ذکر آل سیدنا محمد خا تم النبین صل اللہ علیہ وآلہ و بارک وسلم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم صل علی سیدنا و نبینا محمد و علی آل سیدنا و نبینا محمد و بارک و سلم



ذکرابناء سیدنا و نبینا محمد صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم

نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی تمام اولاد پاک، ماسوا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کے، ام المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا سے ہے۔ مشہورروایات کے مطابق آپ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ جنکا ذکر خیر درج ذیل ہے۔

حضرت قاسم علیہ السلام

آپ، نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی، ام المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے پہلی اولاد ہیں۔ان کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی کنیت ابو القاسم ان ہی کے نام پر ہے۔

حضرت عبداللہ علیہ السلام

انہی کا لقب طیب اور طاہر ہے۔ مکہ معظمہ میں اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوے۔آپ ام المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے ہیں۔ بچپن میں ہی وفات ہو گئ تھی ایک روایت کے مطابق سورہ الکوثر کا نزول انہی کی وفات پر ہوا تا کہ کفار مکہ اور دشمنان اہل بیت کا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام

آپ مدینہ المنورہ میں پیدا ہوے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ام المومنین سیدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم نے آپ کا نام اپنے جد اعلی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے نام پر رکھا۔ آپ کی وفات بچپن میں ہو گئ تھی۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم اپنے اس فرزند کی وفات پر بہت غمزدہ تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے سورۃ الکوثر کا مکرر نزول حضرت ابراھیم علیہ السلام کی وفات پر مدینہ شریف میں ہوا۔

ذکر بنات سیدنا و نبینا محمد صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا

آپ کی پیدائش کے وقت رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔ان کا نکاح سیدہ خدیجۃ الکبری کے سگے بھانجے حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا تھا۔ وہ غزوہ بدر کے بعد مسلمان ہوے تھے۔ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال آٹھ ہجری کو مدینہ شریف میں ہوا۔آپ کی اولاد ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔جن کا نام علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امامہ رضی اللہ تعالی عنہا تھا۔علی بچپنے میں ہی وفات پا گئے تھے۔ جبکہ سیدہ امامہ کا نکاح بسبب وصیت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ، جناب علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا۔ بعد شہادت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کا نکاح ثانی بسب وصیت شیر خدا مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔ جو، حارث عم النبی صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم، کے پوتے تھے۔

سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا

آپ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی دوسری بیٹی ہیں-آپ کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا تھا۔آپ اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ کی تھی۔ آپ کا انتقال سن دو ہجری میں چیچک کے مرض کی وجہ سے ہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک اکیس سال تھی۔ آپ کے ایک ہی بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ جو چھ سال کی صغرسنی میں ہی وفات پا گئے تھے۔

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا

آپ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی تیسری بیٹی ہیں۔ آپ کا نکاح، بعد از وفات سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا تھا۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمان ذوالنورین کہلاتے ہیں۔ آپ کی وفات نوہجری میں ہوی۔آپ کی اولاد نہ تھی۔

سیدہ نساء العالمین فاطمہ علیہالسلام

آپ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح مولا علی شیر خدا سے ہوا-سیدہ خاتون جنت ہیں-آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی شان بہت اونچی ہے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم سے بے شمار بشارتیں ہیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے فضائل اور مناقب بے پناہ ہیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے القاب سیدہ نساء العالمین، خاتون جنت اور زہراء بتول ہیں-ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھ کر کوئ بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کا مشابہ بات چیت میں نہ تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ سے زیادہ پیارا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کو کوئ نہ تھا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات ۳ رمضان المبارک ۱۱ہجری کو ہوئ۔ایک روایت کے مطابق بوقت وصال عمر مبارک تیس سال تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا جنۃ البقیع میں مدفون ہیں- آپ رضی اللہ تعالی عنہا ہی اھل بیت میں سے سب سے پہلے حیات اخروی میں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم سے ملیں۔آپ کی اولاد مبارکہ میں امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ،امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ،سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔آپ کو اپنی باقی بہنوں پر یہ خاص شرف حاصل ہے کہ دنیا میں ان ہی کی ذریت چلی اور انہیں کو آل نبی صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کہا جاتا ہے۔

آپ علیہالسلام کی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا جن سے زید اور رقیہ رضی اللہ تعالی عنہما پیدا ہوے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا نکاح عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا۔ میدان کربلاء میں آپ امام پاک علیہ السلام کے ساتھ تھیں۔شھادت امام عالی مقام علیہ السلام کے بعد آپ نے ہی خاندان نبوت کی نگہبانی فرمائ تھی۔آپ کے فرزند عدی بن عبداللہ بن جعفرطیار رضی اللہ تعالی عنہ میدان کربلاء میں شہید ہوے۔

سبطین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما اور انکی اولاد کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ

آپ علیہ السلام ۳ھجری میں پیدا ہوے۔ ان کی دایہ کا نام سودہ بنت مسرح الکندیہ تھا۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم نے دو مینڈھوں کے ساتھ فرمایا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی کا صدقہ دیا۔آپ علیہ السلام شبیہ رسول صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم تھے۔آپ کے بے شمارفضائل و مناقب ہیں۔آپ سید شباب اھل الجنہ ہیں۔ اور فرمان رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم ہے کہ اے خدا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور جو کوئی ان دونوں سے محبت کرے ان سے بھی تو محبت فرما۔

شھادت مولا علی علیہ السلام کے بعد بار خلافت آپ کے کندھوں پر آ پڑا۔ تو آپنے چھ ماہ تک نہایت استقامت کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا۔لیکن اھل شام آمادہ بغاوت نظر آتے تھے۔ اور ممکن تھا کہ اس باہم چپقلش سے اسلامی سلطنت کمزور ہو جائے۔آپ فطری طور پر رحمدل تھے جس سے دشمن نے ناجاءیزفایدہ اٹھایا اور فتنہ انگیزیاں جاری رکھیں- لیکن آپ علیہ السلام کو اپنے نانا پاک صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کی امت کی آپس کی خونریزی ہرگز پسند نہ تھی تو آپ نے عین فرمان نبی صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کے مطابق باغی گروہ سے صلح فرما کر عنان حکومت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی ۔آپ کی شہادت زہر سے ہوئ جو دشمنان اہل بیت کی کارستانیوں کا نتیجہ تھی۔ملاحظہ فرمائیے کمال کا عفو و درگزر کہ جانتے ہوے بھی قاتل کا پتہ بتانا پسند نہ فرمایا۔ آپ نے 46 سال کی عمر میں ۵۹ھجری کو وفات پائی۔ آپ علیہ السلام جنت البقیع میں مدفون ہیں۔

آپ علیہ السلام کی اولاد

آپ کے بارہ بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں

زید،حسن،حسین،طلحہ،اسماعیل،عبداللہ،حمزہ،یعقوب،عبد الرحمن،عبد اللہ ابو بکر،قاسم،عمر۔ان میں عمر،قاسم اور عبداللہ معرکہ کربلا میں شھید ہوے تھے۔رضی اللہ عنھم اجمعین۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ زید اور حسن مثنی رضی اللہ عنھما سے جاری و ساری ہے۔

حسن مثنی کا نکاح امام حسین علیہ السلام کی دختر فاطمہ سے ہوا جن سے ابراہیم الغمر،حسن مثلث اور عبداللہ محض پیدا ہوے۔ یہ تینوں صاحب زادے نجیب الطرفین فاطمی سید ہیں اور یہ شرف صرف ان ہی کو حاصل ہے۔

آپ نے ایک رومیہ عورت سے بھی نکاح فرمایا تھا جس سے داود اور جعفر پیدا ہوے۔

عبداللہ محض رضی اللہ عنہ کے پانچ بیٹے تھے۔ جن میں سے نفس زکیہ، ابراہیم ، موسی الجون اور یحیی و سلیمان ہیں۔ ابراہیم اور موسی الجون رضی اللہ عنھما کی نسل باقی ہے۔ حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ موسی الجون رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔

ابراہیم الغمربن حسن مثنی کا لقب کثرت جودوسخا کی وجہ سے الغمرپڑ گیا تھا۔ ان کی نسل اسماعیل دیباج سے جاری ہے۔

حسن مثلث بن حسن مثنی کی کنیت ابوعلی ہے ۔ان کی اولاد باقی ہے۔

داود بن حسن مثنی اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما باہم رضیع تھے۔ان کی نسل سلیمان بن داود سے جاری ہے۔

جعفر بن مثنی کی اولاد انک بیٹے حسن سے جاری ہے۔

سیدنا امام حسین علیہ السلام

آپ علیہ السلام ۵ شعبان چارھجری کو مدینہ شریف میں پیدا ہوے۔آپ کے بے شمارفضائل و مناقب ہیں۔آپ سید شباب اھل الجنہ ہیں۔ اور فرمان رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم ہے کہ اے خدا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور جو کوئی ان دونوں سے محبت کرے ان سے بھی تو محبت فرما۔ اوریہ حدیث مبارکہ " حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں" آپ علیہ السلام کی عظمت ومنزلت کو عیاں فرماتی ہے۔ اور آپ علیہ السلام سید الشھداء ہیں جنہوں نے معرکہ کربلا میں اللہ اور اس کے رسول مکرم صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کے دین متین کی پاسداری کرتے ہوے اپنے خاندان کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم کو انکے اس لاڈلے نواسے کی شھادت اور جگہ سے مطلع فرما دیا تھا۔ اس ضمن میں کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں۔جن میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث پاک بہت مشہور ہے۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شھادت کا واقعہ جان فکاں ساٹھ ھجری کو میدان کربلاء میں پیش آیا۔

آپ کی ازواج میں سیدہ ام لیلا بنت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ، شہربانو بنت یزدجرد اور ام رباب بنت امروالقیس الکلبی کے نام آتے ہیں ۔

سیدہ شہربانو سے علی اوسط معروف بالامام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ معروف علی اصغر تولد ہوئے۔

سیدہ ام لیلا بنت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سے سیدناعلی اکبر رضی اللہ عنہ تولد ہوے۔ سیدناعلی اکبر اور علی اصغر رضی اللہ عنہما معرکہ کربلاء میں شہید ہوئے۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی اولاد امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے جاری و ساری ہے۔

سیدتنا سکینہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام رباب بنت امروالقیس الکلبی سے ہیں۔ امروالقیس الکلبی عرب کا مشہور شاعر ہے۔


امام زین العابدین رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم مبارک علی ھے۔آپ ۳۸ ھجری میں پیدا ہوے۔ سیدہ شہربانو بنت یزدجرد شاہ فارس کی بیٹی آپ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ کثرت عبادت و سجود کی وجہ سے آپ کو سجاد اور زین العابدین بھی کہتے ہیں۔آپ کی جود وسخا بھی ضرب المثل ھے۔معرکہ کربلاء میں بوجوہ بیماری شرکت کی اجازت نہ ملی کہ شاید مصلحت خداوندی یہی تھی کہ آپ ہی سے نسل سیدنا امام حسین علیہ السلام جاری ہو۔

آپ کے چھ فرزند تھے۔ امام محمد باقر،عبداللہ الباہر،زید الشہید،عمرالاشرف،حسین الاصغر،علی الاصغر رضی اللہ عنہم اجمعین

اور دو بیٹیاں ام کلثوم اور خدیجہ رضی اللہ عنہما۔

آپ کے سب بیٹوں سے اولاد جاری ہے۔ ترمذی سادات زید الشہید کی نسل سے ہیں۔ لیکن ہم تفصیل سے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر کریں گے۔

امام محمد باقر رضی اللہ عنہ

آپ کا نام محمد ہے۔ لقب باقر اور کنیت ابو جعفر ہے۔ آپ کی والدہ ام عبداللہ بنت امام جسن رضی اللہ عنہ ہیں۔ ۔آپ کی ولادت ۵۷ ھجری میں مدینہ شریف میں ہوئ۔ آپ عالم اجل تھے اسی لیے آپ باقر العلوم کہلاتے ہیں۔ فقہ حنفی کے بانی سیدنا ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے فیض یافتہ ہیں۔ جس کا ذکر سیدنا ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں فرمایا کہ اگر ابو حنیفہ نے دو سال ان کی خدمت میں نہ گزارے ہوتے تو ابو حنیفہ برباد ہو جاتا۔

صحاح اور سنن میں ان کی مرویات خوب ملتی ہیں۔ آپ جنۃالبقیع میں مدفون ہیں۔آپ کی نسل امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے جاری ھے۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ

آپ کا نام جعفر،صادق لقب اور ابوعبداللہ کنیت ہے۔انکی والدہ ماجدہ ام فروہ ہیں دو واسطوں سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ اسی لیے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ولدنی ابو بکر مرتین۔ آپ کی ولادت ۸۳ ھجری ہے۔ آپ جنۃ البقیع میں مدفون ہیں۔

آپ کی نسل پانچ فرزندوں سے جاری ہے۔ امام موسی کاظم،اسماعیل،علی العریضی، محمد المامون اور اسحاق

سے جاری ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

اسماعیل کی نسل دو فرزندوں محمد اور علی ملقب ضیاالدین سے جای ہے۔ فرقہ اسمعیلیہ کے سر آغا خان اسی نسل سے ہیں۔ مخدوم سید علاءالدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ، علی ملقب ضیاالدین کی پشت سے ہیں۔

سیدناعلی العریضی کی نسل ان کے چار فرزندوں محمد،احمد الشعرانی،حسن اور جعفرا الا صغر سے جاری ہے۔ آپ اور امام موسی کاظم کی والدہ ماجدہ کا نام حمیدہ خاتون ہے۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت آپ چھوٹے تھے لہذا آپ کی پرورش امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ نے فرمای۔ آپ کی نسل سے خلق کثیرموجود ہے۔ پاکستان کے ضلع جہلم اور گجرات میں محمد بن سیدناعلی العریضی کی نسل سے خوارزمی سادات موجود ہیں۔ چک عبد الخالق کے سادات انہِی محمد بن علی العریضی کی اولاد ہیں۔

امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ

آپ کا نام موسی بن امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما ہے۔آپ کی والدہ کا نام سیدہ حمیدہ ہے۔ آپ کی ولادت ۱۲۸ ھجری میں ابواء کے مقام پر ہوئ۔ آپ سے اولاد کثیر ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے ۲۳ فرزندان ۳۷ دختران ہیں۔

علی،ابراہیم الا صغر،عباس،اسماعیل،محمد اسحاق،حمزہ،عبدللہ،عبید اللہ اور جعفر کی نسل جاری ہے۔ایک روایت کے مطابق سلطان الہند سیدنا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد ہیں۔

امام علی الرضا رضی اللہ عنہ

آپ کا نام علی ھے۔ لقب جعفر اور کنیت ابوالحسن ہے۔آپ کی ولادت 148 ھجری میں ہوئ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کو اپنا ولیعہد نامزد کیا اور اپنی بیٹی بھی آپ کے نکاح میں دی۔لیکن بعد میں بنو عباس نے ایک سازش کے تحت امام علی الرضا رضی اللہ عنہ کو شہید کروا دیا۔ آپ کا مزار مبارک مشہد،ایران میں ھے۔ ان کی نسل صرف محمد الجواد سے جاری ہے۔

امام محمد الجواد رضی اللہ عنہ

آپ کا نام محمد،لقب الجواد اور کنیت ابو جعفر ہے۔۔ولادت رمضان ۱۹۵ ھجری میں ہوئ۔۲۵ سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئ۔ آپ کے دو بیٹے علی النقی اور موسی المبرقع ہیں اور ان سے نسل جاری ہے۔

امام علی النقی رضی اللہ عنہ

آپ کا نام علی،لقب ہادی النقی ہے۔ولادت ۲۱۲ ھجری میں اور وفات 254 ھجری کو سرمن رای میں ہوی۔ آپ کی نسل دو فرزندوں ابوعبداللہ جعفرتواب اور امام حسن عسکری سے جاری ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اور سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ نزیل ہند، نقوی سادات میں سے ہیں۔

امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ

آپ کا نام حسن،لقب عسکری اور کنیت ابو محمد ہے۔ ولادت 232 ھجری میں ہوئ۔ ایک فرزند محمد المہدی جو 255 ھجری کو پیدا ہوے تھے چار سال کی عمر میں سرمن رائ کے ایک غار میں روپوش ہوگے تھے۔اھل تشیع اس بچہ کو امام غایب اور امام مہدی علیہ السلام مانتے ہیں جو عنقریب قرب قیامت کو ظاھر ہونگے۔ اھل سنت والجماعت کا اس بارے میں موقف مختلف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

تذکرہ حضرت امام محمد المہدی علیہ السلام

صحاح ستہ میں بےشمار مرویات حضرت امام محمد المہدی علیہ السلام کے ظہورکے بارے میں موجود ہیں۔ان تمام مرویات کا اس تحریر میں احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔حصول برکت کیلیے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

آپ علیہ السلام کا نام اکثر روایات کے محمد اور لقب المہدی ہو گا۔آپ کے والد ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ ہو گا۔آپ سیرت میں سیدنا و نبینا محمد صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم سے مشابہ ہوں گے لیکن صورت میں مشابہ نہ ہوں گے۔ اور آپ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسل پاک سے ہوں گے۔

مفہوم فرمان نبوی صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم ہے کہ اگر قیامت آنے میں ایک دن رہ جاے اور ظہورامام مہدی ابھی ہونا باقی ہو تو اللہ سبحانہ و تعالی اس دن کو اتنا لمبا فرما دیں گے کہ ان کا ظہور ہو جاے۔ اور آپ کی امامت وخلافت علی منہاج النبوۃ ہو گی۔

آپ کےاعلان امامت سے پہلے دنیا آماجگاہ فتنہ و فساد بن چکی ہو گی۔کسی کا ایمان محفوظ نہ ہو گا۔ تو اس زمانہ میں تمام اولیاء،ابدال،غوث خانہ کعبہ میں اکٹھے ہو جائیں گے۔اس وقت امام مہدی بکمال احتیاط مدینہ شریف سے مکہ شریف خفیہ طور پر منتقل ہو جائیں گے تا کہ پہچانے نہ جائیں۔آپ ایک دن دیوارکعبہ شریف کے ساتھ تشریف فرما ہوں گے تو اولیاء اللہ اپنے نورایمانی سے پہچان لیں گے۔

آور آپ سے بیعت کی التجا کریں گے۔یہی وہ وقت ہو گا جب آپ بحکم الہی اعلان امامت فرمایں گے توایک ندائے غیبی آسمان سے آپ کے ظہور کے بابت آئے گی جو ہر کوئ سنے گا۔ اور مفہوم فرمان رسول صل اللہ علیہ و آلہ وبارک و سلم ہے کہ جب امام مہدی کا ظہور ہو جاے اور تم برفپوش پہاڑوں پر بھی ہو تو انکی بیعت کیلیے آ جاو خواہ تمہیں گھسٹ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے۔

آپ کے ظہور کے بعد بہت سے واقعات ظہو پذیر ہوں گے جیسے سفیانی کے لشکر کا زمین میں دھنس جانا، فتنہ دجال کا آغاز اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور دجال کا قتل ہونا وغیرہ۔

پھر آپ تمام دجالی اور کافروں کے فتن کا خاتمہ کر کے اپنی عالمی خلافت قائم کریں گے اور تمام دنیا کو عدل و انصاف ، خوش حالی اور فراونی نعمت سے بھر دیں گے۔