں۔چونکہ کچھ عرصہ پہلے بھی یہاں سے گزرا تھا اور بڑے مینار والی مسجد کو بند پایا تھا لہذا میں نے بطور احتیاط پوچھ لیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ بند ہو۔وہ مسکرا کر کہنے لگا کہ پانی سب کیلیے ہر وقت دستیاب ہے۔یہ سن کر میری جان میں جان آئی اور میں نے مکھیا کے گھر جانے کی بجائے مسجد کا رستہ اپنانے کو بہتر سمجھا۔ لیکن اس عجیب اور حیران کن صورت حال نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

میں خدا کی ان نشانیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو کلام مقدس میں میٹھے اور کھاری پانی کے بارے میں آئی تھی۔ اور پھر ایک مقام پر تو یہاں تک آیا تھا کہ اگر پانی دور زمین میں چلا جائے تو خدا کے علاوہ کون ہے جو اس کو واپس لا سکتا ہے۔ اچانک مجھے یونیورسٹی کے زمانے کا دوست،منور عباس نقوی مرحوم خدا اسے غریق رحمت کرے، یاد آگیا۔ وہ جھنگ کی شاہ جیونہ رح فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ شاید اس نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ جب ہمارے بزرگ حضرت شاہ جیونہ رح یہاں تشریف لائے تھے تو یہ علاقہ بنجر تھا تو لوگوں نے دعا کی درخواست کی تو آپ رح نے اس حصول مقصد کیلیے ایک کروڑ مرتبہ سورہ مزمل کا ورد کیا تھا۔اسکے بعد وہ علاقہ بنجر نہ رہا۔ میں اب ایک مخمصے کا شکار ہو گیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا یہ گناہوں کی سزا تو نہیں جو اس بستی کے لوگوں کو مل رہی ہے اور یہ پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ بستی کا ایک حصہ میں کڑوا پانی ہو جبکہ دوسرے حصہ میں میٹھا۔

میرا اس ٹھنڈی چھاوں سے اٹھنے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن مجھے اپنا کام مکمل کر کے واپس شہر کو بھی لوٹنا تھا۔ چنانچہ میں اپنا پارلر لے کر بڑے مینار والی مسجد پہنچ گیا۔وہاں لوگوں کی لائن لگی ہوئ تھی اور وہ پانی کے مسئلے کے متعلق باتیں کر رہےتھے۔ کہ صاحب اقتدار لوگ اس مسئلے کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے،کیا وہ مملکت خدادا کے شہری نہیں؟ وہ کیوں واٹر ٹریٹمنٹ کیلیے کوئی ٹیم یہاں نہیں بھیجتے یا میٹھے پانی کیلیے کوئ واٹر فلٹر ٹینک ہی لگوا دیں کیونکہ اگر ساری بستی کا پانی کڑوا ہو گیا تو اس بستی کے باسی کیا کریں گے؟ ۔اتنے میں میری باری آ گئی چنانچہ ری فل کرکے میں اگلی بستی کیطرف روانہ ہوگیا۔


پر اسرار آدمی

اب میری باری تھی۔میں نے بجلی کے اس کھمبے کو پتھر سے تین بار بجانا تھا۔یہ ہمارے اس کھیل کا حصہ تھا جو ہم سکول کے بعد سب لڑکے مل کر کھیلتے تھے۔میں جانتا تھا کہ اس کھمبے میں کرنٹ بھی دوڑتی ہے مگر ہمیں کھیل کے جوش میں اس کی پرواہ ہی کب تھی۔لیکن اصل خوف جو مجھ پہ طاری تھا وہ کھمبے کے ساتھ ایک پرانا سا گھر تھا۔

اس گھر کا دروازہ لکڑی کا بنا تھا جس میں بڑی بڑی درزیں تھی جن سےآسانی سے دیکھا جا سکتا تھا کہ اندر کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس گھر میں جو پراسراریت تھی وہ ہر وقت اس گھر سے دھویں کا اٹھنا تھا۔ گھر کے وسط میں ایک مٹی کا چولھا بنا ہوا تھا اور اس پر ایک برتن چڑھا رہتا اور بعض اوقات پانی کو ابلتے ہوے میں دیکھ بھی سکتا تھا۔اس سے زیادہ دیکھنے کی مجھ میں سکت بھی نہ تھی کیونکہ صحن کے اس پار ایک یا دو کمرے تھے جس سے دو سرخ سرخ آنکھیں دروازے کی طرف دیکھتی ہوتی اور جونہی کھمبے سے ٹن ٹن کی آواز نکلتی تو ایک چراہٹ کے ساتھ اندرونی دروازہ کھلتا اور وہ پراسرار کمر خمیدہ آدمی بڑبڑاتا ہوا کھمبے والے دروازے کی طرف بڑھتا اور میں سرعت کے ساتھ بغیر پیچھے دیکھے اپنے دوستوں کو ڈھونڈنے میں مگن ہو جاتا۔

یہ کمر خمیدہ آدمی کون ہےاور یہاں اکیلے کیوں رہتا ہے اور اسکے گھر سے ہمیشہ دھواں کیوں اٹھتا ہے- اس قسم کے بےشمار سولات ہمارے دماغوں پر سوار رہتے اور ان سب عوامل کی وجہ سے یہ گھر پراسراریت کا ایک معمہ بن گیا تھا۔ ہم رات کو چھت پر چڑھ کر اسکے گھر کی طرف دیکھتے رہتے اور اسکے معمولات کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔

اس کا معمول تھا کہ وہ ہر روز تین بار گھر سے باہر نکلتا تھا۔ صبح یا دوپہر کے وقت وہ کھانے اور رات کو حقے کا چلم اکٹھا کرنے کیلیے دوسرے گھروں میں جاتا تھا۔ گاہے بگاہے وہ ہمارے گھر بھی آتا اور حقے کی آگ اور کھانا لے کر چلا جاتا۔میں نے اسے کبھی کسی سے بات کرتے نہ دیکھا اور جونہی وہ ہمارے گھر آتا تو مارے خوف کے میں اپنے کمرے میں گھس جاتا اور کھڑکی کی درز سے اسے دیکھتا رہتا اور وہ بھی ایک پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتا شاید وہ جان چکا تھا کہ اسکا دروازہ بے وقت کھٹکھٹانے والے بھی یہی رہتے ہیں۔ یہی ہمارا اور اسکا معمول برابر کئی سال تک چلتا رہا۔

اب ہم ذرا سیانے ہو چکے تھے اور ہمیں کئی سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔وہ پر اسراربوڑھااپنی جوانی میں ایک تنومند اور محنتی جوان تھا اور پانی بھرنے کا کام کرتا تھا۔وہ بیک وقت چار مشکیزے اپنی کمر پر لاد لیتا تھا۔پھر بڑھتی عمر اور سخت مشقت اور کسی بیماری کی وجہ سے اسکی کمر خمیدہ ہو گئی تھی۔یہ سب جان کر اب میرے دل میں خوف کی بجائے ہمدردی نے لے لی تھی۔اس نے عمر بھر شادی نہ کی تھی اور غریب ہونے کی وجہ سے اسکے رشتہ دار بھی کبھی کبھار ہی اس کے گھر آتے۔ یہ سب جان کر میرا دل دکھ کر رہ گیا۔اب جب بھی وہ ہمارے گھر آتا تو میں خود اسکو کھانا پیش کرتا اور اب وہ کبھی کبھار مجھ سے بات بھی کر لیتا تھا۔

پھر ایک دن وہ ہمارے گھر نہ آیا تو سب کو فکر دامن گیر ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ ہمیشہ کیلیے اس ظالم اور بے وفا دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ اس دن میں نے اس کے امیر رشتہ داروں کو پہلی دفعہ دیکھا تھا جو دور سے ہی اسکی چارپائی کو دیکھ رہے تھے۔ جب اس دن اسکے کفن دفن کا انتظام ہو رہا تھا تو میں نے بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اسکی اخری ارام گاہ تیار کرنے کیلیے مزدور کی طرح کام کیا تھا۔ حق تعالی بابا مرجا کو غریق رحمت کرے۔آمین


اختلاف طبع اور ہماری انفرادیت

میں ایک لکھاری نہیں ہوں صرف لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔اسلیے آپ کو میری تحریریں شاید کسی حقیقی ادیب سے مختلف نظر آتی ہوں گی۔اسکی وجہ بچپن سے جڑی یادیں اور تجربات ہیں جنہوں نے میری زندگی پر دور رس اثرات چھوڑے ہیں۔لیکن اس مختلف ہونے نے مجھے زندگی میں کئی بار لائن حاضر بھی کر دیا۔آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ آج میں یہ کیسی باتیں کر رہا ہوں۔ لیکن یہ حقیقت ہے جب بھی میں نے کوئی اہم کام اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لیتے ہوے کیا تو جزا و سزا میں سزا ہی ہمارے حصہ میں آئی۔چلیں آپ کو بتا ہی دیتے ہیں۔ غالبا یہ اس دور کی بات ہے جب ہم گاوں کے مڈل سکول میں زیرتعلیم تھےاور چھٹی یا ساتویں کے طالب علم تھے۔ وہاں کا دستور تھا کہ صبح کی اسمبلی میں چار لڑکوں کا ایک گروپ قومی ترانہ گاتا تھا۔ اور یہ گروپ کافی عرصہ سے یہ ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ پھر نجانے ایک دن اسمبلی انچارج نے ایک نیا گروپ بنانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ اس تلاش جوہر میں ہم بھی دنیا کی نظروں میں آ گئے اور ہمیں بھی اس قومی ترانہ گروپ میں شامل کر لیا گیا۔ اس گروپ میں ہم کیسے مختلف تھے آپ کو ابھی پتہ چل جائےگا۔اگلے روز ہماری باری تھی چنانچہ اسمبلی میں ترانہ پیش کیا گیا۔اس وقت ہمارے کان سرخ ہو چکے تھے یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب ہمیں اپنی آواز سنائی نہیں دے گی۔ اور نہ ہی کبھی ہم نے اس پہلو پر غور کیا تھاکہ ہماری آواز ذرا بھاری ہے۔ چنانچہ ترانہ شروع ہوا اور اسمبلی میں تالیوں کی گونج سنائی دی تب ہمیں احساس ہوا کہ ترانہ ختم ہو چکا ہے۔انچارج نے باقی ممبران گروپ کو جانے کی اجازت دے دی لیکن ہمیں روک لیا گیا اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی حکم نازل ہوا کہ ہاتھ آگے بڑھاو اور انعام کے طور پر ایک بینت سے نوازا گیا اور بعض میں وجہ انعام یہ بتائی گئی کہ ہماری آواز باقی لڑکو ں سے مختلف تھی۔اسکے بعد ہم نے ہر قسم کے گروپ سے علیحدہ ہو کر ہی زندگی بسر کی۔ اور نہ ہی آج تک ہم نے کسی سے اور نہ ہی کسی اور نے ہم سے کسی قسم کی آواز ملانے کی کوشش کی۔

ایک اور واقعہ بھی جو ہماری زندگی میں وقوع پذیر ہوا خالی از دلچسپی نہ ہو گا یہ بھی ہماری اس فطری صلاحیت کا غماز ہے جو پہلے آپ سے بیاں کر چکا ہوں۔ آپ نے "اینگری برڈ" والی مووی تو دیکھ رکھی ہو گی۔ اس فلم میں پرندوں کو کوئ قید کرلیتا ہے تو وہ عقاب سے مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔عقاب ایک بلند چوٹی پر رہتا ہے اور اس چوٹی سے کافی نیچے ایک تالاب ہوتا ہے جس میں پانی اسی چوٹی سے آتا ہے جہاں عقاب رہتا ہے۔ سب پرندے اس تالاب کو مقدس سمجھتے ہیں اور یہاں آ کر غسل کرتے ہیں۔ پرندے اینگری برڈ کو عقاب کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں۔جب وہ عقاب کے پاس پہنچتا ہے تو اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی جب اس نے یہ دیکھا کہ عقاب حوائج ضروریہ سے فارغ ہو رہا ہے اور یہ پانی مقدس تالاب میں گر رہا ہے۔ کچھ یہی حال ہمارے پرائمری سکول کے پیچھے چھپڑ کا تھا۔ہم سب بچے وقفے یا تفریح کے وقت اپنی لکڑی کی بنی تختیاں وہاں سے دھوتے۔اس چھپڑ کے اوپری حصے میں سبزی مائل تہہ جس کو ہم بور کہتے تھے چڑھی ہوتی اور جس کو ہم اپنے ننگے ہاتھوں سے ہٹا کر تختیاں دھوتے پھر اسے چاکی مٹی کی ٹکیا سے لیپ کر دیتے اور اس چاکی کی مٹی نے بھی ہماری زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے اس کا تذکرہ ذرا بعد میں کریں گے۔واپس آتے ہیں عقاب والی کہانی کی طرف،چنانچہ جب ہم سن شعور کو پہنچے تو اینگری برڈ کی طرح یہ جان کر ہمارے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ چھپڑ کا پانی کہاں سے آتا تھا۔

یہ جو آپ دیکھتے ہیں جو ہمارے اندر گاوں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ ہے یہ اس چاکی مٹی کی ادنی سی کرامت ہے۔یہ چاکی کی ٹکیا ہماری حصول علم میں نہ صرف معاون تھی بلکہ غذائیت کے حصول کا بھی ایک ذریعہ تھی۔اس شوق زریں کی وجہ بھی ہمارا مختلف الطبع ہونا تھا۔ چنانچہ ہمیں جو جیب خرچ ملتا تو وہ ہم چاکی کے حصول میں صرف کردیتے اور یہ ایک سر نہاں تھا جو ہمارے اور دکاندار کے بیچ تھا۔ کیونکہ ہم بوجہ عوارض میٹھا زیادہ کھانے سے ڈرتے تھے۔لیکن ہماری اڑی اڑی رنگت کی وجہ سے یہ راز ایک دن کھل گیا اور پسی ہوئ سرخ مرچ ہماری زبان پر رکھ دی گئ چنانچہ آج تک ہم پلاو اور بریانی میں مرچیں ذرا کم ہی ڈلواتے ہیں۔

ہم اور مرزا غالب۔ مسلمانی کا تقابلی جائزہ

میں آپ کر ایک شعر سناتا ہوں۔معاف کیجیے گا میں اس کا پہلا مصرعہ بھول گیا ہوں اور دوسرا مصرع یوں ہے۔"اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی" ۔اس نامکمل شعر کوسن کر آپ نے یہ اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ہمیں شعرو شاعری سے کیا واسطہ۔ پھر کہاں مرزاغالب، اقلیم شعر وادب کا آفتاب اور کہاں ہمارے جیسا فقیر بے نوا جو اپنی بات مکمل کرنے کیلیے الفاظ بھی دوسروں سے مستعار لیتا ہو۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے جو میں آپ کو بتانے چلا ہوں۔اور وہ یہ کہ آج کل ہمارے اور مرزا غالب کے حالات میں بہت سی مماثلت ہے۔ مرزا غالب بھی برطانوی تاج کی باجگزار ریاست یعنی انڈیا میں رہتے تھے اور ہم بھی برطانوی تاج کی وفادار ریاست یعنی کینیڈا میں رہتے ہیں۔اس وقت بھی ایک برطانوی تاج ایک ملکہ یعنی ملکہ وکٹوریا کے سر پر تھا۔ اور ہم بھی بحثیت کینیڈین ملکہ برطانیہ یعنی ملکہ الزبتھ کے وفادار ٹھہرے۔انگریز حکومت نے مرزا غالب کی ازادی کو سلب کرلیا اور شاہی دربار کی نوکری سے برخواست کر کے وظیفہ مقرر کر دیا۔ اورادھر حکومت نے کرونا وبا کی وجہ سے ہماری آزادی اجتماع اور نقل و حرکت پرمحدود قدغن لگا دی اور ساتھ ہی کرونا الاونس بھی عطا فرمایا۔

لیکن اب میں جو آپ کو بتانے چلا ہوں وہ ہے غالب اور ہمارے دعوی مسلمانی کی مماثلت- لیکن اس تمام مماثلت میں کہیں کہیں ہماری مسلمانی، آپ کو مرزا غالب سے بھی کم لگے گی۔مرزا غالب نے تو اپنے آپ کو آدھا مسلمان کہا تھا کیونکہ وہ صرف جام ہی چڑھاتے تھے اور لحم خنزیر نوش نہ کرتے۔اس موازنے میں تو ہم مرزا غالب سے جیت گئے کیونکہ ہم ان دونوں خبائث سے بچا لیے گئے لیکن پھر بھی ہم مکمل مسلمانی کا دعوی کر نہیں پائے۔ وہ اسلیے کے مرزا غالب کے دور میں شاید بینک نہ تھے اور انکو سود کے لین دین سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ شاید اس لیے غالب بزعم خود اس کو مسلمانی کی شرائط میں شامل کرنا بھول گئے۔ لیکن آجکل یہ موئے بینک ہمارا کوئی کام انٹرسٹ یعنی سود کے بغیر نہیں کرتے وہ ہر امور بینک پر سود ضرور وصول کرتے ہیں۔ اور ہمیں چارو ناچار ادا کرنا ہی پڑتا ہے اور یوں ہم مرزا غالب کے دعوی مسلمانی کے دائرے میں شامل ہو ہی جاتے ہیں کیونکہ ہم جام اور خنزیر سے تو دور رہتے ہیں۔ لیکن نہ چاہتے بھی ربا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں حالانکہ توبہ کناں بھی ہیں۔

ایک اور امر غیر مشترک بھی ہے جو ہمارے اور مرزا غالب کے مابین ہے۔ مرزا غالب کے دور اور ماحول میں پرہ داری کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔خواتیں بھی گھروں میں صلاۃ وصیام اور آمد و رفت میں پردے کا خیال کرتیں یہاں تک کہ غالب بھی اپنی شریک حیات سے شکوہ کناں نظر آئے کہ گھر ہے کہ عبادت خانہ۔چونکہ ہم جس مغربی ماحول اور دور میں رہتے ہیں اس میں پردے کے نام پر جسم کی ستر پوشی بھی پوری طرح نہیں ہو پاتی چنانچہ اس ضمن میں غالب ہم سے بہترمسلمان نظر آئے کیونکہ ان کو آنکھوں کو خیرہ کرنے والے وہ مواقع نہ ملے جو ہمیں یہاں موسم گرما میں جا بجا نظر اتے ہیں کہ الاماں الاماں۔ لیکن بامر مجبوری، زیست کیلیے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے چنانچہ ہم نے کئی بار عہد کیا کہ مہا بھارت کی مائی کنتی کی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ لیں گے تا کہ کسی بھی نا محرم پر نظر نہ پڑے۔ لیکن حالات و خطرات کو دیکھتے ہوے اس خیال نیک سے باز رہے۔

میرا شاعر- سید ضمیر حسین جعفری مرحوم

ساحر لدھیانوی کے گانے کے یہ بول"میں پل دو پل کا شاعر ہوں" جب میری سماعت سے ٹکراتے تو ایک شاعر کی شخصیت کا سحر مجھ پر طاری ہو جاتا۔اس شاعر کو دیکھنے اور ملنے کی تمنا دل و دماغ پر طاری ہو جاتی تھی۔لیکن میری یہ جستجو ہمیشہ ادھوری ہی رہی اس کوئل کی تلاش کیطرح۔ جب بھی وہ بیری اور شہتوت کے درختوں پر اپنی سریلی آواز میں "کو کو" کرتی۔ تو میں بے ساختہ کبھی اکیلا کبھی دوستوں کی ساتھ اس کی تلاش کو چل پڑتا۔ میں اس کی میٹھی آواز کے سحر میں مبتلا ہو چکا تھا۔وہ کبھی ایک درخت پر بیٹھی ہوتی تو ہمارے پہنچنے سے پہلے پھر سے اڑ کر کہیں اور محو پرواز ہو جاتی۔ہم اسکی کھوج میں سرگرداں ہی رہتے وہ ہمیں اپنی میٹھی آ واز سنا جاتی پر نظر نہ آتی۔ہم میں سے کسی کو اسکی ایک جھلک بھی نظر آ جاتی تو وہ اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب تصور کرتا تھا۔ کچھ یہی حال ہمارا شاعر کی تلاش میں بھی ہوا۔ہم نے بچپن میں سن رکھا تھا کہ ایک بہت بڑے شاعر ہمارے گاوں میں رہتے ہیں۔ان کو دیکھنے کی تمناے شدید بھی ہمارے دل کے کسی کونے دبکی اس شاعر کے شوق دیدار میں بیتاب رہتی۔ انکا گھر شاہ مجید ولی کے احاطے کے اس پار تھا۔ہمارے مدرسے کا رستہ اس گھر کے قریب سے ہی گزرتا تھا تو آتے جاتے ہم کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے کہ شاید ہماری خوش نصیبی جاگ اٹھے اور ہمیں ان کا دیدار مل جائے پرنجانے کیوں اس کوئل کے حصول کی طرح یہ خواہش تشنہ ہی رہی۔ چلیں میں آپ کوصرف اتنا بتائےہی دیتا ہوں ان شاعر کا نام سید ضمیر حسین جعفری ہے۔

وقت پنکھ لگا کر اتنا تیزی سے گزرا کہ ہمیں بچپن سے سن شعور میں داخل ہونے کا پتہ ہی نہ چلا اب ہم کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر ڈگری یافتہ ہو چکے تھے۔ لیکن اس شاعر کی تلاش سے فارغ نہ ہوے تھے۔ایک روز بس یونہی اپنے بزرگوں کی کتابوں کی الماری کو کھنگال رہے تھے تو ایک چھوٹا سا کتابچہ نظر آیا۔اس میں کسی ولی خدا کا تذکرہ زندگی درج تھا۔ اس بزرگ کا نام سید محمد شاہ آف کھنیارہ شریف تھا اور کتاب کے مصنف کا نام ضمیر جعفری تھا۔ یہ میرے لیے چونکا دینے والا انکشاف تھا کیونکہ ہم تو ان کو صرف شاعر سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ میرا انکے ساتھ دوسرا غائبانہ تعارف تھا۔

شاعرکے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط کرنے میں ایک اور شخصیت کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ان کا پورا نام تو مجھے معلوم نہ تھا لیکن وہ منشی سواریا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ ہمارے ایک قریب گاوں سدھ تاجپور علیا کے باسی تھے۔آپ اغلبا کسی سکول میں مدرس تھے اور آپ ضمیر جعفری مرحوم کے بہت بڑے مداح تھے۔مجھے منشی سواریا کی شخصیت میں جو چیز متاثر کرتی تو وہ انکا اونچا شملہ اور انتہائی سرخ داڑھی تھی۔آپ ہمارے گاوں تب ہی تشریف لاتے جب محترم ضمیر جعفری صاحب کی گاوں میں آمد متوقع ہوتی تھی۔ کیونکہ ضمیر جعفری ایک عوامی شخصیت تھے اور میلوں ٹھیلوں میں بھی شرکت فرماتے تھے اس طرح آپ نے اپنے لوگوں کے ساتھ یہ رابطہ ہمیشہ قائم رکھا۔

زندگی میں مجھے آپ سے براہ راست ملاقات کرنے کا موقعہ تو نہ مل سکا کیونکہ آپ ایک بہت بڑی اور مصروف شخصیت تھے۔لیکن آپ کی شاعری اور ٹی وی پروگرام "آپ کا ضمیر" کے ذریٰعے آپ سے رابطہ بنا رہا۔پھر ایک دن پی ٹی وی کے نیوز چینل کے ذریعے پتہ چلا کہ ملک کے معروف شاعرضمیرجعفری کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور بغرض علاج امریکہ اپنے بیٹے کے پاس منتقل ہو گئے ہیں،پھرایک منحوس شام کو خبر ملی کہ آپ اس موذی مرض سے جانبر نہ ہو سکے۔آپکی آخری آرام گاہ گوجر خان،راولپنڈی میں اپنے نانا جان پیر محمد شاہ آف کھنیارہ شریف کے پہلو میں ہے۔

اب میں اس شاعر کو تو شاید کبھی نہ مل سکوں پر اس کی جستجواور شاعری ہمیشہ ساتھ رہے گی۔میں تو کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہوں لیکن سنا ہے کہ حکومت نے ایک سٹیڈیم اور گاوں کے سکول کا نام سید ضمیر جعفری مرحوم کی ادبی خدمات کے صلے میں انکے نام پر کر دیا ہے

بت شکن

آج جی چاہ رہا ہے کہ آپ کو تاریخ کے جھروکے سے ماضی کی سیر کراوں۔مسلمانوں کی تاریخ میں فاتح اور کشور کشا تو بہت گزرے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم تھے جن کو بت شکنی کی سنت مبارکہ نصیب ہوئی ہو۔بت شکنی کی سنت میرے آقا و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے جد اعلی حضرت ابرھیم علیہ السلا م کی ہے۔مسلم ہسٹری میں ایک ایسا بادشاہ بھی گزرا ہے جو بیک وقت ایک فاتح بھی تھا اور بت شکن بھی۔وہ تھا سلطان محمود غزنوی۔ہمارا تعارف اس حکمران خاندان سے اس وقت ہوا جب ہم پرائمری جماعت کے طالب علم تھے اور کسی درسی کتاب میں سلطان سبکتگین جو ،محمود غزنوی کے والد تھے، کی رحمدلی کا واقعہ پڑھا کہ کس طرح ایک ہرنی کی دعا سے ان کو سلطنت ملی۔پھر بڑے ہو کر اس خاندان کی عروج و زوال کی داستان سے بھی آشنا ہوے۔جب ہم آرٹس گروپ میں اپنی گریجویشن مکمل کررہے تھے تو ہم نے گلستان سعدی میں محمود غزنوی کے بارے میں ایک خواب اور اسکی تعبیر کو بھی پڑھا۔اس وقت معبر نے جو کچھ اس شخص کو بتایا اس کو پڑھ کر ہم بہت آزردہ خاطر ہوے۔لیکن حال ہی میں جب افغانستان میں انیس سو ستر کی دہائی میں ظاہر شاہ کے دور میں جب زلزلہ آیا تو سلطان محمود کی قبر مین ایک گہرا شگاف پڑ گیا کہ قبر ننگی ہو گئی تو قبر کو دوبارہ بنانے کا حکومت نے ارادہ کیا۔جب قبر کشائی کی گئ تو نظر آیا کہ اس بت شکن کا جسد خاکی بالکل تروتازہ تھا اور کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔حالانکہ آپ کی وفات کو ایک ہزارسال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ آئیے آپ کو اسکی زندگی کے چند حیرت انگیز واقعات بیان کرتے ہیں جو ہم نے پڑھے اور سنے ہیں۔واقعات میں کوئی جھول نظر آئے تو یہ ہماری یاداشت کی کمزوری اور دروغ بر گردن راوی سمجھ کر درگزر فرمائیےگا۔

محمود غزنوی کا ایک غلام تھا۔ایاز۔وہ وفا شعار تھا اور سلطان کو بہت ہی عزیز تھا۔حاسدوں نے محمود غزنوی کو اسکے خلاف بھڑکایا کہ اسکے پاس کوئی خزانہ ہے جو اس نے اپنے کمرے میں چھپا رکھا ہے چنانچہ تفتیش ہوئ تو ایاز نے وہ خزانے والا صندوق سب کے سامنے رکھ دیا۔جس میں اس نے اپنی غلامی کے دور کا لباس رکھا ہوا تھا۔ پھر اس نے کہا کہ آج جب میں اپنے اوپر لباس فاخرہ دیکھتا ہوں تو تنہائ میں جاکر اس غلامی والے لباس کو بھی دیکھ لیتا ہوں تا کہ تکبر سے دور رہوں۔بادشاہ اس کا جواب سن کر خوش ہوا اور حاسدوں کا منہ کالا ہوا۔

ایک دفعہ سلطان محمود کو کسی نے شکایت کی کہ بادشاہ کا بھانجا فلاں فلاں دن آکر اسکی بیوی سے ناجائز تعلقات استوار کرتا ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے اسلیے اپنی عزت وناموس کا دفاع نہیں کر سکتا۔چنانچہ محمود غزنوی نے اس سے کہا اب کی بار جب وہ تمہارے گھر آئے تو مجھے اطلاع کرنا۔دو تین دن بعد وہ آدمی آیا اور کہا کہ اے بادشاہ تیرا بھانجا میرے گھر موجود ہے۔بادشاہ اکیلا ننگی تلوار لے کر اپنا منہ ڈھانپے فریادی کے ساتھ اس کے گھر روانہ ہو گیا۔تو وہ ظالم وہاں اسکی بیوی کے ساتھ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ محمود غزنوی نے چراغ کو گل کر دیا اور ایک ہی وار میں اس زانی کی گردن اڑا دی۔پھر چراغ کو روشن کر کے لاش کو دیکھا اور خدا کا شکر ادا کر کے پانی طلب کیا۔فریادی بادشاہ کے شکر کرنے اور پانی طلب کرنے پر حیران ہوا تو بادشاہ نے کہا جب سے تیری فریاد پہنچی میں نے کھانے پانی سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔اور شکر اس بات پر ادا کیا تھا کہ یہ بے غیرت میرا بھانجا نہیں تھا۔

محمود غزنوی نے ایک دفعہ خواہش ظاہر کی کہ وہ حضرت خضر سے ملنا چاہتا ہے تو ہے کوئ جو میری یہ خواہش پوری کر دے۔ منادی کرا دی گئ۔ چنانچہ ایک مفلوک الحال شخص دربار میں آیا اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ اسکیلئے مجھے دریا پر ایک طویل مدت کیلیے چلہ کرنا پڑے گا لیکن اس دوران آپ میرے خاندان کی کفالت کا ذمہ لے لیں۔ بادشاہ نے شرط منظور کر لی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تم اپنا وعدہ نہ پورا کرسکے تو تمہاری سزا عبرتناک ہو گی۔ چنانچہ مدت مقررہ کے بعد وہ شخص طلب کیاگیا تو اس نے اقرار کیا کہ اس نے بادشاہ سے جھوٹ بولا تھا۔بادشاہ غضبناک ہو گیا۔اس نے وزراء سے پوچھا کہ اس کو کیسے سزا دی جائے۔ ایک وزیر نے کہا کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا میں ڈال دیا جائے تو دربار میں بیٹھے ایک باریش شخص نے اس کی تائید کی۔پھر دوسرے وزیر نے کہا کہ اسکو شکاری کتوں کے آگے پھینک دیا جائے تو اس باریش آدمی نے اسکی بھی تائید کی۔پھر بادشاہ نے ایاز سے پوچھا تو اسنے کہا، اےبادشاہ اس غریب کو معاف کر دیں۔تو باریش آدمی نے ایاز کی بھی تائید کردی۔ تو بادشاہ نے اس باریش شخص کو کھڑا کر لیا اور اس سے وضاحت طلب کی تو اس نے کہا ،اے بادشاہ پہلے وزیر کا باپ قصاب تھا لہذا اس کا مشورہ اپنے باپ کی خصلت کا غمازی تھا۔دوسرے وزیر کا باپ شکاری تھا لہذا اس کا مشورہ بھی اپنے باپ کی خصلت کا غمازی تھا اور ایاز غلام نے جو مشورہ دیا وہ اسکے خاندانی خصائل کا خاصہ تھا۔کیونکہ تمہارا یہ غلام ایک سید زادہ ہے۔ تو ایاز بول اٹھے کہ اے بادشاہ اب جب اس شخص نے میرا راز فاش کر دیا ہے تو سن یہی آدمی حضرت خضر ہے۔اب جو بادشاہ نے اس آدمی کی طرف دیکھا تو وہ سب کی نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔

چھمکیں

زندگی کا ایک دور تھا جب موسم بہار ہر سال ہمارے لیے آزادی اور نعمتیں ساتھ لے کر نمودار ہوتا۔مدرسے بھی ہماری ان خوشیوں میں شریک ہو کر تعطیلات کا اعلان کر دیتے تھے،بس فراغت ہی فراغت ہوتی اور ہم یار دوست اکٹھے ہو کر خوب دھما چوکڑی مچاتے لیکن اصل مزہ پھلوں کے وہ انمول تحفے تھے جو ہمیں بے مول ملتے- کوئی روک ٹوک نہ تھی اور مرغان چمن کے علاوہ کوئی ساجھے دار نہ ہوتا ۔ان قدرتی پھلوں میں سے مجھے جو پھل زیادہ اچھے لگتے وہ سرخ اور نیم سبز رنگ کے بیر اورتوت شہتوت کا پھل" تھے۔"

شہتوت کا درخت مجھے بہت بھاتا تھا۔ ھم بڑی مہارت سے اس کے اوپر چڑھ کر اس کے بلند اور مضبوط ٹہنوں پر بیٹھ کر اس کا شیریں پھل نوش جان کرتے اور ساتھ ساتھ بلندی سے حد نگاہ گا وں کا خوبصورت نظارہ بھِی کرتے۔اس درخت کی تو بس ہر چیز فائدہ مند تھی۔اس کا پھل اور پتے انسان چرند،پرند سب کیلیے باٰعث کشش تھا۔ اس کی مضبوط لکڑی کلہاڑی کے دستے کیلیے بہت ہی کار آمد تھی۔ لیکن میری اصل توجہ کا مرکز اس کی وہ لچکیلی شاخیں بنتی جن کو دیہاتی زبان میں [پھانٹیں]چھمکیں کہتے تھے۔ کسان کاٹ کاٹ کر ان شاخوں کو گھر لے جاتے اور ان سے ٹوکریاں اور ٹوکرے بناتے۔لیکن جو بات مجھے کھٹکتی تھی وہ ان چھمکوں کا ناجائز استعمال تھا کیونکہ چند اساتذہ کرام بڑی مہارت سے یہ چھمکیں کسانوں سے حاصل کر لیتے اور ان کی مشق آزمائ تعطیلات کے بعد ہم پر کرتے ۔چنانچہ موسم بہار تو جلدی سے گزر جاتا لیکن ان چھمکوں کی صورت میں ہمارے لیے اپنی یادیں چھوڑ جاتا۔ بظاھر یہ چھمکیں ڈنڈے سے زیادہ سخت نہ تھیں پر ان کے اثرات دور رس ہوتے۔ جہاں پر اس کی ضرب لگتی وہاں سلانٹ سی پڑ جاتی اور وہاں سے گرم گرم ٹیسیں اٹھتی اور سلانٹ کے معدوم ہونے کی رفتار کے ساتھ ساتھ ٹیسیں بھی کم ہو کر ختم ہو جاتی تھیں۔ لیکن یہ چھمکیں جماعت کا نظمو ضبط اور کارکردگی بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی۔

اب جبکہ میں عمرعزیز کی پچاس بہاریں دیکھ چکا ہوں۔مجھے ان چھمکوں کی اہمیت کا احساس ہو چلا ہے۔ یہ چھمک جب اقبال ،ٹیگور، برٹرنڈ رسل ،بانو قدسیہ،اشفاق احمد،کارل مارکس جیسے لکھاریوں کے ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کی ضرب سے معاشرے کو ظلم،ناانصافی کا احساس دلا دیتے ہیں

صفائی قلب

بھانڈے کلی کرا لو پراڑیاں نوں نویں بنا لو کی آواز جب میرے کانوں پر پڑتی تو میں سب مصروفیات چھرڑ کر گلی کی طرف بھاگتا۔ باہر نکل کر دیکھتا تو ہمارے گھر کے سامنے والی بیٹھک کے کھلے صحن میں بیری کے درخت کے نیچے وہ اپنا کارخانہ لگا رہے ہوتے۔ کارخانہ کیا تھا بس ایک بھٹی نما چولھا ہوتا جس کے نیچے وہ آگ دہکا دیتے اور پھر اس کو مسلسل پمپ کرتے رہتے تا کہ آگ کی تپش ماند نہ پڑ جائے۔درِیں اثنا محلے کے سب بچے انکے گرد اکٹھے ہو چکے ہوتے تو وہ کاریگر ہم سے کہتے کہ اپنے اپنے گھروں سے پرانے برتن لے آو۔ہم اس ڈرل سے بخوبی واقف تھے۔بھاگم بھاگ اپنے گھروں کو جاتے اور برتن لے کر حاضر خدمت ہو جاتے ۔ ان برتنوں کے پیندے آ گ کی تپش سے سیاہ اور اندرونی حصہ چکنائی کی تہہ در تہہ میل سے بہت ہی بدنما معلوم ہوتے تھے۔۔گو کہ ان کو روزانہ مانجھ مانجھ کر خواتین صاف کرتیں پر وہ سیاہی دور نہ ہوتی۔چنانچہ ان سب کو بھی قلعی والے کاریگروں کا شدت سے انتظار رہتا۔ جب سب برتن اکٹھے ہو جاتے تو کاریگر ان کو ابلتے ہوے پانی کے کڑاہ میں ڈال دیتے جس سے ان پر موجود سیاہی اور چکنائی ختم ہو جاتی۔ پھر وہ ان کو وہاں سے نکال کر گرم ہونے کیلیے بھٹی میں ڈال دیتے۔جب برتن خوب تپ جاتے تو کاریگر اپنے تھیلے سے وہ جادوئی نقرئی ٹکیا نکالتا۔اسی جادو کے نظارے کیلیے تو ہم سب بچے بیتابی کے ساتھ منتظر ہوتے تھے ۔پھر وہ ایک ایک کر کے برتنوں کو پکڑ کر بڑی مہارت کے ساتھ اس طلسماتی ٹکیا کو ان پر ملتے جاتے۔جس جگہ وہ ٹکیا ٹکراتی چاندی کی طرح وہ حصہ چمکنے لگتا یہان تک کہ سارا برتن ہی چاندی کا بن جاتا۔ اور اس کی چمک ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیتی۔پھر یہ تماشا ختم ہو جاتا ہم اب ان چاندی کے ظروف کو اٹھا کر خوشی خوشی گھروں کو لوٹ جاتے۔

میرے دوستو، یہی حال ہمارے قلب باطن کا بھی ہے۔ دن رات اس پر جانے انجانے میں گناہوں کے سیاہ نکتے لگتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ یہ ان برتنوں کی طرح سیاہ اور غلیظ ہو جاتا ہے۔تو پھر اس کا کیا کیا جائے۔یقینا اسکا علاج دل پرلا الہ الا اللہ کی ضرب اور توبہ و استغفار ہے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ میرے آقا و مولا ختمی المرتبت احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خدمت اقدس میں اصحاب با صفا رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے بوئے تھے۔ توآپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ان سے جو فرمایا اس کا مفہوم یوں ہے کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ تو اسکا علاج ذکراللہ سے کرو اور گاہے بگاہے لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہا کرو۔ غور طلب بات یہ ہےجب ہم چاندی کی طرح چمکتے ظروف میں کھانا پسند کرتے ہیں تو کیا رب کریم ہمارے سیاہ غلیظ قلوب پر نظر رحمت فرمانا پسند کرے گا۔ جبکہ بارہا قرآن مقدس میں آیا ہے کہ کامیاب ہوا وہ شخص جو قلب منیب اور قلب سلیم کے ساتھ آیا۔

خیالات کی چکی

کچن میں اکیلا نہیں تھا بلکہ ان دھوئے برتنوں کا ایک ڈھیربھی ساتھ تھا۔ جو مجھے دھونے تھے۔میں نے اپنا کام رب کا نام لے کر شروع کر دیا۔پس منظر میں ریشماں کی مدھر آواز کے ساتھ موسیقی چل رہی تھی۔گانے کے بول سچ سچ بتا وہ کون ہے نے خیالات کی دنیا میں دھکیل دیا۔مجھے یوں لگا کہ خیالات چھوٹے چھوٹے دانوں کا ڈھیڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور دماغ کی چکی میں پسنے کو تیار ہیں۔ زیا دہ تر دانے سفید تھے لیکن چند ایک کنکریوں اور سیاہ دانوں کی آمیزش بھی تھی۔ چکی کے تصور نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا۔ اس وقت کا ذکرھے جب گاوں میں گندم پیسنے کیلیے چکی کا استعمال ہوتا تھا۔ہر گھر میں اس کا ہونا لازم تھا۔گندم پیسنے کا عمل جب شروع ہوتا تو میں بڑی حیرت کے ساتھ دیکھتا۔چکی کے ساتھ اناج کا ڈھیر لگا ہوتا۔ماں جی اناج سے مٹھیاں بھر بھر کر چکی کے اوپری حصے میں ڈال دیتی اور پھر چکی کے ساتھ لگے دستے کو پکڑ کر دائیں سے بائیں گھمانا شروع ھو جاتیں۔گھمانے کے اس عمل سے اناج کے دانے چکی کے دونوں پاٹوں میں رگڑ کھا کر آٹے کی صورت میں چکی سے لگے چھوٹے پرنالے کے ذریعے برتن میں گر جاتے۔ کبھی کبھی چکی سے کریچ کی آواز آتی تو ماں جی بڑبڑاتی کہ اناج کو کو چھج اورچھاننے سے اچھی طرح صاف کیا تھا پھر بھی یہ رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات اناج کو دو بار بھی پیسنا پڑتا۔تا کہ وہ کھانے کے قابل بن سکیں۔پھر جب وہ قدرے تھک جاتی تو ہم سب کو مدد کیلیے پکارتیں۔

کسی مقام پر پڑھا تھا کہ میرے مولا سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنی سوچوں کو پاک رکھا کرو کیونکہ ان ہی سے ایمان بنتا ہے۔ ہماری

سوچ،خیالات بھی اناج کی مانند ہی ہیں۔ ان میں بھی فاسد،ناقص اور صحیح اور غلط ہر قسم کی آمیزش ہو سکتی ہے۔اسلیے اب یہ آپ کا کام ہے کہ اب آپ دماغ کی چکی میں کیا ڈالتے ہیں۔کیا آپ نے آنے والے خیالات کو علم وعقل کی چھاننی میں اچھی طرح چھانا ہے۔ ان میں سے فاسد اور غلط کو صحیح سے علیحدہ کر لیا ہے۔اگر آپ نےایسا نہیں کیا تو آپ معاملات زندگی کے بارے میں غلط نتائج اخذ کر لیں گے۔ نہ صرف آپ اپنی زندگی کو برباد کرِیں گے بلکہ انکی بھی جو آپ کے حلقہ اثر میں ہیں۔ لہذا بعض اوقات آپ ان سے بھی رجوع کر سکتے ہیں جنہوں نے ان معاملات کو اپنے بہترین علم وعمل اور تجربات کی چھاننی میں گزارکر آپ سے بہتر سمجھا ہے۔ چکی سب پیس لیتے ہیں لیکن احتیاط نہ ہو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔

امن کی فاختہ اور خانہ خدا

دریا کے شرقی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے کافی دیر ہو چکی تھی۔اب میں قدرے تھکاوٹ محسوس کرنے لگا تھا اور غروب آفتاب کا وقت بھی قریب تھا۔اسلیے اب میں جلد ازجلد اندھیرا ڈھلنے سے پہلے کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچنا چاہتا تھا۔ ناگاہ میری نظر دور ایک بلند مینار پر پڑی تو میں نے اپنا رخ اس طرف موڑ لیا۔چند ایک کوس چلنے کے بعد آبادی کے آثار نظر آنے لگے۔یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جو کچے پکے گھروں پر مشتمل تھی۔میں جب بستی میں داخل ہوا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی مجھے وہاں کوئی بندہ نظرنہ آیا چند آوارہ کتے نظر آئے جو شاید گندگی کے ڈھیر پر اپنی خوراک ڈھونڈ رہے تھے۔میں چاہ تو رہا تھا کہ کوئی مل جائے اس سے کہہ کر رات کے قیام کا بندوبست ہو جائے۔لیکن اب مجَھے وہ بلند مینار والی مسجد ہی ایک جائے پناہ نظر آئی۔درحقیقت اسی کا مینار ہی تو میرا رھبر بنا تھا۔چنانچہ اب دل کو اطمینان ہوا کہ قیام اور طعام دونوں کا بندوبست ہو جائے گا۔ مسجد کے قریب پہنچا تو اسکے دروازے کے قریب کوئی آدمی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا نظر آیا۔ میں اسے اپنی طرح کا سمجھ کر نظر انداز کر کے مسجد کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا تو ایک بڑا سا تالا ہاتھ میں آ گیا۔ اور جھنجھلاہٹ اور مایوسی میں خود کلامی کرنے لگا کہ خانہ خدا اور وہ بھی ان ایام مقدس میں بند۔ تو یہ سنکر وہ آدمی بول اٹھا کہ کیا جناب کو نظر نہیں آتا؟ میں نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا نہیں جناب میری نظر بلکل ٹھیک ہے۔مسجد پہ تالا پڑا ہوا ہے۔ تو کہنے لگا آپ کو وہ نوٹس نظر نہیں آتا۔میں اس کی بات سن کر بغور دروازے پر چسپاں نوٹس کودیکھنے لگا جو مجھے پہلے اندھیرے کی وجہ سے نظر نہ آ سکا تھا۔ وھاں جلی حروف میں لکھا تھا کہ یہ مسجد ایام مقدسہ میں دس دنوں کیلیے بند ہے۔ خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

میری مایوسی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔یہی تو آخری جائے پناہ نظر آئی تھی اور وہ بھی ملی تو بند۔لیکن میں نےہمت کر کے اس آدمی سے استفسار کیا کہ آخر یہ مسجد بند کیوں ہے۔ تو وہ مجھے جواب دینے کی بجائے داِئیں بائیں دیکھنے لگا تو کہنے لگا اسکا جواب میں آپ کو نہیں دے سکتا۔لیکن جب اس نے میری بےبسی کو دیکھا تو موضوع بدل کر کہنے لگا لگتا ہے جنا ب اس بستی مییں نووارد ہیں وگرنہ آپ کو یہ بات پوچھنے کی نوبت نہ آتی۔بہرحال آپ مجھے مسافر معلوم ہوتے ہیں آپ میرے مہمان بن جائیں۔ اور رات میرے جھونپڑے میں قیام فرما لیں۔ اور میں آپ کے سوال کا جواب بھی دے دوں گا۔میرے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا چنانچہ مجھے رضامند دیکھ کر ہم اس کی گھاس اور پتوں سے بنی جھونپڑی پہنچ گئے۔اس نے اندر داخل ہو کر دیا جلایا جس سے اس غریب کی کٹیا میں ملجگی سی روشنی پھیل گئی۔اندر چند ٹوٹے برتن اور ایک مٹی کا بنا چولھا پڑا ہوا تھا۔ایکطرف میلی کچیلی دری اور ایک سرہانہ پڑے ہوئے تھے۔اس نے مجھ سے کھانے کا پوچھا تو میں نے اس کی خستہ حالی دیکھتے ہوے انکار کر دیا پر اس کا دل رکھنے کیلیے ایک پیالی چائے کی فرمائش کر دی۔ اس نے فورا دیگچی کو دھو کر اسکو چولھے پر چڑھا دیا اور اس میں دو کپ پانی اور تھوڑی سی پتی ڈال کر میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ آپ کے سوال کا جواب نہ دیا۔در حقیقت میں آپ کو مخبر سمجھ رہا تھا جو اس فسوں کار نے پھیلا رکھے ہیں۔ افسوں کار، میرا تجسس اور بڑھ گیا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ دیگچی کی طرف متوجہ ہو گیا جس میں چائے کا پانی ابالیاں کھا رہا تھا اس نے تھوڑا سا دودھ اس میں انڈیلا اور اس کو ایک دو پھینٹے دے کر چائے کی دیگچی نیچے اتار لی۔پھراس نے چائے کو دو مٹی کے پیالوں میں ڈالا اور ایک پیالہ میری طرف بڑھایا اور دوسرا پیالہ اپنے منہ سے لگا کر چسکیاں لینے لگا۔میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا تو اتنی شاندار چائے تو میں نے زندگی میں نہ چکھی تھی۔

اس نے چائے کی ایک اور چسکی لی اور کہنے لگا کہ میں اس مسجد کا مجاور ہوں۔ متولیان مسجد نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ نظر رکھوں کہ مسجد سے کوئی قیمتی اشیاء چرا کر نہ لے جائے کیوںکہ اس بستی میں بہت سے نوجواں لڑکوں کو منشیات کی لت لگ چکی ہے اور وہ اپنا نشہ پورا کرنے کرنے کیلئے خانہ خدا میں چوری کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔میں بیتابی سے اپنے سوالات کا جواب سننا چاہتا تھا۔شاید اس نے یہ محسوس کر کے فورا اپنا روئے سخن میرے سوالات کی طرف پھیر دیا۔ اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اس بستی کی بنا کئی سو سال پہلے میاں وڈا صاحب نے رکھی تھی ان کی اولاد یہاں خوب پھیلی۔ان میں بے حد اتفاق تھا۔بستی کے لوگ زیادہ تر کاشتکار تھے۔بہت ہی خدا پرست اور مذہب سے والہانہ لگاو رکھتے تھے۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔انہی کی اولاد میں سے ایک اللہ کے بندے نے اس بڑے مینار والی مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے بھی اللہ کے اس مقدس گھر کو آباد رکھنے کی حتی الوسع کوشش جاری رکھی۔خاص کر ان کی اولاد میں وہ دو سگے بھائی جن کی روحانیت کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔ اپنے بیگانے سب ان کے گن گاتے۔بس یہی وجہ شہرت بستی کے چند لوگوں کو ایک آنکھ نہ بھائی بس وہ حیلے بہانے سے ان کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔وہ بغض و حسد میں اتنے گر چکے تھے کے وہ تو بس خانہ خدا کو ہی ویران دیکھنا چاہتے تھے۔ مجاور کے منہ سے یہ کلمات سن کرمیرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔کیوںکہ مجھے ہاتھی والوں کا انجام پتا تھا۔ جو زمین پرسب سے پہلے خانہ خدا کو بوجہ حسد ملیامیٹ کرنے چل پڑے تھے۔

مجاور نے میرے بے چینی محسوس کر لی تھی اس نے اپنی گفتگو کو روک لیا اور کہنے لگا لگتا ہے آپ دن بھر کر کے تھکے ماندے ہیں آپ تھوڑی سی استراحت فرما لیں۔ لیکن مارے تجسس کے تھکاوٹ اور نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ میں توبس تھوڑا سا مضطرب ہو گیا تھا۔میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ اپنی گفتگو جاری رکھیں میں بلکل ٹھیک ہوں۔مجاور نے کہا لگتا ہے آپ دریا کے شرقی کنارے کی طرف سے آئے ہیں اس لیے آپ اس فسوں کار کے بڑے بڑے سائن بورڈ نہیں دیکھ سکے۔ میں نے مجاور کی بات سے اتفاق کیا کہ واقعی مجھے وہ بورڈ کہیں نظرنہ آئے تھے۔گوہ کہ میرا ارادہ سفر جاری رکھنے کا تھا لیکن اندھیرا پھیلنے کی وجہ مجھے اس بستی کی طرف آنا پڑا تھا۔

مجاورنے میرے طرف سے مطمئن ہو کر پھر سلسلہ کلام کو جوڑا اور کہا کہ اس بستی سے پرے دریا کے غربی کنارے پر اسی فسوں کار کی بستی ہے ۔ اس نے اپنے اوپر تقدیس کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ وہ بھی ان دونیک طینت بھائیوں کی شہرت سے خائف تھا۔ چنانچہ اس بستی کےوہ حاسد لوگ اس فسوں کار کے پاس سازش کا جال بننے کیلے گئے لیکن وہ بھی ان دونوں بھائیوں کی زندگی میں ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔لیکن پھر بھی اس گروہ نے اپنی سازشیں جاری رکھیں اور ان بزرگ برادران کے قریبی مگر سوتیلے رشتہ داروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔چنانچہ ان دو بزرگوں کی وفات کے بعد انکی اولاد اپنے دشمنوں کے مکروفریب کا مقابلہ نہ کر سکی۔پھر ایک دن انہی ایام مقدسہ میں جب ایک دوسرے سے لڑنا سختی سے منع ہے بستی پر بلوہ ہو گیا۔ سب بلوائی اس فسوں کار کے چیلے تھے۔ کوتوال شہر جو خود اس فسون کار کا چیلہ تھا کی سرپرستی میں اس بستی کے پر امن لوگوں پر بلوہ کیا گیا۔مسجد والے لوگوں پر پتھر پھینکے گئے۔چھریوں ،کلہاڑیوں اور برچھیوں سے بوڑھے افراد کو لہولہان کیا گیا پھر انکے اہل وعیال کو ان بلوائیوں اور کوتوال شہر کے گماشتوں کے رحم وکرم پر چھوڑکر مسجد والوں کو پکڑ پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔

میں نے محسوس کیا کہ مجاور کی آنکھوں میں آنسو سیل رواں کی طرح جاری تھے۔میں خود اتنا مذہبی نہِیں ہوں لیکن بے چارگی کی یہ کتھا سن کر میرا دل خود بھی پگھل گیا۔میری آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔میری آنکھوں کا سامنے تقسیم پاک و ہند کا منظر آ گیا جب مسلمان بلا امتیاز مسلک، ہندو اور سکھ کی تلوار کا نشانہ بنے تھے۔تب امرتا پریتم نے تڑپ کر لکھا تھاکہ لگتا ہے کہ پنجاب ایک بوڑھا آدمی ہے۔ اور اسکے اپنے ہی بچوں نے اسکی داڑھی کو آگ لگا دی ہے۔آج پتہ نہیں کیوں مجھے مجاور کی یہ کتھا سن کر لگا کہ امرتا پریتم اگر اس بستی کی باسی ہوتی تو چلا اٹھتی کہ یہ بستی ایک بوڑھی ماں ہے جس کے سامنے اسکی اولاد نے ایک دوسرے کو لہو لہان کر کے رکھ دیا پر وہ کچھ نہ کر پائی۔مجاور مجھے کسی گہری سوچ میں دیکھ کر خاموش ہو چکا تھا۔اچانک باہر سے کتوں کے بھونکنے آواز آئی تو میں چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تو مجاور نہایت نرمی سے مجھ سے مخاطب ہوا ڈریے مت صاحب رات کے اس سناٹے میں یہاں یہی مخلوق راج کرتی ہے۔

گو کہ مجھے آپنے سوال کا آدھا جواب مل چکا تھا لیکن ابھی تشنہ طلب تھا تو میں نے پھر بے اختیار مجاور کی طرف دیکھا۔اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا بس صاحب سب ختم ہو گیا۔عزت خاک میں مل گئی فسوں کار اور اس کے چیلے جیت گئے۔میں نے حسرت والم سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا وہ کیسے۔کہنے لگا، قاضی شہر نے مسجد والوں کے خلاف غدر کا مقدمہ درج کر لیا اور سخت سزائیں تجویز کرڈالیں اور ساتھ ھی مشورہ دے ڈالا کہ فسوں کار سے معائدہ امن کر لو۔اس بات پرمسجد والوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا لیکن با اثر لوگوں کی دخل اندازی نے مسجد والوں کو صلح پر مجبور کر دیا۔ بس پھر فسوں کار اور اس کے چیلوں نے اپنی ہر شرط منوا لی ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی جو آپ نے مسجد کے داخلی دروازے پر آویزاں دیکھی۔ اب گزشتہ چالیس سال سے ایام مقدسہ میں مسجد بند رہتی ہے جیسا کہ آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔

اب میرا اس گھٹن زدہ ماحول میں دم گھٹنے لگا تھا پھر بھی میں نے ہمت کرکے ایک آخری سوال پوچھ ہی لیا گو کہ وہ بےچارہ غم اور تھکن سے نڈھال ہو چکا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس مملکت خدا داد میں کوئ عبادت گاہ چالیس سال سے بند ہو اور کوئی بھی اس بنیادی حق کیلئے آواز نہ اٹھائے کیا مسجد والوں نے ارباب اختیار سے رجوع نہیں کیا۔ وہ کہنے لگا انہوں نے بہت کوشش کی کہ مسئلے کا کوئ پرامن حل نکل آئے لیکن اس فسوں کار نے مکروفریب کے ایسے لذت آفریں جال بنے ہیں کہ کیا روسائے شہر،کیا حاکم علاقہ اور کماندار سب اسی کا پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

اب جو باہر کی طرف نظر پڑی تو تو صبح صادق کی پو پھٹنے والی تھی اور اب میں زیادہ دیر اس بستی نفور میں نھیں رکنا چاہتا تھا مبادا اس کے کسی باسی کی مجھ پہ نظر پڑ جائے اور میں بھی انکی طرح سنگدل ہو جاوں۔ لہذا میں نے مجاور کی مہمان نوازی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اوربوجھل دل کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔پھر کافی عرصہ سے اس بستی سے میرا گزر نہیں ہوا لیکن سننے میں آیا ہے کہ اب بھی ایام مقدسہ میں فسوں کار کے چیلے مسجد کے داخلی دروازے پر امن کی فاختہ ایک سنتری بادشاہ کی نگرانی میں بٹھا دیتے ہیں۔مبادا مسجد کا دروازہ کھلنے سے وہ اڑ نہ جائے۔

خوف ایک محافظ

خوف فطرت کا ایک خاصہ ہے۔خوف بزدلی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک خفیہ محافظ ہے جو ہر جاندار کو اسی کے ماحول میں منڈلاتے خطرے سے بروقت آگاہ کرتا ہے۔ اور بسا ارقات خوف ہی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔ یہ جوہر ہر خاص و عام میں پایا جاتا ہے۔

انسان جذام،ایڈز اور کرونا کے مریضوں سے دور بھاگتا ہے-آگ کے قریب اور گہرے پانی میں جانے سے کتراتا ہے اور جان لیوا خطرات سے دور بھاگتا ہے۔پرندوں میں شکار ہو جانے کا خوف ہی انکی بقا کا ضامن بنتا ہے۔کوے کی مثال لیجیے ابھی آپ جھکے نہیں وہ پھر سے اڑ جائے گا۔مرغی بلی ،چیل و سانپ وغیرہ کو دیکھتے ہی اپنے بچوں کو پروں میں سمیٹ لے گی اور شور مچائے گی۔

ہرن،خرگوش اور اس قبیل کے دوسرے جانور لومڑی،بھیڑیے اور شیر سے خوف مسلسل کی وجہ سے امان پا جاتے ہیں۔

جب خوف رکھنے میں ہی بھلائ ہے تو خالق حقیقی کا خوف رکھنے میِں انسان کو کیا تردد ہے۔ خوف الہی تو دانشمندی ہے اسی سے نظام معاشرت قائم رہتا ہے۔ اور یہی خوف دار بقا میں فوز عظیم کا سبب بن جائے گا۔

خوف کی وجہ سے خطرات سے آگاہی اور ان کا تدارک ممکن ہے۔لیکن بعض اوقات جاندار خطرات کو محسوس کر کے بھی ان سے نھیں بھاگتے بلکہ وہ کسی عظیم مقصد کی خاطر ان کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے کو بچا لیتے ہیں۔

یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب دوسرے فطری عناصر مثلا محبت اور ایمان خوف پر غالب آ جاتے ہیں۔آپ نے کئ بار ٹی وی اور انٹرنٹ پر حیات جنگلی کے متعلق ویڈیوز دیکھی ہوں گی۔ کہ کیسے ایک ہرنی اپنے بچے کو بچانے کی خاطر شیر اور چیتے کے سامنے ڈٹ جاتی ہیے۔اس موضوع پر سینکڑوں اور مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

یہ فطری خوف تھا کہ جناب موسی بن عمران علیہ السلام نے جب اپنے عصا کو ایک مہیب سانپ بنتے دیکھا تو ڈر کر بھاگ اٹھے لیکن جب ندا ئے خداوند کا مطلب جانا تو بےدریغ سانپ کے منہ میں اپنا ہاتھ دے ڈالا۔جناب ابراہیم علیہ السلام نار نمرود میں کود پڑے اور میرے آقا و مولا محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم، ننگی تلوار لیے خونخوار کافر کے سامنے ،بلا خوف فرماتے ہیں کہ میرا رب بچا لے گا۔ یہ سب طاقت ایمان تھی کہ جس نے خوف کے عنصر کو پرے دھکیل دیا تھا۔ اور پھر یہی محبت اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے خوف پر غالب آ جاتی ہے اور مادر وطن کےسر بکف بہادر سپوت دشمن کے ٹینکوں کے پڑخچے چند پٹاخوں سےاڑا دیتے ہیں۔

تنکے کی خواہش

ایک تنکا جو درخت بننا چاہتا تھا پھر یوں ہوا کہ وقت کے پرندے نے اسے اٹھا کر حالات کے گھونسلے میں پرو دیا۔وہ درخت تو نہ بن سکا پر کسی پنچھی کا آشیانہ بن گیا۔

دخل در معقولات

خیالات کا ایک بے ہنگم ہجوم کسی بڑے شہر کی ٹریفک کی طرح دماغ پر رواں دواں رہتا ہے۔ لیکن اس کے شور سے کانوں کی سماعت متآثر نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک مہذب ملک کی ٹریفک کی مانند بغیر ہارن کے گزر جاتا ہے۔سوچتا ہوں کہ ہارن دو رستہ لو کا اصول ہوتا تو کب کے بہرے ہو جاتے۔یہی حال آجکل برقی سماجی رابطوں کے صفحات کا ہے۔ مثال کے طور پر فیس بک ہی دیکھیے ہر لمحے بعد نہ چاہتے ہوے بھی نئے پیغامات آپ کو موصول ہو جاتے ہیں بلکہ ہر کلک پر ان کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ان پیغامات میں آپ کی دین اور دنیا کی بھلائی کیلیے ہر طرح کے پند و نصائح بمع تحریر و تصویر ہوتے ہیں۔سب بھیجنے والے بزعم خود اپنےآپ کو حکیم، ادیب شاعر، ،دانشور،عالم اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں لیکن آپ محسوس نہ کیجیے گا سب کا مقصد آپ کی بھلائی ہی ہے۔ لیکن یہ برقی صفحات آپ کے دروازے پر بےوقت دستک دے کر اپنا چورن بیچنے والوں سے بہتر ہیں کیونکہ وہ آپ کے آرام اور سماعت دونوں کو متاثر نہیں کرتے

خدا شناسی اور خود شناسی

خدا پرست بہت اور خدا شناس خال خال ہیں۔خدا شناسی خود شناسی سے حاصل ہوتی ہے لیکن مادیت کے اس برقی دور میں ہم خود کو وہ فراغت دے نہیں پاتے جو خود شناسی کیلیے درکار ہے۔نان جویں کی تگ ودو میں ہمارے پاس وہ لمحات چپکے سے گزر جاتے ہیں ۔فرصت کے وہ لمحات جب ہم چاے یا کافی کی چسکیاں لے رہے ہوتے ہیں،بستر پر دراز ہو کر سونے سے پہلے کروٹیں لے رہے ہوتے ہیں یہی وہ وقت ہے جب آپ اپنی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکتے ہیں۔اپنی ہیت،اپنے وجود،مقصد ذات کو کھوج سکتے ہیں لیکن زیادہ تر یہ لمحات بھی جسم مادی کی تسکین میں ہی گزر جاتے ہیں۔

خود فراموشی کا یہ سلسلہ اتنا مستقل ہو جاتا ہے کہ وقت کی بے رحم رفتار ہمارے مادی وجود پر بڑھاپے کا رنگ مل دیتی ہے تو پھر ہم انجانے انجام کے خوف سے مسجد،مندر اور کلیسا میں پناہ ڈھونڈتے ہِیں اور خدا پرستی کی راہ پر گامزن ہو کر شہر خموشاں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔