اشعار قمبر

The Poetry Of Qumber

7

تیری یاد

تیری یاد کے سہارے

کٹ جاے گا یہ سفر

تجھ سے ملنے کی امید میں

سولی پر چڑھ جاے گا قمر

خاک ہو جاے گی خلقت

ظلم کے خلاف نہ بولی اگر

عشق کی پرواز ہے بہت اونچی

بن کر آ جاے پھر سے خدا صورت بشر

 خبر نہیں

کوئی اچھی خبر نہیں

تیری جدائی کی

اور تجھے خبر نہیں

میں نے کب مانگا تھاتجھے اللہ سے

تو کب کیسے مل گئی مجھے خبر نہیں

اب ہر وقت آنسو بہاتا ہوں

اور تجھے خبر نہیں

انسان کی جو ضرورت ہے روٹی کپڑا مکان

جو حکومت میں ہے اسے خبر نہیں

میرے اللہ کیوں بنایا دنیا کو

لوگ مر رہے ہیں

اور تجھے خبر نہیں

میرے معبود اب تو فیصلہ کر دے

اسے کس سے مانگوں

مجھے خبر نہیں

انسان کی چند ضرورتیں ہیں

مگر تجھے خبر نہیں

کیا ذلت ہی ہے مسلماں کا مقدر

تقریر بہت ہے پر عمل کی خبر نہیں

ہزاروں کتابیں پڑھیں کافروں کی

پر جو قرآن میں ہے اس کی خبر نہیں

بھوک سے مر نہ جاتا افلاس کو دیکھ کر

پر کل کیا ہو گا اس کی خبر نہیں

یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے

جو مر رہا ہے اسے خبر نہیں

سوچا تھا مرنے پر سکوں مل جاے گا

جو قبر میں ہو گا اس کی خبر نہیں

قرآن کی تفسیر کر رہے ہیں

امت کو جو تقسیم کر رہے ہیں

اس کی خبر نہیں

جنت میں حور ملے گی

جو گھر میں ہے

اس کی خبر نہیں

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

قمبر گمراہ کون ہے

کسی کو خبر نہیں

واہ

واہ تیری خدائی واہ

ہمیں نیند نہیں آتی

اور تیری جدائی واہ


وہ اورنگ زیب تھا

جو تحجد گزار تھا

اور ہمارے حکمران واہ


سلسلہ نبوت کا بند ہوا

اور نعرہ ختم نبوت واہ


میرا دل نہیں کرتا اب ملنے کو

اور اس کی خوش نمائی واہ


عزت کا میعار دولت ہے

اور میری پارسائی واہ


انسان کا کیا اعتبار ہے

اور میری نا رسائی واہ


جینے کا بھی ایک سلیقا ہے

اور تیری بے پروائی واہ


کیا کہوں کوئی سنتا ہی نہیں

اور تیری بے اعتنائی واہ


وہ جو چھوڑ گیا خامشی سے

اور میری جگ ہنسائی واہ


عزت داروں کی بات کرتے ہیں

اور ذلیلوں کی خودنمائی واہ

انسان کی عزت کو سلام

اور میری خود شناسائی واہ


عزت کس کو اچھی نہیں لگتی

اور تیری رسوائی واہ


قمبر کب تک روو گے

اور میرا تنہائی واہ


ثابت ہوا

میں اچھا انسان نہیں

جب میں نے تجھے چھوڑا

ثابت ہوا

جب پل پل روتا تھا تو

میں دیکھتا رہا۔ چپ رہا

ثابت ہوا

وہ کونسی گھڑی تھی جب

میں نے تجھے یاد نہیں کیا

اور بھولا

ثابت ہوا

انسان کی چند ضرورتیں ہیں

اور وہ بھی پوری نہ کر سکا

ثابت ہوا

میرا قصور عشق ہے

اور عاشق ناکام ہوتا ہے

ثابت ہوا

اب ملنے کی گھڑی نہیں آے گی

وہ محبت کا گھر مٹی کی ریت

ثابت ہوا

یہ عشق وشق کچھ نہیں ہوتا

سب سے بڑا روپیہ

ثابت ہوا

اگلوں نے کہانی جو بنائی تھی

ہیر رانجھا کی جھوٹی تھی

ثابت ہوا

میرے پاس مرنے کے سوا کیا چارہ ہے

میں ذندہ کب تھا تیرے بغیر

ثابت ہوا

ایک آخری آرزو ہے تیرے بغیر

نہ موت آے مجھے پاگل ہوں میں

مار نہ دے قمبر

یہ جوش جنوں 

یہ گریباں چاک قفس

مار نہ دے قمبر


جس کشتی کے۔مسافر ہم ہیں

بک گیا ہے ملاح

مار نہ دے قمبر


بات کرتے ڈر لگتا ہے

جس کے پاس بندوق ہے

مار نہ دے قمبر


ترے بغیر جی کر کیا کریں گے

پوچھ رہیں ہیں دوست

مار نہ دے قمبر

ہو سکتا تھا

یہ بھی ہو سکتا تھا


یہ بھی ہو سکتا تھا

تو مجھے مل جاتی


یہ بھی ہو سکتا تھا

کہ وقت ٹھر جاتا


یہ بھی ہو سکتا تھا

بارش کی برسات

آنکھوں سے نہ برستی


یہ بھی ہو سکتا تھا

زمانے کی دھول

چہرے پر نہ پڑتی


یہ بھی ہو سکتا تھا

 تجھے یاد کرنے کے لیے

شاعری نہ کرنی پڑتی


یہ بھی ہو سکتا تھا

پاکستان ترقی کر جاتا

ہم ایک ہو جاتے


غم کی جگہ 

خوشی ہوتی


جو اب ہو رہا

وہ نہ ہوتا


یہ بھی ہو سکتا تھا