لطایف قمبر

The Humor Of Qumber

1

Rana Resort Bhai Pheru


جرنل نالج

آج کل کے بچوں کا جرنل نالج 

 

کل میں نے اپنے چھوٹے برخوردار کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔  

 

سوال: پاکستان کا قومی مشروب کیا ہے 

جواب: فانٹا 

 

سوال: پاکستان میں کیا چیز مینوفیکچر یا تیار ہوتی ہے 

جواب: میکڈونلڈ کے برگر 

 

پھر میرے بیٹے نے کہا 

بابا میرا بھی ایک سوال ہے 

میں نے کہا بولو 

 

سوال: کیا عمران خان کی شادی ہو گئی ہے  

Sky In Lahore


دوست

کل میرے بیٹے نے کہا 

بابا شیطان میرا دوست ہے  

 

میں نے کہا بیٹا وہ تو جہنم میں جاے گا 

 

پھر کیا ہو بابا 

 

وہاں اگ سانپ بچھو ہوں گے 

 

کوی بات نہیں بابا 

 

 دوستوں کے لیے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے 

 

اچھا تمہیں پتہ ہے جہنم میں موبایل بھی نہیں پو گا 

 

وہ تمھیں جنت میں اللہ دیں گے 

 

اچھا بابا 

 

شیطان گیا بھاڑ میں 

 

آج سے اللہ میرا دوست ہے 

Dawn In Lahore


ے غیر سیاسی

بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں 

 

گھر میں چلتے ہوے اچانک میرے پاؤں پر کوئی چیز لگی تو میری آہ نکلی 

قریب ہی میرا بیٹا کارٹون دیکھ رہا تھا 

اس نے بلکل توجہ نہیں کی 

میں نے کہا بیٹا  

 

  

بابا کو اتنے زور سے چوٹ لگی آپ نے پوچھا ہی نہیں 

بولا بابا میں نے سنا نہیں 

 

میں نے اسے کہا بیٹا آپ کو پتہ ہے جتنا بابا آپ سے محبت کرتے ہیں 

آپ بابا سے نہیں کرتے 

 

بولا جی بابا  

میں نے حیرت سے پوچھا 

واقعی 

کہنے لگا بابا 

جتنی تھوڑی بہت میں آپ سے محبت کرتا ہوں اس پر اللہ کا شکر ادا کریں 


 ڈنڈا



ماسٹر انور اور ان کا ڈنڈا


جو لوگ اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ ماسٹر انور اور ان کے ڈنڈے سے بخوبی واقف ہیں


ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول میں حاصل کی بمشکل پاس ہوتے تھے شروع کی کلاس میں جب فیل ہوتے تو آصف بھائی ایک ڈائری اور کیلنڈر کا تحفہ لے ماسٹر صاحب کے پاس پہنچ جاتے اور پرائمری کے استاد کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوے اگلی کلاس میں بھیج دیتے


غرض سفر چلتا رہا اور ہم آٹھویں جماعت تک پہنچ گئے اب گھر والوں کو تشویش ہوئی کہ ڈائری اور کیلنڈر سے امتحان تو پاس ہو سکتا ہے لیکن میڈیکل میں داخلے کے لئے نمبر لینا تقریبا ناممکن ہے


غرض خوب سوچ بچار اور صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ فدوی نہایت کام چور ہے اور آسانی سے اصلاح ممکن نہیں لہذا گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا جائے


بس جی پھر کیا تھا سب کے سامنے صرف ایک نام تھا


ماسٹر انور


اب ان کی شخصیت کے بارے میں

وہ ایک تاریخ ساز انسان تو نہیں البتہ ایک انسان ساز استاد ہے


ہمارے شہر میں جو بچہ کسی کے قابو میں نہیں آتا وہ ان کے حوالے کر دیا جاتا


آپ حیران ہوں گے کہ ان میں ایسی کیا خوبی تھی تو شہر کے بگڑے تگڑے لڑکے بھی انسان کے بچے بن جاتے


بات صرف ڈنڈے کی نہیں تھی ان سے زیادہ سخت استاد موجود تھے مگر وہ بات کو سمجھانا جانتے تھے لطیفے اور مزے مزے کی گالیاں ان کی زبان پر ہر وقت رہتی تھیں یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ ان کے پاس ہوں اور سارہ دن ہنس ہنس کے آپ نڈھال نہ ہو جائے


اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ان کا ڈنڈا بھی ان کی طرح منفرد شخصیت کا مالک تھا


کہتے تھے کہ میں گھوڑے کو مارنے والا چھانٹا لاتا ہوں اور اسے پانی کی ٹینکی میں پھینک دیتا ہوں پورے سات دن بعد اسے نکال کر دھوپ میں رکھ دیتا ہوں پھر یہ جب خشک ہو جاتا ہے تو ربڑ بال پر لگائ جانے والی ٹیپ اس پر چڑھاتا ہوں


غرض اتنی عرق ریزی اور جفا کشی سے بننے والا ڈنڈا جب آپ کو زمین پر پاوں بٹھا کر لگایا جاتا تو بچہ اچھل کر مینڈک کی طرح کئی فٹ دور گرتا لیکن آپ حیران ہوں گے کہ سب اس ڈنڈہ کو کھا کر جب زمین پر سے اٹھتے تو چہرے پر رونا نہیں بلکہ ہنسی ہوتی تھی 


 صنف نازک 


کالج کے زمانے میں جہاں انسان صنف نازک کی طرف بہت ذیادہ مائل ہوتا ہے تو یہ واقعہ اس دور کا ہے


میں کمرہ جماعت میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ ہمارے کالج کے سٹاف نے مجھے ایک خط لا کر دیا


یہ نہایت خوبصورت لفافہ تھا نیلے رنگ کا اور اس پر پھول بنے ہوئے تھے اور بظاھر دیکھنے سے لگتا تھا کہ کسی دوشیزہ کی طرف سے اپنے محبوب کو خط لکھا گیا ہے


اب جو میرے دوست تھے وہ بڑی حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے کلاس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور میری کافی عزت ہو رہی تھی


بس پھر کیا تھا میں نے بڑے فخر کے ساتھ خط کھولنا شروع کیا سب کی آوازیں بند ہو گیں اور کلاس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور میری کافی عزت ہو رہی تھی


اب جب میں نے لفافا پھاڑا اور اس میں سے خوشبو کا ایک جھونکا نکل کر پوری کلاس میں چھا گیا کلاس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور میری کافی عزت ہو رہی تھی


خیر میں نے وہ محبت نامہ بڑے ادب کے ساتھ کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ خط میری ایک نہایت خوبصورت اور دلربا قسم کی کزن کی طرف سے تھا جس کے اندر خوبصورت الفاظ میں لکھا تھا


بھائی جان سالگرہ مبارک


کلاس میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور میری کافی عزت ہو رہی تھی 


ٹی وی


اوائل عمری کا واقعہ ہے 

ٹی وی کافی معیوب سمجھا جاتا تھا اور وی سی آر ( پرانے وقتوں میں فلم دکھانے کا آلہ ) کو تو بے حیائی اور بے شرمی کا پٹارہ سمجھا جاتا تھا


ایسے پاکیزہ ماحول میں جب بڑے بھائی ڈاکٹر بن کر اپنی پہلی تنخواہ کے ساتھ گھر تشریف لائے تو اس پر مشورہ ہوا کہ اس پہلی تنخواہ سے کونسا نیک کام کرنا چاہیے


کافی غور خوض اور صلاح مشورہ سے قرعہ وی سی آر کے حق میں نکلا


کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے اس لیے بڑے اور منجھلے بھائی دونوں 4000

روپے لے کر لاہور ہال روڈ روانہ ہو گئے پیچھے سے گھر والوں نے دعاؤں اور نوافل کا اہتمام شروع کر دیا تا کہ کسی قسم کی رکاوٹ اور نظر بد سے بچا جا سکے


اللہ کی مدد اور گھر والوں کی دعا سے جب بھائی لاہور پہنچے تو پتہ چلا کہ وی سی آر تو 8000 کا ہے البتہ وی سی پی نامی ایک چھوٹا آلہ بھی موجود ہے جو فلم تو دکھاے گا لیکن رکارڈ نہیں کر سکتا


چونکہ مومن کی نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے اس لیے وی سی آر کی نیت کر کے وی سی پی پر قناعت کرلی گئی


آپ تو جانتے ہیں قناعت سب سے بڑی دولت ہے اس لیے اسکے فضائل کو سنتے سناتے دونوں بھائی نو وارد آلہ فلم و موسیقی کو لے کر گھر واپس آ گے


ان کا نہایت پرتپاک استقبال کیا گیا شکرانے کے نوافل ادا کے گیے نئی نسل کی جو بہترین تربیت ہونے والی تھی اس پر لیکچرز بھی ہوے غرض ہم سب بہت پر امید تھے


بدقسمتی سے اس معاملے کی ابا کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی کیونکہ حاکم وقت تھے اور اللہ کے احکامات کو گھر والوں پر نافذ کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا اس لیے حالات کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوے یہ فیصلہ ہوا کہ فلم ابا کی غیر موجودگی میں ہی دیکھی جاے گی


لیکن آپ مجھے جانتے ہیں کہ میری بہت ساری اچھی عادتوں میں سے ایک نیک عادت یہ بھی ہے کہ جو اچھی چیز مجھے ملتی ہے میں وہ دوسروں تک ضرور پہنچاتا ہوں


چنانچہ جیسے ہی باہر گلی میں ابا نے گاڑی کا ہارن بجایا ہم سب جلدی جلدی وی سی پی کو چھپانے لگ گئے اس پر کپڑا ڈال کر ٹی وی ٹرالی کے دراز میں چھپا دیا


ابا جیسے ہی گھر میں داخل ہوے


میں نے فرط جذبات سے نعرہ لگایا


ابا پنٹاں ( پینٹ )، کڑیاں ( لڑکیاں )٫ چومیاں(بوسے )


اس کے بعد جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے


جاری ہے