حضرت شیخ کامل سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ


پیدایش

آپ سن ۱۸۹۵ء میں چک عبد الخالق ، جہلم میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد کا نام گرامی حافظ سید محمد علی ہے جو اپنے وقت کے جید عالم دین تھے۔آپ پیر سید محمد ولایت رحمت اللہ علیہ کے چھوٹے بھائ ہیں۔

شجرہ نسب

سیدمحمدغوث شاہ بن حافظ سید محمد علی شاہ بن حافظ سید محمد گلاب شاہ حافظ سید شیر شاہ بن سید کمال بن سید ابو تراب بن سید ابو نصر بن سید محمد تقی بن سید عبد الرحیم بن سید عبدالغفار بن سید عبدالخالق بن سید شمس الدین (معین الدین پور ، گجرات ، پاکستان) بن سید امیراں(معین الدین پور ، گجرات ، پاکستان) بن سید سلیمان بن سید نظام الدین (بہلولپور ، قریبی ہیڈمرالہ ، پاکستان) بن سید میاں (تلنبہ) بن سید یاسین (تلنبہ) بن سید جلال الدین ملتانی بن سید بہاؤدین ملتانی بن سید جلال جعفر ملتانی بن سید حمید الدین ملتانی بن سید محمد صدر اجل ملتانی بن سید احمد ملتانی بن سید عبد اللہ ملتانی بن سید محمد خوارزمی بن سید علی (مستانہ حق) بن سید محمد خوارزمی بن سید عبداللہ مصری بن سید محمد حسن مصری بن سید محمد بغدادی بن سید علی العریضی (رح) بن حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) بن حضرت امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) بن حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) بن حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جو سکالر اور حافظ قرآن تھے۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں جامعہ نعمانیہ سے فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے مولانا محمد جی ، مولانا غلام مرشد (خطیب بادشاہی مسجد) ، اور مولانا محمد محمود گنجاوی اور دیگر نامور اسکالرز سے استفادہ کیا۔ آپ کو اللہ نے لحن داودی عطا فرمایا تھا جب آپ میٹھے لب و لہجے کے ساتھ مثنوی مولانا روم پڑھتے تو لوگ بے اختیار آپ کی طرف کھنچے چلے آتے۔

روحانی سفر اور خلافت

آپ نے اپنے والد ماجد سے روحانی رہنمائی حاصل کرتے ہوے سلسلہ قادریہ میں اجازت حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے پیر آف موہڑہ شریف حضرت خواجہ محمد قاسم صادق رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت کی جنہوں نے آپ کو دستار خلافت سے بھی نوازا۔ یہ روایت ہے کہ ہر شخص اپنے مرشد کے دربار میں احترام سے نیچے زمین پر بیٹھتا تھا۔ تاہم ، جب پیر محمد غوث شاہ صاحب اور ان کے بھائی پیر محمد ولایت شاہ صاحب اپنے مرشد صاحب کے سامنے حاضر ہوتے تو انہیں بحکم مرشد بیٹھنے کیلیے کرسیاں پیش کی جاتیں۔ ان سب کی باوجود دونوں بھائی اپنے مرشد صاحب کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور آپ اپنے مرشد صاحب اور ان کی اولاد کا بےحد احترام کرتے تھے۔

تحریک پاکستان میں پیر صاحب کا کردار

جب ہم پاکستان موومنٹ میں مشائخ کے کردار کا تذکرہ کریں گے تو پیر صاحب کے کردار کو جہلم کے علاقے سے یاد رکھاجائے گا۔ انہوں نے امیرملت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمت اللہ علیہ کی سربراہی میں مسلم لیگ کے علاقای جلسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اجلاس کے انتظام و انصرام میں بھی بھر پور تعاون کیا۔ اور یاد رہے کہ ان جلسوں میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔ مصنف کو آپ کی لاءبریری سے ایک ریکارڈ ملا تھا۔ جس میں ان جلسوں کی تفصیلات درج تھیں - قیام پاکستان کے بعد پیر صاحب نے شریعت کے نفاذ کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں مولانا شاہ احمد نورانی کی جماعت کی حمایت کی۔

جامعہ مسجد حنفیہ کی بنیاد

موجودہ مرکزی سنی مسجد جسکی بنیاد حافظ سید شیر شاہ رحمت اللہ علیہ نے رکھی تھی ، حضرت پیر سید محمد ولایت رحمت اللہ علیہ اور پیر سید محمد غوث رحمت اللہ علیہ نے سن 1924 میں نماز جمعہ قایم کی ۔ اس طرح یہ تحصیل دینہ میں پہلی جامعہ مسجد تھی۔ مسجد اب بھی جامعہ کادرجہ رکھتی ہے اور گاؤں اور آس پاس علاقہ کے لوگ جمعہ کی نماز میں شریک ہوتے ہیں۔ پیر سید محمد ولایت رحمت اللہ علیہ اور پیر سید محمد غوث رحمت اللہ علیہ مسجد کے متولی ہیں ۔ بعد ازاں پیر محمد شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ اور پیر محمد فاروق شاہ صاحب کی نگرانی میں مسجد کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی گئی ۔

اس وقت تک (2011-11-03) پیر احمد شاہ صاحب ، پیر سید جماعت علی شاہ صاحب ، پیر محمد داؤد شاہ صاحب ، اللہ کے اس گھر کی خدمت کررہے ہیں

کرامات

آپ کی بہت سی کرامات مشہور ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں

مصنف نے یہ واقعہ صاحبزادہ پیر سید جماعت علی شاہ سے سنا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے ایک مرید جو موضعہ چھمالہ سے تھے عرض کی کہ حضور میرے مخالفین نے علاقہ غیر سے ایک خطرناک قاتل کو میرے قتل کیلیے اکسایا ہے۔لہذا میرے لیے دعا فرمایں کہ اللہ مجھے اس کے شر سے بچاے۔حضرت نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ فکر نہ کرو انشاءاللہ تعالی تمہارا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔اور وہ قاتل ہمارے علاقے میں نہ داخل ہو سکے گا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ قاتل ابھی پشاور میں ہی تھا کہ اس کا کسی سے جھگڑا ہو گیا اور وہیں قتل کر دیا گیا۔

ایک دفعہ ڈاکٹر سید محمد محمود جو کہ آپ کا بھتیجا ہے حج کرنے حجاز مقدس گئے - انہوں نے مکہ مکرمہ میں نماز کے دوران محسوس کیا کہ آپ ان کے دائیں ہاتھ تشریف فرما تھے- پھر دیگر ارکان حج ادا کرتے ہوئے بھی موصوف ڈاکٹر صاحب نے آپ کی موجودگی کو محسوس کیا۔- حج سے واپسی پرموصوف ڈاکٹر صاحب سیدھے چچا کے گھر پہنچے او استفسار کیا کہ کیا چچا جان حج کرنے گئے تھے- تو سب نے نفی میں جواب دیا تب ڈاکٹر صاحب نے شیعہ مسلک کو خیرباد کہا اور سنی ہو کر چچا حضور کے بیعت ہو گئے

مصنف نے آپ کی یہ کرامت بھی تواتر کے ساتھ سنی ہے کہ صوبیدار ملک یونس مرحوم 1965کی پاک بھارت جنگ میں اگلے مورچوں پر لڑ ریے تھے۔اس نے محسوس کیا کہ حضرت پیر محمد غوث رح آپ کے ساتھ مورچہ میں تھے۔اس سے صوبیدار صاحب کو بڑی تقویت ملی۔چنانچہ جنگ کے خاتمے پر صوبیدار صاحب گاوں آ کر آپ سے بیعت ہو گئے۔ اور آپ کی یہ کرامت سب سے بیان کی

صاحبزادہ پیر محمد داود شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی محمد شریف، سکنہ دیتوال ضلع گجرات نے بتایا کہ ان کے والد صاحب بیمارتھے لیکن وہ اجازت لے کر عرس مبارک پر آستانہ عالیہ سیداں شریف چک عبدالخالق حاضر ہو گئے۔رات کو محفل ذکر جاری تھی کہ حضور قبلہ عالم نے ایک آدمی سے کہلوا کر مجھے حکم دیا کہ واپس گھر چلا جاوں۔مجھے اس حکم کی کوی وجہ سمجھ نہ آئ بہرحال حکم مرشد کی اطاعت لازم تھی۔جب گھر پہنچا تو والد صاحب کی طبیعت بہت بگڑ چکی تھی۔مجھے یوں اچانک گھر دیکھ کر بہت خوش ہوے اور اسی صبح ان کی وفات ہوگئ۔ مولوی محمد شریف کہتے ہیں کہ مجھے حکم مرشد کی تب سمجھ آ گئ ۔

ایک دفعہ آپ رات کو مصلا پر بیٹھ کر وظائف میں مشغول تھے کہ پاس ہی کہیں سے ایک بڑا سانپ آ کر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا- پھر کسی کی سانپ پر نظر پڑھی تو وہ لاٹھی لے کر مارنے کے لئے دوڑا مگر آپ نے منع فرما دیا اور کہا یہ سانپ نہیں ویسے میرے وظائف سننے اور مجھ سے ملاقات کرنے آیا ہے- جوں ہی آپ کے وظائف و اوراد مکمل ہوئے سانپ بھی کہیں غائب ہو گیا

یہ واقعہ صاحب زادہ سید احسان الحق شاہ صاحب مرحوم نے مصنف سے خود بیان کیا تھا۔ کہ ان کا ایک دنبہ گم ہو گیا تو قبلہ عالم سے عرض کہ ہمارا دنبہ گم ہو گیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میری گھوڑی کھول دو اور جس طرف یہ جائے جانے دو جہاں جا کر یہ رک جائے وہاں قرب میں وہ دنبہ ہو گا- تو آپ کے فرمان کے مطابق گھوڑی کھول کر آپ اس پر سوار ہو کرچل دیئے- گھوڑی نے دریا کا رخ کیا اور دریا کی ایک شاخ کو عبور کیا۔ وہاں ایک کنواں تھا - دنبہ وہاں گھاس چر رہا تھا اور وہ دنبہ کو پکڑ لائے- مگر یہ معمہ حل نہ ہوا کہ گھوڑی کو کیسےسمت کا پتہ تھا اور دنبہ دریا کی اس شاخ کو عبور کیسے کر گیا ۔

مولوی سجاول آف جلوچک حضرت پیر محمد غوث رح کے خلیفہ خاص اور مرید صادق تھے۔آپ نماز جمعہ باقاعدگی سے جامعہ مسجد آستانہ عالیہ سیداں شریف میں ادا کرتے اور بعد از نماز مرشد خانے میں حاضری دیتے۔ایک دفعہ مصنف نے ان سے دریافت کیا کہ آپکی اپنے مرشد کے بارے میں کیا راے ہے۔ جواب ملا کہ میں اپنے مرشد حضرت پیر محمد غوث رح کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا پھر کچھ سکوت کے بعد یوں گویا ہوے کہ ایک دفعہ مرشد پاک سے سوال کیا کہ آپ روحانیت کے کس درجہ پر فائز ہیں؟ تو مرشد پاک نے فرمایا کہ دنیاوی طور پر تمہارے نزدیک کون سا بڑا عہدہ ہے۔چونکہ میرا تعلق کاشتکار خاندان سے تھا تو میں نے عرض کیا کہ تحصیلدار یہاں تک کہ میں نے ڈپٹی کمشنرتک کا عہدہ گنوا دیا۔تو مرشد پاک نے فرمایا جو چار ضلعوں کا مالک ہوتا ہے یعنی کمشنر تو ہم روحانیت کے اس درجے پر مامور کیے گئے ہیں۔یہ مثال آپ نے اپنے مرید کو سمجھانے کیلیے دی تھی۔مصنف کے خیال میں آپ رحمت اللہ علیہ روحانی دنیا میں قطب یا غوث کے مقام پر مامور تھے اور یہی لقب یعنی 'غوث زماں' آپ کوآستانہ عالیہ موہڑہ شریف سے عطا ہوا تھا۔

مصنف کے ماموں عابد مرحوم 1971کی پاک وہند جنگ میں قیدی بنا لیے گئے تھے ۔بھارتی حکومت نےان قیدیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔جب آپ رہا ہو کر واپس پاکستان اپنے گاوں لوٹے تو ان کی ذہنی حالت بہت ناگفتہ بہ تھی۔ تو قبلہ عالم نے ان کیلیے خصوسی دعا فرمائ یہاں تک آپ مکمل روبصحت ہو گئے۔اس کرامت کے بعد میرے ماموں جان قبلہ عالم کی بیعت سے بھی مشرف ہوئے اور تاحیات اپنے مرشد کی خدمت گزاری کی۔

اس طرح میرے بڑے ماموں سید مظفر حسین مرحوم بے روزگار تھےمیری والدہ محترمہ انکے بارے میں بہت فکرمند تھیں۔آپ نے کئ بار قبلہ عالم سے دعا کی درخواست کی۔ لیکن آپ نے کئ روز تک اس کا جواب نہ دیا۔پھرایک دن خلاف معمول آپ نے انہں ایک تعویذ دے کر فرمایا کہ اس کا کام ہو گیا ہے اپنے بھائ کو یہ تعویذ دے دو۔جب میری والدہ اپنے بھائ کے گھر پہنچیں تو انکے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اسی دن انکے بھائ کو کسی کمپنی کی طرف سے روزگار کا بلاوا آ چکا تھا۔

اولاد

آپ کی اولاد درج ذیل ہے

سید فخرالدین، سید رفیع الدین، سید عبدالحق، سید محمد یعقوب، سید نصیر الدین، سید بشیرحسین، محمد فاروق شاہ، سید عبدالخالق

پیر سید فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ

آپ قبلہ عالم کے بڑے صاحبزادے ہیں۔آپ نے پاکستان بننے سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں بحثیت سپاہی حصہ لیا۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے 1948 ارو 1965کی جنگوں میں شامل رہے اور غازی بن کر لوٹے۔ آپ اپنے والد مکرم کے بعد گدی نشین ہوے۔آپ کی وفات فروری 1999 میں ہوئ۔ آپکی مرقد چک عبدالخالق میں اپنے پردادا سید محمد گلاب رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں ہے۔آپکے صاحبزادے سید افتخارالدین اپنی اولاد کے ساتھ کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں

پیر سید رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ

آپ صاحب علم ودانش اور زہدوتقوی ہیں۔دنیا آپ کے ہاتھ میں دی گئ لیکن آپ کا دل دنیا سے بیگانہ تھا۔آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے بی-اے آنرز اورعلم فلاسفی میں ماسٹرز کیا اور سند امتیازی حاصل کی۔آپ نے معلمی کا مقدس پیشہ اختیار کیا اور بحیثیت معلم اور صدر معلم مختلف تعلیمی درسگاہوں میں فرائض سر انجام دیے اور بالاخر بحیثیت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریٹائرڈ ہوئے۔آ پ نے اپنے والد ماجد سے نقشبندی سلسلہ میں بیعت حاصل کی۔ ٘آپ کی اولاد بھی اعلی تعلیم یافتہ اور پابند صوم و صلاۃ ہے۔آپکے بڑے صاحبزادے محمد سعید احمد حافظ قرآن اور پیشے کے لحاظ سے انجینیر ہیں۔اس طرح آپ کے باقی دونوں بیٹے سید جماعت علی شاہ ،سابقہ انڈس واٹرکمشنر آف پاکستان ،ایک انجینیر اور سید شوکت علی شاہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ سید رفیع الدین ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بڑے بیٹے محمد سعید احمد کے پاس کنیڈا میں شفٹ ہوگئے۔یہیں آپ کی وفات 2006 عیسوی میں ہوئ تو انہیں اوک ول،کینیڈا کے قبرستان میں دفنایا گیا۔

باقی اولاد کا اختصار کے ساتھ ذکر درج ذیل ہے۔

ان میں سے پیرسید محمد یعقوب مجذوب درویش ہیں یہ لاولد ہیں۔ سید عبدالحق مرحوم کی اولاد چک عبدالخالق جہلم میں مقیم ہے۔آپ کی مرقد بھی اپنے آبائ قبرستان چک عبدالخالق میں ہے ۔ سید نصیر الدین مرحوم اسماعیلہ شریف ضلع گجرات میں دفن ہیں اور ان کی اولاد ضلع گجرات میں مقیم ہے۔ ان میں سےسید بشیرحسین و محمد فاروق شاہ دونوں بھائی بمعہ اولادیں کنیڈا میں مقیم ہیں۔جبکہ

سیدعبدالخالق بمع اولاد لاہور میں مقیم ہیں۔اس کے علاوہ آپ کےنواسےجناب زاھد محمود شاہ،خالد حسنین شاہ ، محمد عمر شاہ اور دیگر اقرباء کنیڈا میں ہیں


مریدین اورخلفاء

آپ کے ضلع جہلم،گجرات اور چکوال کے علاقے مِیں سینکڑوں ارادت مند ہیں۔چند خلفاء کے نام درج ذیل ہیں۔

معین الدین پور ،گجرات سے حضرت پیر سید سائیں اصغر علی عریضی خوارزمی بھی آپ ہی کے مرید و خلیفہ ہیں

کھرکا شریف سراے عالمگیر کے سید لال شاہ آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔چک دولت ،جہلم کے جناب چن پیر آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ سید ولایت شاہ آف چھبر سیداں مرحوم و سید نیاز علی شاہ مرحوم آف چک عبدالخالق آ پکے خاص محبین میں سے تھے

وفات اور آخری آرام گاہ

آپ کا 4 دسمبر 1976 کو انتقال ہوگیا۔ ان کی نماز جنازہ میں ان کے سینکڑوں عقیدت مندوں کے علاوہ اس وقت کے نامور اسکالرز جیسے علامہ قاضی غلام محمود ہزاروی ، مولانا محمد صادق ، مفتی عزیز اللہ اور دیگر شامل تھے۔ ان کے داماد پیر محمد شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ نے اس عظیم صوفی کی نماز جنازہ کی امامت کی ۔جامعہ مسجد حنفیہ کے ساتھ منسلک قبرستان میں آپ کو اپنے والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔