اشعار قمبر

The Poetry Of Qumber

3


غریب

میرے حق میں کوئی بولتا کیوں نہیں

میں غریب ضرور ہوں پر بے غیرت تو نہیں


میرے دل میں بھی احساس ہے

اور میری آنکھوں سے آنسو بھی بہتے ہیں


زبان رکھتا ہوں میں

کوئی جانور تو نہیں


عشق کے طلبگاروں سے پوچھو

مقتل گاہ میں جو پہلا قتل ہوا

وہ میں ہوں


آج ذنداں کی تاریکی میں

سینے سے لگائے ہوئے تیرے خیال کو

میں ہوں 


حکم اذاں

پاکستان ایک ایسا ملک

جہاں تاریکی ہے


جہاں کوئی برسر روزگار نہیں


سب تیرے عشاق یہاں

رہزنوں کے شکار ہیں


مجھے ہے حکم اذاں

لا الہ الااللہ


آج کا دور

پھر سے


اک ابراہیم کی

تلاش میں ہے



ماں

یہ زمین تیری ماں تھی

تو نے دشمنوں والا سلوک کیا اس سے


مال بنایا جائداد بنائی

اولاد کو باہر بھیجا تو نے


ملک کی تقدیر سے کھلواڑ کیا

سود پر قرض اٹھایا تو نے



چپ رہا

چپ رہا

یہ سوچ کر کہ تو میرے ساتھ ہے

خوش رہا


میری بے وفائی کا بہت گلہ ہے تجھے

کبھی سوچا کہ میں کیوں چپ رہا 


میں نے خود دیکھا ہے

میں نے خود دیکھا ہے


ان اشکبار آنکھوں کو

ان کھڑی فصیلوں کو

ان بکتے سپنوں کو


میں نے خود دیکھا ہے


رات کی تنہائی میں

آہوں سسکیوں کو

فلک بوس دعاؤں کو


میں نے خود دیکھا ہے



روز سوچتا ہوں

روز سوچتا ہوں

کھڑکی کے پار پودوں میں چھپی امید کی کرن کب نکلے گی


روز ازل جو فیصلہ ہوا تھا میرے خلاف جنت سے نکلنے کا

وہ جنت مجھے کب واپس ملے گی


جرم میرا تھا میں مانتا ہوں

معافی کی امید ہے مجھے پر کب ملے گی


اس رخ روشن مہ جبین کے گال اور ہونٹ

میرے نہیں پر

میری تقدیر میری دعا سے بدلے گی