اشعار قمبر

The Poetry Of Qumber

4


بھول

بھول گیا میں


تیرے گھر کا راستہ

بھول گیا میں


روشن چہرہ جھیل آنکھیں زلف گھٹائیں

تو میری تھی ہی نہیں

بھول گیا میں


میرے شہر کے حاکم سے کہہ دو

ظلم کے قانون اور ظالم کی اطاعت

بھول گیا میں


اے واعظ بھوک نے اتنا ستایا

مسجد کا راستہ ہی بھول گیا میں 


مسافر

میں ان راہوں کا مسافر

جن کی منزل ہی نہیں


زندگی عزیز ہے مجھے

موت کی عادت ہی نہیں


تیری یاد تیرا غم اور تیرا عشق

اب مجھے ان کی فرصت ہی نہیں 


باتیں 

باتیں تو بہت سی ہیں

پر تمھارا دل نہیں جلانا چاہتا ہوں


مایوس نہیں کرنا چاہتا

امید دلانا چاہتا ہوں


آپ بھی کہتے ہو گے روز آ جاتا ہوں میں

اس گھپ اندھیرے کو مٹانا چاہتا ہوں


دل بھر گیا ہے دنیا سے

اب آپ کی دنیا بنانا چاہتا ہوں



ظلم 

جب ظلم حد سے بڑھ جاے

تو کیا ہوتا ہے


جب کوئی مدد کو نہ آئے

تو خدا ہوتا ہے



آنکھ 

آنکھ سے آنکھ ملا کر ملا کرو

کبھی ہم سے بھی ا کر ملا کرو


ہاتھ ملانا رہ گیا تھا

اب خواب میں ا کر ملا کرو


وہ زندگی کی شب جو گزر گی

اس رات میں ا کے ملا کرو 


 دنیا 

یہ دنیا ہے جنت نہیں

گنہگار بستے ہیں

 یہاں فرشتے نہیں