حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت میاں صاحب حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد امجاد سے ہیں۔ ان کا اصل نام سید عبد الخالق ہے ، تاہم ، لوگ احترام سے انہیں میاں صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ان کا شجرہ نسب درج ذیل ہے۔ یہ معلومات جہلم کے مضافاتی گاوں چک اکا کے محمد یوسف نقشبندی کی تحریر کردہ کتاب 'شینشاہِ ولایت' سے لی گئی ہے۔

سید عبد الخالق بن سید شمس الدین بن سید امیراں بن سید سلیمان بن سید نظام الدین بن سید میاں بن سید یاسین بن سید جلال الدین ملتانی سید سید بہاؤالدین ملتانی بن سید جلال جعفر ملتانی بن سید حمید الدین ملتانی بن سید محمد صدر اجل ملتانی بن سید احمد ملتانی بن سید عبد اللہ ملتانی بن سید محمد خوارزمی بن سید علی (مستانہ حق) بن سید محمد خوارزمی بن سید عبداللہ مصری بن سید محمد حسن مصری بن سید محمد النقیب بغدادی بن سید علی العریضی (رح) بن حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بن حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ بن حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بن سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

جہلم میں آمد

آپ کی جہلم یا چک عبد الخالق میں صحیح آمد کی تاریخ کا تعین کرنا مشکل ہے۔ ایک رائے کے مطابق ، وہ معین الدین پور (ضلع گجرات ، پاکستان) سے ہجرت کر کے اسلام کی تبلیغ کے لئے اس نئے علاقے میں آباد ہوگئے۔آپ کے والدماجد سید شمس الدین ضلع گجرات کے قصبہ معین الدین پور میں مدفون ہیں۔

دوسری رائے یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے جب اپنی افواج کے ساتھ اس علاقہ پر چڑھاءی کی تو آپ بطورایک آرمی آفیسر اس کے لشکر میں شامل تھے اور بعد ازا ں آپ نے یہی رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ بات ہی زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ ریسرچ اسکالر سید رفیع الدین شاہ صاحب نے ، جو سابقہ ماہر​​تعلیم اور محکمہ تعلیم پنجاب میں ایڈمنسٹریٹر تھے، آپ کی جہلم میں آمد کی تاریخ شیرشاہ سوری کے عہد میں ہی بیان کی ہے۔

یہ روایت ہے کہ ایک دن شیر شاہ سوری قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ تلاوت کرنے میں غلطی ہوئی اور اچانک اسے کہیں سے آواز آئی کہ بادشاہ نے آیت کی تلاوت میں غلطی کی ہے۔ شیر شاہ سوری اس سے حیران ہوا اور یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کون اس کی اصلاح کررہا ہے تب میاں صاحب نے بادشاہ کے سامنے خود کو اس پر ظاہر کیا ۔ اس کرامت کے بعد ، بادشاہ ان کا عقیدت مند بنا اور اس نےیہ علاقہ آپ کو بطور نذرانہ پیش کیا اور اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی میاں صاحب سے کردی۔آج بھی یہ روایت قائم ہے کہ جب آپ میاں صاحب کے دربار فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں تو سب سے پہلے آپ میاں صاحب کے مزار کے بائیں جانب موجود کمرے میں ایک قبر پر فاتحہ خوانی کے پھول چڑھاتے ہیں-یہ قبر اسی بادشاھزادی کی مشہور ہے-جنہوں نے ایک روایت کے مطابق میاں صاحب سے شکوہ کیا کہ میری وفات کے بعد مجھے کون یاد کرے گا تو آپ نے اپنی اولاد کو تاکید کی کہ میری قبر پر آنے سے پہلے شاہزادی کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنا اور اس حکم پر آج تک عمل ہوتا ہے۔وا للہ اعلم بالصواب۔

موجودہ زمینی حقائق مذکورہ بالا روایت کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ صدیوں سے اس گاؤں کے زیادہ تر مکین سید عبدالخالق (رح) کی اولاد سے ہیں۔اور گاوں کے گردونواح کی زمینوں کے مالکانہ حقوق بھی ان ہی کے پاس ہیں۔

اولاد

سید صاحب قرآن پاک کے حافظ اور عظیم اسکالر تھے۔ انہوں نے سادگی اور اسلام کی تبلیغ میں زندگی گزاری۔ ان کے بیٹے سید عبد الغفار (رح) ، شاہ چاند ولی (رح) ، شاہ مجید (رح) ، شاہ صدیق رضی اللہ عنہ نے تبلیغ کے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ حافظ شیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ ، جو میاں صاحب کے بیٹے سید عبدالغفار رحمہ اللہ کی اولاد سے ہیں ،نے اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ پیر محمد ولایت شاہ صاحب (رح) اور پیر محمد غوث شاہ صاحب (رح) حضرت شیر شاہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف تبلیغ اسلام کا فریضہ بطریق احسن ادا کیاتھے بلکہ علاقہ جہلم سے تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ مشہور شاعر سید ضمیر جعفری بھی میاں صاحب کی اولاد میں سے ہیں۔

مزار اور عرس مبارک

حضرت میاں صاحب (رح) کا مزار مرکزی قبرستان میں گاؤں کے مضافات میں واقع ہے۔ ایک مسجد بھی مزار سے ملحق ہے۔ اس مزار میں ، حضرت میاں صاحب اور ان کا قریبی کنبہ مدفون ہے۔ ہر سال جولائی (ہاڑ) کے مہینے میں آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔ ملک بھر سے عقیدت مند ، مزار پر حاضری دیتے ہیں اور محفل ذکر اور محفل سماع کا انعقاد کیا جاتا ہے۔