حضرت شیخ کامل حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ

ابتدائ حالات

آپ حضرت حافظ سید محمد گلاب رحمۃ اللہ علیہ کے چشم وچراغ ہیں۔آپ کی ولادت چک عبدالخالق،جہلم میں ہوئ۔آپ نے اپنی دینی تعلیم اپنے والد ماجد اور دادا حضور شیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں مکمل کی۔آپ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ،حدیث اور فقہ پر بھی دسترس رکھتے تھے۔عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور آپ اپنے بیٹوں کے ساتھ خط وکتابت عربی زبان میں فرماتے تھے جو کہ اس وقت علوم دینیہ کی تکمیل کیلیے لاہور میں قیام پزیر تھے۔

آپ کا کسب معاش کھیتی باڑی تھا۔اس تمام محنت و مشقت کے باوجود آپ کے شب وروز یاد الہی میں گزرتے۔آپ ہی مسجد کے مہتمم اور خطیب تھے۔مزید برآں آپ اپنے مریدین کی روحانی تربیت کا اھتمام بھی فرماتے جو قرب وجوار سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ اپنی اولاد کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ درگاہ شیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ پر آنے والے تمام زائرین اور ارادتمندوں کی ہرممکن د ل جوئ کریں۔

کرامات

محترم ملک یوسف نقشبندی مولف کتاب'شہنشاہ ولایت' رقم طراز ہیں کہ ایک دفعہ ڈھوک منور ضلع جہلم میں ایک وبا پھوٹ پڑی۔گاوں میں ہر روز ایک دو اموات ہونے لگی۔اور خوف کا یہ عالم کہ لوگوں نے گاوں سے باہر خیمے لگا لیے تا کہ بیماری سے بچ سکیں۔کئ طبیبوں اور عاملوں سے رابطہ کیا گیا مگر وبا اور خوف کم نہ ہوا-پھر کسی کے بتانے پر لوگوں کا ایک وفد آستانہ عالیہ سیداں شریف حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دعا کے واسطے حاضر ہوے۔آپ نے انکی بپتا سنکر آپنےاپنےصاحبزادگان سید محمد ولایت رحمۃ اللہ علیہ اور سید محمد غوث رح کوانکے ساتھ روانہ کیا اور تلقین کی کہ سب لوگ اکٹھے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوے گاوں میں داخل ہوں۔انشاء اللہ وبا کا تدارک ہو گا۔چنانچہ جب لوگ صاحبزادہ صاحب کی معیت میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوے داخل ہوے تو گاوں سےنہ نظر آنے والوں کی چیخوں کی آوازِ بلند ہونا شروع ہویں حتی کہ وہ آوازیں مدہم ہو کر ختم ہو گئ۔اس دن کے بعد گاوں میں کوئ وفات نہ ہوئ اور نہ ہی اس وبا سے کوئ بیمار ہوا۔آپ کی یہ کرامت دیکھ کر سارا گاوں آپ کی بیعت ہو گیا اور آج تک ان کی اولاد بھی اسی آستانے سے وابستہ ہے۔

آپ کے بارے میں یہ روایت بھی تواتر کے ساتھ سنی ہے۔ ا س کے راوی مرزا غلام سرور کے والد مرحوم تھے۔جب حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے سید محمد شاہ ولد سید عبدالحق مرحوم طاعون کی وبا سے شہید ہوے تو انکو جامعہ مسجد سے متصل قبرستان میں دفنایا گیا۔چونکہ مرزا سرور کے والد مرحوم کا گھر قبرستان سے قریب تھا۔ تو ایک رات وہاں سے گزرے تو ان کو کلمہ طیبہ کے ذکر بالجہر کی آواز سنائی دی لیکن ذکر کرنے والا دکھائ نہ دیا۔لیکن جب ایسا ماجرا کئ دفعہ ہوا تو انہوں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ آواز حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کے مرحوم پوتے کی قبر سے آ رہی ہے۔تو انہوں نے آپ کو اس امر کی اطلاع کی۔ تو آپ اپنے پوتے کی قبر پر تشریف لائے ارو فاتحہ خوانی کے بعد مرحوم کو صبر اور اخفاِے راز کی تلقین کی۔پھر اس کے بعد ان کی قبر سے آواز نہ آئ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

آپ کا مقام معاصرین کی نظر میں

چک عبد الخالق کے قرب وجوار کے دیہات بشمول سدھ تاجپور علیا،جلوچک،نکودر وغیرہ کے مکین اس زمانے میں زیادہ تر امیر ملت حضرت سید جماعت علی محدث علی پور شریف رحمۃ اللہ علیہ کے ارادتمند تھے۔ ایک موقع پر حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات موضعہ نکودر میں جناب محدث علی پور شریف رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئ تو انہوں نے جناب حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت پذیرائ فرمائ اور اہالیان علاقہ ھذا کو نصیحت کی کہ روحانیت کا ایک دریا تمہارے قریب آستانہ عالیہ سیداں شریف میں موجزن ہے،آپ لوگ وہاں سے فیض سے حاصل کریں علی پور شریف آنے کی ضرورت نہیں۔ اس اعلان ولی خدا کے بعد بےشمار لوگ آستانہ عالیہ سیداں شریف آ کر حافظ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی بیٰعت سے سرفراز ہوے۔

اولاد

آپ کی دو ازواج تھیں۔جن سے آپ کے پانچ بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔

پیر سید محمد ولایت مدفون چک عبدالخالق۔ انکا تذکرہ تفصیل سے آئے گا۔

پیرسید محمد غوث مدفون چک عبدالخالق ۔ان کا ذکر بعد میں آئے گا۔

سید محمد حسین مدفون چک عبدالخالق ۔ان کی نسل جاری ہے۔

سید بھلے شاہ مدفون چک عبد الخالق۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم ان کے بیٹے ہیں۔

سیدعبدالحق مدفون چک عبدالخالق

سید رسول شاہ مدفون چک عبدالخالق ۔ان کی نسل جاری ہے۔زیادہ تر امریکہ میں آباد ہیں۔

وفات

آپ کا وصال 1924 کو ہوا۔آپ کا مزار جامعہ مسجد حنفیہ چک عبدالخالق سے متصل قبرستان میں ہے۔آپ کو اپنے والد ماجد حافظ سید محمد گلاب رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ االلہ سبحانہ و تعالی آپ کی مرقد پر اپنے انوار کی بارش فرمائے۔آمین