لطایف قمبر 

The Humor Of Qumber

4


منیر

یہ کالج کے تیسرے سال کی بات ہے

میں آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی سے لاہور ڈائیوو بس پر سفر کر رہا تھا


میں نے اپنی مشہور اور پسندیدہ نیلی جین جو کبھی کبھی دھلتی تھی پہنے ہوے تھا ساتھ والی نشست پر ایک بزرگ تشریف فرما تھے جو خاکی پینٹ اور گہرے رنگ کی چیک دار شرٹ میں ملبوس پی کیپ پہنے ہوے تھے


راستے میں تعارف ہوا میں نے ان کا نام پوچھا

انھوں نے فرمایا منیر


میں نے بھی اپنا تعارف کرایا


بات چیت چلتی رہی

راستے میں بھیرا کے مقام پر اتر کر ہم نے چاے بھی پی


خیر 6 گھنٹے کا سفر اچھا خوشگوار گزرا


شام

کو جب میں بھائی سے ملنے گیا تو وہاں ایک کتاب پڑی دیکھی اسی کے پیچھے ان انکل کی تصویر بنی ہوئی تھی


میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا


کتاب پر نام شاعر کا لکھا تھا


منیر

نیاذی


آپ کی یاد آئی تو آپ کی ایک غزل بھی یاد آئی


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

منیر نیازی


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں


ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو


اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو


بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو


کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو


حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔ 


 اہم شخصیات 

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے سے بچے تھے


گھر میں تین نہایت اہم شخصیات میں شامل تھے


ابا جان امی جان اور تھاپا


آپ پریشان ہوں گے کہ یہ ابا جان اور امی جان تک تو بات ٹھیک ہے پر یہ تھاپا کیا چیز ہے


خیر سن 2000 سے پہلے جو بچے پیدا ہوے وہ اس آلہ سے بخوبی واقف ہیں


اس کا پہلے کچھ تعارف ہو جاے


نام۔ تھاپا

کام۔۔ بہت سارے جیسے

پچون کی پٹائی

کپڑوں کی دھلائی

کرکٹ کی لڑائی

دشمن سے بچاؤ

کتوں سے حفاظت

اور ضرورت پڑنے پر اگلے کی سر پھٹائی


آپ حیران ہوں گے تھاپا جیسی اہم اور کار گر چیز اس دور میں کیسے ناپید ہو گئ


تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے پاکستان کی قوم نے اپنے بزرگوں اپنی روایات اور اپنی ثقافت کو خیر آباد کہا تو حضرت تھاپا بھی اس مادہ پرستی اور بد تہذیبی کے سیلاب میں بہہ گئے

پہلے دور میں جب ماووں کو کوئی بات بچوں کو سمجھانی ہوتی تھی تو کہتی تھیں


کہاں ہے میرا تھاپا


آج کل۔جدید دور آ گیا ہے اور حکومت نے بھی اپنا سلوگن یا نعرہ تبدیل کر لیا ہے


کہ


تھاپا نہیں کھاپا 


 آرمی میڈیکل کالج

ہمارا میڈکل کالج میں داخلہ سلف فنانس یعنی اپنے خرچ پر ہوا تھا


 یہیں سے آپ پر ہمارا پڑھائی لکھائی کا شوق واضع ہو گیا ہو گا


دوسرا ہمارا داخلہ آرمی میڈیکل کالج میں ہو گیا جو نہایت discipline یعنی نظم و ضبط والا ادارہ تھا


اب جو لوگ میرے ماضی سے واقف ہیں وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میرا اور نظم وضبط کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا


خیر جناب کالج والوں نے لباس کے موضوع پر تین صفات کا پرچہ بھیجا جس میں لباس پہننے سے متعلق قوائد ضوابط تھے میں نے پڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس میں لکھے الفاظ اردو کی ڈکشنری میں بھی نہیں ملے جیسے مفتی

یہاں م پر ذبر پڑھئے گا کہیں پیش پڑھ کر مجھ پر کفر کا فتویٰ نا لگا دینا


اسی طری گرے کلر grey colour کا پتہ ہوتا تو پینٹ خریدتا


اس پر مصیبت یہ کہ وقت بہت کم تھا اور تحقیق کرنے کا وقت بلکل نہیں تھا


وہ لوگ جو فوجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے وہ تو پوری تیاری سے گئے لیکن میری طرح کے سادہ اور عام پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان فوجی ماحول سے بلکل واقف نہ تھے


میرا خیال تھا کہ میرا بڑا پرتپاک بندوبست ہو گا لیکن جب میں جینز کی نیلے رنگ کی پرانی پینٹ (یہاں میں بتاتا چلوں کہ پرانی چیزوں سے مجھے خاص محبت ہے ) اور سفید رنگ کی آدھے بازو کی شرٹ جو کہ پینٹ سے آدھی باہر اور آدھی اندر گئی ہوئی تھی پہنے کالج کے دروازے سے داخل ہوا تو وہاں موجود لڑکوں نے میری وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ


سب سے پہلے تو انھوں نے انگریزی زبان میں اونچی اونچی چلانا شروع کر دیا جس کی مجھے تو کیا میرے باپ دادا کو بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کیا کہ رہے ہیں خیر جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی چیخ وپکار کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا تو وہ ذرا نرم پڑ گئے اور پھر اشارے سے سمجھایا کہ اوپر دیکھو


اگلے 5 برس انھوں نے مجھے نیچے دیکھنے ہی نہیں دیا وہیں سے مجھے آسمان اور آسمان والے سے رفاقت نصیب ہوئی اور اب تو اتنی عادت پڑ گی ہے اوپر دیکھنے کی کہ نیچے والوں سے کبھی امید ہی نہیں رکھی اور ہر مسلہ اوپر سے حل ہو جاتا ہے



 ٹی وی 

اوائل عمری کا واقعہ ہے


 ٹی وی کافی معیوب سمجھا جاتا تھا اور وی سی آر ( پرانے وقتوں میں فلم دکھانے کا آلہ ) کو تو بے حیائی اور بے شرمی کا پٹارہ سمجھا جاتا تھا


ایسے پاکیزہ ماحول میں جب بڑے بھائی ڈاکٹر بن کر اپنی پہلی تنخواہ کے ساتھ گھر تشریف لائے تو اس پر مشورہ ہوا کہ اس پہلی تنخواہ سے کونسا نیک کام کرنا چاہیے


کافی غور خوض اور صلاح مشورہ سے قرعہ وی سی آر کے حق میں نکلا


کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے اس لیے بڑے اور منجھلے بھائی دونوں 4000

روپے لے کر لاہور ہال روڈ روانہ ہو گئے پیچھے سے گھر والوں نے دعاؤں اور نوافل کا اہتمام شروع کر دیا تا کہ کسی قسم کی رکاوٹ اور نظر بد سے بچا جا سکے


اللہ کی مدد اور گھر والوں کی دعا سے جب بھائی لاہور پہنچے تو پتہ چلا کہ وی سی آر تو 8000 کا ہے البتہ وی سی پی نامی ایک چھوٹا آلہ بھی موجود ہے جو فلم تو دکھاے گا لیکن رکارڈ نہیں کر سکتا


چونکہ مومن کی نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے اس لیے وی سی آر کی نیت کر کے وی سی پی پر قناعت کرلی گئی


آپ تو جانتے ہیں قناعت سب سے بڑی دولت ہے اس لیے اسکے فضائل کو سنتے سناتے دونوں بھائی نو وارد آلہ فلم و موسیقی کو لے کر گھر واپس آ گے


ان کا نہایت پرتپاک استقبال کیا گیا شکرانے کے نوافل ادا کے گیے نئی نسل کی جو بہترین تربیت ہونے والی تھی اس پر لیکچرز بھی ہوے غرض ہم سب بہت پر امید تھے


بدقسمتی سے اس معاملے کی ابا کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی کیونکہ حاکم وقت تھے اور اللہ کے احکامات کو گھر والوں پر نافذ کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا اس لیے حالات کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوے یہ فیصلہ ہوا کہ فلم ابا کی غیر موجودگی میں ہی دیکھی جاے گی


لیکن آپ مجھے جانتے ہیں کہ میری بہت ساری اچھی عادتوں میں سے ایک نیک عادت یہ بھی ہے کہ جو اچھی چیز مجھے ملتی ہے میں وہ دوسروں تک ضرور پہنچاتا ہوں


چنانچہ جیسے ہی باہر گلی میں ابا نے گاڑی کا ہارن بجایا ہم سب جلدی جلدی وی سی پی کو چھپانے لگ گئے اس پر کپڑا ڈال کر ٹی وی ٹرالی کے دراز میں چھپا دیا


ابا جیسے ہی گھر میں داخل ہوے


میں نے فرط جذبات سے نعرہ لگایا


ابا پنٹاں ( پینٹ )، کڑیاں ( لڑکیاں )٫ چومیاں(بوسے )


اس کے بعد جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے 


 جان

میں اپنے دوست کے گھر گیا 


میرا بیٹا میرے ساتھ تھا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور میرے بیٹے نے کہا بابا یہ جان کون ہے جان کا فون آ رہا ہے میں تھوڑا سا کھسیانہ ہو گیا میں نے میزبان کی طرف دیکھا اور میزبان نے میری طرف دیکھا ہماری نگاہیں چار ہوئیں اور میں کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بولا کہ بیٹا فون اٹھا لو آپ کی ماما کا فون ہے 



 فون

ہمارے گھر میں جب فون لگا


ہم لوگ اوکاڑہ میں رہتے تھےجہاں ابھی نئی ایجادات جیسے ٹیلی فون ٹی وی کار ابھی نہیں پہنچے تھے


جب ابا نے ٹیلی فون کے لئے درخواست بڑے بھائی کے نام پر دی جوکہ تازہ تازہ ڈاکٹر بن کے آے تھے ڈاکٹر بھی تب خال خال ہوتے تھے ٹیلی فون کا محکمہ فوری حرکت میں آیا لمبی لائن بچھائ گئی اور کافی سارے کھمبے لگائے گئے بالآخر ہمارے گھر میں ٹیلی فون لگ گیا


چند دلچسپ واقعات آپ کی نظر

ایک دن فون کی گھنٹی بجی بڑے بھائی جو آج کل ایک سرکاری محکمے میں بیوروکریٹ ہیں اور بچپن سے ہی ان کے اندر یہ جراثیم پاے جاتے تھے نے فون اٹھایا

آگے سے آواز آئی کون

بھائی بولے میں فلاں صاحب ایس او ٹی سی بول رہا ہوں یہاں پٹائی کے خوف سے بھائی کانام حذف کر دیا ہے فون کی دوسری طرف شخص گھبراہٹ کا شکار ہو گیا کہ شاید کسی سرکاری محکمے میں غلطی سے فون مل گیا اور اس نے بات کئے بغیر ہی فون بند کر دیا

امی سخت ناراض ہوئیں اور فون کی مکمل ذمہ داری گھر کی باقی ذمہ داریوں کی طرح میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دیں بس پھر جب دوبارہ گھنٹی بجی تو میں بھاگ کر گیا اور فون اٹھایا

آگے سے کوئی ڈرتے ڈرتے بولا کون


میں نے فٹا فٹ کہا

جی میں فلاں صاحب ایس و ٹی سی کا چھوٹا بھائی بول رہا ہوں

اس پر اس نے پھر گھبراہٹ کا شکار ہو کر فون بند کر دیا

اس کے بعد جو میرے ساتھ ہوا وہ ازراہ شرم حذف کر رہا ہوں


نوٹ: ایس او ٹی سی کامطلب

سٹوڈنٹ آف ٹنتھ کلاس


جب پہلی دفعہ گھنٹی بجی


فون تو لگ گیا لیکن اب پتہ کیسے چلے کہ یہ کام بھی کرتا ہے کہ نہیں

خیر ہم سب بڑے پرجوش تھے فون کی گھنٹی سننے کے لئے

کہ اچانک وہ بجی

ادھر وہ بجی

ادھر ہم سب بھاگے

امی کچن سے جو کھانا بنا رہی تھیں چمچ وہیں پھینکا

باجی جو کپڑے دھو رہی تھی کپڑے پھینکے

میں نے اپنا کھلونا اور بھائ نے اپنی کتاب

اب جب ہم سب ایک ہی وقت میں فون کے پاس پہنچے تو دھڑام سے سب کے سب ٹکراے کوئ کہیں گرا کسی نے سر پکڑا کوئی درد سے زمین پر بیٹھا کہ اتنی دیر میں گھنٹی بند ہو گئ اور ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گے


اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر سارے محلے والوں نے جن کے رشتے دار دوسرے ملکوں میں تھے ہمارے نمبر ان کو دے دیا ٹرنک کال کا زمانہ تھا اب گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بلانے کا کام بھی مجھی کو سونپا گیا تھا مزے کی بات یہ ہے کہ جتنی دیر ہمارے گھر میں محلے کی خواتین فون آنے کا انتظار کرتیں تو ان کی چاے پانی بھی میری امی کے ذمے تھا