لطایف قمبر 

The Humor Of Qumber

2


میڈیکل کالج


ہمارا میڈکل کالج میں داخلہ سلف فنانس یعنی اپنے خرچ پر ہوا تھا


 یہیں سے آپ پر ہمارا پڑھائی لکھائی کا شوق واضع ہو گیا ہو گا


دوسرا ہمارا داخلہ آرمی میڈیکل کالج میں ہو گیا جو نہایت discipline یعنی نظم و ضبط والا ادارہ تھا


اب جو لوگ میرے ماضی سے واقف ہیں وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میرا اور نظم وضبط کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا


خیر جناب کالج والوں نے لباس کے موضوع پر تین صفات کا پرچہ بھیجا جس میں لباس پہننے سے متعلق قوائد ضوابط تھے میں نے پڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس میں لکھے الفاظ اردو کی ڈکشنری میں بھی نہیں ملے جیسے مفتی

یہاں م پر ذبر پڑھئے گا کہیں پیش پڑھ کر مجھ پر کفر کا فتویٰ نا لگا دینا


اسی طری گرے کلر grey colour کا پتہ ہوتا تو پینٹ خریدتا


اس پر مصیبت یہ کہ وقت بہت کم تھا اور تحقیق کرنے کا وقت بلکل نہیں تھا


وہ لوگ جو فوجی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے وہ تو پوری تیاری سے گئے لیکن میری طرح کے سادہ اور عام پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان فوجی ماحول سے بلکل واقف نہ تھے


میرا خیال تھا کہ میرا بڑا پرتپاک بندوبست ہو گا لیکن جب میں جینز کی نیلے رنگ کی پرانی پینٹ (یہاں میں بتاتا چلوں کہ پرانی چیزوں سے مجھے خاص محبت ہے ) اور سفید رنگ کی آدھے بازو کی شرٹ جو کہ پینٹ سے آدھی باہر اور آدھی اندر گئی ہوئی تھی پہنے کالج کے دروازے سے داخل ہوا تو وہاں موجود لڑکوں نے میری وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ


سب سے پہلے تو انھوں نے انگریزی زبان میں اونچی اونچی چلانا شروع کر دیا جس کی مجھے تو کیا میرے باپ دادا کو بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کیا کہ رہے ہیں خیر جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی چیخ وپکار کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا تو وہ ذرا نرم پڑ گئے اور پھر اشارے سے سمجھایا کہ اوپر دیکھو


اگلے 5 برس انھوں نے مجھے نیچے دیکھنے ہی نہیں دیا وہیں سے مجھے آسمان اور آسمان والے سے رفاقت نصیب ہوئی اور اب تو اتنی عادت پڑ گی ہے اوپر دیکھنے کی کہ نیچے والوں سے کبھی امید ہی نہیں رکھی اور ہر مسلہ اوپر سے حل ہو جاتا ہے 


مسلمان 

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم نیے نیے مسلمان ہوے


ے اس سے آپ ہر گز یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم پیدایشی کافر تھے اور بعد میں اسلام کی دولت سے بہراور ہویے تھے


بلکہ اس وقت ہمیں جوانی کے عوائل میں جب انسان بالغ و عاقل ہوتا ہے اور نئی نئی سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے تو انسان دل سے اسلام کو قبول کرتا ہے پہلے صرف مسلمان گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے مسلمان کہلاتا ہے پھر حقیقی مسلمان اسلام قبول کر کے بن جاتا ہے


معافی چاہتا ہوں پاکستان میں کسی کو یہ یقین دلانا کہ آپ مسلمان ہیں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے


بات ایسے شروع ہوتی ہے

جی تو آپ کون ہیں

جی مسلمان


اب وہ بندہ مشکوک نظروں سے آپ کو اوپر سے نیچے دیکھتا ہے پھر پوچھتا ہے


نہیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کون ہے میرا مطلب آپ کا تعلق کس مسلک سے ہے


آپ شرماتے ہوے کہتے ہیں نہیں بھائی میرا تعلق کسی مسلک سے نہیں بس مسلمان ہی ہوں


اب وہ آدمی اپنا دماغ پر زور ڈالتا ہے کہ کیسے اسے کسی فرقے میں شامل کروں


تو وہ آپ سے چند ایسے سوال پوچھے گا جس کے بعد آپ کو خود اپنے اسلام کے بارے میں شک ہونے لگے


خیر بات پھر قابو سے نکل گی


تو جناب کہانی اس زمانے کی جب میں نیا نیا مسلمان ہوا تھا


آپ جانتے ہے جب آپ نیے نیے مسلمان ہوتے ہیں تو پورے دین پر یکدم عمل شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا حال بھی اس شخص جیسا ہوتا جو پہلے ہی روز جم یا ورزش کی جگہ جا کر اتنی زیادہ ورزش کرتا ہے کہ کئی روز بستر سے نہیں اٹھ پاتا اور پھر یہ کہہ کر کہ بھائی ورزش یا جم میرے بس کا روگ نہیں دوبارہ جم کا رخ ہی نہیں کرتا


معافی چاہتا ہوں بات پھر قابو سے نکل گئی


تو جناب قصہ ہے اس وقت کا جب ہم نیے نیے مسلمان ہوے تھے اور اسلام کے ہر حکم پر من و عن عمل کرنا چاہتے تھے


یہ واقعہ آرمی مڈیکل کالج راولپنڈی کا ہے میں تیسرے سال میں پڑھ رہا تھا اور نیا نیا مسلمان ہوا تھا


میں نے سنا کہ سلام کرو چاہے آپ اگلے کو جانتے ہو یا نہ جانتے ہو


تو جناب میں چونکہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور یہ بات بھی نہیں جانتا تھا کہ میں جس ملک میں رہتا ہوں اس کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہی ہے


میں باہر نکلا

دوپہر کا وقت تھا مال روڈ عسکری پلازہ سے ہاتھی چوک کی طرف جاتے ہوے جہاں دوپہر میں خاصہ رش یا مصروفیت ہوتی ہے ہر گزرنے والے کو سلام کرنا شروع کر دیا


آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک مصروف بازار میں جہاں سب کہیں نہ کہیں جانے کی جلدی میں ہوں اور اچانک کوئی خوبصورت جیسا کہ میں اب بھی ہوں نوجوان راہ چلتے آپ کو سلام کرے تو آپ یک دم ٹھٹھک جایں گے اور سوچ میں پڑ جائیں گے کہ ان سے کہاں ملاقات ہوئی تھی


ابھی آپ سوچ ہی رہے تھے اور وہ نوجوان آگے بڑھ گیا اور آپ مڑ کر اسے دیکھ ہی رہے ہیں کہ یہ کون ہے کہ اچانک وہ ایک اور آدمی کو سلام کرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے غرض اچھا خاصہ تماشہ بن گیا لیکن چونکہ میں آگے دیکھ رہا تھا اس لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے والوں کی پریشان اور حیران شکلیں نہیں دیکھ پا رہا تھا


غرض تھوڑی دیر تک لوگوں نے میرے اس قابل دست اندازہ پولیس عمل کو برداشت کیا پھر اچانک ایک شخص میرے سامنے آ گیا اور پوچھنے لگا


بھائی خیر ہے آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے کیا آپ مجھے جانتے ہیں


میں ہکا بکا رہ گیا اتنے اچانک حملے کی مجھے توقع نہیں تھی


میں اس کی طرف دیکھنے لگا اور سوچ میں پڑ گیا کہ میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ میں نیا نیا مسلمان ہوا ہوں 


چھوٹے


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے سے بچے تھے


گھر میں تین نہایت اہم شخصیات میں شامل تھے


ابا جان امی جان اور تھاپا


آپ پریشان ہوں گے کہ یہ ابا جان اور امی جان تک تو بات ٹھیک ہے پر یہ تھاپا کیا چیز ہے


خیر سن 2000 سے پہلے جو بچے پیدا ہوے وہ اس آلہ سے بخوبی واقف ہیں


اس کا پہلے کچھ تعارف ہو جاے


نام۔ تھاپا

کام۔۔ بہت سارے جیسے

پچون کی پٹائی

کپڑوں کی دھلائی

کرکٹ کی لڑائی

دشمن سے بچاؤ

کتوں سے حفاظت

اور ضرورت پڑنے پر اگلے کی سر پھٹائی


آپ حیران ہوں گے تھاپا جیسی اہم اور کار گر چیز اس دور میں کیسے ناپید ہو گئ


تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے پاکستان کی قوم نے اپنے بزرگوں اپنی روایات اور اپنی ثقافت کو خیر آباد کہا تو حضرت تھاپا بھی اس مادہ پرستی اور بد تہذیبی کے سیلاب میں بہہ گئے

پہلے دور میں جب ماووں کو کوئی بات بچوں کو سمجھانی ہوتی تھی تو کہتی تھیں


کہاں ہے میرا تھاپا


آج کل۔جدید دور آ گیا ہے اور حکومت نے بھی اپنا سلوگن یا نعرہ تبدیل کر لیا ہے


کہ


تھاپا نہیں کھاپا 


 آرمی میڈیکل کالج


یہ کالج کے تیسرے سال کی بات ہے

میں آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی سے لاہور ڈائیوو بس پر سفر کر رہا تھا


میں نے اپنی مشہور اور پسندیدہ نیلی جین جو کبھی کبھی دھلتی تھی پہنے ہوے تھا ساتھ والی نشست پر ایک بزرگ تشریف فرما تھے جو خاکی پینٹ اور گہرے رنگ کی چیک دار شرٹ میں ملبوس پی کیپ پہنے ہوے تھے


راستے میں تعارف ہوا میں نے ان کا نام پوچھا

انھوں نے فرمایا منیر


میں نے بھی اپنا تعارف کرایا


بات چیت چلتی رہی

راستے میں بھیرا کے مقام پر اتر کر ہم نے چاے بھی پی


خیر 6 گھنٹے کا سفر اچھا خوشگوار گزرا


شام

کو جب میں بھائی سے ملنے گیا تو وہاں ایک کتاب پڑی دیکھی اسی کے پیچھے ان انکل کی تصویر بنی ہوئی تھی


میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا


کتاب پر نام شاعر کا لکھا تھا


منیر

نیاذی


آپ کی یاد آئی تو آپ کی ایک غزل بھی یاد آئی


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

منیر نیازی


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں


ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو


اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو


بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو


کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں


کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو


حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔


جرنل نالج


آج کل کے بچوں کا جرنل نالج


کل میں نے اپنے چھوٹے برخوردار کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔


سوال: پاکستان کا قومی مشروب کیا ہے

جواب: فانٹا


سوال: پاکستان میں کیا چیز مینوفیکچر یا تیار ہوتی ہے

جواب: میکڈونلڈ کے برگر


پھر میرے بیٹے نے کہا

بابا میرا بھی ایک سوال ہے

میں نے کہا بولو


سوال: کیا عمران خان کی شادی ہو گئی ہے


 چاکلیٹ


آج پھر میں نے اپنے بیٹے کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا


سوال: اگر پاکستان کو پیٹرول کے علاؤہ کوئی چیز باہر سے منگوانی پڑے جس کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا وہ کیا ہے


جواب: چاکلیٹ