اسلام کی آبیاری کے لیے بزرگان دین اور صوفیا اکرام نے ویرانوں میں ڈیرے لگائے اور ان کے خلوص نے لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کر لیے۔ ان ہستیوں کے آسودہ خاک ہوجانے کے صدیوں بعد بھی ان کا فیض تقسیم ہوتا نظر آتا ہے۔ پاکبازان امت کے اس مقدس گروہ کے اراکین پاکستانی گجرات کے ایک گاؤں ڈھوڈا شریف میں بھی قدم رنجہ ہوئے اور زمین کے اس ٹکڑے کو بھلائی اور خیرخواہی کی تقسیم کا خطہ بنا گئے۔ اس مضمون میں ان بزرگوں کے حالات زندگی مختصرا نقل کیے جا رہے ہیں جو ان کی الواح مزارت پر رقم ہیں۔
پیدائش
آپ کی پیدائش 1256 ھجری میں انگہ شریف میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد شیخ الشیوخ حضرت پیر چراغ علی صاحب قادری علیہ الرحمۃ ہیں۔ مشربا آپ قادری تھے آپکا سلسلہ اپنے آباؤ اجداد کے واسطہ سے غوث زماں حضرت سید احمد المعروف میراں بادشاہ قادری علیہ الرحمۃ بھیرہ شریف سے ملتا ہے۔ آپ کے جدامجد سلطان الاولیا حضرت پیر محمد قاسم علیہ الرحمۃ تھے جو میراں بادشاہ علیہ الرحمۃ کے مرید اور خلیفہ اعظم تھے۔
چلہ کشی۔ مرشد کا ادب
آپ نے کئی مرتبہ میراں بادشاہ علیہ الرحمۃ کے مزار اقدس پر چلہ کشی فرمائی۔ دربار عالیہ بھیرہ شریف جب حاضر ہوتے تو آپ اسٹیشن بھیرہ شریف سے دربار شریف تک اپنی داڑھی مبارک سے جھاڑو دیتے اور ننگے پاؤں حاضری دیتے۔ یاد رہے دربار شریف ریلوے اسٹیشن سے تقریبا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔ اپنے پیر خانہ کی طرف پاؤں اور پشت نہ فرماتے۔ ہر جمعرات کو اپنے مشائخ عظام علیہم الرحمۃ کی ارواح کو ایصال ثواب فرماتے
عبادت و ریاضت
آپ اکثر شب و روز ایک قرآن پاک ختم فرماتے۔ رات کا اکثر حصہ ذکرواذکار اور نوافل میں گزارتے۔ مغرب کی نماز کے بعد قصیدہ غوثیہ کا وظیفہ فرماتے۔ وظیفہ فرماتے وقت آپ بغداد شریف کی طرف منہ کر کے ہاتھ باندھے مؤدبانہ کھڑے رہتے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے۔ درود شریف کثرت سے پڑھتے اور پڑھنے کی تلقین فرماتے۔
ڈھوڈا شریف میں قیام اور برکات
حضرت میراں بادشاہ علیہ الرحمۃ کے ارشاد کے مطابق آپ انگہ شریف سے ڈھوڈا شریف تشریف لائے۔ ڈھوڈا شریف میں پانی کی سخت قلت تھی آپ روزانہ رات کو ڈھوڈا شریف کے نمازیوں کو ساتھ لیکر ڈھوڈا شریف کے اردگرد ذکر الہی فرماتے ہوئے چکر لگاتے اور دعا فرماتے اے رب العلمین اس خطہ کو شاداب اور خوش حال فرما تو آپ کی دعاؤں سے گاؤں کے اردگرد خشک نالہ میں پانی جاری ہو گیا جو ابتک جاری ہے۔ جس سے پانی کی قلت دور ہو گئی اور علاقہ خوشحال اور شاداب ہو گیا۔ ڈھوڈا شریف کے ارد گرد گاؤں میں سال سال کے وقفہ کے بعد تین مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی مگر ڈھوڈا شریف ہر دفعہ آپ کی دعا کی برکت سے محفوظ رہا۔ حالت بیداری میں آپ صاحب کشف و کرامات تھے۔ آپ کے وصال کے بعد اور کئی مریدین نے انکی معاونت کے لیے آپکی تشریف آوری بیان کی ہے۔ شریعت مطہرہ کی پابندی کی سختی سے تلقین فرماتے۔ غیر شرعی لوگوں کی مجلس سے سخت نفرت فرماتے۔
مریدین کے لیے احکام
آپ اکثر مریدین کو ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا ارشاد فرماتے:
1. نماز پنجگانہ
2. صیام رمضان کی پابندی
3. صاحب نصاب کے لئے زکوۃ کی ادائیگي۔
4. صاحب استطاعت کے لیے فریضئہ حج
5. کلمہ شریف اور درود شریف کا کثرت سے ورد
6. مسلمانوں سے ہمدردی اور صلہ رحمی
7. حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا
8. برائی اور خلاف شرع لوگوں سے اجتناب
9. رزق حلال اور صدق مقال کی تاکید
10. حضور پر نور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلبیت اطہار، اصحابہ کبار اوراولیا عظام علیہم الرضوان سے عقیدت و محبت اور انکا ادب و احترام
11. اہلسنت و جماعت کی مساجد اور مدارس سے تعاون
وصال
10 ربیع الثانی 1331 ھجری بروز بدھ 12 بجے شب 75 سال کی عمر شریفہ میں وصال فرمایا۔ انا للہ و انا الیہ رجعون - جمعرات کو نماز عصر سے قبل جنازہ پڑھا گیا۔ جب آپ کو لحد میں رکھا گیا تو حاضرین کو آپکے جسد اقدس سے اللہ ہو کی آواز بلند ہوتی سنائی دی۔ جب آپ کو غسل دیا گیا تو کچھ بال آپ کے سیاہ ہوگئے۔ صندوق جو کہ آپکی قبر مبارک میں رکھنا تھا اس میں رکھا گیا تو ریش مبارک اور سر مبارک کے سارے بال سیاہ ہو گئے اور حضرت میراں بادشاہ کا فرمان تھا کہ گل پیر! جب تم دنیا سے وصال کرو گے تو جوان کر کے لے جائیں گے۔
پیدائش:- آپ کی پیدائش 1883ء میں انگہ شریف ضلع خوشاب میں ہوئی۔ آپ حضرت گل پیر علیہ الرحۃ کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ حافظ قرآن اور عالم دین تھے۔
بشارت:- آپ کی ولادت سے قبل حضرت میراں بادشاہ علیہ الرحمۃ نے آپ کے والد ماجد حضرت گل پیر علیہ الرحمۃ کو بشارت دی، اے گل پیر ہمارا ایک خادم جس کا رنگ کالا سینہ گورا اور اس پر دو مہریں ایک پیشانی پر اور ایک پشت پر ہو گی۔ نام اس کا سید امیر اور چاروں چک جاگیر ہو گی وہ ا رہا ہے۔ چنانچہ آپ کی ولادت ہوئی تو دو مہریں یعنی پیشانی پر پیدائشی ہی چار انگل کی مقدار میں بال سفید تھے اور پشت پر بھی ایک سفید رنگ کا نشان تھا۔
شریعت مطہرہ کی پابندی:- شریعت مطرہ کے سخت پابند تھے اور مریدین کو بھی سختی سے اس کی پابندی کی تلقین فرماتے۔ اپنے دوروں میں وعظ و تبلیغ ضرور فرماتے اور جید علمائے اکرام کو مدعو فرما کر محافل کا انعقاد فرماتے۔ خلاف شرع حرکات کرنے والے کا سختی سے نوٹس لیتے اور اگر شرعی لحاظ سے تعزیر لگتی تو اس پر اس کا حکم نافذ فرماتے
فیضان و برکات:- مریدین کو کثرت سے درود شریف، ذکر الہی اور قرآن پاک کی تلاوت کی تاکید فرماتس۔ آپ کی محفل میں حاضر ہونے والزے کے قلوب عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حب اہل بیت و صحابہ اکرام اور اولاۓ عظام علیھم رضوان سے سرشار ہوتے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اتباع مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے آئنہ دار تھے۔ مساجد اور دینی مدارس کی تعمیر و ترقی میں بہت حصہ لیتے۔ علمائے کرام اور دینی طلباء سے شفقت اور ان کا بہت زیادہ احترام فرماتے، درود شریف اور کلمہ طیبہ کا ذکر کثرت سے فرماتے اور مریدین کو بھی اس کا حکم فرماتے۔ جب محفل میں کلمہ شریف یا ذکر بلند آواز سے فرماتے تو یوں معلوم ہوتا کہ درودیوار بلکہ ساری فضا ذکر کر رہی ہے۔ جاحب کشف و کرامات تھے۔ آج بھی ان کی کرامات و تصرفات کے عینی گواہ موجود ہیں۔ آپ کو کشف قلوب بھی بہت تھا۔ اپنے آباؤ اجداد کی طرح حضرت غوث زماں میراں باشاہ علیہ الرحمۃ (بھیرہ شریف) سے حد درجہ عقیدت و محبت تھی۔ وہاں ننگے پاؤں حاضری دیتے۔ اپنے پیر خانہ کی طرف کبھی پاؤں کیے اور نہ پشت مبارک اور آپ کے فیضان کی دھوم عالم میں مچی ہے۔ ہزارہا لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کی بارگہ میں جو حاضر ہوا وہ بامراد لوٹا۔ آپ روزانہ عشاء کی نماز کے بعد مریدین اور معتقدین کا حلقہ مبارک پرسوز آواز میں بڑی محبت و عقیدت سے اشعار وجدانی کیفیت میں پڑھتے تھے جو آج بھی دربار عالیہ سے متعلقین اور خادمین کا طریقہ ہے۔
صلی اللہ علی حبیبہ محمد پڑھاں قیامت تائیں
نام اللہ دے نبی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) لاج میری گل پائیں
اوکھی گھاٹی منزل بھاری بانہوں پکڑ لنگھائیں
باہجوں تیرے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہنوں حال سنائیں
میں بہت گناہ اللہ دے کیتے حال نئیں کجھ میرا
راضی کر دے مولا تائیں، میں دامن پکڑیا تیرا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
وصال:- مؤرخہ 23 ربیع الاول شریف ، 9 مارچ 1945ء بروز جمعرات دو بجے شب دربار عالیہ ڈھوڈا شریف کی مسجد کے حجرہ شریف میں (جہاں آپ شب و روز ذکر میں مشغول رہتے) 52 سال کی عمر شریف میں وصال شریف فرمایا
انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ حضرت پیر سید امیر علیہ الرحمۃ کے نور نظر تھے
پیدائش:- آپ کی ولادت 23 اپریل 1923ء کو انگہ شریف ضلع خوشاب میں ہوئی
تعلیم:- آپ نے ابتدائی تعلیم انگہ شریف میں حاصل کی۔ بعد ازاں جامعہ قادریہ فیروز پور چھاؤنی میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ میں آپ نے شیخ الحدیث علامہ محمد خلیل صاحب سے دورہ حدیث کیا ۔ درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کر کے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔
بشارت کا مصداق:- حضرت پی
ر میراں بادشاہ علیہ الرحمۃ نے سلطان العارفین حضرت پیر محمد قاسم علیہ الرحمۃ کو بیعت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ کے خاندان کو بیع کر لیا ہے، جو بھی آئے گا پہلے سے سوایا ہو گا۔ آپ اس کے مصداق تھے اور اپنے آباؤ اجداد کی مسند کے صخیخ جانشین اور انکی تعلیمات کے صحیح امین تھے۔
امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی زیارت و بشارت:- ایک دفعہ ٹانڈہ ضلع گجرات بسلسلہ دورہ تشریف فرما تھے کہ سحری کے وقت خواب میں اپنے آپ کو اغوا کے مقدمہ کی تحقیقات کرتے ہوئے دیکھا۔ اتنے میں سرور انبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی تبسم فرماتے ہوئے زیارت ہوئی اور آپ کے پیچے صدیق اکبر، عمرفاروق، عثمان ذوانورین اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم کی ویارت سے مشرف ہوئے۔ آپ ان کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ پانچ نورانی شخصیتیں آہستہ آہستہ گذر رہی تھیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ مبارک سے آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا بیٹا ہم خوش ہیں، ہم خوش ہیں، ہم خوش ہیں۔
حضرت میراں صاحب علیہ الرحمۃ کی بشارت:- ایک دفعہ خواب میں حضرت پیر میراں علیہ الرحمۃ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو گھبرانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
حضرت سید امیر علیہ الرحمۃ کی وصیت:- جو کہ آپ کے والد ماجد تھے اور شیخ طریقت بھی، نے فرمایا بیٹا گھوڑا تیار ہے لگام کا خیال رکھنا تم کو دنیا ہر طرف سے عزت کی نگاہ سے دیکھے گی لیکن شریعت مطہرہ کا دامن نہ چھوڑنا۔ آپ نے اپنی زندگی شریعت مطہرہ کی تبلیغ و تشہیر کے لیۓ وقف کر دی۔ دورہ کے دوران مختلف مقامات پر بڑی بڑی کانفرنسوں کا اہتمام فرما کر مقتدر علماء کو مدعو فرماتے۔ ذکرواذکار اور کثرت سے درود شریف کا حکم فرماتے۔ مشائخ عظام اور علماۓ کرام میں آپ کا ایک عظیم مقام تھا۔ اپنے اسلاف کی طرح مساجد اور دینی مدارس کا قیام اور تعاون آپ کا شیوہ تھا۔ خلاف شریعت کام کرنے والوں کو ت
عزیر لگاتے۔ آپ اپنے دوروں کے موقعہ پر سیکڑوں الجھے ہوئے مسائل شرعی طور پر حل فرماتے۔
ملی خدمات:- 1947ء کو قیام پاکستان کے موقعہ پر مہاجرین کی بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان کی رہائش کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کو اپنا حق دلانے کے لیۓ بہت کوشش فرمائی۔ جہاد کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد فرمایا۔ کیمپوں کا خود جا کر معائنہ فرمایا اور اشیاء صرف تقسیم فرمائیں
1965ء کی پاک بھارت جنگ:- 1965
ء کی جنگ میں آپ نے نمایاں کردار ادا فرمایا۔ آپ نے مورچوں پر جا کر مجاہدین اسلام کی حوصلہ افزائی کی۔ گرانقدر دفاعی فنڈ دیا اور مہاجرین کے لیۓ خوراک، لباس اور اشیاۓ صرف کا سامان تقسیم فرمایا اور اپنے عقیدت مندوں کو ہر قسم کے تعاون کا حکم فرمایا۔ آپ کا حلقہ ارادت اندرون اور بیرون ملک بہت وسیع تھا۔ ہزارہا مسلمانوں نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ جس جگہ تشریف لے جاتے ذکرواذکار کی محافل قائم فرما کر مریدین
اور معتقدین کو روحانی غذا مہیا فرماتے۔ ان محافل نیں عجیب قسم کی روحانیت اور کیفیت ہوتی تھی۔ آپ کی زیارت کرنے والا اپنے دل پر ایک اثر محسوس کرتا تھا۔
وصال:- مئی 1969ء بوقت نماز عصر لاہور میو ہسپتال میں وصال فرمایا۔ دربار عالیہ ڈھوڈا شریف میں اپنے والد ماجد حضرت پیر سید امیر علیہ الرحمۃ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔