انقلاب....سحر ہونے تک… ڈاکٹر عبدالقدیر خان……3-جنوری-2011_ 5
انقلاب...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیر خان…دوسری و آخری قسط …4-جنوری-2011_ 6
انقلاب۔نام و حقیقت... سحر ہونے تک … ڈاکٹر عبدالقدیر خان…10-جنوری-2011_ 7
گنج ہائے گرانمایہ... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……17-جنوری-2011_ 11
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…24-جنوری-2011_ 14
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……31-جنوری-2011_ 16
تعمیر اور تباہی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……7-فروری-2011_ 18
مَاتَ الیہُودی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…14-فروری-2011_ 20
آپس کی باتیں... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…21-فروری-2011_ 22
حکیم محمد سعید ۔ فقیدالمثال محبّ وطن...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…28-فروری-2011_ 24
سُنو اے ساکِنا نِ خاک وپستی... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……7-مارچ-2011_ 27
سُنو اے ساکِنا نِ خاک وپستی... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان... (گزشتہ سے پیوستہ)…8-مارچ-2011_ 28
پاکستان ۔ خطرناک چوراہے پر...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…14-مارچ-2011_ 29
پاکستان ۔ خطرناک چوراہے پرسحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان... (گزشتہ سے پیوستہ)…15-مارچ-2011_ 30
دیکھو، سنو اور سمجھو...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…21-مارچ-2011_ 31
تکلیف دہ واقعات....سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……28-مارچ-2011_ 33
نومولود عیسائی انتہا پسند...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……4-اپریل-2011_ 35
فقید المثال غالب...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……11-اپریل-2011_ 37
جہالت و تعلیم... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……18-اپریل-2011_ 39
تکلیف دہ تبصرہ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……25-اپریل-2011_ 41
جہالت اور ڈھٹائی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……2-مئی-2011_ 43
جمہوریت۔ ایک مذاق!...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…9-مئی-2011_ 45
ٹیپو سلطان ۔ ناقابلِ فراموش ہیرو...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…16-مئی-2011_ 47
کاش آپ ہوتے...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…23-مئی-2011_ 49
سنہرا خواب یا سراب …سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…30-مئی-2011_ 51
معصوم عوام ۔ معصوم خوشیاں...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…6-جون-2011_ 53
”شرم تم کو مگر نہیں آتی“...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…13-جون-2011_ 55
ذیابیطس ۔ ایک مہلک بیماری...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……20-جون-2011_ 57
ذیابیطس ۔ ایک مہلک بیماری...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان... (دوسری و آخری قسط)…21-جون-2011_ 59
اِنقلاب ۔ علی مسعود کا ساتھ دو...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…27-جون-2011_ 60
”تم ہو پاسبان“ ۔I... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……4-جولائی-2011_ 62
”تم ہو پاسبان“ II... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……11-جولائی-2011_ 64
عدلیہ۔ انصاف، حکومت ۔ I... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……18-جولائی-2011_ 66
عدلیہ۔ انصاف، حکومت ۔ II......سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……25-جولائی-2011_ 68
گندی سیاست۔ ناکام حکومت...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……1-اگست-2011_ 70
بَد اعمال ۔ بَد انجام...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……8-اگست-2011_ 72
” بَد اعمال ۔ بَد انجام“...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…(گزشتہ سے پیوستہ) …9-اگست-2011_ 74
”تم جس پہ نظر ڈالو۔ اس ملک کا خدا حافظ“... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…15-اگست-2011_ 75
جنوں سے ا و رعشق سے ملتی ہے آزادی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…22-اگست-2011_ 77
رمضان المبارک اور بد اعمالی سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……29-اگست-2011_ 79
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……5-ستمبر-2011_ 81
چار جانب گونجتی آواز کے تیور سمجھ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……12-ستمبر-2011_ 83
بے نیازی حد سے گزری...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…19-ستمبر-2011_ 85
ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…26-ستمبر-2011_ 87
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……3-اکتوبر-2011_ 89
“ﻣﺴﺌﻠہ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ اور ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ” ﭘﺎرٹ I... ﺳﺤﺮ ٫ﻮﻧﮯ ﺗﮏ…ڈاﮐﭩﺮ ﻋﺒﺪاﻟﻘﺪﯾﺮﺧﺎن…10-اکتوبر-2011 91
“ﻣﺴﺌﻠہ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ اور ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ” ﭘﺎرٹ II... ﺳﺤﺮ ٫ﻮﻧﮯ ﺗﮏ…ڈاﮐﭩﺮ ﻋﺒﺪاﻟﻘﺪﯾﺮﺧﺎن…17-اکتوبر-2011 93
دار ور سَن کی آزمائش ہے...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……24-اکتوبر-2011_ 96
اِلزام تراشی کا رواج...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……31-اکتوبر-2011_ 98
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند....سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……7-نومبر-2011_ 99
اَب لکیر پیٹا کر ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان……14-نومبر-2011_ 102
شرمناک بہتان تراشی...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…21-نومبر-2011_ 103
شرمناک بہتان تراشی... سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان... (گزشتہ سے پیوستہ)……22-نومبر-2011_ 106
انمول جواہر...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…28-نومبر-2011_ 107
انمول جواہر...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان... (گزشتہ سے پیوستہ)……29-نومبر-2011_ 108
اِنسانی ذہنیت، خود فریبی، نفسیات...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…5-دسمبر-2011_ 109
16 دسمبر 1971 کو مت بھولو!...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…12-دسمبر-2011_ 111
کمر کا درد ۔ لازمی فوری علاج کی ضرورت پارٹ I ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…19-دسمبر-2011_ 114
کمر کا درد ۔ لازمی فوری علاج کی ضرورت پارٹ II ...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان…26-دسمبر-2011_ 116
کچھ عرصے سے پاکستان میں عوامی انقلاب کی ضرورت اور آمد سے خبردار کیا جارہا ہے ۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو موجودہ ملکی مشکلات اور پسماندگی کا ذمّہ دار ٹھرایا جارہا ہے اور باربار عوامی انقلاب اور سول نافرمانی کی بات ہورہی ہے۔ اس لفظ نے مجھے فوراً مشرقی پاکستان میں ہونے والی سول نافرمانی کی یاد دلادی۔ اس منظم تحریک نے یحیٰ خان کی حکومت اور پاکستان کی کمر توڑ دی تھی۔ اسی قسم کی تحریک نے پی این اے کی سرپرستی میں بھٹو صاحب کو نہ صرف تخت سے اتروایا بلکہ پھانسی بھی دلوادی۔
قبل اس کے کہ میں پاکستان میں انقلاب کی اشد ضرورت کی بات کروں آپ کو دو چار باتیں لفظ انقلاب کے بارہ میں بتلانا چاہتا ہوں۔ تعلیمافتہ لوگ اس لفظ سے یقینا آشنا ہیں اور تاریخی واقعات یعنی انقلابات سے بھی آگاہ ہیں مگر میں یہ باتیں یا تشریح اُن اسی فیصد عوام کے لئے لکھ رہا ہوں جو اس لفظ اور تاریخی واقعات سے واقف نہیں ہیں۔ لفظ انقلاب کے معنی تغیّرو تبدّل و بنیادی تبدیلی کو بھی کہتے ہیں اور یہ حکومت کی تبدیلی ہوتی ہے جو عوامی طاقت کے ذریعہ عمل میں لائی جاتی ہے اس کا بیج حکمراں اپنی نااہلی، ظلم وستم، رشوت ستانی، بے روزگاری، مہنگائی اور اشیائے خوردونوش کی نایابی یا کمی کے ذریعہ بوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اگر فرانسیسی انقلاب کا حوالہ دیاجائے تو دراصل اس انقلاب کو عوام کی قوّت سے جابر حکومت کی تبدیلی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد روس میں،پھر چین میں، پھر مشرقی پاکستان میں اور پھر ایران میں عوام کی سول نافرمانی کی تحریکوں کی وجہ سے انقلابات ظہور پزیر ہوئے اور حکومتیں بدل دی گئیں۔
(۱)فرانسیسی انقلاب ۔ فرانسیسی انقلاب کی ابتدا 1789 میں ہوئی اور یہ سلسلہ دس سال یعنی 1799 تک جاری رہا۔ تین سال کے اندر ہی ایک جابر اور خود مختار شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1792 میں جمہوریت کا اعلان کیا گیا اور شہنشاہ فرانس لوئی شش دہم کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت برسوں کی جابرانہ حکومتوں نے ملک کو معاشی طور پر اور اقرباپروری کے ذریعہ تباہ کردیاتھا۔ بے روزگاری اور مہنگائی عروج پر تھی۔ 1792 میں ہی ملک کو ایک جمہوریت قرار دیدیا گیا۔ جمہوریت کے اعلان کے بعدحالات تیزی سے بدلنے لگے اور فرانسیسی افواج نے فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا اور پورے اٹلی کو فتح کرلیا۔ ملک جو بے حد مقروض تھا اور دیوالیہ ہوگیا تھا سنبھل گیا۔ شہنشاہ لوئی ایک مطلق العنان و جابر حکمران تھا اور اسکی آسٹرین ملکہ میری اَنتوانیت بہت بدنام تھی اور فضول خرچی کے لئے مشہور تھی۔ انقلابیوں نے اس کو بھی 1793 میں قتل کردیا۔ جب کسی ملک میں انقلاب آتا ہے تو قتل و غارتگری بھی ہوتی ہے۔ یہ انقلاب بھی خونی تھا اور اس میں تقریباً پچیس، تیس ہزار مخالفین قتل کردئے گئے تھے۔ ممکن ہے کہ اس میں بہت سے بیگناہ، معصوم بھی شامل ہوں۔ ملکہ میری کے بارہ میں اس کے دشمنوں نے یہ غیر مصدقہ خبر اڑادی تھی کہ جب لوگ بھوکے مررہے تھے اور فاقہ کشی کررہے تھے اور اس کو بتلایا گیا تھا کہ لوگوں کو روٹی میسر نہیں ہے تو اس نے ازراہ تمسخر کہدیا تھا کہ پھر وہ کیک کھائیں۔ اس پروپیگنڈہ نے بھی عوام کو اس کے خلاف کردیا تھا۔
جمہوریت کی آمد اور فتوحات کا یہ اثر نکلاکہ 1799 میں نپولین ملک کا سربراہ بن گیا اور اس نے فرانس کو یورپ کا طاقتور ترین ملک بنا دیا اور یورپ کے لاتعداد ملک فتح کرلئے مگر آخر کار اللہ کی گرفت میں آگیا ۔ پہلے روس میں شکست ہوئی اور پھر انگریزوں سے شکست کھا کر جلاوطن ہوا اور قیدی کی حیثیت سے مر گیا۔ یہاں یہ بات قابل بیان ہے کہ فرانسیسی اِنقلاب کو دنیا کے دوسرے ممالک نے اَپنا کر جمہوریت کا آغاز کیا۔
روسی انقلاب ۔ روسی عوام نے ایک سو سال سے بھی زیادہ وقت اپنے جابر اور ظالم حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے اور انقلاب لانے میں صرف کیا۔ انگلستان اور جرمنی کی طرح روس میں بھی بادشاہت یا شہنشائیت تھی اور روس کا حکمراں زار نکولاس نہ صرف ان کا رشتہ دار تھا بلکہ نہایت ہی سخت اور جابر حکمراں تھا۔ ملک میں سخت بد انتظامی تھی، رشوت ستانی اور اقرباپروری عروج پر تھی۔ عوام روزمرہ کی اشیاء سے محروم تھے۔ زار کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل پہلی جنگ عظیم نے ٹھونک دی۔ شروع شروع میں عوام نے اتحاد کا ثبوت دیا لیکن 1914 میں تانین برگ کی لڑائی میں جرمنوں کے خلاف تیس ہزار سپاہی مارے گئے اور نوّے ہزار سپاہی قیدی بن گئے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ 1916تک روس کے سولہ لاکھ سپاہی ہلاک ہوگئے اور بیس لاکھ قیدی بنا لئے گئے۔ روسی فوج ہر فرنٹ سے پسپا ہورہی تھی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، اشیائے خورونوش عنقا ہوگئیں۔ مہنگائی عروج پر پہونچ گئی ، بیروزگاری آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ یہ وہ تمام چیزیں تھیں جو ایک انقلاب کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ جب لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے تو زار نے فوج کو حکم دیا کہ ان کو کچل دیں۔ فوج میں بغاوت ہوگئی اور 1917 مارچ کے مہینہ میں بغاوت نے شدّت اختیار کرلی اور ایک عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ اکتوبر کے مہینہ میں اس کی رہنمائی بولشیوک حکومت یعنی کمیونسٹوں نے سنبھال لی۔ اس کے بعد کمیونسٹوں اور غیر کمیونسٹوں میں سول جنگ چھڑگئی مگر آخر کار کمیونسٹ کامیاب رہے اور سوویٹ سوشلسٹ ری پبلکس کی بنیاد ڈال دی گئی۔
اس تمام عذاب اور لعنت کی ذمّہ داری زارنکولاس پر ڈالدی گئی۔ 1917 میں زار کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ایک سال بعد ہی زار اور اسکے پورے خاندان کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ روس میں انقلاب کی وہی وجوحات تھیں جو فرانس میں تھیں مگر روسی بدقسمت نکلے کہ یہاں پر کمیونسٹ حکومت نے زار سے بھی زیادہ مظالم ڈھائے اور لاکھوں افراد کو قتل کردیاگیا اور شہر بدر کردیا گیا۔ تقریباً پچاس سال بعد حالات بہترہونا شروع ہوئے اس میں مزید تیس سال اور لگے کہ روسی عوام نے آزادی کی سانس لی۔ اس انقلاب کی رہنمائی لینن نے کی تھی۔
(۳)چینی انقلاب۔ روسی انقلاب کے بر خلاف چینی انقلاب بمشکل تیس سال میں آگیا۔ چین کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک نے اور چین کے حکمرانوں نے چینی عوام کو دنیا کے مظلوم ترین عوام میں تبدیل کردیا تھا۔ غربت، بھوک، مہنگائی، اشیائے خور و نوش کی عدم دستیابی نے عوام کو سخت مشکلات و تکالیف میں ڈال دیا تھا۔ روس میں عوامی انقلاب نے چینی عوام کے حوصلے بلند کردئیے۔ یہاں بھی خفیہ طور پر کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالدی گئی۔ مغربی ممالک نے چین کو ذاتی جائداد سمجھ کر آپس میں حصّے بقرے کرلئے تھے۔ روس کے انقلاب کے بعد چین میں ماؤزے تنگ نے بھی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالدی تھی اور چند علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیاتھا۔ چین میں مغربی پٹھو مارشل چیانگ کائی شیک نے اپنی پوری قوّت چینی کمیونسٹوں کو ختم کرنے میں لگادی تھی اور لاتعداد افراد کو قتل کردیا تھا۔ قدرت نے مداخلت کی اور جاپان نے 1937 میں چین پر حملہ کردیا۔ مجبوراً چیانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں سے مل کر ایک متحدہ محاذ بنایا اور جاپانیوں کے خلاف جنگ شروع کردی اور اس میں انھیں خاصی کامیابی بھی ہوئی۔ ماؤزے تنگ نے 1928 میں ریڈآرمی کی بنیاد ڈالدی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چیانگ کائی شیک نے مغربی ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر پھر کمیونسٹون کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی مہم شروع کردی۔ لیکن چینی عوام میں اب خود داری اور غیرت کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ عوام جوق در جوق ماؤزے تنگ کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ امریکی بھاری امداد کے باوجود ماؤزے تنگ کی فوجوں نے 1948 میں چیانگ کائی شیک کی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دیدی۔ (جاری ہے)
اوروہ اپنا تاریک مقدر دیوار پر لکھا دیکھ کر اپنے ساتھیوں سمیت تائیوان فرار ہوگیا۔ اور مارچ 1949 میں ماؤزے تنگ اپنی فاتح افواج کے ساتھ پیکنگ میں داخل ہوئے، حکومت کا نظام سنبھالا، امن و امان قائم کیا اور یکم اکتوبر 1949 کو چین کی آزادی اور نئی حکومت کا اعلان کردیا۔ چینی عوام نے اپنی آزادی اور حقوق کے لئے بے انتہا قربانیاں دیں، لاکھوں افراد نے جان دی، 1935 کی چھ ہزار میل لانگ مارچ میں تقریباً دو لاکھ فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کردی تھیں۔ انقلاب، آزادی اور موجودہ خوشحالی کے لئے چینی عوام کی قربانیاں، محنت اور جدوجہد مثالی ہیں اور قابل تقلید ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے لانگ مارچ اور چینی افواج کے کئی جنرلوں سے ملاقات کی ہے اور ان سے تاریخ کے اس اہم واقعہ کے بارہ میں ذاتی عملی تجربوں کے بارہ میں سنا ہے۔ 9ستمبر 1976کو چیرمین ماؤزے تنگ کے انتقال کے دن میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ پیکنگ میں تھا اور میں نے وہاں مردوں،عورتوں، بوڑھے، جوانوں اور بچوں کو اسی طرح روتا دیکھا تھا جسطرح ہمارے عوام قائداعظم کے انتقال پر روئے تھے۔
(۴)ایرانی انقلاب۔ چینی کامیاب انقلاب کے بمشکل تین سال کے اندر ہی ایرانی عوام نے شہنشاہ ایران کی جابرانہ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس انقلاب کی رہنمائی محب وطن ڈاکٹر محمدمُصدّق اور ان کے ساتھ ڈاکٹر فاطمی نے کی۔ چونکہ ڈاکٹرمُصدّق نے تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا امریکی اور برطانوی سامراجی قوتوں نے فوج کے غدّار افسران کو ملاکر اس حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ مصدق کو جیل میں ڈالدیا گیا، فاطمی کو قتل کردیا گیا اور بھاگے ہوئے شاہ کو واپس لاکر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ شاہ اب امریکہ کا غلام بن گیا اور اس نے نہایت جابرانہ اور ظالمانہ نظام مملکت رائج کردیا۔ مخالفین کی گمشدگی اور قتل، خفیہ ایجنسیوں کی غنڈہ گردی ولاقانونیت نے عوام کو شہنشاہ کا دشمن بنادیا۔ آہستہ آہستہ عوام امام خمینی کے پیچھے جمع ہونا شروع ہوگئے اور 1963 میں یہ ہر دلعزیز لیڈر بن گئے۔ ملک میں شاہ کے خلاف فسادات ہوئے اور پولیس اور فوج نے تقریباً پندرہ ہزار افراد کو شہید کردیا۔ 1964 میں شاہ نے امام خمینی کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیا ۔ وہ چودہ سال ملک بدر رہے، پہلے عراق میں اور پھر فرانس میں قیام پزیر رہے ۔ اُنھوں نے وہیں سے شہنشاہ کی جابرانہ حکومت کے خلاف عوام کی رہنمائی کی، جہاد جاری رکھا اور آخر کار 16 جنوری 1979کوشاہ معہ اپنے اہل و عیال ایران چھوڑ کر چلا گیا۔ ملک میں جشن ِسماں قابل دید تھا۔ یکم فروری 1979 کو امام خمینی پیرس سے تہران پہونچے جہاں لاکھوں افراد نے والہانہ استقبال کیا۔ یہ انقلاب عوام پر ظلم و ستم اور جابرانہ حکومت اور خفیہ اداروں کی قانون کی دھجیاں اُڑانے کی وجہ سے آیا تھا۔ عوام نے قربانیاں دی تھیں اور ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھائی تھی اور مزاحمت کی تھی۔ صرف باتوں اور اعلانات نے یہ حاصل نہ کیا تھا۔
دنیا کے کئی اور ممالک میں عوام نے بے حد قربانیاں دے کر آزادی اور خود مختاری حاصل کی ہے ان میں خاص طور پر الجیریا اور کینیا قابل ِذکر ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بھی ظلم و جبر کے خلاف عوام انقلاب لائے تھے۔
(۵)پاکستان ۔ انقلاب کی ضرورت:۔ اس وقت پاکستان میں جو حالات ہیں وہ وہی ہیں جو ان ممالک میں تھے جہاں عوام نے حکومت وقت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ ایک بُرائی یا بیماری ہو تو انسان اس کا ذکر کرے یہاں سر نہیں پوری مچھلی گل سڑ چکی ہے۔ لاقانونیت، بے روزگاری، مہنگائی، رشوت ستانی، اقرباپروری، پولیس اور خفیہ اداروں کی کھلے عام غنڈہ گردی اور لاقانونیت ، ملاوٹ، بلیک مارکٹنگ، ذخیرہ اندوزی، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان غرض دنیا کی ہر لعنت اور برائی اس ملک میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ غیر ممالک کی دخل اندازی ، ان کے احکامات کی تعمیل ، ملکی خود مختاری اور غیرت کا فروخت صف اوّل میں ہیں۔ جس انقلاب کی آج ضرورت محسوس کی جارہی ہے ،اس کی تکمیل کے لئے پچھلے انقلابات کی طرح قربانیاں دینا ہونگی، اور وہی طریقہ کار استعمال کرنا ہوگا جو دوسرے ممالک نے کیا تھا۔کیا بدقسمتی سے ہماری قوم میں اکثریت اس قدر بے حس، بے شرم و بے غیرت ہو گئی ہے کہ اس کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے، ہرقسم کی تکلیف اور لعنت سے نوازا جاتا ہے مگر جابر، ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے، یہ بلیک میں میں آٹا اور چینی خریدنے کی کوشش میں جان دینا پسند کرتے ہیں مگر ظالموں اور جابروں کی جان لینے کی ہمّت نہیں رکھتے، یہ راشیوں، چوروں اور منافقوں اور قاتلوں کو سجدہ کرتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں ڈرتے۔ یہ ظلم و ستم کے آگے سر جھکاتے ہیں اور روتے ہیں مگر ظلم و ستم کرنے والوں کی گردن نہیں پکڑتے۔ پاکستانی قوم اس وقت نہایت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسی طرح بے عزّتی و غلامی میں زندگی گزارے گی یا کھڑے ہو کر اپنی عزّت و وقار اور حقوق کے لئے اپنے دشمنوں کی گردن پکڑکر انھیں ذلیل و خوار کرکے ملک سے باہر پھینکدے گی یا تختہ دار پر بٹھادے گی۔ اگر اس ملک میں کوئی دیانت دار عوامی قیادت ہے تو ورنہ عوامی انقلاب اور سیلاب آیا تو بہت سے خودپسندوں کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ان بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان کو خود اب میدان میں آجانا چاہئے۔ اے بہادر نوجوانوں یہ ملک ، یہ قوم آپ کو بلا رہی ہے کہ آپ اُٹھیں اور یہ تبدیلی لائیں۔
اپنے پچھلے کالم میں آپ کو میں نے ضرورت انقلاب اور اسکے لئے موجودہ موافق حالات کے بارے میں بتلایا تھا۔ آجکل لفظ انقلاب زیادہ تر مخالف پارٹیوں کی زبانی ہی سنائی دے رہا ہے۔ الطا ف حسین چند ماہ سے اس کا نعرہ لگا ر ہے ہیں اور عمران خان نے بھی اس کی آمد سے ڈرانا شروع کر دیا ہے۔ نواز شریف صاحب نے حسب معمول قوم کو درپیش لاتعداد مسائل کو نظر انداز کر کے ایم کیو ایم پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دس سال آمروں کے ساتھ رہنے والے انقلاب کیا جانیں ۔ ایم کیو ایم نے جواباََ میاں صاحب کی خبر لے ڈالی کہ ضیا ء الحق اور جیلانی کے دودھ سے پروردہ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔ مگر انقلاب ان سب چہروں سے بیزارا،نئی نسل کے دل میں پل رہا ہے ہمارے ایک شاعر اسد بھوپالی نے انقلاب کے بارے میں اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا ہے:
انقلابات آ ر ہے ہیں اسد
جانے کیا ہو گا تاجداروں کا؟
سیاسی لیڈروں کی تقریروں میں انقلاب اور تبدیلی کی بہت باتیں ہوئی ہیں وہ جب بھی کسی مخالف پر تنقید کرتے ہیں یا تبدیلی کی خواہش کرتے ہیں تو زیب داستان کے لئے اُن سے یہ سننا ہی پڑتا ہے۔ یہ ایسا جامع لفظ ہے کہ ہندوستان کے لوگو ں نے جب اردو و فارسی کے بدلہ ہندی لفظ کی تلاش کی تو اس کا کوئی نعم البدل ہندی یا سنسکرت میں نہ مل سکا اور مجبوراََ وہ بھی یہی لفظ ا”انقلاب “ستعمال کرنے لگے۔ میرا یقین ہے کہ انقلاب کسی کی خواہش یا سازش سے نہیں آتا ۔ہاں مگر نقلاب ایک حادثے کی صورت ،کہیں نہ کہیں پرورش پا رہا ہوتا ہے ۔بقول شاعر
وقت کرتا ہے پر ورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آپ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ”انقلاب ایک دم نہیں آتا“انقلاب کے بانی کارکن و شرکا ء غریب ، مجبور ، مظلوم عوام ہوتے ہیں۔ اس کے پیدا کرنے کے ذمہ دار امیر، راشی، ظالم ، طاقتور اور خائن حکمران ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ پچھلے ظالم و جابر حکمران جو خو د کو ناخد ا سمجھ بیٹھے تھے ان کا انجام تاریخ بن گئی ہے۔ جس طرح سیلا ب چھوٹی بڑی چیزوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے یہ عوامی سیلاب یعنی عوامی انقلاب بھی ہر مخالف اور راستہ میں آنے والی رکاوٹ کو صفحہ ہستی سے ناپید کر دیتا ہے۔ ہندوستان کے سیاست دان اور عربی کے عالم مولانا ابوالکلام کیاخوب کہا کرتے تھے کہ ہرناکام انقلاب، بغاوت اور کامیاب بغاوت، انقلاب ہے۔ جب حکمرانوں کے مظالم اور کردار ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں اور عوام بے بس و مجبور ہو کر صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں جس طرح حکمراں اور حزب اختلاف نورا کشتی میں مبتلا ہیں ۔ اس سے عوام کی تکالیف اور مشکلات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ عوام کی شکایا ت کا مداوا صرف انقلاب رہ گیا ہے اور یہ عوام اور حالات پر منحصر ہے کہ پر امن انقلاب آتا ہے یا خونی انقلاب۔ مشہور اردو شاعر فراق گورکھپوری نے کہا تھا، ”دیکھ رفتار انقلاب اے دوست کتنی آہستہ اور کتنی تیز“۔ آہستہ اس لئے کہا کہ ظلم و جبر ایک آہستہ رفتارسے طویل عرصہ تک ہوتے ہیں مگر جب انقلاب آتا ہے تو ایک سیلاب ، طوفان اور زلزلہ کی طرح آتا ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے اور بڑے بڑے غیور سر قلم کر دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے کوئی رونے والا نہیں ملتا۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ عوام بے حد غریب اور کم تعلیم یافتہ یا ان پڑھ ہیں اور سیاسی عیاریوں کو سمجھتے نہیں ہیں ۔ ان کے نمائندے جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ با اثر ، مالدار اور عیار ہوتے ہیں اور ان کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ الیکشن جیت کر دولت کمائیں۔ اس مقصد کے لئے وہ ہر ناجائز کام کو جائز سمجھتے ہیں ۔ پرانی بات ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر اندرا گاندھی سے کسی نے شکایت کی تو اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ ہندوستان میں تو کئی ممالک سے زیادہ ارزانی ہے لوگ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ محترمہ یہ بھول گئی تھیں کہ دوسرے ممالک میں تنخواہیں بہت زیادہ تھیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہندوستان میں پیاز ، لہسن وغیرہ کی قیمتیں بڑھ گئیں تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت نے فوراََ قیمتیں کم کرا دیں ورنہ تختہ اُلٹ جاتا۔ مگر ہمارے ملک میں لاٹھیاں اور جوتے کھا کھا کر عوام کی غیرت و حمیت ختم ہو گئی ہے اور روزمرہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوتا ہے اور یہ صرف رونے دھونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ نہ باہر نکلتے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کا گریبان پکڑتے ہیں۔ یہ لاچار اپاہج مویشی کی طرح بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی ان کے منھ میں رزق و کھانا ڈال دے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ شاید ہی دنیا میں اس پاکستانی قوم سے بے حس ، بے جان قوم ہو گی جو حکمرانو ں کے ہاتھوں روز ذلیل و خوار ہوتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں، بے روزگار ہیں، بجلی او رگیس کی لوڈ شیڈنگ کے شکار ہیں، مہنگائی کے بوجھ سے دب کر مر رہے ہیں مگر ماشاء اللہ زبان پر حرف شکایت نہیںآ تا ہے ۔ جس قوم میں جذبہ و جوش ِ مر جائے وہ جانوروں سے بد ترہے ۔ نوجوان طبقہ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کمر بستہ ہوں اور اس ملک کو چوروں سے نجات دلاے۔
مجھے اپنی جوانی کا جذبے سے بھرپور دور یاد آئے چلا جارہا ہے ،خاص طور پر انقلابی اشعار پڑھ کر بہت ولولہ ملتا تھا،یوں تو برصغیر ہمیں لاتعداد انقلابی شاعر پیدا ہوئے مگر ان میں سر فہرست علامہ اقبال ، اکبر الہ آبادی ، حسرت موہانی ، حالی اور موجودہ دور میں مخدوم محی الدین ، فراق گورکھپوری، جوش ملیح ا ٓبادی ، مجنوں سلطان پوری، مجاز ، فیض،فراز # اور جالب# قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال ، اکبر الہ آبادی ، حسرت موہانی اور حالی کا تمام کلام مسلمانوں کو اپنی ثقافت ، سنہری روایات و اخلاقی اقدار کی یاد دہانی کرانا اور ان پر عمل کرنے کی ہدایات اور نصیحتوں پر مشتمل تھا اور ساتھ میں اس پر بھی زور دیا کہ مسلمانوں کو حالات حاضرہ کے مطابق بھی خود کو سانچے میں ڈھالنا ہے یعنی جدید تعلیم و فنون کو بھی سیکھنا ہے۔ ان سب میں نظام حکومت کو بزور قوت یا تشدد تبدیل کرنے کا کوئی مشورہ نہیں دیتے ۔ اس کے برعکس زیادہ تر جدید شعراء نے عوامی انقلاب لانے کے لئے اپنی قوت استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار یاد آتے ہیں کہ :
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو
جوش کی بغاوت ایک ہاتھ آگے تھی ،جب انگریزوں نے ان کو جیل ڈال دیا تو کہا کہ :
بکنگھم کی خبر لینے جو ،اب کی بار تو جانا
ہمارے نام سے بھی ایک گولہ پھینکتے آنا
فرنگی سامراجی راج کے بعد،پاکستان کے ظالم،آمر حکمرانوں کی باری آتی ہے۔تو سب سے پہلے فیض یاد آتے ہیں کہ
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
لیکن فیض کی اک نظم نے تو دل ہی جیت لیا ،خاص طورپر اقبال بانو کی سریلی آواز میں سن کر سب عش عش کر اٹھتے تھے ،اپوری نظم ہی شاندار ہے مگر میں صرف چند اشعار اکثر گنگناتا ہوں :
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
جو من بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
روح کو گرمادینے کا تسلسل جاری رہا اور ماضی قریب میں ہمارے مرحوم دوست و ہر دلعزیز شاعر احمد فراز کی آوازیں آنے لگتیں ہیں:
جب ساز سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے
دیکھئے جس پاکستان کا خواب ہم نے دیکھا تھا یہ وہ پاکستان نہیں، اب تو تعمیر نو کے سو اکوئی چارہ بھی نہیں،یوں مرحوم منیر نیازی کا ایک شعر میری جانب لپکتا ہے ،یہ شعر جو انہوں نے شہر کے بارے میں کہا تھا میں معذرت کے ساتھ شہر کے بجائے ملک لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔:
اس ملک سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہئے
سنگ دلی کا اشار ہ حکمرانوں کے کردار کی جانب ہے۔ دو اور نہایت معنی خیز اشعار بیان کروں گا۔ یہاں بھی شہر کی جگہ ملک لکھ رہاہوں۔
دو طرح کے عیب ہیں اس ملک کی تعمیر میں
جن سے آتی ہے خرابی ملک کی توقیر میں
فخر انساں قید ہے اس خوشنما، زنجیر میں
مستقل شرمندگی کے مستقل اظہار ہیں
انقلاب کی بات ہو اور حبیب جالب یاد نہ آئیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے جیلیں بھی کاٹیں اور بہت مشکلات برداشت کیں،میں انہیں خصوصاً خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہوں گا
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیار ے بہ اجازت لکھنا
ان کے چند اور اشعار جو اب تک کے حکمرانوں کے بارہ میں صادق آتے ہیں :
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمھیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
یہ شعر دیکھئے کتنا دردناک اور حقیقت پر مبنی ہے:
قدم قدم پہ یہاں پر ضمیر بکتے ہیں
مرے عظیم وطن تجھ پہ رحم آتا ہے
جالب نے انقلاب کی دعوت یوں دی ہے اور اپنے حق کو حاصل کرنے پر یوں زور دیا ہے۔ میں نے سامراج کے بجائے
حکمرانوں لکھ دیا ہے :
جینے کا حق حکمرانوں نے چھین لیا
اُٹھو! مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو
کاش یہ انقلاب پُرامن طریقے سے آجائے اورمیری دعا یہی ہے کہ ملک ایک خونریز انقلاب سے بچ جائے لیکن اگر مخالف پارٹیوں نے پھر ملکی مفاد کے خلاف پالیسی پر عمل کیا تو پھر جلد ہی نوجوان طبقہ کو اور مظلوم عوام کو قوت بازو کے بل بوتے پر اس کرپٹ اور نا اہل نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکنا ہو گا ۔ ہر ظالم و جابر حکمراں اس نشے میں رہتا ہے کہ عوام کچھ نہ کر پائیں گے مگر تاریخ اس کو غلط ثابت کرتی رہی ہے۔ ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں۔ 1976ء میں جب مجھے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تو میں نے ہالینڈ کی اپنی پرانی کمپنی کے ایک پورٹ منیجر کو پاکستان بلایا کہ اس کمپنی سے کچھ ضرورت کا سامان خرید سکوں۔ میں نے اس کو اپنے گھر میں ٹھہرایا ۔ میں اس کو روز اپنے ساتھ پنڈی آفس لیجایا کرتا تھا۔ راستہ میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، گدھا گاڑیاں ، ٹوٹی پھوٹی دکانیں، کھوکھے وغیرہ دکھا کر میں نے اسے کہا کہ ہمارا ملک بہت پسماندہ ہے اور ہم صرف کچھ ریسرچ کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے چند پڑھے لکھے لوگوں کو مصروف رکھ سکیں۔ کوئی خاص مقصد حاصل نہ ہو سکے گا ، اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا کہ ہاں یہ پسماندہ ملک ہے مگر تم جیسے اگر دس پندرہ لوگ جمع ہو جائیں تو یہ کام یقینا کر لیں گے اور مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ تیرہ چودہ کروڑ کی آبادی میں تم یقینا ایسے لوگ تلا ش کر لو گے۔ میں نے اس سے بہت اہم سامان خرید لیا تھا ۔ اس واقعہ نے مجھے مشہور ماہر بشریات یعنی انتھریالوجسٹ مارگریٹ میڈ کا یہ سنہری قول یا د آ گیا کہ ، ” یہ کھبی شک نہ کرنا کہ ایک چھوٹا گروپ جو سمجھدار ، سنجیدہ اور فکر انگیز اور ذمہ دار افراد پر مشتمل ہو تاریخ بدل سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی نے یہ کام کیا ہے۔“ مطلب یہ کہ چند پر عز م اور فکر انگیز افراد اگر مصمم ارادہ کر لیں تو وہ تاریخ بدل سکتے ہیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب ہمارے ملک میں ایسے لوگ آگے آئیں گے اور نئی تاریخ لکھیں گے۔
دسمبر کے اواخر میں، یومِ قائد اعظم کے موقع پر، اسلام آباد میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسس کے آڈیٹوریم میں پاکستان کے سن رسیدہ اور نہایت تجربہ کار شہریوں کا سالانہ جلسہ ہوا۔ اس مقدس ادارہ کا نام Senior Citizens Foundation of Pakistan ہے۔ میرے لئے اس کا صدر ہونا نہایت باعث عزّت و فخر ہے۔ سابق وفاقی سیکریٹری جناب ایچ ایم چوہان سیکرٹری جنرل ہیں۔
میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ادارہ میں ملک کے سینیئر، قابل اور نہایت تجربہ کار سرکاری اور غیر سرکاری ماہرین شامل ہیں۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ تقریباً بارہ، تیرہ سال پیشتر مجھ کو جبکہ میں عمر رسیدہ کہلانے کا مستحق ہوا تھا ایسے اعزاز سے نوازا تھا۔ آپ اگر ان ممبران کے ناموں اور ان کی سوانح حیات پر نظر ڈالیں تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ ہمارے پاس ہر علم وفن کے اعلیٰ تعلیمیافتہ اور تجربہ کار ماہرین موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے تجربہ اور علم سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جارہا۔ اس ادارہ کا قیام 1987میں ہوا۔ یہ ایک غیر سیاسی، غیرسرکاری فلاحی ادارہ ہے جس کا خاص، اہم مقصد سینیئر یعنی عمر رسیدہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا اور حکومت سے ان کے لئے کچھ سہو لیات حاصل کرنا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے اس نہایت اہم ادارے کو کسی قسم کی مالی امداد نہیں ملتی اور ممبران خود ہی چندہ دے کر اس کے اخراجات اُٹھاتے ہیں۔
اس ادارہ نے ملک کی اہم ترین شخصیات کو ہر سال انعامات سے نوازا ہے۔ پچھلے سال کا انعام مشہور ماہر تعلیم اور ذی عالم جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان کو دیا گیا تھا۔
آپ کو غالباً علم ہوگا کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں، جاپان، کوریا اور چین میں عمر رسیدہ تجربہ کار ماہرین کی خدمات سے بہت استفادہ کیا جاتا ہے۔ تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں، مختلف علوم و فنون کے ادارے بنائے جاتے ہیں اور یہ ماہرین حکومت کو مختلف اہم معاملات پر نہایت مفید مشورے دیتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم، نظام حکومت، معدنیات، معاشیات، مالیات، بنکاری، پانی اور بجلی کے مسائل کو جاننے اور سمجھنے والے تجربہ کار اور غیرملکی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے سند یافتہ ماہرین کے ہوتے ہوئے ان کی خدمات اور مشوروں سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا اور اہم ذمّہ داریاں نااہل بیوروکریٹس کو دی جاتی ہیں جن کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ جب تک موقع ملے سہولتوں سے استفادہ کرو، غیر ملکی دورے کرو اور مزے اُڑاؤ۔
دنیا کی ہر تہذیب میں اور خاص طور پر ہمارے مذہب میں عالموں کی قدر وقیمت و اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ملکہ سبا کا تخت ایک دیو ہیکل جن نے نہیں بلکہ ایک عالم نے پل بھر میں حضرت سلیمان کے سامنے لاکر رکھ دیا تھا۔ ایک صدی سے بھی زیادہ ہوا کہ برطانوی امریکی مشہور ریاضی داں اور فلسفی پروفیسر ڈاکٹر الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ نے یہ سنہری بات کہی تھی جو آج بھی اور قیامت تک واجب العمل رہے گی۔ اُنھوں نے کہا تھا۔
" In the conditions of modern life the rule is absolute: the race which does not value trained intelligence, is doomed. Not all your heroism, not all your social charm, not all your wit, not all your victories on land or at sea, can move back the finger of fate. Today we maintain ourselves, tomorrow science will have moved over yet one more step and there will be no appeal from the judgement which will be pronounced on the uneducated."
یعنی ”آجکل کے ترقی یافتہ زمانے میں یہ اصول حرف آخر ہے کہ وہ قوم جو اپنے تجربہ کار ذی فہم و عقلمند لوگوں کی قدر نہیں کرتی او ر ان کو اہمیت نہیں دیتی اس کے مقدر میں عبرت ناک انجام اور تباہی لکھی ہے۔ تمام بہادری، تمام معاشرتی کشش، تمام ظرافت و تیز فہمی، سمندروں اور زمین پر تمام فتوحات قسمت کا لکھا رتی برابر تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہم آج اگر اپنی زندگی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہیں تو سائنس کل یقیناً ایک قدم آگے بڑھ چکی ہوگی اور اس فیصلے کے خلاف ہم کوئی اپیل نہیں کرسکیں گے جو کہ غیر تعلیم یافتہ اور غیر تجربہ کار قوم کے خلاف دیا جائے گا۔“
یہ بیان بلکہ سنہری نصیحت نہ صرف تجربہ کار، تعلیم یافتہ، ذی فہم اور عقلمند افراد کی خدمات کو بروئے کار لانے کے لئے ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ قوم کو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی میں مسلسل جدوجہد اور پیش رفت کرنے کے لئے بھی ہے۔
اپنے سن رسیدہ ساتھیوں کی مناسبت سے آپ کو نظام الملک طوسی (وزیر اعظم، بلند پایہ مفکر، بے مثال فلسفی اور نہایت بالغ، ذی فہم سیاست دان) کی بیان کردہ حکایت سنانا چاہتا ہوں۔
نوشیرواں عادل ایران کا حکمران تھا۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ شاہی محل میں صرف دو چار درباری ہی رہ گئے تھے نوبت بجانے والے سوگئے تھے کہ اچانک فریاد کرنے والوں کے لئے لگائی گھنٹی بجی۔ نوشیروان نے فوراً دو خادم باہر بھیجے کہ دیکھیں باہر کون فریادی ہے۔ خدّام نے آکر بتلایا کہ وہاں کو ئی نفس نہیں ہے صرف ایک لاغر، بوڑھا گدھا کھڑا ہے جو اپنے بدن کو گھنٹی کی زنجیر سے رگڑرہا ہے اور یہ گھنٹی اس گدھے کے اس عمل سے بجی ہے۔ نوشیروان عادل نے کہا تمھارا خیال غلط ہے معاملہ کی تحقیق کرو گے تو معلوم ہوگا کہ گدھا بھی فریاد ہی لے کر آیا ہے۔ نوشیروان نے دونوں خدّام کو حکم دیا کہ وہ گدھے کو رات کو آرام سے رکھیں، کھانا کھلائیں اور صبح اس کو لے کر بازار جائیں اور لوگوں سے اس گدھے کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اس کو اس سے آگاہ کریں۔ خدّام بازار گئے اور لوگوں سے اس گدھے کے بارے میں جب پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہر شخص اس گدھے کو جانتا ہے اور اس کے حالات سے واقف ہے۔ یہ ایک دھوبی کا گدھا ہے جو اس کو بیس سال تک کپڑے ڈھونے کے لئے استعمال کرتا رہا مگر جب بوڑھا اور کمزور ہوگیا تو دھوبی نے اس کو گھر سے نکال کر سڑک پر چھوڑ دیا۔ کبھی کبھی لوگ رحم کھاکر اس کو کچھ کھانے کو دیدیتے ہیں۔ ڈیڑھ سال سے یہ غریب جانور یوں ہی مارا مارا پھر رہا ہے اور اب تو یہ دو دن سے بھوکا ہے۔ یہ معلومات حاصل کرکے خدّام نے نوشیروان عادل کو جاکر بتادیا۔ اس نے کہا میں نہیں کہتا تھا کہ یہ گدھا ہم سے انصاف مانگنے آیا ہے۔ اس کو آج رات آرام سے رکھو، کھانا دو اور کل اس دھوبی کو چار معتبر آدمیوں کے ساتھ یہاں لے کر آؤ اس کے بعد میں احکامات نافذ کروں گا۔ دوسرے دن دھوبی نوشیروان کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ نوشیروان نے اس کو مخاطب کرکے کہا ۔ ”جب تک یہ گدھا جوان تھا اور تیرا کام کرسکتا تھا، تو اسے چارہ بھی دیتا تھا اور اس کو ٹھیک بھی رکھتا تھا اور اب جب کہ یہ بوڑھا ہو گیا ہے اور تیرا کام کرنے سے قاصر ہے توتوُ نے اس کا چارہ تک بند کردیا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ جب تک یہ گدھا زندہ رہے دھوبی اس کو چارہ دے اگر اس نے اس میں کوتاہی کی تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ چار معتبر آدمی اس پر نگاہ رکھیں۔“
اس حکایت کا اخلاقی نتیجہ یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو اپنے سن رسیدہ، کمزور اور ضرورت مندوں کا خیال کرنا چاہئے۔ ان کو دھوبی کے گدھے کی طرح سڑکوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ انہوں نے اپنی تمام کارآمد زندگی اس ملک کی خدمت میں گزاری ہے۔دیکھئے دنیا کے کئی ممالک میں سینیئر شہریوں کو لاتعداد سہولتیں دی گئی ہیں۔ شہرمیں بسوں اور ٹرام میں مفت سفر کی اجازت، ریل اور ہوائی جہازمیں نصف کرائے کی سہولت،سینما گھروں اور تھیٹرگھروں میں نصف کرایہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح پنشن اور پنشن پر حاصل کیا ہوا منافع ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
اس وقت ملک میں سینیئر سٹیزنز ایکٹ کی فوری ضرورت ہے۔ یہ کئی سال سے اسمبلی کی کسی الماری میں پڑا دھول کی نظر ہو رہا ہے۔ اسی طرح لاتعداد معاملات میں حکومت سینیئر سٹیزنز کے ساتھ امتیازی سلوک ان کے مفاد کے خلاف کررہی ہے اس کو دور کیا جانا چاہیئے۔
دیکھئے اس ملک کی موجودہ بدترین معاشی حالت کو دیکھ کر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام آباد اور تمام صوبائی دارالحکومتوں میں ان بزرگ ماہرین کے لئے ایک اچھی عمارت مہیا کی جائے جس میں ایک چھوٹا آڈیٹوریم اور چند کمرے اور ایک لائبریری کی سہولت ہو، کچھ ضروری اسٹاف دیا جائے، اخبارات اور رسالوں کی سہولت، انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت ہو تاکہ وہاں یہ ایکسپرٹ بیٹھ کر آپس میں مشورہ کرسکیں اور اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر حکومت کو تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، صنعت، زراعت، توانائی، پانی، امن وامان، نظام حکومت، مواصلات وغیرہ پر اہم مشورے دے سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں یعنی ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے ادارے قائم ہیں اور حکومت ان کو مالی مدد دیتی ہے اور ان سے اہم موضوعات و مسائل پر کام کرنے اور مشورہ دینے کی درخواست کرتی ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے یہ تجربہ کار اعلیٰ تعلیمافتہ سینیئر لوگ تاریخ کے پارینہ اوراق کی زینت بن جاتے ہیں ۔ اے اہل اقدار۔ یاد رکھوکہ پروفیسر الفریڈنارتھ وائٹ ہیڈ نے کیا کہا تھا۔ ”وہ قوم جو اپنے تجربہ کار، تعلیمیافتہ، ذی فہم وعقلمند ماہرین کی قدر نہیں کرتی اور ان کو اہمیت نہیں دیتی اس کے مقدر میں عبرتناک انجام اور تباہی لکھی ہے“۔ اس ملک کے سربراہوں سے اور عوام سے ہماری تاریخ پوچھتی رہے گی۔ (غالب سے معذرت کے ساتھ)
مقدور ہو تو ”تم“ سے میں پوچھوں کہ اے لئیم
تم نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
اَسد اللہ خان غالب# نے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا یہ خوبصورت شعر کہا تھا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
ان کا سیدھامطلب یہ تھا کہ جس طرح ستاروں کی حقیقت کچھ اور ہے اور وہ کچھ اور دکھائی دیتے ہیں اسی طرح دنیا بھی دھوکہ بازوں، عیاروں سے بھری پڑی ہے جو بہت پاکباز، راست گو نظر آتے ہیں مگردرحقیقت جھوٹے اور عیار اور خود غرض ہوتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو اپنی عیاری اور چرب زبانی سے گمراہ کرتے ہیں اور بیوقوف بناتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ غالب# نے ستاروں کی مثال دی ہے ان کو کس طرح یہ علم تھا کہ یہ مجسم ایک ٹھوس چیز نہ تھی بلکہ ایک خود روشن گرم گیسوں کا جمگھٹ تھا جس کو خود اس کی قوّت ثقل اکٹھا کئے ہوئے تھی۔ عوام اس کو سورج اور چاند کی طرح ایک ٹھوس جسم تصور کرتے ہیں۔
میں یہ کالم و تبصرہ بہت جھجھک اور تذبذب کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور اس کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے لیکن کیونکہ یہ اس وقت قومی اہمیت کا انتہائی اہم معاملہ ہے میں اس موضوع پر تبصرہ کرنے پر مجبور ہوں اور اسے اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں کہ حکمرانوں اور عوام کو اس نہایت اہم معاملہ کی موشگافیوں سے آگاہ کروں۔
میرا اشارہ اس وقت ملک میں اور میڈیا میں بلکہ عدالت عالیہ میں موجود ریکوڈک کے کان کنی اور اس سے متوقع سونا اور تانبہ سے حاصل کردہ فوائد کی جانب ہے۔ مگر پہلے چند سطور تھرکول پروجیکٹ کے بارے میں۔
آپ کو یاد ہوگا، کیونکہ یہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمیں پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پانچ سوسال تک اور لاکھوں ٹن ڈیزل کے سنہرے خواب دکھائے جارہے تھے اور نہایت بڑے بڑے دعوے کئے جارہے تھے، تھرکول کے ذخائر کی مقدار میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے تھے اور کہا جا رہا تھا (بغیر ٹھوس ثبوت کے) کہ ہمارے پاس 185 بلین ٹن کول ذخائر موجود ہیں جبکہ مصدّقہ اندازے کے مطابق یہ ذخیرہ صرف 3 بلین ٹن ہے اور وہ بھی خراب کوالٹی کا ۔ یہ معاملہ اب ختم ہوگیا اور سب دعوے ہوا میں اُڑگئے۔ میں نے اس موضوع پر ایک تفصیلی کالم یکم نومبر کو اسی اخبار میں لکھا تھا اور ان تمام دعووٴں کی حقیقت سے آگاہ کیا تھا۔ میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمارے سابق سیکرٹری خارجہ اور میرے عزیز دوست ریاض محمد خان نے کس طرح سخت محنت کرکے شین ہوا نامی چینی کول اور توانائی کمپنی سے معاملہ طے کرا دیا تھا اور ہمیں 5.39 ڈالر سینٹ فی یونٹ پر بجلی مہیا کرنے پر تیار کرا لیا تھا یہی نہیں بلکہ 2010 تک325 میگاواٹ کے چار پاور پلانٹ لگانے کا وعدہ کیا تھا مگر کیونکہ کچھ لوگوں کے لیے رشوت وغیرہ کی گنجائش نہ تھی اسلئے معاملہ ختم کردیا گیا تھا۔ Shenhua دنیا کی سب سے بڑی کوئلہ کی کان کنی اور اس سے گیس بنانے اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں تقریباً پونے دو لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں اور یہ کمپنی ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے۔ یہ نہ صرف تین سو پچاس ملین ٹن کے لگ بھگ کول نکالتی ہے بلکہ اس کو گیس اور رقیق اشیاء میں بھی تبدیل کرتی ہے۔ اس نے منگولیا، انڈونیشیا اور آسٹریلیا وغیرہ میں پلانٹ لگائے ہیں اور منگولیا کا پلانٹ 2008 سے اچھی طرح کام کررہا ہے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اس کمپنی کو نہ صرف طویل عملی تجربہ ہے بلکہ یہ اس میدان میں مہارت بھی رکھتی ہے اور چین کی حکومت ہماری نہایت قابل بھروسہ دوست ہے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ میں اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے میٹالرجی میں ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری رکھتا ہوں اور چالیس سال کا تجربہ ہے۔ میں میٹالرجی اور معدنیات کے کام کا وسیع تجربہ رکھتا ہوں۔ میں نے یہ مضامین کئی سال پڑھے ہیں۔ میں کوئلہ کی کان کنی، اس کو گیس میں تبدیل کرنے کا طریقہ جات وغیرہ پر مفصل لکھ سکتا ہوں اور میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی انجینئرز کو نہ ہی ایسے کام کا تجربہ ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ وہ یہ کام کرسکیں۔ میں وجوہات بعد میں بتاؤں گا۔ اس وقت صرف یہ عرض کروں گا کہ اس قسم کے کاموں میں سیکڑوں ملین ڈالر کا سرمایہ پہلے لگایا جاتا ہے اور اس کے لئے پرانا عملی تجربہ اور تجربہ کار انجینئروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ان دونوں چیزوں کا فقدان ہے۔ نہ ہی ذرائع ابلاغ کے کارکن اور نہ ہی عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان کو اس ٹیکنالوجی کے بارے میں سمجھ بوجھ ہے اور وہ مجبوراً سُنی سنائی باتوں پر یقین کررہے ہیں اور یہ سنہری خواب وہ لوگ دکھا رہے ہیں جنہوں نے اس علم کی ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہیں کی اور جو اس علم سے قطعی نابلد ہیں۔
اپنے پچھلے مذکورہ کالم میں، میں نے اٹامک انرجی کمیشن کے چےئر مین ڈاکٹر انصر پرویز کے اس بیان پر کہ وہ 2030 تک 8800 میگاواٹ بجلی پیدا کر یں گے تبصرہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس بیس سال کے عرصہ میں اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے یا تو 300 میگاواٹ کے 29 ری ایکٹر کی ضرورت پڑے گی اور اگر 900 میگاواٹ کے ری ایکٹر لگائیں تو دس ری ایکٹر کی ضرورت پڑے گی میں نے یہ بھی بتایا کہ 300 میگاواٹ کے ری ایکٹر پر تقریباً ایک بلین ڈالر خرچ آتا ہے اور اس کی تعمیر میں آٹھ سے دس سال لگتے ہیں۔ چشمہ میں چینی ریکٹر کی قیمت اور وقتِ تعمیر سامنے موجود ہیں۔ اسی طرح 900 میگاواٹ کے ری ایکٹر پر بہت خرچ اور وقت لگتا ہے۔ اٹامک انرجی کمیشن یہ معجزہ کس طرح کرے گی وہ میرے لئے یقیناً ناقابل یقین و فہم معاملہ ہے۔ وہ ادارہ جہاں تقریباً بیس ہزار افراد کام کررہے ہیں جو پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے قیام پذیر ہے وہ آجتک ایک پاور ری ایکٹر نہیں بنا سکا۔کراچی کا پلانٹ کینیڈا نے دیا تھا اور چشمہ کے دونوں پلانٹ چین سے خریدے گئے ہیں۔ میں اس ٹیکنالوجی کی بات کر رہا ہوں جو ان کی اپنی فیلڈ ہے اور جس میں یہ مہارت کا دعویٰ کرتے ہیں اور میں اس ٹیکنالوجی کی بات کررہا ہوں جو پچاس سال سے دنیا میں موجود ہے اور ہندوستان، جنوبی کوریا جیسے ممالک نے جس پر مہارت حاصل کرلی ہے۔ کہنے اور کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ 1979 میں منیر احمد خان چےئر مین اٹامک انرجی کمیشن نے جناب الطاف حسن قریشی کو انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ 1980 سے ہر سال ایک پاور پلانٹ لگایا جائے گا اور 2000 تک بیس ری ایکٹر لگ جائیں گے۔ صرف 300 میگاواٹ کا ری ایکٹر چین سے خریدا گیا اور ان کے ہی انجینئروں نے اس کو لگایا اور چلا کر حوالے کیا تھا اور اب دوسرا ری ایکٹر بھی اُنہوں نے دیا ہے اور چلا کر حوالے کررہے ہیں۔ 12 جنوری کو کراچی میں ڈاکٹر پرویز نے پھر یہی دعویٰ دہرایا ہے۔ خدا رحم کرے ہم پر۔
دیکھئے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا تو یہ وتیرہ ہے کہ وہ جھوٹ بولیں، عوام کو سبز باغ دکھائیں مگر سائنسدانوں اور انجینئروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سچ بولیں، حکمرانوں اورعوام کو حقائق سے مطلع کریں اور قلیل مدّت کے ذاتی مقاصد یا شہرت کے لئے عوام کو اور حکمرانوں کو گمراہ نہ کریں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے یہ عیب موجود ہے۔
تھرکول پروجیکٹ ہو یا ریکوڈک پروجیکٹ اس کے لئے نوجوان ڈائنامک، تجربہ کار انجینئروں کی ضرورت ہے۔ یہ سخت کام ہے ان کو وہاں جائے وقوع پر طویل عرصہ، بلکہ مستقل طور پر رہنا ہوگا۔ ایسے پروجیکٹس ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلتے ہیں۔ اسٹاف کو بہترین سہولتیں اور اچھی تنخواہیں دینا لازمی ہے۔
دیکھئے عوام کو اور حکمرانوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ چونکہ ہم نے ایٹمی ہتھیار اور میزائل بنالئے ہیں تو سب آسمان سے تارے توڑ کر لاسکتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جہاں تک ایٹمی ہتھیاروں کا تعلق ہے تو مجھے یورپ کے اعلیٰ ترین اور اہم پلانٹ میں کام کرنے کا کئی سال کا عملی تجربہ تھا اور میں صرف 39 سال کا تھا اس لئے ہم یہ کام صرف سات سال میں کرسکے تھے۔ میزائل کی تیاری میں ہماری دوسرے ممالک سے شراکت تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر اور اہم جناب بھٹو، غلام اسحاق خان، آغا شاہی، جنرل ضیاء، جنرل عارف، جنرل اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ جیسے ، محب وطن اور ذمّہ دار یعنی کمیٹیڈ اشخاص تھے۔ یہ چیز اب عنقا ہے۔ اب چوروں، ڈاکوؤں اور رشوت خوروں کا بول بالا ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز ہیں۔ آپ یہ بطور سند لکھ کر رکھ لیں کہ اگر یہ اہم پروجیکٹس ان لوگوں کو دی گئیں تو یہاں اقرباء پروری، ایک کی جگہ دس نااہل افراد کی بھرتی اور لینڈکروزرز اور پجیروز کی بھر مار نظر آئے گی۔ نہایت قیمتی سامان خریدا جائے گا اور اس میں رشوت عروج پر ہوگی۔ آپ کے سامنے ابھی اگسٹاآبدوزوں کی تفصیلات موجود ہیں۔ یہ حکومت یا اس کے بعد آنے والی حکومت کبھی بھی اس حیثیت میں نہیں ہوگی کہ وہ اتنے بڑے فنڈ مہیا کرسکے۔ ابتدائی کام کے لئے کئی صد ملین ڈالر کی ضرورت پڑے گی اور اس کام میں اتنی تاخیر ہوگی کہ عوام بے چارے صرف سونے اور تانبے اور بجلی کے خواب دیکھیں گے اور سوکھی روٹی اور دال کو ترسیں گے۔ حلوہ پوری کھانے والے دو چار سال عیاشی کرکے چلے جائیں گے۔ جس ملک کے حکمران اسکول، کالج، ہسپتال، سڑکیں، چھوٹے پل دس دس سال بنانہیں سکتے یا مکمل نہیں کرسکتے آپ اُن سے معجزات کی توقع کر رہے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے تھر کول پروجیکٹ کے لیئے چین کی مدد اور خدمات حاصل کی جائیں اور ریکوڈک کے لئے بھی کسی تجربہ کار، ماہر بیرونی کمپنی سے معاہدہ کیا جائے ۔ معاہدوں میں غلط یا نقصان دہ شرائط ماننا غیر ملکی کمپنی کا قصور نہیں ہے۔ یہ ہمارے نا اہل اور راشی سرکاری اہل کاروں اور حکمرانوں کا ہے۔ وہ آپ کو بندوق کے بل پر مجبور نہیں کرتے وہ ڈالر کی گڈی سے آپ کو خریدتے ہیں اور اگر آپ بِک جاتے ہیں تو وطن دشمن اور ضمیر فروش ہیں۔
آپ کو امریکہ سے F-16 کی خریداری کا معاہدہ یاد ہوگا۔ ہم نے کئی سو ملین ڈالر پیشگی دے کر ان کا آرڈر کیا اور معاہدہ میں یہ شق منظور کی کہ ان جہازوں کو وہاں رکھنے کا خرچ ہم اُٹھائیں گے۔ آپ نے آج تک ایسا معاہدہ دیکھا ہے۔ یہ اس لئے منظور ہوا کہ وزارت خزانہ کے جو افسر اےئر فورس کے مالی مشیر تھے اُنہوں نے خدا جانے کیا لے کر اس نہایت نقصان دہ اور غیرقانونی شق پر دستخط کردیے تھے۔ اگر بلوچستان میں سونے اور تانبے کا غلط معاہدہ ہوا ہے تو اس کی ذمّہ دار غیرملکی کمپنی نہیں ہمارے راشی اہلکار ہیں۔ ہمارے سامنے پہلے IPP اور اب RPP کی بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔انتظام میرے ہاتھ میں دیں ،میں حاضر ہوں لیکن یہ بات ان کو ہضم نہیں ہوگی اور کئی ایک کو آگ لگ جائے گی لیکن صرف اس لیے ضروری لکھ دیتا ہوں کہ تاریخ گواہ رہے کہ بد عنوان اور آلہ کار حکمرانوں نے مجھے کس طرح ضائع کیا ہے ۔اس لیے ایک تجربہ کار میٹالرجیکل انجینئر اور ایک سائنٹسٹ کی حیثیت سے میرا مشورہ یہ ہے کہ دونوں پروجیکٹس کے معاہدے اچھی، تجربہ کار اور قابل اعتماد غیرملکی کمپنیوں سے کئے جائیں۔ اس دوران اپنے انجینئرز کی تربیت بھی کی جائے ۔اپنے مفاد کا پورا تحفظ کیا جائے اور کام کی جلد از جلد تکمیل کی جائے ورنہ جس قدر میں ان لوگوں جانتا ہوں،یہ پروجیکٹس بھی کالا باغ، پی آئی اے اور اسٹیل مل کی طرح تباہ ہوجائیں گے۔ اس معاملہ میں پاکستان انجینئرنگ کونسل اور انسٹیٹیوٹ آف انجینئرز اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز مدد کرسکتے ہیں۔ اگر احتیاط برتی گئی اور صحیح فیصلہ نہ کیا تو یہ ایک سراب ہوگا۔ دور سے سونا اور تانبا نظر آئے گا اور قریب جاکر دیکھیں گے تو گرد و پتھر نظر آئیں گے۔
پچھلے سال کے اَواخر میں کرغیزِستان میں اور ابھی حال ہی میں تیونس میں عوامی انقلاب نے نہ صرف دوسرے اسلامی ممالک مثلاً الجیریا، مصر وغیرہ میں بلکہ پاکستان میں بھی عوام کو کچھ پُر امید کردیا ہے کہ شاید ہمارے یہاں بھی اب یہ تبدیلی آجائے۔ مصر اور الجیریا میں کچھ خود سوزی کے واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ تیونس میں ایک جابر اور خائن حکمران اور اس کے اہل خانہ ایک طویل عرصہ سے ملک کو لوٹ رہے تھے۔ تھوڑا وقت تو لگا مگر جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس کا تختہ اُلٹنے میں چند دن ہی لگے، یہی واقعہ کرغیزستان میں پیش آیا تھا۔ روسی دور حکومت کی باقیات عیاشی میں مبتلا تھی وہاں بھی جب عوام سڑکوں پر نکل آئے تو پھر ریاستی قوّت پاش پاش ہوگئی اور حکمراں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔
آپ کو 34 سال پہلے کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پانچ جولائی 1977 کو ضیاء الحق نے (جو بھٹو صاحب کے سامنے گھٹنے جوڑ کر بھیگی بلّی کی طرح بیٹھتا تھا) اپنے ہی محسن جناب بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ بھٹو صاحب اور پی این اے کی جانب سے شطرنجی چالوں کا تذکرہ کئی کتابوں اور اخباری خبروں میں بیان کیا جاچکا ہے۔ میں اُن دِنوں دفتر سے آتے وقت آبپارہ مارکیٹ چلا جایا کرتا تھا اور خود وہاں سے تازہ سبزیاں اور پھل خرید کرلے آتا تھا۔ ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند دن بعد میں وہاں سبزی و پھل والے کی دوکان پر کھڑا تھا کہ ایک شخص نے مالک دوکان سے کہا بھائی مجید تم نے سنا ضیاء الحق نے بیان دیا ہے کہ وہ 90 دن میں الیکشن کرواکے حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کردے گا۔ دوکاندار مسکرایا اور کہا بشیرے تو نے کبھی کسی بچّے کو سائیکل پر بٹھا کر اُتارنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اترنا نہیں چاہتا ہے، سائیکل سے چمٹ جاتا ہے اوررونے لگتا ہے۔ یہاں تو یہ ملک کا بادشاہ بن گیا یہ کبھی اقتدار نہیں چھوڑے گا۔ مجھے اس سیدھے سادھے سبزی فروش کی عقل و فہم پر رشک آگیا کہ ایک غیرتعلیم یافتہ معمولی سے دوکاندار کی حیثیت سے یہ کتنا دوربین تھا۔ تعلیم یافتہ لوگ تو ڈکٹیٹروں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے یا تو وہ قتل ہو کر، یا مر کر یا عوام کے غیض و غضب کے آگے بھاگتا ہے۔ ضیاء الحق کی قسمت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل کے ذریعہ کیا۔ اس وقت مصر، لیبیا اور الجیریا میں شخصی حکومتیں قائم ہیں وہاں کے حکمران مغربی ممالک کی خوشنودی اور رحم و کرم پر حکومت کررہے ہیں ان کو کبھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ خود ہی ساتھ خیریت اور عزّت سے حکمرانی منتخب لوگوں کے حوالے کردیں اور آخری وقت عزّت سے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی عوام کے ساتھ گزاریں مگر بات وہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو تباہ کرنا چاہتا ہے پہلے وہ اس کی عقل سلب کرلیتا ہے۔ہمارے یہاں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور مشرف کی عبرتناک مثالیں موجود ہیں۔ ایسی ہی مثالیں دنیا کے کئی ممالک میں ملتی ہیں۔
میں نے غالب کے مندرجہ ذیل شعر کا نہایت اہم دوسرا مصرعہ اپنے کالم کے عنوان کے طور پر پسند کیا ہے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
غالب بے چارے نے اپنی بدقسمتی کا رونا رویا تھا کہ اس کی قسمت اتنی خراب تھی کہ اور جیتا رہتا تو بھی اس کا مقصد حل نہیں ہوتا اور وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر پاتا اور انتظار ہی میں زندگی گزر جاتی۔
غالب نے ایک طریقے سے نا امیدی کا اظہار کیا تھا حالانکہ ہمارے مذہب یعنی اسلام میں ناامیدی کی قطعی گنجائش نہیں ہے بلکہ ناامید ہونے کے فعل کو کفر قرار دیا ہے۔اس کا تذکرہ سورہ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو ہدایت کی کہ وہ حضرت یوسف اور ان کے بھائی بن یامین کی تلاش میں واپس آ جائیں اور ان دونوں کے بارے میں دریافت کریں اور ناامید نہ ہوں کیونکہ اللہ کی ذات سے صرف کافر ناامید ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔بعض اوقات اللہ تعالیٰ مصلحت کے تحت انسان کو تکلیف میں ڈال کر اس کا امتحان لیتے ہیں جس طرح کہ اس نے سورہ البقرہ میں فرمایا ہے۔"اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بشارت سنادواور ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی جانب ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔"
دیکھئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہتری اور نجات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور ہر شر، ہر برائی ، ہر ظلم، مصیبت پر حاوی ہے اور مسئلے کا حل اس کے پاس موجود ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی رحمت اور مصلحت پر یقین رکھتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ ہماری تاریخ اسی سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ مشکل کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان کے مطابق سہولت اور آرام دیا ہے۔سورہ الم نشرح میں فرمان الہیٰ ہے "بلا شبہ ہر تکلیف کے بعد آرام ہے یقینا ہر تکلیف کے بعد آرام ہے"حضرت آدم سے لے کر آج تک ہزاروں ایسے واقعات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے مشکلات کے بعد آرام دیا ہے۔ دیکھئے میں یہ باتیں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ملک کے حالات نے عوام کو جن مصائب، مشکلات ، پریشانیوں کا شکار بنادیا ہے وہ اس سے سخت پریشان ہیں۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، قتل و غارت گری ہر مصیبت ا س وقت ان پر سوار ہے اور اکثر و بیشترعوام خود کو بے بس، کمزور سمجھنے لگے ہیں اور نا امید ہو جاتے ہیں۔کہ شاید ان کی تکالیف کا کوئی مداوا نہیں۔ مصیبت یہ ہے پاکستانی قوم نفسیاتی طور پر مغلوب ہوچکی ہے اور اپنی شکست قبول کررہی ہے۔ ان کو یہ جان لینا چاہیے اس سے پیشتر بھی ان پر پڑنے والی مشکلات سے زیادہ سخت مشکلات دوسری اقوام پر پڑچکی ہیں اور جب انہوں نے ہمت کا مظاہرہ کیا تو یہ تمام تکالیف اور تکالیف دینے والے گرد کی طرح ہوا میں اڑ گئے۔ فرانس، روس، چین، ویت نام، کیوبا اور ایران کے عوام کی تکالیف اور پھر ان پر قابو پانے کی مثالیں تاریخ کے اہم ابواب ہیں۔ ہمارے عوام کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دوسرے فاتح عوام کی طرح اللہ نے ان کو بھی مکمل انسان بنایا ہے۔دل و دماغ دئیے ہیں، آنکھیں دیکھنے کو ، کان سننے کو، پیر چلنے کو، ہاتھ کام کرنے اور حفاظت کرنے کو اور دماغ سوچنے کو دئیے ہیں۔ اگر ہمارے عوام ان کا اسی طرح استعمال کریں کہ جس طرح دوسری کامیاب قوموں نے کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں بھی فتح نصیب نہ ہو اور مشکلات، تکالیف(جابر، خائن حکمرانوں سے) سے نجات حاصل نہ کر لیں۔ ایک فارسی کا شعر ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
چوں بہ سختی در بمانی تن بعجز اندر مدہ
دشمناں را پوست برکن دوستاں را پوستیں
یعنی"جب تم پریشانی اور مصیبت میں گھر جاوٴ تو لاچاری ہرگز اختیار نہ کرو بلکہ اس وقت تم (سخت بن کر )دشمنوں کی کھال کھینچ لو اور دوستوں کے کپڑے اتار لو"۔(جاری ہے)
ہمارے عوام جس بے چارگی ، کمزوری اور بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نظام قدرت کے خلاف ہے اور اس سلسلے میں آپ کو شیخ سعدی کی یہ نہات اہم نصیحت آمیزحکایت سناتا ہوں۔
"ایک شخص نے دیکھا کہ ایک لومڑی اپنی ٹانگیں کھو کر معذور ہوگئی تھی اور ایک سوراخ میں بیٹھی تھی۔ یہ شخص بہت شش و پنج میں تھا کہ یہ معذور لومڑی کس طرح اپنی خوراک حاصل کر رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک شیر ایک گیدڑکو منہ میں پکڑے آیا ، وہاں بیٹھ گیا اور اس کو کھایا اور ڈھانچہ بمعہ کچھ گوشت چھوڑ کر چلا گیا۔ لومڑی بڑی مشکل سے ڈھانچے تک پہنچی، گوشت کھایا اور مطمئن ہو کر واپس اپنے سوراخ میں چلی گئی۔ دوسرے دن بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طریقے سے اسکی خوراک کا بندوبست کردیا اور دیکھئے اللہ تعالیٰ ا پنی مخلوق کو اپنے فرمودات کے تحت رزق پہنچاتا ہے۔" اور زمین پر چلنے والاکوئی جاندار ایسا نہیں جس کی روزی اللہ کے ذمے نہیں ہے۔ وہ ہر جاندار کا مکان، قیام اور اس کی قیام گاہ جانتا ہے۔ ہر چیز روشن کتاب (قرآن) میں موجود ہے (سورہ ہود)۔ "اور کتنے ہی زمین پر چلنے والے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ انہیں روزی دیتا ہے اور تمہیں بھی اور وہ بہت سننے اور بہت جاننے والا ہے(سورہ عنکبوت)
”بس اس طرح اس شخص نے سوچا کہ اس کو صحیح علم مل گیا۔ اس نے دل میں کہا کہ وہ ایک چیونٹی کی طرح ایک گوشہ میں بیٹھ جائے گا کیونکہ ہاتھی کو اس کی خوراک اس کی جسامت اور قوت کی وجہ سے نہیں ملتی ہے۔ اس طرح وہ خاموش ایک کونے میں بیٹھا رہا اور منتظر رہا کہ لومڑی کی طرح اس کو بھی اللہ تعالیٰ خوراک مہیا کر دے گا۔ کسی شخص نے اس کی جانب دھیان نہیں دیا اور چند ہی دنوں میں وہ ہڈیوں اور کھال کا ڈھانچہ رہ گیا۔ بھوک اور نقاہت سے وہ تقریباً اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کے قریب تھا کہ اس کو قریب کی مسجد کی دیوار سے ایک ندا سنائی دی۔“ اے جھوٹے اپاہج، جا ایک چیرنے پھاڑنے والا شیر بن جا اور ایک معذور لومڑی نہ بن۔ ایک شیر کا روپ ڈھال تاکہ تیرے کھانے کے بعد دوسروں کیلئے کچھ بچ جائے۔تو کیوں ایک لومڑی کی طرح دوسروں کے بچے کھچے پر اپنی بھوک مٹانا چاہتا ہے۔ خود اپنی محنت و کاوش سے حاصل کردہ غذا کھا ، ایک مرد کی طرح زندہ رہ اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے میں مددگار بن جا۔"شیخ سعدی نے مزید فرمایا"اے نوجوانو کمزوروں کا سہارا بنو نہ کہ خود گر کر ان سے کہو کہ ہمیں سہارا دو۔“
اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد پاکستانی عوام کو غیرت دلانا ہے کہ اپاہج لومڑی بن کر بچے کھچے ذرات رزق کا انتظار نہ کریں بلکہ بہادر شیر کی طرح شکار کریں۔ یعنی فاقہ کشی ، بیروزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ قبول نہ کریں، آگے بڑھ کر اور اس ظالم ، خود غرض ، راشی نظام کو نیست و نابود کردیں اور ایک نیا منصفانہ عوام دوست انتظام قائم کریں اور ملک کو حقیقت میں ایک فلاحی اسلامی مملکت بنادیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک پر امن عوامی انقلاب کی فوری اشد ضرورت ہے اور فرمان الہیٰ بھی یہی ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ تگ و دو کرتا ہے(سورہ انفال و سورہ رعد)۔ نوجوانو! اٹھو اس ملک کو بچاوٴ ورنہ یہ ٹوٹ جائیگا، ختم ہو جائے گا۔ ابھی کراچی میں کے ای یس سی کے صرف ساڑھے چار ہزار ملازمیں نے آپ کو دکھا دیا کہ اگر آپ اکٹھے ہو کر طاقت کا مظاہرہ کریں تو حکومت گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔۔ تصور کیجئے کہ اگر چند لاکھ اس ہمت کا مظاہرہ کریں تو کیا کچھ نہیں حاصل کر سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ادارے، حکومت وغیرہ کی اچھی تعمیر اور کارکردگی کسی نہ کسی انفرادی شخصیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر بنیاد رکھنے والا اور سربراہ صاحب عقل و فہم اور استعداد کا حاصل ہوتا ہے تو وہ ادارہ ایک مثالی ادارہ بن جاتا ہے لوگ تعریف کرتے ہیں اور اسکی مثال دیتے ہیں۔ عموماً اس کام میں معمار اپنی جان اپنی روح شامل کردیتا ہے اور اس کام کو زندگی کی ایک مقدّس منزل سمجھتا ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ”بنیادی والد“ ریٹائر ہوجاتا ہے یا اس ادارہ سے علحیدہ کردیا جاتا ہے تو جانشین اس معیار کو قائم نہیں رکھ پاتے بلکہ عموماً اس کو بہت جلد تباہ کردیتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ایک ایسے ادارہ کا علم ہے کہ وہ 25 سال کی سخت محنت ومشقت اور خون، پسینہ سے تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا شمار نہ صرف ملک کے بلکہ دنیا کے مثالی اداروں میں شمار ہوتا تھا مگر اس کے ”بنیادی والد“ کے خصت ہونے کے بعد صرف 25 ہفتوں میں وہ ملک کے ”پی ڈبلیوڈی“ ادارہ کی حیثیت اختیار کر گیا۔
ہم سب کو علم ہے کہ کسطرح قائدِاعظم اور ان کے عزیررفقائے کار نے سخت محنت و مشقت کرکے اور لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیں پاکستان کی نعمت دی تھی۔ بمشکل تین چار سال میں لوگوں نے اس کو تباہ کردیااور آج ہم پسماندہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
ایک اہم دوسرا ادارہ جس میں میرے رفقائے کار نے اپنے خون سے پرورش کی تھی وہ غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ، ٹوپی، ہے۔ 1985 کے وسط میں غلام اسحٰق خانصاحب کو میں نے مشورہ دیا کہ کیونکہ اب میں نے ایٹمی ہتھیار بنا کر اپنا فرض ادا کردیا ہے میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک اعلیٰ فنّی تعلیمی ادارہ قائم کریں۔ خانصاحب نے فرمایا کہ مرحوم آغا حسن عابدی نے صوبہ سرحد کو پانچ کڑوڑ دیئے ہیں جو میں وہاں کسی بھی عوام دوست پروجیکٹ پر صرف کرسکتا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ پانچ کڑوڑمیں صرف ایک چھوٹا سا کمپیوٹر ٹریننگ اسکول کھولا جا سکتا ہے۔ خانصاحب نے کہا کہ آغا صاحب آنے والے ہیںآ پ ان کو مجوزہ ادارہ کے بارہ میں بتائیں تاکہ مزید رقم مل جائے۔ خانصاحب اس وقت چےئرمین سینیٹ بن گئے تھے ۔ جب آغا صاحب آئے تو میں نے ایک اچھے فنی ادارہ کے بارہ میں ان کو بریفنگ دی۔ ان کو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور انھوں نے فوراً کہا کہ اچھا میں پانچ کے بجائے 25 کڑوڑ دونگا۔ جناب بیگ صاحب، امتیازی صاحب، فضل الرحمن خانصاحب وغیرہ موجود تھے۔ یہ طے پایا کہ میں ایک مکمل فیزیبیلٹی رپورٹ تیار کروں اور چند ہفتوں بعد جب آغا صاحب آئیں تو وہ پیش کروں۔ میرے رفیق کار ڈاکٹر نذیر احمد اور عزیز دوست قمر علوی اور خضر حیات (آرکیٹکٹس) کے ساتھ مل کر یہ رپورٹ تیا کرلی اور جب آغا صاحب آئے تو ان کو پیش کی۔ ہمیں کم از کم پچاس کڑوڑ کی رقم درکار تھی۔ غلام اسحٰق خان صاحب اب صدر بن چکے تھے۔ اُنھوں نے مجھے اس کام کے لئے پروجیکٹ ڈائرکٹر مقرر کردیا تھا۔ میں نے جب تمام تفصیلات سے آغا صاحب کو مطلع کیا تو اس فرشتہ خصلت، محسن پاکستان نے فوراً پچاس کڑوڑ کی پیشکش کردی۔ الحمداللہ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب کرے۔ آمین۔ ہم لوگ دن رات کام میں لگ گئے۔ بیگ صاحب مرحوم نے اس طرح پچاس کڑوڑ انوسٹ کئے کہ جب ہم نے کام شروع کیا تو یہ پچھتر کڑوڑ ہوگئے تھے۔ ہماری بھاگ دوڑ سے اسلامی ڈویلپمنٹ بنک نے دس ملین ڈالر، اوپیک نے دس ملین ڈالر نہایت کم اور پرکشش شرائط پر دیدیے۔ فرانس نے آٹھ کڑوڑ روپیہ کی گرانٹ دیدی۔ اس وقت کے سفیر جناب پےئر لا فرانس نے اس میں بہت مدد کی۔ 1993 میں انسٹی ٹیوٹ تیار ہوگیا اور پہلا گروپ داخل ہوگیا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹوپی میں زمین گورنر برگیڈیر امیر گلستان جنجوعہ نے صوبہ سرحد کی جانب سے تحفہ میں دیدی تھی۔
میں نے باہر سے کئی اعلیٰ پروفیسر بلائے۔ میرے اپنے سابقہ اُستاد پروفیسر برابرس پہلے ریکٹر مقرر ہوئے اور دو سال میں یہ انسٹیٹیوٹ ایشیا کے اعلیٰ دس اداروں میں شمار ہونے لگا۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ بعد میرا تعلق منقطع ہو گیا اور انتظام اب ماہرین تعلیم کے بجائے بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور آج انسٹی ٹیوٹ کانام سوائے پاکستان کے کہیں اور نظر نہیں آتا۔ لاتعداد طلباء مجھے مسلسل ای میل کرتے اور فون کرتے ہیں کہ ادارہ کا معیار بہت خراب ہو گیا ہے اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ میرا تعلق انسٹی ٹیوٹ سے مشرف کے دور میں اسکی بدمعاشی کی وجہ سے منقطع ہو گیا تھا۔ دیکھئے ایک اتنا اعلیٰ ادارہ کسطرح کتنے کم عرصہ میں اپنی اِمتیازی حیثیت کھو بیٹھا۔
ایک اور اعلیٰ بین الاقوامی ادارہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ہے۔ میں کئی برس اسکے گورننگ بورڈ کا ممبر رہا ہوں۔ اس اعلیٰ ادارہ کا خیال اس وقت بمشکل تیس سالہ نہایت قابل و عالم مرحوم ڈاکٹر محمود غازی کے دماغ میں آیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا وقت تھا، بروہی صاحب اس وقت وزیرقانون تھے۔ یہ 1978 کی بات ہے۔ ڈاکٹر غازی اور بروہی صاحب نے جنرل ضیاء کو قائل کردیا کہ ایسا ادارہ دنیائے اسلام کیلئے مشعل راہ ہوگا۔ نہ صرف تمام مسلم ممالک سے بلکہ غیر مسلم ممالک کے مسلم طلباء بھی یہاں تعلیم حاصل کرینگے۔ اسلامی تعلیم کے علاوہ جدید علوم کی تعلیم بھی دیناتھی۔ جنرل ضیاء نے اسکی منظوری دیدی۔ سعودی عرب نے 45 کڑوڑ روپیہ کا تحفہ دیا جس سے مسجد اور اسکے ایک حصّہ میں تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا۔ شروع میں مصر کے عالم ڈاکٹر حسین حامد اسکے صدر تھے۔ اعلیٰ نظام تھا۔ بورڈ میں اعلیٰ ماہرین شامل تھے۔ اس وقت جسٹس سرداراقبال، ڈاکٹر وقار مسعودخان (موجودہ سیکرٹری فنانس)، بورڈ کے سیکرٹری تھے۔ چند دوسرے ممبران کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر حسن حامد کے بعد مصر کے ہی ڈاکٹر حسن شافعی صدر ہوئے نہایت قابل، نرم گو انسان تھے، ان کے بعد ڈاکٹر غازی صدر ہوئے اور یونیورسٹی اس وقت عروج پر تھی۔ اسکے بعد بدقسمتی سے مشرف نے تمام معیار کو خاک میں ملا کر ایسے مقامی خوشامدی لوگ لگانا شروع کئے جو اس عہدے کے قابل نہیں تھے۔ یونیورسٹی تیزی سے ڈھلوان پر آگئی اور اب یہ ایک نہایت معمولی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسکی بین الاقوامی حیثیت وہ نہیں رہی جو پہلے تھی اور جس مقصد کے لئے یہ تعمیر کی گئی تھی۔ موجودہ حکومت نے اسکی بین الاقوامی حیثیت پر کاری ضرب لگادی اور لاتعداد غیر ملکی طلبا کے ویزے منسوخ کرکے ملک بدر کردیا۔ آپ دیکھئے اعلیٰ ادارے کو بنانے میں بنانے والے اپنا خون اور پسینہ ایک کردیتے ہیں اور بعد میں آنے والے تھوڑے عرصہ میں اس کو تباہ کردیتے ہیں۔ اس وقت یہ ادارہ بغیر صدر کے یتیم ہے۔
اگر ایک فرد اور کامیاب ادارہ کو دیکھنا ہو تو اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک اور اس کے سربراہ ڈاکٹر احمد علی کو دیکھو۔ ایک کامیاب اور قابل مثال کہانی ہے۔ میں وہاں تعلیمی ایڈوائزری کمیٹی کا کئی سال ممبر رہا ہوں۔
آپ کے سامنے پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے اور ریلوے کی مثالیں موجود ہیں جو ادارے شہرت یافتہ تھے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے آج وہ ملک پر ایک لعنت بن گئے ہیں۔ اسٹیل ملز اچھے لوگوں کے ہاتھ میں تھا ملکی اثاثہ تھا۔ جوں ہی جنرل عبدالقیوم نے اس کی نجکاری کی سازش کا پول کھولا مشرف نے ان کو فارغ کردیا اور جو ادارہ بیس ارب روپے منافع میں تھا خسارے میں چلا گیا۔ یہی حال پی آئی اے کا ہے۔ ایک اعلیٰ ادارہ جس کی شہرت بین الاقوامی سطح پر تھی وہ اب بدترین ادارہ بن گیا ہے اور اربوں روپیہ کے خسارے میں ہے۔
دیکھئے ادارے افراد سے بنتے ہیں اور افراد کی ذہانت اور ہنر مندی سے بلند سطح پر پہونچتے ہیں اور شہرت حاصل کرتے ہیں۔ جونہی غلط فرد ان پر مسلط کیا گیا وہ ان کو جلد تباہ کردیتا ہے۔ اوّل تو خود ہی اس کام کی اِستعداد نہیں رکھتا اور دوئم لوٹ مار میں لگ جاتا ہے۔ کینیڈین پروفیسر پیٹر کا ایک اصول بے حد مشہور ہے کہ ہر شخص کے لئے اسکی استعداد کے مطابق ایک جگہ مناسب ہوتی ہے اس کو آپ ترقی دیدیں یا دوسری جگہ متعین کردیں تو وہ اس ذمّہ داری کو صحیح طریقہ سے نہیں ادا کرسکے گا اور تباہ کردے گا۔ بس یہی حال ان تمام اداروں کا ہوا ہے جن کا میں نے مختصر تذکرہ کیا ہے ۔ ملک میں ایسے اور لاتعداد ادارے ہیں جو اسی بدنظمی اور اقربا پروری کے شکار ہو چکے ہیں اور تباہ ہوگئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ایک طویل عرصہ بعد پنشن یافتہ یعنی ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو دوبارہ باربار کنٹریکٹ پر ملازم رکھنے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اس کو دستور کی خلاف ورزی قرار دے کر حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے تمام افراد کی لسٹ یعنی فہرست مہیا کرے اور ان کو جلد ازجلد فارغ کرے۔ یہ ایک احسن اقدام ہے اور امید ہے کہ سپریم کورٹ اس کو حتمی انجام تک پہنچائے گی اور یہ معاملہ، این آر او، زرداری کے دو عہدے، قرضوں کی وصولیابی کے مقدموں میں شامل نہ ہوگا۔ اس وقت ملک کی بھلائی کے لئے کوئی ادارہ کام کرسکتا ہے تو وہ سپریم کورٹ ہے اگر اس نے اپنے احکامات پر عمل درآمد نہیں کرایا اور جلد فیصلے نہ دیئے تو اس ملک کی تباہی و بربادی یقینی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ملک میں اعلیٰ ملازمتوں پر تقرری کرنے کے لئے ایک ناقص نظام رائج ہے۔ ایک نام نہاد مرکزی اعلیٰ ملازمتوں یعنی سی ایس ایس یا سی ایس پی نام کا ٹسٹ لیا جاتا ہے جس میں شامل ہونے کی بنیادی تعلیم صرف بی ۔اے ہے۔ اب آپ ہمارے آجکل کی بی۔اے کی ڈگری کی اہمیت کا خود ہی فیصلہ کرلیجئے۔ تحریری امتحان سے زیادہ زبانی انٹرویو پر زور دیا جاتا ہے۔ عام طور پر عوام کو یقین ہے کہ جس طرح پورا ملک کرپشن کی لپیٹ میں ہے اسی طرح اس امتحان میں بھی دھاندلی ہوتی ہے اور رشتہ دار، عزیز و اقارب بہ آسان چن لئے جاتے ہیں۔ پھر یہی بی۔اے، گھومتے پھرے عقل کل بن کر ہمارے ملک کے تمام ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل اداروں اور وزارتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ آپ زرا ان کی گفتگو سُنیئے، حیران رہ جائیں گے۔ یہ اپنے آگے دوسروں کو کمتر و جاہل سمجھتے ہیں۔ ان کے آگے پڑھے لکھے لوگ منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتے۔ ہمارے ملک کی خستہ اور ابتر حالت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
دوسرے یعنی ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف تعلیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے بلکہ وہاں ہر شعبہ ، ہر وزارت کے لئے ایک بنیادی قوّت یعنی کےڈر یا ورک فورس بنائی جاتی ہے۔ سائنٹیفک سول سروس کا ایک علیحدہ کیڈر ہوتا ہے۔ اس کے امتحانات علیحدہ ہوتے ہیں اور اس میں اعلیٰ تعلیمیافہ لوگ چنے جاتے ہیں۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم، صنعت و پیداوار ، بنکنگ، زراعت اور مختلف انجینئرنگ کے شعبوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ ملازمین اپنی تمام دوران ملازمت ان ہی اداروں میں کام کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنے شعبہ میں ماہرانہ صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔ جب اوپر والا شخص ریٹائر ہوتا ہے اسکی جگہ اسکے نیچے والا لے لےتا ہے۔ یہ لوگ بالکل غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ جو بھی پارٹی حکومت بناتی ہے وہ ان کی غیر جانبداری پر یقین کرتی ہے، ان پر بھروسہ کرتی ہے اور کبھی ان کے معاملات میں دخل نہیں دیتی۔ حکومت جو پالیسی بناتی ہے اور جو عموماً ان ہی ماہرین کے مشورہ سے بناتی ہے تو یہ من و عن اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہاں صرف سیاسی لےڈروں کی وزارت تبدیل ہوتی ہے اور عموماً ان وزارتوں کی جو ٹیکنیکل نہیں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دو سو سال پیشتر کا انگریزی نظام حکومت قائم ہے جب ایک کمشنر یا ڈپٹی کمشنر مطلق العنان حاکم ہوتا تھا، صنعتی اور تعلیمی ترقی اتنی نہیں ہوتی تھی۔ اب حالات مختلف ہیں ہرشعبہ میں ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں بی۔اے کی ڈگری والا ہر فن مولا، عقل کل سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہی تعلیم، وہ ہی سائنس و ٹیکنالوجی، وہ ہی زراعت، وہ ہی صنعت و پیداوار اور وہ ہی بجل وپانی کا ماہر مانا جاتاہے۔
یہ لوگ حکمران کی مہربانی سے ہر تخت پر بےٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ حکمراں ان کو ناقابل تبدیل قرار دے کر باربار ان کے معاہدہ ملازمت میں توسیع کرتے جاتے ہیں۔ جب تک یہ نظام اس ملک میں رائج رہے گا یہ ملک نالی سے نکل کر گٹر میں چلا جائے گا۔ ملک میں تبدیلی نہ آنے کی وجہ بھی اَن پڑھ یا لاعلم سیاستدانوں کی حکمرانی ہے۔ یہاں کبھی ٹیکنوکریٹس کو اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی ان سے مشورہ کیا گیا۔ ایک بی۔اے بیوروکریٹ ایک آکسفورڈ اور کیمبرج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری والے پروفیسر سے ملنے میں ہتک محسوس کرتا ہے بلکہ بلا کر انتظار کے کمرے میں بٹھا کر اپنے دوستوں سے گپیں لگاتا رہتا ہے۔ میں نے خود یہ واقعات دیکھے ہیں۔
پینشن یافتہ یا ریٹائرڈ غیرفنی لوگوں کو ملازمت میں رکھنا یا ان کو بار بار مدّت ملازمت میں توسیع دینا اور یہ تاثر دینا کہ وہ ناقابل تبدیل ہیں ایک بہت بڑی غلطی اور خام خیالی ہے۔ دیکھئے بقول جنرل ڈےگال دنیا بھر کے قبرستان ایسے ناقابل تبدیل لوگوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ کسی بھی انسان کو ناقابل تبدیل کرنے کے ذکر نے مجھے ایک اہم واقعہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور کا یاد دلا دیا ہے۔ میں اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بغداد، واسطہ، انبار، خوزستان اور بصرہ کے علاقہ میں ایک یہودی عامل حکمران تھا۔ ان علاقوں کے لوگوں نے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس درخواست بھیجی جس میں اس یہودی عامل کے خلاف فریاد کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں نے لکھا تھا کہ یہودی عامل سرکاری کام کے بہانہ سے انھیں بہت پریشان کررہا اور ستا رہا تھا اور دُکھ دے رہا تھا۔ وہ ان کی توہین کررہا تھا اور مذاق بھی اُڑا رہا تھا۔ اگر وہ ناقابل تبدیل ہے تو ٹھیک ورنہ اسکی جگہ کسی مسلمان عامل کو مقرر کردیا جائے۔ ہم میں اب قوّت برداشت نہیں رہی ہے۔ ایک مسلمان عامل ہمارا ہم مذہب ہونے کی وجہ سے غیر قانونی اور ناجائز کارروائیاں نہ کرے گا اور ہمیں تکالیف نہ دے گا۔ اور اگر اس نے ایسا کیا بھی تو ہم ایک مسلمان کے ہاتھ سے دی گئی تکلیف کو ایک یہودی کی دی گئی تکلیف پر ترجیح دیں گے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کوجب یہ شکایت موصول ہوئی تو آپ نے فرمایا، ”کیا خوب ایک تو یہودی دنیا میں امن وچین سے رہے اور پھر اس پر اکتفا نہ کرکے مسلمانوں پر ستم ڈھائے اور اُنھیں ایذائیں دے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسی وقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمان بھیجا کہ وہ فوراً یہودی کو ہٹا دیں اور کسی مسلمان کو عامل مقرر کردیں۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ فرمان ملا تو انھوں نے فوراً ایک سوار کو حکم دیا کہ وہ روانہ ہو اور جہاں بھی وہ یہودی عامل ملے اس کو لے آئے اور ساتھ ہی ایران، عراق میں جہاں بھی مسلمان عامل و گورنر ہوں اُنھیں حاضر کیا جائے۔ کچھ عرصہ بعد یہودی کو حاضر کیا گیا اور کئی مسلمان عہدیداران بھی حاضر ہوگئے۔ سب کو جانچا گیا، سوال جواب کئے گئے تو علم ہوا کہ عربوں میں کوئی بھی یہودی کے پایہ کا نہ تھا۔ اسی طرح عجمی اور مسلمان عہدیداروں میں بھی یہودی کی قابلیت کا کوئی فرد نہیں ملا۔ یہودی نے حکومت کے خزانہ کے لئے رقوم فراہم کرنے، تعمیری کام کرنے، مختلف لوگوں کو سمجھنے اور پرکھنے، وصولِ تحصیل سے واقفیت بہم پہونچانے میں جس قابلیت کا ثبوت دیا تھا وہ کسی مسلمان عہدیدار میں موجود نہ تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہودی کو اپنے عہدہ پر فائز رہنے دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پغام بھجوادیا۔
”امیرالمومنین! میں نے یہودی کو بلوا بھیجا اور اُسے آزمایا اور اس کے کام کی جانچ پڑتال کی۔ عربوں اور مسلمانوں میں سے ایک بھی معاملات حکومت سے اس واقفیت کا ثبوت نہ بہم پہونچا سکا چنانچہ مجبوراً میں نے اسے اس کے کام پر بحال رکھا اسلئے کہ اگر میں اس کو معزول کردیتا تو کام بگڑ جاتے“۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب یہ جواب پڑھا تو فرمایا کہ لوگ میرے فیصلہ پر بھی فیصلے کرنے لگے ہیں اور میرے حکم پر بھی حکم چلاتے ہیں اور میری رائے میں جو بات صحیح ہوتی ہے اس کو دوبارہ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مراسلہ پر ہی ایک مختصر ترین ریمارک یعنی نوٹ تحریر کردیا۔ یہ اس عظیم مدّبر، عدیم المثال منتظم، عقل و فہم کے خزینے کی یہ ایسی تحریر تھی جو ہمارے رہنماﺅں بلکہ دنیا بھر کے اقربا پرستوں اور بہانہ خوروں کے لئے قیامت تک مشعل راہ کے طور پر کام کرسکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے صرف یہ دو الفاظ تحریر فرمائے۔ مَاتَ الیہودی ۔ اور وہ مراسلہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بجھوادیا۔ ”مَاتَ الیہودی“ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ یہودی مرگیا۔ لیکن اس مختصر اور مجمل سے فقرہ کا مفہوم یہ ہوا کہ عام آدمی تو اپنی موت سے وقت مقررّہ پر مرتا ہے لیکن کسی عامل یا صاحب منصب کی موت یہ ہے کہ اس کو اس کے عہدہ سے معزول کردیا جائے۔ اگر ایک عہدیدار مرجائے یا برخاست کردیا جائے تو اس کے کام کو رُکنا نہیں چاہئے اور فوراً ہی کسی دوسرے کو اس کی جگہ مقرر کردینا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام دینا چاہا تھا کہ آخر یہ تمھارا افلاطون قسم کا یہودی کبھی تو مرے گا تو پھر اس قدر مجبوری اور ایک ناپسندیدہ ماہر کی لیاقت کے اعتراف کی کیا ضرورت ہے بس یوں سمجھو یہ یہودی مرگیا اور اس کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو تو بہرصورت پُر کرنا ہی ہے۔ جب سعد رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تحریر کردہ یہ دو الفاظ ملے تو فوراً یہودی کو طلب کیا اور اسے ملازمت سے برخاست کردیا اور اسکی جگہ ایک مسلمان عامل مقرر کردیا۔ ایک سال کے بعد جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ اس عہدہ پر اس مسلمان نے نہایت بہترین کارکردگی دکھائی اور یہ یہودی سے بہتر ثابت ہوا۔ حکومت کی آمدنی بڑھ گئی اور عوام بھی بے حد خوش ہوگئے۔ تعمیرات کے کام بھی خوب ہوئے اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے مصاحبوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے تو یہودی کی تعریف میں بہت کچھ لکھ کر بھیجا تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف دو الفاظ میں یہ بات واضح کردی اور سچی بات وہی تھی جو آپ رضی اللہ عنہ نے کہی تھی“ (سیاست نامہ ۔ نظام المک طوسی)۔
دیکھئے جو کچھ میں نے پہلے لکھا اور پھر اس سنہری مثال سے سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی مستقل طور پر زندہ نہیں رہتا اور کوئی بھی ناقابل تبدیل نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ ہر میدان، ہر وزارت کا علیحدہ کیڈر تیار کریں، ان کو دھوبی کا کتا نہ بنائیں اور خود غرضی اور اقرباپروری سے نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر بٹھائے رکھیں اور نوکری کو طول دیں بلکہ نئے مستحق لوگوں کو سیاست سے علحیدہ رکھ کر اپنے ہی اداروں میں ترقی دیں۔ اور اگر کچھ لوگ واقعی تجربہ کار ہیں اور حکومت ان کے تجربہ سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے تو ان کو تھوڑے معاوضہ پر مشیر رکھ لیں کہ وہ ہفتہ میں ایک دن جاکر مشورہ دے دیا کریں۔ ان کو ہرگز انتظامی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہ ہونا چاہئے۔ پاکستان میں جب تک ایسا نظام نافذ نہیں کیا جائے گا کہ جہاں افسران اپنے ہی محکموں میں، وزارتوں میں، اپنے میدان فن میں مہارت حاصل نہ کریں مستقل طور پر وہاں تعینات نہ ہوں اور سیاسی دباﺅ سے پاک نہ ہوں یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور اس کا نظام حکومت ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ فنّی ماہرین کے تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کے تجربہ سے استفادہ کیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ دوسرے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
آجکل ہم سب یعنی تمام کالم نگار صرف ملک کی اَبتر حالت یعنی لاقانونیت، بیروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور خراب نظام حکومت پر ہی لکھتے رہتے ہیں۔ پھر سیاسی حکمراں بھی تختہ مشق بنے جاتے ہیں لیکن عوام کی ”خوش قسمتی“ ہے کہ اس ملک میں ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے کہ عوام اس طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، فیصل آباد میں ایک ریٹائرڈ فوجی ڈاکٹرنی کی پٹائی، چنیوٹ میں عوام کی چھترول، سیالکوٹ میں دو نوجوان لڑکوں کا کھلے عام، دن دہاڑے بہیمانہ قتل، عدالت عالیہ میں سنسنی خیز مقدمات،بابر اعوان اور رانا ثناء اللہ کی دلچسپ نوک جھوک جس میں رانا ثناء اللہ کی نفاست و شستگی کا کیا کہنا۔ میاں نواز شریف صاحب کے الٹی میٹم اور پھر ان سے اِنحراف، زرداری اور گیلانی کی کھلے عام وعدہ خلافیاں، حج کے انتظامات میں کرپشن کے الزامات، پھر تھرکول پروجیکٹ سے پانچ سو سال تک پچاس ہزار میگاواٹ کے خواب اور اس کے بعد اب ریکوڈک کان سے اربوں ڈالر کی سالانہ آمدنی اور ملک میں سونے اور تانبے کی فراوانی یہی نہیں بلکہ بیس سال سے کم عرصہ میں آٹھ ہزار آٹھ سو میگاواٹ ایٹمی توانائی۔ غرض یہ کہ آپ ہی سوچئے کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑتا، کوئی نہ کوئی تنازعہ، عتاب، زلزلہ، سیلاب، سیاسی جھگڑا یا سہانا خواب دکھا دیتا ہے کہ ہم خاموش بیٹھ کر بغیر کسی دلچسپی کے واقعات کے وقت گزاری کریں۔ نہایت ہی تازہ واقعہ امریکن ریمنڈ ڈیوس کا ہے جس نے کھلے عام دن دہاڑے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اس سلسلہ تمام سیاست داں، عوام، حکمران، مُلکی اور غیر مُلکی ذرائع ابلاغ اپنا اپنا نظریہ بیان کررہے ہیں۔ جس بے غیرتی اور بے حسی کا مظاہرہ حکمران طبقہ کرتا رہا ہے اس کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ چند دنوں میں اس قاتل کو تحفے تحائف اور پورے پروٹوکول کیساتھ اپنے ملک کو روانہ کردیا جائیگا، آپ ذرا تضاد دیکھئے ہمارے حکمرانوں کا روّیہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اور امریکی حکمرانوں کا ایک مصدّقہ قاتل کے بارے میں۔ ”حمیت نام ہے جس کا ،گئی اس قوم کے دل سے“ والا معاملہ ہے۔
دیکھئے دراصل آج میں ایک نہایت عام سی روزمرہ ٹی وی پر نظر آنے والی باتوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، میرا اشارہ ان لاتعداد حالات حاضرہ پر تمام ٹی وی اسٹیشنوں پر دکھائے جانے والے پروگراموں کی جانب ہے۔ ہر اینکر پرسن یا ڈائرکٹر پروگرام نے اپنے پروگرام کو پُرکشش بنانے کے لئے دلچسپ نام رکھاہوا ہے اور اسٹوڈیوز میں جدّت کی ہے۔ میں آج ان پروگراموں کے درمیان اینکر پرسنز اور شرکا کے رویّوں کے بارہ میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پیشتر ایک چھوٹا سا واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس کا براہِ راست ان واقعات سے تعلق ہے۔
آپ کو میں پہلے بتلاچکا ہوں کہ میں 1961 میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گیا تھا وہاں برلن کی مشہور ٹیکنکل یونیورسٹی میں دو سال کی تعلیم مکمل کرکے ہالینڈ چلا گیا اور ڈیلفٹ کی ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہالینڈ جانے کی وجہ میری منگیتر کی اور ان کے والدین کی وہاں رہائش تھی۔ میرا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا اور ایم ایس سی ٹیکنالوجی کے آخری سال میں میرے سپر وائزر پروفیسر ڈاکٹر برگرس نے مجھے اپنا اسسٹنٹ مقرر کرلیا۔ وہ نہ صرف ہالینڈ میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بے حد مشہور تھے۔ جب میں نے ماسٹرز کی تعلیم مکمل کرلی تو انھوں نے مجھے اپنا ریسرچ اسسٹنٹ بنا لیا مجھے وہاں ڈاکٹریٹ کرنے کی پیشکش بھی کی گئی مگر آٹھ ماہ بعد ہم بلجیم چلے گئے جہاں لیووین کی قدیم یونیورسٹی میں مجھے فیلوشپ مل گئی تھی۔ میں نے وہاں سے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں پروفیسر برگرس کا ریسرچ اسسٹنٹ بن گیا تھا۔ وہ جب بھی کوئی لیکچر دینے جاتے یا سننے جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے تھے ۔ ہمارے نہایت ہی اچھے تعلقات تھے اور وہ بہت ہی شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک روز ہم ایک لیکچر سننے گئے۔ آڈیٹوریم میں جب داخل ہوگئے تو وہاں جدید فرنیچر تھا اور کرسیاں سخت مصنوعی لکڑی یا پلاسٹک کی بنی ہوئی تھیں۔ ان کو صاف رکھنا بہت آسان تھا اور یہ نہایت مضبوط اور دیرپا تھیں مگر ان پر بیٹھنا سخت لکڑی پر بیٹھنے کی طرح تھا۔ جب ہم بیٹھ گئے تو پروفیسر برگرس نے میری جانب دیکھا اور کہا خان کسی اُلّو کے پٹھّے کو یہ وہم ہے کہ سخت اور غیر آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر شاید طلباء اچھی طرح پڑھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اُلّو کو عقلمندی کا نشان یا علامت سمجھا جاتا ہے مگر ڈچ زبان میں بالکل ہماری زبان کی طرح احمق یا بیوقوف کو اُلّو کا پٹھّا Uilskuiken کہتے ہیں Kuiken کے معنی بچہ یا پٹھا ہے اور Uil کے معنی اُلّو کے ہیں۔ فرنیچر کے بارہ میں اپنے ذی فہم پروفیسر کی بات کبھی نہ بھولا اور جب بھی کہوٹہ کے لئے یا گھر کے لئے یا دوسرے تعلیمی اداروں کے لئے جن سے میرا تعلق تھا فرنیچر آڈر کیا تو نمونہ منگواکر خود معائنہ کیا۔ اس پر بیٹھا کہ آرام دہ ہے یا نہیں اور اگر ترمیم کرنا ضروری تھا تو وہ کرائی اور پھر آڈر کیا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آجکل لاتعداد ٹی وی پروگراموں میں شریک فردیا افراد اور اینکر پرسنز کے درمیان ایک بہت بڑی بھدّی گول میز رکھی ہوتی ہے اور اینکر پرسن اور شریک یا شرکا ء دونوں ہی غیر آرام دہ پوزیشن میں ٹانگیں چیر کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ رواج یعنی جدید فرنیچر کا اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس کی خاطر آرام کو قربان کردیا گیا ہے۔ آپ خود تصور کیجئے کہ اگر آپ ایک گھنٹہ اس طرح بیٹھے رہیں اور نہ ٹانگیں پھیلا سکیں اور نہ ہی ان کو سامنے رکھ صحیح طریقہ سے بیٹھ سکیں تو کتنی تکلیف ہوگی اسی طرح بعض پروگراموں میں عجیب عجیب طرح کی کرسیاں نظر آتی ہیں کہ انسان زمین سے چار فٹ اونچا چھوٹی سی سیٹ پر برا جمان نظر آتا ہے اور پیر نیچے لوہے کے ایک رنگ پر ٹکانے پر مجبور ہے ۔ کوّا یا اُلّو تو درخت کی نوکدار شاخ پر بیٹھ سکتا ہے مگر ایک انسان کے لئے یہ نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ جیوپر ایک بہت دلچسپ پروگرام آتا تھا جس میں اکثر سن رسیدہ شخصیات شرکت کرتی تھیں۔ میں اس پروگرام کو جب بھی دیکھتا تھا مگر سخت اُلجھن بھی ہوتی تھی کہ شرکا کو دو ڈھائی سو روپیہ والی پلاسٹک کی سخت کرسیوں پر بٹھا یا جاتا تھا اور اس پر یہ ظلم کہ یہ ایسی کرسیاں تھیں کہ جن کے بازو بھی نہ تھے، نہ ہی سامنے میز، نہ ہی پانی اور نہ ہی ٹشو باکس، میں نے آخر کارمجبور ہو کر آخر ایک دن اینکر پرسن کو ایک شکایت لکھ ہی دی۔ شکر ہے پروڈکشن ٹیم کو میری بات سمجھ آ گئی اور ایک ہفتہ بعد مجھے اطمینان ہوا کہ پروگرام میں اب نہایت آرام دہ بازو والی کرسیاں دی گئی تھیں۔
ایک اور اہم بات جس کی جانب میں آپ سب کی اور اینکر پرسنز کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ دوران پروگرام ہُلّڑبازی ، بدتمیزی اور شوروغل ہے۔ آپ کاسر شرمندگی سے جھک جاتا ہے کہ جب عوامی نمائندے کروڑوں ناظرین کے سامنے نہایت نامناسب اور غیر تہذیب یافتہ زبان استعمال کرتے ہیں اسطرح یہ ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں کہ دوسرے کی آواز ہی نہ نکل سکے۔ ان تمام پروگراموں میں جن میں سیاست داں شرکت کرتے ہیں اینکر پرسنز بالکل مجبور نظر آتے ہیں ان کی درخواست پر دھیان نہیں دیا جاتا اور ایک ساتھ دو، تین شرکاء چیخ چیخ کر یہ مقابلہ جیتنا چاہتے ہیں۔ میں نے کئی اینکر پرسنز سے اس موضوع پر بات چیت کی ہے مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ جب غیر سیاسی تجزیہ نگار شریک مباحثہ ہوتے ہیں تو ماحول نہایت خوشگوار اور دلچسپ ہوتا ہے، معاملہ جب بگڑتا ہے جب سیاستدان جن کا تعلق مختلف جماعتوں سے ہوتا ہے ایک دوسرے کے خلاف نمبر اسکور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک نہایت اہم اور کنٹرول کرنے والا معاملہ لوگوں کو سیٹلائٹ کے ذریعہ پروگرام میں شریک کرانا ہے ایسے پروگرام میں عموماً شرکاء درخواست کے باوجودچیخ چیخ کر سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ میری درخواست کے باوجود ابھی تک اینکر پرسنز نے کوئی ایسا طریقہ یا اشارہ اختیار نہیں کیا کہ جب وہ کسی فرد کی آواز بند کرنا یا کاٹنا چاہیں توبٹن دبا کر یہ کام کردیں یا جو ڈائریکٹر وہاں پیچھے پروگرام ریکارڈ کرارہا ہوتا ہے وہ فوراً آواز کاٹ دے اس طریقہ عمل سے پروگرام سے بے جا بدمزگی اور مچھلی بازار کا ماحول ختم ہوجائے گا۔ یہ اس وقت بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ناظرین یہ تماشے دیکھ دیکھ کر اُکتا گئے ہیں۔
مشرف کی بدمعاشی سے پہلے میں کئی برس ہمدرد یونیورسٹی کراچی کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر تھا۔ مجھے اس فقیدالمثال محب وطن و فرشتہ خصلت شخصیت شہید حکیم محمد سعید نے بذات خود اس اعلیٰ تعلیمی ادارے میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا اور پھر مشرف کی بدمعاشی کے بعد معطل ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے مشرف کچھ بھی کرنے کو تیار تھا اور اس نے ملک کو امریکہ کو چند ڈالر میں بیچ دیا تھا۔ مجھے ہمدرد یونیورسٹی جانے اور ان میٹنگز میں شرکت کرکے بے حد خوشی ہوتی تھی۔ نہ صرف ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کو پھلتا پھولتا دیکھتا تھا بلکہ حکیم صاحب اور دوسرے تعلیمی ماہرین اور دوستوں سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ ہمدرد یونیورسٹی حب ڈیم کے قریب سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر مدینة الحکمہ میں قائم ہے۔ اسکی خوبصورت عمارتیں، سرسبز و شاداب لان، پھولوں سے بھری کیاریاں، لاتعداد پھلوں کے اور دوسرے درخت موجود تھے۔ ہر پتھر، ہر پودا حکیم صاحب کی دور بینی کی عکاسی کرتا ہے۔ میں وہاں ایک نہایت خوبصورت چھوٹا سا لان دیکھ کر حیران رہ گیا جس پر ایک کتبہ لگا ہوا تھا کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُن کی بیگم کے اور ان کی بیٹی کے اجزا رنگون سے منگوا کر یہاں ان کی دوبارہ تدفین کی جائے گی۔ اُنہوں نے حکومت پاکستان پر بہت زور ڈالا تھا کہ وہ سرکاری طور پر یہ معاملہ برما کی حکومت سے طے کرے مگر بدقسمتی سے ان کو کامیابی نہیں ہوئی مگر آپ ان کی مسلمانوں سے محبت اور جذبہ دیکھئے۔
یہاں میں آپ کو اس سلسلہ میں ایک اہم واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ نوّے کے عشرے میں ایک عزیز پرانے دوست ایئر وائس مارشل عبّاس مرزا برما میں سفیر تھے اور مجھ سے رابطہ میں تھے ایک روز اُنہوں نے بتایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مزار خستہ حالت میں تھا اور اسکی مرمت ضروری تھی اور کچھ اور کام یعنی لائبریری بھی بنوانا تھی۔ برمی حکومت یہ کام کرنے سے قاصر تھی اور کیا میں کچھ مدد کرسکتا ہوں۔ میں نے ان سے تخمینہ لگواکر بھجوانے کو کہا۔ چند دن بعد انہوں نے تقشہ جات بمعہ تخمینہ بھجوادیئے۔ تمام کام پر اکیس ہزار ڈالر لاگت آنا تھی۔ میں نے دوبئی میں اپنے عزیز دوستوں حاجی عبدالرزّاق، مرحوم میاں فاروق، کیپٹن غوث چوہدری سے ذکر کیا اور ایک ہی دن میں یہ رقم جمع ہوگئی اور میں نے اس میں کچھ اور رقم ملا کر فوراً پچیس ہزار ڈالر اےئر مارشل عباس مرزا کو بنک کے ذریعہ بھجوا دیئے۔ چند ماہ میں وہ کام مکمل ہو گیا اور مرزا صاحب نے مجھے تصاویر بھجوادیں۔ کام بہت اچھے طریقہ سے کیا گیا تھا اور ایک اچھی لائبریری بھی قائم کردی گئی تھی۔ ہمیں علم ہے کہ بہادر شاہ ظفر ایک اچھے شاعر تھے ان کا ضخیم دیوان موجود ہے۔ وہ غالب# سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کا یہ دردناک شعر آج بھی دل میں نشتر کی طرح چبھتا ہے۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر# دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہرحال حکیم صاحب نے مدینة الحکمہ میں ظفر# کے لئے ایک جگہ مخصوص کرکے اس آخری مغل بادشاہ سے اپنی محبت کا بے پناہ اِظہار کیا تھا۔ مجھے حکیم صاحب کے طویل اور عزیز دوست ہونے پر فخر ہے۔ وہ جب بھی راولپنڈی مریضوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتے تھے تو ہمارے ایک نہایت عزیز مشترکہ دوست پروفیسر ڈاکٹر مصباح الدین شامی کے ساتھ میرے پاس ضرور تشریف لاتے تھے اور ہم تعلیم، سائنس وٹیکنالوجی پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ میرے تعلقات پروفیسر شامی سے تقریباً بیس سال سے زیادہ سے ہیں۔ وہ پہلے پاکستان اکیڈمی آف سائنسزکے صدر تھے بعد میں چھ سال تک میں صدر رہا اور شامی صاحب سیکرٹری جنرل۔ ہم نے اسلامک اکیڈمی آف سائنسز کی غیر ملکی کانفرنسوں میں ہمیشہ ساتھ ہی جاکر شرکت کی۔ وہ آجکل اس اکیڈمی کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔
میں آج کا یہ کالم شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت پر لکھ رہا ہوں جو ایک دیو ہیکل محب وطن، ایک فقیدالمثال انسانیت کے ہمدرد، تعلیم کے علمبردار اور پاکستان طبّی علاج کے بانی تھے۔ دراصل چند دن پیشتر میں ہمدرد یونیورسٹی میں بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کرنے گیا تو میں نے اتنے طویل عرصہ کے بعد یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا۔ مجھے اس کی ترقی دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے ایڈمن بلڈنگ کا ایک مخصوص حصّہ بھی دیکھا جو شہید حکیم صاحب کی زندگی سے متعلق وقف ہے اس میں اُن کے لاتعداد فوٹو، ذاتی استعمال کی چیزیں، فرش پر بیٹھ کر کام کرنے کی جگہ، کپڑے، جوتے، قلم سب کچھ موجود ہے۔ اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل تھا۔ میری نگاہوں میں تمام پچھلی ملاقاتیں گھوم گئیں۔ حکیم صاحب نہایت خوبصورت دراز قد شخصیت کے مالک تھے ، رنگ گورا اور ہمیشہ صاف شفاف سفید کپڑے پہنتے تھے۔ شیروانی اور جوتے تک بغیر داغ کے سفید ہوتے تھے۔ یہ تمام سامان وہاں موجود تھا۔ وہ کپڑے بھی وہاں موجود ہیں جو حکیم صاحب شہادت کے وقت پہنے ہوئے تھے۔
یہ نہایت مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے کالم میں اتنی بڑی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاسکے۔ میں پھر بھی کوشش کر رہا ہوں کہ اس فرشتہ خصلت، مومن، مجاہد کی زندگی کے بارے میں کچھ تحریر کروں۔
شہید حکیم محمد سعید 9جنوری 1920 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور ان کو بربریت سے 17 اکتوبر1998 کو کراچی میں شہید کردیا گیا جبکہ وہ اپنے دواخانہ جارہے تھے۔ وہ مشہور زمانہ جناب حکیم عبدالمجید بانی ہمدرد دواخانہ کے صاحبزادے تھے۔ حکیم صاحب نے مشرقی ادویات میں دہلی سے گریجویشن 1940 میں کیا تھا اور بعد میں متبادل ادویات میں 1984 میں ڈی ایس سی یعنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی تھی۔ حکیم صاحب 1948 میں ہجرت کرکے کراچی آگئے اور ہمدرد دواخانہ کی بنیاد ڈالی۔ 1953 میں انہوں نے اس کو عوامی خدمت کے لئے ایک وقف میں تبدیل کردیا۔ اس وقت ہمدرد لیبارٹریز دنیا کی نہایت بڑی قدرتی جڑی بوٹیوں سے بنانے والی دوائیوں کی فرموں میں شمار ہوتی ہیں۔حکیم صاحب 1979 سے 1982تک جنرل ضیا کے مشیر تھے اور پھر آپ 1993 میں گورنر سندھ کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ کو لاتعداد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا تھا ۔ ان میں سب سے افضل پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان امتیاز تھا۔
حکیم صاحب کی اعلیٰ شخصیت پر کچھ لکھنے سے یہ قلم قاصر ہے، وہی بات ہے کہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں اس کا اختتام مشکل ہے۔ میں ادارہ سعید کے دو ممتاز کارکنان جناب سید محمد یعقوب اور مادام ڈی سلوا کے لکھے گئے دو مضامین سے کچھ مواد مستعار لے رہا ہوں۔ حکیم صاحب ایک نہایت وسیع القلب، روشن مزاج شخصیت کے مالک تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت اعلیٰ لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔(جاری ہے)
وہ نہ صرف ایک معالج تھے بلکہ اعلیٰ مصنف، ایک اعلیٰ مقرر، ایک ماہر تعلیم اور ان چیزوں کے علاوہ نہ صرف اعلیٰ منتظم تھے بلکہ ایک نہایت بڑے محب وطن تھے۔ انہوں نے صحت، سائنس، تعلیم اور ثقافت کے میدان میں لازوال خدمات انجام دی تھیں۔
حکیم صاحب کا سب سے اہم ترین و قیمتی کام اور پاکستان کو اعلیٰ ترین تحفہ مدینةالحکمہ تھا۔ یہ کراچی کے نواح میں سندھ اور بلوچستان کی سرحد ، حب ڈیم کے پاس ایک تعلیمی شہر ہے جو تین سو سے زیادہ ایکڑ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں ہمدرد یونیورسٹی کا وسیع اور اعلیٰ ترین کیمپس بھی ہے۔ اس میں ہمدرد پبلک اسکول، ہمدرد ولیج اسکول، ہنرمندی سیکھنے کا اسکول، وغیرہ ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی اور ملحقہ کالجزہیں، ہمدرد المجید کالج برائے مشرقی ادویات، ہمدرد کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری، ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹی ٹیوٹ آف فارماکولوجی اور ہربل سائنسز، ہمدرد اسکول آف ایجوکیشن اور سوشل سائنسز، ہمدرد اسکول آف مینجمنٹ سائنسز، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہمدرد اسکول آف لا ء اورہمدرد فیکلٹی آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔ مدینةالحکمہ کا ایک اور جزو بیت الحکمہ ہے جو ایک نہایت اعلیٰ اور وسیع و کشادہ لائبریری ہے جس میں لاکھوں کتب اور رسالہ جات ہیں جہاں ملک کے تمام طلباء اور اساتذہ آکر ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
ہمدرد یونیورسٹی کی شاخیں فیصل آباد، لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہیں اور یونیورسٹی کے تمام طلباء کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے اور پانچ سو پچاس سے زیادہ اساتذہ ہیں۔ مشہور قانون دان جناب ایس ایم ظفر یونیورسٹی کے چانسلر ہیں جو میرے پچّیس سال سے نہایت محترم و عزیز دوست ہیں۔ متبادل انرجی وسائل کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد خان وائس چانسلر ہیں جو عزیز دوست ہیں اور نہایت اعلیٰ منتظم اور استاد ہیں۔ یہ دونوں شخصیات یونیورسٹی کا نہایت قیمتی اثاثہ ہیں اور حکیم صاحب کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ ہمدرد فاؤنڈیشن کی پریذیڈنٹ ہیں۔ میری بہن کی طرح ہیں یہ نہایت قابل منتظم اور اچھی شخصیت کی مالکہ ہیں۔ یہ، ان کی بیٹی فاطمہ اور قابل شوہر بیرسٹر راشد یونیورسٹی کے تمام معاملات میں نہایت دلچسپی لیتے ہیں اور ہمیشہ ہر مشکل کو حل کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں اور بورڈ کی تمام میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں۔معماران پاکستان کے علاوہ میں اس ملک کی تین شخصیات کو ملک کا اور عوام کا محسن تصور کرتا ہوں۔ یہ سابق صدر غلام اسحٰق خان صاحب، شہید حکیم محمد سیعد# صاحب اور آغا حسن عابدی صاحب ہیں۔ ملک اور عوام کے لئے ان کی محبت، خلوص وخدمت کو الفاظ کے احاطے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بے حد محب وطن ، ناقابل خرید شخصیات تھیں جن کی خدمات کو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ یہ قوم کبھی ان کا احسان نہ چکا سکے گی۔ موجودہ دور میں عبدالستار ایدھی عوام کے لئے مشعل راہ ہیں۔قبل اس کے کہ میں یہ کالم ختم کروں میں حکیم صاحب کے اپنے الفاظ میں ان کی زندگی کے مقصد کو بیان کرنا پسند کروں گا۔
” میری تمام کاوش پاکستانی نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ نوجوان ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور وہاں ملک کی خدمت، ملک سے محبت اور جدوجہد کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔ ان کو یہاں بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہو “ ۔ حکیم صاحب کا یہ خواب ان کی حیات میں ہی اللہ تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ حکیم صاحب کی یاد آتی ہے تو میر# کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر# سے صحبت نہیں رہی
جوش # ملیح آبادی تقسیم ہند سے پہلے کے بہت معروف شاعر تھے۔ جیسا نام (نواب شبّیر حسن خان) و تخلص (جوش) تھا ویسا ہی اندازِبیان۔ جب کلام سناتے تھے تو محفل میں سکتہ طاری ہو جاتا تھا جبکہ ان کے ہم عصر جگر # مرادآبادی (علی سکندر) اپنی مترنم آواز کی رنگینی اپنی غزلوں میں بکھیرتے تھے۔ جوش صاحب بغیر ترنم کے بلند اور رعب دار آواز میں جوشیلے کلام کا جادو جگاتے تھے۔ قبل اس کے کہ میں آگے بڑھوں آپ کو جوش # اور جگر #کا ایک ایک شعر سنانا چاہتا ہوں۔
اے جوش # اُلجھتا ہے کیوں شیخ سَبُک سر سے
یہ عشق کو کیا سمجھے، یہ حسن کو کیا جانے
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اُچھل رہی ہے پیئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
جوش #اپنے دور کے سب سے بڑے ترقی پسند شاعر اس لئے بھی مانے جاتے ہیں کہ ترقی پسند اَدب کے شعراء جو کمیونزم کے حامی تھے روس کے ساتھ مل کر برطانیہ کی جنگ میں شرکت کیوجہ سے برٹش انڈیا کے خلاف موثر انداز اختیار کرنے سے قاصر تھے لیکن جوش ملیح آبادی نے برطانیہ کے خلاف نظم لکھ کر عوام کو ہلادیا اور سزا بھی بھُگتی۔ یہ عزّت کسی اور ترقی پسند شاعر کو اس دور میں نہیں ملی۔ کالم کا عنوان ان کے اس مشہور قطعہ کا پہلا مصرع ہے۔
سُنو اے ساکنانِ خاک و پَستی
ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
یہ ساکنانِ خاک و پستی ہند وپاک کے غلام عوام تھے جن کے خون، غیرت کو گرمانے کے لئے اُنھوں نے یہ سبق بلکہ پیغام دیا کہ غلام رہ کر لمبی عمر پانے کے مقابلہ میں آزادی سے کم وقت جینا کہیں بہتر ہے۔ دیکھئے جہاں جوش و ولولہ و غیرت نہ ہو تو انھیں بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام ایک صحیح رہبر، ہادی یا مسیحا ہی کرسکتا ہے جیسا کہ جوش نے کیا اور علّامہ اقبال نے کیا۔ مقاصد جدا تھے لیکن طریقہ کار یکساں تھا۔ برصغیر کے عوام صدیوں انگریزوں کی غلامی میں رہے اور اس غلامی سے ان کی ذہنیت پر ایسے اثرات مرتب ہوئے کہ آزادی کے تقریباً چونسٹھ سال بعد بھی وہ جذبہ (یا احساس کمتری، غلامی) ان میں ابھی تک موجود ہے۔ کبھی اپنی بزدلی کو صبر و برداشت کا نام دے کر اور کبھی مصلحت اور کبھی حکمت عملی کا عذر پیش کرکے خود بھی غیرت مندانہ قدم نہیں اُٹھاتے اور نہ ہی دوسروں کو اُٹھانے دیتے ہیں۔ شاعر عموماً بہت حسّاس ہوتے ہیں عوام کے جذبات فوراًمحسوس کرلیتے ہیں اور اپنے کلام کے ذریعہ ان کا اظہار کرتے ہیں۔ عوام کو احساس دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی ترغیب دیتے ہیں اور کبھی طنز کرتے ہیں اور کبھی تو غصّہ سے بھی اظہار کرتے ہیں۔ مولانا حالی ، اکبر الہ آبادی، علّامہ اقبال، جوش، فیض، فراز، جالب# وغیرہ نے عوام کے جذبات کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ ایسے ہی احساسات کی ترجمانی ساحر لدھیانوی نے اس خوبصورت مصرع میں کی تھی۔
”یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی“
اس کی ایک نہیں کئی مثالیں ہر دور میں مل جاتی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں ملک کے قابل ترین وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قید و بند اور سزائے موت پر اس وقت بمشکل کسی نے مخالفت میں سر اُٹھایا۔ انتہائی شرم کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھٹو صاحب کی گرفتاری اور پھانسی پر بڑے بڑے لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور ان میں سے ایک صاحب اس وقت بہت اہم عہدہ پر قائم ہیں اور بھٹو صاحب اور بینظیر کے قصیدے گاتے ہیں۔ اس وقت نہ ہی جلسے کئے گئے نہ ہی جلوس نکالے گئے تھے بلکہ جنرل ضیاء کی ”شفقت“ حاصل کرنے کی ریس شروع ہوگئی تھی۔ اب ”مردہ پرستی کا“ دور آگیا ہے۔ لوگ انھیں یاد کرتے ہیں اور اہم مقامات اور تعلیمی ادارے ان کے نام سے منسوب ہیں مگر اُس وقت یہ قوم مردہ تھی۔ ابھی حال ہی کا واقعہ دیکھئے، بینظیر کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا۔ وقتی طور پر کچھ ہنگامہ آرائی ہوئی لیکن نہایت افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے شوہر صدر ہیں، ان کی پارٹی برسراقتدار ہے، ملزمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کو معلوم ہیں مگر ظاہر نہیں کئے جاتے۔ کثیر رقم اقوام متحدہ کو دی گئی اور نتیجہ صفر نکلا اور آجتک ایک مجرم بھی نہ پکڑا گیااور نہ ہی کیفر کردار کو پہنچا۔ بھٹو صاحب اور بینظیر کی لاشوں اور مزاروں کی سیاست عروج پر ہے۔ ان کے ایام وفات پر جلسے جلوس ہوتے ہیں، ایک میلہ لگایا جاتا ہے اور بس۔ اور جو شخص ان کی حفاظت کا ذمّہ دار تھا اسکو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا اور وہ اب کھلے عام کہتا ہے کہ دیکھو، سوچو فائدہ کس کو ہوا ہے دو عہدے کس کو ملے ہیں اور خود نتیجہ اخذ کرلو۔
آج وہ دور آگیا ہے کہ پورے ملک میں (اور دنیا کے کئی ممالک میں) مجبور و معذور طبقہ ہاتھ اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حکمراں طبقے کو بددُعا دے رہا ہے اور انقلاب کی خواہش کررہاہے۔ اس کا خون (خون کیا بے چارے کے بدن میں تواب پانی بھی شاید ہی ہو) اُبل رہا ہے۔ یہ ایک بارود کا ڈھیر ہے اور صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے پورا کا پورا نظام اُڑ جائے گا، غاصب اور جابر اور خائن حکمراں بھاگے بھاگے پھریں گے اور ان پر زمین تنگ ہو جائے گی۔ آپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ ایک ریس کا ڈرائیور اپنے آپ کو ماہر سمجھتا ہے مگر اکثر کار کے ایکسیڈنٹ میں ہی ہلاک ہوتا ہے، ایک اچھا تیراک، غوطہ خور ڈوب کر مرتا ہے اور وافر خوراک کھانے والے فاقہ کشی کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ آپ کے سامنے مارکوس، شہنشاہ ایران، حسنی مُبارک، بن علی وغیرہ کی مثالیں موجود ہیں۔ وہی بات ہے۔
”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا“
برسوں کی آمریتیں صرف چند دنوں میں خانہ کعبہ کے بتوں کی طرح پاش پاش کردی گئیں اور آج ان آمروں کو کوئی پوچھنے والا یا یاد کرنے والا نہیں ہے۔ (جاری ہے)
سیلاب چل پڑا ہے بند کے بعد بند ٹوٹ رہے ہیں اور اس سیلاب کی لپیٹ میں ایک کے بعد ایک ڈکٹیٹر، جابر آتا جارہا ہے۔ پاکستان کا نمبر بھی جلد یا بدیر ضرور آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل برائے حجّت ضرور دیتا ہے مگر وہ ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے اور بلا شبہ اس کی گرفت بہت سخت، تکلیف دہ اور اچانک ہوتی ہے پھر رونا، دھونا، معافی مانگنا کچھ کام نہیں آتا۔ایک جانب تو ہمارے ملک میں تقریباً پندرہ کروڑ افراد غربت کا شکار ہیں اور بمشکل دو وقت کا روکھی سوکھی کھانے کے قابل ہیں اور دوسری جانب ارب پتی تاجروں، سیاست دانوں نے پچھلے چند برسوں میں تقریباً ڈھائی سو ارب کے قرضہ جات معاف کرا لئے اور اب شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اخباری خبروں کے مطابق پاکستانی لٹیروں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں تقریباً اٹھائیس ٹریلین (کھرب) روپیہ چھپارکھا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے حساب لگایا ہے کہ یہ تیس سال تک ٹیکس فری بجٹ کے لئے کافی ہے، چھ کروڑ پاکستانیوں کے لئے ملازمت مہیا کرسکتا ہے۔ تقریباً بیس ہزار روپیہ ماہانہ ہر پاکستانی شہری کو ساٹھ سال تک دے سکتا ہے۔ ہمیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات دلا سکتا ہے اور یہ رقم صرف چند چوروں اور لٹیروں نے اس ملک کو لوٹ کر وہاں رکھی ہوئی ہے اور پندرہ کروڑ افراد غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں آمروں، چوروں اور لٹیروں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کا ایک ہی طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کی غلامی کرو، ان کے احکامات و پالیسیوں پر عمل کرو اور یہ غریب، بے بس، محکوم و مظلوم عوام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند دُور اندیش سیاست داں اور تجزیہ نگار انقلاب کی دستک سُن رہے ہیں اور آگاہ بھی کررہے ہیں وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو تنبیہ بھی کر رہے ہیں اور عوام کو انقلاب لانے اور بزور قوّت اپنے حقوق حاصل کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔ہمارے ملک کی سخت بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے عیّار حکمراں اپنی بقا کے لئے عوام کو زبان، صوبہ اور فرقہ کے نام پر تقسیم کرنے میں آج تک کامیاب رہے ہیں اور جب بھی ان کے خلاف عوام آواز اُٹھاتے ہیں تو وہ فوراً یہ ہتھیار استعمال کرنے لگتے ہیں۔
دیکھئے ضرورت اس بات کی ہے تمام پارٹیوں میں موجود غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے نمائندوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انقلاب کی ضرورت سے عوام کو آگاہ کریں۔ سارے غریبوں کے ہمدرد بلا لحاظ زبان، صوبہ، فرقہ یکجا ہوجائیں تو یہ انقلاب کامیاب ہو سکتا ہے اور جلد آسکتا ہے ورنہ بقول غالب# ”درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا“۔ مجبور اور بے بس عوام کو اس وقت دوا کی اشد ضرورت ہے اور وہ انقلاب کی آواز سُن رہے ہیں۔ یہ آواز تیونس، مصر سے گزر کر اردن پہنچ چکی ہے۔ اے پاکستانی عوام اُٹھو، اپنا حق مانگو اس کے لئے قربانیاں دو، ظالموں کو اُکھاڑ پھینکو، بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ظالموں کی چھڑی کے آگے نہ دوڑو، بہت کم وقت رہ گیا ہے اگر اے نوجوانوں تم نے اپنے ملک کو نہیں بچایا تو پھر”ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔
نہ ہی طبیعت چاہ رہی ہے اور نہ ہی ایسی باتوں کا حکمرانوں اور دوسرے اصحاب ِ اقتدار پر کچھ اثر ہوتا ہے مگر پھر بھی مجبوراً آج دل کی آواز پر (دماغ کی نہیں) لبیک کہہ رہا ہوں اور کیوں نہ کہوں اس میں پاکستانی عوام کے دلوں کی آوازیں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے آج ان باتوں اور مسئلوں پر کچھ بات کرونگا جن کی وجہ سے پوری قوم ماسوائے حکمران طبقہ سخت پریشان ہے اور پاکستان کے مستقبل کے بارہ میں سخت تذبذب میں ہے کہ اس پیارے ملک کا کیا ہونے والا ہے، اس کا کیا مستقبل ہے اور ہمارے آئندہ چند برسوں میں کیا حال ہوگا۔
آپ کو کن کن مسائل کے بارہ میں بتلاؤں۔ آپ بھی واقف ہیں کہ پچھلے تین برسوں میں اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردی گئی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، قتل و غارتگری، قانون، امن کا فقدان، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ غرض دنیا کی کوئی ایسی لعنت نہیں ہے جو ہم پر اس وقت نازل نہیں ہوئی ہے اور کیوں نا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں سورة مائدہ (آیات 104 ) میں ہمیں نہایت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ تو کی ہے، ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمھیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو“۔ اس آیت کی تشریح یا تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ بجائے اس کے کہ انسان ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کررہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے اُسے یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا کررہا ہے، اس کو فکر اپنے خیالات کی، اپنے اخلاق و اعمال کی ہونی چاہئے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر انسان خود اللہ کی اطاعت کررہا ہے، اللہ اور اس کے بندوں کے جو حقوق اُس پر عائد ہوتے ہیں انھیں اداکررہا ہے اور راست روی اور راست بازی کے مقتضیات پورے کررہا ہے جس میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے تو یقینا کسی شخص کی گمراہی، کج روی اس کو نقصان نہیں پہونچا سکتی۔ مگر اس آیت کا یہ منشا ہر گز نہیں ہے کہ انسان بس اپنی نجات کی فکر کرے دوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ اب غور سے پڑھیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا۔ ”لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ تعلی اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو ورنہ اللہ تعلیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مُسلط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہونگے اور وہ تم کو سخت تکالیف پہونچائینگے پھر تمھارے نیک لوگ اللہ تعلی سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی (تفہیم القران)“۔ اس وقت کیا ملک کی حالت اس طرح نہیں ہے ،کیا ہم پر بدترین لوگ مسلط نہیں ہیں ، کیا وہ ہمیں یعنی عوام کو تکالیف نہیں دے رہے ، کیا ہمارے نیک بندوں کی دُعائیں رائیگاں نہیں جارہی ہیں؟ اس وقت ملک میں خود مختاری اور غیرت عنقاہے۔ غیر ملکی پاکستانیوں کا دن دہاڑے قتل عام کررہے ہیں، حکمرانوں نے صرف ملک کا وقار خاک میں ملا دیا ہے بلکہ عوام کی عزّت و غیرت بھی لوٹ لی ہے۔ سیاستدانوں، سیاسی پارٹیاں خودغرض و مطلب پرست ہو گئی ہیں اور سوائے اپنے مقاصد کے ان کے لئے اور کوئی چیز نہ ہی قابل توجہ اور نہ ہی قابل اہمیت ہے۔
اس وقت میں جس اہم معاملہ کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ حکومت کا عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ اور عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنا ہے۔یوں تو اب پاکستانی قوم حکومت اور عدلیہ کی محاز آرائی کے عادی ہو چکی ہے اور بار بار دیکھ چکی ہے کہ کسطرح محترم جج صاحبان آگ و شعلے برساکر فیصلہ سناتے ہیں اور کسطرح حکومت ان کے فیصلوں کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتی ہے اور جج صاحبان پھر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں لیکن موجودہ واقعہ یعنی کنٹریکٹ پر رکھے گئے لوگوں کی چھٹی نہ کرکے اور خاص طور پر ڈی جی ایف آئی اے وسیم احمد کو سخت اور غیر متنازعہ احکامات کے باوجود نہ ہٹا کر عدالت عالیہ کی عزّت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ آپ نے گیلانی کو باربار ٹی وی پر دیکھا ہے کہ دونوں ہاتھ اُٹھااُٹھا کر پارلیمنٹ میں کہہ رہے ہیں کہ ہم عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ان پر عمل کرینگے لیکن عوام کے سامنے ان لاتعداد واقعات کو دوہرانے کی ضرورت نہیں جہاں غالباً انھوں نے اپنے ڈرائیور کے مشورہ کو عدلیہ کے فیصلوں پر فوقیت دی ہے اور ان تمام ناخوشگوار واقعات کی ذمّہ داری ایک ہی فرد واحد یعنی گیلانی پر عائد ہوتی ہے، چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے حکومت کے ہر عمل، کاروائی ان کی ذمّہ داری ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ جب گھوڑا، گدھا، بیل یا بکری بے قابو اور نافرمان ہوجاتے ہیں تو جس پر ان کو سیدھا رکھنے کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے وہی ان کو ٹھیک کرتا ہے۔ اُمور مملکت کے بارہ میں یہ بھاری ذمّہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو غلط کاموں سے روکیں اور اگر وہ غلط کام کریں تو بلاتاخیر و حیل و حجّت ان کے خلاف سخت اقدامات اُٹھائیں۔ میں نے اسی روزنامہ جنگ میں اپنے 26 نومبر 2008 کے کالم میں ملکی مسائل کی وجوہات کی ذمّہ داری عدلیہ پر ڈالی تھی۔ میں نے بہت سے پچھلے واقعات کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی بتلایا تھا کہ کسطرح ضمیر فروش جج صاحبان نے جن میں میر کارواں جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر تھے ملک کے وقار کو خاک میں ملادیا تھا۔ عدلیہ نے اس کے بعد عوام کا اعتماد کھو دیااور موجودہ حالات نے کم وبیش آزاد و خودمختار عدلیہ کے بھرم کو بھی کھول دیا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ ابھی ابھی ہندوستان میں حکومت نے انٹی کرپشن کا سربراہ جس شخص کو لگایا وہاں کی سپریم کورٹ نے اس کو نااہل قرار دے کر ہٹا دیا ۔ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے کسی وزیر، کسی سیاست دان نے ایک لفظ بولنے کی جرائت نہیں کی ۔
میں نے اپنے ایک کالم میں آپ کو بتلایا تھا کو کسطرح ایک منصف یعنی قاضی نے سلطان محمود غزنوی کے ترک سپہ سالار کو باہر نشہ کی حالت میں پکڑ کر درّے مارمار کر کھال اتاردی تھی اور چند دن پیشتر میں نے ”مات الیہودی“ نامی کالم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عمر اور یہودی عامل کا قصّہ بیان کیا تھا لیکن یہاں یہ وہم جڑ پکڑ چکا ہے کہ خواہ وہ وسیم احمد ہوں یا کوئی اور بیوروکریٹ اگر وہ ہٹایا گیا تو حکومت کے تمام ستون گر جائینگے۔ اپنے ایک کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ معذرت خواہانہ لہجہ میں سچ بولنا اور مصلحت کے تحت ٹھیک اور جلد انصاف نہ کرنا جھوٹ بولنے اور نا انصافی سے بدتر گناہ ہیں۔دیکھئے میں آہستہ آہستہ اور احتیاط سے نہایت حساس اور اہم ملکی تنازعہ یعنی عدلیہ اور حکومت کی شمشیر زنی کی جانب آرہاہوں۔ جب عوامی دباؤ کے تحت زرداری اور گیلانی کی جوڑی نے عدلیہ بحال کی تو عوام کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور ان کی توقعات آسمان تک پہنچ گئیں۔(جاری ہے)
آہستہ آہستہ ان پر یہ عیاں ہوا وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ اُنھوں نے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے ”سُو موتو“ مقدمات پر بہت زور دیا گیا اور اہم قومی مقدمات سرد خانے کی نظر ہوگئے یا اگر فیصلے دیئے گئے تو ان پر قطعی عمل درآمد نہیں ہوا۔ سب سے پہلے این آر او کا مشہور مقدمہ آیاجس سے مستفید ہونے والے آج بھی صاحب اقتدار ہیں اور عیاشی کررہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کسطرح بابراعوان، کھوسہ وغیرہ نے عدالت عدلیہ کے کسی حکم کی تعمیل نہیں کی بلکہ ہم نے تو یہ بھی سنا کہ ”میری لاش پر“ یہ عمل ہوگا۔
میں انجینئر اور سائنسدان ضرور ہوں مگر قانون کے بارہ میں اتنی ہی معلومات ہیں جو پچھلے 35 برسوں میں مقدمات کی تفصیل اور ان پر دیے گئے فیصلوں سے ملی ہیں۔ لیکن عام سمجھ بوجھ کے استعمال سے بھی بہت سی باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ میں آجتک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کونسا ہائیڈروجن بم بنانے کا نسخہ تھا جس نے محترم جج صاحبان کو مشرف کے سرکاری ملازم ہوکر صدارت کا الیکشن سمجھنے میں دشواری پیدا کی، یا وہ کونسا چاند کا مشن ہے جو اس فیصلہ سے روکے ہوئے ہے کہ زرداری دو عہدے رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ جب ایسے مقدمات کے فیصلے نہیں دیئے جاتے تو عوام شک کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں ک عدلیہ جان بوجھ کر ٹال مٹول سے کام لے کر حکمرانوں کی حمایت کررہی ہے۔ دیکھئے اس سے عدالت کے تقدّس اور شہرت پر برا اثر پڑتا ہے آپ اگر حمایت میں بھی فیصلہ دیدیں تو لوگ قبول کرکے چپ ہوجائینگے اور صوابدید آپ کی اور آپ کے ضمیر کی ہوگی۔ اگر عدلیہ سوئس مقدمے کے بارہ میں اٹارنی جنرل، نیب چیرمین اور وزیر قانون کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ہتک عدالت کے جرم میں سزا دے کر زندگی بھر کے لئے عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دیدیتی تو آج وزیر اعظم کی یہ جرائت نہیں ہوتی کہ کنٹریکٹ پر رکھے پیارے اور وسیم احمد کے بارہ میں حکم کی عدولی کرتے اور اگر کرتے تو بلا کر ان کو بھی آدھے گھنٹے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سجادہ نشین کی سعادت عطا کردیتے۔ جس طرح سے نظام انصاف جاری ہے عوام سخت پریشان ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ عدلیہ کی خود مختاری اور آزادی ایک سراب تھا۔ ملک اس وقت نہایت خطرناک چوراہے پر کھڑا ہے اور اگر محترم جج صاحبان بلاخوف و خطر، بلاتفریق چلد فیصلے نہیں دینگے تو یہ چاند جو پہلے ہی سے گرہن کا شکار ہے بالکل چھپ جائے گا۔ فوج کی جانب دیکھنا بے کار ہے جو بھی ڈکٹیٹر اقتدار پر قابض ہوا وہ راشی، اقرباپرور اور نااہل ہی ثابت ہوا اور ملک کو سخت نقصان پہونچا کر ہی اقتدار چھوڑا۔ عدلیہ اور عوام ہی اس ملک کی نجات ہیں۔ عدلیہ کو سیاست میں اُلجھانا اس قوم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ دیکھئے عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ جلد ازجلد اچھے، غیرمتنازعہ سخت قوانین تشکیل دیں کہ عدلیہ ان سے پوری طرح مسلح ہوکر مجرموں سے آہنی ہاتھ سے فوراً نمٹ سکے۔ اچھے قوانین کے فقدان کی وجہ سے اور حکومت کی جانب سے صحیح پیروی نہ کرنے کی وجہ سے لاتعداد مجرم پہلے ملزم اور پھر فرشتہ بن کر عدالت سے باہر آجاتے ہیں۔ آج سے 25 سال پیشتر امریکہ میں ایک پاکستانی پر پاکستان اشیا غیر قانونی طور پر برآمدکا الزام تھا۔ کیس کافی طویل عرصہ تک چلا اور ملزم کو زیادہ سخت سزا نہیں ملی۔ جب ایک اخباری نمائندہ نے جج کے ریٹائر ہونے کے بعد اس سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا اور یہ شک ظاہر کیا کہ اس نے حکومت کے دباؤ میں نرم فیصلہ دیا تھا تو اس نے مسکرا کر کہا کہ حکومت کو جج پر دباؤ ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی جج دباؤ میں آتے ہیں۔ حکومت کے لئے یہ نہایت آسان طریقہ ہے سرکاری وکیل کس کو ڈھیلے طریقہ سے پیش کردے اور عدالت کا فیصلہ ہمیشہ شہادتوں اور ثبوتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں مگر پھر بھی جج صاحبان اور عدلیہ کے پاس بہت ”ہتھیار“ ہوتے ہیں اور وہ بلادانت کے شیر نہیں ہوتے اگر چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ جلدفیصلے دے سکتے ہیں، مقدمات کو طوالت سے روک سکتے ہیں، غیرضروری گواہوں کی تعداد ختم کرسکتے ہیں، التواکی درخواستیں رَد کرسکتے ہیں اور اگر حکومتی عہدیدار ہدایت پر عمل نہ کریں تو انھیں ہتک عدالت کا مجرم قرار دے کر ان کا مستقبل تباہ کرسکتے ہیں مگر کیا یہ ہوسکے گا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔
دیکھئے ابھی پچھلے پانچ چھ سال میں جو قدرتی آفات دنیا پر نازل ہوئی ہیں اور عوام و ملکیت و مویشی تباہ ہوئے ہیں میں آج اس پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ 2005 کو کشمیر کا زلزلہ اور پچھلے سال کا تباہ کن سیلاب ابھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ اس سے پیشتر سونامی (سمندری سیلاب) نے تباہی پھیلا کر تین لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ صرف انڈونیشیا میں اَڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اِملاک اور مویشی کے نُقصان کا اندازہ اَربوں ڈالر میں لگایا گیا تھا۔ چند سال گزرنے کے بعد متاثرین ابھی بھی بغیر چھت اور بے یارومددگار کھلے آسمان کے نیچے عذاب الٰہی کا شکار ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جب یہ بے چارے عوام احتجاج کرتے ہیں تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔
دَرحقیقت میں یہ مضمون اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ابھی چند دن پیشتر جاپان میں زلزلے سے اور سونامی نے جو تباہی مچائی ہے اور جو مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ان سے دل دہل گیا ہے۔ پہلے تقریباً رِیکٹر اسکیل پر9 کا زلزلہ اور پھر دس دس میٹر اُونچی طوفانی لہریں، بڑے بڑے مکانات، عمارتیں، جہاز، بسیں، کاریں، کشتیاں پانی پر اس طرح تیرتی اور بہتی نظر آئیں جسطرح ہم پچپن میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر بہتے نالے میں چھوڑ کر ان کو بہتا دیکھتے تھے۔ یہ ہولناک مناظر دیکھ کر مجھے اللہ رب العزّت کے فرمودات اور تنبیہات یاد آگئی ہیں۔ آئیے آج ان کی روشنی میں موجودہ آفات کے نزول کو دیکھتے ہیں۔
اللہ رب العزّت نے کلام مجید میں ہم کو اس طرح خبردار کیا تھا۔ ”جب زمین بھونچال سے ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ باہر پھینک دے گی اور انسان (گھبرا کر) پوچھے کا کہ اس کو کیا ہوا ہے اس روز وہ اپنے حالات بیان کردے گی کیونکہ تمھارے پروردگار نے اس کو اس کا حکم دیا ہوگا۔ اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئینگے تاکہ ان کو انکے اعمال دکھائے جائیں۔ تو جس نے ذرّہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بُرائی کی وہ اسے دیکھ لے گا“ (سورة الزلزال) ۔ ”کھڑکھڑانے والی، کھڑکھڑانے والی کیا چیز ہے؟ تم کیا جانو کھڑ کھڑ انے والی کیا چیز ہے۔ یہ وہ قیامت ہے جس دن لوگ ایسے ہونگے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے اور پہاڑ ایسے ہوجائینگے جیسے دُھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اُون۔ تو جس کے اعمال اچھے ہونگے اسکو دلپسند عیش ملے گا اور جس کے اعمال ٹھیک نہ ہونگے اس کا مقام ہاویہ ہے اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا ہے؟ وہ دہکتی ہوئی آگ (جہنّم) ہے“۔ (سورة القَارِعَہ) ۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو ہم ان کے خوشحالی میں مگن (امیر) لوگوں کی کثرت کردیتے ہیں تو وہاں نافرمانی شروع کردیتے ہیں پھر ان پر حجّت تمام ہوجاتی ہے اور پھر ہم اسے پوری طرح برباد کردیتے ہیں“ (سورہ بنی اسرائیل) ۔ اور دیکھیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح غیر مبہم اور صاف صاف الفاظ میں لوگوں کو خبردار کیا ہے۔ ”اور تم یہ گمان مت کرو کہ اللہ ان کاموں سے غافل ہے جو گناہ گار کرتے ہیں اللہ نے انھیں صرف اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس روز ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائینگی“۔ ”اور واقعی ان لوگوں نے اپنی خفیہ تدبیریں کرلی تھیں اور ان کی سب تدبیریں اللہ کے سامنے تھیں۔ اور واقعی ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ ان کے آگے پہاڑبھی اپنی جگہ سے ہل جائیں (مگر ہمارے آگے ان کی کوئی تدبیر کام نہ آئی )“ (سورة ابراہیم) اور زلزلے، سیلاب وغیرہ سے جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کیلئے اللہ نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے۔ ”اور ہم نے جو بستیاں ہلاک کی ہیں ان سب کے لئے ایک جانا ہوانوشتہ ہے۔ کوئی قوم اپنے وقت معینّہ سے نہ پہلے ہلاک ہوتی ہے اور نہ پیچھے رہتی ہے“ (سورة حجر)۔ آپ نے ہم نے دیکھا کہ لوگ کیا تدبیریں نہیں کرتے، خود کو وہم میں مبتلا رکھتے ہیں کہ انھوں نے جو احتیاطی اقدامات کئے ہیں ان سے وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں گے اور ان کی ٹیکنالوجی ان کو ہر تکلیف سے بچالے گی مگر اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اس پر غور کیجئے۔ ”ان سے پہلے بھی لوگ تدبیریں کرچکے ہیں مگر اللہ نے ان کی عمارتوں کو جڑوں سے اُکھاڑ پھینکا اور پھر ان پر اوپر سے چھتیں گرپڑیں اور ان پر ایسی جانب سے عذاب آیا جہاں ان کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور پھر اللہ ان کو قیامت کے روز مزید رسوا کرے گا“ (سورہ نحل)۔ جاپان (اور اس سے پیشتر انڈونیشیا، کشمیر وغیرہ) میں جو بھی ہلاکتیں اور تباہی پھیلی ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے ان فرمودات کی روشنی میں دیکھئے۔ ”کیا انھیں اس بات سے سمجھ نہیں آئی کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی بستیوں کو تباہ و برباد کردیا یہ لوگ ان کی رہائش گاہوں اور بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں بلاشبہ اس میں عقل و فہم والوں کے لئے عبرت کی نشانیاں ہیں “(سورہ طہ)۔” اور ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا ہے۔ کیا آپ ان میں سے کسی کی آہٹ پاتے یا ان کی بھنک سنتے ہیں؟“ (سورةمریم)۔ ” ان سے پہلے جو بستیاں بھی ہم نے تباہ و برباد کی تھیں وہ ایمان نہیں لائی تھیں تو کیا وہ اب ایمان لائینگے؟“ (سورة انبیاء)۔
آئیے اور دیکھئے کہ سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے۔ ”اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کرڈالیں اور ہمارا عذاب کبھی رات کے وقت آیا یا دوپہر کو جبکہ وہ آرام کررہے تھے اور پھر جب ہمارا عذاب آپہنچا تو اس بستی والوں کے منھ سے اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ واقعی ہم بڑے ہی گنہگار تھے“۔ اور اسی سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ہے۔ ”کیا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہوچکے ہیں کہ ہماری طرف سے ان پر عذاب آجائے رات کے وقت جب کہ وہ سورہے ہوں یا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہوچکے ہیں کہ ہمارے عذاب ان پر دن دہاڑے آجائے جب وہ کھیل کودمیں مصروف ہوں یا وہ اللہ کی ناگہانی گرفت سے بے فکر ہورہے ہوں اگر ایسا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی ناگہانی پکڑ سے صرف نقصان اُٹھانے والے ہی بے فکر ہوتے ہیں“۔ ”کیا ان لوگوں پر جو ملک کے وارث ہوئے وہاں کے باشندوں کے ہلاک ہونے کے بعد یہ ظاہر نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو انھیں بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیں اور دراصل ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے وہ اب سنتے ہی نہیں ہیں“ (سورہ اعراف)۔
سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف خبردار کیا ہے۔ ”اور عاد اور ثمود کو ہم نے تباہ کردیا اور تمھارے لئے ان کا انجام ان کی رہائش گاہوں سے عیاں ہے اور شیطان نے ان کے اعمال بد انھیں پسندیدہ کردکھائے اور راہ راست سے روک کر غلط راستہ پر چلادیا۔ حالانکہ یہ لوگ بصیرت رکھتے تھے۔ اور قارون وفرعون وہامان کے پاس موسیٰ کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن اُنھوں نے ملک میں سرکشی کی اور وہ ہماری گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے تھے سو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا۔ سو کچھ پر ہم نے پتھر برسائے اور بعض کو کڑک نے آپکڑا اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ہم نے سمندر میں غرق کردیا اور اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“ سورہ طور میں اللہ رب العزّت نے یوں خبردار کیا ہے۔ ”کوہ طور کی قسم اور لکھی ہوئی کتاب (قرآن) کی جو کشادہ اوراق میں ہے اور اونچے چھت (آسمان) کی کہ تمھارے پروردگارکا فرمایا ہوا قیامت کا دن واقع ہوکر رہے گا اور اس کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ جس دن آسمان کپکپا کر لرزنے لگیں گے اور پہاڑ اُون کی طرح اُڑنے لگیں گے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے جو خود باطل میں پڑے کھیل رہے ہیں اس دن ان کو آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کر لے جائے جائینگے“۔
دیکھئے عہد قدیم میں جب مواصلاتی نظام ناپید تھا اور بہت سے لوگوں تک پیغمبروں کی ہدایت نہ پہنچ پاتی تھی تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر ان کی معصومیت اور لاعلمی کی وجہ سے رحم فرما دیتا تھا لیکن موجودہ دور میں جبکہ جدید ترین ذرائع معلومات (کتب، انٹرنیٹ وغیرہ) موجود ہیں اور عوام اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کے پیغامات سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں تو وہ لاعلمی کی حجّت ختم ہوجاتی ہے اور اس بات کو مدِّنظررکھ کر ہی تو سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔ ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو سمجھانے کیلئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں لیکن انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔ اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آگئی تو ان کو کس چیز نے منع کیا ہے کہ ایمان لائیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں بجز اس بات کے منتظر ہوں کہ انھیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے موجود ہو“۔ موجودہ عذاب/عتاب اللہ تعالیٰ کے فرمودات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ غیر مسلمانوں اور نام نہاد مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کررہا۔جو بھی اسکے احکام کی نافرمانی کررہا ہے ان پر اس کا عتاب نازل ہو رہا ہے۔
ملک میں اس وقت جو دو اہم واقعات زیربحث ہیں سوچا ان پر کیوں نہ کچھ طبع آزمائی کروں۔ دیکھئے پہلا واقعہ تو حج کرپشن کیس ہے اس میں لوگوں نے جو ضمیر فروشی کی اور غریب حاجیوں کے خون پسینہ کی کمائی پر ڈاکہ ڈالدیا اس کا جواب تو انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی دینا ہوگا اور یقینا اللہ تعالیٰ کی گرفت بہت ہی سخت اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ بعض گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ میں ڈالے گا اور ان کی کھال باربار بدلتا رہے گا کہ انھیں اپنے غلط کاموں کا صحیح صلہ ملے۔ اخبارات میں خبریں چھی ہیں کہ اڑھائی سو سے زیادہ اصحاب استعداد فقیروں کے بھیس میں مفت حج کرنے گئے وہاں ڈی جی حج راؤ شکیل نے چوری و رشوت کے پیسوں سے ان کی خوب خاطر و مدارت کی اور پی آئی اے نے وہاں تاخیر سے پہونچنے پر کئی لاکھ روپیہ جرمانہ بھی سرکاری رقم سے ادا کیا۔ ماشاء اللہ کیا چوروں، راشیوں اور منافقوں کا ٹولہ ہم پر مسلط ہے۔
مجھے اس واقعہ سے 1904 میں بیگم بھوپال نواب سلطان جہاں بیگم کا حج پر جانے کا واقعہ یاد آگیا۔ بیگم صاحبہ نے حج پر جانے کا ارادہ کیا، بھوپال میں مقیم انگریز پولیٹکل ایجنٹ کو اطلاع دی۔ اس نے فوراً بمبئی میں گورنر کو اطلاع دی کہ ایک جہاز کا کرایہ پر بندوبست کردیا جائے۔ یہ کام خوش اسلوبی سے ہوگیا۔ انگریزوں نے ترک گورنر کو جدّہ میں مطلع کردیا کہ بیگم صاحبہ حج پر آرہی ہیں انگریزی حکومت کی مہمان خصوصی ہیں ان کو پورا پروٹوکول دیا جائے اور سیکیورٹی مہیا کی جائے۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے بقلم خود اس حج کے سفر کی تفصیلات درج کی ہیں جو میں کبھی بیان کرونگا اس میں خاص بات شریف مکہ کی بدمعاشی کا تفصیلی بیان ہے کہ کسطرح اسنے بیگم کو اور ان کے قافلہ کو لوٹنے کی کوشش کی تھی اور ترک گورنر کو دخل اندازی کرنا پڑی تھی۔ بہرحال عرض یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ جب جہاز کا بندوبست ہوگیا اور تمام انتظامات مکمل ہوگئے تو بیگم صاحبہ نے بھوپال کے اخبارات میں اور سرکاری اعلانیہ میں عوام کو دعوت دی کہ جو جانا چاہے وہ مفت جاسکتا ہے۔
بیگم صاحبہ سب کو اپنے ساتھ اسپیشل ٹرین سے بمبئی لے جائینگی اور پھر جہاز پر جدّہ اور تمام فرائض حج وغیرہ اور بھوپال واپسی تک تمام مصارف بیگم صاحبہ جیب خاص سے برداشت کریں گی۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ایک جی ہاں ایک فرد نے بھی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ جب اللہ تعالیٰ استعداد دے گا تو اپنے خرچ پر حج کرینگے۔ اس طرح حج کرنا جائز نہیں ۔ ایک وہ لوگ تھے اور آج کے کروڑ پتی فقیر اسی تاک میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح صدر اور وزیراعظم کے وفد میں شامل ہوکر مفت عمرہ اور حج کرلیں۔
آپ کی توجہ دوسرے واقعہ یعنی سپریم کورٹ کی جانب سے چند سرکاری اہلکاروں کی چھٹی کرنے کے احکامات کی حکومت کی جانب سے نفی اور ان اہلکاروں کی بے حسی اور موٹی کھال کی جانب مبذول کرانا چاہتاہوں۔ آپ نے دیکھا کہ نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کے بارہ میں سپریم کورٹ نے کس قدر واضح احکامات دیئے مگر زرداری، گیلانی اور بابر اعوان ٹرائیکا نے ان کو ردّی کو ٹوکری میں ڈالدیا۔ دیکھئے جہاں تک حکومت اور عدالت عالیہ کے تنازعہ اور حکومت کا عدلیہ کے احکامات کی تعمیل نہ کرنا ہے وہ ان دونوں کے درمیان معاملہ ہے۔ میں یہاں ان لوگوں کے بارہ میں تبصرہ کرنا چاہتاہوں جن کے بارہ میں سپریم کورٹ کے نہایت واضح احکامات ہیں کہ ان کو گھر جانا چاہئے مگر یہ حکمرانوں کے گلے میں پھندا بن کر لٹکے ہوئے ہیں اور صدر اور وزیراعظم کے لئے خفت اور شرمندگی کا باعث ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کو ایک نہایت نصیحت آمیز اور قابل تقلید واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
”کہا جاتا ہے کہ واثق باللہ (نواں عباسی خلیفہ) کا دربار لگا ہوا تھا۔ فریادیوں کا ہجوم تھا اور دربار میں عمّارہ بن حمزہ وزیراعظم بھی موجود تھے۔ ایک ستم رسیدہ شخص نے عمّارہ کے خلاف نالش کی کہ اُنھوں نے زبردستی اس کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔امیرالمومنین واثق باللہ نے عمّارہ سے کہا کہ وہ اُٹھ کر مدعی کے پاس جاکر بیٹھ جائیں اور اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتے ہیں وہ بیان کریں۔ اب دیکھئے عمّارہ کا کردار اور عہدہ کے تقدس کا لحاظ۔ عمّارہ نے کہا امیرالمومنین میں اس مقدمے میں فریق بننا نہیں چاہتا اگر اس شخص کے خیال میں یہ زمین اور جائداد جس پر یہ دعوٰی جتلارہا ہے اسی کی ہے تو میں اسی وقت اپنی ملکیت سے دستبردار ہوتا ہوں۔ عمّارہ نے مزید کہا کہ چونکہ امیر المومنین نے مجھے ایک بلند منصب عطا فرمایا ہے اسلئے میں جائداد کے قبضے میں فریق بن کر اپنے منصب کے تقدس کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ عمّارہ کی اس عالی ظرفی سے خلیفہ اور عمائدین سلطنت بے حد خوش ہوئے اور اس کے اقدام کو بے حد سراہا“ ( نظام الملک طوسی)۔
ایک تو اعلیٰ کردار کی یہ مثال ہے اور دوسری جانب نیب اور ایف آئی اے کے افسران کا قابل مذمّت روّیہ ہے کہ حکومت کے لئے شرمندگی اور بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ عموماً میں ملک میں ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات پر تبصرہ کرنے اور اپنے کالم میں شامل کرنے سے گریز کرتا ہوں مگر تین واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ان پر مجبوراً کچھ کہنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے تو ایم کیوایم اور پی پی پی کی نورا کشتی ۔ پوری قوم اب اس ”دولھا دُلھن“ کے نخرے بازی کی عادی ہوچکی ہے۔ حسب معمول ایم کیو ایم ناراض ہوئی۔ صدر کراچی پہنچ گئے۔ رحمن ملک لندن پہنچ گئے، فوٹو سیشن ہوئے، رحمن ملک نے پراعتماد پریس کانفرنس کی اور فاروق ستار بھی پیچھے نہیں رہے۔ عوام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے رہے۔ حکومت نے نئے ٹیکس لگا دیئے، قیمتیں بڑھادی گئیں اور ایم کیوایم کے کان پر جوں نہ رینگی۔ نہ ذوالفقار مرزا کی اور نہ سراج درّانی کی چھٹی ہوئی اور نہ ہی وزارتیں تبدیل ہوئیں۔ مجھے اس واقعہ سے کراچی کے بڑے صنعت کار کا بیان یاد آگیا۔ کچھ عرصہ پیشتر میں کراچی گیا اور بات پی پی پی اور ایم کیو ایم کی نوک جھونک کی نکل آئی۔ اُنھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈکرتا ہے اور کام چھوڑ کر چلا جاتا ہے جب چند دن کچھ جواب نہیں ملتا تو واپس آکر اُسی تنخواہ پر کام کرتا ہے۔
دوسرا نہایت شرمناک اور تکلیف دہ واقعہ دتّہ خیل میں پُر امن جرگہ پر ڈرون حملہ ہے اس میں 48 بے گناہ قبائلی اور لیویز کے جوان مارے گئے۔ اس پر حسب معمول حکومتی عہدیداروں نے دکھاوے کا احتجاج کردیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ لیویز یا خاصہ دار بھی مارے گئے ہیں اسلئے آرمی چیف نے بھی اسکی مذمت کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مذمتی بیانات سے آجتک کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے۔ نہیں کوئی نہیں ۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی افواج کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں اور سرحدوں کی خلاف ورزی نہ ہونے دیں، خداجانے وہ کیا مصلحت ہے کہ ہماری سرحدوں کی روز خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمارے بے گناہ لوگ قتل ہوتے ہیں مگر اہل اقتدار خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ ایسی صورت حال تو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو، مرحوم ضیا،مرحوم غلام اسحق خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کے دور میں نہیں تھی ،کسی ملک کی اس طرح ہماری سرحدوں اور بیگناہ شہریوں کو قتل کرنے کی جرائت نہیں ہوسکتی تھی۔
تیسرا شرمناک واقعہ ریمنڈڈیوس کا ہے۔ ایک دن دھاڑے قتل کرنے والے مجرم کیلئے امریکی صدر سے لے کر ہر بڑا عہدیدار میدان میں اُتر آیا اور جیسا کہ پوری قوم کو اہل اقتدار کے کردار سے توقع تھی وہی ہوا۔ وہ آزاد ہوکر وطن چلا گیا اورعافیہ صدیقی 86 سال کی قید کاٹ رہی ہے۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اوباما کو اس پر تیار کرلیتے کہ وہ ”سزایافتہ“ عافیہ کو ڈی پورٹ ہی کردیتے۔ لیکن اس قسم کے مطالبہ کیلئے کچھ ہمّت اور حمیّت چاہئے جو بدقسمتی سے اس قوم میں اب ناپید ہے۔ اور جس قوم میں غیرت ختم ہو جائے تو اس کے مقدر میں ذلّت اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
صلیبی جنگوں اور اس میں حصّہ لینے والے مذہبی انتہا پسندوں کی تاریخ تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے۔ سب سے پہلی صلیبی جنگ، یعنی عیسائیوں کی مسلمانوں کے خلاف جنگ 1096 میں ہوئی جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے بیت المقدس چھیننے کی کوشش کی۔ یہ جنگ 1099 تک جاری رہی۔ میں بعد میں ان مسلمانوں کے خلاف عیسائی مہمات کا تذکرہ کروں گا۔ درحقیقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صلیبی جنگیں اور اس سے پہلے کے واقعات اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ عیسائیوں کی مسلمان دشمنی اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یہ اُسی وقت شروع ہوگئی تھی جب ہمارے پیارے پیغمبر نے اللہ کا پیغام پھیلانا شروع کیا۔ یہودی اور عیسائی بہت بااثر تھے ان کو اپنی قوّت کھونے کا خطرہ پیدا ہوا اور انہوں نے فوراً ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ جونہی مسلمانوں نے قوّت حاصل کرلی اور مکہ، مدینہ اور عرب سے باہر فتوحات شروع کیں اور اس وقت کی طاقتور ترین عیسائی مملکتوں کو شکست دی، ان پر قبضہ کرلیا تو عیسائیوں کو بہت دھچکا لگا اور ان کی مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوگئی۔ کچھ ہی عرصہ میں نہایت طاقتور عیسائی ممالک مثلاً مصر، شام، عراق، ایران (آتش پرست) ، اسپین، وسط ایشیا، آرمینیا، آذربائیجان، کریٹ اور قبرص پر قبضہ کرلیا۔ اس سے پیشتر عیسائی حکومتیں عربوں کو اونٹ چرانے والے، جاہل اور نااہل سمجھتی تھیں۔ اُنہیں جلد ہی احساس ہوگیاکہ نئے عرب یعنی مسلمان نہایت اعلیٰ کردار کے مالک تھے اور بے حدبہادر تھے۔ ان فتوحات اور ہر میدان میں (سائنس ٹیکنالوجی، انتظام حکومت، آرکیٹکچر، ملکی پلاننگ اور سب سے بڑھ کر اعلیٰ کردار) ترقی نے سب کو حیران کردیا تھا۔
بدقسمتی سے یہ اعلیٰ اوصاف اب مسلمانوں میں عنقا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم نے عیسائی مذہب اور ان کی تہذیب و تمدن کو اس طرح نہیں ہلایا تھا اور ان کو تباہ کرنے کا خطرہ پیش نہیں کیا تھا۔ عیسائی آج تک مسلمانوں کی اس برتری کو نہیں بھولے ہیں اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت ہے اور یہ روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ جب بھی ان عیسائی حکمرانوں کو کوئی موقع ملتا ہے یہ مسلمان ممالک اور مسلمانوں کو ذلیل و خوار اور نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ پرانی نفرت و حقارت جوں کی توں موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اور روزہی اس کی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ابھی تازہ مثال ان عیسائیوں کا لیبیا پر جارحانہ حملہ ہے۔ جب یہودی روز فلسطینیوں کا قتل عام کرتے ہیں تو ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ لیبیا پر نہایت جدید ہوائی جہازوں اور کروز میزائل سے حملے کئے جارہے ہیں اور لاتعداد شہری ہلاک ہورہے ہیں۔ ہم قذافی کے حامی نہیں مگر یہ بھی ناقابل قبول ہے کہ عیسائی ممالک اس کے شہریوں کا بہیمانہ قتل کریں۔ روس کے وزیراعظم پوٹن نے اس جارحانہ عمل کو پرانے زمانے کی صلیبی جنگ سے تشبیہ دی ہے۔ روس نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لیبیا کے خلاف ”نو فلائی زون“ پر ووٹ سے اجتناب کیا اور اس طرح مغربی ممالک (نومولود انتہا پسندعیسائیوں) کو یہ حق دے دیا کہ وہ لیبیا کے خلاف طاقت استعمال کریں۔ اگر روس اور چین ووٹنگ میں حصّہ لیتے اور جارحیت کے خلاف سخت شرائط لگادیتے تو مغربی ممالک یہ بدمعاشی نہیں کرتے۔ روس اورچین یہ نہیں دیکھتے کہ اس طرح مغربی ممالک اپنا اثر و رسوخ بڑھارہے ہیں اور ان کو تنہا کررہے ہیں۔
میں دوبارہ صلیبی جنگوں کا تذکرہ کروں گا۔ پہلی صلیبی جنگ جس میں یورپ کے طاقتور ترین ممالک نے حصہ لیا 1096 میں ہوئی۔ اس کے لئے پوپ اَربن دوم نے عیسائیوں کو اُکسایا تھا۔ عیسائیوں نے بیت المقدس، فلسطین اور ملحقہ علاقے فتح کرلئے۔ دوسری صلیبی جنگ 1147 سے 1149 تک لڑی گئی۔ اس فوج کی سربراہی جرمنی کا بادشاہ کونراڈ سوئم اور فرانس کے لوئی سوئم کررہے تھے۔ اس کا خاص مقصد عماد الدین زنگی کی مخالفت اور اس کو عیسائی مقبوضہ علاقہ جات کو آزاد کرانے سے روکنا تھا۔ عماد الدین زنگی کا جنگ کے دوران انتقال ہوگیا اور فوج کی کمان اس کے بہادر بیٹے نورالدین زنگی نے سنبھال لی اور اس نے عیسائی فوجوں کا حشر نشر کردیا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ تیسری صلیبی جنگ 1189 سے 1192 تک لڑی گئی۔ یہ سب سے بڑی اور اہم جنگ تھی اور یورپ کے تمام عیسائی اس میں شامل تھے اور یہ مشہور مسلمان جنرل صلاح الدین ایوبی کے بیت المقدس کی فتح کو روکنا تھا۔ عیسائی فوجوں کی کمان انگلستان کا بادشاہ رچرڈ شیردل فرانس کا بادشاہ فلپ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک بارباروسا کررہے تھے۔ یہ صلاح الدین کے مقابلہ میں ایک بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے اور صلاح الدین نے ان کو ہِٹن کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی۔ بارباروسا پہلے ہی ترک میں ایک دریا پار کرتے ڈوب گیا تھا۔ صلاح الدین نے بیت المقدس فتح کرلیا، گائی آف بیت المقدس کو قیدی بنا لیا ، کرک کے ریجینالڈ کو قتل کردیا۔ چوتھی صلیبی جنگ 1202 سے 1204 تک لڑی گئی لیکن عیسائی آپس میں ہی لڑ پڑے اور بجائے مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے قسطنطنیہ (آج کا استنبول) پر قبضہ کرلیا جو عیسائی حکومت کا دارلسلطنت تھا۔ پانچویں صلیبی جنگ 1218 سے شروع ہو کر 1221 تک جاری رہی۔ عیسائیوں نے مصر پر حملہ کیا مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور ملک کامل ایوبی نے شکست دے کر بھگادیا۔ چھٹی صلیبی جنگ 1228 سے 1229 تک لڑی گئی اور اس کی سربراہی فریڈرک دوم (جرمنی کا بادشاہ) کررہا تھا۔ جنگ نہیں ہوئی اور مصلحتاً ملک کامل ایوبی نے بیت المقدس عیسائیوں کے حوالے کردیا۔ مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار گزرا اور اُنہوں نے 1244 میں بیت المقدس پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ ساتویں صلیبی جنگ 1248 اور 1249 میں ہوئی جس کی رہنمائی فرانس کا بادشاہ لوئی نہم کررہا تھا۔ ان کو شکست ہوئی اور لوئی گرفتار کرلیا گیا اور بمشکل معاوضہ دے کر جان چھڑا کر بھاگا۔ مگر یہ باز نہیں آیا اور آٹھویں صلیبی جنگ(1270 - 1271) میں ہوئی اور اس میں لوئی نہم اور انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ شامل تھے مگر فلسطین کے بجائے یہ تیونس پر حملہ آور ہوئے اور وہاں لوئی نہم مرگیا۔ ایک اور صلیبی جنگ بھی ہوئی، مغربی عیسائیوں نے کہا چونکہ ہمارے بالغ گنہگار ہیں اس لئے معصوم کم سن لڑکوں کی فوج بنائی جائے۔ کئی ہزار بچّے اکٹھے کرکے فرانس کی بندرگاہ مارسے روانہ کردئے گئے۔ وہاں بالغ سپاہیوں نے ان پر ہلّہ بول دیا۔ ان کی عزّت دری کی، اپنا ملازم بنالیا اور غلام بنا کر فروخت کردیا۔ یہ صلیبی جنگوں کا پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلہ کا آغاز عیسائی مغربی ممالک نے صنعتی ترقی یا انقلاب کے بعد شروع کیا اور یہ تیرہویں صدی کے اَواخر اور چودہویں صدی کے شروع میں ظہور پذیر ہوا۔ انگریز، فرانسیسی، ہسپانوی، ولندیزی اور جرمن حکومتوں نے مسلمان حکومتوں پر قبضہ کرنے اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی مہم شروع کردی اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرکے مراکش، تیونس، الجیریا،لیبیا، مصر، سوڈان، نائیجیریا، نائیجر، چاڈ، یوگنڈا، سینی گال، شام، فلسطین، فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، انڈیا، گمبیا، بُرکینافاسو، مالی گِنی وغیرہ پر قبضہ کرلیا اور ان کے مظالم کے مسلمان ہی تختہ مشق بنے۔ روسیوں نے وسطی ایشیا کی تمام مسلمان سلطنتوں پر قبضہ کرلیا اور اس طرح مرے ہوئے جانور کو بھیڑیوں کی طرح نوچ کھایا۔ لاکھوں مسلمانوں او ر دوسرے لوگوں کو افریقہ سے پکڑ کر غلام بنا کر شمالی اور جنوبی امریکہ بھیج دیا۔
”صلیبی مہمات“ کا تیسرا سلسلہ چند عشرے پیشتر ہوا جب خود ساختہ ”نومولود عیسائی انتہا پسند“ (Reborn Christians) جارج بش، ٹونی بلیئر، سرکوزی اور دوسرے عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے منصوبوں پر عمل شروع کیا۔ بش اور بلیئر نے فخریہ اقرار کیا کہ وہ نومولود عیسائی ہیں اور سماوی فرض سمجھ کر یہودیوں کی مدد اور مسلمانوں کو تباہ کررہے ہیں۔ پہلے عراق کے صدّام کی مدد سے ایران کی حکومت کو ناقابل قبول نقصان پہنچا۔ لاکھوں مسلمان قتل ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر انھوں نے حملہ کرکے عراق کو تباہ کردیا، امیر ترین ملک فقیر بن گیا اور تیل پر مکمل قبضہ کرلیا۔ متحدہ امارات، سعودی عرب اور بحرین و قطر وغیرہ کے ذخائر پر ان کا پہلے ہی قبضہ ہے۔ صرف لیبیا تھوڑا آزاد تھا اور وہ بہانہ ڈھونڈرہے تھے اور بہانہ یا نابہانہ ایک شاطرانہ چال سے بین الاقوامی منظوری لے کر حملہ کردیا۔ اگر ان کو نہتے شہریوں کی جان مال کی پروا ہے تو پھر ساٹھ سال سے فلسطینیوں کے لئے ہمدردی اور مدد کہاں ہے وہاں تو روز قتل عام ہورہا ہے، عربوں کو زبردستی اپنی جائداد سے محروم کیا جارہا ہے اور لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بہرحال مغربی حکمرانوں نے تمام مسلمان حکمران کو صاف پیغام دیدیا ہے کہ ہماری غلامی اختیارکرو، اگر سر اُٹھایا تو دوسروں کے لئے تمہیں عبرتناک مثال بنا دیں گے اور یہی ہورہا ہے۔ سوئیکارنو اور بھٹو کی مثال سامنے ہے۔
اب ہمیں کچھ اپنی تاریخ اور کردار کے بارے میں بھی بتانا ضروری ہے۔ جب بھی مغربی ممالک نے کہیں کامیابی حاصل کی وہ صرف مسلمانوں میں اپنے غدّاروں کی موجودگی سے حاصل کی۔ مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک ہر ملک میں غدّار پیداہوئے اور اپنے مفاد کی خاطر ان سے سمجھوتہ کیا، سازش کی اور اپنے ممالک کو غلام بنوادیا۔ مغربی ممالک نے عیّاری سے ہر ملک میں غدّار پیدا کئے ان کو تخت پر بٹھایا اور ان کے ذریعہ نہ صرف حکومت کی بلکہ اس ملک کی بنیادیں ہلادیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غلام بنا دیا۔ تمام تر کوشش تیل پر قبضہ کرنے کی ہے۔ صرف لیبیا برائے نام تھوڑا آزاد تھا تو اس کا نمبر بھی آگیا۔ جن اسلامی ممالک نے اپنی خودمختاری اور آزادی کھوئی وہ ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے۔ آپ کو یاد دلاؤں کہ کس طرح اس مردود شریف مکّہ نے ترکوں کے خلاف سازش میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور نتیجہ پورے عرب ممالک کی غلامی اور موجودہ ذلّت خواری ہے۔ آپ خود ذرا شریف مکہ (جس نے انگریزوں سے مل کر ترکوں کے خلاف بغاوت میں حصّہ لیا اور لارنس آف عریبیا کا ساتھ دے کر عرب ممالک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مغربی ممالک کا غلام بنا دیا (اور نتیجہ میں فلسطین میں اسرائیلی حکومت قائم ہوئی) ۔حُسنی مبارک، البرادی، عراق کا شاہ فیصل، ایران کا شاہ، اور سب سے بڑھ کر ہمارے غدّار پرویز مشرف کے کردار پر نظر ڈالئے کس طرح انہوں نے اپنے وطن کو ذاتی مفاد کی خاطر فروخت کردیا۔
میں یہاں آپ کو صلیبی جنگوں کا ایک اہم واقعہ (اور عیسائیوں کی بربریت) کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ جب عیسائیوں نے 1098 میں بیت المقدس پر قبضہ کیا اُنہوں نے وہاں موجود تمام مسلمان مرد، عورتیں اور بچوں کو قتل کردیا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے مسجد اقصیٰ میں پناہ لی تھی ان کو بھی بے رحمی سے قتل کردیا۔ خود مغربی تاریخ دانوں نے اس بربریت کے بارے میں کھل کر لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کا اس قدر خون تھا کہ عیسائی سپاہیوں کے گھوڑوں کے کھُر اس میں ڈوب گئے تھے لیکن جب صلاح الدین ایوبی نے 1187 میں بیت المقدس کو دوبارہ فتح کیا تو اس نے تمام بوڑھے مرد، عورتیں اور زخمی سپاہیوں اور بچوں کو جانے کی اجازت دیدی، سپاہیوں پر ایک جزیہ لگایا کہ وہ ادا کرکے واپس جاسکتے ہیں۔ سپاہیوں کے پاس رقم نہ تھی جب صلاح الدین کے بھائی ملک عادل کو علم ہو تو اس نے اپنی جیب سے پوشیدہ طور پر ان تما م قیدیوں کا جزیہ ادا کردیا اور ان کو واپس اپنے وطن جانے کی اجازت مل گئی۔ یہ حقائق مشہور مغربی تاریخ دان کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی مشہور کتاب صلیبی جنگیں (The Crusades) میں بیان کئے ہیں۔
اب میں آپ کی خدمت میں ان باتوں کا نچوڑ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ تمام تباہی، ذلالت، غلامی خود ان کے کردار اور اعمال کی وجہ سے آئی ہے۔ ہم نے اللہ تعالٰی کے احکامات کو نہ صرف بھلا دیا ہے بلکہ کھلم کھلا اس کی نافرمانی کررہے ہیں۔ سورہ المائدہ، آیات 51-52 میں اللہ تعالٰی نے صاف صاف الفاظ میں انتباہ کیا ہے۔ ”اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست اورمحافظ نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست اور محافظ ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔ بے شک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ اُن سے دوڑ دوڑ کر ملے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر (ان سے الگ رہنے پر) کہیں زمانے کی گردش (عتاب) نہ آجائے سو قریب ہے کہ خدا فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر نازل فرمائے پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو یہ چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے“۔ اس کے علاوہ سورہ محمد، آیت 38 میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ ”اگر تم راہ راست کو چھوڑ دوگے تو اللہ تعالٰی تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا جو تمھاری طرح نہ ہوں گے“۔
اب آج ذرا اسلامی ممالک میں حکمرانوں کے کردار اور اعمال کا جائزہ لیجئے ان کی پالیسیاں دیکھئے ان کا عیسائیوں اور یہودیوں کی گود میں بیٹھنا دیکھئے اور ان کی غلامانہ ذہنیت دیکھئے اور ان لوگوں کی متعصبانہ پالیسیوں پر خاموش ردِّ عمل دیکھئے اور یہ دیکھئے ابھی بھی وہ ان کو اپنا دوست اور محافظ سمجھتے ہیں۔ یقینا یہ اعمال ان کو وہی ذلّت اور عتاب دیں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا ہے اور اللہ اپنے وعدہ سے کبھی انحراف نہیں کرتا۔
یہ اپنا پیارا وطن پاکستان ہمیشہ کسی نہ کسی مصیبت، سماوی آفت یا خود پیدا کردہ عذاب کا شکار رہتا ہے۔ آپ کسی عذابِ الٰہی اور آفت کا تصور کریں وہ ہمارے ملک پر نازل ہے۔ صبح آپ کا اخبار دیکھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ پہلے ہی صفحہ پر ڈرون حملے، خودکش حملے، ٹارگیٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان وغیرہ کی خبریں جلی حروف میں نظر آتی ہیں۔ ٹی وی پروگرام بھی کچھ بہتر نہیں۔ کہیں کوئی بھی دردناک، خوفناک حادثہ ہو آپ کو یہ دن بھر باربار دکھاتے رہتے ہیں اور آپ نفسیاتی طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج اس فقیدالمثال شاعر اسد اللہ خان غالب# کے بارہ میں کچھ لکھوں کہ جس سے پہلے اور نہ بعد میں اس پایہ کا اردو اور فارسی کا شاعر پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ ہمیں علم ہے کہ غالب# 1857 کی جدوجہد آزادی سے پہلے ،اسکے دوران اور اس کے بعد دہلی میں رہے اور تمام ہولناک مناظر اور انگریزوں کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے، وہ بہادر شاہ ظفر، آخری مغل بادشاہ کے استاد بھی تھے اور ان کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر خود ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے اور ان کا دیوان قابل مطالعہ ہے ان کی بمعہ خاندان رنگون کو جلاوطنی نے غالب# کو نفسیاتی اور مالیاتی طور پر تباہ کردیا۔ غالباً دنیا میں کسی شاعر کا کلام اتنا نہیں پڑھا جاتا جتنا غالب# کا کوئی اردو یا فارسی کا شاعر وہ شہرت، رتبہ اور ہردلعزیزی حاصل نہ کرسکا جو غالب کو ملی۔ غالب# خود بے حد منسکرالمزاج تھے اور اُنھوں نے خود میر#، مومن# اور بیدل# کے کلام کی بے حد تعریف کی۔ غالب کا اردو اور فارسی کلام خاصا مشکل تھا اور اچھے اچھے اہل زبان اس کو مشکل سے سمجھ پاتے تھے۔ حکیم عیش# نے اِسی وجہ سے طنزیہ یہ قطعہ کہا تھا۔
اگر اَپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
زبان میر# سمجھے اور بیان میرزا# سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
غالب# کو یہ طنز پسند نہ آیا اور انھوں نے اس کا جواب یوں دیا۔
نہ سَتائش کی تمنّا نہ صلہ کی پروا
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
یہ غالب# کی منکسرالمزاجی تھی ورنہ غالب# کے کلام کا جواب نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے آپ کتابوں پر کتابیں غالب# اور ان کے کلام پر لکھ سکتے ہیں اور لکھی جاچکی بھی ہیں لیکن میں آج آپ کی خدمت میں غالب #کا ایک نہایت اہم کام پیش کرنا چاہتا ہوں جو کہ عام طور پر دستیاب نہیں ہے۔ یہ غالب #کے اردو دیوان کا ان کے اپنے ہاتھ سے لکھا فارسی میں پیش لفظ ہے۔ یہ نہایت اہم دستاویز مجھے بمعہ اردو اور انگریزی ترجمہ میرے عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر سرفرازخان نیازی نے امریکہ سے روانہ کیا ہے۔ سرفراز خان برصغیر کے نہایت مشہور اردو ادب کے ادیب اور نقّاد علّامہ نیاز فتحپوری کے بیٹے ہیں۔ علّامہ میرے پیارے شہر بھوپال میں شاہی لائبریرین تھے ان کی خدمات کے صلہ میں ہندوستانی حکومت نے ان کو سب سے بڑا سول ایوارڈ پدما بھوشن عطا کیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی گئے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز خان نیازی بیوکیمسٹ اور جنیٹک سائنسدان ہیں اور اُنھوں نے لاتعداد فنی کتب اور مقالے لکھے ہیں، اردو کے بڑے اسکالر ہیں اور انھوں نے غالب# کی غزلیات کے دو ترجمے شائع کئے ہیں ایک کا نام Love Sonnets of Ghalib اور دوسری کا نام Wine of Love ہے۔ یہ کتب ہندوستان میں رُوپا اینڈ کمپنی اور پاکستان میں فیروزسنز نے شائع کی ہیں۔ نہایت اعلیٰ ترجمہ اور تشریح اور نہایت خوبصورت پرنٹنگ ہے۔ ڈاکٹر نیازی کی یہ کاوش نہایت قابل تحسین ہے اور غالب# کے مدّاحوں کے لئے یہ کتابیں ایک بیش بہا خزینہ ہیں اور ان کی لائبریری کے لئے اہم اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر نیازی آجکل غالب# کے فارسی کلام کا انگریزی میں ترجمہ کررہے ہیں۔
غالب# نے اردو دیوان کا فارسی زبان میں جو پیش لفظ لکھا تھا وہ اس قدر مشکل تھا کہ اس کی اشاعت کرنے والوں نے اس پیش لفظ کو غائب کردیا۔ میں غالب# کے اس اعلیٰ پیش لفظ کو اپنے ہر دلعزیز روزنامہ جنگ کے ذریعہ دنیا بھر کے قارئین کو پہنچانے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔مجھے علم ہے کہ قارئین نہایت دلچسپی سے ہر ہفتہ میرا کالم پڑھتے ہیں اس طرح غالب# کا یہ اہم کام ان تک پہنچ جائے گا۔ میں اس پیش لفظ کا اردو ترجمہ بزبان ڈاکٹر نیازی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
”خوشبوآشنا دماغ کو دعوت دی جارہی ہے ، اور منقل نشینوں کی طینت کو خوش خبری سنائی جارہی ہے کہ منقل میں خوشبوکے لئے عود جلانے کا کچھ سامان میسر آگیا ہے، اور کچھ عود ہندی بھی ہاتھ لگ گئی ہے، یہ عود کی لکڑی پتھر سے کاٹی نہیں گئی ہے، نہ غیرمناسب انداز سے توڑی اور نہ بے سلیقہ تراشی گئی ہے، بلکہ کلہاڑی سے کاٹی گئی ہے، چاقو سے مناسب طریقے سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے ہیں اور ریتی سے باقاعدہ تراشی گئی ہے، اب جذبہٓ شوق آتش پارسی کی تلاش میں اتنی تیزی سے رواں دواں ہے کہ اس کی سانس پھول رہی ہے۔ ایسی آگ کی تلاش نہیں جو ہندوستان کے بھاڑ میں بجھ چلی ہو اور مٹھی بھر راکھ میں تبدیل ہو کر اپنی فنا پر دلالت کرتی ہو، ناپاکی کی وجہ سے مردہ ہڈی سے اپنی بھوک ختم کرنا اور دیوانگی کی بنا پر مزار پر بجھے ہوئے چراغ کے تارسے لٹکنا اس پر مسلّم ہے ایسی آگ نہ دل کو پگھلا سکتی ہے اور نہ اس سے بزم روشن ہوسکتی ہے، اپنے ہنر سے آگ پیدا کرنے والا اور آتش پرست کو اس کے اعمال بد کے بدلے میں آگ میں جلا ڈالنے والا خوب جانتا ہے کہ تلاش کرنے والا ایسی تابناک آتش کے حصول کے لیے بیقرار ہے جو ہوشنگ کی پیشکش کے لیے پتھر سے نکالی گئی اور جو لہراسپ کی بارگاہ میں روز افزوں بڑھتی رہی، وہ آتش خس کے لیے فروغ، لالہ کے لیے رنگ، آتش پرست کے لیے چشم اور بتکدہ کے لیے چراغ ہے۔
خاکسار خدا کا سپاس گزار ہے جو دل کو سخن سے تابناک بنا دیتا ہے، اس کی آتش تابناک کا ایک شرارہ خاکسار نے اپنے خاکستر میں پایا تو اس کے ذریعے سینے کی خلش بڑھی، اس شرارہ پر سانس کی دھونکنی لگادی، امید ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ایسی صورت ہو کہ منقل میں چراغ کی روشنی جیسی تابندگی اور عود کی خوشبو میں تیز پروں پر سوار ہوکر اور جلد پہنچ کر دماغوں کو معطر کرنے کی خوبی پیدا ہوجائے۔
اب حقیر راقم کی آرزو ہے کہ اُردو دیوان غزلیات کے انتخاب کے بعد فارسی دیوان کے جمع کرنے کی طرف توجہ کروں اور اس طرح کمال حاصل کرنے کے بعد پیر توڑ کر بیٹھ جاؤں۔
امید کرتا ہوں کہ اہل سخن حضرات اور میرے قدردان میرے بکھرے ہوئے اوراق کو جو اس دیوان میں شامل نہیں، انہیں میرے تراوش خامہ کا نتیجہ نہ قرار دیں گے اور دیوان کے جامع کو ان اشعار کی ستایش سے نہ ممنون کریں گے اور نہ ان کی برائی سے مجھ پر التزام تراشیں گے۔
یارب، یہ خوشبوئی ہستی جو کبھی نہ سنی گئی اور جو عدم سے وجود میں نہیں آئی یعنی نقش ہے جو نقاش کے ضمیر کو وجود میں لارہا ہے، نقاش جس کا نام اسد اللہ خان، جومرزا نوشہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کا تخلص غالب ہے، جو اکبرآباد میں پیدا ہوا اور جس کی سکونت دہلی ہے، اُسے آخر میں نجف میں دفن ہونے دیا جائے۔ (24ذی القعدہ 1248ھ11اپریل 1833م)“۔
(ڈاکٹرسرفراز خان نیازی کا نوٹ۔ ”1833 میں مرزا غالب نے اپنے دیوان اردو کا پیش لفط لکھا اور اس زمانے کی روایت کے مطابق کہ پیش لفظ دوسری زبان میں لکھا جاتا تھا یہ دیباچہ فارسی زبان میں لکھا۔ یہ بالکل اسی طرح جس طرح کہ مولانا رومی نے اپنے فارسی دیوان کا پیش لفظ عربی زبان میں تحریر کیا تھا۔ ان کی شاعری کی طرح، غالب کی نثر بھی نہایت دشوار تھی اور لوگوں کی سمجھ سے باہر تھی چونکہ اُنھوں نے بہت سے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جو عام استعمال میں نہیں تھے۔ اس وجہ سے فارسی زبان کی تحریر میں بہت سی غلطیاں سرایت کرگئیں اور اس نے ناشرین کو مجبور کردیا کہ وہ اس پر نظر ثانی کریں اور نئے سرے سے ترتیب دیں۔ میں نے نہایت محنت و مشقت سے جس قدر صحیح ترجمہ ہوسکتا ہے وہ پیش کیا ہے۔ آپ کو یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ نادر محاورات، مرکب اور پیچیدہ الفاظ اور غالب# کی اپنی فرہنگ کا ترجمہ کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے“۔)
پروفیسر ڈاکٹر سرفراز خان نیازی آجکل ڈیئرفیلڈ اِلی نائے (Dearfield Illinois) میں قیام پذیر ہیں۔ وہ انہماک سے تعلیم و تدریس ، ریسرچ، مشاورت میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے پاکستان آتے رہتے ہیں اور مجھے خوشی ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے ملاقات کرتے ہیں۔ جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا ہے ان کی دو شائع کردہ کتب نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں اور غالب# کے ہر مدّاح کی لائبریری کی زینت بننے کی مستحق ہیں۔ آجکل ڈاکٹر نیازی غالب# کی فارسی غزلیات کا انگریزی میں ترجمہ کررہے ہیں اور یہ بھی یقینا ایک انمول تحفہ ہوگا۔ غالب# کے کلام کے معیار اور انفرادیت کے بارہ میں غالب# کا اپنا شعر ہی کافی ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب# کا ہے اندازِبیاں اور
پہلے ہم دیکھیں کہ جہالت کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس کو لاعلمی ، نادانی اور بیوقوفی سے منسوب کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ صفت ہے یا کردار کا حصّہ ہے جس نے دنیا میں بے حد تباہی پھیلائی اور جنگوں کا باعث بنی۔ یہی نہیں اس نے دنیا کے لاتعداد ملکوں کو پسماندگی میں ڈال دیا اور ابھی تک ڈالا ہوا ہے۔ اس میں لاعلمی اور نادانی کو کم دخل اور بیوقوفی کو زیادہ دخل رہا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو عقل مند بلکہ عقل کل سمجھ کر کسی اور سمجھدار کے مشورے یا نصیحت کو حقیر جان کر عمل نہیں کرتے اور خود بھی نقصان اُٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہاں میرا مطلب حکمرانوں اور اصحاب اقتدار سے ہے ۔ ان کی جہالت کی وجہ سے نہ صرف عوام کو بلکہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے جاہل لوگوں کے کرتوت کی وجہ سے جو تباہیاں پھیلی ہیں وہ تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ ان میں خاص طور پر ہٹلر اور صدّام حسین کے نام بے حدنمایاں ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ”بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ اَپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ دیکھتے نہیں ، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں۔“ دیکھئے جہالت کے دو پہلو ہیں یا رُخ ہیں۔ ایک تو یہ انسان غیر تعلیم یافتہ ہے یا سادہ الفاظ میں جاہل اور موجی یا خبطی ہوتا ہے اور من مانی کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ تعلیم وغیرہ تو حاصل کی ہے مگر اس کے صحیح استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور دوسرے خود غرض، مطلب پرست اور ناواقف مشیروں کے مشوروں سے جاہلانہ اور خطرناک اقدامات کرکے عوام اور ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک تیسرا طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ بھی ہوتا ہے معاملہ کے اچھے بُرے کو بھی سمجھتا ہے لیکن ذاتی مفاد، خودغرضی کو ترجیح دے کر غلط مشورے بھی دیتا ہے اور غلط اقدامات کرکے عوام اور ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتا۔ سادہ الفاظ میں جہالت وہ صفت ہے جس کی وجہ سے انسان سچ اور جھوٹ، ٹھیک اور غلط میں تمیز کرنے کی قوّت سے محروم رہتا ہے۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے آپ اس کو علم ، سکھانا، ہدایت، تربیت کہہ سکتے ہیں اس پر اس قدر مضامین لکھے جاچکے ہیں کہ اس پر مزید کچھ اضافہ نہایت مشکل ہے۔ یہاں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تعلیم یافتہ اور جاہل میں وہی فرق ہے جو آنکھوں والے یعنی بینا اور اندھے یعنی نابینا میں ہے۔
میں دراصل اس کالم میں تعلیم کے بارے میں موجودہ حکومت کی ناقص، خطرناک پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم کے وزراء نہایت قابل وتعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں بہتری آتی رہے، وقت کی ضروریات سے نمٹنے کے لئے ہمیں بھی ایسی ہی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے مگر اس ملک میں اوپر سے لے کر نیچے تک تعلیم یافتہ لوگوں اور تعلیم کا فقدان ہے جہاں لوگ جھوٹی، جعلی ڈگریوں سے عوامی نمائندے بن جائیں جہاں نام نہاد تعلیم یافتہ لوگ لنڈے بازار کی ڈگریاں لئے پھر رہے ہیں ان کی ترجیحات اقرباپروری، رشوت ستانی، غیرملکی دورے اور پارٹی کی حمایت میں جاہلانہ نعرے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ڈاکٹر محمود حسین ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے اہل علم و دانش تعلیم کی سربراہی کررہے تھے۔ آپ آج عوام سے پوچھئے کوئی وزیر تعلیم اور وزیر سائنس وٹیکنالوجی کا نام بھی نہیں بتا سکے گا۔
آپ کو علم ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے معیار کو معیاری بنانے اور یونیورسٹیوں کو ضروری فنڈ مہیا کرنے کو مقررہ ضابطہ کا استعمال کرنے کا ایک اچھا نظام یوجی سی کا تھا جو مرحوم بھٹو صاحب نے رائج کیا تھا۔ وہ پڑھے لکھے تھے دنیا دیکھی تھی ایک وزیراعظم کے بیٹے تھے، انگلینڈ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی اُنہیں تعلیم کی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کا پورا احساس تھا۔ وہ ہمارے آجکل کے لیڈروں سے بہت مختلف تھے۔ دنیا میں تیزی سے صنعتی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو دیکھ کر اس ادارہ کو ہائر ایجو کیشن کمیشن میں تبدیل کردیا گیا اور مشہور اسکالر و سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور اس کی اہمیت کو مزید تقویت دینے کے لئے پروفیسر عطاء الرحمن کو وفاقی وزیر کا رتبہ دیا گیا۔ ساتھ ہی ملک میں پہلی مرتبہ اس ادارے کو وافرمقدار میں فنڈز دیئے گئے کہ تعلیم کا معیار بڑھایاجائے اور پاکستانی طلباء کو بیرون ملک بھیج کر انہیں وہاں اعلیٰ تعلیم (ایم ایس سی، ایم فل، پی ایچ ڈی) کا موقع دیا جائے۔ یہ ایک نہایت احسن اقدام تھا اور ملک میں پہلی مرتبہ اچھے، تعلیم یافتہ اَساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ لاتعداد غریب ہونہار طلباء بیرون ملک جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے اور واپس آکر ملک میں تعلیمی اداروں اور صنعتی اداروں میں کام کرنے لگے۔
میں نے پروفیسر عطاء الرحمن سے مل کر اس ادارے کے چند پروگراموں پر تحفظات کا اِظہار کیا تھا اور ان میں معمولی سی تبدیلیوں کا مشورہ دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں زیادہ توّجہ اور اہمیت فنی مضامین اور انجینئرنگ پر دینے کی ضرورت تھی کہ ہم بے حد پسماندہ ہیں اور یہاں صنعتوں کا فقدان ہے۔ دوئم میرا مشورہ تھا کہ ایک دم ایک نہایت بلند اعلیٰ گول متعین کرنے کے بجائے ہمیں آہستہ آہستہ منظم اور پر عزم طریقہ سے منزل مقصود کی جانب پیش قدمی کرنا چاہئے۔ مثلاً ایچ ای سی کا منصوبہ تھا کہ کئی ممالک کے ساتھ مل کر ملک میں ایکدم چھ سات یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔ اسکے لئے ہمیں خود رقم خرچ کرنا تھی اور ان ممالک کے اساتذہ یہاں آکر درس دیتے اور سلیبس اور پروگرام بناتے۔ یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ نہ ہی ہم اتنے فنڈز خرچ کرسکتے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس اتنے تجربہ کار اور تعلیمیافتہ اساتذہ تھے کہ وہ ان یونیورسٹیوں کو چلا سکیں۔ میرا مشورہ تھا کہ ہم اسلام آباد کے قرب و جوار میں ایک اعلیٰ وفاقی یونیورسٹی قائم کریں او ر اسکے لئے مختلف ترقی یافتہ ممالک سے ایک ایک فیکلٹی کا ایکوئپمنٹ اور فیکلٹی مانگیں۔ اس طرح یہ کام بہت جلد ہو سکتا تھا اور ایک اعلیٰ فنی یونیورسٹی قائم ہوسکتی تھی۔ اس میں زیادہ توجہ اور اہمیت فنی مضامین یعنی انجینئرنگ پرہونا تھی۔ قائد اعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی نہایت اچھے ادارے ہیں ان کو بنیادی مضامین یعنی بیسک سائنسز کے لئے ہر قسم کی سہولت دے کر ان مضامین کے معیار میں مزید اضافہ کرنا تھا۔
آپ کو علم ہے کہ آج بھی ہمارے ملک سے ہزاروں طلباء بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جارہے ہیں۔ ایک طالب علم پر 35 سے40 لاکھ روپیہ سالانہ خرچ آتا ہے۔ یہ صرف امراء ہی برداشت کرسکتے تھے۔ ایچ ای سی نے غریب ہونہار طلبا کو و ظا ئف دیکر انہیں بھی اعلیٰ تعلیم کی سہولت مہیا کی۔ مگر میرا مقصد یہ تھا کہ ہم ان بچوں کو کم از کم ایم ایس تک ملک میں اعلیٰ تعلیم دیں اور اُسی معیار کی دیں جو بیرون ملک میں دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس ادارے کا انڈسٹری سے قریبی رابطہ قائم کرکے ان کی رہنمائی کریں اور نئی صنعتیں لگانے میں مدد کریں اور مل جل کر کام کریں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔
اس وقت لاتعداد خودغرضانہ وجوہات کی وجہ سے اور تعلیم میں فقدان کی وجہ سے اہل اقتدار ایچ ای سی کو توڑنے اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس ادارے کی قانونی حیثیت اور افادیت کے بارے میں لاتعداد تفصیلی مضامین ملک کے دانشوروں، پروفیسروں اور طلباء نے تمام اہم قومی اخبارات میں شائع کئے ہیں مگر ان کی حیثیت وہی بین بجانے والی ہے جس کے سامنے بجائی جارہی ہے وہ سمجھنے کے قابل ہو تو سمجھے۔ تمام تعلیمی ماہرین اور تجزیہ نگار ایک بات پر متفق ہیں کہ ایچ ای سی کو تباہ کرنے کی وجہ جھوٹوں، چوروں، جعلسازوں کی جھوٹی ڈگریوں کی جانچ پڑتال تھی، پہلے ان نااہل لوگوں نے اپنی ماتحت یونیورسٹیوں اور خاص کر وہاں متعین کردہ بے ضمیر عہدیداروں کو ہدایات جاری کردیں کہ ایچ ای سی کی جانب سے ڈگریوں کے صحیح یا جعلی ہونے کے بارے میں سوالات کا جواب نہ دیں۔ عدلیہ نے بھی یہاں خود کو بے بس محسوس کیا اور کوئی سخت اقدام نہیں اُٹھایا۔ ایچ ای سی کے توڑنے اور تباہ کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس کو جو فنڈز دیئے جاتے ہیں ان میں خوردبرد کی جائے اور کھاجائیں۔ اہل اقتدار تم اس ادارہ کو ختم نہیں کررہے بلکہ تم اس ملک کے مستقبل کو قتل کرکے دفن کرنے جارہے ہو۔ آئندہ نسلیں تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ تمہیں انہی الفاظ و القاب سے یاد کیا جائے گا جس کے تم مستحق ہو۔ یعنی جاہل، جعلساز، راشی ، نااہل اور خود غرض۔
گرچہ ان واقعات کو کچھ وقت گزر گیا ہے اور جذبات کچھ ٹھنڈے پڑگئے ہیں اسلئے سوچا کہ ان واقعات پر کچھ تبصرہ کروں۔
سب سے پہلے ورلڈ کپ میں ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ہے۔ عوام کی ہندوستان کے خلاف جیتنے کی بہت اُمید اور خواہش تھی۔ اور ٹی وی اسٹیشن پر صبح سے شام تک تبصرے ہوتے رہے۔ لوگوں نے پاکستانی ٹیم کے کپڑے پہننا شروع کردیے، نئے نئے گانے بنائے گئے غرض یہ کہ پوری قوم تمام غم اور اختلافات بھول گئی اور یہی دُعا اور خواہش کرتی رہی کہ ہم یہ مقابلہ ہندوستان کے مقابلہ میں جیت جائیں خواہ فائنل میں کیوں نہ ہاریں۔
اُب ذرا پچھلے چند سال کی کارکردگی پر نظر ڈالئے تو کچھ بہتر نہیں رہی۔ ہم ہارے زیادہ ہیں اور جیتے کم ہیں اور آپ اگر پرانے کلپ چلا کر دیکھیں تو ہر ہار کے بعد یہی کہا گیا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں اور آئندہ ان کا ازالہ کرکے بہتر کھیلیں گے۔ لیکن ہر آنے والی سیریز میں وہی روش، وہی طریقہ کھیل اپنا یا گیا۔ میں نے تو کبھی بہتری نہیں دیکھی، وہی خراب فیلڈنگ، وہی لاتعداد چوکے دینا۔ اگر کبھی دُھپّل یا فلُوک لگ گیا اور جیت گئے تو زمین اور آسمان کے قلابے ملادیے۔ اسی طرح کی خوش قسمتی ہمارے حصّہ میں 1992 میں آگئی تھی اور ہم ورلڈ کپ جیت لائے تھے اس میں حالات نے اور دوسری ٹیموں کی کارکردگی یا ناکارکردگی نے بہت بڑا رول ادا کیا تھا۔
اس مرتبہ جو ٹیم ورلڈ کپ میں حصّہ لینے گئی وہ نہ ہی ناتجربہ کار اور نہ ہی نااہل کھلاڑیوں پرمشتمل تھی۔ زیادہ کھلاڑی کئی برسوں سے ٹیم میں ہیں اور دنیا کی مختلف ٹیموں کے خلاف لاتعداد میچ کھیل چکے ہیں اور کئی مرتبہ نہایت اَچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اسی ٹیم نے سری لنکا اور آسٹریلیا جیسی فیورٹ ٹیموں کو شکست فاش دی۔ لیکن یقین کیجئے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ یہ سیمی فائنل میں ہندوستان کے خلاف میدان میں اُترینگے تو مجھے اُسی وقت سے یہ خدشہ تھا کہ یہ لوگ وہ نفسیاتی پریشر نہ لے سکیں گے اور ڈھیر ہوجائینگے۔ کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ یہ پیشہ ور تجربہ کار کھلاڑی ایسی فیلڈنگ کرسکتے ہیں۔ ٹینڈلکر کے کیچ جسطرح مصباح، یونس، کامران نے چھوڑے اسکے بعد دنیا کی کوئی ٹیم ہندوستان سے نہیں جیت سکتی تھی۔ اسکول کے بچّے بھی یہ کیچ لے سکتے تھے اور یہ تو پیشہ ور کھلاڑی ہیں۔ سب سے تعجب خیز کارکردگی ماشاء اللہ ہمارے مینجر اور کوچ کی ہے۔ جب اُنھوں نے دیکھا کہ عمر گل میچ ہروا رہا ہے تو پھر کیوں اس کو تبدیل کرکے رزّاق کو نہیں لگایا۔ میں نے پچھلے دو سال میں دیکھا ہے کہ رزّاق کو نہایت منظم سازش کے تحت کھڈّے لائن لگایا گیا ہے اس کو آٹھویں نمبر پر لانا اور بمشکل دوتین اوور دینا ایک گندی کھلی سازش ہے۔ رزّاق کو ہم نے کے آرایل میں بنایا تھا، یہ ہمیشہ میچ جیتنے والا کھلاڑی رہا ہے جسطرح ہم نے شعیب کی تربیت اور ہمّت افزائی کی تھی اور میچ جیتنے والا کھلاڑی بنایا تھا۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انگریزی معاصر کی رپورٹر نے مجھ سے اس پر تبصرہ ریکارڈ کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میچ زیادہ رن بنانے سے نہیں بلکہ مخالف ٹیم کے رن روکنے اور کیچ پکڑکر جیتا جاتا ہے اور وہی ہوا ہم نے رن بھی دئے اور کیچ بھی چھوڑے ۔ اس طرح یہ میچ جو بآسانی جیتا جاسکتا تھا ہار گئے۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ آپ نے سیمی فائنل تک رسائی کی مگر یہ بات قابل تحسین نہیں کہ آپ ہار کر پچھلی کارکردگی پر بھنگڑے ڈالیں۔ اس قسم کے واقعات ہمارے قوم کی ذہنی بیماریوں کی عکّاسی کرتی ہے۔ ہر کھلاڑی میچ سے پہلے ٹی وی پر آکر شیخیاں مارتا ہے اور تکبّر کا اظہار کرتا ہے۔ انکساری بہت بڑی نعمت ہے اگر تم یہ کہو کہ میچ مشکل ہے پوری کوشش کرینگے دعا کیجئے تو مناسب ہے مگر یہ لوگ میچ کھیلنے سے پہلے ہی جیت لیتے ہیں اور پھر شکست کھا کر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ شکست خوردہ ٹیم خوش قسمت رہی کہ عوام اور حکومتی عہدیداروں نے فراخدلی کا ثبوت دیا اور ان کو عزّت سے خوش آمدید کہا اور ہار ڈالے۔ حقیقت یہ ہے کہ عزّت سے ہارنا یا باوقار شکست نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی شکست ہمیشہ ذلّت اور بے عزّتی ہے آپ خوش فہمی میں اس شکست کو جو نام چاہیں دے لیں۔ اگر ہم آخری بال یا ایک دو رن سے ہار جاتے تو کہتے کہ واقعی مقابلہ اَچھّا رہا۔ آپ ہالینڈ، کینڈا، کینیا یا زمبابوے نہیں تھے۔ آپ کی تجربہ کار ٹیم تھی اور آپ کو یہ میچ جیتنے کے تمام مواقع تھے، ٹیم میں صلاحیت تھی مگر ہم جس طرح ہارے وہ ناقابل قبول ہے۔ آفریدی کی پلاننگ اور لیڈرشپ ناقص تھی اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑرہی تھیں۔ اس نے تمام میچ میں کسی کھلاڑی کی ہمّت افزائی نہیں کی ۔ صرف وہاب ریاض نے 5 وکٹ لئے تو سب اس سے لپٹ گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے ہمارے زیادہ تر کھلاڑی تعلیمیافتہ نہیں ہیں۔ یہ پلاننگ نہیں کرسکتے، یہ نفسیاتی دباؤ میں آجاتے ہیں اس وجہ سے دوسری ٹیموں کے مقابلہ میں ان کے کھیل میں تسلسل نہیں ہے۔ دوسری ٹیموں کے کھیل میں تسلسل ہے اور اگر وہ کبھی ہارتے ہیں تو وہ ایک اتفاق ہوتا ہے۔ ایک خاص اصول یہ اپنانا چاہئے کہ کوئی کھلاڑی ٹی وی نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں شیخیاں نہ مارے۔ کوچ یا کیپٹن کو نہایت مختصر سا بیان دینا چاہئے اور پریس کانفرنس کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، ایسی چیزوں کے لئے ان کی تربیت ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی تعلیم کا معیار مناسب ہے۔دیکھئے اگر پریس کانفرنس کرنے کی کیپٹن کو ضرورت پیش آجائے تو بہتر ہے کہ ایک اچھا روانی سے انگریزی بولنے والا ساتھ بٹھالے اس کو اردو میں بتلائے اور وہ جواب دیدے۔ دنیا میں بڑے بڑے حکومتی عہدیدار انگریزی کی اچھی بھلی مہارت کے باوجود اپنے ساتھ مترجم رکھتے ہیں جو ان کی بات انگریزی میں ترجمہ کرتا جاتا ہے۔ اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے۔
اَب چند دن میں ہماری ہاکی کی ٹیم ملیشیا جارہی ہے جہاں وہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں حصّہ لے گی۔ دیکھئے اس میں ان کو کتنی کامیابی ہوتی ہے۔ ان کو بھی مشورہ دونگا کہ بیان بازی اور شیخی مارنے سے گریز کریں اور کھیل پر دھیان دیں۔ اور خدا کے واسطے اس میں مذہب کو نہ گھسیٹیں۔ باہر کھلے میدانوں میں دکھاوے کی نماز سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ ہمارے یہاں کس قدر لوگوں نے نمازیں پڑھیں اور دعائیں مانگیں مگر نتیجہ وہی نکلا جو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے طے کردیا تھا۔ اور آپ ذرا یہ بھی تو سوچئے کہ دُعائیں کون مانگ رہا تھا۔ ہمارے مشہور صحافی انصار عباسی صاحب نے ہمارے اپنے مشہور انگریزی اَخبار نیوز میں ان وجوہات پر اچھی روشنی ڈالی ہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوئیں اور قبول نہیں ہوتی ہیں۔ اُنھوں نے بتلایا کہ جہاں حکمران بے ایمان، راشی، جھوٹے، منافق ہوں ، جہاں عوام کی بڑی تعداد دنیا کی ہر گناہ کا مرتکب ہو وہاں ایسے لوگوں کی دعا اللہ تعالیٰ کہاں سنے گا۔ ہمارے بچپن میں خشک سالی کے دوران جب نماز اِستسقا ادا کی جاتی تھی تو گھر آنے سے پہلے بارش ہوجاتی تھی اور یہی حال میرے بھائی نے دہران (سعودی عرب) میں خود ہمیشہ دیکھا تھا۔ یہ 1952 اور اسکے چند سال بعد کی بات ہے۔ اب دوسرے قسم کے عوام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورةالنّساء میں صاف صاف فرمایا ہے۔ ”اور ایسے لوگوں کی توبہ (اور دعا)قبول نہیں ہے جو برابر گناہ کرتے رہیں یہاں تک کہ موت ان میں سے کسی کے سامنے آکھڑی ہو اور تب وہ کہنے لگے کہ اَب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان لوگوں کی (توبہ، دعا قبول ہے) جو اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ کافر ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے خوفناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ دُعا قبول ہونے سے پہلے اعمال کا ٹھیک ہونا ضروری ہے اور جب ان کو توبہ قبول ہوگی اُسی وقت ان کی دعا بھی قبول ہوگی۔ سورة المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ”سو یہ لوگ اللہ کے سامنے توبہ کیوں نہیں کرتے اور اس سے معافی کیوں نہیں مانگتے؟ اور اللہ تو بڑا مغفرت والا، بڑا رحم والا ہے“۔ اور سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ”اور اللہ جس پر چاہے گا رحمت کرے گا اور اسکی توبہ (اور دعا) قبول ہوگی“۔ اور دراصل جو دعائیں مانگ رہے تھے ان کو چاہئے تھا کہ وہ سورة ممتحنہ میں اللہ کے فرمان کا ورد کرتے اور دعائیں مانگتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح دعا مانگو۔ ”اے ہمارے پروردگار۔ ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بنانا اور اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما دے (اور دعا قبول فرما) بیشک تو ہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔“
کل ٹی وی پر پروگرام دیکھ رہا تھا ان پروگراموں میں اکثر دلچسپ و عجوبہ واقعات بھی دکھائے جاتے ہیں جو قابل دید ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ کل دیکھا کہ ایک خوبصورت گولڈن رنگ کی بلی ایک باغیچہ میں گھوم رہی تھی اور جھاڑیوں کے پاس سے گزرنے لگی تو ایک پرند ے نے جو مینا کے برابر تھا مگر دم ذرا لمبی تھی اس نے پیچھے سے آ کر بلی کی دم پر چونگ ماردی، جب بلی پلٹی تو اُڑ کر دور چلا گیا مگر جونہی بلی نے منھ پھیرا تو اس نے پھر پھرتی سے اُڑ کر بلی کی پچھلی ٹانگ میں چونچ ماری ، یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا اور پھر وہی ہو ا جو ایسی حرکتوں کا ہوتا ہے یعنی جب ایک مرتبہ پھر پرندے نے بلی کے پچھلے بدن پر چونچ ماری تو بلی تیار تھی اس نے نہایت پھرتی سے واپس اُڑتے ہوئے پرندے پر جست لگائی اور اسے ہوا میں ہی پکڑ لیا۔ زمین پر گرا کر اس کا سر چبا دیا اور خاموشی سے واپس چہل قدمی میں لگ گئی۔ مجھے اس واقعہ سے برسوں پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا جو میرے اپنے باغ میں پیش آیا تھا۔ ہماری بلی باہر لان پر پڑ ا خشک کھانا کھا رہی تھی اور ایک کواّ بار بار اسکی دم پر چونچ مار رہا تھا اور وہ نظر انداز کر رہی تھی مگر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے نہایت پھرتی سے مڑ کر اُڑتے ہوئے کوّے کو ہوا میں دبوچ لیا اور اس کی گردن توڑ دی ۔ ان واقعات نے مجھے حکومت (یعنی زرداری ، گیلانی اور بابر اعوان) اور سپریم کورٹ کے تنازعات کی جانب توجہ مبذول کرا دی ہے۔ حکمران کوّے اور میگپائی(یعنی یورپی کوّا جو سیا ہ سفید اور سفید بھورا ہوتا ہے) بنے ہوئے ہیں اور پُر امن ، پُر وقار بلی یعنی عدلیہ پر مسلسل وار کر رہے ہیں اور چرکے لگا رہے ہیں۔ عدلیہ کے صبر کی ایک حد ہے جب یہ پوری ہو جائے گی تو کوّوں کے جیسا حشر ہو گا۔ پرانی کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی جانب بھاگتا ہے اور یہ بھی کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آنا ہی پڑے گا۔
دیکھئے یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ وہ پارٹی جو الیکشن میں کھلی دھاندلی اور مصدقہ رشوت ستانی میں ملوث رہی ہے۔ وہ اب پھر اپنی جاہلانہ او رمکارانہ حرکات سے ’شہید ‘ بننے کی کوشش میں ہے ۔ پچھلے تین سال میں پہلے تمام اتحادی پارٹیوں کو بیوقوف بنایا، وعدے توڑے اور جب مناسب سمجھا تو پہلے ایک قدم پیچھے اٹھایا مگر جونہی موقع ملا دو قدم آگے بڑھا لئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے پاکستان کی تاریخ میں اتنے نااہل اور دروغ گو حکمران نہیں دیکھے۔ ان کو اپنے اعمال پر قطعی شرمندگی نہیں ہے۔ عوام کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور قتل و غارت گری نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ روز نت نئے شو شے چھوڑکر عوام کی مشکلات و تکالیف کو کھٹائی میں ڈالا جا رہا ہے۔ بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا معمہ حل ہوا نہیں کہ 32سالہ پرانا بھٹو صاحب کا معاملہ سپریم کورٹ میں اُٹھا لیا ہے اورعدلیہ کے تمام اہم فیصلوں کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالدیا ہے۔ ان کے تقدس کو پامال کیا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا ہے۔ راشیوں اور مجرموں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھا یا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ”عقلمند“ کوّوں کا حشر بھی ٹی وی پر دکھائی فلم کا سا نہ ہو۔
خدا جانے یہ ان کی خوش قسمتی ہے یا ہماری بد قسمتی کہ ان کا سابقہ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس شبیر جیسے سخت اور بدمعاشی و عیاری کو نا قبول کرنے والے جج صاحبان سے نہیں پڑ ا ۔ ورنہ ایک جھٹکے میں ان کی طبیعت ٹھیک ہو جاتی اور زندگی بھر کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل قر ار دیدئے جاتے۔
آپ نے اپنے اخبارات خصوصاً” جنگ “اور ”نیوز“میں ان تمام فیصلوں کی تفصیل پڑھی ہو گی جو سپریم کورٹ نے دیے اور جن کو گیلانی نے ردّی کی ٹوکری میں ڈالدیا اور اس پر یہ گندہ مذاق عدلیہ اور عوام کے ساتھ کہ قومی اسمبلی میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر ”ہم عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، ان پر عمل کریں گے“ کے جھوٹے نعرے لگا تے ہیں۔ خدا جانے یہ کیسے سید زادے ،خود کا نسب شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملانے والے لوگ ہیں جو منافقت سے نہیں جھجکتے اور بار بار پوری قوم سے منافقت (یعنی قول او ر عمل میں مکمل تضاد ) کرتے ہیں حالانکہ کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار انتباہ کیا ہے کہ منافقوں کی جگہ بلا شبہ جہنم ہے اور وہ بہت تکلیف دینے والی بری جگہ ہے۔ اہل اقتدار کے کردار و اطوار کو دیکھ کر مجھے تو اب یہ شک ہونے لگا ہے کہ یہ شاید ہی کبھی کلام مجید پڑھتے ہوں (اور شاید پڑھ بھی نہ سکتے ہوں جیساکہ رحمن ملک نے سورة اخلاص کی تلاوت کرنے کی کوشش کر کے ظاہر کیا تھا )اور ترجمہ کے ساتھ تو پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابھی عدالت عالیہ کے احکامات کی نفی کا سلسلہ جاری تھا کہ کسی عقلمند مشیر نے یہ ”اعلیٰ “ مشورہ دیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی توڑنے کے احکامات جاری کر دیے اس پر یہ عتاب کہ اس کی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کر دیں ۔جہاں کم تعلیم یافتہ یا جاہل حکمران ہوں تو ایسے احکامات روز مرہ کا عمل بن جاتا ہے۔ کمیشن پر یہ عتاب اس لئے آیا ہے کہ اس نے جھوٹے ، مکار ، جعلسازوں کی جھوٹی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع کر دی تھی اور حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچنے سے انکار کر دیا تھا۔ حکمران جہالت کا استعمال کر کے دیکھ رہے ہیں وہ جلد ہی متوقع نتائج دیکھ لیں گے۔ آپ خود سوچئے اور دیکھئے وہ صوبے جو عام پرائمری اور سکینڈری اسکول ٹھیک طریقہ سے چلانے کے اہل نہیں ہیں ، جہاں ہزاروں اسکول جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں جہاں اساتذہ نہیں ہیں مگر تنخواہیں بانٹی جا رہی ہیں اور جو ایک کچھوے کے منھ اور دم میں فرق نہیں کر سکتے وہ اعلیٰ تعلیم کے کیا ذمہ دار ہونگے۔ ان اندھے ، بہرے ، گونگوں کو ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمیافتہ اساتذہ اور تجزیہ نگاروں کی آراء کا قطعی لحاظ نہیں ہے۔ لنڈا بازار کے پڑھے لکھے(؟) لوگ ہمیں اس اہم کمیشن کو تحلیل کرنے کے فوائد سمجھا رہے ہیں ہاں ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ فوراََ سینکڑوں نااہل چمچے اعلیٰ عہدوں پر لگا دیے جائیں گے اور یہ کمیشن بھی اسٹیل مل اور پی آئی اے بن جائے گا۔
ایک اور کھوکھلا نعرہ حکمرانوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی آ زادی کا ہے۔عوام بے وقو ف اور جاہل نہیں بے بس اور مجبور ہیں۔ جس اخبار یا ٹی وی نے حکومت کے احکامات کی پیروی نہ کی وہ عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ آجکل تمام عتاب ملک اور بیرون ملک بہت زیادہ دیکھا جانے والاٹی وی اسٹیشن جیو سوپر پر آیا ہوا ہے ۔ پہلے پوری کوشش کی گئی کہ اس نے کرکٹ ورلڈ کپ دکھانے کے جو حقو ق حاصل کئے ہیں ان کو سبوتاژ کیا جائے، سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اُڑائی گئیں اور اب بوگس اعتراضات لگا کر بند کر دیا گیا۔ ہر دور میں، ہر زمانہ میں یہ فرعونیت رہی ہے مگر حق کی آ واز کبھی بھی کوئی نہ دبا سکا ۔ میں شاہد ہوں کہ کس طرح مرحوم جناب میر خلیل الرحمن پر دباؤ ڈالے جاتے تھے، لالچ دیا جاتا تھا ، ڈرایا دھمکایا جاتا تھا مگر انہوں نے اپنے ضمیر کا اور آزادی صحافت کا کبھی سودا نہیں کیا۔ یہی سلسلہ اور رویہ میر صاحب کے صاحبزادہ جناب میر شکیل الرحمن کے ساتھ کیا جا رہا ہے مگر حکمران یہ بھولے ہوئے ہیں کہ شیر کی اولاد شیر اور گیدڑ کی اولاد گیدڑ ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ حکمرانوں نے دبئی میں میر شکیل الرحمن سے ملاقاتیں کیں ، انہیں ہر قسم کا لا لچ دیا کہ وہ حکومت کی چمچہ گیری کریں اور ہر غلط کام کی حمایت کریں۔ انھوں نے صاف انکار کر دیا ۔ نتیجہ آپ کے اور میرے سامنے ہے۔ ایک باغیرت شخص سر کٹانے کو تو تیار ہو جاتا ہے لیکن سر جھکانے کو تیار نہیں ہوتا ۔میں حکمرانو ں اور اہل اقتدار سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر دور میں، ہر ملک میں اللہ تعالیٰ عوام میں سے ایک یا اس سے زیادہ اشخاص چن لیتا ہے جن کو وہ اعلیٰ اوصاف اور قابل تحسین و ستائش صلاحیتوں سے نواز دیتا ہے۔ ان لوگوں کی ذا ت سے عوام کی راحت و سہولتیں وابستہ ہو جاتی ہیں اور نفا ق و تضا د دور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی عز ت و وقار میں اضافہ کر تا ہے اور ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ خو د بھی پاکیزہ زندگی بسر کریں راست گوئی پر عمل کریں اور عوام کو بھی تمام سہولتیں مہیا کریں ، امن و امان قائم کریں اور عوام کی دعائیں حاصل کریں ۔ اگر حکمران اور اہل اقتدار بد کردار اور منافق ہوں تو پھر ان پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ، غیظ و غضب اور اس کی نازل کردہ رسوائی و ذلالت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر عوام بد کردار ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو نیک اور عادل حکمران سے محروم کر دیتا ہے۔ باہمی اختلاف اور تنازعہ جات جنم لیتے ہیں ۔ قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور پھر جنگل کا قانون جنم لے لیتا ہے اور پورا نظام تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فرمان کے مطابق ایسے لوگوں کی جگہ دوسرے نیک اور اہل حکمران لے آتا ہے۔ حکمرانوں کا اقتدار اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکی خوشنودی پر منحصر ہے اور یہ وہ اپنے نیک اعمال کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اس لئے انصاف ضروری عمل ہے۔ جب اہل اقتدار عوام کے آرام و ضروریا ت کا خیا ل رکھتے ہیں تو عوام ان کے حق میں دل سے دعائیں دیتے ہیں اور یہی وہ دعائیں حکومت اور ملک کے استحکام کا وسیلہ بنتی ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ کفر کے باوجود ملک باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم و جبر جس ملک میں قانون بن گیا اسکو بقا نہیں۔
احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت یوسف قریب الرحلت تھے تو آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کے جنازہ کو حضرت ابراہیم کے مزار کے ساتھ دفنایا جائے چنانچہ اس وصیت پر عمل کر کے جب ان کا جنازہ وہاں لے جایا گیا تو حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ نے حضرت یوسف کی میت کو وہاں دفن کرنے سے روک دیا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت یوسف نے پیغمبری کے علاوہ حکمرانی بھی کی ہے اور انھیں قیامت کے دن اپنی حکمرانی کا حساب دینا ہے اس لئے ان کو حضرت ابرہیم کے روضہء مبارک میں دفن نہیں کیا جا سکتا۔ اہل اقتدار کے لئے اس میں ایک سبق ہے کہ روز حشر ہر اس شخص سے باز پر س ہو گی جس کو اس دنیا میں کسی نہ کسی طرح کا اقتدار حاصل رہ چکا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے دن انسانی تاریخ کے تمام ادوار کے چھوٹے بڑے اہل اقتدار جمع کئے جائیں گے ان سب کے ہاتھ ان کی گردنوں سے پیوست اور حمائل کر دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ برتاؤ ان کے اعمال کے مطابق کیا جائے گا۔ ان حکام اور اہل اقتدار کو جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ انھوں نے انصاف، عدل ،ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں تو ان کے ہاتھ کھول دیے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے لیکن جو لوگ بے انصافی، بے ایمانی، منافقت کے مرتکب ہونگے وہ اسی عالم میں یعنی گردنوں سے ہاتھ بندھے ہوئے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں میں دھونک دیے جائیں گے۔
اے اہل اقتدار اللہ تعالیٰ نے بالکل صاف صاف غیر مبہم الفا ظ میں تم کو انتباہ کیا ہے ، ہدایات دی ہیں تو پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو۔ کیا عذاب الہیٰ کے منتظر ہو کہ پچھلے گناہ گاروں کی طرح تمھیں بھی آئندہ نسلوں کیلئے مثال بنا دیا جائے؟
مغربی ممالک کی تقلیدمیں ہم نے جمہوری نظام اختیار کرلیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں، ہمارے عوام میں تعلیم کا فقدان یا کمی اور ہماری قوم اور ملک میں خاندانی، صوبائی روایات نے اس نظام کو بالکل ناکام بنا دیا ہے۔ شاید علامہ اقبال نے اپنی دُوراندیشی سے اس چیز کو محسوس کرلیا تھا اور کہا تھا:
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شَو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
یعنی ”اے عقلمند، قدیمی غلام جمہوری نظام سے دور رہ کیونکہ دو سو گدھوں کی عقل انسانی عقل کے برابر نہیں ہوتی“۔ ایک اور جگہ ووٹر کی نااہلی بیان کی ہے۔ ”بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“ تولنے سے مطلب ان کی عقل و فہم و تعلیم کو مدّ ِنظررکھنا اور اہمیت دینے سے ہے۔
بدقسمتی سے وہ نظام مغربی ممالک میں کثرت تعلیم اور سمجھ بوجھ کی وجہ سے کامیاب ہوا وہ تمام غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بالکل ناکام رہا۔ ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ ایک مذاق بن گیا ہے۔ ہندوستان کے مشہور دانشور خشونت سنگھ نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ جمہوریت کا اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر مشہور مسلمہ عالمانہ شخصیت من موہن سنگھ الیکشن میں ناکام ہوگئی اور بدنام زمانہ ڈاکو عورت پھولن دیوی الیکشن میں کامیاب ہوگئی اور ایک اور جگہ ایک خواجہ سرا الیکشن جیت گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب من موہن سنگھ وزیر اعظم نہیں بنے تھے۔ پھولن دیوی کو پولیس، خفیہ ایجنسیاں قانون کے کٹہرے میں نہ لاسکیں مگر جب وہ ڈیل کرکے آزاد ہوئی، لوک سبھا کی ممبر منتخب ہوگئی تو انہی لوگوں نے ایک ’نرم ٹارگیٹ‘ سمجھ کر دہلی میں گھر کے باہر قتل کردیا۔
مغربی ممالک میں یا دوسرے چند ممالک میں جہاں جمہوری نظام کامیاب رہا ہے وہاں شرح خواندگی یعنی پڑھے لکھے عوام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں عموماً تین چار سیاسی پارٹیوں سے زیادہ پارٹیاں نہیں ہوتی ہیں اور الیکشن کے بعد نفاق ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں ملکی مفاد ہو وہ سب مل جاتے ہیں خواہ یہ قانونی ہو یا غیر قانونی سب ایک ہیں۔ اندرونی معاملات پر اختلاف ہوں تو یہ کشتی پارلیمنٹ میں لڑی جاتی ہے۔ آپکے سامنے بش کے الیکشن کی مثال موجود ہے۔ سن دو ہزار میں جو الیکشن ہوئے تھے اس میں یہ ہار گیا تھا اور آخری ریاست میں دوبارہ گنتی اس کی یقیناً شکست کا باعث بن جاتی لیکن سپریم کورٹ نے جس کے کئی جج اس کے باپ نے دس سال پیشتر متعین کئے تھے اس کے حق میں فیصلہ دے کر دوبارہ گنتی رکوادی اور اس طرح اَل گور جیتا ہوا الیکشن ہارگیا۔ یہ تبدیلی توڑ پھوڑ یا ہڑتالوں سے نہیں آئی بلکہ قانون کے ذریعہ آئی۔ اگرچہ لوگ اس سے ناراض تھے لیکن کسی نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔
ہمارے ملک میں جمہوریت نام کا پرندہ عنقا ہے ۔ یہ پرندہ بے چارہ غلام محمد کے ہاتھوں 1953 میں قتل ہوا اور دفن ہوگیا۔ اس وقت سے صرف نام نہاد جمہوریت رہی ہے جو بھی حکمران بنا اس نے یک شخصی حکومت قائم کی، درباریوں کا جمگھٹا لگایا اور من مانی کی۔ مخالف لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، قتل کرایا اور تمام سرکاری ادارے اسی کام میں لگا دیے۔ بدقسمتی سے متاثرین کو عدلیہ سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا۔ کہانی غلام محمد سے شروع ہوئی اور اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق، بینظیر، نواز شریف، مشرف اور اب زرداری اور گیلانی تک جاری ہے۔ صرف دکھاوے کے لئے تھوڑا سا میک اپ بدل جاتا ہے اور حکمران عوام کی ضروریات اور خواہشات کی پروا کئے بغیر من مانی کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ ہے اور مخالف پارٹیاں ذاتی مفاد اور خودغرضی کاشکار ہیں اور ”دوستانہ مخالفت“ کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔ عوام کی خواہشات کو تو چھوڑیے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کھلے عام مذاق اور تمسخر اُڑایا جارہا ہے ۔ ان پر عمل نہیں ہورہا اور عدلیہ بھی خاموش تماشائی ہے اور سخت اقدام نہیں اُٹھاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام مصیبتوں اور ظلم کا شکار ہیں۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام کے قیام اور موجودگی کے بارے میں بھنگڑے تو ڈالے جاتے ہیں لیکن کسی بھی پارٹی میں جمہوریت کا وجود نہیں۔ تمام ماتحت لوگ پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے اور نہ ہی بول سکتے ہیں اور اپنے سربراہوں کے ہر جائز، ناجائز کام کی حمایت میں میدان میں کود جاتے ہیں اور ترجمان بن جاتے ہیں۔ آپ ہر پارٹی میں دیکھ لیجئے، جس نے اختلاف کی جرأت کی وہ راندہ درگاہ اور گمنام ہوگیا۔ یہی قانون پی پی، نواز لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی سب ہی پارٹیوں میں نافذ ہے۔
آپ جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی مثالیں دیکھ لیجئے کہ حکومت ان کی کیا قدر کرتی ہے۔ اسی نام نہاد جمہوری حکومت کی جمہوری پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد منظور کی کہ ڈرون حملے بند کئے جائیں کہ یہ خود مختاری کے خلاف ہیں، بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں اور ہماری فضائی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ایک اٹھارہ کروڑ کی آبادی والا ملک جو ایٹمی اور میزائل قوت بھی ہے وہ ایک بنانا ری پبلک بن گیا ہے۔ لاکھوں افراد پر مشتمل فوج جو ہر سال اربوں روپیہ اپنے اوپر خرچ کراتی ہے اور اپنے حلف کے تقدس کا لحاظ نہیں رکھتی اور ہمیں تو صرف انہیں اپنے ہی افراد کو قتل کرتے دکھایا جاتا ہے اور اس کے صلہ میں تمغے اور ترقیاں ملتی رہتی ہیں اور باہر کے دورے لگتے رہتے ہیں۔ عام انسان دیکھے تو کس جانب دیکھے ۔ حکومت ہر طرح کے ظلم اور بدانتظامی کی مرتکب ہے اور عدلیہ اور افواج پاکستان خاموش تماشائی ہیں۔ لوگ انقلاب کی بات کررہے ہیں۔ ہمارے مختلف صوبوں، مختلف کردار کے عوام کی وجہ سے یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر کسی مسیحا نے یہ کام کردیا تو سب ”چرخ کہن“ نیست و نابود ہوجائے گا اور ایران والا واقعہ دہرایا جائے گا۔
ہمارے بے چارے سیدھے سادھے عوام کی اکثریت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے نِت نئے طریقہ جات ایجاد کر لئے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں دھواں دھار تقریریں کرتی ہیں۔ اپنے ڈیمانڈ (شرائط) زور شور سے پیش کرتی ہیں اور پھرچپ چاپ حکومت سے مل کر وہی حلوہ پوری۔ حکومت جب کوئی کام پارلیمنٹ سے کرانا چاہتی ہے تو ملی بھگت کے تحت اپوزیشن پارٹیاں نام نہاد احتجاجی واک آؤٹ کرکے حکومت کو کھلی آزادی دے دیتی ہیں۔ جس طرح روس اور چین نے سیکیورٹی کونسل میں ووٹ میں شرکت نہ کرکے امریکہ اور اس کے حواریوں کو جواز مہیا کیا کہ وہ لیبیا پر جارحانہ حملے کریں، تباہی پھیلائیں اور قتل عام کریں۔ جمہوریت کو بچانے کا ڈھونگ رچانے والی ن۔لیگ جمہوریت کے قتل کا وسیلہ بن کر کرپٹ اور نااہل حکومت کو موقع دیتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہی وتیرہ ایم کیو ایم نے اختیارکر رکھا ہے۔ اگرچہ پی پی پی حکمراں جماعت ہونے کی وجہ سے خرابیوں کی جڑ ہے مگر ن۔لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی فرشتے نہیں ہیں۔ ان پر بھی ان خرابیوں کی بڑی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے۔
مڈٹرم الیکشن کی بات ہوتی ہے تو سب ہی حلوہ پوری کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ مڈٹرم الیکشن سے نہ ہی ملک کی بنیادیں ہلتی ہیں اور نہ ہی کمزور ہوتا ہے۔ ابھی ہمارے سامنے آسٹریلیا، جاپان، کینیڈا کی مثالیں ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک میں باقاعدگی سے مڈٹرم الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل سے جمہوریت بے حد مضبوط ہے نا کہ کمزور۔
ہمارے ملک کے نااہل اصحاب اقتدار یہ فضول گوئی کرتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹ عوام کے حالات نہیں جانتے اور ان کے مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ انہیں یہ جاننا چاہئے بلکہ سمجھناچاہیئے (اگر سمجھنے کی ان میں صلاحیت ہوتو) کہ ہم لوگوں کو تمام تربیت مشکل سے مشکل پرابلم کو ہر زاویہ سے دیکھنے، ا س کو جلد آسان طریقہ سے اور کفایت شعاری سے حل کرنے کی دی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اسکی ترقی و خوشحالی کی بنیاد ٹیکنوکریٹ ہی رکھتے ہیں۔ سیاست دان ان کی محنت و مشقت کا پھل کھا کر عیاشی کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں، مہنگی گاڑیوں اور بنگلوں میں رہتے ہیں۔ میں نے ملک کو اپنے رفقائے کار کی مدد سے ایٹم بم اور ان کو دشمن کے علاقہ میں ہدف تک پہنچانے کیلئے میزائل مہیا کئے، کیا میرے پرانے رفقائے کار عیاشی کررہے ہیں یا نااہل، راشی حکمران اس ملک کولوٹ رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تمام ترقی ، خوشحالی معاشی، ٹیکنوکریٹس کی مرہون منت ہے مگر جہاں حکمرانوں میں تعلیم ، عقل و فہم اور دور بینی کا فقدان ہو وہاں یہ اہم بات کہاں سمجھ میں آسکتی ہے۔ آپ ذرا دوسرے ترقی یافتہ ممالک (اب اس میں ہندوستان بھی شامل ہے) کے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی تعلیم و قابلیت کا ہمارے جعلی ڈگری والے، رشوت خور، نااہل اصحاب اقتدار سے مقابلہ کیجئے تو ملک کی موجودہ بدحالی، بدانتظامی اور دوسری تمام لعنتوں کی موجودگی کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ اسلامی ممالک میں یہ جمہوریت جو ہم اپنائے ہوئے ہیں ایک ڈھکوسلا ہے۔ ہمارے لئے براہ راست صدر کا انتخاب پہتر ہوگا۔ ہمارے تہذیب وتمدن اور خصلت اسکی عادی ہے۔ ایک ایسا لیڈر جو ملک کے عوام کی اکثریت سے آئے (نہ کہ پارلیمنٹ کے چور دروازہ سے) وہ ملک کے قابل ترین افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپے اور عوامی نمائندے اسکی سربراہی اور مشورہ سے قانون سازی کریں تو ہمارے ملک کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ اسطرح یہ صدر کسی پارٹی سے بلیک میل نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی حکومت گرا سکتا ہے۔ موجودہ نظام ملک کو بد سے بدتر اور کمزور سے کمزور کرتا چلا جائیگا اور اسکا شیرازہ بکھیر دیگا۔ چور اور ڈاکو باربار آتے رہینگے اور اس کمزور لاغر اور مریل جانور کا گوشت کھاتے رہینگے اور مار کر دم لیں گے۔
ٹیپو سلطان (فتح علی خان ٹیپو سلطان) 4/مئی 1799ء کو سرنگا پٹم میں نہایت دلیری شجاعت سے لڑتے ہوئے کافروں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ انگریزوں، مرہٹوں اور نظام دکن کی مسلح افواج نے جن کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ تھی ٹیپو سلطان کی 30 ہزار فوج پر حملہ کردیا تھا۔ مرہٹوں اور نظام کی غدّاری اور خود ٹیپو کے افسر میر صادق کی غدّاری کی وجہ سے شیر میسور کو شکست ہوئی اور آپ نے جام شہادت اس طرح نوش کیا کہ ہاتھ میں تلوار تھی اور بدن زخموں سے چور تھا۔ 4 مئی کو ہم نے اس ناقابل فراموش ہیرو کی شہادت کی 212 ویں برسی منائی ہے۔ اِناللہ و اِنا اِلیِہِ راجعون ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں ہمیشہ اعلیٰ مقام پر فائز رکھے۔ آمین۔
نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم رفتہ رفتہ اپنے قومی ہیروز کو بھولتے (یا بھلاتے) جارہے ہیں۔ اپنی تاریخ اور ثقافت بھولتے جارہے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل کے کتنے فی صد افراد، جنگوں میں حیدر علی، ٹیپو سلطان یا حضرت خالد بن ولید، عمروبن العاص، مغیرہ بن شعبہ، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن الجرّاح، موسیٰ بن نصیر، قتیبہ بن مسلم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، ملک الظہیر بیبرس، امیر معاویہ، شہاب الدین غوری، عمر مختار، شیخ عبدالقادر، امام شامل، محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، ہارون الرشید، سلطان محمد فاتح کے ناموں یا ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ ایسی تعلیم پر لعنت ہے جو ہماری نوجوان نسل کو اپنے مذہب اور تاریخ و ثقافت سے بے بہرہ کررہی ہے۔
میرے ایک عزیز دوست جناب سید محمود خاور ایک طویل عرصہ سے ٹیپو سلطان شہید کی یاد زندہ رکھنے کے لئے جہاد کررہے ہیں اور ہر سال آپ وہاں اس موقع پر ایک سمپوزیم کا اہتمام کرتے ہیں۔ برادرم خاور ،ٹیپو سلطان میموریل (ویلفیئر) سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ ان کا یہ عمل نہایت قابل تحسین ہے۔ اس سمپوزیم میں قابل شخصیات شہید سلطان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مجھ جیسے سینئر شہری ہی اب ایسی قابل فخر شخصیات کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یا ان کو یاد کرتے ہیں۔ جب 2001ء کے اوائل میں کہوٹہ پروجیکٹ سے میں دست بردار ہونے لگا تو چند ماہ پیشتر میں نے وہاں ایک میوزیم قائم کیا اور اپنے ساتھیوں اور اپنے کارناموں کی تاریخ کے اہم واقعات کی تصاویر اور دستاویزات رکھ دیں۔ میں نے اپنے تمام ساتھیوں اور خود کی تصاویربھی دیوار پر لگا دیں تاکہ آئندہ نسلیں ہمیں اور ہمارے کام کو فراموش نہ کرسکیں۔ میں نے اس میوزیم کے داخلی دروازہ پر جلی حروف میں لکھ دیا۔ "Lest you forget we were the pioneers" یعنی کہ آپ یہ نہ بھولنا کہ ہم اس کام کے موجد تھے۔ اس طرح ہمارے بعد جو بھی سائنسدان اور انجینئر وہاں فرائض انجام دیں گے ان کو علم ہوگا کہ یہ اہم کام کن لوگوں نے انجام دیا تھا اور پاکستان کو ایک ایٹمی اور میزائل قوّت بنا کر ناقابل تسخیر دفاع مہیا کیا تھا۔
ٹیپو سلطان حیدر علی کے بیٹے تھے۔ حیدر علی میسور کی فوج میں افسر تھے اور بعد میں سلطنت میسور کے حکمراں بن گئے تھے۔ یہ بے حد بہادر تھے اور انہوں نے انگریزوں ، مرہٹوں اور نظام کی فوجوں کو شکستیں دی تھیں۔ یہ بہت ذی فہم تھے اور جنگ میں ہمیشہ نظام یا مرہٹوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے باپ کی جنگی حکمت عملی پر عمل نہیں کیا اور حیدر علی کے سینئر افسران کے مشوروں کو نظر انداز کرکے انگریزوں، مرہٹوں اورنظام کی متحدہ افواج کے خلاف جنگ چھیڑدی اور 1789 کی جنگ میں خاصا نقصان اُٹھانا پڑا اور مالابار اور منگلور کے علاقوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ انگریزوں نے اب یہ موقع غنیمت جانا اور اچھی طرح تیاری کرکے اور مرہٹوں اور نظام کو ملا کر سرنگا پٹم پر حملہ کردیا۔ ٹیپو سلطان قلعہ سے باہر نکل کر حملہ کرتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے۔ انگریزوں نے ان کے قریبی ساتھی میر صادق کو ملا لیا تھا اور ایک مرتبہ جب سلطان قلعہ سے باہر گئے تو اس نے قلعہ کے دروازے بند کردیے ، ٹیپو سلطان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ میر صادق کی غدّاری سراج الدولہ کے خلاف اس کے وزیر میر جعفر کی غدّاری کا دوبارہ کھیل تھا اور بدقسمتی سے مسلمانوں کی غدّاری کی تاریخ کا بدترین باب ہے۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس وقت انگریز اور ان کے حواری ٹیپوکے خلاف فتح حاصل کررہے تھے بالکل اُسی وقت مصر میں ترک فوجوں کا سپہ سالار محمد علی پاشا فرانسیسیوں کی بیخ اُکھاڑ کر انھیں مصر سے باہر نکال رہا تھا اور کچھ عرصہ بعد ہی ترک افواج انگریزوں کو عبرت ناک شکست دے رہی تھیں اور کچھ عرصہ بعد الجیریا کے مجاہد عبدالقادر نے فرانسیسیوں کو مکتا کے مقام پر بُری طرح شکست دی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ محمد علی پاشا کے ہاتھوں نپولین کی افواج کی شکست نے اس کی قوّت ختم کردی اور 1815 میں نپولین کو بلجیم کے شہر واٹر لُو کے مقام پربڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گرفتار ہوا اور انگریزوں نے اس کو سینٹ ہیلینا نامی جزیرہ میں قید کردیا جہاں وہ 1821 میں فوت ہوگیا۔ سر والٹر اسکاٹ مشہور اسکاٹش شاعر اور تاریخی ناول نویس نے نپولین کی شکست اور گرفتاری پر جو بیان دیا وہ ٹیپو سلطان کے لئے سنہری خراج تحسین ہے۔ اس نے کہا تھا۔ ”اگرچہ نپولین ، جس کی تعلیم و کردار اور سیاسی نظریات حیدر علی سے کچھ مختلف تھے مگر میرے خیال میں اس کو کم از کم وہی جرأت مندی، عزم اور مستقل مزاجی، بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا جس کا مظاہرہ ٹیپو صاحب نے کیا تھا اور اپنے دارالحکومت کی حفاظت کرتے ہوئے جوانمردی سے تلوار ہاتھ میں لیے شہادت قبول کی تھی“۔ یہ دشمن کا خراج تحسین تھا۔
غیر مصدّقہ رپورٹوں میں بیان کیا گیا ہے کہ انگریزوں نے اپنی روایتی عیاری اور مکاری کا اعلیٰ ثبوت دیتے ہوئے شہادت کے دوسرے دن ٹیپو سلطان کی لاش کو کفن میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھ توپ پر رکھی ، سڑک کے دونوں جانب سپاہی بندوقیں لے کر کھڑے ہوئے اور لاش کو گارڈ آف آنر دیا اور لے جاکر دفن کروادیا۔ اس شعبدہ بازی کا مطلب ٹیپو اور نظام کی فوج کے مسلمان سپاہیوں کی ہمدردی حاصل کرنا تھی۔ یہی بات اب تاریخ دوہرا رہی ہے کہ عیسائیوں نے اُسامہ بن لادن کو قتل کرکے بقول ان کے اسلامی طریقہ کار سے غسل دیا اور لاش کو سمندر کے حوالے کردیا۔شاید مولانا ریمنڈ ڈیوس نے نماز جنازہ بھی پڑھادی ہوگی۔
ٹیپو سلطان ایک اعلیٰ ایڈمنسٹریٹر تھا اور مذہبی رواداری پر اسلام کے قوانین کے مطابق عمل پیراتھا لیکن مغربی اور ہندو تاریخ دانوں نے اس کے خلاف بہت زہر اُگلا ہے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں کو ٹیپو نے شکست دی تھی اور دونوں ہی اس کو ایک جابر، مذہبی انتہا پسند کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹیپو سلطان نے فرانسیسیوں کی درخواست پر میسور کی پہلی چرچ تعمیر کی اور لاتعداد مندروں کی تعمیر و کفالت کی۔ 1791 میں مرہٹہ سردار رگھوناتھ راؤ اور اس کے ساتھیوں نے سرنگیری کے مندر پر حملہ کیا اور تمام جواہرات و مال و دولت لوٹ کر لے گئے اور کئی لوگوں کو قتل کردیا۔ بڑے پجاری نے ٹیپو سلطان سے فریاد کی۔ میسور کی تاریخی کتب خانہ میں تقریباً تیس خطوط موجود ہیں جو بڑے پجاری اور ٹیپو کے درمیان خط و کتابت ظاہر کرتے ہیں۔ سلطان رگھوناتھ کے اس ذلیل فعل پر سخت ناراض تھا اور اس نے بڑے پجاری کو لکھا۔ ”وہ لوگ جنہوں نے ایک مقدس مقام کے خلاف یہ گندا اور بہیمانہ اقدام کیا ہے وہ یقیناً اپنے اس گناہ کا خمیازہ بہت جلد اس کالی کے دور میں اُٹھائیں گے۔ اور وہ بھی اس مصرع یا دعا کے تحت۔ ”لوگ ظلم اور غلط کام ہنستے اور مسکراتے ہوئے کرتے ہیں اور نتائج کا خمیازہ روتے ہوئے بھگتتے ہیں“۔
سلطان نے بڑے پجاری کو ایک اچھی رقم اور لاتعداد قیمتی تحائف دیئے اور ایک بڑا وظیفہ مقرر کردیا جو ان کی شہادت تک جاری رہا۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے ٹیپو سلطان ایک بہت اچھے منتظم تھے۔ انہوں نے دریائے کاویری پر ایک ڈیم کی بنیاد رکھی تھی جہاں بعد میں ہندوستان کی حکومت نے کرشنا راجہ سگار ڈیم بنایا۔ انہوں نے نہایت خوبصورت لال باغ کی تعمیر کی، اعلیٰ سڑکیں تعمیر کیں، عوامی ضروریات کی عمارتیں بنوائیں، کیرالہ کے ساحل پر کئی بندرگاہیں تعمیر کیں۔ ان کے زمانے میں میسور کے تاجر ایران اور ترکی تک جاکر تجارت کرتے تھے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان جنگی راکٹ کے موجد تصور کیے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے ان راکٹوں کی مدد سے آگے ریسرچ کرکے اچھے اور طاقتور راکٹ بنانا شروع کئے مگر ابتدا حیدر علی اور ٹیپو نے ہی کی تھی۔ حیدر علی نے سکّوں کا رواج قائم کیا، ایک قسم کا بنکنگ سسٹم رائج کیا، ایک نیا کیلینڈر بنایا اور اوزان و پیمانہ جات کااعلیٰ اور معتبر سسٹم رائج کیا۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے اور قوم کی ستم ظریفی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے قومی ہیروز کو بھلا چکے ہیں اور بھول رہے ہیں یہی نہیں ہماری نوجوان نسل کو ایسی غیرملکی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں جن میں ہمارے قومی ہیروز کو نہایت نازیبا الفاظ میں یاد کیا گیا مثال کے طور پر اے لیول میں ایک کتاب میں حیدر علی اور ٹیپو کے خلاف نازیبا باتیں لکھی ہوئی ہیں اس کا نام ہے The History & Culture of Pakistan اور اس کا مصنف Nigel Kelly ہے۔ اس میں 20-23 صفحات پر اس قسم کی باتیں درج ہیں۔ اس وقت سخت ضرورت ہے کہ ماہر تعلیم و تاریخ ہمارے مدارس کی کتابوں کا دوبارہ جائزہ لیں ان میں تبدیلی کریں کہ سلیبس ہماری تاریخ اور ثقافت کی صحیح عکّاسی کرسکیں۔
2/مئی کو امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اِکیڈمی سے ملحقہ ایک بنگلہ پر آدھی رات کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ اُتر کر حملہ کیا اور بقول ان کے وہاں قیام پزیر اُسامہ بن لادن اور اس کے بیٹے کو قتل کرکے ان کی لاش ساتھ لے گئے۔ اس کاروائی میں ان کا ایک ہیلی کاپٹربھی گر گیا جس کو اُنھوں نے آتش گیر مواد سے اُڑادیا پھر بھی اس کے بہت سے ثابت ٹکڑے تھے جن کو پاکستان آرمی کے لوگ ٹرک میں رکھ کر اور اس پر ترپال ڈال کر چھپا کر لے گئے یہ غالباً اپنے ”دوست“ امریکنوں کو ان کے راز فاش ہونے سے بچانا تھا۔
ایبٹ آباد کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھدیا ہے۔ تمام ٹی وی اسٹیشن، اینکر پرسنز، تجزیہ نگار، صحافی ہر شخص نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس واقعہ پر تبصرہ کر ڈالا۔ نئی نئی تھیوریاں، قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ اخبارات تبصروں سے بھرے پڑے ہیں۔ سیاست دانوں نے بھی اکھاڑے میں چھلانگ لگا دی، مخالفین نے صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف پر تنقید کی اور حکومت کے جیالوں نے ہر بات کو صحیح اور ملکی مفاد میں قرار دیا۔ ان کی اداکاری قابل دید تھی۔
دیکھئے، یہ بات نہ ہی حکومت اور نہ ہی کسی اور ادارے کے لئے باعث شرم وخفّت ہونا چاہئے کہ اُسامہ بن لادن اتنے طویل عرصہ ایبٹ آباد میں پوشیدہ رہا۔ سرحدی علاقوں اور بلوچستان میں ایسے قلعہ نما مکانات عام ہیں صرف ناواقف یا جاہل شخص ہی اس مکان کی طرزتعمیر کو عجوبہ یا غیر معمولی قرار دے سکتا ہے۔ ایک اُسامہ کیا لاتعداد لوگ بہ آسانی رات کے اندھیرے میں ، یا کار میں بیٹھ کر کسی بھی علاقہ اور مکان میں جاکر بیٹھ سکتے ہیں۔ اور اگر وہ باہر نہ نکلیں اور لوگوں سے ملاقات نہ کریں تو کوئی بھی ان کی موجودگی سے واقف نہیں ہو سکتا۔ اس معاملہ میں کسی کو بھی ملزم قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔ کیا امریکہ اور یورپ میں لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن نہیں رہ رہے ہیں اور ان کی حکومتوں کو علم ہے؟
ہاں نہایت قابل اعتراض، قابل مذمّت اور شرمناک بات یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر اتنا طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے ہماری سرحدوں میں داخل ہوئے اور ایک ایسے شہر میں داخل ہوئے جہاں تقریباً ایک لاکھ فوجی موجود ہیں اور جہاں امریکی کمانڈوز کاروائی کررہے تھے اور اطلاعات کے مطابق تقریباً چالیس منٹ تک یہ کاروائی کرتے رہے اور ہمارے فوجی آرام کی نیند سوتے رہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ایک ہیلی کاپٹر بھی ہمارے گھر کے اوپر سے اُڑے تو پورا گھر جاگ جاتا ہے۔ یہاں تو کئی ہیلی کاپٹر ہوا میں رُکے ہوئے یہ کاروائی کرارہے تھے بعد میں زمین پر اُتر کر بقول امریکی ذرائع وہ اُسامہ بن لادن اور سکے بیٹے کی لاشیں بھی لے گئے۔ فوج کی یہ نااہلی ناقابل معافی جرم ہے ۔
پوری قوم پیٹ کاٹ کربھوکی رہ کر، تکالیف اُٹھا کر اس کو اربوں ڈالر دیتی ہے اور اگر زندگی میں، برسوں میں ، ایک دو ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہم خود کو نہایت نااہل، کاہل اور ناقابل اعتبار ثابت کرتے ہیں۔ اگر ہیلی کاپٹر واپس بھی جارہے تھے تو اےئر فورس کو چاہئے تھاکہ جیٹ روانہ کرکے ان کو مارگراتے۔ یہ ہمارا حق تھا اور اےئر فورس کی ذمّہ داری تھی۔ہم کہدیتے ہمیں کیا معلوم کس دشمن کے جہاز ہیں۔
صدر، وزیراعظم اور وزیر دفاع تو دفاعی معاملات میں جاہل مطلق ہیں اور اس موضوع پر صرف مفروضہ پر مبنی بیانات دیدیتے ہیں۔ یہاں سب سے بڑی ذمّہ داری اےئر فورس اور آرمی کی تھی۔ ہم نے اےئر فورس کا بیان بھی تاخیر سے سُنا کہ راڈار صحیح کام کررہے تھے۔مگر یہ بھی کہدیا کہ اگر ہم ان کے خلاف ایکشن لیتے تو امریکی جہاز ایکشن میں آجاتے ۔ اگر اربوں ڈالر پر چلنے والی اےئر فورس ان مفروضوں پر کام کرے کہ دوسرا ملک جارحیت کرکے چلا جائے اور یہ سوچتے رہیں کہ اگر انھوں نے ملک کی حفاظت کرنے کی کوشش کی تو جھگڑا بڑھ جائے گا تو پھر ہمیں اربوں ڈالر خرچ کرنے ، لوگوں کے سینے سجانے کی کیا ضرورت ہے۔ آرمی کی اپنی راڈار ہوتی ہیں اور ان پر خود یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دشمن کی آمد سے واقف ہوجائیں اور بر وقت ایکشن لے سکیں۔ ہمارے پاس کہوٹہ میں ایسی تمام سہولتیں تھیں اور جنرل عارف اور جنرل بیگ نے یہ یقینی بنا دیا تھا کہ دشمن آتو سکتا تھا واپس نہیں جاسکتا تھا۔ کہوٹہ کو بنے ہوئے 35 برس ہوگئے اور آجتک نہ ہی اسرائیل اور نہ ہی ہندوستان یا کسی اور دشمن کو یہ جرات ہوئی کہ وہ وہاں کوئی کارروائی کرنے کا اقدام کرے۔ اےئر فورس کی تو ناکامی اور نااہلیت تھی ہی مگر ہماری آرمی بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ اس سیاہ داغ کی ذمّہ دار ہے۔ اربوں ڈالر کھا کر یہ اس قابل نہیں کہ ان کے درمیان دشمن جارحانہ اقدام کرکے آرام سے بلاخوف و خطر واپس چلے گئے۔ ان دونوں اداروں کی جانب سے جو تمام حفاظتی اقدامات کرنے تھے وہ ان میں بُری طرح ناکام رہے۔ پچھلی جنگ ہندوستان سے 1971 میں ہوئی تھی یعنی 40 سال پیشتر اس کے بعد سے سب آرام کی کھا رہے ہیں مگر سینوں پر فیتوں اور تمغوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ خدا جانے یہ کونسی فتوحات کا انعام ملتا ہے۔
اس شرمناک حادثہ سے بدتر شرمناک رویہ و کردار حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈروں کا ہے۔ سب سے پہلے مضحکہ خیز تجویز الطاف حسین نے دی کہ ریفرنڈم کرایا جائے اور ان کے جوکر سڑکوں پر ڈبّوں میں پرچیاں ڈالنے لگے، دوسرا ایسا ہی مشورہ نواز شریف نے دیا کہ چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے ججوں پر مبنی کمیشن بنا یا جائے اور تحقیق کرکے رپورٹ پیش کرے۔ میاں صاحب حسب معمول غیرعملی عقل و فہم کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ عدلیہ یا چیف جسٹس صاحبان کا یہ کام نہیں کہ
ہر معاملہ کی وہ تحقیق کریں۔ اس کے لئے کسی ریٹائرڈ آرمی چیف (جنرل بیگ، جنرل وحید)، نیول چیف (فصیح بخاری،سعید محمد خان) اور اےئر چیف (فاروق فیروز خان، جمال احمد خان) پر مبنی کمیشن زیادہ مناسب رہے گا۔وہ انٹیلی جنس اداروں کی مدد لے سکتے ہیں۔ عدلیہ کے اپنے فرائضہیں وہ دفاعی معاملات سے قطعی واقف نہیں ہیں۔ دفاعی معاملات کی انکوائری دفاعی ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم، اور دوسرے سرکاری وزراء کے بیانات کا تعلق ہے وہ اس قابل نہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جائے۔ یہ الزام لگانا کہ نواز شریف اُسامہ بن لادن کو لانے یا اس کی مدد کے ذمّہ دار تھے جہالت و لغویات پر مبنی ہے۔ مجاہدین کو مجاہد بنانے میں سب سے بڑھ چڑھ کر امریکی، سعودی، برٹش اور دوسرے مغربی ممالک اور پاکستانی حکمراں(جنرل ضیا ء سے لے کر بینظیر، نواز شریف تک) سب ہی شامل تھے۔ تمام مجاہدین کو وی آئی پی استقبال دیا جاتا تھا جب روس کی شکست کے بعد امریکہ قابض ملک بن گیا اور یہ لوگ نئے قابض کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو وہ دہشت گرد، قاتل وغیرہ بن گئے اور ہم نے میرجعفر اور میر صادق کا کردار اختیار کرلیا۔
گیلانی کا نہایت بے ڈھنگا اور بے تکا بیان اپنی جگہ مگر اب ایک ’ان کیمرہ‘ یعنی بند کمرے میں سینیٹ اور اسمبلی کا مشترکہ جلسہ ہوگا جس میں آرمی چیف اور ڈی جی، آئی ایس آئی ایبٹ آباد کے ذلّت آمیز واقعہ پر روشنی ڈالینگے۔ اس قسم کی مشق حقائق کو چھپانے اور عوام کو اندھیرے میں رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں رواج ہے کہ جب بھی کوئی قومی حادثہ ہوتا ہے تو کھلے عام کمیشن کے سامنے متعلقہ افسران حاضر ہو کر بیانات دیتے ہیں ان پر جرح کی جاتی ہے اور تمام تفصیلات یا تو ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں یا صحافی افراد حرف بحرف شائع کرتے ہیں۔ یہاں یہ سیشن ہوگا، ایک مُبہم سا بیان جاری کردیا جائے گا اور ہم پھر امریکہ کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر مشروبات پینا شروع کرکے گھی شکر بن جائینگے۔
دیکھئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان ذلّت آمیز لمحات میں مجھے بھٹو صاحب، جنرل ضیاء، غلام اسحاق خان صاحب، جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ بہت یاد آرہے ہیں ان کی موجودگی میں اس ملک اور قوم کو اس ذلّت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مجھے پورا یقین ہے، میرا ایمان ہے کہ ان کی موجودگی میں اگر ہماری خودمختاری کی اس طرح ذلّت کی جاتی تو ملک کے اندر تین دن بعد ایک فالتو امریکی نظر نہیں آتا۔ ہم نے چند ٹکڑوں کی خاطر غیرت، عزّت بیچ دی ہے۔ بھٹو صاحب و جنرل ضیاء کے دور میں اور پھر بینظیر کے دور سے لے کر 2002 تک ہماری امداد بند تھی اور ہم آج کے منحوس دور سے ہزار درجہ بہتر تھے اور باعزّت زندگی گزار رہے تھے۔ یہ مدد ہمارے گلے میں پھندہ بن گئی ہے۔
آج میں ایک بہت دُکھی، پریشان پاکستانی ہوں۔ ملک کی جو حالت ہے اور موجودہ حکمرانوں نے ہمیں جہاں لاکھڑا کیا ہے اس کو دیکھ کر 1971 کے بعد پہلی مرتبہ یہ خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ مملکت خداداد پاکستان، یہ قائدِاعظم، علّامہ اقبال کا پاکستان، وہ پاکستان جس کے حاصل کرنے کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کردی تھیں آج تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے۔ 63 برس کی ہماری تاریخ میں ہم نے کبھی ایسا نااہل، بے غیرت حکمراں طبقہ نہیں دیکھا۔ 16 تاریخ کو ٹی وی پر امریکی سینیٹر جان کیری کو زرداری سے ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ آپ زرداری کے قہقہے دیکھتے، باچھیں کھِلتی دیکھتے تو شرم سے کیچڑ میں غرق ہوجاتے مگر آفریں ہے اس بے حس، عوامی نمائندے پر کہ ایبٹ آباد کے ذلّت آمیز واقعہ کے بعد یہ شخص کیری کے ساتھ قہقہے لگا رہا تھا۔ چہرہ پر ذرا سنجیدگی نہیں، غصّہ تو چھوڑئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دونوں بیٹھے کوئی گندے لطیفے سنا سنا کر لطف لے رہے تھے اور یہ ہی منظر کیری اور گیلانی کے درمیان ملاقات کی تصاویر نے دکھایا۔ اگر عوامی نمائندے اور لیڈر ایسے بے حس ہوں تو پھر ہماری عزّت کون کرے گا، کون ہماری بات کا لحاظ کرے گا اور سب سے بڑھ کر کون ہماری خود مختاری کی عزّت کرے گا۔ آخر کیری ہے کون؟ ایک شکست خوردہ صدارتی اُمیدوار او ر سینکڑوں سینیٹرز میں سے ایک سینیٹر۔ وہ اُوباما یا ہیلری کلنٹن تو نہیں ہے۔
دیکھئے میں 28 مئی یعنی یوم تکبیر کی نسبت سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ ٹی وی پر کیری کی زرداری اور گیلانی سے ملاقات دکھائی گئی اورپارلیمنٹ اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈرون حملوں کو روکنے کی قرارداد کے اور کیری کی روانگی کے چند گھنٹوں کے بعد پھر دو ڈرون حملے ہوئے اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق دس افراد ہلاک ہوگئے، یہ جواب امریکہ نے ان بے غیرتوں کو ملک کی خودمختاری کی حفاظت کے دعوے کے دو دن کے اندر اندر دیدیا۔
پاکستان نے 28 اور 30 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ یہ ہندوستان کے 11 اور13 مئی کے ایٹمی دھماکوں کا جواب تھا۔ پاکستان ایک باوقار ایٹمی قوّت کے طور پر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوگیا تھا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے پوری پاکستانی قوم اور دنیائے اسلام کا سر بلند ہوگیا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جب سعودی وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن سعود اور ان کے صاحبزادے اور نائب وزیر دفاع جنرل خالد بن سلطان نے کہوٹہ کا دورہ کیا اور ایٹمی ہتھیار اور میزائل دیکھے تو ان کی خوشی قابل دید تھی۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ آپ نے جو یہ کارنامہ انجام دیا ہے اس سے ہمارا سربلند ہوگیا ہے اور ہمیں یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ صلاحیت ہم نے حاصل کرلی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میرے قابل، محب وطن رفقائے کار اور میں نے یہ صلاحیت 1984 کے وسط میں پاکستان کے لئے حاصل کر لی تھی اسکی لاتعداد مصدّقہ تحریری دستاویزات موجود ہیں۔ میں نے بطور ریکارڈ10 دسمبر1984 کو تحریری طور پر جنرل ضیاء الحق مرحوم کو لکھ کر دیدیا تھا کہ ہم ہفتہ عشرہ کے نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کرسکتے تھے۔ یہ انتہائی بڑا کارنامہ تھا ۔ آٹھ سالوں میں ہم لوگوں نے اس پسماندہ ملک کو ایک ایٹمی قوّت بنا دیا تھا اور خاص طور پر جب آپ یہ تصور کریں کہ ہمیں کہوٹہ کو بالکل پتھروں سے شروع کرنا پڑا تھا اور ہمارے پاس کوئی تجربہ کار ٹیم بھی نہ تھی مگر میرے ساتھیوں نے جس طرح تمام مسائل حل کئے وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے باعث فخر تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا اور اللہ کی مدد سے ظہور پزیر ہوا تھا۔ ہم نے پاکستانی شہری ہونے کا فرض ادا کردیا تھا۔
اس سے پیشتر 6 اپریل 1998 کو ہم نے 1500 کلومیٹر فاصلہ پر ایٹمی ہتھیار پہنچانے والی غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے اپنے دشمنوں کو بتلادیا تھا کہ ہمارے ملک کے خلاف ہر جارحیت کا اب تباہ کن جواب دیا جائے گا۔
ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ 13 سال بعد جب ہم موجودہ حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو بے حد دُکھ ہوتا ہے کہ ہم نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد تمام اچھے مواقع کھودیے، صرف ایک ہی ادارہ نے اس سے پورا فائدہ اُٹھاکرمشرف کی شکل میں ہماری گردن دبالی۔ مجھے اس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو بے حد یاد آرہے ہیں۔ اللہ ان کو اس کام کی وجہ سے ہی جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ہماری اس صلاحیت کا استعمال کرکے عالم اسلام کے لیڈر بن جاتے۔ ہمارا ملک جنوبی کوریا، چین اور ملیشیا کی طرح ترقی کرکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں پوزیشن حاصل کرلیتا۔ جب یہ دیو قامت، ذی فہم شخص گزر گیا تو میدان بونوں کے ہاتھ آگیا اور اُنھوں نے اپنی عقل و فہم و قامت کے مطابق ایسی پالیسیاں اپنائیں جن سے یہ مملکت خداداد پاکستان ذلّت کی گہرائیوں میں غرق ہوگیا۔ بجائے اس کے کہ اتنی بڑی فنّی کامیابی سے ہم بین الاقوامی سطح پر استفادہ کرتے ہم نے اس نعمت اِلٰہی کو اپنے لئے ایک شیطانی لعنت بنالیا۔ لاتعداد احمقانہ فیصلوں میں سب سے بڑا اور فوری فیصلہ پاکستانی شہریوں کے غیرملکی اکاؤنٹس پر غاصبانہ قبضہ تھا اس سے بڑی بدمعاشی دنیا میں شاید ہی کسی اور ملک نے کی ہو۔ یہ میاں نواز شریف اور ان کے قریبی رفقاء کار کا پہلا کھلا عام مظاہرہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا مظاہرہ اُنھوں نے ایک نہایت ہی قابل، خاندانی شخص جنرل علی قلی خان کو نظر انداز کرکے ایک گاؤدی اور بدکردار شخص کو آرمی چیف کے مقدّس عہدہ پر مسلط کردیا۔ مگر میاں صاحب کے پچھلے بیان کردہ ”عقلمندانہ“ اقدام سے بڑھ کر ان کا پی پی پی سے سمجھوتہ اور بار بار بیوقوف لیڈر کے طور پر استعمال ہوناتھا۔ جمہوریت اچھی چیز ہے مگر جب جمہوریت ملک کو تباہ کرنے لگے اور خودمختاری بیچنے لگے تو اس سے ڈکٹیٹر بہتر ہے۔ زرداری نے نواز شریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدرکے عہدہ کے اُمیدوار نہ ہوں گے اور پھر اچانک اُمیدوار بن کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اگر نواز شریف میں ذرا عقل و فہم ہوتی تو اُسی وقت زرداری سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرکے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے مگر اس کے ججوں کی بحالی پر وعدہ خلافی پر بھی میاں صاحب کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اور وہ زرداری کی حفاظت کے لئے اپنا سینہ پیش کرتے رہے اور جمہوریت کو بچانے کے نعرہ کی آڑ میں ملک کو تباہ کرنے پر تیار رہے۔ ان کی اس دوستانہ اپوزیشن نے ملک کو موجودہ تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے بلکہ تباہ کردیا ہے۔ نہ ہم معاشی طور پر بہتر ہوئے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر ہماری عزّت و وقار برقرار رہا ہے۔ مسلم لیگ اور ملک کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ میاں صاحب پارٹی کی سربراہی سے دست بردار ہوکر مشیر کی حیثیت اختیار کرلیں اور میاں شہباز شریف کو مکمل اختیار دیدیں۔ اگر یہ نہ ہوا تو یہ پارٹی تباہ ہوجائیگی اور ملک بھی تباہ ہو جائے گا۔
اس وقت ملک کی جو حالت ہے اس کو دیکھ کر بے حد دُکھ ہوتا ہے کہ کیا ہماری تمام کاوشیں بیکار گئیں۔ کیا ان کا مقصد صرف چند مفاد پرستوں کی ہم پر مستقل حکمرانی تھی۔ کیا اس کا مطلب ہمیں بھکاری بنانا تھا۔ کیا اس کا مطلب غیروں سے مل کر اپنے ہی عوام کا قتل کرنا، حکمراں طبقہ کا عیاشی کرنا، غریبوں کو بھوکا پیاسا مارنا، ان کو مہنگائی اور بے روز گاری کے پہاڑوں تلے روندناتھا۔ میں کیا تمام تعلیمیافتہ اور اہل عقل طبقہ سخت افسردہ ہیں، پریشان ہیں کہ ہم نے بھٹو صاحب کے مشن کو پورا کرکے جو سنہرا خواب دیکھا تھا کیا وہ ایک سراب تو نہیں۔ باربار یہ سوال ہمارے دماغ میں آتا ہے اور دوسرے محبان وطن کے دماغ میں بھی اب یہی سوال آرہے ہیں اور عوام اب اس ملک کے مستقبل کے بارہ میں سخت فکرمند ہیں۔ غرض یہ کہ 28 اور 30 مئی کے ایٹمی دھماکوں اور دفاعی صلاحیت سے قطعی کوئی مثبت فائدہ نہیں اُٹھایا گیا اور بجائے اس کے کہ ہم تعلیم و صنعت میں ترقی کرتے ہم دونوں میدانوں میں پہلے سے بدتر ہیں۔ ایک سنہرا خواب سراب بن گیا ہے۔
ملک میں اب جو مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور جس طرح موجودہ سیاسی جماعتوں نے پوری قوم کو نااُمید کیا ہے اس کی روشنی میں یہ بے حد ضروری ہے کہ نوجوان نسل آگے بڑھے اور ایک نئی قیادت سامنے لائے۔ آپس کے اختلاف ختم کرے اور تمام جماعتوں کے نوجوان آپس میں مل کر ایک مضبوط اتحادی گروپ بنالیں۔ اس میں جاوید ہاشمی ، احسن اقبال ،عمران خان، جماعت اسلامی کے تعلیمیافتہ نوجوان، شاہ محمود قریشی، حنیف عباسی، ایاز میر وغیرہ روشن دماغ اور غیرمتنازعہ لیڈر شامل ہوں اور اپنے ساتھ تمام نوجوان محبان وطن کو ملا کراس ڈوبتی کشتی کو بچائیں۔ میں آپ کے ساتھ ملنے کو تیار ہوں۔ میں اپنے محب وطن ماہر رفقائے کار کے ساتھ مل کر آپ کی ہر میدان میں مدد اور رہنمائی کرونگا اور انشاء اللہ بہت کم عرصہ میں اس ملک کا کھویا ہوا وقار اور عزّت بحال کردینگے۔ ہمیں کسی ملک سے دشمنی لینے یا لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔دوستی اور تجارتی تعلقات قائم کرنا ہے، کسی فوجی معاہدہ میں شریک نہیں ہونا اور نہ ہی اپنی زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ اقدام کرنے کی اجازت دینا ہے۔ ہم نے تعلیمی، صنعتی اور زرعی میدان میں بھرپور کوشش کرکے اپنے اس پیارے وطن کو صحیح معنوں میں فلاحی اسلامی ریاست بنا دینا ہے۔ آئیے آگے بڑھیئے۔ ہم مل کر اس ملک کو نااہلوں جھوٹوں اور راشی حکمرانوں سے نجات دلائیں جنھوں نے اس ملک کی اور آپ کی اور میری عزّت خاک میں ملادی ہے اور ہمیں دوسروں کا محتاج اور غلام بنا دیا ہے۔ دیکھئے حالات بہت بگڑ گئے ہیں اب وقت عملی اقدام کا ہے خواہ وہ دھرنا دینا ہو، ہڑتال کرنا، پہیہ جام ہڑتال کرنا ہو، اس ملک کو بچانے کے لئے ہر اقدام جائز ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے بحالت مجبوری حرام کو حلال نہیں کیا ہے؟
28 مئی کو عوام نے پورے پاکستان میں نہایت جوش و خروش سے یوم تکبیر منایا۔ 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے ہم اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں مصدقہ ایٹمی قوّت بن گئے تھے۔ تیرہ سال کے واقعات اس طرح یادہیں جسطرح یہ کل کی بات ہے۔ ہر واقعہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ عوام کی خوشی ناقابل بیان تھی۔1971 کی ذِلّت آمیز شکست اور ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد یہ پہلی حقیقی خوشخبری تھی جو عوام نے سنی تھی اور اُنھوں نے اس کو والہانہ طور پر منایا تھا۔ پورا ملک خوشیوں کا گہوارہ بن گیا تھا۔ لوگ تمام تنازعات، مشکلات، بیماریاں، غم بھول گئے تھے۔ یہاں نواز شریف صاحب اعلیٰ بلندیوں پر پرواز کررہے تھے جو بدقسمتی سے زیادہ دیر قائم نہیں رہی اور ایک غاصب، بدکردار ڈکٹیٹر فوجی نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر انھیں جیل میں ڈالدیا اور پھر سعودی فرانروا کی مداخلت پر ان کوجلا وطن کرکے دس سال کے لئے سعودی عرب بھیج دیا۔ اُمید تھی کی دس سال کی جلاوطنی اور لاتعداد لوگوں سے ملاقاتوں اور بحث و مباحثہ کے بعد وہ ایک نہایت پختہ اور سمجھدار سیاست دان کے طور پر واپس آکر ملک کی اور عوام کی خدمت کرینگے اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالدینگے مگر نہ صرف میں بلکہ لاتعداد دوست واحباب اور شہری ان کے اعمال سے سخت مایوس ہوئے۔ انھوں نے مصدّقہ راشیوں، چوروں کے ساتھ اپنا مقدّر وابستہ کرلیا اور اس وہم کا شکار ہوگئے کہ وہ جمہوریت اور ملک کے نجات دہندہ ہیں اور راشیوں اور نااہلوں کی ڈھال بن کر ملک بچارہے ہیں۔ تین سال سے زیادہ وقت ضائع کرنے کے بعد اب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے اور اب موجودہ حکمرانوں کے خلاف کچھ باتیں کررہے ہیں۔ میرا مشورہ ان کو یہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انھیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاست داں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انھوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔
دیکھئے میں دراصل اس سال 28 مئی کے یوم تکبیر کے بارہ میں کچھ عرض کرنا چاہ رہا تھا۔ جس جوش و خروش سے عوام نے پورے ملک میں یہ جشن منایا وہ قابل دید تھا۔ دو تین دن پہلے سے ہی مجھے سیکڑوں ایس ایم ایس، ای میلز اور فون آنے لگے۔ نہ صرف پاکستان سے بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے بھی تہنیتی پیغامات کی بارش ہوتی رہی۔ پورے ملک میں لوگوں نے جلسے جلوس کئے اور ہم سب کو خراج تحسین کیا۔ سیکڑوں طلباء اور عوام میرے گھر پہونچ گئے اور پھولوں اور ہاروں کی بارش کردی۔ میں ایس ایم ایس کے جوابات دیتے دیتے تھک گیا اور فون کے جوابات کا بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔
ملک کے تمام ہی ٹی وی اسٹیشنز کے اینکر پرسنز نے فون کئے اور نشر ہوتے پروگراموں میں میرے تاثرآت لیئے۔ عام طور پر لوگ تھوڑے متفکر تھے کہ مغربی ممالک نے ہماری ایٹمی اثاثوں کے بارہ جو پروپیگنڈہ شروع کیا ہے اس میں کیا حقیقیت ہے۔ میں نے ان کو حقائق سے آگاہ کیا کہ ہمارے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہیں، ان کے اسٹوریج اور ان کی نگرانی کے انتظامات دنیا کے کسی ملک سے کم نہیں اور کوئی بھی دہشت گرد یا گروپ ان تک قطعی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ پچھلی صدی کی اَسّی کے عشرہ میں ہی جنرل ضیاء اور جنرل عارف نے نہایت اعلیٰ انتظام کیا تھا اور بعد میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے اس کو ٹھوس بنیادوں پر قائم کردیا۔ مشرف کی لغویات کے بر خلاف میں ان انتظامات سے پوری طرح واقف تھا اور میں نے ریٹائرمنٹ تک نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے کئی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مشرف نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد اس ادارے کی موجودگی کو مشتہر کردیا اور جنرل خالد احمد قدوائی کو ایس پی ڈی (اسٹریجک پلانز ڈویژن) کا ڈی جی اور این سی اے کا سکریٹری مقرر کردیا ۔ ایس پی ڈی نے اس سلسلہ میں قابل تحسین کام کیا ہے اور ہمارے تمام ایٹمی اثاثے نہایت محفوظ جگہوں پر اسٹور کئے گئے ہیں اور کسی دہشت گرد یا غیر ملکی گروہ کی وہاں پہونچ نا ممکن ہے۔
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے عوام بہت معصوم ، بہت بھولے اور بہت ہی مُحبّ وطن ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ہندوستان میں ہم ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل میں ہار گئے مگر جب ٹیم واپس آئی تو ہم نے ان کا ہیروز کی طرح استقبال کیا۔ حکومت نے ان پر نقد انعامات کی بارش کردی اور عوام نے ان کو پھولوں اور ہاروں سے ڈھانپ دیا۔ یہی کیفیت ہم نے ہاکی ٹیم کی آمدپر دیکھی۔ ہماری ہاکی ٹیم نے اَذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ ، ملیشیا میں نہایت اعلیٰ کھیل پیش کیا۔ ہم فائنل میں آسٹریلیا سے بدقسمتی سے ہار گئے مگر کھلاڑیوں کے استقبال کرنے والے عوام کا جوش و ولولہ قابل دید تھا۔ اسی طرح ایورسٹ کے فاتح کا والہانہ استقبال ،ٹینس کھلاڑیوں اور نسیم حمید اور ہمارے پہلوانوں کی اچھی کارکردگی کے بعد واپسی پر استقبال قابل دید واقعات ہیں۔ یہ قوم بھوک، بے روزگاری، مہنگائی، امن وقانون کے فقدان وغیرہ سب کو بالائے طاق رکھ کر باہر نکل آتی ہے اور اپنے دل و جان ان ہیروز کے قدموں میں ڈالدیتی ہے۔ ان معصوم عوام کی بہت ہی معصوم خواہشات ہوتی ہیں کہ کوئی پاکستانی ملک کی خدمت کرے، ملک کا نام روشن کرے۔ یہ اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پورے ملک میں یوم تکبیر جس جوش و خروش سے منایا گیا وہ قابل دید تھا۔ ٹی و ی پر اینکر پرسنز اور شرکاء سب نے ملک کی ایٹمی صلاحیت کو سراہا اور ہم سب کو سنہری الفاظ میں خراج تحسین کیا۔ البتہ ایک کڑوی، چلی کارتوس، شکست خوردہ اور کم تعلیمیافتہ سیاست دان نے (انھوں نے بھی ابھی ابھی کسی نہ کسی طرح بی۔اے کرکے سیاست و انتخاب میں حصّہ لیا تھا اور شکست کھائی تھی) بہت
احمقانہ باتیں کی تھیں اور لغویات کا سہارا لیا تھااور مستند اور مصدقہ دستاویزات اور حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ان کا اپنا کیریکٹر کچھ نمایاں نہیں ہے لوٹاگیری کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
اس ملک میں بدقسمتی دیکھئے کہ اتنی پیاری، اتنی معصوم قوم کو عیار سیاست داں اور حکمرں کسطرح بیوقوف بنا رہے ہیں۔یہ قوم ہر طرح کے عذاب (غربت، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی ، لوڈشیڈنگ، اشیائے خورو نوش کی نایابی) کے باوجود پاکستان پر فدا ہے۔ کوئی چھوٹی سی خواہش کا موقعہ ملتا ہے اور وہ دل و جان سے قربان ہوجاتی ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کی اکثریت نہایت بے حس، سخت دل اور بے رحم ہیں، وہ صرف لوٹ مار میں مشغول رہتے ہیں، نہ ہی ملک کے وقار، ملک کی عزّت یا عوام کی تکالیف، دُکھ درد سے قطعی بے تعلق ہیں یعنی بہرے گونگے اور اندھے ہیں یہ کچھ بھی نہیں سنتے، کچھ بھی نہیں (سچ) بولتے اور کچھ بھی نہیں دیکھتے لیکن یہ ڈالرنوٹ محسوس کرنے میں ماہر ہیں اور روپیہ اور ڈالر اور کاغذ اور ڈالر میں فوراً فرق محسوس کرلیتے ہیں۔ اور ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ اتنے پیارے اور معصوم، سیدھے سادھے عوام ان کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور روز ہی ان کے نت نئے ہتھکنڈوں کے شکار ہیں۔
آئیے آپ کو ایک نہایت ہی عزیز اور عالم عرب دوست کا ہمارے لیڈروں کے بارہ میں تجربہ بیان کرتا ہوں۔ یہ پاکستانی معاملات پر ماہر ہیں اور ہمارے ملک، عوام اور لیڈروں کو پاکستانی عوام کی اکثریت سے زیادہ جانتے ہیں۔ ایک روز میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کا ہمارے حکمرانوں کے بارہ میں کیا خیال ہے۔ میرا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں مگر میرے اصرار پر کہا کہ آپ کے اس سوال نے مجھے اپنے علاقہ کے ایک نہایت خوبصورت عام منظر کی یاد دلا دی ہے کہ ریگستان میں اونٹوں کی قطار جارہی ہے ایک کے پیچھے ایک، بہت ہی خوبصورت قافلہ، سب سے پچھلے اونٹ کی نکیل اگلے اونٹ کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور اسکی نکیل اس سے اگلے اونٹ کی دُم سے، اسطرح یہ سلسلہ جاری ہے مگر جب میں سب سے اگلے اونٹ کے پاس جاتا ہوں تو تعجب اور حیرت کا شکار ہوجاتا ہوں کہ اُس کی نکیل ایک گدھے کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ان کا لیڈر اور رہنما ہے۔ انھوں نے کہا مجھے آپ کے ہاں ہمیشہ یہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے تووہ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہیں جن کو ایک لاغر بوڑھا چرواہا بھی بہ آسانی ایک چھوٹی سی چھڑی سے خوفزدہ کرکر کے جدھر چاہتا ہے لیجاتا ہے اور وہ بلا چوں چراں اُس کا حکم مانتی ہیں۔
میں کافی دیر تک ان کے ماہرانہ اور نہایت مدبّرانہ تجزیہ کے بارے میں سوچتا رہا اور ان کی عقل و فہم کا قائل ہوگیا کہ واقعی ان کا تجزیہ بالکل درست اور حقائق پر مبنی تھا۔ انھوں نے سادہ سی مثال کے ذریعہ ہمارے ملک کی پوری سیاست و حالات کو ایک کوزہ میں بند کردیاتھا۔
مرزا اسد اللہ خان غالبٓ سے بڑا شاعر نہ ان سے پہلے پیدا ہوا تھا اور نہ آجتک ہوا ہے اور شاید ہی قیامت تک پیداہو۔ نہایت ہی مشکل اردو اور فارسی کلام کے ساتھ ساتھ آپ نہایت ہی سادہ مختصر شعروں میں کوزہ میں دریا بند کر دیتے تھے۔ ایک ایسا ہی شعر یہ ہے۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
آپ دیکھئے اس نہایت مختصر سادہ شعر میں غالبٓ ایک طرف تو اپنی کوتاہیوں (گناہوں) کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غالب تم کعبہ جانے کا ارادہ تو کر رہے ہومگر اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کو بھول رہے ہو کہ تم کس منھ سے خانہ کعبہ یعنی خانہ خدا جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کی جرأت کرو گے کیونکہ تم تو گناہ کار ہو اور تم کو تو ایسا سوچنے سے پہلے شرم آنی چاہئے۔
غالبٓ کا یہ نہایت سادہ مگر نہایت معنی خیز شعر اس لئے یاد آگیا کہ پچھلے چند دنوں سے ہمارے ملک کے ایک ممتاز انگریزی اخبار نے وکی لیکس سے حاصل شدہ وہ ٹیلیکس شائع کرنے شروع کردیئے ہیں جو اسلام آباد اور لاہور میں مقیم امریکی سفارتکاروں نے پاکستان کی سیاسی حالت اور پاکستانی لیڈروں سے ملاقاتوں کے بارے میں واشنگٹن میں اپنے دفتر خارجہ کو تفصیلات روانہ کی ہیں۔ یہ چند برسوں کی روئداد ہے اور اس کی صداقت پر شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ جوں کے توں شائع کردیئے گئے ہیں۔ ان میں امریکی سفیر اور امریکی سینئرافسروں کی پاکستانی قیادت اور پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتوں اور گفتگو کی تفصیلات درج ہیں۔ میں نے زیادہ توجہ صرف پاکستانی معاملات پر دی ہے اور خاص طور پر ان واقعات پر جن کا مجھ سے تعلق ہے۔
پہلے مشرف: اس بدکردار ڈکٹیٹر نے میرے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجھ سے جھوٹے وعدے کئے اور پھر مکر گیا۔ اب اشتہاری مجرم بنا بھاگا بھاگا پھر رہا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے ایک انٹرویو میں ایک صحافی کو اور پھر بلاخوف و خطر ٹی وی پر بیان دیا تھا کہ مشرف ان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتا تھا اور مجھے امریکہ کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ ایک مصدقہ جھوٹا شخص ایک نہایت نیک، شریف اور بہادر بلوچ پر غلط بیانی کا الزام لگا رہا تھا۔ جس طرح اس نے ایک فون پر پاکستان کی خودمختاری اور عزّت بیچ دی وہ سب کو معلوم ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے کہ ہماراملک تباہ ہوجاتا اور ہندوستان اور امریکہ حملہ کردیتے۔ نہ ہی ہماری زمین سے اور نہ ہی کسی پاکستانی شہری نے 9/11 کے قابل ملامت جرم میں حصّہ لیا تھا یا کسی طریقہ سے تعلق تھا۔ ہم ایک ایٹمی اور میزائل قوّت تھے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی تھی۔ کسی کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ حملہ کرے۔ ایران نے بھی تو سر نہیں جھکایا اور اس کے خلاف آج تک جارحیت کی جرأت نہیں ہوئی حالانکہ وہ ہمارے مقابلہ میں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ شخص جو ہمیشہ شیخی مارتا تھا کہ کمانڈو ہے بہادر ہے بے حد بزدل ہے ۔ اس نے پورے پیشہ ورانہ دور میں نہ ہی کبھی دشمن پر ایک گولی چلائی اور نہ ہی ایک گولی کا سامنا کیا۔ اکرام سہگل سے اس کی کہانی سُنئے۔
جہانتک میرا معاملہ تھا پاکستان نے نہ ہی این پی ٹی (نیوکلیر نان پرالیفریشن ٹریٹی) اور نہ ہی این ایس جی (نیوکلیر سپلائرز گروپ) کے معاہدوں پر دستخط کئے تھے اور ہم کسی مشاورت یا پابندی کے پابند نہیں تھے مگر ایک شخص نے ایک حکم پر پاکستان کو جو نقصان پہنچایا اس کا کبھی ازالہ نہیں ہوسکے گا۔ بات مجھے ملزم یا مجرم ظاہر کرنے کی نہ تھی اس سے میرے خلاف نہیں پاکستان کے خلاف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایف آئی آر کٹ گئی اور مغرب کو پاکستان کو بدنام کرنے کا ہتھیار مل گیا اور اس بدمعاشی اور برائی کا ذمّہ دار یہ بدکردار ڈکٹیٹر ہے۔ میں تو جلد یا بدیر چلا جاؤنگا مگر یہ پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجرم بنا گیا۔
مشرف کے ہٹنے (اور صدر بننے کے) کے بعد عوام کو پوری اُمید تھی کہ سیاسی حکومت مجھ پر مشرف کی غیر قانونی پابندیاں اُٹھالے گی مگر چند دن میں ظاہر ہوگیا کہ صرف نام اور چہرے بدلے تھے اور وہی بدمعاشی جاری رہی۔ مجبوراً میں نے کورٹ میں کیس کردیا۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ اس میں لاتعداد اور ضمیر فروش پیداہوتے رہتے ہیں۔ کہوٹہ کے رہائش پزیر (جہاں کی بار کے لیئے میں نے بہت سہولتیں مہیا کی تھیں) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے شاہ سے زیادہ وفاداری دکھائی اور ایک ’جھوٹا معاہدہ‘ میرے نام سے فیصلہ میں لگا کر مجھے مکمل طور پر مقیّد اور غیر فعال بنا دیا۔ میرے کئی خطوط اور درخواستوں کے باوجود اس نے قطعی دھیان نہ دیا اور ایک نہایت قابل افسوس فیصلہ دیدیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ سرکاری وکلاء اسکے چیمبر میں جا جا کر جھوٹ کا پلندہ سناتے تھے اور وہ اس کو اس لئے ہضم کررہاتھا کہ ریٹائرمنٹ کا وقت آرہا تھا اور حکومت کی خوشنودی حاصل کررہا تھا کہ سپریم کورٹ میں چلا جائے۔ اور وہ ڈوگر کی غیرقانونی کورٹ میں چلا بھی گیا مگر قدرت کا اپنا نظام ہے عدلیہ کی بحالی ہوئی اور وہ گھر چلا گیا۔ اس کیس کی تمام تفصیل کا وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے۔ آپ کو مزید تفصیل بتا تا ہوںآ پ کی آنکھیں کھل جائینگی۔ جب میرا کیس اسلام آباد کورٹ میں تھا تو میرے اور رحمان ملک کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں کبھی میرے گھر پر اور کبھی ان کے گھر پر۔ ایس ایم ظفر صاحب اور ان کے صاحبزادے بیرسٹر علی ظفر (جو میری وکالت کررہے تھے) کے ساتھ میں ان سے ان کے گھر پر ملا او ر ہم لذیز دال سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ حکومت عدالت میں میری آزادی پر کوئی مخالفت نہیں کرے گی اور جب عدالت فیصلہ دیدے گی تو وہ(رحمان ملک) اور ظفر صاحب پریس کانفرنس کرینگے اور بتلادینگے کہ چونکہ مشرف نے غیر مشروط معافی دیدی تھی اسکے بعد کسی بھی قسم کی نظر بندی اور پابندی غیر قانونی تھی۔ ظفر صاحب، علی ظفر اور میں نے یقین کرلیا حالانکہ میں رحمان ملک کو تقریباً پندرہ برس سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے خاندانی پس منظر سے بھی پوری طرح واقف ہوں۔ جب انھوں نے پیٹھ پیچھے سازش کی اور عدالت سے مجھ پر پابندیاں لگوائیں تو مجھے تعجب نہیں ہوا۔ پندرہ سال پیشتر یہ جب ایڈیشنل ڈی جی ، ایف آئی اے تھے اور میرے داماد اور اسکے بھائی (ایڈمرل ضمیر احمد مرحوم کے صاحبزادے) کو بلیک میل کررہے تھے تو میں نے جنرل عبدالوحید کاکڑ(جو میرے داماد کی والدہ کے عزیز ہیں) اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل نسیم رانا سے ان کا دماغ ٹھیک کرادیا تھا وہ یہ ابھی تک بھولے نہیں ہیں اور ان موجودہ ملاقاتوں میں اکثر اس ”غلط فہمی“ کا ذکر کرتے رہے۔ اب وکی لیکس کے کاغذات سے یہ ”راز“ فاش ہوا کہ رحمان ملک اور زرداری امریکی سفیر سے مسلسل وعدہ کررہے تھے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ مجھے غیرفعال اور مقیّد کردینگے۔ یہ سلوک اس شخص کے ساتھ جس نے ان کو سر اُٹھا کر عزّت سے چلنے کی صلاحیت دی اور بدقسمتی سے موجودہ عیش و عشرت مواقع فراہم کئے۔ وکی لیکس کے انکشافات سے صاف ظاہر ہے کہ سکریٹری داخلہ کمال شاہ فوراً امریکی سفیر کے دربار میں دست بستہ حاضر ہوا اور اس کی خدمت میں وہ عدالتی فیصلہ اور جعلی معاہدہ پیش کردیا۔ اس نام نہاد اور جھوٹے معاہدہ کی کاپی وزارت داخلہ نے ہمیں تین ماہ بعد دی اور پھر بیرسٹر علی ظفر نے لاہور ہائی کورٹ میں کیس کردیا۔ میری خوش قسمتی کہ خوددار اور باضمیر جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے (جو اب چیف جسٹس ہیں) نے پچھلے فیصلہ کو ختم کرکے مجھے ایک آزاد شہری قرار دیا اور تمام پابندیاں اُٹھادیں اور صرف حفاظتی انتظامات کا حکم دیا۔ جس کی آڑ میں ابھی بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔
یہی شرارت نہیں بلکہ وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق زرداری نے امریکی سفیر سے یہ بھی کہا کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو مجھے آئی اے ای اے کے حوالے کردیتے۔ اللہ سب سے بڑی طاقت ہے ، یہ جناب غالباً یہ کہتے وقت بھول گئے کہ ان کی بیگم نے بھی یہی کہا تھااور ان کا کیا ہوا اور اب یہ بھی اپنے مستقبل کے بارہ میں سوچیں۔ امریکنوں کا رویہ اپنے ایک قاتل ریمنڈ کے بارہ میں دیکھئے کہ اوبامہ سے لے کر کیری تک نے ہماری گردن پکڑلی اور ہمارے بے حس حکمرانوں کا رویہ میرے ساتھ دیکھئے۔
حقیقت یہ ہے کہ وکی لیکس کے جو انکشافات ہمارے حکمرانوں کے بارہ میں سامنے آتے ہیں اس سے سر شرم سے جھک گیا ہے۔ خود کو پاکستانی کہنے پر شرم آتی ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ اس سے بہتر کسی چھوٹے سے آزاد ملک کا باشندہ ہوتا۔ آپ یہ کاغذات پڑھیئے اس میں سیاسی اورعسکری افسران دونوں ہی کے کردار شرمناک نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ووٹ بیچنے پر تیار ہیں اور وزیر اعظم بننے کے لئے سب کچھ دینے کو تیار ہیں۔ امین فہیم شریف النفس انسان ہونے کے باوجود زرداری کی سازش و شرارت سے غمزدہ ہوکر امریکی مدد حاصل کرنے کے خواہشمندہیں۔ جنرل کیانی ذرائع ابلاغ پر پابندی کی جانب راغب ہیں۔ مشرف قومی اسمبلی توڑ کر اپنے دور حکومت کو ہر طرح کا طول دینے میں مشغول ہے اور امریکی مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں غیرت عنقا ہوگئی ہے۔ خودداری کا نام و نشان نہیں ہے جہاں بے غیرت غیرت مندوں کو بے غیرت بریگیڈ کے طعنے دیتے ہیں۔ یہ سب تو میر جعفر اور میر صادق کو شرمندہ کرکے بھگا دینگے۔ یہاں اس ملک میں بے غیرتی سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہر طبقہ میں یہ ناسور پھیل گیا ہے۔ اقلیتی فرقہ کا ایک شخص جس کو حالات نے پروفیسر کی کرسی پر بٹھا دیا تھا اس کو مسلسل تکلیف ہوتی رہتی ہے کہ ہم ای سیون میں رہتے ہیں۔اس کو یہ علم نہیں کہ ہم نے یہ گھر 1977 میں بنایا تھا۔ زمین ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں لی تھی، چھ لاکھ میں تعمیر کی تھی اور 15 سال یورپ میں رہ کر واپس آئے تھے اور اچھی بھلی رقم بنک کے ذریعہ ٹرانسفر کی تھی۔ مشرف آج تک ایک روپیہ کے خوردبرد کا نہ الزام لگا سکا اور نہ ہی ثبوت دے سکا۔ لیکن یہ شخص ہمیشہ ہمارے مکان کے بارے میں اعتراض کرتا رہتا ہے۔ اس سے پوچھیں کہ اپنے میدان میں اس نے کیا قابل فخر خدمات انجام دی ہیں۔
ایسے ہی خودغرض اور حکمرانوں اور نام نہاد دانشوروں نے اس ملک کو نہ صرف بدنام بلکہ تباہی کے مقام پر پہنچا دیا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ اگر یہ غالب کے دور میں ہوتے تو اس بے چارے کو مجبوراًیہ شعرکہنا پڑتا:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے لوگو؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ لوگ جو عوام کے آگے شرمندہ نہیں ہیں، بے ضمیر ہیں۔ ان کو اللہ کے سامنے جانے میں کیا شرم آئے گی۔ یہ تو ایسے کردار کے عادی ہوگئے ہیں۔ مگر یاد رکھیں تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوکر تاریخ میں نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ اور عوام ان کو میرجعفر، میرصادق اور شریف مکہ کی طرح یاد کرتے ہیں۔
کچھ دن پیشتر مجھے پنڈی سے جناب رؤف خان صاحب کا خلوص نامہ موصول ہوا تھا جس میں آپ نے مجھ سے درخواست کی تھی ذیابیطس ایک نہایت مہلک بیماری ہے اور پاکستان میں بہت سے افراد اس کے شکار ہیں اور اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں اسلئے اگر میں ایک مختصر سے مضمون میں اس اہم موضوع پر روشنی ڈالدوں تو میرے کالم اور ہمارے مشہور اور دلعزیز روزناموں ”جنگ“ اور ”نیوز“ کے ذریعہ لاتعداد افراد تک یہ معلومات پہنچ جائینگی اور وہ اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ میں میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہوں مگر میرے فیملی ڈاکٹرز سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی جنرل ریاض احمد چوہان اور ڈاکٹر سلیم قریشی، کے آر ایل میڈیکل سینٹر کے میڈیکل اسپیشلسٹ یقیناً اس بیماری سے اور اسکے علاج سے پوری طرح واقف ہیں۔ میں نے اس اہم موضوع پر ان سے رہنمائی حاصل کی اور پھر خود بھی تین اہم کتابوں (1) "Reader's Digest - Medical Question & Answr Book (1989)" (2) "The British Medical Associaton Complete Family Health Encyclopedia (1990)" اور جدید ترین (3) Wikipedia Online Encyclopedia کا مطالعہ کیا اور اس مہلک بیماری کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ جو معلومات میں نے حاصل کی ہیں وہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اس سے عوام ضروری معلومات حاصل کرلینگے۔ ڈاکٹروں سے معذرت خواہ ہوں کہ ان کے میدان میں کچھ کہنے کی گستاخی کی ہے۔
لفظ ذیابیطس یونانی لفظ Diabanein سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں، بہنے کے، نکل جانے کے، یہ اس وجہ سے استعمال کیا گیا کہ اس کا شمار بیماری کی وجہ سے بھاری مقدار میں پیشاب کا پیدا ہونا (بہنا) تھا۔ ذیابیطس کو میڈیکل زبان میں ”ذیابیطس میلی ٹس“ (Diabetes Mellitus) کہا جاتا ہے جس کے معنی میٹھے پیشاب کے ہیں۔ 1776 میں ڈاکٹر میتھیو ڈابسن نے اس بات کی تصدیق کی کہ پیشاب کی مٹھاس زیادہ چینی کی وجہ سے تھی۔ پرانے زمانے میں ذیابیطس یقیناً موت کا پروانہ ہوتا تھا مگر اس کے علاج کے لئے جدید ادویات کی موجودگی نے اب اس کو کنٹرول کرلیا ہے او ر اس بیماری کے مریض غذا میں احتیاط اور دواؤں کی مدد سے آرام دہ ، معمول کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
ہندوستان میں اس بیماری کا علم چھٹی صدی قبل مسیح میں تھا اور وید اور حکیم اس کا علم چیونٹیوں کے پیشاب کو چاٹنے سے کرلیتے تھے۔ لیکن صحیح سائنسی طریقہ پر اس کی تحقیق ہمارے اپنے حسین ابن عبداللہ ابن سینا نے گیارھویں صدی عیسوی کے اوائل میں کی اور اس پر نہایت مصدقہ مقالے اور کتاب بنام ”القانون فیِ الطب“ لکھی۔ اس میں اُنھوں نے بتلایا کہ اس بیماری کی وجہ سے مریض کو بے حد بھوک، پیاس لگتی ہے اور جنسی خواہشات ختم ہوجاتی ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی بتلایا کہ اس بیماری کی وجہ سے گینگرین یعنی بدن کے بعض حصّوں میں خون کا دورانیہ بند ہوجاتا ہے اور وہ حصّہ پھر سڑنے گلنے لگتا ہے اور اس کو کاٹنا پڑتا ہے۔ عموماً یہ ٹانگوں میں ہوتا ہے۔ اِبن سینا نے علاج کیلئے چند جڑی بوٹیوں کے مرکب کا استعمال بتایا جو بے حد مفید تھا اور جو جدید دور میں بھی زیر استعمال ہے۔ یہ دوائیں کافی حد تک پیشاب میں چینی کے اِخراج کو روکتی ہیں۔ ابن سینا نے مزیدذیابیطس کی اور اقسام کو معلوم کیا جس میں مریض بہت زیادہ پیشاب خارج کرتا ہے مگر اس میں چینی نہیں ہوتی۔
اگرچہ ذیابیطس کا علم صدیوں سے تھا لیکن 1889 ء میں دو جرمن ڈاکٹروں جوزف فن میرنگ اور آسکارمینکوسکی نے تجربہ کرکے دکھایا کہ اگر ایک کتے کا ”پین کریاس“ یعنی پتہ نکال دیا جائے تو وہ بہت جلد مرجاتا ہے۔ 1910 سرایڈوڈشارپی شیفر نے بتلایا کہ جو لوگ ذیابیطس کے مریض ہوتے ہیں ان کا پِتّہ ایک خاص کیمیائی رقیق پیدانہیں کرتا اور اُنھوں نے اس کا نام اِنسولین Insulin رکھا جس کے لاطینی زبان میں جزیرہ کے معنی ہیں اور اس سے ان کا اشارہ ان ”جزیروں“ کی جانب تھا جو پِتّہ میں ہوتے ہیں اور اِنسولین پیدا کرتے ہیں۔
اس بیماری کے علاج کی حقیقی تحقیق 1921 میں کینیڈا میں شروع ہوئی جہاں بینٹنگ،بیسٹ اور کولپ (Banting, Best, Collip) نے یہ ثابت کیا کہ وہ کتّوں میں نقلی طریقہ سے پیدا کردہ ذیابیطس کا تندرست کتّوں کے پِتّہ سے نکالی ہوئی اِنسولین سے علاج کرسکتے تھے۔ یہ اس مرض کے موثر علاج کی پہلی کامیاب دوا تھی اور مریض کو انجکشن سے دی جاسکتی تھی۔ 1923 میں بینٹنگ اور لیبارٹری کے ڈائرکٹر میکلائڈ کو اس ایجاد پر نوبل انعام دیا گیا جو اُنھوں نے اپنے ساتھیوں بیسٹ، کولپ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹ لیا۔ بیسٹ اور کولپ نے ایک نہایت ہی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرکے اِنسولین بنانے کا پیٹنٹ مفت دنیا کو پیش کردیا۔ جین ٹیک نامی امریکن کمپنی اب مصنوعی طریقہ سے انسانی اِنسولین کثیر مقدار میں بنا کر دنیا میں فروخت کرتی ہے۔
ذیابیطس کی اقسام:۔ ذیابیطس کی تین خاص قسمیں ہیں
(1) ٹائپ ایک ذیابیطس پِتّہ کی اِنسولین بنانے کی نہ قابلیت ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اور مریض کو باقاعدگی سے اِنسولین کے انجکشن لگوانا پڑتے ہیں۔(2) ٹائپ دو ذیابیطس ۔ اِنسولین کی صحیح طریقہ سے بدن کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے اور اس کے نتیجہ میں بعض اوقات بدن میں انسولین کی نایابی نتیجہ نکلتا ہے۔ مریض کے ابتدائی دور میں اس مرض کا علاج بہ آسانی گولیاں کھا کر کیا جاسکتا ہے۔(3) ٹائپ تین ذیابیطس۔ یہ حاملہ خواتین میں ہوجاتی ہے جبکہ اس کے پہلے سے کوئی اثرات نظر نہیں آتے اور یہ بڑھ کر بعد میں ٹائپ دو قسم کی ذیابیطس بن سکتی ہے۔
ان کے علاوہ اور کئی قسم کی ذیابیطس بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں جو جینیات کے نقائص اور اِنسولین کی کم مقدار میں پیدائش اور اسٹیرائڈ یعنی ہارمون والی دوائیں کھانے سے بھی ہوجاتی ہیں۔
ذیابیطس ہونے کے اَسباب: جس قسم کی ذیابیطس ہو اس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ (1) پہلی قسم کی ذیابیطس کچھ تو وراثت میں ملتی ہے اور پھر کسی انفیکشن (چھُوت) سے اچانک زور پکڑ لیتی ہے۔ انفرادی طور پر بعض افراد میں جنیاتی حساسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ بیماری شروع ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ان لوگوں میں جن میں وراثتی حساسی ہوتی ہے ان میں بھی اس بیماری کے شروع ہونے کے لیئے ماحولیاتی اثرات ایک رول ادا کرتے ہیں (2) ذیابیطس دو عموماً ہماری طرز زندگی اور جنیاتی اثرات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگرچہ شروع میں اِنسولین کی پیداوار کم نہیں ہوتی مگر مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی اور گلوکوز کو تامیاتی جز یعنی Cells میں پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور اس طرح طاقت یاقوّت پیدا نہیں ہوپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی ذیابیطس کا ابتدا میں منھ سے کھانے والی گولیوں سے علاج کیا جاتا ہے جو اِنسولین کو حسّاس یا متحرک کردیتی ہیں۔ اگرچہ جنیاتی اور ماحولیاتی اثرات اس بیماری کے شروع ہونے میں خاص کردار ادا کرتے ہیں لیکن خاص امراضیات (Pathology) کی وجہ بدن کے چربی کے پٹھوں میں، جگر میں، گردوں میں، آنتوں میں اور مغز میں ناقص عمل ہوتا ہے جس سے جز و بدن بنتا ہے اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔
ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار:۔ ذیابیطس میلی ٹس ایک تسلسل والی یعنی کرونیکل بیماری ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے۔ صرف چند انتہائی مخصوص حالات میں اس کا علاج ممکن ہے۔ علاج کا طریقہ کار یعنی کنٹرول کرنے کیلئے چینی کے لیول کو نارمل لیول پر رکھنے کیلئے سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ شکر یا چینی کا لیول بہت کم نہ ہوجائے جسکی وجہ سے اِنسولین شاک یعنی" Hypoglycemia " ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سر میں سخت درد، سر چکرانا، کمزوری اور لڑکھڑانا، دل متلانا، وغیرہ جیسے اثرات فوراًنمایاں ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے اور بینائی میں دُھند آنے لگتی ہے۔ (جاری ہے)
مریض کو تیزی سے پسینہ آنا شروع ہوجاتا ہے، وہ چلنے کے قابل نہیں رہتا اور ہوش و حواس کھودیتا ہے۔ شدید حملہ کے نتیجہ میں مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اور مربھی جاتا ہے۔ اسی حالت میں بہت تیزی سے مریض کو چینی دینے سے حالات پر قابوپایا جاسکتا ہے۔ کوئی میٹھی چیز کھانے، فروٹ جوس یا سیون اپ اور کولا پینے سے فوراً افاقہ ہوجاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیئے مناسب ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ چاکلیٹ یا کوئی اور میٹھی چیز رکھیں تاکہ اس کو بوقت ایمرجنسی استعمال کرسکیں۔
ذیابیطس ٹائپ ایک کے مریضوں کو زندگی بھر روزانہ انسولین کے انجکشن لگانا پڑتے ہیں۔ اُنھیں اپنی خوراک کے بارے میں بھی بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور باقاعدگی سے اپنے پیشاب اور خون میں چینی کی مقدار کو ٹسٹ کرنا لازمی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ دو کے مریض اپنے مرض کو بغیر انجکشن کے کنٹرول سکتے ہیں۔ ان کو بھی خوراک کے چناؤ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ مریض کو اپنے وزن کے بارے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کم وزن کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بدن کی نسیں انسولین کے لیئے پھر حساس ہوجاتی ہے۔ ابتدا میں اس بیماری کو گولیاں کھاکر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یہ گولیاں سلفاڈرگرز سے تعلق رکھتی ہیں اور سلفونائل یوریاز کہلاتی ہیں۔ میٹ فارمن بھی اکثرڈاکٹرعلاج کیلئے تجویزکرتے ہیں۔ مریض اگر اپنے وزن اورخوراک اور چینی کے استعمال پر کنٹرول رکھیں تو عام انسانوں کی طرح آرام دہ زندگی گزارسکتے ہیں۔ اگرچہ چینی کے استعمال پر ہمیشہ سخت کنٹرول کی ضرورت ہے مگر جب یہ مرض قابو سے باہر ہونے لگے یا پیچیدگیاں شروع ہوجائیں تو پھر بہت ضرورت ہے کہ انسان ٹینشن سے سخت اجتناب کرے۔ کولسٹرال کی مقدار کو کم کرے۔ تمباکو کے استعمال کو بند کردے۔ موٹاپے کو، خاص کر پیٹ وکمر کے گرد، کم کرے۔ ذیابیطس کے مریض عموماً سینہ میں درد کو محسوس نہیں کرتے اس لیئے ان پر دل کے حملہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ مختصراً یہ چیزیں مرض کو کنٹرول کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
اہم عام معلومات: ذیابیطس بالغوں میں نابینائی کی ابتدا اور گردوں کے خراب ہونے کی خاص وجہ ہے۔ اس سے دل کے دورے پڑنے اور اعضاء کے کاٹے جانے کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ معتبر اعداد و شمار نہیں ہیں اسلئے صحیح اندازہ مشکل ہے مگر پھر بھی اندازہ کے مطابق تقریباً دس فیصد بالغ آبادی اس مہلک مرض کی شکار ہے۔ چینی کے کم استعمال، سبزیاں، دالیں وغیرہ کھانے سے چینی کے لیول پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ نمک کم کھانے سے بلڈ پریشر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور وزن میں اضافہ کو روکا جاسکتا ہے۔ ٹینشن سے خود کو محفوظ رکھ کر بہت سی بیماریوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
اگرچہ ذیابیطس پوری دنیا میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے مگر ہمارے ملک میں یہ مغربی ممالک کے برخلاف نوجوان طبقہ میں موجود ہے۔ مغربی ممالک میں یہ بیماری بوڑھوں میں زیادہ موجود ہوتی ہے۔ یہ وبا یا مرض ہمارے ملک میں اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہم دنیا میں چوتھے نمبر پر شمار ہوتے ہیں اس کی خاص وجہ ہماری کم نقل و حرکت و ورزش اور کھانے کی عادات ہیں۔
یہ بہت اہم ہے کہ عوام بہت زیادہ پیاس، بھوک، پیشاب کا اخراج اور وزن میں کمی دیکھیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں کہ یہ اس بیماری کی خاص علامات ہیں۔ اس کے علاوہ بدن میں زخم اور پھوڑے بھی اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر گردے کی بیماری کا علم ہو اور آنکھ میں موتیا ہو تو بھی فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور اس کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا جائے اور باقاعدگی سے دوا لی جائے ۔ پیروں میں نہ ٹھیک ہونے والے زخم ایک بڑا خطرہ ہوتے ہیں اور عموماً اس کا نتیجہ پیر کے کاٹے جانے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ طویل المیعاد ذیابیطس کی وجہ سے پاؤں اور ہاتھ میں خون کی شریانوں میں نقصان کی وجہ سے احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اگریہ اثرات نظر آئیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔ نہایت دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جو بچّے ماں کے دودھ پر پرورش پاتے ہیں ان کو ذیابیطس کے خطرات بہت کم ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوگ اکثر کلونجی، بادام اور دارچینی سے اس مرض کا علاج بتاتے ہیں لیکن کوئی مصدقہ اعداد وشمار اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ بعض جام کا پھل اور دوسرے تازہ کریلے کا جوس چینی کو فوراً کم کرنے کا اچھا علاج بتلاتے ہیں۔ لیکن سب سے معتبر طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایت و دوا پر عمل کریں۔
انقلاب کی بات بعد میں کروں گاسب سے پہلے صحافت کے جہاد اور فتح کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سب کو علم ہے کہ پچھلی فوجی اور سول حکومتیں ہمیشہ آزاد صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ بعض اوقات اُنہیں کامیابی بھی ہوئی مگر عموماً وہ اس مذموم کوشش میں بُری طرح ناکام رہے۔ موجودہ دور کا سب سے شرمناک واقعہ حکومت کی جانب سے جیو سوپر پر پابندی لگانا اور جنگ گروپ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا تھا۔ آزادی صحافت کے بڑے بڑے نعرے لگانے والے حکمرانوں نے جنگ گروپ کو کروڑوں روپیہ کا نقصان پہنچایا اور اس وہم میں مبتلا رہے کہ وہ ادارے کو تباہ کرکے میر شکیل الرحمن صاحب کو سرنگوں کرلیں گے۔ وہ یہ بھول گئے کہ اس سے پیشتر کئی مرتبہ ایسی مذموم کوشش نہ صرف ان کے جلیل القدر والد جناب میر خلیل الرحمن کے خلاف بھی ناکام رہی تھیں بلکہ میر شکیل الرحمن صاحب کو بھی یہ نہ جھکا سکے اور نہ خرید سکے۔ کہاوت ہے کہ ایک سیب اپنی جڑ سے دور نہیں گرتایعنی والد کا اعلیٰ کردار اولاد میں ضرور آتا ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ مرحوم میر خلیل الرحمن صاحب اور میر شکیل الرحمن کی شخصیات ایک مضبوط سیدھے توانا ستون کی طرح ہیں جن کو توڑا تو جاسکتا ہے موڑا یا جھکایا نہیں جاسکتا۔ میر شکیل الرحمن صاحب کو خریدنے یا رام کرنے کے دوبئی میں تمام حربے بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ جنگ اخبار اور نیوز بازار سے چند روپوں میں خریدے جاسکتے ہیں میر شکیل الرحمن کو اربوں میں خریدا نہیں جاسکتا۔ جب ان کو خریدا نہ جاسکا تو پھر ان کو مالی طور پر تباہ کرنے کی مذموم حرکت کی گئی۔ مجھے دوبئی میں ہونے والے تمام واقعات کا پورا علم ہے اور کسی کالم میں اس کا انکشاف کروں گا۔ عوام کی اور عدلیہ کی مدد سے حکمرانوں کی مذموم کوشش کو ناکام کردیا۔ مگر آپ یہ سمجھیں کہ یہ ایسی حرکتوں سے باز آئیں گے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی تو میں نے ایک بار لکھا تھا۔
شکستیں کھاتے جاتے ہیں
مقابل آتے جاتے ہیں!
آئیے اب کچھ انقلاب اور اس کی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں پاکستان میں انقلاب کی فوری ضرورت کے بارے میں لکھا ہے۔ دنیا میں آنے والے انقلابات کی مثالیں پیش کیں کہ کس طرح فرانس، روس، چین ، ایران کے عام، نہتے اور باعزّت، باہمّت عوام نے صدیوں سے قائم ظالمانہ نظام حکومت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ بے مثال قربانیاں دے کر اپنے حقوق منوائے اور عوامی حکومتیں قائم کیں۔ ان انقلابات کے رہنما نہ سرمایہ دار، نہ ہی فوجی سربراہ تھے اور نہ ہی پہلے سے حکمراں رہے تھے۔ اسی لئے میں نے اپنے بہت سے لوگوں کو بے نقاب کیا تھا جو چیخ چیخ کر انقلاب کے نعرے لگارہے تھے۔ آپ اس حوالے سے خصوصاً میرے کالم ”انقلاب“، ”انقلاب۔نام وحقیقت“ اور ”سُنو اے ساکِنانِ خاک و ہستی“ پڑھ سکتے ہیں۔
دیکھئے پاکستان کے حالات جس تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور پوری دنیا میں ہم جس قدر ذلیل و خوار ہوچکے ہیں اور بھکاری کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ان کو دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی سخت پریشان و نالاں ہے اورمیں بھی اب خاموش نہیں رہ سکتا۔
دیکھئے کہ خاموشی کا مطلب اس لعنت میں شریک کار ہونے کے برابر ہے۔ احکام اِلٰہی، احادیث، اقوالِ خلفائے راشدین سب یہی بتاتے ہیں کہ برائی کو نہ روکنا برائی میں شریک ہونے کے برابر ہے۔ میں نے پاکستان بنتے دیکھاہے ۔ میں نے بھوپال میں پاکستان بننے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔میں نے شہیدوں سے بھری ریل گاڑیاں بھوپال آتے اور ان کی تدفین ہوتے دیکھی ہے۔ میں نے ننگے پاؤں گرم ریت پر میلوں چل کر پاکستان میں قدم رکھا ہے۔ میں نے اس کو دولخت ہوتے دیکھا ہے جو جاہل اور نااہل ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا۔ ہم نے دنیا کی تمام آسائش اور تابناک مستقبل کو ٹھکرا کر یہاں آکر نہایت ہی بُرے تکلیف دہ حالات میں ملک کی خدمت کی اور اس پسماندہ ملک کو نہایت مختصر عرصہ میں ایک ایٹمی اور میزائل قوّت بناکر سر اُٹھا کر باوقار طریقہ سے چلنے اور رہنے کے قابل بنادیا۔ اب میں کیسے ملک کو تباہ ہوتے دیکھ کر خاموش تماشائی بن کر بیٹھ سکتاہوں؟ اب میں قلم سے تلوار کا کام لوں گا اور اگر میرے علم اور میرے ملک نے 1976 کی طرح مجھے دوبارہ آواز دی تو لبیک کہوں گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے علم ، عقل، فہم اور تجربہ دیا ہے اور میں اس ملک کی بہتری کے لئے بہت کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں میرے پرانے دوست اور ساتھی ابھی بھی اُن ہی جذبات سے پُر ہیں جن سے اُنہوں نے میرے ساتھ مل کر اس ملک کی ناقابل یقین خدمت کی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ جب اس مغرور، پرویز مشرف نے اس ملک سے راہ فرار اختیار کی اور ملک کو امریکی غلامی میں چھوڑا تو حالات بہت جلد بہتر کئے جاسکتے تھے مگر موجودہ حکمراں اس سے زیادہ نااہل، راشی اور خود غرض نکلے اور امریکی غلامی میں تمام حدود پار کرلیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں اپنی روایاتی اٹالین ایکٹر کے طرز کی ہاتھ ہلا ہلا کر اداکاری کی اور چیلنج کیا کہ ”ہم سے بہتر کوئی حکمرانی نہیں کرسکتا اگر کوئی ہے تو سامنے آئے“ تو میں نے گیلانی کا چیلنج قبول کرلیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے نظام حکومت دو اور دو سال بعد بین الاقوامی سطح پر جیوری بنا کر فیصلہ کرالو کہ تم نے تین سال میں جو کام کیا اس کے مقابلے میں جو کام میں نے کیا اس میں کس کا کام اور کارکردگی بہتر ہے۔ اس چیلنج سے گیلانی اور حکومت کو سانپ سونگھ گیا اور پھر میں نے کبھی یہ چیلنج نہیں سُنا۔ اس وقت ملک جس بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی، رشوت ستانی، اقرباء پروری اور بدانتظامی کا شکار ہے ،ہم کیسے چپ بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔جب یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو 1947 کے واقعات، قربانیاں، قتل و غارتگری، لاشیں ،خون کے دریا آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔
ان واقعات سے زیادہ تکلیف دہ مناظر یہ ہیں کہ آٹا، چینی اور پانی کی ضروریات کے لئے مطالبہ کرنے والوں پر بے دردی سے لاٹھیاں، جوتے اور لاتیں برسائی جاتی ہیں۔ عوام بھوکے مررہے ہیں خودکشی جیسے حرام عمل پر اب ذرا نہیں ہچکچاتے۔ امن و امان قائم کرنے والے ادارے قاتل بن گئے ہیں، خروٹ آباد اور کراچی کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ میں نے جن مشکل حالات اور اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرکے اپنے محب وطن ساتھیوں کے ساتھ اس ملک کو اس لئے تو ایٹمی اور میزائل قوت نہیں بنایا تھا کہ اس کی آڑ میں ڈاکو، چور، لٹیرے، راشی یہاں عیاشی کریں اور عوام کا خون چوس لیں۔ ان کو روٹی، کپڑا اور مکان کے بدلے گھاس، کفن اور قبر دیدیں۔ بجائے اس کے کہ میری صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا ایک غاصب ڈکٹیٹر مشرف نے مجھے جھوٹے وعدے کرنے کے بعد نظر بند کردیا اور لاتعداد مظالم ڈھائے ۔ اس نے درجنوں صحافیوں، ایڈیٹروں کے سامنے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں ایک بالکل شہری کی زندگی گزاروں گا اور یہ بیان بار بار ٹی وی پر بھی دوہرا یا اور کہا کہ صرف پاکستان سے باہر جانے کے لئے این او سی لینا ہوگا۔ ان وعدوں کے بعد ایک قاتل کی طرح مجھ پر پابندیاں لگادیں اور اب وکی لیکس کے کاغذات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ امریکنوں کو یقین دہانیاں کراتا رہا کہ مجھے ہرگز آزادی سے زندگی نہیں گزارنے دے گا۔ یہ منافقت کی انتہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے منافقت کی سزا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسرے منافقین بھی انشاء اللہ جہنم رسید ہوں گے اور اپنے کئے کی سزا ضرور پائیں گے۔دیکھئے موجودہ سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں سے اس ملک کی بہتری کی کوئی اُمید نہیں۔ جب مشرف اور اس کے حواریوں اور امریکہ کے موجودہ غلاموں نے میرے ساتھ نفرت انگیز رویہ اور سلوک جاری رکھا،اس وقت بھی ان لوگوں نے بھول جانے اور ماضی کا قصّہ جان کر نظر انداز کرنے پر اتفاق کیا، ہاں میرا نام اور میرا خط الیکشن میں خوب استعمال کیا گیا اور اب بھی کچھ لوگ استعمال کر رہے ہیں مگر صد افسوس کسی نے یہ نہیں سوچا کہ میں اس ملک کی کتنی مزید خدمت کرسکتا تھا اور کرسکتا ہوں۔
میں نے 2001 میں کہوٹہ سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنے قبائلی علاقوں کی ترقی اور فلاح وبہبود کا پروگرام بنایا ۔ میں نے تفصیلی خط مشرف کو لکھا تھا کہ میں وہاں فنّی اسکول قائم کروں گا، وہاں بچّوں کے لئے ہاسٹل بناؤں گا اور بچوں کو مذہبی انتہا پرستی اور دہشت گردی سے دور کردوں گا مگر اس کند ذہن امریکی غلام نے اس تجویز کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور اس تجویزکا جواب تک نہیں دیا حالانکہ اس کام کے لئے ہمیں کثیر بیرونی امداد مل سکتی تھی۔ میں نے جنرل ضیاء کو اَسّی کے اَوائل میں آٹو موبائل انڈسٹری لگانے کا مشورہ دیا اور اسکی نگرانی کے لئے خدمات پیش کیں مگر بے سود، پیپلز اسٹیل مل بھٹو صاحب نے سرکاری تحویل میں لے لیا تھا،بعد میں وہ اسکریپ میں بیچا جارہا تھا میں نے بمشکل حکومت سے اپنی نگرانی میں لے کر اپنے ادارے کے چند قابل انجینئروں کی مدد سے اس کو مکمل بحال کیا اور وہ اب ایک اعلیٰ ادارہ ہے اور اعلیٰ قسم کے لوہے تیار کررہا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہمیشہ سے غیرملکی حکمرانوں کے ایجنڈوں پر کام کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ پھر یہ ملک کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ، گیس لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، مہنگائی وغیرہ پر بہت آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے مگر اپنے مفاد سے فرصت ملے تو اِدھر دھیان دیں۔ آپ نے دیکھ لیا نیشنل انشورنس کارپوریشن کے اسکینڈل کتنے فرشہ خصلت و صورت انسانوں نے ناجائز طریق سے بھاری رقوم بطور ”فضل ربی“ قبول کرلی اور ذرا بھی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔
کیا ہم ملک کو اس طرح تباہ ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی بن سکتے ہیں، کیا ہمارا مذہب ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ میں نے اپنے چند کالموں میں آپ کو، خاص کر نوجوان طبقہ کو پُرامن انقلاب لانے کی دعوت دی ہے۔ میں نے نوجوانوں سے کہا تھا کہ بھیڑبکری کی طرح خود کو چرواہے کے حوالے نہ کرو کہ وہ تمہیں چراہ گاہ کے بجائے مذبح خانہ لے جائیگا اور پھر ’ تمھاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔ مجھے خوشی ہے کہ لاتعداد نوجوانوں کو ملک کی زبوں حالی اور خطرناک مستقبل کا احساس ہوگیا ہے اور وہ آگے آرہے ہیں۔ اس کام میں ایک انقلابی نوجوان ،جنگ کاکالم نگاربہاولپورکی سرزمین سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ علی مسعود سیّد ہے۔ اس نے بہت سے نوجوانوں، بزرگوں دانشوروں، صحافیوں، طلبا، تاجروں، صنعت کاروں کو اس نیک اور اہم کام میں شامل کرلیا ہے۔ اس کا فون نمبر 0300-4280845 اور ای میل و فیس بک کے لئے یہ ایڈریس نوٹ کرلیں alimasoodsyed@gmail.com ۔ تمام محبان پاکستان اور پاکستان میں عوامی انقلاب کے ہمدرد اس نوجوان سے رابطہ قائم کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر پُر امن انقلاب کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔
یوں تو ہمارے پیارے ملک کی محبت میں کئی شعراء نے نہایت خوبصورت نغمے لکھے ہیں لیکن جو نغمہ دل کو ہلا دیتا ہے اور تیر کی طرح لگتا ہے وہ کلیم عثمانی کا نغمہ ہے جس کو نہایت خوبصورت انداز میں ہمارے بلبل پاکستان مہدی حسن نے گایا ہے۔ جب بھی میں یہ مصرع سنتا ہوں
یہ وطن تمھارا ہے ۔ تم ہو پاسبان اس کے تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایک اور نغمہ جو اسی قسم کی کیفیت طاری کرتا ہے وہ کرم حیدری کا ہے:
اے وطن ، پیارے وطن
جس کو مرحوم استاد امانت علی خان نے بہت ہی سریلی آواز میں گایا ہے۔ یہ دونوں نغمات آپ کو مَسحور کردیتے ہیں۔ دونوں میں وطن سے محبت کا جذبہ پھوٹ پھوٹ کر ٹپکتا ہے۔ آپ کو اپنے پیارے وطن سے بے ساختہ محبت ہونے لگتی ہے۔ میں جب بھی یہ نغمہ جات سنتا ہوں تو سب کام چھوڑ کر آنکھیں بند کرکے اپنے پیارے وطن اور اسکو اللہ تعلی کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں کے بارہ میں سوچنے لگتا ہوں پھر دل درد سے دُکھنے لگتا ہے کہ ہم نے یعنی ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ان نعمتوں کو کسطرح لعنتوں میں تبدیل کردیا ہے اور عوام کو جیتے جی جہنم کے عذاب سے روشناس کرادیا ہے۔
دیکھئے کالم کے عنوان سے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا مطلب ہماری افواج بلکہ خاص طور پر فوج کے بارے میں ہے۔ آجکل سیاست دانوں ، حکمرانوں اور بعض صحافی حضرات نے ہماری فوج کے خلاف ایک’ جہاد‘ شروع کیا ہوا ہے اور کچھ سیاستداں جو اسی فوج کے پروردہ ہیں یا اس کے سایہ میں آج عیاشی کررہے ہیں اس پر گندے اور ناجائز الزامات لگارہے ہیں اور بدنام کررہے ہیں۔ اور وہ چند اشخاص کے غلط اور خود غرضانہ اِقدامات کو پوری فوج کا عمل قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ مجھ سے زیادہ فوج کو اور فوجی افسران کو شاید ہی کوئی غیر فوجی جانتا ہوگا اور مجھ سے اور میرے خاندان سے زیادہ شاید ہی کوئی ان کی نمک حرامی اور احسان فراموشی کا شکار رہا ہوگا مگر ہمیں یہاں چند بدمعاش اور خود غرض افسران کے اعمال اور لاکھوں محبان، پاسبان وطن نوجوانوں اور ا فسران کی حب الوطنی اور دی ہوئی قربانیوں اور قربانیوں کے لئے تیار رہنے والوں میں فرق کرنا چاہئے۔ آپ ایوب خان، ضیاء الحق اور سب سے بدتر مشرف کے کردار کو لاکھوں محبان، پاسبانِ پاکستان کے کردار کے ناپ کا پیمانہ نہ بنائیں۔ مجھے پورااحساس ہے کہ ڈرون حملوں، ایبٹ آباد، مہران نیول بیس کراچی،گمشدہ افراد کا معاملہ اور بے صبرے رینجرز کی قتل و غارتگری نے عوام کے اعتماد کو ہلا دیاہے اور بہت بڑا دھچکہ دیا ہے اور وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا ہم جو بھوکے رہ کر اور اربوں روپیہ ان پر خرچ کرتے ہیں وہ بیکار ہی گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں فوج اور آئی ایس آئی پر سخت تنقید کرنے لگے ہیں۔ مگر بعض اوقات ہر ملک اور ہر فوج کے ساتھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں۔ چند لوگ جو اس وقت عَلم بردار ہیں یا تو ڈکٹیٹروں کی باقیات ہیں اور کچھ اسی فوج کے زیر سایہ عیّاشی میں مصروف ہیں اور یہ دولت کے انبار جمع کررہے ہیں۔
جیسا کہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں کہ عوام پوری فوج کو تختہ نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ فوج میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد ہیں اور سو دو سو خود غرض، بدکردار اور بَد دماغ افسران کی کارکردگی کو ہمیں ان کو جانچنے کا پیمانہ نہیں بنا نا چاہئے بلکہ ہمیں سمجھداری سے دونوں کے کرداروں کا موازنہ کرنا چاہئے اور اسی مناسبت سے ردعمل کا اظہارکرنا چاہئے۔ اور ہمیشہ ان ہزاروں جوانوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اور جانیں دینے کو تیار رہ کر آزاد قوم اور باعزّت شہریوں کی طرح رہنے کے قابل بنایا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے ہر ملک میں، ہر قوم میں ، ہر فوج میں کچھ ناگوار واقعات پیش آتے ہیں اور پوری دنیا میں خفیہ ادارے کچھ نہ کچھ زیادتیاں کرتے رہتے ہیں فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک میں ایسی زیادتیوں کو فوراً اجاگر کردیا جاتا ہے اور مجرموں کو سخت سزا دی جاتی ہے۔ ہم نے ایسے قابل نفرت اور قابل اعتراض واقعات بوسنیا، چیشنیا، عراق، افغانستان اور ابھی لیبیا اور سوڈان میں دیکھے ہیں۔ جب میں اپنے محب وطن، محافظ وطن بے چارے فوجیوں کو دیکھتا ہوں کہ کس طرح ہر مصیبت ان پر نازل ہورہی ہے تو مشہور فارسی شاعر انوری# کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
ہَر بلائے کزِ آسماں اُفتد
خانہٴ اَنوری# رامی پُرسَد
انوری# پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا ہوا تھا اور اس وجہ سے اس بے چارے کو کہنا پڑا تھا کہ جو مصیبت آسمان سے آتی ہے وہ انوری# کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے اور وہاں پہونچ جاتی ہے بس یہی حال افواج پاکستان کا ہے۔ ہر بُرائی ان کے حصّہ میں ڈالدی جاتی ہے۔
جنوری 1976 میں بھٹو صاحب کی درخواست پر میں اور میری بیگم اور دو پچیاں ہالینڈ میں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان میں رُک گئے اور وہاں نہایت اعلیٰ ملازمت اور روشن مستقبل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہدیا اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ کہوٹہ کے قَیام، ایٹم بم اور میزائل وغیرہ کی تیاری اب ہمارے ملک کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ یہاں میں آپ کو فوجی افسران سے میرے تعلقات ، رابطے اور ان کی حب الوطنی کے واقعات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔اپنے نہایت محب وطن اور قابل ساتھیوں کی مدد سے ہم نے بہت ہی کم عرصہ میں اس پسماندہ ملک کو ایٹمی اور میزائل قوّت بنا دیا۔ ہم نے بمشکل تین سو ملین ڈالر پورے پروگرام پر صرف کئے تھے۔ ہم نے اس خطہ کی اہمیت کو بدل دیا اور مغربی ممالک کا خواب کہ پاکستان اب ہندوستان کے زیر سایہ رہے گا خاک میں ملا دیا تھا۔ بھٹو صاحب کی ہدایت پر میرا سب سے پہلے رابطہ جنرل ٹکا خان سے ہوا وہ اس وقت فوج کے سربراہ تھے، سیدھے سادھے سپاہی، بہت ہی خلوص ومحبت سے ملے اور مجھے فوج کی جانب سے تمام سہولتیں میسر کرنے کا وعدہ کیا اور اپنے ایم ایس برگیڈیر فقیر (فقیرا) کو اس سلسلہ میں ہدایات دیدیں کہ وہ CGS کوہدایات دیدیں۔ کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء فوج کے سربراہ مقرر ہوئے اور بھٹو صاحب سے ہماری میٹنگز میں وہ شامل ہونے لگے۔ میری درخواست پر اُنھوں نے برگیڈیر زاہد علی اکبر خان (بعد میں لیفٹنٹ جنرل، کورکمانڈر راولپنڈی) اور چند دوسرے انجینئروں کو میرے پاس متعین کردیا۔ یقین کیجئے یہ اس قدر خوشگوار تجربہ تھا میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ پروجیکٹ میں زیادہ سے زیادہ فوجی بھرتی کرلوں۔ میں نے سوچا کہ خواہ مشرقی پاکستان ہو یا اس سے پہلے 1965 جنگ ہوں ہمیشہ یہی لوگ جان دینے میں سب سے آگے تھے، پھر یہ کہ خواہ کشمیر کی برف پوش پہاڑیاں، یا چولستان یا تھر کاریگستان یا سیاچین کی فلک بوس قاتل پہاڑیاں ہمارے نوجوان ایک لفظِ شکایت لائے بغیر خدمات انجام دیتے ہیں، نہ وہاں بجلی، نہ گیس، نہ آرام دہ بستر اور نہ ہی والدین، اہل و عیال کی قربت پھر بھی چہرہ پر مسکراہٹ اور جان دینے پر آمادہ، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر میں نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اپنے ادارہ میں بھرتی کرنا شروع کئے۔ جب جنرل ضیاء نے حکومت سنبھالی اور کہوٹہ آئے تو دیکھتے ہی بولے ڈاکٹر صاحب یہ تو فوجی ادارہ اور گیریزن معلوم ہوتی ہے۔ میں نے مذاقاً کہا کہ سر یہ آپ کا ہی ادارہ ہے ہم سائنسدان اور انجینئر تو مہمان ہیں کام ختم ہوگیا تو حوالے کرکے چلے جائینگے اور میری ریٹائرمنٹ کے بعدیہ ہی ہوا۔ اُس وقت میرے پا س تین ہزار کا اسٹاف تھا جس میں سے سترہ سو سے زیادہ فوجی تھے۔ میں نے نہ صرف ایڈمنسٹریشن، بلکہ میڈیکل، ٹرانسپورٹ، خریداری، سیکیورٹی وغیرہ کے تمام محکمہ جات میں فوجی تعنیات کئے اس کے علاوہ تمام تعمیراتی کام بھی فوجیوں کے حوالے کردیا۔ مجھے آج بھی ان افسران کی کارکردگی اور حب الوطنی یاد ہے اور اس پر فخر ہے۔ میرے کچھ غیر فوجی رفقائے کار اس بات سے خوش نہ تھے کہ میں فوجیوں کو ادارہ میں بھرتی کررہا ہوں مگر بعد میں ماحول نہایت خوشگوار ہوگیا اور ان کو احساس ہوا کہ یہ افسران بغیر حیلہ و بہانہ بازی فوراً کام انجام دیتے تھے۔ برگیڈیر زاہد کی ٹیم کے علاوہ میرے پاس فوج سے کئی بہت اچھے اور مفید انجینئرز بھی کام کررہے تھے۔ سول ورکس والوں میں جنرل انیس علی سیّد، کرنل اسلم، برگیڈیرسجاول خان، برگیڈیرحبیب زماں، کرنل محمود، کرنل جاوید، برگیڈیر مظہر، برگیڈیر سعید بیگ اور ان کے ساتھیوں نے نہایت اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ اسی طرح ائیرکموڈور حبیب الرحمٰن کی بھی خدمات ہیں ۔ان کے علاوہ کرنل ایوب، کرنل رفیق،میجر مجید، میجر انور، کیپٹن صدیق، کیپٹن عالم، کیپٹن فدا حسین شاہ، میجر صدیق اور میجر اسلام کی خدمات کہوٹہ کی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ کیپٹن عالم اور میجر اسلام میرے اسٹاف آفیسر اور پرنسپل اسٹاف آفیسر تھے اور کیپٹن صدیق پروٹوکول آفیسر تھے۔ ان کے علاوہ ٹیکنیکل میدان میں کرنل قاضی رشید علی، کرنل مجید، کرنل ذوالفقار، برگیڈیر عزیز، برگیڈیر قیوم، برگیڈیر جعفر،برگیڈیر سکندر حیات، برگیڈیر بہرام علی خان، برگیڈیر رفیع، کرنل ضیاء، کرنل ذوالفقار، برگیڈیر افتخار نے اپنی مہارت کے معجزے دکھائے ۔ کرنل رحمن، کرنل نیازی ، برگیڈیر صغیر، برگیڈیرصفدر نواب وغیرہ وغیرہ نے نہایت اہم اور اعلیٰ خدمات انجام دیں اور ہر فرض نہایت خوش اسلوبی سے وقت پر ادا کیا۔ میڈیکل میں جنرل چوہان، جنرل بٹ، کرنل نذیر، جنرل اشفاق، جنرل کمال شاہ، کرنل نعیم ، کرنل ناگرااور کئی دوسرے قابل ڈاکٹروں نے ہمیں تندرست و توانا رکھا اور پروجیکٹ کو کامیابی سے مکمل کرنے کا موقع دیا۔ لاتعداد دوسرے جونیئرافسران وجوانوں نے بھی نہایت قابل قدر خدمات انجام دی تھیں جن سب کے نام لکھنا یہاں مشکل ہے۔ میرے سویلین سائنسدانوں اور انجینئروں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہیں کبھی ایک کالم ان پر بھی لکھونگاان اوپر بیان کردہ فوجی افسران نے اور میرے سویلین محب وطن اور نہایت قابل سائنسدانوں، انجینئروں اور ٹیکنیکل اسٹاف نے کہوٹہ کی کہانی کی کامیابی میں جو رول ادا کئے ہیں وہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا رہے گا۔ انھوں نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا تھا۔
میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ چند ڈکٹیٹروں یا نااہل افسران کے خراب کردار کی بنیاد پر ہم کو اپنے نہایت اہم ادارہ کو لعن طعن نہیں کرنا چاہئے۔ آپ ان افراد کو دل کھول کر گالیاں دیں پورے ادارے کو ان کے اعمال کا ذمّہ دار نہ بنائیں۔ میں نے خود محفوظ شہید اور کرنل شیر خان کی ماربل کی پختہ قبریں بنوائی ہیں کہ وہ ہمارے بے مثال بہادر ہیرو ہیں۔ انھوں نے میری اور آپ کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں۔ 1965 کی جنگ کے بہادر شہدا کو عوام آج بھی سلام پیش کرتے ہیں۔
پاکستان کو کسی بھی جنگ میں جھونکنے کے جونیئر افسران ذمّہ دار نہیں1965ء ،1971ء، 1980ء اور پھر کارگل کی جنگیں نااہل افسران نے شروع کیں مگر جوانوں نے بے دریغ اپنی جانیں قربان کردیں، کرنل سے لیکر سپاہی تک ہمیشہ سب سے زیادہ شہید ہوتے ہیں۔بڑے صاحبان دور سے تماشا دیکھتے ہیں۔
جس طرح ہر ملک، ہر قوم، ہر فرقہ میں کچھ خودغرض اور موقع پرست لوگ ہوتے ہیں اسی طرح ہماری فوج بھی اس سے پاک نہیں ہے۔ نظم و ضبط سے مجبور ہوکر وہ ایک غاصب اور جاہل افسر کے احکامات کی بھی پیروی کرلیتے ہیں۔ ابھی ہمارے یہاں یہ کلچر پیدا نہیں ہوا کہ غلط بات پر کوئی اعتراض کرے اور اوپر والا تحمل اور خوش اسلوبی سے اس کو سن لے اور برا نہ مانے اور جونیئر افسر کی بے عزتی سے چھٹی نہ کردے۔ یہ مشکل کام ہے مگر فوج میں اس کی اشد ضرورت ہے۔ افسران کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ افسر ہیں اور کوئی ان کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کررہا اور نہ ہی بے عزتی کررہا ہے۔ مجھے 25/سال میں کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ کسی نے میری پوزیشن کو چیلنج کرنے یا اس منصب کی توہین کرنے کی کوشش کی ہو۔ چپراسی سے لیکر گریڈ 22 تک کے افسران میرے ساتھ تھے اور میں سب کا مخلص ساتھی اور دوست تھا، رفیق کار تھا۔
ہماری فوج میں ایک نہایت بُری اور قابل مذمت چیز چند کم ظرف افسران کا رویّہ ہے وہ اپنے جونیئر سے غلاظت کا سا سلوک کرتے ہیں۔ نہایت بدتمیزی سے بات کرتے ہیں مگر اپنے افسران کے آگے چپراسیوں کی طرح رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ چیز بدقسمتی سے بہت عام ہے۔میں نے خود اپنی موجودگی میں دیکھا کہ چند جنرل اپنے ماتحت بریگیڈیروں اور کرنلوں سے اس طرح اور ایسے لہجہ میں بات کررہے تھے کہ مجھے شرمندگی سے دوسری جانب دیکھنا پڑا۔ میں نے زندگی میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا کہ کبھی اپنے قاصد یا نائب قاصد کے ساتھ اس لہجہ اور اس طریقہ سے گفتگو کرونگا۔
دیکھئے میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ میرا سب سے پہلا رابطہ جنرل ٹکا خان سے ہوا، پھر جنرل ضیاء الحق، جنرل خالد محمود عارف، جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل آصف نواز، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل بخاری، جنرل علی قلی خان، جنرل صفدر، جنرل تنویر نقوی، جنرل ارشد، جنرل محمد اکرم خان، جنرل ریاض، جنرل اختر عبدالرحمن خان، جنرل افضل، جنرل افضال، جنرل شریف ناصر، جنرل محمد اقبال خان، جنرل محمد شریف، جنرل شمیم عالم خان، جنرل لہراسب خان، جنرل احمد جمال خان، جنرل احمد کمال خان، جنرل امتیاز علی، جنرل کلّو، جنرل اسلام اللہ خان، جنرل رَضا، جنرل شفیق،جنرل عبدالقادر بلوچ، جنرل ارشد چوہدری، جنرل علی نواب، جنرل طلعت مسعود، جنرل صبیح قمرالزّمان، جنرل زیدی، جنرل مصطفی کمال ،جنرل مقبول، جنرل معین الدین حیدر، جنرل سعید قادر، جنرل جاوید ناصر، جنرل غلام محمد، جنرل رحمت اللہ، جنرل اشرف قاضی، جنرل حمید گل، جنرل عبدالقیوم، جنرل صباحت، بریگیڈیر عجائب، بریگیڈیرانعام الحق، جنرل علی ضامن نقوی اور جنرل ارشد چوہدری وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام افسران پیشہ ورانہ مہارت رکھتے تھے اور نہایت خوش اخلاق تھے۔ آرمی کے سربراہوں میں جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ سب سے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے، نڈر تھے اور کبھی ملکی مفادات کے خلاف ایک لفظ سننے یا ماننے کو تیار نہ تھے۔ کرنل رحمن، بریگیڈیر صغیر، بریگیڈیئر اقبال تاجور، جنرل ضامن نقوی اور جنرل ارشد چوہدری ہمارے پروجیکٹ کی سیکورٹی کے ذمّہ دار تھے اور انھوں نے نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور کہوٹہ میں کوئی جاسوس تو کیا ایک آوارہ کتا بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
اسکے یہ معنی نہیں کہ تمام افسران فرشتہ ہیں۔ میں کئی نہایت نا اہل اور کمین خصلت افسروں کو بھی جانتا ہوں مگر ان کی پردہ پوشی شرافت کا تقاضا ہے۔
جنرل آصف نواز کے بارہ میں عرض کرونگا کہ یہ چڑچڑے مزاج کے تھے اور بے صبرے تھے۔ دوسروں کی بات سننے کا صبر کا مادہ نہ تھا۔ مجھے ان کے چیف کے عہدہ تک پہنچنے پر بہت تعجب تھا۔ سب سے زیادہ تعجب مجھے مشرف کے چیف کے عہدہ تک پہنچنے پر ہوا۔ میں اسکی سابقہ زندگی سے پوری طرح واقف تھا۔ نہ صرف فوجی اَفسران بلکہ عوام کی بڑی تعداد کو بھی اس کی بدکرداری کے واقعات کا علم تھا۔ جب میں نے جنرل حمید گل سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح بطور ڈی جی، آئی ایس آئی اور کور کمانڈر ملتان اس کی سالانہ رپورٹ اچھی لکھ دی تھی تو وہ بولے بس یہ بڑا بلنڈر تھا۔ ہم نے کردار کو نظر انداز کرکے اس کے ظاہری کمانڈو پن کو دیکھ کر غلط فیصلہ کر لیا۔
اس وقت فوج کے وقار اور عزّت کو سب سے زیادہ نقصان اِنٹیلی جنس اداروں میں فوج سے رَد کئے ہوئے موجود وہ لوگ پہنچا رہے ہیں جو ترقی نہ پاسکے کہ اس قابل نہ تھے مگر دوبارہ بھرتی ہوگئے ہیں۔ یہ فرعون بنے ہوئے ہیں اور جن لوگوں کے یہ کل تک بوٹ چمکانے میں عزّت محسوس کرتے تھے، آج موقع ملنے پر ان کے ساتھ نہایت بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور اکثر نمک حرامی اور احسان فراموشی میں سنہری تمغہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مجھے خود ذاتی تجربہ ہے۔
فوج کے وقار اور عزّت و منزلت کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ افواج کے جاسوسی کے کام ملٹری انٹیلی جنس، اےئر انٹیلی جنس اور نیول انٹیلی جنس اور ان کی کوآرڈینیشن جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر کرے۔ آئی ایس آئی کو توڑ کر ایک نئی قومی انٹیلی جنس ایجنسی بنائی جائے جو وفاقی حکومت کے تحت ہو ۔ اس میں کوئی حاضر سروس افسر نہ ہو، اس طرح اس ادارہ کو موجودہ آئی ایس آئی کی طرح عوام کو غیرقانونی طور پر غائب کرنا، تشدّد کرنا، قتل کرنے کی (جو ایک حقیقت ہے) جرأت نہ ہوگی اور اسکی عزّت و وقار برقرار رہیگا۔ایک سول ادارہ اعلیٰ عدلیہ اورعوام کو جواب دہ ہوگا۔ اکثر آرمی چیف کو علم بھی نہیں ہوتا اور نیچے کے لوگ ان غیرقانونی کارروائیوں میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جب راز فاش ہوتا ہے تو الزام سیدھا فوج پر آتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ادارہ کے کئی لوگ فرعون بن جاتے ہیں۔ فوج کو چاہئے کہ وہ اس گندے فالتو بوجھ کو جس قدرجلد پھینکدے اس کے وقار اوراور عوام کی نگاہ میں عزّت کے لئے اتنا ہی مفید ہوگا۔اس کے بجائے ایک قومی انٹلیجنس ادارہ (نیشنل انٹلیجنس ایجنسی) بنائی جائے اس میں کوئی حاضر سروس فوجی بھرتی نہ کیا جائے ۔ اس کی سربراہی شروع میں کسی قابل، غیرمتنازعہ فوج، اےئر فورس یا نیوی کے سربراہ کو دی جائے تاکہ یہ ٹھوس بنیاد پر کام کرنے لگے۔ سربراہ کا منصب وفاقی وزیر کے برابر ہونا چاہئے اور اس کو وزیر اعظم کے زیر نگرانی کام کرنا چاہئے۔ اس طرح یہ ادارہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوگا اور اپنے اعمال و کردار کیلئے عدالت عالیہ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ میری عوام سے درخواست ہے کہ اپنے جوانوں کی، ملک کے محافظوں کی عزّت کریں، ان سے محبت کریں کہ وقت آنے پر وہی ہمارے لئے اپنی جانیں قربان کرینگے۔
اب میں آپ کی خدمت میں چند سطور ایک نہایت ہی بہادر، اعلیٰ مُنطّمِ، خوش اخلاق فوجی اَفسر مرحوم بریگیڈیر ابراہیم قریشی کے بارہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا انتقال پچھلے سال پانچ جولائی کو اسلام آباد میں ہوا تھا اور ان کو ایچ الیون کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا تھا۔ میں نے تجہیز و تدفین میں شرکت کرکے خراج تحسین پیش کیا تھا اور دعائے مغفرت میں حصّہ لیا تھا۔ اسلام آباد کے مقتدر اشخاص اور وزارت خارجہ کے لاتعداد افراد نے شرکت کی تھی۔
جب ہم جنوری 1976ء میں بھٹو صاحب کی ذاتی درخواست پر پاکستان میں رُک گئے اور چند ماہ میں تمام حالات ٹھیک ہوگئے اور مجھے ایک خود مختار ادارے (انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز) کا سربراہ بنا دیا گیا تو بھٹو صاحب نے کوآرڈینیشن بورڈ بنا دیاجس میں سیکریٹری جنرل فنانس جناب اے جی این قاضی، سیکریٹری جنرل ڈیفنس جناب غلام اسحق خان اور سیکریٹری جنرل وزارت خارجہ جناب آغا شاہی تھے۔ ان کو وزیر اعظم نے وسیع اختیارات دیے تھے اور اس بورڈ کا کام ای آر ایل اور اٹامک انرجی کمیشن کے کاموں کی نگرانی اور ہم آہنگی تھا۔ میرے ان تینوں اعلیٰ افسران سے نہایت قریبی اور اچھے تعلقات تھے۔ اس زمانے میں سرکاری ملازمین کے بیرونی دوروں کیلئے ایک خاص فارم پُر کرکے پی آئی اے کو دینا پڑتا تھا۔ ہمارا ادارہ کیونکہ نیا تھا اور ہم سیکورٹی کی وجہ سے غیر نمایاں طور پر کام کرنا چاہتے تھے یہ مسئلہ جناب آغا شاہی نے فوراً حل کردیا۔ انہوں نے مجھے دفتربلا کر بریگیڈیئر ابراہیم قریشی سے ملایا اور کہا کہ بریگیڈیئر صاحب ڈی جی ایڈمنسٹریشن ہیں یہ آپ کو تمام ضروری سہولتیں مہیا کرینگے۔ بریگیڈیئر صاحب نہایت نرم گو، ذہین، تیز کام کرنیوالے نہایت اعلیٰ افسر تھے۔ ہمیں انہوں نے سفارتی، سرکاری پاسپورٹ بنوا دیئے اور باہر جانے کیلئے شکیل ایکسپریس کو ہدایت کردی کہ جب ہماری جانب سے ٹکٹوں کی درخواست آئے فوراً بنادیں، اسی طرح باہر ہمارے سفارتخانوں کو ہدایت کردی کہ جب بھی ہم وہاں کوئی سہولت مانگیں فوراً مہیا کردی جائے۔ ہم بہت اچھے دوست بن گئے انکی بچیاں ہماری دونوں بچیوں کی ہم عمر تھیں اس طرح ایک خاندانی رشتہ قائم ہوگیا۔ بریگیڈیئر صاحب ریٹائرمنٹ سے پہلے کینیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے تھے۔ وہ ایک فرشتہ خصلت اعلیٰ انسان تھے اور فوجی افسران کیلئے مثال تھے۔ اللہ تعالی ان کو ہمیشہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین !
میں نے اپنے ایک کالم میں کافی عرصہ پیشتر تحریر کیا تھا کہ کس طرح نوجوان بل کلنٹن نے ایک تجربہ کار، سابق سربراہ سی آئی اے اور سابق نائب صدر اور صدر بش کو سخت شکست دی تھی۔ کلنٹن نے نہ ”فاتح“ عراق کے اعمال نہ ہی اسکی پچھلی کارکردگی کے بارہ میں بیانات دیئے بلکہ انھوں نے اس وقت کے نہایت اہم مسئلہ یعنی خراب معاشی حالت کے بارے میں عوام کو بتلایا تھا اور وہ نہایت آسانی سے یہ الیکشن جیت گئے۔ بالکل اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی عوام نے اپنے جنگ کو جیتنے والے ہیرو وِنسٹن چرچل کو الیکشن میں شکست دے کر گھر بھیج دیا تھا کہ اس وقت جنگ لڑنے کے لئے قیادت نہیں بلکہ جنگ سے تباہ شدہ ملک اور تباہ شدہ معیشت کو دوبارہ بحال کرنا تھا۔
میں نے انصاف اور انصاف کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمودات کا بھی ذکر کیا تھا۔ آپ کی یاددہانی کے لئے ان کو دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ (1) بے شک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے (سورة المائدہ آیت 42 )۔ (2) اے ایمان والو۔ انصاف پر پختگی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے رہو چاہے تمھارے یا تمھارے والدین اور عزیزوں کے خلاف ہی ہو۔ وہ امیرہو یا مفلس ہو اللہ بہرحال دونوں سے زیادہ حقدار ہے۔ تو تم خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ حق سے ہٹ جاؤ اور اگر تم کجی کرو گے یا حیل و حجّت کروگے تو جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے (سورة النسا۔ آیت 135 )۔ (3) اے ایمان والو۔ اللہ کے لئے پختگی سے قائم رہنے والے اورعدل کے ساتھ شہادت دینے والے رہو اور کسی جماعت کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے ساتھ انصاف ہی نہ کرو۔ ہر حال میں انصاف پر قائم رہو کہ وہ تقویٰ سے بہت قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ کو اس کی پوری پوری خبر ہے کہ تم کیا کرتے رہتے ہو (سورة المائدہ۔ آیت 8 )۔ (4) اور جب بات کرو تو انصاف ملحوظ رکھو اگرچہ وہ تمھارے کسی قربت دار کے متعلق ہی کیوں نہ ہو(سورة حجرات، آیت 152)۔ (5) آپ (رسول اللہ) کہدیجئے کہ میرے پروردگار نے تو عدل و انصاف کا ہی حکم فرمایا ہے (سورة اَعراف۔ آیت29 )۔ (6) بیشک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے (سورہ نحل، آیت 90 )۔ (7) اور آپ (رسول اللہ) کہدیجئے کہ مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اپنے اور تمھارے درمیان انصاف کروں (سورة الشوریٰ۔ آیت 15 )۔ (8) پھر اگر وہ (ذیادتی کرنے والا گروہ) رجوع کرلے تو ان (فریقین) کے درمیان عدل کے ساتھ صلح، اصلاح کرادو اور انصاف کا خیال رکھو بیشک اللہ اِنصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (سورة حُجرات۔ آیت 9 )۔ (9) اور یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں (سورة حدید۔ آیت 25 )۔
احکام الٰہی ہیں کہ کسی بیگناہ مسلمان کو مارنے والا مسلمان، کافر اور مشرک جہنم میں پھینکے جائینگے اور وہیں ان کا مستقل قیام ہے۔ حدیث ہے کہ جو منصف انصاف نہ کرے گا وہ بھی جہنم میں دھونک دیا جائے گا۔ انصاف دینے میں حیل و حجت کرنے اور سچائی کی بات کرنے میں تأمل کرنے کے بارے میں آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ اِنصاف دینے میں تاخیر کرنا یا حیل و حجّت کرنا اور معذرت خواہانہ لہجہ میں سچ بولنا منافقت اور دروغ گوئی سے بھی بدتر ہے۔
ہماری تاریخ بروقت اور فوری انصاف کے سنہری واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہ سلسلہ ہمارے پیارے رسول صلعم کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدلعزیز سے لے کر ہارون الرشید، محمود غزنوی اور علاؤ الدین خلجی کے دور میں نہ ہی حکمراں کی اور نہ ہی کسی اور بااثر شخصیت کی جرأت ہوتی تھی کہ قاضی کے فیصلہ یا حکم کی نافرمانی کرے۔ افسوس کہ ان سنہری روایات کی موجودگی میں ہمارے حکمراں اور عدلیہ وہ معیار قائم کرنے میں اور رواں رکھنے میں قطعی ناکام رہے ہیں۔
ڈکٹیٹرپرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ء کو غیر قانونی طور پر نواز شریف صاحب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک اور قوم کو یرغمال بنا لیا تھا اور اس نے سب سے پہلے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور جسٹس سعیدالزماں صدیقی سے وعدہ کرنے کے باوجود اس نے ایک پی سی او نکال کر ان کو علیحدہ کردیا، بلکہ گھر میں نظر بند کردیا اور فون وغیرہ کاٹ دیئے۔ پھر اس کے حوصلے بڑھتے گئے اور اسنے موجودہ چیف جسٹس پر ہاتھ ڈالا۔ بے شرمی کا یہ عالم کہ اب بھی کہتا ہے کہ میں نے قانون کے مطابق وزیر اعظم کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو روانہ کیا اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا اور کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ اگر یہ حقیقت تھی تو پھر چیف جسٹس کو پانچ گھنٹے آرمی ہاؤس میں کیوں قید رکھا، ان کی گاڑی سے جھنڈا اُتار دیا۔ چار پانچ جنرل ساتھ بٹھا لئے پھر ان کو گھر میں قید کردیا اور باہر سے تمام روابط ختم کردیے۔ یہ قانون کی پاسداری تھی مگر وہ یہ مشہور کہاوت بھول گیا کہ ”ہر فرعون را موسیٰ“ یعنی اللہ تعالیٰ ہر فرعون کے لیے ضرورایک موسیٰ جیسی شخصیت پیدا کرتا ہے اسکے لئے جسٹس افتخار محمد چوہدری موسیٰ ثابت ہوئے۔…
معذرت خواہ ہوں کہ بات کچھ طویل ہوگئی دراصل میں اس طرف آرہا تھا کہ وکلاء اور عوام کی طویل جدّوجہد اور چیف جسٹس کی بہادری اور ثابت قدمی کی وجہ سے عدلیہ بحال ہوگئی۔ پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عوام اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ اب انصاف سے متعلق تمام رکاوٹیں اور تاخیر دورہوجائے گی۔ اس جدوجہد کے نہایت روشن ستارے احمد علی کرد جن کو وکلاء نے ان کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے سپریم کورٹ بار کا پریزیڈنٹ چن لیا تھا کچھ دن بعد مایوسی کا کھلے عام اظہار کرنے لگے کہ عدالت عالیہ عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتررہی اور انصاف دینے میں تاخیر اور حیل وحجّت کا شکار ہے۔ یہ تاثر اب آہستہ آہستہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکمراں نہایت ڈھیٹ، عیّار، سازشی اور تجربہ کار چالباز ہیں۔ انھوں نے پہلے دن سے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ عدلیہ کے کسی حکم پر عمل نہیں کرینگے اور ہر حکم کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالدینگے۔ انھیں یہ وہم ہے کہ عدلیہ ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی اور وہ چند ہزار جیالے سڑکوں پر نکال کر عدلیہ کو مرعوب یا خوفزدہ کردینگے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جب بھی کوئی اہم مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے جس میں حکومت کے خلاف کارروائی کا خطرہ ہوتا ہے تو جیالے ایک جلوس کی شکل میں سپریم کورٹ پر حملہ کردیتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ تمام اہم مقدمات اب تک نمٹائے نہ جاسکے۔ دیکھئے ان حکمرانوں کی پوزیشن ان قانون توڑنے والے لوگوں کی ہے جو کسی محلہ یا شہر میں دہشت پھیلاتے ہیں اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ لیکن جسطرح اپنے وقت کے سب سے طاقتور فرعون کی تباہی اللہ تعالیٰ نے ایک کمزور حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے کرائی تھی اسی طرح ایسے لوگوں کا انجام بھی کسی نیک بندے کے ہاتھ سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ تکبّر، وہ قوّت، وہ شان وشوکت، وہ نام نہاد عزّت و وقار دیکھتے ہی دیکھتے خاک میں مل جاتا ہے اور فرعون کی طرح یہ تاریخ کا عبرتناک باب بن جاتے ہیں۔
دوسری وجہ جو بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے لئے پہلے عدالت عالیہ اور معزّز جج صاحبان سے معذرت خواہ ہوں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے عدلیہ کی بحالی سے عوام کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں کہ اب جلد اور صحیح انصاف ملے گا اور ساتھ ہی مصدقہ، سندیافتہ راشی، چور، غاصب، خائن اصحاب اقتدار پکڑے جائینگے۔ دھیرے دھیرے عوام کے جذبات ٹھنڈے ہوگئے اور پھر یہ جذبات نااُمیدی میں تبدیل ہوگئے کہ کوئی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آئی، حکمراں اُسی طرح من مانی کرتے رہے اور عدلیہ اپنی وجوہات کی بنا پر ان کو یہ کام کرتے رہنے کی اجازت دیتی رہی۔ سب سے پہلے سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت کی موجودگی کا معاملہ سامنے آیا۔ دستاویزی ثبوت موجود تھے اٹارنی جنرل جسٹس عبدالقیوم نے بذات خود جاکر درخواست دے کر معاملہ ختم کردیا۔ یعنی چور چوری کا مال بھی رکھے اور ساہوکار بھی بنا رہے۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ کسطرح پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے لندن سے جاکر سوئزر لینڈ میں سرکاری وکیلوں سے کئی بکس جو اس چوری کے شواہد سے پُر تھے لے لئے اور لندن لے گئے اور آج تک علم نہیں ہے کہ اس نے یا بابر اعوان نے ان کاغذات کا کیا حشر کیا۔ عدلیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اور یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے سرد خانے میں چلا گیا۔ بابر اعوان نے عدالت عالیہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی اور خط نہیں لکھا اور نہ لکھنے دیا۔ عدالت خاموش بیٹھ گئی۔ (جاری ہے)۔
(نوٹ)(1)پچھلے ہفتہ کے کالم میں نہایت قابل اور محب وطن چند مندرجہ ذیل افسران کے نام نہ لکھے جا سکے تھے۔معذرت خواہ ہوں۔ جنرل احمد کمال، کرنل ڈاکٹر منیر، میجر رفیہ، میجر عابدہ، اور کرنل عزیز اور کرنل اصغر کا سول ورکس کے۔آر۔ایل سے تعلق تھا۔
اسی طرح این آر اُو کے معاملہ میں بہت شور و غل ہوا، خبریں بنیں، جب وہ کالعدم قرار دیا گیا تو مجرم معاف کردیئے گئے حالانکہ وہ مجرم قرار دیئے جاچکے تھے۔ میں قانونی موشگافیوں سے تو ناواقف ہوں مگر یہ تو ہوسکتا تھا کہ ان مجرموں کی اگر سزائے قید معاف کی گئی تھی تو عدلیہ اُنھیں کم از کم پبلک عہدوں کے لئے تو نااہل قرار دے سکتی تھی وہی مجرم اب ہمارے سروں پر بیٹھے ہیں اور دوبارہ لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہیں۔ ایسے ہی 250 ارب سے زیادہ قرضہ جات معاف کرانے والے اربوں کی جائداد کے مالک ہیں، کروڑوں روپیہ کے محلّات میں رہ رہے ہیں، کروڑوں روپیہ کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی راکٹ چلیں، توپیں چلیں، خبریں بنیں، مگر نہ کسی کی جائداد فروخت ہوئی، نہ دولت ضبط ہوئی اور معاملہ پھر سرد خانہ کی نظر ہوگیا۔ اَب پولیس فاؤنڈیشن غبن کیس، این آئی سی ایل کیس، سب آہستہ آہستہ تاریخ کا حصّہ بنتے جارہے ہیں۔ سال دو سال بعد یہ بھی ختم ہوجائینگے۔ 12 مئی کے مجرم آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں اور کچھ نہیں ہوا۔ پھر سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کا سرعام قتل، وہ معاملہ بھی ختم۔ اس کے علاوہ گمشدہ لوگوں کا معاملہ وہ بھی ٹھنڈا۔ اڈیالہ جیل سے رہا ہونے والے اشخاص کا آئی ایس آئی کے کارندوں کا اغوا، وہ معاملہ بھی سرد خانے میں، خروٹ آباد اور کراچی کے ہولناک قتل کے واقعات، وہ بھی سرد خانے میں۔
اس کے علاوہ آپ نے کئی دن تک اخباروں اور ٹی وی پر ہزاروں کنٹینروں کی گمشدگی اور کئی ارب روپیہ کی ڈیوٹی کھا جانے کے بارے میں پڑھا اور سنا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ پوری ایف۔بی۔آر ہی اس میں ملوث ہے اور ان سب کی اچھی طرح گوشمالی ہوگی۔ چند ماہ سے اس بارے میں کہیں ایک لفظ نہیں سُنا جاتا۔ نیب کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور حکومت نے عدلیہ کے احکامات کی قطعی پرواہ نہیں کی ہے اور اب عدالت عالیہ نے بہت سخت حکم دیا ہے کہ ایک ماہ میں چےئرمین اور پروسیکیوٹر جنرل مقرر کئے جائیں ورنہ نیب کو ختم کردیا جائے گا۔ آپ نے مزید دیکھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کو کسطرح التوا میں ڈالے رکھا اور غیرقانونی طور پر کئی ضمنی انتخابات کرادیے گئے۔غرض یہ کہ ہرگندہ کام سپریم کورٹ کی جھولی میں ڈالا جارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو غیرمقبول فیصلوں پر مجبور کیا جائے اور پھر اسکے تقدّس اور شہرت کو نقصان پہونچایا جائے۔ ایڈیشنل ڈی جی ، ایف آئی اے جناب ظفر قریشی کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا مقصد بھی بالواسطہ عدلیہ کو عوام کی نگاہ میں خراب کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ عدلیہ وغیرہ
کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا بہتر ہے کہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرو۔ تعلیمیافتہ اور سمجھدار لوگ اس سے پوری طرح واقف ہیں کہ سپریم کورٹ جمہوریت کی ریل کو پٹری سے نہیں اُتارنا چاہتی اور کوشش کررہی ہے کہ چند احکامات کے ذریعہ حکمرانوں کو قانون اور دستور کے دائرے میں رکھے۔ حکمراں عیّار ہیں اور مکّار ہیں اور سوچتے ہیں کہ اتنی لوٹ مار کے بعد اگر ”شہدا“ کا منصب مل گیا تو بُرا سودا نہیں ہے۔ عدلیہ چاہے تو ان مجرموں کو چند لمحوں میں جیل بھجوا سکتی ہے، ان کو تمام زندگی کے لئے عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دے سکتی ہے۔حکمراں طبقہ یہ قطعی بھول جاتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے بہت مجبور ہو کر یہ انتہائی قدم اُٹھالیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس سزا اور عتاب سے نہیں چھڑا سکتی۔ یہ لوگ بھٹو صاحب کا انجام بھول گئے ہیں وہ عدلیہ جانب دار ہی سہی مگر نہ اندرونی اور نہ بیرونی قوّتیں بھٹو صاحب کو اس عدلیہ کے فیصلہ اور انجام سے بچا سکی تھیں۔موجودہ حکمران عام تأثر کے برعکس نہایت عیّار اور مکّار ہیں۔ ہم نے ان کی شاطرانہ چالیں پچھلے ساڑھے تین سال میں دیکھ لی ہیں کس طرح اُنھوں نے نواز شریف اور ان کی جماعت کو، ایم کیوایم کو اور جمیعت الاسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور عوام کی نگاہ میں ان کی عزّت و وقار اور شہرت کو سخت نقصان پہونچایا۔ اس طرح ساڑھے تین سال گزار لئے اور ابھی ق۔لیگ سے مل کر بجٹ پاس کرالیا اور ایم کیو ایم اور جمیعت الاسلام کو کھڈے لائن لگادیا۔ نظر یہ آتا ہے کہ یہ لوگ اپنی عیّاریوں سے اگلے سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرلینگے اور اگر اگلی حکومت نہ بھی بنا سکے تو دوسری حکومت کی زندگی اجیرن کردینگے۔ بہرحال دیکھئے اللہ تعلی کی تدبیریں انسانوں کی سازشوں پر ہمیشہ بھاری اور فاتح ہوتی ہیں۔
عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کیوں یکدم سخت اقدام نہیں اُٹھاتی اور مجرموں کو دوسروں کے لئے عبرت نہیں بنا دیتی۔ اسکی وجوہات ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اور چیف جسٹس قانون اور دستور کے معاملہ میں طفل مکتب نہیں، استاد مکتب ہیں اور وہ اپنی قوّت سے پوری طرح واقف ہیں مگر ایک مجبوری یہ آجاتی ہے کہ سخت اقدامات کی تکمیل کے لئے حکومتی اداروں کا تعاون چاہئے اور اگر یہ بدمعاشی پر کمر باندھیں اور تعاون نہ کریں تو عدالت عالیہ ایک تماشہ بن سکتی ہے۔ آپ نے دیکھا تھا کہ جب چیف جسٹس سجّاد علی شاہ نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے سپریم کورٹ کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے متوالوں کی غنڈہ گردی کے خلاف مدد مانگی تو جنرل جہانگیر کرامت نے نہایت ڈپلومیسی سے وہ درخواست وزیر دفاع کو بھیجدی جو ظاہر ہے حکومت کا پیادہ تھا اور اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا، نتیجتاً سپریم کورٹ پر حملہ ہوا ، توڑ پھوڑ ہوئی اور پوری دنیا میں ہماری رسوائی ہوئی۔ غالباً اس واقعہ کو مدِّنظر رکھ کر سپریم کورٹ کبھی بھی آرمی سے مدد کی درخواست نہیں کرے گی کہ وہ آخر کار احمد مختار صاحب کو رجوع کی جائے گی اور نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
دیکھئے یہ باتیں تو عدلیہ اور زیرسماعت مشہور اور بدنام زمانہ غیر حل شدہ مقدمات کی تھیں۔ کسی ملک کی ترقی اور عوام کے لئے باعزّت زندگی گزارنے میں نہ صرف عدلیہ بلکہ حکمراں طبقہ کا کردار بھی بے حد اہم ہوتا ہے اور یہی قوموں کی تاریخ کی اچھائی اور برائی کا معیار ہوتا ہے۔
آئیے چند باتیں ہمارے حکمرانوں کی نصیحت اور ان کو راہ راست پر لانے کی کریں کہ اس وقت ملک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ غیر ممالک ہمیں ایک ماہ دو ماہ کی مہلت دے رہے ہیں کہ یہ ناکام مملکت میں تبدیل ہو جائے گا، ٹوٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ حالت چونکہ بے حد خطرناک ہیں اس لئے ایسی باتیں ہورہی ہیں۔ کچھ اہل دانش اور شریف النفس حضرات اس کو وہم تصور کرکے نظر انداز کرنے کے موڈ میں ہیں مگر خطرہ حقیقی ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے سامنے اسپین، ترکی، عباسی، خوارزمی، مغلیہ حکومتوں کا انجام ہے ان لوگوں نے خطرہ کو محسوس نہیں کیا، نظر انداز کیا اور تاریخ کے پارینہ اوراق بن گئے ہیں۔
ہمارے پیارے رسول صلعم نے فرمایا ہے کہ انصاف اور عدل ہی سے دنیا میں عزّت و وقار ملتا ہے اسی سے عوام کی مدد اور دُعائیں حاصل ہوتی ہیں۔ انصاف اور عدل ہی خواص، عوام سب کی فلاح و بہبود کا سرچشمہ ہے۔ کسی بھی ملک میں تمام اچھائیوں کی بنیاد حکمرانوں کا کردار اور عدل ہے۔ میں نے فرمان الٰہی کا حوالہ دیا تھا کہ اللہ تعلی نے قرآن کو حق اور میزان کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہاں میزان سے مراد عدل و انصاف ہی ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض جو ایک اولیاء اللہ کا رتبہ رکھتے تھے اُنھوں نے کہا تھاکہ اگر اللہ تعلی میری دُعا قبول فرمائے تو میں صرف عادل اور منصف حکمراں کے لئے دُعا کرتا اور کسی اور کے لئے نہیں کرتا۔ اور عادل حکمراں کے لئے دُعائے خیر کرکے گویا میں تمام بندگان اللہ اور تمام عالم کے لئے دُعا کرتا۔ اس لئے دنیا کی خوشی ، خوشحالی اور ترقی کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ ملک کی باگ دوڑ عادل حکمراں کے ہاتھ میں ہو۔ دیکھئے حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کی تاریخ میں سب سے اچھا دور وہ ہوتا ہے جس میں منصف مزاج اور عادل اہل اقتدار ہوں اور لوگوں کو فوراً اِنصاف ملے۔ آپ ہمارے عادل مسلمان حکمرانوں کو چھوڑئیے ابھی ہمارے سامنے چند سال پہلے کی مثال موجود ہے کہ کس طرح نیک، ایماندار، عادل چینی اہل اقتدار (چےئرمین ماؤ، وزیراعظم چو این لائی، وزیر دفاع مارشل لِن پیاؤ اور وزیر خارجہ مارشل چین یی وغیرہ) نے اس نہایت پسماندہ ملک کو چند برسوں میں دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت اور دوسری معاشی طاقت بنا دیا اور عوام کی زندگی بدل دی۔ حکمراں ایماندار تھے اور انصاف مفت اور فوراً میّسرتھا۔
دیکھئے اس تمام حکایت کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ اس وقت ملک جن نازک ترین اور خطرناک حالات سے گزر رہا ہے ان کو دیکھ کر صرف عدلیہ سے عوام اُمید لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ اہل ِ اقتدار تو مصّدقہ اور مستند راشی، چور اور مجرم ہیں ان میں تبدیلی کی امید نہیں۔ عوام پٹ پٹ کر اور فاقہ کشی کرکرکے اس قابل نہیں رہے کہ ہاتھ تو کیا انگلی بھی اُٹھا سکیں۔ عوام کو اور وکلاء کو پھر بہادری سے عدلیہ کا ساتھ دینا پڑے گا کہ اس ملک کے حالات پھر ٹھیک ہوں، عوام کو امن ، سکون، رزق اور سر چھپانے کی جگہ ملے۔ اللہ تعلی نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے ہمیں صرف ایک بہادر، نیک، ہمدرد، قابل اور عوام اور ملک کا ہمدرد حکمران عطا کردے تو مختصر عرصہ میں ہماری حالت بدل سکتی ہے۔
نوٹ:آج کل فیس بک پیغام کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔میرے نام سے بھی بہت سے لوگو ں نے خود ساختہ پیجز اور گروپس بنا رکھے ہیں جبکہ میں صرف دو پیجز کی تصدیق کرتا ہوں ان کے لنکس نوٹ کر لیں
http: // www . facebook. com / pages / Pakistan - Awami - Inqelaab / 220122501357863
http:// www. facebook. com/?ref =home# !/pages/ Mohsin-e-Pakistan -Dr - AQ -Khan / 134728469911982
اس کے علاوہ ایک ویب سائٹ نوٹ بھی کر لیں ۔ www.pakinqelaab.com
باقی جن لوگوں نے بھی میرے حوالے سے فیس بک پر کام کیاوہ مندجہ بالا لنکس سے منسلک ہو جائیں اور تعاون کریں تاکہ پیغام ایک ترتیب سے سب تک پہنچے میں امید کرتا ہوں کہ دوسرے پیجز والے ہمارے ممبرز کوکیپچر(capture ) نہیں کرکے نہیں رکھیں گے۔
مدّت بیتی کسی نے قائد اعظم محمد علی جناح سے کہا تھا کہ سیاست ایک گندی چیز ہے۔ آپ نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ ہاں یہ گندی چیز ہے گندے لوگوں کے لیئے۔ تاریخ کے طلبہ جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے تقریباً چالیس سال نہایت سرگرمی سے سیاست میں حصّہ لیا تھا۔ آپ ایک روز جیل نہیں گئے، ایک روز کسی پولیس والے نے آپ کا راستہ نہ روکا اور آپ نے پوری زندگی میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا اور پھر بھی اتنا بڑا کام سرانجام دیدیا جو شاید ہی کوئی اور شخص تن تنہا کرسکے۔ آپ نے اصولوں پر سودا نہیں کیا اور انگریز بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ”جناح کو خریدا نہیں جاسکتا“۔ اس کے برعکس گاندھی، نہرو،ابولکلام اور لاتعداد کانگریسی لیڈر غیر قانونی حرکات کرتے رہے اور باربار جیل میں ڈالے گئے۔ ہمیں انگریز کو یہ کریڈٹ دینا پڑتا ہے کہ اس نے ان سیاسی قیدیوں پر نہ ہی تشدّد کیا اور نہ ہی اور اقسام کی تکالیف دیں۔ آپ اَبولکلام کی مشہور زمانہ اور اردو زبان کی اعلیٰ کتاب غبار خاطر کا مطالعہ کرلیجئے اس میں اُنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزی حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنے کی وجہ سے اورنگ آباد جیل میں بند کئے جانے کے حالات بیان کئے ہیں۔ یہ کتاب ایک کلاسیکل کام ہے اور ہر اردو زبان فرد کو اس کو ضرورپڑھنا چاہئے۔ اس میں انھوں نے لاتعداد فارسی اور عربی اشعار استعمال کئے ہیں، خوش قسمتی سے اب نئے ایڈیشن میں ان کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ یہ ایڈیشن لاہور سے شائع ہوا تھا اور میں نے اس کی اشاعت کے لئے کچھ مالی امداد بھی دی تھی۔ یہ نیک کام تھا اور ہماری ثقافت کا قیمتی سرمایہ ہے۔
میں گندی سیاست کی بات اس لیئے کررہا ہوں کہ ہمارے ملک میں ہر بُرائی کی جڑ یہی ہے۔ جب سیاستدان مفاد پرست، خود غرض، رشوت خور اور ضمیر فروش ہوجائیں تو پورا نظام تباہ ہوجاتا ہے، ہر ادارہ، ہر فرد اپنے مفاد اور اپنی بقا کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے اور ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے نظام کا سب سے پہلے اَثر امن و امان قائم کرنے والے اداروں پر ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ اختیار ہوتے ہیں ان کا غلط استعمال دل کھول کر کرتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ جات قائم کرنا، جھوٹے مقابلوں میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا، لوگوں کو اغوا کرنا اور سب سے بڑھ کر دل کھول کر رشوت خوری ایک سرکاری پالیسی بن جاتی ہے۔
گندی سیاست (یا گندے سیاست دانوں) کے طفیل ہمارے ملک میں ہر شعبہ میں زبوں حالی ناگفتہ بہ ہے، تبصرہ کرنیوالی ہستیاں صحافی وغیرہ ٹی وی پر، اخبارات میں ان باتوں پر توجہ دلا دلا کر تھک گئے ہیں۔ ہر روز شام کو متعددٹی وی اسٹیشنوں پر معزز تجزیہ نگار اس لعنت پر تبصرہ کرتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں مگر کہیں بھی کوئی اصلاحی تصویر نظر نہیں آتی۔ سب سے بڑی کاروائی جو حکومت اور اپوزیشن میں نظر آتی ہے وہ ہر جائزو ناجائز طریقہ سے زیادہ سے زیادہ ممبران اسمبلی کو اپنی صفوں میں شامل کرنا ، کبھی یہ ناراض گروپ ہے اورکبھی ہم خیال۔ حکومت نے حسب ضرورت کبھی ایم کیو ایم، کبھی جے یو آئی۔ایف اور کبھی ن۔لیگ اور کبھی ق۔لیگ کو اسیر زلف بنا کر بہ آسانی ساڑھے تین سال گزار لیئے۔ جو بھی اپوزیشن میں ہوا اس نے تھوڑا شور مچایا کبھی واک آؤٹ کیا یا ایک دو بیان داغ دیے مگر اُسی تنخواہ پرکام کرتے رہے۔
ساڑھے تین سال بعد بھی معاشی کمزوری عروج پر ہے۔ ملکی خودمختاری اور قومی عزّت و غیرت عنقا ہوگئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ کرپشن خوب پھل پھول رہی ہے اور اب بات سو دو سو، دو چار ہزار کی نہیں اَربوں میں ہوتی ہے ۔ جس کسی پر بھی سپریم کورٹ انگلی رکھتی ہے یا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نگاہ ڈالتی ہے وہاں اربوں کا گھپلا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ آپ کفایت شعاری کی باتیں بھول جائیں یہ باتیں عوام کے لئے ہیں بلکہ ان کے لئے اس سے بھی ایک قدم آگے بھوک ، فاقہ کشی موجود ہے جبکہ ایوانِ وزیر اعظم اور ایوان ِ صدر کا یومیہ خرچہ پندرہ لاکھ روپیہ بتلایا گیا ہے۔ یہ لوگ پرانے انگریز وائسرائے یا مہاراجہ اور بادشاہ کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ افسران کی ترقیوں اور تبادلوں کے نوٹیفکیشن روز نظر آتے ہیں مگر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا۔ بلوچستان اور کراچی میں امن و امان نامی کوئی چڑیا نظر نہیں آتی بلکہ ٹارگیٹ کلنگ ایک مقبول کھیل بن گیا ہے۔ جب مقتولوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے تو اہلِ اقتدار چند الفاظ کا بیان جاری کرادیتے ہیں کہ اُنھوں نے اس کا نوٹس لے لیا ہے بالکل اسی طرح کہ خودکش حملہ کی مذمّت اور مقتولین کے لئے ہمدردی کے اظہار کے بیانات جاری ہوجاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار جائے وقوع پر نظر نہیں آتے اور بعد میں بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر رقم بٹور تے ہیں۔ گندی سیاست اور نتیجتاً گندے نظام مملکت کی کتنی مثالیں دی جائیں، پوسٹ آفس صحیح کام نہ کرسکے تو کُوریئر سروس خوب پھلی پھولی ہے اور لاتعداد پوسٹ آفس بند ہوگئے جس سے عوام کو تکلیف پہنچی ہے۔ یہی حال عام ٹیلیفون کا ہوا اور موبائل فون کروڑوں کی تعداد میں استعمال ہونے لگے جس سے اربوں روپیہ کا زر مُبادلہ باہر چلا گیا اور جارہا ہے۔ ریلوے سروس کی حالت آپ نے دیکھ لی ہے روز ٹی وی پر آپ کو مسافروں کی تکالیف دکھائی جاتی ہیں موجودہ وزیر ریلوے سے نااہل وزیر کبھی اس ملک میں نہیں دیکھا گیا۔ ٹرین سے پہلے شاید گدھا گاڑی پہنچ جائے گی۔ اسی طرح لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کا حال قابلِ رحم ہے، مناسب ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے لینڈ مافیا کی لاٹری نکلی ہوئی ہے۔ یہ قبضہ گروپ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بڑی بڑی عمارتیں بنا لیتا ہے اور حکومت کچھ نہیں کرپاتی۔ بھتہ خوری عام ہے اور یہ کروڑوں کا کاروبار ہے، خفیہ اداروں کو ان کا علم ہوتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے کیونکہ ان سے کام لینے والے خود شک سے بالا تر نہیں ہیں۔ جس نے بھتہ دینے سے انکار کیا یا تو وہ جان سے مارا گیا یا اسکی دوکان یا فیکٹری کو آگ لگا کر تباہ کردیا۔ دیکھئے گندی سیاست کے نتیجہ میں جو سیاست دان آتے ہیں وہ مناسب قوانین کے ہوتے ہوئے بھی نہ ان پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی کروانا چاہتے ہیں گویا خود قانون نافذ کرنے والے ادارے بے ضابطگی کا شکار ہیں۔
” چوں کُفر اَز کعبہ بَر خیزَد کُجا مانَد مسلمانی “
جس ادارہ پر، جن اشیاء پر حکومت نے ہاتھ ڈالا وہ تباہ ہوگیا، پی آئی اے، اسٹیل مل، بجلی کی فراہمی، ریلوے غرض آپ کس کس چیز کا نام لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعلی نے ہمارے حکمرانوں کی سمجھنے کی صلاحیت، سننے کی صلاحیت اور دیکھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ ہماری تاریخ سنہرے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حضرت عمر کتنی وسیع مملکت کے سربراہ تھے دولت پر نظر نہ ڈالی، اسی طرح حضرت عمر بن عبدلعزیز کس قدر مالدار تھے حکمران بنتے ہی تمام دولت بانٹ دی۔ ان دونوں کی اعلیٰ کارکردگی اور نظام مملکت کی مثالیں تاریخ کے سنہرے باب ہیں۔ ہمارے حکمراں بس دولت سمیٹنے میں لگے ہیں اور عاقبت کی نہیں سوچتے کہ اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی بھی کرنا ہے۔
اپنے حکمرانوں کے کردار کو دیکھتا ہوں، ان کی دولت حاصل کرنے کی حرص و طمع اور بُلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر اس غلط فہمی میں رہنا کہ ان کو کچھ نہ ہوگا تو مجھے مشہور صوفی بزرگ فریدالدّین عطار کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آجاتا ہے۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
” ایک بادشاہ یعنی حُکمران ِ وقت نے ایک نہایت ہی عالیشان محل تعمیر کیا اور اس پر بہت بڑی رقم خرچ کی۔ اندر کے ستونوں پر سونا لگایا گیا، اس پر نہایت عالیشان بُرجیاں بنائی گئیں اور اندر نہایت ہی قیمتی اور اعلیٰ قالین بچھائے اور سونے کی پتی سے مُرصّع فرنیچر بچھایا۔ جب یہ محل تیار ہوگیا تو حکمراں نے دور دور سے مہمانوں کو دعوت دی کہ محل میں ان کی خاطر تواضع کرے۔ لوگوں کی آنکھیں اتنا خوبصورت محل دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دعوت کے بعد اس نے مہمانوں سے پوچھا کہ کیا اُنھوں نے کبھی ایسا خوبصورت و عالیشان محل دیکھا ہے۔ کیا اس کی تعمیر و خوش نمائی میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ تمام مہمانوں نے یک زبان کہا کہ اُنھوں نے زندگی میں ایسا عالیشان محل نہیں دیکھا اور قیامت تک کوئی ایسا محل نہ دیکھ سکے گا۔ لیکن ایک درویش صفت شخص بول اُٹھا کہ عالیجاہ میں اس محل میں ایک دراڑ دیکھتا ہوں جس نے اس کو عیب دار کردیا ہے۔ اگر یہ عیب نہ ہوتا تو شاید جنّت سے فرشتے آپ کے لئے تحائف لاتے۔ بادشاہ نے غصّہ سے کہا کہ مجھے کوئی عیب نظر نہیں آتا تم ایک جاہل انسان ہو اور ایسی بات کہہ کر خود کو اہم بنانا چاہتے ہو۔ درویش نے کہا ، نہیں عالیجاہ ! میں جس دراڑ کی بات کررہا ہوں ۔یہ وہ دراڑ ہے جس کے ذریعہ ملک الموت حضرت عزرائیل داخل ہونگے تو آپ ان کو روک نہ سکیں گے اور یہ تمام محل، اسکی شان و شوکت، قیمتی سامان کچھ کام نہ آئیگا۔ جب موت آئیگی تو آپ ایک مُٹھی بھر خاک میں تبدیل ہوجائینگے اور یہ وہ بات ہے جو آپ کے محل کو عیب دار بنا رہی ہے۔ کوئی چیز بھی اس چیز کو مستحکم نہیں بنا سکتی جو غیر مستحکم ہو۔ اپنی خوشیاں اور اُمیدیں اس محل سے وابستہ نہ کریں، اَپنے تکبّرانہ رویّہ کے بھنور میں نہ گھومیں۔ اگر کوئی فرد بادشاہ سے کھل کر صحیح بات نہیں کرتا تو یہ دونوں کی نہایت بدبختی ہے“۔
اے اہل اقتدار اس قصّہ سے سبق حاصل کرو کہ جو کچھ جمع کرنے میں لگے ہوں وہ کچھ کام نہ آئے گا اور کچھ عرصہ بعد تم بھی ایک مُٹھی بھر خاک میں تبدیل ہوجاؤ گے جس طرح تمہارے پیشرو خاک میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک ٹی وی اِسٹیشن نے اطلاع دی کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ایک عِشائیہ خاص طور پر ہم جنس جنسی تعلقات (یعنی gay افراد) رکھنے والے لوگوں کے لیئے منعقد ہوا۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سفارت خانے نے ایک پریس ریلیز کرکے اس کی تصدیق کی اور کہا گیا کہ ان لوگوں کو دوسرے اَفراد کی طرح اپنی زندگی گزارنے کے پورے حقوق حاصل ہیں۔ حوالہ دیا گیا کہ امریکی صدر اُوباما نے ایک بل کی منظوری بھی دیدی ہے اور امریکی افواج میں بھی ہم جنسوں میں ساتھ رہنا، جنسی تعلقات قائم کرنا اور شادیوں کی تک اجازت دیدی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے چند ”روشن دماغ“ اور مغربی تہذیب کے شیدائی اس چیز کو پسند کریں اور اپنانے میں جھجھک محسوس نہ کریں مگر خود مغربی ممالک نے اس کے خطرناک نتائج سے عوام کو خبردار کیا ہے۔ وہاں لاتعداد لوگ جن میں چند بین الاقوامی شہرت یافتہ افراد بھی شامل ہیں اس عمل کے نتیجہ میں ایڈز (aids) جیسی مہلک بیماری کا شکار ہوکر نہایت عبرتناک موت کا شکار ہوگئے۔ آپ نے اکثر ٹی وی پر اس مرض سے متاثرہ لوگوں کی ہولناک اور عبرتناک تصاویر دیکھی ہیں۔ ان کو دیکھ کر سخت خوف آتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مرض افریقہ کے سیاہ فام عوام میں بہت تیزی سے پھیل رہاہے جہاں نہ ہی علاج کی اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کی سہولتیں موجود ہیں۔
برلن (جرمنی) میں دو سال تعلیم حاصل کرکے جب میں ہالینڈ میں تعلیم مکمل کرنے چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ جرمنی کے مقابلہ میں وہاں ہر طرح کی آزادی تھی اور اخلاقیات کی حدود سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ آہستہ آہستہ وہاں کھلے عام ہم جنسی تعلقات عام ہوگئے اور اس کو ہر ایک نے بلاچوں چراں قبول کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک دن ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ گرجا میں دو مردوں کی شادی انجام دی گئی۔ ایک رپورٹر نے جب ان میں سے ایک سے پوچھا کہ بیگم کون ہے اور میاں کون ہے تو ایک نے شرما کر اور اداکاری سے کہا کہ میں بیگم ہوں اور یہ میرا شوہر ہے، یہ بے حد مشفق ہے مجھے ناشتہ بنا کر دیتا ہے، گھر کے کام کاج میں مدد دیتا ہے۔ لیجئے جھگڑا ختم۔ نہ ساس نہ سُسر اور نہ بچّے۔ مغربی ممالک میں مردوں کا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اور عورتوں کا عورتوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا خاصا عام ہے اورکوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ یہ اپنے اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کی بات ہے میں تو اس کو صرف اپنے مذہب یعنی اسلام اور فرمودات اِلٰہی کی روشنی میں زیر بحث لارہا ہوں۔نوٹ :فیس بک رائے دینے کیلئے
http : // www .facebook .com / pages / Pakistan - Awami - Inqelaab / 220122501357863
صدیوں پیشتر حضرت ابراہیم اور ان کے ہم عصر حضرت لوط کے زمانہ یہ لعنت یعنی ہم جنسی صحبت عروج پر پہونچ گئی۔ حضرت لوط نے لوگوں کو اس گندے کام سے باز رہنے کی بے حد کوشش کی مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور بھول گئے کہ مجرم قوم سے اللہ کا سخت عذاب پھیرا نہیں جاتا (سورة انعام) ۔ اور یہ کہ ۔ ”ہم ان سے پہلے کتنی ہی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں حالانکہ وہ سروسامان اور نام و نمود میں (ان کافروں سے) کہیں اچھے تھے“ (سورة مریم)۔ اور یہ کہ۔ ”ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرڈالا ہے کیا تم ان میں سے کسی کی آہٹ پاتے یا ان کی بھنک سنتے ہو“ (سورة مریم)۔ اور یہ کہ۔ ”ان سے پہلے کتنی قومیں ہم نے ہلاک کردیں جو ان سے قوّت میں بڑھ چڑھ کر تھیں پھر (عذاب سے بچنے کے لیے) یہ لوگ شہروں میں پناہ تلاش کرنے لگے تھے لیکن کیا (اللہ کے عذاب سے بچنے کی) کوئی پناہ گاہ ہے“ (سورة ق)۔ غرض یہ کہ اللہ تعلی کی جانب سے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے ذریعہ نصیحتوں اور انتباہ کے باوجود قوم لوط اپنی بد فعلیوں سے باز نہیں آئی اور پھر اللہ تعلی کے عتاب نے جس طرح ان کو پکڑا وہ تاریخ کا عبرتناک واقعہ ہے۔ اللہ تعلی نے اس کی تفصیل کلام مجید میں یوں فرمائی ہے۔
(1) ”اور (لوط علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرو، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم جانتے بوجھتے بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو؟ تم تو بڑے ہی جاہل لوگ ہو تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے باہر نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ سو ہم نے اس کو اور اس کے کنبہ کو نجات دی بجز اس کی بیوی کے۔ ہم اس کو پیچھے رہنے والوں میں ٹھہرا چکے ہیں اور ہم نے ان پر پتھروں کی خوب بارش کی سو جن لوگوں کو پہلے ہی سے ڈرا یاجا چکا تھا ان پر کیسی بارش ہوئی“ (سورہ نمل۔ آیات 54-58 ) ۔(2) ”اور ان لوگوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا حال سنا دیجئے۔ جب وہ (فرشتے) ان کے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے (اول) سلام کہا ابراہیم نے کہا کہ ”ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے“۔ انہوں نے کہا کہ ”آپ ڈریئے نہیں ہم تو آپ کو ایک (بڑے) صاحب علم بیٹے (کی پیدائش) کی خوشخبری دینے آئے ہیں“۔ ابرہیم نے کہا کہ کیا تم مجھے (اب) خوشخبری دیتے ہو کہ جب مجھ پر بڑھاپا چھا چکا ہے۔ سو کس چیز کی خوش خبری دیتے ہو۔ انہوں نے کہا ہم آپ کو ٹھیک خوشخبری دیتے ہیں سو آپ ناامید نہ ہوں۔ ابراہیم نے کہا اور اللہ کی رحمت سے بجز گمراہوں کے کون ناامید ہوتا ہے۔ (پھر ابراہیم) نے کہا اے (اللہ کے) فرستادو! (فرشتوں) تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم (لوط) کی نافرمان قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں (عذاب نازل کرنے کے لئے) بجز لوط کے کنبے کے کہ ان سب کو ہم بچا لیں گے بجز اس کی بیوی کے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ پھر جب لوط کے گھر والوں کے پاس وہ (فرشتے) پہنچے تو لوط نے کہا کہ ”بلاشبہ تم اجنبی لوگ ہو“ فرشتوں نے کہا بلکہ ہم تمہارے پاس وہ چیز لیکر آئے ہیں جس کے بارہ میں (یہ لوگ) جھگڑتے تھے۔ اور ہم آپ کے پاس وہ چیز لے کر آئے ہیں جو حق ہے۔ اور بیشک ہم سچ بولنے والے ہیں۔ سو تم اپنے کنبہ کو لیکر رات کو کسی وقت میں کوچ کرو اور تم ان (کنبہ والوں) کے پیچھے پیچھے چلنا۔ اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اور جہاں تمہیں حکم دیا گیا ہے ادھر چلتے جاؤ“۔ اور ہم نے لوط پر یہ بات قطعی طور پر واضع کردی کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اور (لوط کے) شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے آئے۔ لوط نے کہا کہ بلاشبہ یہ میرے مہمان ہیں سو (ان کے سامنے) مجھے ذلیل مت کرو۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے بے آبرو نہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے دنیا بھر (کی حمایت) سے تجھے منع نہیں کیا ہے۔“ لوط نے کہا کہ یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں (تم ان کی طرف رجوع کرو) اگر تمھیں (کچھ ) کرنا ہی ہے۔ (اے نبی!) تیری جان کی قسم! بلا شبہ وہ اپنی مستی میں اندھے ہو رہے تھے۔ پھر دن نکلتے ہی انہیں (ایک) ہولناک آواز نے آلیا۔ پھر ہم نے ان کی بستیوں کو زیر زبر کردیا۔ اور ان پر پکّی مٹی کے پتھروں کی بارش کی۔ بلاشبہ اس تمام واقعہ میں اہل بصیرت کے لئے (عبرت کا) بڑا سامان ہے۔ اور بلاشبہ یہ بستیاں سیدھے راستہ پر (واقع) ہیں۔ بلاشبہ اس میں ایمانداروں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔“ (سورہ حجر 51-77 )“۔(3) لوط کی قوم نے (اللہ) کے پیغامبروں کو جھٹلایا۔ جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ ”کیا تم (اللہ) سے ڈرتے نہیں ہو“۔ بلا شبہ میں تمہاری طرف امانت دار رسول (بنا کر بھیجا گیا) ہوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں کچھ اس پر تم سے معاوضہ طلب نہیں کرتا ہوں۔ میرا معاوضہ تو بس اللہ کے ذمہ ہے۔ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ کیا تم لوگ تمام دنیا کے لوگوں میں سے (ایسے ہو کہ) ہم جنسوں سے شہوت پوری کرتے ہو۔ اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے تمہاری بیویاں پیدا کردی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو۔ تم تو بڑے حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ انھوں نے ”کہا اے لوط!اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو ضرور (یہاں سے) باہر نکال دیا جائے گا۔ لوط نے کہا کہ میں تو تمہاری کارستانیوں سے بڑا بیزار ہوں۔ (اور پھر انہوں نے دعا کی کہ) اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے کنبہ کو اس کام کے وبال سے جو یہ کرتے ہیں نجات دے۔ سو ہم نے اس کو اور اس کے کنبہ کو بچا لیا۔ بجز ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ پھر ہم نے باقی سب کو ھلاک کردیا۔ اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) سخت بارش کی۔ پھر جن لوگوں کو ڈرایا جا چکا تھا ان پر (پتھروں کی) خوب بارش ہوئی۔ اس (تمام قصہ میں عبرت کے لئے) بڑی نشانی ہے۔ اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور بلا شبہ آپ کا پروردگار ہی (بڑا) زبردست، رحم کرنے والا ہے۔“ (سورہ شعراء ۔ (160-175 ۔(4) ”اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام کو اپنا پیغامبر بنا کر بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوئے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں کسی نے نہیں کی۔ (جاری ہے)
بلاشبہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ تم بڑے ہی حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ اور ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے انہیں اپنے شہر سے باہر نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ سو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بجز ان کی بیوی کے نجات دی۔ وہ (ان کی بیوی) پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی اور ہم نے ان پر خوب (پتھروں کا) مینہ برسایا۔ پھر دیکھئے کہ مجرموں کا کیسا انجام ہوا۔“ (سورة اعراف 80-84) ۔
(5) ”اور یہ واقعہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) خوشخبری لیکر آئے اور انہوں نے (انہیں) سلام کیا۔ ابراہیم نے انہیں کہا ”سلام“ (اور) پھر نہ دیر کی کہ ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (بچھڑے) تک نہیں پہنچ رہے ہیں تو اس (ابراہیم)نے انہیں اجنبی سمجھا اور ان سے خوف محسوس کیا۔ انہوں نے کہا ”آپ خوف نہ کیجئے۔ بلا شبہ ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ اور (اس وقت)ابراہیم کی بیوی کھڑی تھی سو وہ (یہ سن کر) ہنسی۔ تو ہم نے اسے اسحق (کی پیدائش) کی خوشخبری دی اور اسحق کے بعد یعقوب (کی) وہ کہنے لگی ”اے براھو! کیا میرے بچہ ہوگا اور میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرا شوہر (بھی) بوڑھا (ہوچکا) ہے یہ تو عجیب بات ہوئی! “ فرشتوں نے کہا ”کیا تم اللہ کے فیصلے پر متعجب ہو“ اے (ابراہیم کے) گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اوراس کی برکتیں ہیں۔ بلاشبہ وہ تعریف کیا ہوا ہے بزرگی والا ہے پھر جب ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف جاتا رہا۔ اور اسے خوشخبری پہنچ گئی تو وہ ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے۔ واقعی ابراہیم بڑے بردبار، درد مند (اور اللہ کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔ ہم نے کہا ”اے ابراہیم اس (قوم لوط) کے بارے میں جھگڑنے ) کو چھوڑ دیں۔ بلاشبہ آپ کے پروردگار کا فیصلہ آچکا ہے۔ اور بلا شبہ ان پر عذاب آکر ہی رہے گا۔ (اور یہ) ٹلنے والا نہیں۔ اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (عذاب کے فرشتے ) لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے آنے سے غمگین ہوا اور ان کی وجہ سے دل میں (بھی) تنگ ہوا۔ اور کہنے لگا کہ یہ بڑا ہی سخت دن ہے۔ اور اس کے پاس اس کی قوم کے لوگ بے اختیار دوڑتے ہوئے آئے اور یہ لوگ تو پہلے ہی سے برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ ”اے میری قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں تمہارے لئے زیادہ پاک صاف ہیں تو تم اللہ سے ڈرو۔ اور میرے مہمانوں کے سامنے مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی معاملہ فہم آدمی نہیں ہے؟“ وہ کہنے لگے کہ تجھے تو معلوم ہی ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ۔ اور تجھے خوب معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”کاش۔ مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی۔ یا (پھر) میں کسی زبردست سہارے کی پناہ لیتا۔ فرشتوں نے کہا۔ اے لوط! بیشک ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ تم تک ہر گز نہ پہنچ سکیں گے۔ سو تو رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ کوچ کرے، اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ بجز تیری بیوی کے کہ اس پر وہی بلا آنے والی ہے جو ان سب پر آئے گی۔ ان کے وعدہ کا وقت صبح ہے۔ کیا صبح اب قریب نہیں۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آگیا تو ہم نے ان کی بستیاں الٹ دیں اور اس سرزمین پر ہم نے پکّی مٹی کے تہ بہ تہ پتھروں کی (مسلسل) بارش کی جن پر تیرے پروردگار کی طرف سے خاص نشان بھی تھے اور وہ بستیاں ان (مکہ کے) ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں۔ (سورة ھود۔ آیات 69-83 )۔
(6) ”اور لوط (علیہ السلام) کا قصہ یاد کیجئے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بلاشبہ تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے تمام جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔ کیا (عورتوں کو چھوڑ کر) مردوں سے جنسی خواہش پوری کرتے ہو۔ اور تم راستوں پر ڈاکے ڈالتے ہو، اور تم لوگ اپنی مجلسوں میں (کھلے بندوں) برے کام کرتے ہو۔ تو (اس پر) اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا بجز اس کے کہ وہ کہنے لگے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ انہوں نے کہا۔ اے میرے پروردگار! مجھے (ان) شریر لوگوں کے خلاف مدد عطا فرما۔ اور جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) خوشخبری لیکر آئے تو انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں“ (اس لئے کہ) بلاشبہ اس کے رہنے والے بڑے ہی ظالم لوگ ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ ”اس میں تو لوط بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ اس (بستی) میں کون کون ہے۔ ہم لوط اور اس کے گھر والوں کو ضرور بچا لیں گے۔ بجز اس کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط کے پاس آئے تو اسے ان کا آنا ناگوار ہوا۔ اور وہ ان کے بارے میں تنگدل ہوا۔ تو فرشتوں نے کہا آپ ڈرئیے نہیں اور نہ غمگین ہو جائیے۔ ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچا لیں گے بجز آپ کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ ہم اس بستی والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس لئے کہ یہ بدکاری کرتے رہے ہیں۔ اور ہم نے سمجھ دار لوگوں (کی عبرت) کے لئے اس بستی کے نمایاں آثار باقی رہنے دیئے۔“ (سورة عنکبوت۔ آیات 28-35 )۔
میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا پکّا ہے اور اس نے ان آیات میں جو ایسے غلط کاموں کے بارے میں سخت انتباہ کیا ہے اور عذاب و عتاب سے خبردار کیا ہے وہ یقینا دیر یا بدیر ان غلط کام، غیر اخلاقی عمل کرنے والوں کی گرفت کرے گا۔ اس نے ایسے کام کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان کے بارے میں اَمریکہ کا جو رویّہ رہا ہے اس کو دیکھ کر پاکستان کی پرانی تاریخ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد لیاقت علی خان امریکہ گئے اور وہاں کی شان و شوکت دیکھ کر ایسے مرعوب ہوئے کہ آتے وقت ہماری ہمیّت وہیں چھوڑ آئے۔ میں چار پانچ سال بعد کالج کا طالب علم تھا اور میں اور میرے عزیز بھو پالی دوست اقبال خان کالج کے بعد شہر میں گھوما پھرا کرتے تھے اس وقت کراچی بہت ہی صاف ستھرا شہر تھا، امن و امان تھا ، آبادی بہت کم تھی اور اشیائے خور و نوش بے حدسستی تھیں۔ لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے بعد ہمیں بندر روڈ پر گاندھی گارڈن روڈ پر واقع بڑی عمارت کے اندر آتے جاتے لاتعداد امریکن فوجی نظر آنے لگے، کراچی اس وقت دارالحکومت تھا۔ امریکی بحری جہاز خیر سگالی دوروں پر آنے لگے۔ شہر میں ان کے ملاح گھومنے لگے اور ساتھ اعلیٰ عہدیداروں کا تانتا لگ گیا، بہت سمجھداری اور سازش سے زمین تیار کی گئی اور ایوب خان کو تیار کرکے ملک میں فوجی آمریت مسلّط کردی گئی۔ امریکنوں کو فوجی ڈکٹیٹر بہت مرغوب ہوتا ہے کہ ملک میں اس کی حیثیت غیر قانونی اور مشکوک ہوتی ہے اور وہ غیر ملکی بڑی قوّت کا سہارا لے کر اپنے دور کو طوالت دینا چاہتا ہے امریکی کچھ ہڈیاں، کچھ گوشت کے ٹکڑے سامنے ڈالدیتے ہیں اور ایسا حکمراں دُم ہلا کر ان کا فرمانبردار بن جاتا ہے۔ غرض یہ کہ جب حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایوب خان نے آمریت مسلّط کی تو پورے شہر میں امریکی فوجی نظر آنے لگے۔ ہمیں روس کے خلاف محاذ میں شامل کرلیا گیا اور ہم سینٹو (CENTO) اور سیٹو (SEATO) کے معاہدوں میں نتھی ہوگئے، نہ پارلیمنٹ سے اور نہ عوامی نمائندوں سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ ڈکٹیٹر سیاہ، سفید کا مالک ہوتا ہے اور پرانی ریاستوں کے نوابوں اور راجاؤں کی طرح اس کو موت اور زندگی پر اختیار ہوتا ہے۔ گویا ہم پورے پچاس سال سے امریکی غلامی کا شکار ہیں۔ بھٹو صاحب کے مختصر پانچ سالہ دور کے علاوہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں ہر نیا حکمراں خود کر شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کی دوڑمیں ہے ،امریکی غلامی کا علم بردار ایوب خان اور عراق کے شاہ فیصل اور امیر عبداللہ کا عبرتناک انجام ہو۔ ایوب خان نے تو بغیر پارلیمنٹ کی اجازت کے پشاور کے قریب امریکنوں کو ایک اےئر بیس بھی دے دی جہاں سے مشہور بدنام زمانہ یو۔ٹو جاسوسی جہاز اُڑ کر روس کی فوجی تنصیبات کی تصاویر بناتے تھے۔ آخر کار ایک دن روس نے اس جہاز کو مار گرایا اور پائلٹ گیری پاورس کو زندہ پکڑ کر دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اس کے بعد روس کے وزیر اعظم خروشیف نے پشاور پر انگلی رکھ کر وارننگ دی کہ اگر اب کوئی جہاز وہاں سے روس پر جاسوسی کے لئے اُڑا تو یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔
بھٹو صاحب کے زمانہ میں (وہ بھی مشرقی پاکستان کے معاملہ میں ہم سے غدّاری کی وجہ سے) امریکہ سے تعلق ختم ہوگئے پھر جنرل ضیاء نے افغان جنگ کے دوران فوراً امریکہ کے ساتھ اتحاد بنا لیا۔ لیکن ان کو داد دینا پڑتی ہے کہ اُنھوں نے ملکی مفاد اور وقار کو نہیں بیچا۔ یہی نہیں بلکہ ایٹمی پروگرام کو جاری رکھ کر منطقی انجام تک پہونچایا۔ ان کے دور میں ہی ہم نے 1984 کے اوائل میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔ ضیاء الحق کے بعد چار سال تک حالت ٹھیک رہے مگر پھر بڑے بش نے ہماری امداد بند کردی۔ دیکھئے 65 جنگ کے بعد اور پھر بھٹوصاحب کے دور حکومت اور جنرل ضیا کے ابتدائی تین سال میں اور پھر نوّے کے پورے عشرے میں ہم بغیر امریکی امداد کے زندہ رہے اور نہ بھوکے مرے اور نہ بھکاری بنے بلکہ باوقار زندگی گزاری اور غیرت کو فروخت نہیں کیا مگر پھر سب سے بے غیرت اور ملک دشمن ڈکٹیٹر مشرف آیا اور اس نے اس ملک کو طوائفوں کے بھاؤ فروخت کردیا اور بد قسمتی سے پچھلے ساڑھے تین سال میں جمہوری حکومت نے آمرانہ حکومتوں کو بھی مات کردیا ہے۔ وکی لیکس کے اِنکشافات جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
میں نے 7 اکتوبر 2009 کو اسی اخبار میں ایک کالم ’غیرت تو کہاں ہے‘ کے موضوع پر لکھا تھا اور پھر اس کے بعد 2 دسمبر 2009 کو ایک کالم ’بے غیرتی‘ کے موضوع پر لکھا تھا۔ ان مضامین نے ہمارے دانشوروں اور نام نہاد دانشوروں میں خاصی بحث چھیڑ دی تھی۔ میں نے غیرت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ یہ عربی کا لفظ ہے اور عربی میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس میں عزّت نفس، وقار، بہادری، خودداری اور اعلیٰ ترین اقتدار سے وابستگی اور ان اقدار کی خاطر ہر قربانی دینے کے تصورات شامل ہیں۔ میں نے غیرت کے واقعہ کی مثال بھی دی تھی کہ کسطرح غیّور عربی شاعر عمر بن کلثوم نے اپنی ماں کی ہتکِّ عزّت کا بدلہ حکمرانِ وقت عمر بن ہند کا سر قلم کرکے لیا تھا اور برصغیر میں سکھوں کی غیرت کی وجہ سے انتقام لینے کی مثالیں بھی بیان کی تھیں۔ انسان کے اخلاقی کردار کے دو پہلو بے غیرتی کی عکاسی کرتے ہیں ایک منافقت اور دوسرے بے حیائی۔ منافقت یعنی قول و عمل میں تضاد، کھلے عام دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدہ کرنا، اپنے اوپر بھروسہ کرنیوالوں کو دھوکہ دینا یہ سب بے حیائی اور بے غیرتی کی بدترین مثالیں ہیں۔
دیکھئے ایک معزز باغیرت اور ایک ذلیل اور بے غیرت شخص کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک غیرت مند اور دوسرا بے غیرت ہوتا ہے۔ ایک پاکباز خاتون اور طوائف میں اگر کچھ بنیادی فرق ہے تو وہ غیرت اور بے غیرتی کا ہے۔ طوائف تھوڑے سے مالی فائدہ کے لئے اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کو قربان کردیتی ہے جبکہ ایک پاکباز عورت اپنی عزّت کے لئے جان دیدیتی ہے مگر اس کا سودا کسی قیمت پر نہیں کرتی۔ میں اس موضوع پر اس لئے تبصرہ کررہا ہوں کہ پچھلے چند برسوں میں بے غیرت حکمرانوں نے ہماری قوم کو ایک طوائف بنا کر بازار میں بٹھا دیا ہے۔ مغربی ممالک میں بازارحسن میں حسینائیں ایک اسٹول پر ایک مخصوص اندازسے حُسن کی نمائش کرتی ہیں۔ گاہک آتے ہیں دیکھتے ہیں اور نرخ طے کرکے اپنی ہوس پوری کرلیتے ہیں۔ یہ گاہک بااختیار ہوتا ہے جس کو چاہے پسند کرے جس کو چاہے رَد کردے۔ طوائف کو کچھ اختیار نہیں اسکی حیثیت ایک برائے فروخت چیز کی ہے وہ بار بار عصمت بیچتی ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے اور خود تو خود اُنھوں نے بے چارے کمزور عوام کو بھی اسی زمرہ میں شامل کردیا ہے۔ اس کا موجودہ سلسلہ مشرف نے کیا جو خود کو کمانڈو بتاتا تھا مگر ایک فون کال میں ملک کی خود مختاری، غیرت، آزادی سب کچھ فروخت کردیا۔ موجودہ حکمراں اس سے بدتر ثابت ہوئے ہیں کہ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور امریکی سفیر کی خدمت میں اس طرح پیش ہو ہو کر حکایات بیان کرتے ہیں جسطرح بیربل اکبر کو خوش کیا کرتا تھا۔ ان پچھلے تین برسوں میں ہمارے ملک، افواج اور عوام کی جوبے عزّتی کی گئی ہے اسکی مثال پچھلے ساٹھ سال میں نہیں ملتی اور یہ سب کچھ صرف ایک ارب ڈالر کے لئے جو بے حد سخت شرائط اور آزادی فروخت کرنے کے عِوّض ملتے ہیں اور اس کا خاصا بڑا حصّہ امریکن خود ہی کھا جاتے ہیں۔ دوسری طرف آپ دیکھئے کہ ہمارے غیر ملکوں میں مقیم شہری کس طرح خون پسینہ ایک کرکے گیارہ ارب ڈالر بھیجدیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کو یہ یقین ہو جائے کہ حکمراں مخلص ہیں اور عوام کی فلاح اور بہبودی کے کام اور خدمت صدق دل سے کررہے ہیں تو یہ رقم بہت جلد پندرہ ارب تک جاسکتی ہے۔ ہم اس وقت اُسی اسٹول پر بیٹھ کر طوائف کی طرح اپنی عزّت و غیرت چند ٹِکوں کی خاطر فروخت کررہے ہیں اور بے غیرتی کا لبادہ اوڑھے خوش ہیں۔
کالم کا جو عنوان چنا ہے وہ بہت پہلے ایک فلم کی غزل کا ہے۔ یہ راجیندر کرشن جو میانوالی کے رہنے والے تھے اور پھر ہندوستان ہجرت کرگئے تھے ان کی مشہور غزل کا شعر ہے۔
یہ گھر میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ
تم جس پہ نظر ڈالو اس دل کا خدا حافط
اس وقت ملک کی اور ملک کے اداروں کا یہی حال ہے اِدھر ہمارے مہربان حکمرانوں کی نظرِشفقت اِن پر پڑی اور ان کافوراً بیڑہ غرق، بس ان اداروں کا خدا حافظ۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں کی نظر تمام اداروں پر پڑتی جارہی ہے اور وہ تباہ ہوتے جارہے ہیں۔
اب موجودہ اَصحاب اقتدار پر نظر پڑتی ہے تو فوراً نظر دہقانی# صاحب کا یہ شعر کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
ہمارے بھوپال کے ایک سیدھے سادھے بزرگ سے بات چیت ہورہی تھی۔ پاکستان کی موجودہ تشویناک حالت پر بات ہونے لگی تو بولے میاں یہاں تو بس دو ہی چیزوں کی قدروقیمت اور اہمیت ہے۔ میں نے دریافت کیا کونسی؟ بولے، ”ایک زمین کی اور ایک کمین کی“ سبحان اللہ کیا عقل و فہم کی بات کی ہے۔ ہر جانب یہی چیز نظر آتی ہے۔
اپنی آراء کیلئے نوٹ فرمائیں : www . facebook . com / pages / pakistan - awami - inqelaab / 220122501357863
”جنوں سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی“ ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جس کو سنتے ہی میرا قلب بے قرار ہوجاتا ہے۔ میں ماضی کی محبان پاکستان کی قربانیوں کو یاد کرنے لگتا ہوں۔ نگاہوں کے سامنے وہ تمام خوشگوار اور غمناک و دردناک واقعات نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ جوش و خروش، جنوں و عشق پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے، جلسے، جلوس جھنڈے لہرانا اور پھر تقسیم کے وقت لاکھوں لوگوں کی بہیمانہ قتل و غارتگری، لاشوں سے پُر ٹرینوں کی بھوپال (اور لاہور) میں آمد،اور اب اُن تاریخی فلمی تراشوں سے اُجڑے، مرے پٹے بوڑھوں، بچّوں کی پیدل، بذریعہ بیل گاڑیوں اور بذریعہ ٹرین لاہور میں آمد۔ یہ سب کچھ نظروں میں گھومنے لگتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک فلاحی ادارہ کی طرف سے ایک چندہ جمع کرنے کے لئے ڈنر کے انتظام میں چند مُصوّروں کی بنائی ہوئی اور عطا کردہ تصویریں نیلام کی گئیں۔ ان میں لاہور کے مشہور مصوّر جناب ایرانی صاحب کی تیار کردہ بڑی تصویر جنگ آزادی کا خلاصہ تھا۔ ایک ٹرین لاہور اسٹیشن پر کھڑی تھی اور اس میں سے لوگ شہیدوں کی خون آلودہ لاشیں باہر تختوں پر رکھ رہے تھے ،وہ تصویرمیں نے فوراً ڈیڑہ لاکھ روپیہ میں خرید لی اور اپنے پاس رکھ کر سوچنے لگا کہ وہ کونسی مناسب جگہ ہوگی جہاں یہ سب کی نگاہ اور توجہ کا مرکز بن سکے گی۔ پھر مجھے جناب وسیم سجاد یاد آئے۔ اس وقت سینیٹ کے چےئرمین تھے، محب وطن ہیں، ان سے بات کی اور میں نے اس کا تذکرہ کیا۔ اُنھوں نے کہا وہ سینیٹ کی عمارت میں داخلہ کے دروازہ کے پاس اس کو لگانا پسند کرینگے۔ دن اور وقت طے پاگئے۔ میں وہ تصویر لے کر پہنچ گیا۔ داخلہ کے دروازے کے پاس بالکل نمایاں دیوار پر یہ تصویر لگا دی گئی۔ اس کے نیچے میں نے یہ تحریر نصب کرادی۔ "Hard & Bloody Road To Independence" ۔صحیح تاریخ یاد نہیں لیکن یہ دن اس وجہ سے یاد ہے کہ ہم تصویر لگانے کے بعد کھڑے باتیں کررہے تھے کہ مصری سفارت خانہ میں دہشت گردوں نے بہت ہی خونریز دھماکہ کیا اور ہم جہاں کھڑے تھے وہاں کے شیشے لرز گئے تھے۔دیکھئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ (۱) آزادی کی نعمت بغیر قربانیوں کے حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ (۲) قربانی اخلاص کی نشانی ہے، آپ کتنی ہی عبادت کرلیں جب تک اس میں خلوص نہ ہو اور قربانی کا جذبہ شامل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں فرمایا ہے۔ ”جب تم اپنی پسندیدہ چیزوں سے کچھ راہ خدا میں خرچ نہ کروگے ہرگز نیکی کے درجہ پر فائز نہیں ہوسکتے اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ اس کو ضرور جانتا ہے۔“
(سورہ عمران آیت92 )۔ اس فرمان الٰہی کا جیگتا جاگتا ثبوت ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے وقت دیا۔ یہ مجاہد اپنے پیچھے نہ صرف مکانات، حویلیاں، کھیت، جائدادیں اور رقوم چھوڑ آئے بلکہ اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب کی جانیں بھی قربان کردیں۔ دفتروں میں نہ کاغذ تھا، نہ پنسل اور نہ ہی پن۔ لوگ خود کاغذ، پنسل اور پن کی جگہ ببول کے کانٹے لے کر جاتے تھے، مخیر حضرات نے اپنی پوری پونجی حکومت بیچ کر گزارہ کیا۔ بعد میں اسی جذبہ کی جھلک ہمیں 1965 ء کی جنگ میں نظر آئی۔ ہم نے کشمیر میں دخل اندازی کی اور ہندوستان نے لاہور پر حملہ کرکے جواب دیا۔ لوگ بھٹو پر الزام لگاتے ہیں اگر بھٹو فوج اور جرنیلوں کو اس طرح استعمال کرسکتا تھا تو پھر ایوب خان گدھے استعمال کرنے اور پتھر توڑنے کے لئے مناسب تھا۔ بہرحال حکمرانوں کی غلط حرکتوں کو نظر انداز کرکے لوگ جذبہ شہادت کے نشہ میں خود سرحد کی جانب دور پڑے، فوجیوں کو کھانا پانی پہنچایا، ان کی تیمارداری کی۔ جب ایوب خان نے ایک پیسے میں دو ٹینک (یعنی اگر ہر پاکستانی ایک پیسہ دے تو دو ٹینک خریدے جاسکتے تھے) کا نعرہ لگایا تو لوگوں نے اپنی جمع شدہ پونجی دیدی اور خواتین نے زیورات دیدیے۔ جوان بیٹیوں نے اپنے جہیز کے زیورات قربان کردیے۔ دشمن سے تو جان بچ گئی مگر نااہل ڈکٹیٹروں سے نجات نہیں ملی۔ اس وقت کی داستانیں سن کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کی مشرقی پاکستان میں ذلّت آمیز شکست اور فوج کے ناقابل فراموش ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کے بعد بھٹو نے ملک کو سنبھالا اور سخت محنت کرکے ہندوستان سے 92 ہزار قیدیوں کو چھڑا کر لائے (بعد میں ان ہی نے انھیں تختہ دار پر لٹکادیا۔ گویا یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا۔ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں) اور عہد کیا کہ پاکستان کوایسی ذلّت کا کبھی دوبارہ سامنا نہ کرنے دینگے۔ اُنھوں نے ایٹم بم بنانے کا عزم کیا۔ میں نے ہالینڈ میں اعلیٰ ملازمت چھوڑ دی، اپنا اعلیٰ مستقبل تباہ کردیا اور پاکستان آکر بھٹو صاحب کے اس مشن کی تکمیل کا چیلنج قبول کرلیا۔ یہ قربانی کا جذبہ تھا، ملک سے بے پناہ محبت تھی۔ لاتعداد صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ مخلص، محب وطن ساتھیوں کی مدد سے بہت کم عرصہ میں پاکستان کو ایٹمی قوّت بنا دیا اور بعد میں جب ذمّہ داری سونپی گئی تو میزائل قوّت بھی بنا دیا۔ اس میں میرے ساتھیوں اور ان کے اہل و عیال ،عزیز و اقارب کی اور میرے خاندان کی بے حد قربانیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم اور پوری قوم کی دعاؤں کے اثر سے یہ مشکل کام انجام پایا تھالیکن مسلمانوں کی غدّارانہ اور غلامانہ ذہنیت کا بیّن ثبوت دیکھئے کہ بھٹو صاحب کو تو ناکردہ گناہ کی پاداش میں پھانسی پر لٹکادیا اور مجھے ناکردہ گناہ کی پاداش اور اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر قربانی کا بکرا بنادیا۔ اس ایف اے پاس نے یہ نہ سوچا کہ بات مجھ انفرادی شخص کی نہ تھی جلد یا بدیر میں نے تو اس دنیا کو خیر باد کہ کر اپنے رب کے حضور میں پیش ہونا تھا اس کے اس عمل سے پاکستان پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک الزام لگ گیا جس کو مغربی ممالک ہمیشہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کرینگے۔ مجھ سے یہ بیان نہ پڑھواتا تو بات الزام تراشی اور تردید تک رہ کر ختم ہوجاتی۔
میں یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک طرف تو مخلص، نیک سیرت لوگ قربانیاں دیتے رہے اور دوسری جانب ہمارے یہاں ناسور پلتے رہے۔ ہم راجہ صاحب محمود آباد نواب اسمٰعیل خان جیسے جانثاروں کی قربانیاں بھول گئے۔ آمریت ہو یا جمہوریت، ہوس پرست، ضمیر فروش اور ملک فروش حکمرانوں نے عوام کو پامال کردیا۔ بظاہر آزاد اور حقیقت میں غلام ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں نے ایٹمی قوّت اور میزائل قوّت کو نعمت کے بجائے لعنت میں تبدیل کردیا ہے۔ غیرت اور حمیّت نام کی کوئی چیز اب موجود نہیں اور امیر امیر اور غریب غریب ہوتے جارہے ہیں:۔
دور آزادی کا کیا حال کہوں اے شعری#
اَب جو درپیش ہے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
دیکھئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ہمیں درست سمت میں سوچنا اور کام کرنا ہوگا، ملک دلدل میں پھنس گیا ہے، فوجی آمروں نے اور جمہوری چوروں، لٹیروں، راشیوں اور نااہلوں نے اس پیارے ملک کو تباہی کے گٹر میں ڈالدیا ہے ان حالات میں الیکشن سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہی لوگ چہرے بدل بدل کر آتے رہینگے اور یہی مافیہ ہمارے سروں پر بیٹھ کر ملک کو لوٹتا اور تباہ کرتا رہے گا۔ اس نظام میں کسی بہتری اور اصلاحات کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ میری بات غور سے سُنیئے اور اسے ہر پاکستانی تک پہونچا دیجئے کہ اب ہمارا سب کا یہ فرض بن گیا ہے کہ سب مل جل کر جدّوجہد کریں اور ایک پُر امن عوامی انقلاب لائیں۔ ہمیں فالتو بھاگ دوڑ، نعرے بازی، شور و غل کو چھوڑنا ہوگا اور تمام توّجہ صرف ایک مقصد یعنی عوامی انقلاب پر مرکوز کرنا ہوگی۔ ہم ادارے، کمیشن، کمیٹیاں بناتے رہے ہیں، اب ہمیں ایک آزاد ملک بنانا ہوگا، ہمیں سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ ہمارے لاتعداد مخیر حضرات نہایت فراخدلی سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں مگر غربت جوں کی توں قائم ہے۔ غریبوں کی کمر توڑنے والے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ درست سمت یہی ہے ہم اب وقت اور پیسہ ضائع کئے بغیر ملک حقیقی معنوں میں آزاد اور خوشحال بنانے کی جدّوجہد شروع کردیں۔ اگر نیک، اہل اور مخلص و ہمدرد حکمراں ہونگے تو ملک کے حالات بہت جلد ٹھیک ہوجائینگے اور عوام کو ان تباہ کن مشکلات سے نجات مل جائے گی۔ اگر نظام مملکت صحیح ہوگا تو لاتعداد مختلف ادارے بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی اور این جی اوز کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ میں آپ سے پُر زور الفاظ میں کہونگاکہ اب آزادی حاصل کرلیں اس موجودہ نظام سے تو ملک میں جنت آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہا دولت و وسائل سے نوازا ہے، نوجوان نہایت محنتی اور قابل ہیں، ان کی صلاحیتوں کو ٹھیک اور پورے طریقہ سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے پھر نہ تعلیم میں، نہ پانی اور بجلی کی رسائی میں اور نہ ہی علاقوں کی ترقی میں کسی قسم کا امتیاز ہوگا۔ نااہل ملک چھوڑ کر بھاگ جائینگے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں ایک درمیانی مختصر سے مشکل دور سے گزرنا ہوگا مگر یہ ہم سب مل کر برداشت کرینگے جس طرح کہ پرانے زمانے میں ہمارے اسلاف نے اور موجودہ دور میں چینی ، جرمن ،جاپانی عوام نے کیا ہے۔ اگر ہم اس وقت نہ جاگے تو پھر ہمیں ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہ کرینگی، ہم پر لعنت بھیجیں گی۔ میں تمام پاکستانیوں خاص طور پر وکلاء سے نہایت صدق دل سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو ایک خوشحال پُر امن اور فلاحی اِسلامی مملکت بنانے کیلئے فوراً بزور بازو حکومت کو عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرنے پر مجبور کردیں اور اس اہم قومی فریضہ کیلئے آپ مزید سید علی مسعود سے اس فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 0321-378-1089 اور 0300-4280845 ۔آپ اور ہم مل کر اب بھی اس قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اور آپ کے اور میرے پاکستان کو بچا سکتے ہیں اور ایک مثالی اسلامی فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔ آئیے، آگے بڑھئے اور ساتھ دیجئے۔
پچھلے چند ایام میں ہم نام نہاد مسلمانوں نے رمضان المبارک میں جس اِخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ہر باضمیر شخص کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ہم سب نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا کہ کس طرح کراچی میں یہ مسلمان ایک دوسرے کا قتل عام کررہے تھے۔ کراچی کو دیکھ کر تقریباً بیس سال پیشتر کا سراجیوو نگاہوں میں گھوم گیا ۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت بنیاد اور قدامت پسند عیسائی سرب مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے پر تلے ہوئے تھے، یوگوسلاویہ کھلے عام اپنے فوجی اور ہتھیار بھیج رہا تھا اور تمام مغربی ممالک صرف بہانہ بازی اور تاخیر سے اس بات کے منتظر تھے کہ مسلمان شکست کھا جائیں اور ان کی حیثیت غلاموں کی سی ہوجائے اور وہ بھی اگر زندہ بچ جائیں تو۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یا جرم یہ تھا، جیسا کہ اس وقت کے وزیر خارجہ اور میرے نہایت عزیز دوست ڈاکٹر حارث سلاجک نے کہا تھا ،کہ وہ جلد از جلد شکست نہ کھا سکے اور لڑتے رہے۔ ڈاکٹر حارث کی بیگم اور چھ، سات سالہ بیٹا میرے مکان کے پیچھے ایک مکان میں مقیم تھے۔ سیکیورٹی کی وجہ سے اُنہوں نے ان دونوں کو یہاں بھیج دیا تھا۔ میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ حارث کی بہن ساجدہ جو میری بہت عزیز دوست اور بہن کی طرح تھیں وہ اس وقت پاکستان میں ان کی نمائندگی کر رہی تھیں اور روز شام کو میرے پاس آکر کچھ وقت گزارتی تھیں۔ ان کے نمبر دو عثمان تھے جن کی بیٹی اور داماد نے پنڈی میں میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ میں نے ان کی مالی مدد کی تھی اور بعد میں تعلیم مکمل کرکے ڈاکٹر بن کر واپس بوسنیا چلے گئے تھے۔ عرض یہ کررہا تھا کہ ٹی وی پر دیکھ کر اور اخبارات میں حالات پڑھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ جیسے جنگلی کتے یا لکڑ بھگے کسی معصوم ہرن کی چیرپھاڑ اور کھانے میں مصروف ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ یہ خونخوار درندے ان معصوم جانوروں کو زندہ چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے اور سکون قلب ہے کہ میں نے کے آر ایل کی جانب سے ان کی انتہائی اہم مدد کی تھی اور نہایت اہم اور موثر دفاعی ہتھیار مہیا کئے تھے بلکہ چند نوجوان فوجیوں کو ٹریننگ بھی دی تھی ۔بعد میں ان کے صدر عزّت بیگووچ اور وزیر اعظم ڈاکٹر حارث وزیر دفاع اور آرمی کمانڈر انچیف نے بارہا اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران میرا بے حد دلی شکریہ ادا کیا تھا اور باربار یہ اقرار کیا تھا کہ ہماری بروقت مدد نے ان کو بچالیا ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتے۔ دیکھئے بات درندگی اور وحشیانہ کردار کی ہورہی تھی اور بات یہ نکل آئی۔ میں نے تھوڑی تفصیل اس لئے بیان کردی کہ بُرائیوں اور ضمیر فروشی کے باوجود ہم نے کچھ نہایت فخریہ کام بھی انجام دیئے ہیں۔ یہاں یہ بات چھپانا یا بیان نہ کرنا بدنیتی ہوگی اگر میں یہ نہ بتلاؤں کہ اس امداد کی اجازت اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے میری درخواست پر فوراً دیدی تھی اور ہم نے بوسنیا سے اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کی تھی۔
میں یہ عرض کررہا تھا کہ کراچی میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اپنے ہی بہن بھائیوں اور بچّوں کے بہیمانہ قتل و غارتگری کو دیکھ کر سر شرم سے جھک رہا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ مسلمان ایسے خود غرض، مطلب پرست اور ظالم ہوسکتے ہیں کہ اس طرح ایک دوسرے کا قتل عام کریں۔ یہ انسان نہیں درندے اور جنگلی کتّے اور لکڑ بھگے لگتے ہیں۔ ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مرنے والے سب غریب ہیں اکثر و بیشتر اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ ان کی ہلاکت کے بعد پورا خاندان تباہ ہوجاتا ہے فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے علماء ہر قسم کی تبلیغ اور نصیحت کرتے رہتے ہیں مگر یہ بہیمانہ اِقدام روکنے میں قطعی ناکام رہے ہیں،بعض اوقات تو یہ بے چارے خود بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسلام سے زیادہ شاید ہی کسی اور مذہب نے صبر اور تحمل اور معاف، درگزر کرنے کی ہدایت کی ہو۔ آپ کی خدمت میں چند فرمودات الٰہی پیش کرتا ہوں۔
(1)سو معاف کرتے رہو اور درگزر سے کام لو ۔(سورة بقرہ، آیت 109)۔(2)سو آپ (اے محمد) ان کو معاف کردیجئے اور ان کے لئے مغفرت کی دُعا کیجئے ۔(سورة عمران، آیت (159 ۔(3)(اے محمد) ان کو معاف کردیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئے اور جاہلوں سے کنارہ کش رہا کیجئے ۔(سورة اعراف، آیت 199 )۔(4)تو آپ (اے محمد) خوبی کے ساتھ در گزرکیجئے ۔(سورة حجر، آیت 85 )۔(5)اور جو لوگ مسلمان ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم کو (یعنی مسلمانوں کو) ان کے اعمال کا صلہ دے۔ (سورة جاثیہ، آیت 14 )۔(6)اور اگر تم معاف کردو تو تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ (سورة بقرہ آیت 237 )۔(7)اور جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو یہ البتہ بڑی ہمّت کے کاموں میں سے ہے۔ (سورة شوریٰ ،آیت 43 )۔(8)اور بُرائی کی سزا بُرائی ہے اور اس کے مطابق ہے لیکن جوکوئی معاف کردے اور جھگڑا نپٹا لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ (سورة شوریٰ، آیت 40 )۔(9)اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے دوڑو اور اس جنت کی طرف بھی دوڑو جس کا عرض سارے آسمان اور زمین ہیں اور جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو خوشی اور تنگی دونوں میں اپنی دولت خرچ کرتے ہیں اور غصّہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ (سورة عمران، آیات 133-134 )۔(10)اور نیکی اور بدی (یادوستی اور دشمنی) برابر نہیں ہوتی، آپ (اے محمد) اَحسن طریقہ سے تنازعہ کو نپٹا دیاکیجئے تو پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ میں اور جس شخص میں دشمنی ہے وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی جگری دوست ہوتا ہے۔ (سورة حٰم سجدہ ، آیت 34 )۔
ہمارے عفو و درگزر کرنے کی سب سے اعلیٰ اور روشن مثال ہمارے اپنے رسول اللہ صلعم نے دی ہے۔ آپ نے اپنے آخری خطبہ میں اپنے بدترین سے بدترین دشمن کو، یہاں تک کہ ہندہ کو جس نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، معاف فرما کر نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ غیر مسلمانوں کے لئے ایک فقیدالمثال قائم کی تھی۔ آپ کا یہ عمل آج بھی عیسائی تک نہایت تعریفی الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ پھر ہم پر شیطان نے کیوں غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ ہم ذرا ذرا سی بات پر اور بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں۔ میں تمام مسلمانوں کو فرمان الٰہی یاد دلاتا ہوں کہ جس مسلمان نے کسی دوسرے بیگناہ مسلمان کو بغیر جائز وجہ کے قتل کیا اس کی کبھی معافی نہیں ہوگی وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی دہکتی آگ میں رہے گا اور جہنم کا عذاب بلاشبہ بہت ہی سخت اور تکلیف دہ ہے۔
ایک اور نہایت تکلیف دہ اور قابل لعنت بات جس کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ کھانے کی اشیاء اور دواؤں میں ملاوٹ ہے۔آپ ذرا سوچئے کہ کیا ایسے کام کرنے والے مسلمان تو الگ بات ہے انسان بھی کہلانے کے مستحق ہیں؟ میں نے افریقہ کے غریب ترین، فاقہ سے دوچار انسانوں کو بھی یہ گندا اور گھناؤنا کام کرتے نہیں دیکھا۔ خدا جانے ہمارے ملک میں یہ لعنت کہاں سے آگئی ہے ۔ ابھی چند دن پیشتر یوٹیلیٹی اسٹورز کے سربراہ نے کہا کہ وہ سامان باہر سے خریدتے ہیں اس پر کوئی کوالٹی چیک نہیں ہے۔ آٹے میں لوگ میدہ ملادیتے ہیں اور چنے کے چھلکے زہریلے رنگ سے رنگ کر چائے میں ملادیتے ہیں۔ یہی حال دواؤں کا ہے ۔حکومت کے سامنے (بلکہ افسران کی سرپرستی میں) اربوں روپیہ کی جعلی دوائیں تیار ہوتی ہیں اور فروخت ہوتی ہیں۔
تمام مسلم ممالک میں رمضان المبارک کی آمد پر دوکاندار اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بیس پچیس فیصد کمی کردیتے ہیں۔ ہنس ہنس کر گاہکوں کو خوش آمدید کہتے ہیں مگر یہاں اللہ کی لعنت ہے کہ ہر دوکاندار کسی نہ کسی بہانہ سے گاہکوں کو دھوکہ دیتا ہے، لوٹتا ہے۔ کروڑ پتی ارب پتی بننے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں، لکھ پتی کروڑپتی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مسلمان ہیں ان کو نہ انسانوں سے ہمدردی ہے اور نہ ہی خوف ِ خدا۔
ہمارے ملک میں پچھلے چند برسوں میں میڈیا نے بہت اہم رول ادا کیا ہے اور لاتعداد غلط کاموں، رشوت ستانیوں، پولیس کے تشدّد وغیرہ جیسے واقعات سے عوام کو اور عدلیہ کو آگاہ کیا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں لاتعداد نجی ٹی وی اسٹیشن کام کررہے ہیں میری ان کے سربراہوں سے نہایت عاجزانہ درخواست ہے کہ ہفتہ میں عوام کے لئے ایک اصلاحی پروگرام شامل کرلیں اور اس پروگرام میں دوکانداروں، صنعت کاروں اور سرکاری عہدہ داروں کو سیدھی، عام سمجھ بوجھ والی زبان میں ہمارے معاشرہ کی برائیوں سے آگاہ کریں۔ ان کو میٹھے الفاظ میں ان کے غلط کاموں کی جانب توّجہ دلائیں۔ ان سے درخواست کریں کہ وہ ایسے ناپسندیدہ اقدامات سے پرہیز کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے پروگرام دیکھنے سے اور ان کے بارے میں اللہ کے فرمودات اور مضر نتائج سمجھ کر بہت سے لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں گے۔ یہ مسلمان ہیں ان کے دل کے کسی گوشہ میں ضرور خوف خدا اور محبت رسول موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برلن میں ایک پاکستانی ایک پورسیلین فیکٹری میں کام کرتا تھا، بُری صحبت سے بیئر پینے لگا تھا مگر ایک روز ایک جرمن نے اس کے سامنے سور کا گوشت کھانے کو رکھا تو سخت ناراض ہواکہ وہ مسلمان ہے سور حرام ہے اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ فرمان الٰہی اور اس کا خوف اس کے دل کے ایک گوشہ میں اب بھی موجود تھا۔
ایک درخواست یہ بھی ہے کہ خدا کے لئے ”پیشہ ور ماہرین“ سے اجتناب کریں۔ اس وقت ہمارے پاس لاتعداد اچھے اینکر پرسن ہیں ان سے ہی یہ کام کرائیں۔ لوگ ان کو سنتے ہیں۔ ان سے واقف ہیں اور یقیناً ان کی پرخلوص اور نیک درخواست پر نہ صرف غور کریں گے بلکہ عمل بھی کریں گے۔ ہمارے یہاں مصیبت یہ ہے کہ علماء جب ٹی وی پر آتے ہیں تو نہایت مشکل اور پیچیدہ باتوں پر تقریریں کرتے ہیں اور اِن روزمرّہ کی لعنتوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہتے حالانکہ یہ برائیاں ہماری جڑیں کھوکھلا کر رہی ہیں اور ہمیں تباہی کے یقینی راستہ پر لے جارہی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی اسٹیشن پر کام کرنے والی محترمہ ہما بخاری نے یہ جہاد جاری کیا ہواہے اور جگہ جگہ جاکر ان معاشرتی برائیوں کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں۔ میرا ان کو حقیر مشورہ ہے کہ سوالات پوچھنے اور بات چیت کرنے میں جارحانہ لہجہ استعمال نہ کریں، محبت اور نرمی سے ان برائیوں کی جانب توجہ دلائیں اور ان لوگوں کو غلط کاموں سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیں۔
یہ مشہور مصرعہ جو تقریباً ضرب المثل بن چکا ہے آتش #لکھنوی کا ہے۔ اس کا دوسرا مصرعہ ہے۔
”کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا“
شاعر نے اپنے (متکبر) حریف کو مخاطب کرکے کہا اُسے غرور تکبّر میں دوسروں کو نظر اندازنہیں کرنا چاہئے بلکہ اُسے بھی سوچنا چاہئے کہ اس کے بارہ میں لوگ کیا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے بارہ میں کیا سوچتے ہیں اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارہ میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہ بات ہر دانشمند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ اسکے بارہ میں دوسروں کی کیا رائے ہے اور کیا وہ اس کے بارہ اچھے یا بُرے خیالات رکھتے ہیں۔ غائبانہ اس لئے کہا کہ دنیا کا رواج ہے خوشامدی، مطلب پرست منھ دیکھی خوشامد کرتے ہیں اور ہر غلط بات کی، کام کی تعریف کرتے ہیں، سادہ الفاظ میں ضمیر فروشی کرتے ہیں اور اس میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اُستاد شیخ محمدابراہیم ذوق# (جن کے شاگرد نواب مرزا خان داغ# دہلوی اور جن کے شاگرد علّامہ محمد اقبال تھے) نے آتش لکھنوی والی بات دوسرے الفاظ میں یوں کہی تھی:
بجا کہے جسے عالم اُسے بجا سمجھو
زُبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو
میں جسارت کرکے اس شعر کو یوں بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔
بُرا کہے جسے عالم اسے بُرا سمجھو
زُبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو
ہمارے ملک میں بڑے بڑے رہنما اور قومی لیڈر عوام کو جھوٹی باتوں اور وعدوں سے بہلا کر خود کو بہت کامیاب سمجھتے ہیں۔ ان پر اپنی عقل و فہم اور عیّاری کی پول کھُل جائے گی اگر وہ ذرا عوام کے اُنکے پیچھے بیان کردہ تاثرات سُن لیں۔ یہی وجہ ہے کہ پُرانے زمانہ میں بادشاہ، وزیر اعظم وغیرہ بھیس بدل کر شہر کا گشت لگاتے تھے، چائے خانوں میں جاکر بیٹھ جاتے تھے اور عوام کے حالات و مشکلات سے اور اپنے نظام حکومت کے بارہ میں معلومات حاصل کرتے تھے۔ہمیں حضرت عمر کے رات کو گشت کرنے کے واقعات کا علم ہے۔ بھوپال کی بیگمات بھی رات کو شہر میں گشت کرتی تھیں اور اکثر بھیس بدل کر مردوں کا روپ دھار کر چائے خانوں میں بیٹھ کر عوام کے حالات و تکالیف کے بارہ میں معلومات حاصل کرتی تھیں۔ چینی شہنشاہوں کی بھی یہی روایت تھی۔
آپ کو ایک صحیح واقعہ سناتا ہوں۔ کہوٹہ میں لنچ کے دوران ہم کھُل کر ملکی اور غیر ملکی حالات پر بحث کرلیا کرتے تھے۔ جب ضیاء الحق نے گرگٹ کی طرح باربار رنگ بدلا اور جھوٹے وعدے کئے اور عوام کو بیوقوف بنانا شروع کیا تو یہ بحث زور پکڑ گئی اورسب ضیاء الحق پر سخت تنقید کرنے لگے۔ اس وقت ہمارے ساتھ چند فوجی افسران بھی تھے غالباً انھوں نے بادشاہ سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دیا اور جنرل ضیاء کو اس سے آگاہ کردیا۔ ایک روز جنرل ضیاء نے باتوں باتوں میں مسکرا کرمجھ سے کہا ڈاکٹر صاحب کھانے کی میز پر آپ اور آپ کے ساتھی میرے خلاف خاصی سخت باتیں کرتے ہیں۔میں نے پرسکون لہجہ میں جواب دیا کہ سَر یہ تنقید بے ضرر ہے لوگ دل ہلکا کرلیتے ہیں اور بات وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ کوئی باہر جاکر کسی کو نہیں بہکاتا۔ آپ بے فکر رہیں ہم ملک کے وفادار ہیں کبھی اس کے خلاف کوئی چیز برداشت نہیں کرینگے۔جب سے اس نام نہاد جمہوریت نے ہماری گردن دبوچ لی ہے اُسی دن سے سیاسی پارٹیوں میں اتفاق، اتحاد، نفاق اور پھر علیحدگی کے اعلانات ہوتے رہے ہیں۔ ملاپ ہو یا جدائی یہ سیاسی اداکار ہمیشہ اسے عوام کی بہبود، بھلائی اور قومی مفاد کے نام دےئے جاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان قلابازیوں اور مفاد پرستانہ پالیسیوں سے عوام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تمام ناٹک خودغرضی اورمفادپرستی پر مبنی ہوتا ہے۔ سادے الفاظ میں یہ منافقانہ عمل ہے۔پیر صاحب پگاڑا (جو مجھ پر بہت مہربان رہتے ہیں اورکاجو، بادام، پستے، کشمش والا اعلیٰ پلاؤ کھلانے کی عزّت بخشتے ہیں) نے حالیہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کی نورا کشتی پر صرف یہ فرمایا کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اب پھر دونوں ایک ہی پلیٹ سے کھائینگے۔ یہ نہایت مختصر مگر جامع اور معنی خیز تبصرہ ان دونوں پارٹیوں کی پالیسیوں کا پول کھولنے کو کافی ہے۔ دیکھئے 2001 میں پرویز مشرف کے دور میں قائم کیا گیا بلدیاتی نظام ایم کیو ایم کو بے حد پسند تھا اور کیوں نا ہوتا اربوں روپے ہر سال ملتے تھے اور تمام توجہ فلائی اوورز، ایکسپریس ویز وغیرہ پرہوتی تھی ، چھوٹے علاقے، محلے اور گلیاں اُسی طرح غلاظت سے پُر تھے، سیوریج کہیں نہیں بنایا گیا، ایک دو گھنٹہ کی بارش سے شہر کے ٹریفک کا نظام تہس نہس ہوجاتا ہے۔ میں نے بھی اربوں روپیہ کے سول ورکس آرمی انجینئرز سے کرائے تھے اور میں نے یہ کام فوجیوں سے اس لئے کرائے تھے۔ کہ سول ورکس میں پچاس فیصد رشوت ستانی عام ہے ، آرمی چیف، ایم آئی، آئی ایس آئی کی کڑی نگاہیں ان پر تھیں کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی، نتیجہ آپ خود اخذ کرلیجئے۔ اس نظام نے پی پی پی کو کراچی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں لوٹ مارسے محروم کردیا تھا۔ پی پی پی نے اچانک کمشنری نظام نافذ کردیا اور اپنے پسندیدہ افسران متعین کردئے۔ ایم کیو ایم ناراض ہوگئی۔ الطاف حسین نے آگ اُگلنا شروع کردی مگر ایم کیو ایم نے حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کی۔ پی پی پی نے عیاری سے پھر قلم کی ایک جنبش سے پرانا نظام دوبارہ نافذ کردیا۔ پی پی پی کے ساتھ ق۔لیگ شامل ہے مگر زرداری اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہتے اور ایم کیو ایم کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ شور مچا کر بھی ساتھ رہنے پر مجبور رہینگے۔ زرداری نے جس طرح ان تمام سیاست دانوں کو نچایا ہے وہ اس کے مستحق ہیں کہ اُنکو آکسفورڈ یا کیمبرج یا ہارورڈ میں پروفیسر آف پولیٹیکل سائنسز متعین کردیا جائے اور اس میں تعجب کی کیا بات ہے نصرت فتح علی خان کو بھی تو امریکہ اور جاپان میں موسیقی کا پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ملک اور بیرون ملک تمام تجزیہ نگار صدر، گورنر سندھ، چیف منسٹر سندھ اور الطاف حسین کو کراچی کے خراب حالات کا ذمّہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ خاص طور پر زرداری اور گیلانی اور رحمن ملک کی پالیسی کامیاب ہے کہ پورے ملک کو کراچی کے واقعات میں اُلجھا کر تین چار ماہ نکل ہی جائینگے۔ ان لوگوں نے ہر حال میں مارچ میں سینیٹ کے الیکشن تک یہ سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی قومی اسمبلی کا اور نہ ہی سندھ کی صوبائی اسمبلی کا کراچی کے معاملات سے کچھ تعلق ہے ۔ دو چار آدمی ملک کے مقدّر سے کھیل رہے ہیں اور اس کو تباہ و برباد کرکے ہی چھوڑینگے۔ مگر زبانی جمع خرچ عروج پر ہے ، ملک کی سلامتی اور عوام کی فلاح و بہبود کا نقّارہ مسلسل بجتا رہتا ہے اور ایم کیو ایم خودغرضی اور مطلب پرستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ عوام کے مفاد کہیں سرفہرست نہیں ہیں۔اس ملک میں اگرچہ نام نہاد جمہوریت قائم ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں اور منتخب عوامی نمائندے بھی موجود ہیں مگر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ دوچار لوگ ہی پورے ملک پر قابض ہیں اور حسب ضرورت نت نئے آرڈینینسز جاری کردیے جاتے ہیں، پھر منسوخ کردیے جاتے ہیں اور پھر تبدیل کردیے جاتے ہے۔ کوئی قانون پارلیمنٹ کے ذریعہ ظہور پزیر نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقل شکل اختیار کرتا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ اس ملک میں نہ ہی قانون اور نہ ہی امن و امان نامی کسی چیز کا وجود ہے۔ ملک میں لاقانونیت اور قتل و غارتگری کا بول بالا ہے۔ایک عام کہاوت ہے کہ بغاوت، لاقانونیت، جنگلی آگ، طاعون کی طرح پھیلتے ہیں اور ان کی رفتار سونامی طوفان کی طرح ہوتی ہے۔ نوجوان طبقہ شاید مارکوس، شہنشاہ ایران، موبوٹو، وغیرہ کے عبرتناک انجام سے واقف نہ ہوں لیکن صدام حسین، زین العابدین، عبداللہ صالح، حسنی مبارک اور اب قذافی کا حشر ان کے سامنے ہے۔ ایک اچھا تیراک کبھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ ڈوب کر مرسکتا ہے اور اکثر ڈوب کر ہی مرتا ہے، ایک ریس کار ڈرائیورکبھی نہیں سوچتا کہ وہ کار حادثہ میں ہلاک ہوگا اور عموماً وہ کار حادثہ میں ہی ہلاک ہوتا ہے۔ موجودہ حکمرانو ہوش کے ناخن لو ورنہ تمھارا بھی یہی حشر ہوگا۔ پچھلے حکمران خاموش ہیں راندہ درگاہ ہیں اور ان کو دیکھونہ بولنے پر بھی ان کے دل سے یہ آواز سُنائی دیتی ہے:
حکمرانوں سے کہو ہوش میں آئیں کوثر#
ہم بھی بیٹھے تھے کبھی ایسے ہی ایوانوں میں
بہت سے تجزیہ نگاروں اور میں نے خود کئی مرتبہ کہا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی لعنت افغانستان میں امریکہ کی مسلسل جاری جارحیت کی وجہ سے ہے۔ قبائلی عوام کو ایک وجہ، ایک سبب مل گیا ہے کہ وہ اس جنگ میں شامل ہوں، آپ اسے جہاد کہیں یا دہشت گردی یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور۔
” ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں “
حکومت نے ان ہی خطرات کو بالکل نظر انداز کیا تھا اور مشرقی پاکستان کا المیہ پیش آیا۔ اب بلوچستان، کراچی، خیبرپختونخواہ جل رہے ہیں اور اہل اقتدار ایوانوں میں پارٹیوں میں مصروف ہیں۔ یہ قوم بے حس ضرور ہے مگر جب پیمانہ لبریز ہوجائے توگیدڑ شیر بن جاتا ہے اور ہرن چیتے پر حملہ کردیتا ہے۔ اس وقت جو وعظ و نصیحتیں کی جارہی ہیں اور غصّہ میں آئے ہوئے متاثرہ لوگوں پرلغت میں موجود ہر گندہ لقب چسپاں کیا جارہا ہے وہ کچھ کام نہ آئے گا۔ عوام سخت پریشان ہیں، بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ اور وی آئی پی کلچر نے ان کا پیمانہ لبریز کردیا ہے صرف ایک دو بوند کی ضرورت ہے اور پھر یہ سیلاب چل پڑے گا۔اونٹ کی کمر توڑنے کو صرف آخری تنکے کی ضرورت رہ جاتی ہے۔
نوٹ: گذشتہ عید الفطر پر مجھے بے شمار لوگوں نے ای میل ،ایس ایم ایس اورڈاک کے ذریعے اپنی نیک تمناوٴں اور دعاوٴں میں یاد رکھا،میں ان سب کا بہت شکر گزار ہوں ،مگر الگ الگ جواب نہیں دے سکا،اس کیلئے معذرت خواہ ہوں ،وجہ یہ ہے کہ آجکل میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
پچھلے چند دنوں میں اپنے ملک میں جو سنسنی خیز واقعات ظہور پزیر ہوئے ہیں اُنھوں نے ہماری توجہ دنیا کے دوسرے اہم واقعات سے ہٹا دی ہے۔ پہلے کراچی میں قتل و غارتگری، ٹارگٹ کلنگ، پھر لاہور میں امریکی یہودی کا اغوا اور پھر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کا اغوا ، پھر جیالوں کی الزام تراشی، بہتان بازی ان سب واقعات نے عوام سے عید کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ رہی سہی کسر ضمیر فروش منافع خور دوکانداروں نے پوری کردی۔ ان سب چیزوں سے زیادہ سنسنی خیز اور اہم ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس رہی ہے۔ اُنھوں نے کراچی پریس کلب میں کلام مجید پر ہاتھ رکھ کر اور کلام مجید سر پر رکھ کر نہایت اہم رازوں سے پردہ اُٹھایا۔ اُنھوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا اور رحمن ملک کو حجام کی اولاد، ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے اور ملک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ جہانتک جھوٹ بولنے اور عیّاری کا معاملہ ہے میں ذاتی طور پر اس کی تصدیق کرسکتا ہوں۔
دیکھئے ذوالفقار مرزا نے ماہ رمضان میں، کلام مجید سر پر رکھ کر یہ بیان دیا ہے۔ میں کراچی کا باشندہ برسوں وہاں رہا ہوں اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ہے۔ میں اپنے سندھی بھائیوں (اور بہنوں) کے کردار کے بارہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ ایک واقعہ بتاتا ہوں، نوری آباد سے میرے بڑے بھائی کے ایک دوست کو اغوا کیا گیا تھا اور ان کے گھر والوں سے تاوان مانگا گیا۔ جب یہ ادا کردیا گیا تو اس شخص نے دلچسپ واقعہ سنایا۔ اس نے کہا اغوا کنند گان نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا، کھانے وغیرہ کا اچھا خیال رکھا۔ جب اسنے اُن سے جائے نماز اور کلام مجید کی درخواست کی تو اُنھوں نے جائے نماز دیدی اور کہا۔ سائیں ہم کلام مجید نہیں دے سکتے۔ ہم نے پہلے یہ غلطی کی تھی اور اغوا شدہ شخص نے ہمیں چھوڑنے کے لئے قرآن کا واسطہ دیدیا۔ ہم قرآن کی بے حرمتی نہیں کرسکتے تھے ہم نے فوراً اسکو چھوڑ دیا۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ سندھی کبھی قرآن کی بے حرمتی نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جو کچھ قرآن سر پر رکھ کر کہا ہے میں اسکو سو فیصدی سچ جانتا ہوں۔ ڈاکٹر ذوالفقار بیگم و بچے والے ہیں وہ کبھی بھی قرآن کا حوالہ دے کر جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اگر کچھ لوگ ان کے بیان کو جھوٹ کہہ رہے ہیں اور یہ سچے ہیں تو یہ بھی کھلے عام قرآن پر ہاتھ رکھ کر اور اس کو سر پر رکھ کر حلفیہ بیان کریں۔ کلام مجید میں حلفیہ قسم کا جواب حلفیہ قسم ہے۔
یہ باتیں تو اس لئے کردیں کہ اس وقت گرم ہیں اور پورے ملک میں اور بیرون ملک سخت بحث و دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ میں دراصل اسلامی ممالک میں جو چند واقعات ہوئے ہیں ان پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔…
کافی عرصہ پیشتر میں نے اپنے کالم میں اپنے حکمرانوں کو فرمان الٰہی کا حوالہ دیا تھا کہ وہ یہود و نصاریٰ سے گٹھ جوڑ سے احتیاط برتیں کہ اس کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔ میرے اس مضمون کے جواب میں رَدّ ِ عمل کے طور پر ایک ”روشن خیال“ شخص نے مجھے ای میل کی کہ میں پوری دقیانوسی باتوں کو اُکھاڑ رہا ہوں اور وہ ہدایت خداوندی (نعوذ بااللہ) وقتی طور پر تھی۔ میں حیران و ششدر رہ گیا کہ کیا یہ شخص مسلمان ہوسکتا ہے جو نعوذ باللہ کلام مجید کو ایک ”وقتی ہدایت “ سمجھ رہا ہے۔ کل یہ شخص نماز، روزہ، حج، زکو ٰة اور ایمان کو بھی اسی زُمرہ میں ڈال سکتا ہے۔
میں فرمودات الٰہی آپ کی خدمت میں پیش کرونگا اور پھر ان کی روشنی میں آپ خود ہی سوچ لیں کہ مسلمان حکمران کیوں ذلّت اور تباہی کا شکار ہوئے۔ سورة المائدہ، آیات 51 ،52،53 میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یوں خبردار کیا تھا اور تنبیہ کی تھی ”اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی ان ہی میں سے ہوگا۔ بے شک خدا ظالم لوگوں (یعنی گنہگاروں) کو ہدایت نہیں دیتا۔ تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ اُن میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش (یعنی مصیبتیں) نہ آجائے۔ سو قریب ہے کہ خدا فتح نصیب کرے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر نازل کردے پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائینگے۔ اس وقت مسلمان تعجب سے کہینگے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو خدا کی سخت ترین قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کے تمام اعمال اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے“۔ اب آپ اس فرمان الٰہی کی روشنی میں دیکھئے جن مسلمان حکمرانوں نے اس کو نظر انداز کیا یا نہ مانا ان کا حشر کیا ہوا، ہمارے یہاں ایوب خان، یحییٰ خان اور مشرف کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ دوسرے مسلمان حکمرانوں میں شہنشاہ ایران، عراق کے شاہ فیصل اور امیر عبداللہ، تیونس کے زین العابدین، مصر کے حسنی مبارک، یمن کے عبداللہ صالح اور حال میں قذافی کا انجام بھی آپ کے سامنے ہے۔ چند دوسرے مسلمان حکمراں اب بھی ان نصاریٰ کے ساتھ گھی شکر بنے ہوئے ہیں اُن کو اپنا دوست، محافظ سمجھ رہے ہیںآ نکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ ابھی حال ہی میں وہ قذافی کے گہرے دوست بن گئے تھے کسطرح اسکی تعریف میں رطب اللسان تھے اور اب یہی لوگ اس کا کیا حشر کررہے ہیں۔ اب چند ہی دن کی بات ہے کہ یا تو وہ گولی کھا کر مرے گا یا کھلے عام پھانسی دی جائے گا اسکو اور اسکی اولاد کو کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی۔ آپ دیکھ رہے ہیں حسنی مُبارک کسطرح پنجرہ میں عدالت میں قیدی کی حیثیت سے پڑا رہتا ہے، کسطرح صدّام کے بیٹوں کو اور اسکو ذلیل و خوار کرکے قتل کیا گیا۔ کسطرح مشرف ذلیل و خوار ہو کر مجرم کی حیثیت سے مارا مار پھر رہا ہے اور کس طرح قذافی کا خاندان بھاگ کر الجیریا میں پناہ گزیں بنا بیٹھا ہے اور وہ خود چوہے کی طرح بلوں میں چھپتا پھر رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ عیسائیوں اور یہودیوں کے جانی دشمن بن جاؤ، ان کو گزند پہونچاؤ یا قتل کرو، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ دوستی یا مفاہمت ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر برابری کی سطح پر ہونا چاہئے، تجارت اس طرح ہو کہ آپ کو بھی اور ان کو بھی برابری کا فائدہ پہونچے۔ اپنے احکامات کی خلاف ورزی پر اللہ نے بہت سخت اور تکلیف دہ عذاب و تباہی و بربادی کا وعدہ کیا ہے۔ آپ کو چند احکامات سے آگاہ کرتا ہوں۔ (1) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی نافرمانی کرے گا اور اسکے قوانین کی حدود سے باہر نکل جائے گا اللہ اُسے دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا اس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا اور اسے ذلّت دینے والا عذاب ہوگا۔ سورة النساء، آیت 14 ۔ (2) اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے پہلے تو تم روگردانی کرچکے ہو تو اللہ تمھیں نہایت دردناک عذاب کی سزا دے گا۔ سورة الفتح، آیت 16 ۔ (3) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقینا ایسے لوگوں کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہینگے۔ سورة الجن، آیت 23 ۔ (4) اور اگر یہ (منافق لوگ) روگردانی کرینگے تو اللہ انھیں دُنیا اور آخرت میں دردناک سزا دے گا اور ان کا روئے زمین پر نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مدد گار۔ سورة التوبہ، آیت74 ۔ (5) اور مجرم قوم سے اللہ کا سخت عذاب پھیرا نہیں جائے گا۔ سورة الانعام، آیت147 ۔ (6) اور تم یہ گمان مت کرو کہ اللہ ان کاموں سے غافل ہے جو ظالم (گنہکار) لوگ کرتے ہیں۔ اللہ نے انھیں صرف اُس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس روز ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائینگی۔ سورة ابراہیم۔ آیت 42 ۔(7) اور ان سے پہلے بھی لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے رہے ( یعنی ان پر عمل نہیں کیا) پھر دیکھ لو کہ ہماری ناراضگی کا کیا نتیجہ نکلا۔ سورة الملک۔ آیت 18 ۔ (8) اور کتنی ہی بستیاں (یعنی قومیں، جماعتیں) اپنے پروردگار کے احکامات اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت سے سرکش ہوگئیں۔ پھر ہم نے بھی ان سے بڑا سخت حساب لے لیا اور ان کو بھیانک سزا (ذلّت و خواری) ہلاکت کی دی۔ پس اُنھوں نے اپنے کئے کا وبال چکھا اور ان کا انجام بربادی پر تمام ہوا۔ اللہ نے ان کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کررکھا ہے سو اے عقل والو! تم ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ سورة الطلاق ۔ آیات 8-10 ۔
پچھلے مسلمان حکمرانوں کا انجام دیکھ کر کہ کسطرح اللہ نے اس کے فرمودات کو روگردانی کے بدلے ان کو ہمارے سامنے موجودہ اور آئندہ قوموں کے لئے عبرت بنا دیا۔ میرا مشورہ پاکستانی حکمرانوں اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کے لئے یہی ہے کہ ابھی عقل کے ناخن لے لو اور مغربی حکمرانوں کو اپنا محافظ و مددگار اور دوست نہ سمجھو ورنہ اللہ کا وعدہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوتا، کبھی ٹلتا نہیں اور تم بھی اُسی فہرست میں شامل ہو جاؤ گے۔ گویا
چار جانب گونجتی آواز کے تیور سمجھ
دو گھڑی تو سوچ ! تیرے گھر میں کیا ہونے کو ہے
فقیدالمثال اَسد اللہ خان غالب# کا مشہور شعر ہے:
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟
غالب# نے تو حالِ دل غور سے نہ سننے کی وجہ سے بے نیازی کی شکایت کی تھی لیکن ہم، عوام، اس وقت صرف حکمراں پارٹی سے نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قوّتوں سے شکوہ کررہے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے پاس تمام طاقت ہوتے ہوئے بھی، سننے، دیکھنے اور کچھ کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ اس اسلامی ملک میں ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کی تشدد شدہ بوری بند لاشیں، جلے کٹے جسموں کے بکھرے ہوئے اعضا، تجہیز و تدفین سے محروم نہایت ہتک آمیز حالات میں شہر کے مختلف مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور سینکڑوں اعلیٰ افسران جن پر حکومت کروڑوں روپیہ ماہانہ خرچ کرتی ہے ان جرائم کو روکنا تو درکنار یہ صحیح دشمنوں اور مجرموں کی صحیح نشاندہی تک نہیں کرسکتے اور نامعلوم مجرموں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے اور قانونی کاغذی کاروائی مکمل ہو جاتی ہے اور مجرم جوں کے توں آزادی سے قتل و غارتگری اور بھتہ خوری میں دیدہ دلیری سے مشغول رہتے ہیں۔ اب الزامات کا رخ دہشت گردوں سے ہَٹ کر مختلف پارٹیوں کے کارندوں کی جانب ہے مگر اب عوام پر اس کا کوئی اَثر نہیں پڑتا وہ تو اسی طرح بھگت رہے ہیں۔ گویا۔ ماراچہ ازیں قصّہ کہ گاؤ آمد،وخر رفت۔ یعنی ہمیں اس سے کیا مقصد کہ بیل آیا اور گدھا چلا گیا۔ اس سے ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس ہفتہ سندھ میں حکومت نے کچھ دکھاوے کے اصلاحی اقدامات کئے ہیں۔ مثلاً گاڑیوں کے جلانے اور فساد برپا کرنے والوں کو کنٹرول نہ کرنے پر چند پولیس کے تھانیداروں کو معطّل کیا، تبدیل کردیا گیا۔ اسی طرح پشاور، لاہور، پنڈی وغیرہ میں پولیس کی حراست سے مجرموں کے بھاگنے پر پولیس والوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ خدا جانے یہ اقدامات حقیقی ہیں یا دکھانے کے ہیں اگر حقیقی ہیں تو نہایت خوش آئند ہیں۔ انتظامیہ نے عملہ کو غفلت بکار منصبی کی پاداش میں سزا دی ہے لیکن اس کا دائرہ صرف چھوٹے افسران تک محدود ہے۔ اب بڑے بڑے ذمّہ دار افسران کو بھی جن کو لاکھوں روپیہ کی تنخواہیں دی جاتی ہیں، لاکھوں روپیہ کی گاڑیوں میں عیاشی کرتے ہیں ان سے بھی باز پُرس کرنی چاہئے اور ان پر بھی سزا و جزا کا اِطلاق ہونا چاہئے۔ مجرم کھلے عام ہوائی فائر کرتے ہیں اور پولیس نہیں پکڑتی۔ یہ مجرم مقامی ہیں، پاکستانی ہیں اور ان کے پاس پاکستانی اسلحہ بھی ہے اور یہیں ان کے طاقتور سرپرست، معاون و محافظ بھی ہیں جن کے بھروسہ پر یہ لوگ دن دہاڑے قانون کی دھجّیاں اُڑاتے ہیں وہ نہایت قابل فکر و قابل مذمّت ہے۔ پولیس اور رینجرز کے پاس ان مجرموں سے زیادہ اسٹاف ہے گاڑیاں ہیں جدید اسلحہ ہے وائرلیس نظام بھی ہے لیکن یہ بے حس و بے پرواہ وقت گزاری کرتے ہیں اور عموماً رشوت ستانی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ میں نے انگریزی دور کا زمانہ بھی دیکھا صرف ایک کمشنر، ایک ڈپٹی کمشنر اور ایک آئی جی پولیس ہوتے تھے اور لاکھوں لوگوں کی حفاظت اور امن و امان کی ذمّہ داری ان کے کندھوں پر تھی اور مجال ہے کہ کوئی بد معاش یا مجرم کوئی جرم تو کرسکے۔ ایک عام انسپکٹر سے لوگ بے حد ڈرتے تھے اور اسکی بے حد عزّت کرتے تھے۔ مجال تھی کہ کوئی جرم کرے اور نہ پکڑا جائے اور سزانہ پائے۔ نہ صرف کراچی کے تاجران اور صنعت کار بلکہ سیاسی رہنما بھی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے گویا یہ بد نیت ہیں اور امن و امان نہیں چاہتے۔
دیکھئے اب بات نعرے بازی، بیان بازی اور مشاورت کا ڈھونگ رچانے سے بہت آگے جا چکی ہے ۔ لوگ ان بیانات اور مصلحتی اقدامات سے تنگ آگئے ہیں۔ حکومت صرف مصلحت اور بلیک میلر اور قاتلوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ غیر قانونی اسلحہ سے کراچی کو پاک کرنا خواب بن گیا ہے۔ حکومت ان کی ہے کیوں ایسے قانون نہیں بناتے کہ ایسے مجرموں کو کھلے عام فوراً پھانسی دیدی جائے۔ فوج کو امن و امان قائم کرنے کی ذمّہ داری سونپنے کی بات ہوتی ہے تو ہمارے سیاسی لیڈر اور چند صحافی و تجزیہ نگار فوراً اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ اگر فوج اپنے ہی بیگناہ لوگوں کو قبائلی علاقہ میں قتل کررہی ہے تو پھر کراچی کے مجرموں اور قاتلوں کی بیخ کنی میں کیا حرج ہے۔ دراصل لٹیرے، راشی، ڈاکو حکمران ڈرتے ہیں کہ ان کی لوٹ مار ختم ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے اس ملک کی 64 سالہ تاریخ میں رحمن ملک سے زیادہ نااہل اور ناکام وزیر داخلہ پیدا نہیں ہوا۔ جس نے دنیا کے نااہل ترین اہل کاروں کو بھی مات کردیا ہے۔ دوسرے ممالک میں وزرا دو چار حادثوں کے بعد مستعفی ہوجاتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی کھال گینڈے سے بھی موٹی اور چکنی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ انتظامیہ اور عوام صدقِ دل اور نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دے کر فیصلہ عدلیہ پر چھوڑ دیں۔ عدلیہ کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا یا افسران کے بلاوجہ تبادلے کرنا اور تفتیش میں رکاوٹ ڈالنا اور عدلیہ کے کام میں اس طرح دخل اندازی کرنا نہایت قابل اعتراض اور ناقابل قبول ہے۔ عدالت عظمیٰ ان تمام ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہے مگر بدقسمتی سے وہ خدا جانے کس مصلحت کے تحت اس بُرائی کی بیخ کنی سے گریز کررہی ہے اس کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا توہین کی جاتی ہے مگر اس کی جانب سے مجرموں کو ہتک عدالت کے تحت سزا نہیں دی جاتی، زندگی بھر کے لئے عوامی عہدوں کے لیئے نااہل قرار نہیں دیا جاتا، ایک دو سخت اور صحیح فیصلے ان مجرموں کو ٹھیک کردیں گے۔سیاسی قوّتوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی اصل طاقت عوام کی محبت اور ان کی مدد اور تعاون ہے۔ جب وہ بیوقوفی اور تکبر میں یہ کھو دیتے ہیں ان کا زوال شروع ہوجاتا ہے اور وہ عوام کی نفرت کا مرکز و نشانہ بن جاتے ہیں جس طرح آجکل ہورہا ہے۔ جب یہ حکمران زوال پذیر ہوں گے تو ان کو اسی طرح یاد کریں گے جس طرح مشرف کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا کوئی ہمدرد، مددگار نہیں ہوگا۔ آخر میں بھٹو صاحب کا زوال عوام کی ہمدردیاں کم ہونے کی وجہ سے ہوا۔ وہ گرفتار ہوئے، جھوٹے مقدمہ میں پھانسی دیدی گئی اور ملک میں نہ بغاوت ہوئی، نہ اِنقلاب آیا۔ بلکہ بابر اعوان جیسے لوگوں نے کھلے عام مٹھائیاں تقسیم کیں۔ یہی حال مشرف کے دور میں ہوا۔ نواز شریف کا تختہ اُلٹ دیا گیا، ہتھکڑیاں لگادی گئیں اور جیل میں ڈالدیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اس آمرانہ اقدام کو خوش آمدید کہا، مٹھائیاں تقسیم کیں اور مشرف کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ اس لئے ہوا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں عوام کی نگاہ میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔
اس کے بر خلاف عوام کے تعاون، محبت اور بھرپور ساتھ دینے کی مثال جناب افتخار چوہدری کی بحالی ہے۔ پرویزمشرف ڈکٹیٹر عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکا تھا ۔ اس نے بھی رشوت ستانی اور اقرباء پروری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ نہ ہی وہ، نہ ہی اس کی اپنی فوج اور نہ ہی موجودہ نام نہاد جمہوری عیّار حکمراں اس سیلاب کو روک سکے کیونکہ یہ عوام کا مطالبہ تھا۔ اسکے پیچھے کروڑوں عوام کی قوّت کارفرما تھی۔ صرف اس وجہ سے حکومت نے مجبور ہوکر عدلیہ کو بحال کیا اور ان کے تاخیری حربے بُری طرح ناکام ہوگئے۔ لیکن ان عیاروں نے اپنی روش نہیں بدلی۔ روزبروز عدلیہ کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں، اس کے فیصلوں کی تضحیک کررہے ہیں۔ اگر عدلیہ نے بھی اپنے فیصلوں پر بزور بازو عمل نہیں کرایا تو پھر یہ بھی اپنی وقعت عوام کی نگاہوں میں کھودیگی اور پھر اس ملک کا خدا حافظ۔
چونکہ موجودہ نااہل، کرپٹ اور اقربا پرور حکمرانوں کی بہتری کی قطعی کوئی اُمید نہیں ہے اور دوسرے ادارے ساتھ مل کر مزے اُڑا رہے ہیں ،یہ تبدیلی اب عوام کو ہی لانا ہوگی۔ میں باربار آپ سے درخواست کررہاہوں کہ خدا کے لئے محبّان وطن ایک جگہ جمع ہوجاؤ، مخلص وطن پرستوں سے درخواست ہے وہ اپنی گندی، سڑی، خاندانی وراثتی پارٹیوں پر لعنت بھیجیں۔ خاص طور پر وکلاء ،درددل رکھنے والے شہری اور اسلامی سوچ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نہایت دردمندانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ آگے بڑھیں آپس کے نام نہاد اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر”پاکستان عوامی انقلاب“ کے ساتھ ایک محاذ بنائیں اور سڑکوں پر نکل آئیں اس نظام کو اُکھاڑ پھینکیں، ایک ایماندار اہل اور محب وطن جمعیت بن کر اس ملک کو بچائیں۔ میں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ ہمیں اس ملک کو بچانا ہے اب بات تھوڑے وقت کی نہیں بلکہ وقت نہ ہونے کی ہے۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے، بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری اور قتل و غارتگری نے اس پیارے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے اور موجودہ حکمران پوری کوشش کررہے ہیں دھکّا دے رہے ہیں، لاتیں مار رہے ہیں کہ یہ جہنم کی لامحدود کھائی میں گر جائے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا نام و نشان ختم ہوجائے مگر آپ اور میں ایسا نہ ہونے دیں گے اس کی حفاظت کریں گے اس کو بچائیں گے۔ جب تک آپ کھڑے نہ ہوں گے حکمرانوں کا یہی رویہ رہے گا۔
”ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟“
الطاف حسین صاحب کی تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی گولہ باری کے اثرات سے سنبھل نہ پایا تھا کہ پھر اس سے مہلک مناظر کراچی اور لاہورمیں بارش نے دکھا دیئے۔ خدا جانے اس ملک پر کیوں مصیبتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عام روایت ہے کہ اگر حکمراں ظالم اور گنہگار ہوں تو ملک اور عوام پر عتاب نازل ہوتا ہے۔ میں نے پہلے بھی مشہور فارسی شاعر انوری# کا شعر بیان کیا تھا جو اس نے اپنے اوپر مصیبتوں کی مسلسل یلغار سے پریشان ہوکر کہا تھا:۔
ہَر بلائے کز آسمان اُفتَد
خانہ اَنوری # را می پُرسَد
یعنی جو بلا یا مصیبت آسمان سے نازل ہوتی ہے وہ انوری# کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ یہی حال بے چارے پاکستان کا ہے۔ پہلے ہولناک زلزلہ، پھر تباہ کن سیلاب اور اب پھر نیا سیلاب اور اب ڈینگی بخار۔ پچھلے زلزلے اور سیلاب کے متاثرہ لوگ ابھی تک بے یارومددگار اور بھوکے اور ننگے مارے مارے پھر رہے ہیں، کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں اور جھوٹے وعدوں پر زندہ ہیں۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے، لاتعداد مویشی تباہ ہوگئے اور اَربوں ڈالر کا نقصان ہوا، غیرممالک سے اربوں ڈالر کی امداد ملی اور وہ داستانِ امیر حمزہ کے مشہور کردار عَمرو عیار کی زنبیل کی طرح اس کو ہضم کرگئی۔دیکھئے آج میں پھر چند کڑوی باتیں کہنا چاہتا ہوں اور دماغ میں بار بار مرتضیٰ بر لاس# کا یہ شعر گونجتا ہے۔
ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر
یہ وَصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے
مگر سچ کو چھپانا یا سچ بات نہ کرنا ایک بڑی منافقت ہے اور میں تو سچ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
قبل اس کے کہ میں اپنے خاص و اہم موضوع پر تبصرہ کروں، الطاف حسین کے خطاب کے بارہ میں مختصراً کچھ کہونگا۔ پورے پاکستان نے اور غالباً غیر ممالک میں بھی لاتعداد پاکستانیوں نے ان کا یہ خطاب سُنا۔ پہلی خاص بات یہ تھی کہ یہ سات روز سخت بیمار رہ کر باہر آئے تھے مگر اس کی کہیں جھلک نظر نہیں آئی۔ ان کے خطاب پر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے دل کھول کر تبصرے کئے اور تنقید بھی کی۔ میں صرف یہ کہونگا کہ ملک کی اتنی بڑی اور اہم پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے یہ خطاب نہایت ہی نامناسب تھا اور ان کو اس قسم کی ایکٹنگ زیب نہیں دیتی۔
دوسری بات زلزلہ وسیلابوں سے متاثرہ لوگوں کی تکالیف و کسمپرسی کے بارہ میں ہے۔ آپ روز ٹی وی پر سندھ میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی حالت زار دیکھ رہے ہیں، صدر صاحب چند جیالوں کے ساتھ پانی میں دو سو گزچلے ،تصاویر بن گئیں ، معاملہ ختم۔ وزیر اعظم صاحب نے ارب روپوں کی امداد کا اعلان کیا وہ کہاں سے آئے اور جائیگی خدا جانے۔ زلزلے اور پچھلے سیلابوں کے متاثرین کا واقعہ تو ابھی حال کا ہے یہاں ابھی تک تربیلہ اور منگلہ کے متاثرین مارے مارے پھر رہے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسے بے حس حکمران ہونگے۔
تیسری بات ۱۱ ستمبر کا امریکہ میں دہشتگری کا واقعہ ہے یہ نہایت شرمناک، قابل مذمت اور قابل لعنت عمل تھا نہ ہی مسلمانوں کا مذہب اور نہ ہی اخلاقی قدریں ایسے جارحانہ عمل کی اجازت دیتے ہیں۔ اس میں تین ہزار بیگناہ لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا مگر یہ کام اگرمذہبی دہشت گردوں نے کیا تھا تو اس کے جواب میں جو تہذیب یافتہ اقوام نے کیا وہ بھی اتنا ہی قابل ملامت و قابل لعنت ہے۔ اُنھوں نے تین ہزار اموات کے بدلے تقریباًبارہ لاکھ افراد ہلاک کردیئے اور ان میں سے بھی نوّے فیصد یقینا بے گناہ تھے اور یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔ صدر اُوباما بار بار نعرہ لگاتے ہیں کہ وہ اسلام کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے ہیں، ممکن ہے یہ ٹھیک ہو مگر مسلمانوں کا قتل عام جو وہ جاری رکھے ہیں غالباً وہ اس کو اسلام سے غیر متعلق سمجھتے ہیں۔ یہ ظلم صرف مسلمانوں پر ہی کیوں جاری ہے؟
اَب میں اپنے خاص، اہم موضوع کی جانب رُجوع کرتا ہوں۔ پوری قوم اس وقت موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے بھگت رہی ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، قتل و غارتگری نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ دو وجوہات ہیں ایک تو حکمرانوں کی تعلیمی استعداد اور دوسرا خاندانی پس منظر۔ ان چیزوں کے علاوہ سب سے اہم چیز اس پورے نظام کی غیر قانونی حیثیت ہے۔ 2008 میں جو الیکشن ہوئے تھے وہ مکمل فراڈ اور جعلسازی تھی۔ آپ ذرا الیکشن کمیشن کے 2008 کے الیکشن سے متعلق اعداد شمار دیکھئے آپ کی آنکھیں کھل جائینگی۔ اس وقت رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 80133991 یعنی آٹھ کروڑ سے کچھ زیادہ تھی۔ جن لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا ان کی تعداد34980069 یعنی تقریباً ساڑھے تین کروڑ تھی ان میں سے جو ووٹ صحیح مانے گئے ان کی تعداد 34113398 یعنی تقریباً آٹھ لاکھ کم۔ اس وقت جو ووٹ ڈالے گئے ان کی شرح 43 فیصد تھی اور مسترد ہونے والے ووٹوں کی شرح 2.69 فی صد تھی ۔ اب دوسری حقیقت کی جانب آئیے۔ چند ماہ پیشتر عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کردہ اور جاری کردہ ووٹروں کی لسٹ میں ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹروں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ کافی چھان بین کے بعد الیکشن کمیشن نے تصدیق کی کہ تقریباً ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹ رجسٹرڈ تھے اور پھر کافی محنت و تفتیش کے بعد یہ جعلی ووٹ منسوخ کردیئے گئے لیکن جو کام ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔ جو قومی اور صوبائی اسمبلیاں اس الیکشن اور ضمنی الیکشن کے ذریعہ وجود میں آئیں وہ مکمل فراڈ اور جعلسازی کا نتیجہ ہیں، اسی طرح صدر، وزیر اعظم اور تمام گورنر اور وزیر اعلیٰ غیر قانونی طریقہ سے ایوانات اقتدار میں جا بیٹھے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جونہی اس جعلسازی اور فراڈ کی تصدیق ہوگئی تھی تمام قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی جاتیں، کیئر ٹیکر انتظامیہ انتظام سنبھال لیتی اور تین ماہ کے اندر نئے الیکشن کرائے جاتے۔ اگر یہ کام ہوجاتا تو ملک بہت سے جعلی ووٹوں اور جعلی ڈگریوں سے ایوانات اقتدار آنے والے نااہل حکمرانوں سے بچ جاتی۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں ہمارے یہاں عموماً عوام میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد اور دلچسپی بہت کم ہوتی ہے اس کے برخلاف جو جعلی ووٹ بنائے گئے تھے وہ نہایت تندہی سے ڈالے گئے اور اس طرح جو موجودہ نام نہاد جمہوری نظام وجود میں آیا وہ بالکل جعلی اور غیر قانونی ہے اور آپ جو لوٹ مار اور رشوت خوری دیکھ رہے ہیں وہ اس وجہ سے ہے کہ ان جعلسازوں کو پکا یقین ہے کہ یہ آئندہ الیکشن میں منتخب نہیں ہونگے۔
اس وقت ایک اور عتاب جو عوام پر نازل ہوا ہے و ہ سیلاب ہے۔ روز آپ کو نہ صرف اندرون سندھ سمندر نما مناظر دکھائے جارہے ہیں بلکہ جو حالات لاہور اور کراچی میں دکھائے جارہے ہیں اور عوام کو جن تکالیف کا سامنا ہے اس نے پچھلے بلدیاتی نظام کی پول کھول دی ہے اور ”بین الاقوامی شہرت یافتہ“ ناظموں کی نااہلیت طشت ازبام کردی ہے۔ اربوں روپے خرچ کئے (اور کھا گئے) دکھاوے کے فلائی اوور، پُل، موٹر وے بنائے گئے اور لاکھوں روپے اشتہار بازی پر خرچ کئے گئے مگر ان ”عقلمندوں اور ماہرین“ کو یہ نہ سوجھی کہ ڈرینج سسٹم بھی موثر بنا دیتے۔ کسی سڑک کے پاس آپ کو نالیاں نظر نہیں آئینگی۔ چھوٹے چھوٹے سے گٹر کے سوراخ بنا دیے گئے جو بارش کے زیادہ پانی کی نکاسی کے لئے قطعی ناکافی ہیں اور اکثر یہ مین ہول کچرے کوڑے اور پلاسٹک کی تھیلیوں سے بند بھی ہو جاتے ہیں۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پانی کی نکاسی کے بارہ میں آپ کو بھوپال کی مشہور نواب قدسیہ بیگم کا واقعہ بتلاتا ہوں۔ آج سے تقریباً دو سوسال پیشتر اُنھوں نے تقریباً بیس لاکھ پونڈ کی رقم ایک انگریز کمپنی کو دی تھی اور اس کے ذریعہ بھوپال شہر میں پانی کی فراہمی اور بارش کے پانی کے نکاس کا نظام لگوایا تھا۔ بھوپال میں موسم گرما اور موسم سرما میں تقریباً تین تین ماہ سخت بارشیں ہوتی ہیں اور ہفتہ ہفتہ بھر بِلا رُکے بارش ہوتی رہتی ہے۔ بارش کے بعد آپ باہر نکل کر دیکھئے آج بھی آپ کو وہاں کہیں پانی نظر نہ آئے گا۔
تمام سڑکوں اور شاہراہوں کے دونوں جانب تین تین فٹ گہری اور دو دو فٹ چوڑی نالیاں تھیں اور پانی کا بہاؤتالابوں اور دریاؤں کی طرف تھا۔ پورے شہر میں آدھے آدھے کلو میٹر پر پانی کے نل لگے ہوئے تھے اور ان میں دن رات صاف ستھرا پینے کا پانی آتا رہتا تھا۔ پورے شہر میں سڑکوں پر بجلی کے کھمبے تھے ، میں نے وہاں کبھی ایک گھنٹے کی بھی لوڈ شیڈنگ نہیں دیکھی۔ اسی ذی فہم حکمراں نے اپنی جیب خاص سے تقریباً ساٹھ لاکھ پونڈ انگریزوں کو دے کر ریلوے لائن کو بھوپال سے گزروادیاتھا اور بھوپال مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب جانے والی ٹرینوں کا اہم جنکشن بن گیا تھا۔ اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں ہمارے خود ساختہ عقلِ کُل یہ معمولی سے کام بھی نہیں کرسکتے۔
ایک اور بات جس کا ذکر بہت عرصہ سے کرنا چاہ رہا ہوں وہ ہماری سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں کی ملک سے احسان فراموشی اور نمک حرامی ہے جہاں جلسے کرتے ہیں اور وہاں اپنے بونے لیڈروں کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کرتے ہیں ان احسان فراموش کو کبھی یہ خیال نہیں آتاکہ جس شخص نے ان کو یہ ملک دیا ان کو عزّت سے رہنے (اور یہ لوٹ مار کرنے) کی سہولت بخشی نہ ہی اس کا نام لیا جاتا ہے اور نہ ہی اسکی تصویر کہیں نظر آتی ہے۔ ان کی نگاہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کا وجود نہ تھا اورنہ ہے اور یہ سب کچھ انکے باپ دادا نے انکی گود میں ڈالا ہے۔ احسان فراموشوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور برا انجام ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر میں نے اپنے ایک کالم میں فقیدالمثال غالب کے نام سے ایک کالم لکھا تھا اور ان کے فارسی کے کلام دیباچہ پر کچھ تبصرہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب جیسے پایہ کا شاعر نہ اُن سے پہلے پیدا ہوا تھا اور نہ ہی قیامت تک ہوگا۔ جتنے مضامین، مقالہ جات غالب اور ان کے کلام پر لکھے گئے ہیں شاید ہی دنیا میں کسی اور شاعر پر لکھے گئے ہوں گے۔ ہر موقع ، ہر مناسبت سے آپ کو غالب کا کوئی نہ کوئی مناسب شعر، قصیدہ مل جائے گا یہی وجہ ہے کہ غالب# کے اشعار کسی نہ کسی موقع پر حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یاد آ جاتے ہیں۔ اپنی ایک غزل کے مقطع میں اُنہوں نے کہا تھا۔
ہو چکیں غالب # بلائیں سب تمام
ایک مَرگِ ناگہانی اَور ہے
پہلے مصرعہ میں تو غالب# نے تمام مصائب کے اختتام کا ذکر کیا ہے لیکن دوسرے مصرعہ میں ان مصائب کا اختتام مَرگِ ناگہانی قرار دینے سے اُمید و توقع حالات کے بہتر ہونے کی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ شعر اس وقت پاکستان کے مصیبت زدہ، لاچار، بے بس اور نااُمید عوام پر صادق آتا ہے کیونکہ وہ ہزار اور ایک مصیبتوں سے دوچار ہیں اور کہیں سے کوئی بہتری نہ نظر آتی ہے اور نہ ہی بہتری کی اُمید ہے۔ علّامہ اقبال نے تو اُمراء کے بارے میں یوں فرمایا تھا۔
”اُمراء نشہ دولت میں خفا ہیں ہم سے“
لیکن آج کے اُمراء بشمول حکمراں، خوش حال سیاست دان دولت کے نشہ میں نہ صرف مظلوم انسانوں سے علیحدہ اور بیگانے ہیں، نہ انہیں کسی کے غم سے واسطہ، نہ کسی کی پریشانی و مصیبت سے ہمدردی بلکہ اللہ رب العزّت سے بھی کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی اس کا خوف اور نہ ہی روز حشر کا ڈر، بس سب اپنی دولت میں اضافہ کی نت نئی ترکیبیں آزما کر زیادہ سے زیادہ دولت مند بننا چاہتے ہیں اور بوقت ضرورت اس نادار ملک کو اس کے حال پر چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں اپنے سرپرستوں، آقاؤں کے زیر سایہ زندگی کے مزے اُڑانے چلے جاتے ہیں۔ ان کی یہ تمام عیاری، منصوبہ بندی ان کو نظیر اکبر آبادی کی اس ہدایت کو بھلا دیتی ہے۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
اِنسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ تمام حالات دیکھ کر اور جان کر بھی زندگی کو فانی اور موت کو یقینی ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور بھول جاتا ہے کہ قیامت کا دن لازمی آنیوالا ہے اور ہر شخص کو اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
پاکستانی عوام کی ایک ایک مصیبت اور پریشانی ایک عظیم پہاڑ کی مانند ہے یہ بے چارے نہ اس پر حاوی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے مہنگائی کو ہی دیکھ لیجئے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور سب سے زیادہ ضروریات زندگی کو مہنگا کرنے والی پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ پر براہ راست اَثر انداز ہوتی ہیں اور ہر چیز بتدریج اضافہ کے ساتھ اتنی مہنگی ہوجاتی ہے کہ غریب تو کیا اب متوسط طبقہ کی استعداد سے باہر ہوجاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے نہ صرف ملک کی صنعتوں کو تباہ کردیا ہے بلکہ غریب درزی اور دھوبی بھی بے روزگاری کا شکار ہوگئے ہیں، نہ کپڑے سی سکتے ہیں اور نہ ہی ان پرا ستری کرسکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ پورا ملک، تمام صنعتکار چیخ چیخ کر تھک گئے ہیں، فیکٹریاں کارخانے بند ہوگئے ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں اور ہمارا سب سے اہم اور بڑا اثاثہ یعنی برآمدات کی تجارت تباہ ہوگئی ہے۔ ایک جانب تو یہ حکومت اس تباہ کن پالیسی پر عمل پیرا ہے اور دوسری جانب نہایت مضر شرائط کے تحت اَربوں ڈالر کے قرضہ جات لئے چلے جارہے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ حکمران اس صورت حال سے ناواقف ہیں وہ جان بوجھ کر غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرکے ملک کو تباہ کررہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ امریکہ اور روس میں سخت جان لیوا مقابلہ تھا۔ امریکہ ہتھیاروں سے کبھی روس کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔ انہوں نے ایک ایجنٹ گورباچوف تیار کیا اور بغیر جنگ کے روس ایک سپر پاور سے ایک جونیئر پاور میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں بھی یہ پالیسی اپنائی جارہی ہے کہ امریکہ بزور قوّت تو ہماری ایٹمی اور میزائل صلاحیت ختم نہیں کرسکتا تھا اس نے ایسے حکمراں ہمارے اوپر بٹھادیے ہیں کہ ملک کو معاشی طور پر تباہ کردیں اور پھر عوام چیخ اُٹھیں کہ ایٹم بم اور میزائل جہنم میں جائیں ہمیں روٹی، پانی، کپڑا، بجلی اور مکان چاہئیں۔ روس کے پرانے مقبوضہ ممالک نے بھی یہی کیا ، سب کچھ امریکہ کو دے دیا مگر فقیر کے فقیر ہی رہے۔ البتہ گورباچوف اور یلسِن نے امریکہ میں دس دس ہزار ڈالر کی ٹائیاں اور برانڈ سوٹ خریدے۔ اور یلسِن نے تو اپنی پارلیمنٹ پر ٹینکوں سے بمباری کراکے آگ لگادی۔
ہمارے حکمراں طبقہ نے قوّت برداشت (یا بے حمیتی) کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ اخبارات کچھ بھی لکھیں ۔ صحافی اور تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں ٹی وی اِسٹیشن کچھ بھی حقائق دِکھائیں ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔انہیں اگر فکر ہے تو صرف یہ کہ ان کے ساتھ حکومت میں شامل، لوٹ مار کرنے والے ناراض نہ ہوں اور علیحدہ نہ ہوجائیں۔ قدرت کا نظام ہے کہ اچھے، نیک کام میں شامل ہونے والے کم ہوتے ہیں اور غلط، لوٹ مار، ظلم و ستم کرنے کے لئے لاتعداد لوگ شامل ہوجاتے ہیں یہی آجکل ہو رہاہے۔ جرمن جیسی اعلیٰ تعلیمیافتہ اور مہذب قوم کی اکثریت ہٹلرجیسے جاہل، ظالم ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل ہوگئی تھی۔ نام نہاد اپوزیشن پارٹیاں شور و غل تو بہت کرتی ہیں، علیحدہ ہونے کی دھمکیاں دیتی ہیں مگر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد (عوام کے مقاصد نظر انداز کرکے) پھر حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر مزے اُڑانے لگتی ہیں۔
آپ کو علم ہے کہ روسی کمیونزم نظام میں، اور دوسرے ممالک میں جہاں ڈکٹیٹر قابض ہوگئے تھے اپوزیشن کا نام نہیں تھا۔ ہم نے ایک نیا کلچر ایجاد کیا ہے کہ حکمرانوں نے لالچ، بلیک میلنگ وغیرہ جیسے حربے استعمال کرکے اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس گرانڈ اشتراک سے بڑے بڑے مسائل حل کرلئے جاتے لیکن ہمارے سامنے ان لوگوں کی نااہلی اور ناکامی کے لاتعداد واقعات موجود ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم مثال کراچی کی موجودہ حالت، ٹارگٹ کلنگ، دوکانوں، بسوں، کاروں کی آتش زنی ہمیں سراجیوو کی یاد دلا رہا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے صرف ’ہم نے نوٹس لے لیا ہے‘ کے علاوہ اور کوئی خبر نہیں آتی۔ ہر پارٹی دوسری پارٹیوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ مرنے والے غریب، چند افراد کے رزق کا سہارا تھے۔ رحمن ملک ہر مرتبہ توپیں داغ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور قتل و غارت گری جاری رہتی ہے۔
دیکھئے انسان عوام پر مصیبتوں کے پہاڑوں کی فہرست میں کیا کیا شامل کرے۔ قانون، امن و امان کی بات چھوڑیئے، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل میں اربوں روپیہ کی کرپشن اور ناقص کارکردگی، گیس، پٹرول کا فقدان غرض پورا ملک کسی بھی پسماندہ افریقی ملک سے بدتر حالت میں پہنچ گیا ہے۔
میں نے اَپنے ایک کالم میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے یہاں جمہوریت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس ملک کو ٹھیک کرنے کے لئے صدارتی نظام کی اشد ضرورت ہے۔ صدر براہ راست پورے ملک کے عوام کے ووٹوں سے چنا جائے اور اس کو وزراء کا چناؤ کرنے کی پوری آزادی ہو اور وہ بہترین، ایماندار، قابل تجربہ کار وزراء کو متعین کرے، پارلیمنٹ اور سینیٹ کے ممبران کا کام صرف قانون سازی اور وزراء کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہو۔ ایک نہایت طاقتور، غیرجانبدار الیکشن کمیشن اور ایک طاقتور غیرجانبدار عدلیہ ہی ایک عوامی صدر کے ساتھ مل کر اس ملک کو بچا سکتے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام ہماری تباہی اور ٹکڑے ٹکرے ہونے کا سو فیصد کامیاب نسخہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام نہایت بے حس ہوگئے ہیں، تمام ہمّت مدافعت کھو چکے ہیں اور ایک معجزہ ہی ہمیں اس عذاب سے نجات دلاسکتا ہے۔ اب تو بے چارے عوام کی خاموشی نور جہاں والا گانا یاد دلاتی ہے۔
ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا سنائیں
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
پچھلے دنوں فلسطین کا مسئلہ بہت گرم خبر بن گیا اور دنیا بھر کے اخبارات، رسالوں میں اس پر تبصرے کئے گئے۔ ملکی اور غیرملکی ٹی وی پروگراموں میں ماہرین اور منافقوں نے کھل کر اس پر تبصرہ کیا۔ وجہ یہ ہے کہ چالیس سال سے زیادہ مغربی لیڈروں کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرکے اب فلسطین کے موجودہ صدر جناب محمود عباس نے 23 ستمبر 2011 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کردیا اور پھر 24ستمبر کو باقاعدہ طور پر سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ایک درخواست پیش کردی اور بس ایک طوفان برپا ہوگیا۔ امریکہ اور فرانس نے کھل کر مخالفت کی اور دوسرے مغربی ممالک اگرچہ خاموش بیٹھے ہیں لیکن ووٹنگ کے وقت یہی اندازہ ہے کہ وہ بھی امریکہ اور فرانس کا ساتھ دینگے۔ میں اپنے ہر دلعزیز اَخبارات جنگ اور نیوز کے قارئین کے لئے اس مسئلہ کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ تقریباً اڑھائی سال پیشتر صدر اُوباما نے جامعہ الازہر میں ایک تقریر کی اور مسلمانوں کی اور اسلام میں چند باتیں کیں تو میں نے فروری 2009 میں ان ہی اخبارات میں ایک مضمون لکھا تھا کہ اوباما کی یہ تقریر (اور بعد میں انقرہ میں کردہ تقریر) عیّاری پر اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے حالانکہ بہت سے مسلمانوں اور خود ہمارے یہاں امریکی ہمدردوں نے بھنگڑے ڈال کر اس کی بہت تعریف کی اور اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اب واقعی اوباما ایک سیاہ فام صدر (اور حقیقی اور پھر سوتیلے مسلمان والدوں اور بچپن میں مسلمان ہونے اور اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے) یقینا مسلمانوں کے جائز حقوق کو پامال نہیں کرے گا۔ جب اوباما نے یہ کہا کہ وہ اور امریکہ اسلام کے دُشمن نہیں ہیں تو میں نے صاف طور پر تبلایا تھا کہ ہاں یہ اسلام کا دشمن نہیں ہے مگر اسلام اور مسلمانوں میں تفریق کرتا ہے اور بیگناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کو بُرا نہیں سمجھتا بلکہ باعث فخر سمجھتا ہے۔
اَب 21 ستمبر 2011 کو اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کر ڈالی اور کہا کہ مشرق وسطیٰ (یعنی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان) امن معاہدہ بیانات اور قراردادوں سے حاصل نہیں ہوگا (اسرائیل کا ناجائز قیام تو قرارداد سے وجود میں آسکتا ہے!) بلکہ اسکے لئے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات سے حاصل ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ مذاکرات اور معاہدے اس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں مخالفین کم و بیش ہم وزن ہوں اور برابر کی قوّت رکھتے ہوں۔ ایک طرف تو مغربی ممالک نے اسرائیل کو ایٹم بم بنانے کی تمام سہولتیں اور جدید ترین ہتھیار دے کر اتنا طاقتور کردیا کہ وہ ایک ہفتہ میں تمام عرب ممالک کی مشترکہ افواج کا قلع قمع کرنے کے قابل تھا اور دوسری طرف فلسطینی تھے جن کے پاس سوائے پتھروں اور غلیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ تو ایسا ہی حال تھا کہ ایک شیر اور بکری کو پنجرے میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ امن و امان اور افہام و تفہیم سے ایک ساتھ رہیں۔ جو نتیجہ یہاں ہونا ہے وہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہوا ہے۔
اَپنے 24 اپریل، 6 مئی اور 24جون 2009 کے تین کالموں میں کئی مسلمان ممالک کے خلاف مغربی ممالک کے وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک اور قتل عام پر میں نے روشنی ڈالی تھی ان لوگوں نے ہمیشہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور سیدھے سادھے عوام کو نہایت عیّاری اور مکّاری سے اپنا غلام بنا لیا۔ ان ممالک کے قدرتی وسائل لوٹ لیے اور وہاں کے عوام کو جہالت کے کنوئیں میں دھکیل دیا۔ موجودہ دور میں آپ کے سامنے عراق اور افغانستان کے واقعات سامنے ہیں۔ ان ممالک کے خلاف جھوٹے الزام لگا کر بش اور بلیئر نے ان کو تباہ کردیا تقریباً پندرہ لاکھ بیگناہ افراد قتل کردیئے ، ان کے خزانے خالی کردیئے اورقدرتی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ ایک آکٹوپس کی طرح ان لوگوں نے بے بس مچھلی کی طرح ان کو جکڑ لیا ہے اور ان کا خون چوس رہے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعدسے ان کی تمام توجہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو تباہ کرنے پر ہے۔ کشمیر، فلسطین کے تنازعات اس میں نمایاں ہیں۔ ان کی نگاہ میں نہ ہی کشمیری اور نہ ہی فلسطینی انسان ہیں اور نہ ہی کسی ہمدردی یا انسانی حقوق کے مستحق ہیں۔ فلسطینی عوام کے بارہ میں کہا گیا کہ وہ ابھی حکمرانی کے قابل نہیں ہیں، ان کے پاس اچھے ادارے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری عرب آبادی میں فلسطینی سب سے زیادہ مہذّب اورتعلیمیافتہ ہیں ۔ انھوں ے نہایت اعلیٰ ادیب، منتظم اور پروفیسر پیدا کئے ہیں اور ان کی قابلیت پر شک کیا جارہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آپ زرا پاپواینوگنی، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کا تعلیمی معیار اور تعلیمیافتہ لوگوں کی تعداد دیکھئے۔ ننگے، آدمخور، جانوروں کی کھال باندھ کر رہنے والے تو حکومت چلانے کے قابل سمجھے گئے ہیں اور بزور قوّت و دباؤ ان کو آزاد کرادیا گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں عیسائی رہتے تھے اور مغربی ممالک نے صلیبی جنگوں پر عمل کرتے ہوئے ان کو آزاد کرانا اپنا فرض سمجھ لیاتھا اور آزاد کرادیا۔
فلسطین کے بارہ میں اسی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے تمام مغربی ممالک میں یہودی دوسرے درجہ کے شہری سمجھے جاتے تھے ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ ان کی دکانوں پر ”کتے“ لکھا جاتا تھا ان کا ایک طرح کا سوشل بائیکاٹ تھا ۔اس ہی کی انتہائی شکل ہٹلر کی بہیمانہ پالیسی اور یہودیوں کا قتل عام تھا۔ ہٹلر کے مظالم کا بدلہ فلسطینیوں سے لیا گیا۔ جو یہودی، عیسائی اس وقت فلسطین میں تھے وہ آپس میں نہایت اچھے میل و ملاپ سے رہ رہے تھے کسی قسم کا تعصب نہ تھا۔ نفاق نہ تھا۔ لیکن مغربی ممالک نے یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم (اور خود کے احساس جرم کہ خاموش تماشائی بنے رہے) کے بدلہ میں ایک امن پسند اور بے گناہ قوم پر قیامت برپا کردی۔ فلسطینی مغربی لوگوں کی عیّاری اور چالوں سے واقف نہ تھے اور نادانستہ طور پر ان کے آلہ کار بن گئے اور اپنے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آئیے ہم زرا اس افسوسناک واقعہ کا تاریخی پس منظر دیکھتے ہیں۔
کیونکہ اخبار میں کم جگہ ہونے کی وجہ سے مجھے کالم کو مختصر رکھنا ہوتا ہے اس لیئے فلسطین کی مکمل پچھلی تاریخ بیان نہ کرسکونگا۔ صرف یہ عرض کرونگا کی کئی صلیبی جنگوں کے بعد آخری جنگ میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دے کر پورے فلسطین پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم کردی تھی ان کے جنگی قیدیوں سے نرم اور مہربانہ سلوک مغربی کتابوں میں بھی سنہری باب ہیں۔ یہاں اس وقت سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک حالات کم و بیش پُر امن رہے حالانکہ اس دور میں یہودی مسلسل کوشش کرتے رہے کہ فلسطین میں زیادہ سے زیادہ زمین خرید لیں اور وہاں بس جائیں۔ اس معاملہ میں مغربی ممالک میں قیام پزیر آگے آگے تھے اور وہی آکر بس رہے تھے۔ ترکی کے سلطان عبدالحمید نے ان پر زمین خریدنے کی پابندی لگا دی تھی۔
آپ کو علم ہوگا پہلی جنگ عظیم سے پیشتر تمام اسلامی ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصّہ تھے۔ صرف مراکش اور ماریطانیہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور جرمنی کی شکست کے بعد برطانیہ اور فرانس نے تمام عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اللہ تعلیٰ کے فرمان کہ ”یہود اور نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست یا محافظ نہیں ہوسکتے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ان سے دوستی نہ کرواور جو مسلمان ان کا ساتھ دے گا وہ انھیں میں سے ہوجائے گا اور اس کا انجام بُرا ہوگا“ کو بھلا دیا۔ ساتھ اللہ کے فرمان کو مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انھیں اپنے تمام تنازعات کو آپس میں افہام و تفہم سے حل کرنا چاہئے، نظر انداز کرکے اپنے زوال کے بیج بو دیئے۔ اسپین، وسط ایشیااور مشرق وسطیٰ میں ان کے زوال اور بے عزّتی کی وجہ آپس کے جھگڑے اور دشمنوں سے ملکر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوششوں نے ان کو تباہ کردیا۔ عربوں نے ترکوں کے خلاف انگریزوں اور فرانسیسیوں کے اُکسانے پر بغاوت کی اور اس قابل نفرت و ذلیل سازش میں حجاز کے والی شریف حسین (جس کو تاریخ میں شریف حسین آف مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ انگریزوں نے اپنے ایک فوجی ٹی ۔ای لارنس کو اس سازش کا سربراہ بنا کر بھیجا۔ یہ روانی سے عربی بولتا تھا۔ اس نے غدّار عربوں سے ترکوں پر حملے کرانا شروع کردیے اور تخریبی کاروائیاں شروع کردیں۔ سلطان ترکی نے ان علاقوں میں بہت تعمیری کام کئے تھے، سلطان عبدالحمید نے نہ صرف بغداد سے دمشق تک ریلوے لائن کی تعمیر کی بلکہ اس کو مدینہ منورہ تک توسیع دیدی۔ اسی زمانہ میں دمشق سے بیروت تک اور درعہ سے حیفہ تک ریلوے لائن بچھا دی گئی۔ان عرب غدّاروں نے برطانوی فوج (حقیقتاً ہندوستان کی مسلمان فوج) نے خانہ کعبہ پر گولہ باری کی اور حرم کے اندر مسلمانوں کو قتل کیا۔ یہ وہی فوجی تھے جن کی اولاد نے بعد میں لال مسجد میں نہ صرف 1200 سے زیادہ مسلمان بچّوں کو قتل کیا بلکہ قرآن کی بھی بے حرمتی کی اور جلا کر نالے میں پھینک دیا۔…
انگریزوں اور فرانسیسیوں نے عربوں سے وعدہ کیا تھا کہ جنگ ختم ہونے پر وہ بالکل آزاد اور خود مختار ہونگے۔ اور جب مغربی فوجیں شام میں داخل ہوئیں (یہ 1919 کا واقعہ ہے) تو عربوں نے شام کو ایک آزاد ملک قرار دے کر غدّار شریف حسین کے بیٹے شاہ فیصل کو بادشاہ بنا دیا۔ لیکن انگریز اور فرنسیسیوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا تھا۔ عراق اور فلسطین پر انگریزوں کاقبضہ ہوگیااور شام فرانس نے لے لیا۔جب عربوں نے شاہ فیصل کے ساتھ مداخلت کی تو سینیگال سے لائی ہوئی مسلمان فوج سے ہی مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔ اس وقت لبنان شام کا حصّہ تھا۔ فرانس نے وہاں عیسائی اکثریت پیدا کرکے اس کو آزاد ملک بنا دیا۔ 1920 میں جب شاہ فیصل بن حسین شام کا بادشاہ بنا تو اردن شام کا حصّہ تھا۔ شاہ فیصل کو بے دخل کرنے کے بعد فرانسیسیوں نے اس کے بھائی عبداللہ بن حسین کو اردن کا امیر تسلیم کرلیا۔ یہ انگریزوں کا پٹھو تھا اور اس نے فوج اور نظام حکومت انگریزوں کے حوالے کردیے۔انگریزوں نے شاہ فیصل کو جو بہت ذہین انسان مانا جاتا تھا، عراق کا بادشاہ بنا دیا۔ مارچ 1946کو اردن کو مکمل آزادی مل گئی۔ 1947 میں جب انگریزوں کا فلسطین سے اِنخلا شروع ہوا تو عرب ممالک نے یہودیوں کے قبضہ کو روکنے کے لئے جنگ چھیڑ دی۔ شام اور مصر کی فوجیں اس میں ناکام رہیں مگر اردن کی فوج نے مغربی کنارے اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔ (جاری ہے)
فلسطین کے تنازعہ کا اور تاریخ کا چونکہ عراق سے بھی قریبی تعلق رہا ہے اس لئے میں اس پر بھی کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ سن 641 میں حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت نعمان بن مقرن کی سربراہی میں ایک نہایت شدّت کی جنگ کے بعدکافروں کو شکست دی تھی۔کافروں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تھی۔ اسی جنگ میں فیروز نامی شخص گرفتار ہوا تھا جس نے بعد میں حضرت عمر کو مسجد نبوی میں شہید کردیا تھا۔ عراق کا علاقہ کچھ عرصہ بعد تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بن گیا تھا۔ خاص طور پر خلیفہ ہارون الرشید کا دور تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے۔ بنو اُمیہ کے دور حکومت کے بعد عراق پر عباسیوں کی خلافت قائم ہوگئی تھی اور جب ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کرکے آخری عباسی خلیفہ کو بے رحمی سے قتل کردیا اور بغداد کی نہایت قیمتی لائبریری کو جلا کر لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا تو یہاں منگولوں کی حکومت قائم ہوگئی اور اس کے بعد سن 1410 سے لیکر (صرف ایک مختصر عرصہ کے علاوہ جس میں ایرانی صفوی حکومت کا قبضہ رہا) 1918 تک ترکوں کی حکومت قائم رہی۔ سن 1918 میں جب پہلی جنگ کے خاتمہ پر عثمانیہ حکومت کمزور ہوگئی تو انگریزوں نے عراق پر قبضہ کرلیا۔ اپنے دور حکومت کے آخری تقریباً دو سو سال میں ترکوں نے بہت سے ترقیاتی کام کئے تھے اور مفید اصلاحات کی تھیں۔ انہوں نے عراق (بغداد) کو بذریعہ ریل ترکی اور شام سے ملادیا تھا ۔ اسی طرح استنبول سے بصرہ، بغداد کی ریلوے لائن کو بڑھا کر دمشق اور مدینہ منورہ سے ملا دیا تھا۔
جیسا کہ میں پارٹ ۔I میں عرض کرچکا ہوں کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد فرانس اور برطانیہ نے عرب ملکوں کو مال غنیمت کی طرح بانٹ لیا تھا اور عراق اور فلسطین انگریزوں نے لے لئے اور شام پر فرانس نے قبضہ کرلیا تھا۔ اور یہ کہ جب شامی عوام نے شاہ فیصل بن شریف حسین کو اپنا بادشاہ مقرر کیا تو فرانس نے بزور قوّت ان کو بے دخل کردیا اور جب شامی عوام نے مداخلت کی تو فرانس نے سینیگال سے مسلمان فوج ہی کے ذریعہ ان کا قتل عام کرایا۔ شاہ فیصل ریگستان میں چلے گئے تھے تو پھر انگریزوں نے ان کو عراق کا بادشاہ بنا دیا گویا یہ جہالت کا زمانہ تھا کہ بادشاہ جس غلام کو چاہے وزیر اعظم بنادے اور جس وزیراعظم کو چاہے تختہ دار پر لٹکا دے۔
انگریزوں نے یہ کام اپنی دور بینی کی وجہ سے کیا تھا کہ شریف حسین کی اولاد بھی غدّار ہوگی اور بعد میں ان کا ساتھ دے گی جو بالکل صحیح ثابت ہوا۔ شاہ فیصل نے 1921 سے1933 تک حکومت کی۔ ان کے بعد ان کا بیٹا شاہ غازی حکمراں بنا جو صرف 6 سال بعد ایک حادثہ میں ہلاک ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا فیصل ثانی (جو صرف شاہ فیصل کے نام سے مشہور ہوا) بادشاہ بنا اور یہ 1958 تک بادشاہ رہا۔ یہ اور اس کا چچا امیرعبداللہ عراق کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور عراق سے زیادہ انگریز کے وفادار تھے ان کا وزیر اعظم نوری سعید پاشا بھی بہت بڑا غدّار تھا۔ یہ تینوں مل کر عراق کو ایران اور پاکستان کے ساتھ ملا کر انگریزوں کے ساتھ 1955 میں معاہدہ بغداد میں شامل ہوگئے۔ یہ روس کے خلاف تھا اور اس طرح پاکستان نے پہلی مرتبہ مغربی ممالک کی غلامی قبول کرلی۔ عراق کے عوام مغربی ممالک کے سخت خلاف تھے اور فوج نے عبدالکریم قاسم کی سربراہی میں 1958 کو بغاوت کردی اور تینوں غدّاروں کو نہایت بیدردی سے قتل کرکے جیپ کے پیچھے لوہے کی زنجیر سے باندھ کر پورے شہر میں گھسیٹا۔ یہ ایک عبرتناک منظر تھا۔ 1920 میں جب فرانس نے شاہ فیصل کو شام سے بیدخل کردیا تو انگریزوں نے شریف حسین کے دوسرے بیٹے عبداللہ کو اردن کا امیر برقرار رکھا کہ یہ بے حد انگریز نواز تھا اور انگریزوں کو اس سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں۔1951 میں شاہ عبداللہ کو ایک فلسطینی نوجوان نے جب وہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ کر باہر آرہے تھے قتل کردیا۔
جناب ثروت صولت نے ایک کتاب تاریخ اسلامیہ کی مختصر تاریخ میں اس افسوسناک واقعہ پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ میں اسی کی مدد سے کچھ حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ترکوں کے خلاف عربوں کی امداد حاصل کرنے کے لئے برطانیہ نے عربوں سے آزاد عرب مملکت کا وعدہ کیا تھا اور اس میں کرنل ٹی۔ای لارنس پیش پیش تھا مگر یہ وعدہ ایک دھوکہ تھا اور حسب روایت برطانیہ اور فرانس نے ایک سازش کے ذریعہ ان ممالک کو آپس میں بانٹ لینے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ فرانس نے شام اور لبنان پر قبضہ کرلیا اور برطانیہ نے عراق، اردن اور فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ کے یہودی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 1917 میں ایک خفیہ معاہدہ کے تحت فلسطین کو یہودیوں کو قومی وطن بنانے کا وعدہ کرلیا تھا۔تقریباً دو ہزار سال پیشتر حضرت ابراہیم کے صاحبزادے اسحٰق نے جو اسرائیل کے نام سے بھی مشہور تھے کنعان میں رہائش اختیار کرلی تھی تو ان کی اولاد یہیں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئی تھی۔ اسی بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ اورحضرت سلیمان جیسے جلیل القدر پیغمبر پیدا ہوئے۔ بعد میں پہلے بابل کے حکمران بخت نصیر نے ان کو تباہ کیا اور بعد میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں پر مظالم ڈھاکر جلاوطن کردیا۔ اٹھارہ سو سال کی اس جلاوطنی میں انہیں صرف اسلامی ممالک میں پناہ ملی جن میں ترکی صف اَوّل تھا ۔ یورپ میں، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ان کو سخت نفرت سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو کتّے کے خطاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ تقریباً انیسویں صدی کے اواخر سے یہودیوں نے نہایت منظم طریقہ سے فلسطین میں بسنے اور زمینیں خریدنے کی مہم کا آغاز کیا۔ ترکی کے سلطان عبدالحمید نے ان کو وہاں بسنے اور جائداد خریدنے سے منع کردیا مگر ان کے بعد انگریزوں نے ترکوں پر دباؤ ڈال کر نہ صرف یورپی یہودیوں کو فلسطین آنے دیا بلکہ وہاں زمین خریدنے کی بھی اجازت دیدی۔ پہلی جنگ کے بعد تو ان کو کھلی آزادی مل گئی اور انہوں نے ہر جائز اور ناجائز طریقہ سے زمین پر قبضہ شروع کردیا۔(جاری ہے)
1845 میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی 1881 میں یہ تعداد 25 ہزار ہوگئی اور 1914 میں یہ تعداد 80 ہزار ہوگئی اور 1936 میں یہ تعداد ساڑھے چار لاکھ ہوگئی۔ 1938 میں جب یہودیوں کی تعداد کافی ہوگئی اور وہ ہتھیاروں سے لیس ہوگئے تو انگریزوں نے فلسطین کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ اس وقت تک عرب تقریباً 40 فیصد زمین سے محروم ہوچکے تھے۔ اس طرح جب جنگ عظیم دوئم میں شامل اور تجربہ کار تقریباً 25 ہزار یہودی فلسطین پہنچ گئے تو برطانیہ نے 1947 میں فلسطین چھوڑنے کے ارادہ کا اعلان کردیا۔29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی یہ تجویز منطور کرلی کہ فلسطین کو تین حصّوں میں تقسیم کردیا جائے، 4500 مربع میل کا علاقہ عربوں کو اور 5338 مربع میل کا علاقہ یہودیوں کو دیدیا گیا اور بیت المقدس اور آس پاس کا 289 مربع میل کا علاقہ اقوام متحدہ کے تحت کردیا گیا۔ جنرل اسمبلی نے دو تہائی سے یہ تجویز منظور کرلی۔ انگریزی فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عربوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ مصر، اردن،عراق اور سعودی فوجی دستے فلسطین میں داخل ہوئے مگر یہودیوں نے ان کو شکست دیدی۔ مصری فوج صرف غزہ شہر اور آس پاس کے چھوٹے سے علاقہ پر قبضہ کرسکی، صرف اردن کی عرب لیجن جس کی تربیت انگریزوں نے کی تھی وہ کامیاب رہی اور اس نے وسطی فلسطین اور بیت المقدس کو یہودیوں سے بچا لیا۔ 1948 میں جنگ بند ہوگئی اور 1949 میں مغربی ممالک کے دباؤ کے تحت عرب ممالک کو اسرائیل سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کرنا پڑے اور 11مئی 1949 کو اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بن گیا۔ 1948 میں جب اسرائیل قائم کیا گیا تھا اس وقت اس کا رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں پانچ لاکھ یہودی اور پانچ لاکھ چھ ہزار عرب آباد تھے۔ اس وقت اس کا رقبہ تقریباً 34 ہزار مربع میل ہے اور آبادی 57 لاکھ ہے، امریکہ میں 52 لاکھ ہیں اور یورپ میں 15 لاکھ ہیں۔
اسرائیل کی توسیعی پالیسی کو امریکہ اور یورپی ممالک کی پوری حمایت حاصل ہے۔ پہلے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے 1956 میں مصر پر حملہ کیا اور بہت سے علاقہ پر قبضہ کرلیا تھا لیکن روس اور امریکی صدر آئزن ہاور کے دباؤ کی وجہ سے ان کو واپس جانا پڑا۔ جمال ناصر کی خودفہمی اور شیخی بازی نے ایسے حالات پیدا کئے کہ اسرائیل نے 1967 میں مصر پر حملہ کیا اور نہ صرف پورے سنائی پر قبضہ کرلیا بلکہ سوئز کنال کو بھی اسرائیلی جہازوں کے لئے کھول دیا جو ناصر نے بند کردی تھی۔ مصری فوج کو نہایت ذلّت آمیز شکست ہوئی،پوری ہوائی فوج زمین پر تباہ ہوگئی اور ساتھ میں اسرائیل نے اردن کے مغربی علاقہ اور بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیا۔ تمام کوششوں کے باوجود اسرائیل نے مقبوضہ علاقہ جات خالی کرنے سے انکار کردیا تو انورسادات نے اکتوبر 1973 میں نہر سوئز پار کرکے اسرائیلی فوج پر حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوج کو بہت نقصان پہنچا اور امریکہ اور دوسرے ممالک نے جنگ بندی کرادی۔ اس کے بعد ایک نہایت عیارانہ چال سے امریکہ نے عربوں اور اسرائیل میں پہلے اوسلو کا معاہدہ کرایا اورپھر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کرایا۔ اس کے تحت فلسطینیوں سے لاتعداد وعدے کئے گئے اور وعدہ کیا گیا کہ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ سے واپس چلا جائے گا اور موجودہ حالت یہ ہے کہ اسرائیل نہ ہی پی ایل او یا فلسطین اتھارٹی یا حماس سے کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی اسکا مقبوضہ علاقہ جات (مغربی کنارہ،بیت المقدس، جولان کی پہاڑی) کو خالی کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کو امریکی اور یورپی ممالک کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اس کو امریکہ نے اتنا طاقتور بنادیا ہے کہ ایک ہفتہ میں وہ تمام عربوں کی مشترکہ افواج کو تہس نہس کرسکتا ہے۔ فرانس نے اس کو ایٹمی قوّت بنا دیا ہے، امریکنوں نے لاتعداد جدید ہوائی جہاز، ٹینک، میزائل اور دوسرے ہتھیار اس کو دیدیے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے عوام کا قتل عام جاری رکھا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں غزہ میں چودہ سو بیگناہ افراد کو قتل کردیا تھا۔ اُدھر پورے زور شور سے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیرجاری ہے اور یہودی باہر سے بلا کر بسائے جارہے ہیں۔ اس وقت مغربی کنارے پر ایک تہائی یہودی آبادی ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ میں یہ عربوں سے زیادہ ہوجائیں گے۔ تمام امریکی صدور نے اسرائیل کو اس معاملہ میں کھلی اجازت دی ہے۔ باہر کے بیانات صرف دکھاوے کے ہیں۔ عرب یا فلسطینی کچھ بھی نہیں کرسکیں گے کیونکہ ”ہے مرضِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“ والی بات ہے۔ عربوں کو ان کی ترکوں سے غدّاری اور احکام الٰہی ”کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے دوست نہ بنو“ کی خلاف ورزی کا عذاب الٰہی سے جواب مل رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں قرارداد کا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہر قرارداد کے لئے امریکی ویٹو تیار ہے۔
اگر جمال ناصر، حافظ اسد اور دوسرے عرب حکمرانوں میں بھٹو صاحب کی طرح عقل فہم اور دوربینی کی صلاحیت ہوتی تو وہ 1956 کے بعد ہی سے فوراً ایٹمی پروگرام شروع کردیتے اور وہ دس سال میں ایٹمی قوّت بن سکتے تھے۔ اس وقت نہ ہی این پی ٹی اور نہ دوسرے قواعد بنائے گئے اور تمام یورپی ممالک کی کمپنیاں کھلے عام ایٹمی سامان کی پیشکش کررہی تھیں اور بیچ رہی تھیں۔ لیکن عربوں کو سوائے مغربی ممالک میں جاکر عیاشی کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی طرف سے عوام اور فلسطینی جہنم میں جائیں۔ آج بھی تیل کی رسد بند کرکے وہ مغربی ممالک کو مجبور کرسکتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ دو ہفتوں میں حل کردیں۔ خدا بھٹو صاحب کو ، جنرل ضیاء کو، غلام اسحق خان کو، آغا شاہی صاحب کو جنت نصیب کرے اور میرے رفقائے کار اور مجھ پر رحمت برقرار رکھے کہ ہم نے اس ملک کو اور عوام کو ان حالات ، ذلالت سے بچا لیا جو ہمیں فلسطینیوں کی طرح ہندوؤں کے ہاتھ اُٹھانا پڑتی۔
فقید المثال اَسد اللہ خان غالب# کا ایک مصرعہ ہے۔ ”جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے“۔ اس وقت پوری قوم ایک سخت آزمائش میں مبتلا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، امن و امان کا فقدان اِنسان (حکمرانوں) کی اپنی پیداکردہ مصیبتیں ہیں لیکن عوام کو آزمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سیلاب کو سندھ میں اور ڈینگی بخار پنجاب میں ہمارے اوپر ایک عتاب کی شکل میں نازل کردیا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھر سے ہی نمرود کو ہلاک کیا تھا اور فرعون اور حضرت نوح کے مخالفین کو سیلاب سے تباہ کیا تھا۔ہم پر یہ دونوں عذاب بیک وقت نازل ہوگئے ہیں۔…
کراچی میں قتل و غارتگری، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ نے پوری دنیا میں پاکستان کو آؤری کوسٹ اور لائبیریا کی صف میں کھڑا کردیا۔ اللہ تعالٰی چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھی دوسرے معزز جج صاحبان کو حفظ و امان میں رکھے اور اپنی رحمت سے نوازے کہ ان کی بروقت مداخلت نے اس قابل نفرت کھیل کو وہاں جاکر بند کردیا اور سیدھے سادے لوگ سکون کا سانس لے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں قتل و غارت اور بھتہ خوری جیسی لعنتیں کہیں باہر سے کسی نے ہم پر نازل نہیں کیں یہ ہمارے اپنے خودغرض، نااہل حکمرانوں اور ان کی پارٹیوں نے ہم پر نازل کی ہیں۔ ہر جماعت میں، بقول سپریم کورٹ، بھتہ خور اور قاتل موجود ہیں۔ اب رینجرز اور پولیس نے مل کر مجرموں کی بیخ کنی شروع کردی ہے اور اُمید ہے کہ روشنیوں کا پُر امن شہر دوبارہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ بڑا مسئلہ یہ ہے حکومت میں شامل تمام پارٹیوں کے پاس مسلح ٹولے موجود ہیں اور انہوں نے سرکاری سرپرستی میں مہلک ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔ رینجرز اور پولیس کے لئے ان کا سراغ لگانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بڑے بڑے بااثر لوگ اس میں ملوث ہیں اور وہ رینجرز اور پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے رفقائے کار نے بوری بند لاشوں، اعضا و گردن کٹی ہوئی لاشوں ، تشدد شدہ لاشوں جیسے قابل نفرت جرائم کو کسی حد تک ختم کردیا ہے صرف اِکّا دُکاّ واقعات ہو رہے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے اور سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ مسلمان اپنے ہم مذہب بھائیوں اور بہنوں کو اس قدر سنگدلی اورسفّاکی سے قتل کرسکتے ہیں۔ دنیا میں کہیں اور ایسی مثال نہیں ملتی اور ان مجرموں کے لئے نہ ہی مساجد، نہ مزارات اور نہ ہی تعلیمی ادارے مُقدّس ہیں۔
تمام اہل علم، عقل و فہم اس پر متفق ہیں کہ اس لاقانونیت، خودکش حملوں کی بنیاد مشرف نے ڈالی تھی۔ لال مسجد پر بہیمانہ فاسفورس سے معصوم بچوں اور بچیوں کو زندہ جلا کر اور قرآن کی بے حرمتی کرکے اس نے مذہبی جماعتوں کو اشتعال دلایا۔ دوئم یہ کہ فوج کو پہلے ہی امریکہ کے زر خرید غلاموں کی طرح تھوڑے سے ڈالر لے کر ان کی جنگ میں جھونکنے اور اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل کرنے کی وجہ سے ہمارے یہاں خودکش حملوں نے جنم لیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ ہر سال ہمیں ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ مدد دیتا ہے وہ امداد کہاں جاتی ہے یا کون کھاتا ہے کسی کو علم نہیں۔ ہاں عوام اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے ان تک ایک ڈالر بھی نہیں پہنچتا۔ اگر یہ رقم عوام پر خرچ ہوتی تو پھر مسلسل بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ بہرحال اس امریکی امداد اور اس کے ساتھ ہمیں جنگ میں جھونکنے کا نتیجہ یہ ضرور نکلا ہے ہم امریکہ کے ہراول دستہ کا غلیظ کام انجام دے رہے ہیں اور پھر گالیاں بھی پڑ رہی ہیں۔ اس اتحاد کا نتیجہ 35 ہزار افراد کی شہادتوں کی شکل میں ملا ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مشرف نے ملک اور قوم کی غیرت ، عزّت فروخت کردی اور وہ چند ٹکوں کے عوض، فائدہ صرف بدعنوان اور راشی حکمرانوں کو ہوا ہے۔ ساتھ ہی افغان اور پاکستانی جنگجو قبائل نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ہمیں اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرکے اپنی بندوقوں اور راکٹوں کا رُخ ہماری جانب کردیا ہے۔ جا بجا حملے، یہاں تک کہ فوجی تنصیبات پر بھی خود کش حملے اور لاتعداد لاشیں ملنا روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہم نے امریکہ کے دباؤ میں آکر سوات، وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں فوج کو کسی غیر ملکی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی بہن بھائیوں اور بچوں کو ہلاک کرنے پر لگا دیا اور روز فخریہ انداز میں بیانات آنے لگے اتنے ”دہشت گردوں“ کو ہلاک کردیا۔ بھاری توپوں، ہیلی کاپٹر گن شپ اور لڑاکا جہاز بے دریغ استعمال کئے اور نتیجہ صفر۔ امریکہ اب بھی روز الزام تراشی کررہا ہے اور سب سے زیادہ الزامات فوج اور آئی ایس آئی پر لگا رہا ہے۔ ہم ان کے مرسینری بن کر ان کے دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں اور 35 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوگئیں اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا اور اب ملک کا شیرازہ بکھرنے کو ہے۔ بدقسمتی سے نہ ہی سول حکمرانوں اور نہ ہی فوج کو ملکی خود مختاری اور آزادی کا خیال ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی حملہ آور افغانوں اور پٹھانوں سے نہیں جیتا۔ تین ہزار بلین ڈالر خرچ کرکے اورتقریباً دو ہزار فوجی مرواکر اور دس سال جنگ کرنے کے بعد بھی آج امریکہ وہیں ہے جہاں پہلے تھا بلکہ اس ناجائز جنگ پر اس قدر رقم خرچ کرکے اس کی معاشی حالت بالکل تباہ ہوگئی ہے اور وہاں 45 ملین سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں اور 50 ملین کی ا نشورنس نہیں ہے۔ بش جو ایک ناجائزجنگ شروع کرگیا تھا اوباما نے اس کو اپنا لیا ہے۔ پاکستان نے غلامی قبول کرکے اور اپنے ہی شہریوں کو قتل کرکے جو صلہ پایا وہ اس شعر کے مطابق ہے۔
لو وہ بھی کہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
مغربی لیڈروں کی یہ خصلت ہے کہ وہ کھلے عام جھوٹ بولتے ہیں اور پھر ان کا پورا پریس اسز کو اچھالتا ہے اور اپنے عوام سے ایک جھوٹ کو سچ منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اوباما نے بخوشی اس پالیسی کو اپنا لیا ہے۔ آپ نے ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں اوباما، ہلیری کلنٹن اور دوسرے لیڈروں کے بیانات اس کو سفارت کار قرار دے رہے تھے اور ہمارے حکمرانوں نے خود قتل کئے گئے پاکستان نوجوانوں کے ورثاء کو رقم دے کر یعنی خون بہا دے کر اس قاتل کو باعزّت واپس بھیج دیا۔ ان سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ اس کے بدلہ ڈاکٹر عافیہ کو جس کو جھوٹے مقدمہ میں 76 سال کی قید سنائی گئی ہے اپنے ملک واپس لے آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم بزدل ہیں، ضمیر فروش ہیں، راشی ہیں اس لئے وہ احسانات کی پروا نہیں کرتے اور من مانی کرتے ہیں ان کا ایک ادنیٰ افسر آتا ہے اور ہمارے سب حکمران با اَدب اسکو خوش آمدید کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، نہ ہی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی تمام جماعتوں کی متفقہ قرارداد کی۔ اور یہ بھی ایک عیّارانہ ، غلامانہ چال ہے کہ اس قسم کے اجلاس کو خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ امریکہ کو یہ علم نہ ہو کہ کون جھوٹ بول رہا ہے یا امریکہ پر تنقید کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمراں امریکہ کی غلامی قبول کر چکے ہیں۔ ان کے اثاثے باہر ہیں ان کے عزیز و اقارب امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی شہریت لی ہوئی ہے اس لئے دکھاوے کو یہ اِکّا دُکّا امریکہ کے خلاف بیان دے دیتے ہیں اور پھر امریکی سفیر کے سامنے حاضر ہو کر کہتے ہیں کہ آپ اپنی پالیسی پر عمل کیجئے ہم تھوڑا بہت شور مچاتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی حکمراں اور نہ ہی عسکری قیادت ملک کی خودمختاری کی پروا کرتے ہیں۔ سب حلف جو اُٹھائے جاتے ہیں وہ ایک رسمی (بے معنی ) عمل ہوتا ہے۔ اس وقت ملک جس دور سے گزر رہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے۔ ہمیں اس کے مستقبل کے بارے میں اب بہت سخت فکر ہوگئی ہے۔ کوئی چیز بھی تو یہاں آجکل صحیح کام نہیں کررہی ہے۔ پورا نظام اپاہج بن کر رہ گیا ہے۔ ہر شعبہ نااہلیت اور بدنامی کا شکار ہے۔ ہمارے جمہوری صدر صاحب بھی پرویز مشرف کی حرف بحرف تقلید میں سرگرم عمل ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ نہ صرف امریکہ نواز پالیسی پر عمل پیرا ہیں بلکہ اربوں روپیہ کے قرضے بھی معاف کررہے ہیں اور بادشاہ کی طرح چور کو ساہوکار بنادیتے ہیں۔
دیکھئے اس وقت پورا ملک یعنی سیاسی حکمراں اور افواج پاکستان کی قیادت ایک سخت امتحان سے گزر رہی ہے۔ نہ ہی حکمران اپنے فرائض صحیح طریقہ سے انجام دے رہے ہیں اور نہ ہی عسکری قیادت اپنے حلف کی پاسبانی کررہی ہے۔ سیاسی لیڈر ذمّہ داری افواج پر ڈال رہے ہیں اور عسکری قیادت آرام سے بیٹھی رہتی ہے اور کہتی ہے سیاسی حکمران جب حکم دیں گے تو عمل پیرا ہوں گے۔ اس وقت یہ پوزیشن ہے کہ ہم بہت بڑی آزمائش میں ہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے ہمیں ہر آزمائش پر پورا اترنا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ:
”جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے“
لیکن اس آزمائش میں پڑنے کے لئے بھی اللہ کی نظر کرم کی ضرورت ہے کیونکہ:
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
ہمارے یہاں آجکل چند واقعات نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ، بلوچستان میں غیرعلاقائی رہائش پزیر لوگوں کا قتل اور اَب پنجاب میں مہلک ڈینگی بخار کا حملہ۔ پہلی بیان کردہ دونوں چیزیں تو انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں لیکن ڈینگی کا بخار ایک قدرتی عذاب سمجھ لیجئے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود سیاست دان اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بے حسی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ روز نِت نئے الزامات لگائے جارہے ہیں اور بہتان بازی کا ایک مقابلہ جاری ہے۔
دیکھئے جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو وہ طوفان کی طرح آتی ہے او ر اس سے نمٹنا بہت بڑا امتحان ہوتا ہے۔ ڈینگی بخار ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے۔ ٹی وی اسٹیشنوں نے اس وبا کے بارہ میں عوام کو بہت اچھی طرح آگاہ کردیا ہے اور اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بھی بتلا دی ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارے ملک میں اکثریت غیر تعلیمیافتہ سیدھے سادھے عوام کی ہے وہ مناسب احتیاط نہیں کرپاتے اور اس موذی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور تعلیمیافتہ قومیں اس قسم کی وبا سے اچھی طرح اور موثر طریقہ سے نمٹ لیتی ہیں۔ وہاں الزام تراشی اور بہتان بازی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ پوری قوم یک جان ہوکر ایسی وبا اور بیماری کا موثر طریقہ سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اور کبھی اپنی اپنی سیاست نہیں چمکاتے۔
آپ کو ایک حقیقی واقعہ بتلاتا ہوں۔ 1969 دسمبر کے مہینہ میں جبکہ برفباری جاری تھی اور بہت سخت سردی پڑرہی تھی یورپ کے تقریباً تمام ممالک میں مشرق سے پھیلنے والی وبا ماؤفلو نے حملہ کردیا تھا ۔ میں اس وقت اپنی ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی تھیسس پر کام کررہا تھا اور بلجیم میں لیووِن کی یونیورسٹی میں تحقیق کررہا تھا۔ دسمبر کے اواخر میں مجھے بھی اچانک بخار چڑھا اور نہایت سخت کھانسی کا حملہ ہوا۔ کھانس کھانس کر میرے پیٹ اور پسلیوں میں ناقابلِ برداشت درد ہورہا تھا۔ جب میرے پروفیسر کو میری بیماری کا علم ہوا تو اُنھوں نے یونیورسٹی ہاسپٹل کے اے ماہر پروفیسرپاؤ لْس کو مجھے دیکھنے بھیجدیا۔ وہ مجھے دوائیں دینے لگے اور وہ روز صبح ساڑھے آٹھ، نو بجے مجھے دیکھنے آنے لگے۔ سب سے پہلے اُنھوں نے میری خستہ حالت دیکھ کر کھانسی کے لئے گولیاں تجویز کیں۔ یہ دوا بلجیم میں ہی جرمنی کی ایک مشہور دواؤں کی کمپنی بورِنگرانگل ہائم بنارہی تھی اور اس کی خرید و فروخت پر سخت پابندی تھی، بغیرکسی مستند ڈاکٹر کی پرچی کے اس کو خریدا نہیں جاسکتا تھا ۔ اس دوا میں کوڈین شامل تھی اور یہ کھانسی کے لئے اکسیر ثابت ہوئی۔ خدا خدا کرکے کھانسی پر قابو پالیا گیا مگر بخار نے مجھے بے حد کمزور کردیافیسر ڈاکٹر پاؤلْس ایک درمیانہ قد کے نہایت مہربان و نرم گو انسان تھے اور مجھ پر غیر ملکی مہمان کی حیثیت سے بیحد مہربان تھے۔ جب وہ صبح تشریف لاتے تو میری بیگم ان کو کافی بنا کر دیدیتی تھیں اور وہ میری تشخیص کرکے دواؤں میں ردّوبدل کرتے رہتے تھے، وہ روز ہمیں یہ بتلاتے کہ ان کے مریضوں میں سے کبھی سات، کبھی آٹھ مریض فوت ہوگئے تھے۔ یہ ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ بیماری کی سنگینی اور مہلک ہونے کے بارہ میں محتاط رہنے کے لئے بتاتے تھے۔ اس وقت ہم ٹی وی پر روز دیکھتے تھے کہ یورپ کے کئی ممالک میں پانچ سو، چھ سو افراد روز فوت ہو رہے تھے لیکن ہرملک میں پوری قوم اس مہلک اور موذی مرض سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں برسرِپیکار تھی۔ کسی ایک فرد نے بھی کبھی ایک حرف شکایت زبان پر لایا۔ سب ایک تھے اور متحد ہوکر اس موذی مرض سے نمٹنے کے لئے جدّوجہدکررہے تھے۔ ایک روز موسم اچھا ہوا اور دھوپ نکلی تو میں گرم کپڑے پہن کر تھوڑی دیر دھوپ میں بیٹھ گیا، دو ماہ سے باہر قدم نہ رکھا تھا۔ بس شام کو سخت بخار ہوگیا اور کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ دوسرے روز ڈاکٹر صاحب آئے تو بہت ناراض ہوئے کہ میں نے بد احتیاطی کی تھی اور میرے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ مجھے فوراً ہسپتال بھیجا اور ایکسرے کرایا تو پتہ چلا کہ مجھے نمونیا ہوگیا تھا اور دائیں پھیپھڑے پر ایک سیاہ داغ پڑ گیا تھا جو میں آج بھی لئے پھرتا ہوں۔ خدا خدا کرکے تین ماہ بعد میں صحتیاب ہوا اور واپس یونیورسٹی جاسکا اور توانائی حاصل کرنے میں مزید دو تین ماہ لگ گئے تھے۔ ہماری مشکلات میں ایک اور اضافہ ہوگیا تھا کہ میری بیگم کو بھی سخت بخار ہوگیا تھا ۔ وہ بھی بستر پر لگ گئی تھیں اور بمشکل چھوٹی موٹی چیز تیار کرسکتی تھیں۔ اس وقت ہماری بڑی بیٹی دینا تقریباً 11 ماہ کی تھی۔ یونیورسٹی نے ایک طالبہ کو ہمارے لئے مقرر کردیا تھا کہ وہ روز آکر گھر کا سامان لادیتی تھی اور دینا کو پرام میں بٹھا کر کچھ دیر باہر تازہ ہوا میں گھما لاتی تھی۔ ہمارے ساتھیوں نے بھی بہت سہارا دیا تھا۔
دیکھئے نہ صرف اس مہلک وبا کے دوران یورپ میں بلکہ مشرقی ممالک میں سونامی کی تباہ کاری اور ہلاکتوں کے دوران بھی ان ممالک میں کسی نے سیاست چمکانے کی کوشش نہیں کی۔ امریکہ میں بار بار سیلاب اورطوفان آتے ہیں مگر کبھی کوئی حکومت وقت پر الزام نہیں لگاتا۔ یہ صرف ہمارے ملک میں ہی اللہ کا عتاب ہے اور نحوست ہے لوگوں کی تکالیف اور اموات پر سیاست چمکائی جارہی ہے۔ کراچی میں درجنوں معصوم عوام قتل کئے جاتے ہیں اور سیلاب سے اندرون سندھ تباہی پھیلی ہوئی ہے اور سوائے فوٹو سیشن کے اور کچھ نہیں کیا جارہا تو یہ لوگ ایک لفظ حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے اور نہ ہی سندھ کی حکومت اور وزیر اعلیٰ کی برطرفی یا استعفیٰ کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ پنجاب میں ایک مہلک بیماری سے، سات آٹھ افراد فوت ہوتے ہیں تو پوری سرکاری مشینری پنجاب کی حکومت اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے خلاف سرگرم عمل ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اپنی جانب سے اس وبا سے نمٹنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔ ان سے زیادہ کوئی اور وزیر اعلیٰ عوام کے لئے اتنا کام نہیں کررہا ۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس وقت ذاتی سیاست کو پاس پردہ ڈال کر یک جان ہوکر اس موذی مرض سے نمٹنے کی کوشش کرتے اور عوام خود ہی دیکھ لیتے کس نے ان کی مدد کی اور کون ان کا ہمدرد تھا۔ مجھے پورا یقین ہے اور اعتماد ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پوری تندہی اور دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ان کی جانب سے قطعی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہورہی ہے۔ حکمران طبقہ کی احسان فراموشی ہے کہ ن۔لیگ نے ان کو ووٹ دے کر تخت پر بٹھایا اور دوستانہ اپوزیشن کے طعنے کھاتے رہے مگر ڈھٹائی سے حکومت کو گرنے نہیں دیا اوراس لیے اب ان پر ہی لعن طعن اور بہتان بازی ہورہی ہے۔
سندھ سے سیلاب سے متاثرہ لوگوں اور پچھلے سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ پریشان حال و بے یارو مددگارعوام کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت یاد آجاتا ہے۔ نظام الملک طوسی نے بیان کیا ہے ان کے زمانہ میں بہت سخت قحط پڑا اور پوری رعایا ایک عذاب میں مبتلا ہوگئی۔ کچھ متاثرہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا امیرالمومنین ہم تو اپنا خون ِ جگر پی رہے ہیں، ضعف اور کمزوری سے ناکارہ ہوگئے ہیں کھانے کو کچھ میسر نہیں۔ شاہی خزانہ میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ہماری تکالیف دور کرسکتی ہیں۔ آپ سوچیئے کہ یہ تمام مال نہ آپ کا ذاتی ہے یا خدا کا مال ہے یا اس کے بندوں کا مال ہے۔ اگر یہ قوم کا مال ہے تو ہماری اس پر حق ہے اور اگر اس کو اللہ کا مال سمجھا جائے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے اور اسے اگر ذاتی دولت سمجھا جائے تو آپ کو اسے بطور صدقہ ضرورت مندوں کو دیدینا چاہئے اور امیرالمومنین آپ جانتے ہیں اللہ صدقہ دینے والوں کو اس کا اجر و انعام دینے والا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اس قحط اور وبا سے اسی طرح نجات حاصل کرسکتے ہیں ورنہ ہمارا عالم یہ ہے کہ ہماری کھال اب ہڈیوں پرخشک ہوکر چپک گئی ہے۔ یہ سُن کر نہایت رحمدل عمر بن عبدالعزیز کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور آپ کا دل بھر آیا۔ فرمایا ہم ایسا ہی کرینگے اور حکم دیا کہ بیت المال کے دروازے کھول دیے جائیں اور عوام کی تمام ضروریات پوری کی جائیں۔جب عوام خوش ہو کر واپس جانے لگے تو آپ نے فرمایا۔ بندگان اللہ کی باتیں تو تم لوگوں نے مجھ سے کیں، اب ذرا میری بات بھی اللہ تعلی سے کرو یعنی میرے حق میں دُعا کرو۔ یہ سُن کر تمام موجود افراد نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ اے اللہ رب العزّت تجھے اپنے جلال، اپنی جبروت اپنی شان و شوکت کی قسم جیسا حُسنِ سلوک تیرے بندوں کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز نے کیا ہے ویسا ہی تو اس کے ساتھ کر۔ روایت ہے کہ ابھی دُعا ختم ہی ہوئی تھی کہ سخت بارش، ژالہ باری شروع ہوگئی اورایک بڑا اُولہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مکان کے چھت پر ایک اِینٹ پر پڑا جس سے وہ اینٹ ٹوٹ گئی اور اس کے نیچے سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکلا۔ لوگوں نے دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔ اللہ تعلی کی جانب سے ضمانت دی جاتی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کو آتش دوزخ سے محفوظ رکھا جائے گا اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیا جائے گا۔ الحمداللہ ۔ کاش ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں بھی اللہ رَب العزّت عوام کی تکالیف کو محسوس کرنے اور ان کی تکالیف کا مداوا کرنے کی ہدایت ڈالدے اور وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔ آمین۔
علّامہ اقبال نے اپنی صاف گوئی اور حق گوئی کے بارے میں ایک شعر میں ارشاد فرمایا تھا:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
یہ قول ہر صاف گو اور صادق البیان پر صادق آتا ہے اور سچائی سُن کر بہت کم لوگ خوش ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو کواوب کی طرح ایک مصنوعی خول پہنے رہتے ہیں اور عوام کو کھلے عام دھوکہ دیتے ہیں۔ جب ان کی پول کھل جاتی ہے تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور سخت زبان استعمال کرکے سچ بات کہنے والے پر طرح طرح کے الزامات لگا نا شروع کردیتے ہیں۔ یہی حال پچھلے چند ایام سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے حلفیہ ، قرآن سر پر رکھ کر، بیان کے بعد ہوا ہے اور اس حقیقت کو بیان کرنے کی وجہ سے نہ صرف بیگانے یعنی غیر بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے کئی ارکان ان کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ان میں اتنی اخلاقی قوّت نہیں کہ وہ ذوالفقار مرزا کے سچّے بیانات کی تصدیق کریں اور ان کا ساتھ دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے سچی و کھری بات کرنے والے کو اس عمل سے نقصان ہی پہنچا۔ پرانے زمانے میں بادشاہ، شہنشاہ ناراض ہو کر راست گو کو مروادیتے تھے۔ یہاں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کلام مجید سر پر رکھ کر حلفیہ بیان دیا تھا اور سب ناراض ہوگئے تھے اور کسی نے بھی صفائی میں کلام مجید پر ہاتھ رکھ کر اس کی تردید نہیں کی صرف زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ حالانکہ اِسلامی طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کوئی کسی پر قرآن پر ہاتھ رکھ کر الزام لگائے تو مُلزم کو بھی چاہئے کہ وہ بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کر ان الزامات کی تردید کرے اور ساتھ ہی یہ کہے کہ اگر الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو اس پر اور اس کے اہل و عیال پر اللہ کا عتاب اور عذاب نازل ہو اور اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس پر اور اس کے اہل و عیال پر اللہ کا عتاب و عذاب نازل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی بہت تلخ ہوتی ہے اور اسے برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ غالب نے ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا:
رگ و پے میں جب اُترے زہر غم تب دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
موجودہ حالات میں کچھ لکھنا یا کہنا اس لئے تلخ ہو جاتا ہے کہ ہر جانب خرابیاں، بد انتظامی، رشوت ستانی، قتل و غارتگری، بے روزگاری نظر آتی ہے اور اگر آپ اس پر سچا تبصرہ کریں تو اہل اقتدار کو بہت بُرا لگتا ہے۔ تبصرہ نگار قدرتی طور پر کچھ تلخ لہجہ اختیار کرلیتا ہے کیونکہ بُری باتوں کو شہد لگا کر میٹھا تو نہیں کیا جاسکتا ۔ اور بقول ایک ہندی شاعر کے: ”ایک بھلے مانس کو اَمانُش بنا کر رکھ دیا جاتا ہے“۔ غالباً اسی وجہ سے ساحر لدھیانوی نے اپنے مجموعہ کا نام ”تلخیاں“ رکھا تھا جب کہ دیگر شعراء کرام ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوبصورت، پُرکشش نام رکھتے ہیں۔
حکمرانوں کے خوف سے زیادہ تر لوگ خاموش رہتے ہیں جبکہ مطلبی اور خوشامدی ان کی تعریف میں رطب اللسّان ہوجاتے ہیں حالانکہ پتھر کو ہیرا کہنے سے وہ ہیرا نہیں بن جاتا۔ پھر بھی ہر دور میں کوئی نہ کوئی جُرائت مند بلا خوف و جھجھک راست گوئی کا دامن نہیں چھوڑتا اور اکثر اسے اسکی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ حضرت ابراہیم نے بُت پرستی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اپنے بادشاہ وقت نمرود تک سے خوف نہیں کیا اور آگ میں ڈالدئیے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن پر آنچ تک نہیں آنے دی۔ بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے خوف سے لوگ زبان کھولنے سے اجتناب کرتے ہیں پھر بھی سمجھدار طبقہ، خاص طور شعراء، طنز و مذاح کے پیرایہ میں تنقید کرجاتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے جو برٹش گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدیدار تھے مگر پھر بھی مغربی تہذیب پر طنز و مزاح کے پیرایہ میں بھرپور وار کئے تھے:
ہم ایسی سب کتابیں لائق ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اسی طرح حسرت موہانی اپنے زمانہ کے گریجوئیٹ غزل گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر انگریزوں کے مخالف تھے اور کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ اُنھوں نے اسی بات کو یوں بیان کیا تھا:
ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی
کیا طُرفہ طبیعت ہے حسرت# کی طبیعت بھی
انگریزی دور میں ترقی پسند شعراء غریبوں اور مزدوروں کی ہمدردی کرنے والے ان کے حق میں شاعری کرنے کے دعویدار تھے اور عموماً کمیونِزم کے پیروکار تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں چونکہ روس برطانیہ کے ساتھ تھا اس لئے کوئی بھی ترقی پسند شاعر حکومت کے خلاف کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اس دور میں بھی شاعر انقلاب جوش#ملیح آبادی نے انگریزوں کے خلاف ایک زبردست نظم لکھ ڈالی اور ہٹلر کو مخاطب کرکے کہا تھا
سنا تو ہوگا تو نے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتے ہوئے ہر چیز جینے کو ترستی ہے
بکنگھم کی خبر لینے جو اب کی بار تو جانا
ہمارے نام سے بھی ایک گولہ پھینکتے آنا
نتیجہ میں جوش# کو جیل میں ڈالدیا گیا۔ شاعر کا دل ایک حساس انسان کا دل ہوتا ہے۔ وہ آس پاس کے ماحول سے بیگانہ نہیں رہ سکتا اور جرأت مندی سے کھلم کھلا اپنے جذبات کا اظہار کر ڈالتا ہے مثلاً حبیب جالب# نے کہہ ڈالا۔ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ ایسے سادہ الفاظ اور زبان میں حالات حاضرہ کا اظہار جالب# کی خصوصیت تھی وہ گھوڑے کو گھوڑا اور کھوتے کو کھوتا کہنے میں قطعی طور پر نہ ڈرتے تھے اور نہ ہچکچاتے تھے۔ عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے والے شاعروں کی عوام بے حد عزّت کرتے ہیں اور تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ اچھے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔ فیض# کے اشعار آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں اُنگلیاں میں نے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
ہماری خوش قسمتی ہے کہ آجکل پریس آزاد ہے، بہادر ہے اور صحافی اور اینکر پرسنز حقائق بیان کرنے سے نہیں ڈرتے وہ بے حد محرک ہیں اور ہر واقعہ، حادثہ کی جڑتک پہونچ جاتے ہیں۔ یہ آزادی اُنھیں کسی نے پلیٹ پر رکھ کر نہیں دی ہے بلکہ اُنھوں نے سخت محنت، مشقت اور قربانیاں دے کر حاصل کی ہیں۔ جب آپ اَخبارات میں اور ٹی وی پر ان کی رپورٹیں دیکھتے ہیں تو طبیعت خوش ہوجاتی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ صحافیوں کی شہرت داغدار تھی، لوگ ان کو بلیک میلر اور لفافہ بردار جیسے خراب القاب سے یاد کرتے تھے مگر وہ اب خوابی بات بن کر رہ گئی ہے۔ آج کے صحافی، اینکر پرسن کھوتے کو کھوتا اور گھوڑے کو گھوڑا کہتے ہیں اور سچ بات کہنے سے نہیں ڈرتے۔ سچ بات کہنے پر کئی صحافیوں کو تشدّد اور عتاب کا نشانہ بنایا گیا اور اس قسم کی تکالیف سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ مجھ کو خود سچ اور کھری بات کہنے پر بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ کا ضمیر بالکل مطمئن اور پرسکون رہتا ہے کہ آپ نے سچ بات کہی ہے اور اگر اس کی وجہ سے تکلیف ہوئی ہے تو یہ اللہ کی مرضی ہے۔ گویا۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں علم و ادب کا بہت چرچا تھا اور کئی اعلیٰ شعراء پیدا ہوئے تھے ۔ اردو زبان اپنے عروج پر تھی۔ تمام باکمال شعراء اپنا فن و ہنر دکھا رہے تھے۔ استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق# سے پہلے دہلی پر شاہ نصیر الدین نصیر# کا کافی اثر تھا جو رعایت لفظی اور محاورات کے استعمال کی وجہ سے کافی مشہور تھے۔ ان کا ایک مشہور شعرہے:
خیال زلف بتاں میں نصیر# پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اَب لکیر پیٹا کر
اس شعر میں مشہور محاورہ سانپ نکل گیا لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ محاورہ جو کوئی کام بروقت نہ کرنے اور بعد میں پچھتانے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ عموماً ایسی غلطیاں بہت ہوتی ہیں لیکن معمولی انسانوں کی غلطی کا خمیازہ بھی معمولی ہوتا ہے لیکن یہ غلطی جب کسی بڑے شخص یا صاحب اقتدار سے ہوتی ہے تو نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ آج کے سیاسی ماحول میں سب سے بڑی غلطی بھی سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ہی ہوتی ہے۔
میاں نواز شریف تقریباً تیس سال سے میدان سیاست میں ہیں۔ پنجاب میں بھی حکمرانی کی اور وفاق میں بھی۔عوام ان سے دوربینی اور دور اندیشی اور تجربہ کی وجہ سے بہت اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ کہاوت کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور انسان کا غلطی سے چولی دامن کا ساتھ ہے، ان پر بھی اثر انداز ہوا ہے اور ان غلطیوں کا اُنہوں نے بہت خمیازہ بھگتا ہے اور بڑی قیمت ادا کی ہے۔مثال کے طور پر ایک نہایت اعلیٰ اور قابل اور سینئر ترین جنرل علی قلی خان کا حق مار کر ایک نہایت مشتبہ کردار کے جنرل مشرف کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ خدا جانے (عوام تو جانتے ہیں) کہ یہ اقدام اُنہوں نے کیوں اور کس کے غلط مشورہ پر کیا۔ اس غلطی کی سزا تقریباً پھانسی سے ملنے والی تھی وہ جسٹس جعفری صاحب اور سعودی حکمران کی مہربانی سے بچ گئے۔ اُمید یہی تھی کہ اتنی بڑی غلطی اور اس کی سزا بھگتنے کے بعد میاں صاحب بہت کچھ سیکھ لیں گے لیکن یہ اُمید خواب و خیال بن کر رہ گئی۔ اُنھیں اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی کے معاملہ میں عقل و فہم سے نہیں نوازا اور اب بھی اُنہوں نے خود کو ایسے مشیروں سے گھر وایا ہوا ہے جہاں کہیں ان کو کچھ کھیلنے کی گنجائش ملتی ہے وہاں یہ مشیر اس کو فوراً سبوتاژ کردیتے ہیں۔ عمران خان نے ابھی لاہور میں اشارہ دیا کہ اگر میاں صاحب اپنے اثاثے جو غیر ممالک میں ہیں ان کو بتلادیں تو وہ اتحاد کرسکتے ہیں۔ ابھی ایک دن بھی نہ گزرا تھا کہ ان کے مشیر خاص نے فوراً اس کو سبوتاژ کردیا اور عمران خان پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔ انہوں نے زرداری صاحب سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ بہتر ہے کہ رات کے اندھیرے میں، زرداری کے مشورہ کے مطابق، ایوان صدر جاکر سیاست کا قاعدہ پڑھ لیں۔ ان مشیروں کی ہٹ دھرمی اور غلط مشوروں نے نواز شریف کو بالکل تنِ تنہا کھڑا کردیا ہے اور یہ اب بھی کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ میں نے چند ہفتہ پیشتر لاہور میں علّامہ اقبال میڈیکل کالج میں مہمان خصوصی کے طور پر تقریر میں مشورہ دیا تھا کہ اب وہ سینئر سیاست داں بن کر آرام سے بیٹھ کر وہی رول ادا کریں جو سنگاپور کے سینئر سیاست داں لی کوان یو نے ادا کیا ہے اور اب سیاست و پارٹی کی باگ ڈور میاں شہباز شریف کو دے دیں وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کبھی بھی ان لوگوں سے جان نہیں چھڑا پائیں گے جنہوں نے ان کو گھیر رکھا ہے۔
2008 کے الیکشن کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اس طرح گھی شکر کی طرح نظر آرہی تھیں گویا ایک جان اور دوقالب ہوں۔ زرداری میاں صاحب کو بڑا بھائی، مستقبل کا ان کا وزیر اعظم وغیرہ بنا کر پیش کررہے تھے۔ دونوں باچھیں کھلی تصاویر اور جَپھّی لگاتی تصاویر آج بھی اخبارات اور ٹی وی کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ برسوں پرانی عداوت کے بعد پہلی بار دوستی اور موافقت کی فضا اور میثاقِ جمہوریت نام کی پالیسی سے یہ اُمید بندھی تھی کہ اب ملک میں سیاسی پختگی اور دانائی آگئی ہے اور سب ملک کی اور عوام کی بہتری کے لئے کام کریں گے مگر غالباً کوئی بھی زرداری صاحب کی ”سیاسی چال بازیوں“ سے واقف نہ تھا ، اس مفاہمت پر پہلی ضربِ شدید اس وقت لگی جب زرداری صاحب نے ضمیر فروش ڈوگر عدالت سے نواز اور شہباز کو نااہل قرار دے کر پنجاب پر قبضہ کرنے کی گندی کوشش کی اور صدیوں پرانی نصیحت سچ ثابت ہوگئی۔ ” آزمودہ را آزمودن جہل است“ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے۔ اس کے بعد پی پی پی کی حالت مستحکم ہونے کے بعد زرداری صاحب نے ججوں کے فیصلہ پر اتفاق سے وعدہ توڑ دیا اور کہہ دیاکہ یہ وعدے سیاسی تھے اور قرآن و حدیث نہ تھے۔ وہ غالباً قرآنی احکامات سے ناواقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدے کی پاسداری کا سخت حکم دیا ہے۔ بہرحال نواز شریف کو ایک کے بعد ایک جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی عقل و فہم نے کام نہ کیا اور وہ آنکھیں کھولے غلاظت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان تقریباً چار برسوں میں ایم کیو ایم ، جے یوآئی وغیرہ کئی بار علیحدہ ہوئے اور حکومت سے مل گئے۔ ہر مرتبہ یہ بلیک میلنگ کرتے تھے اور ہر مرتبہ زرداری صاحب ان کو میٹھی گولی دیدیتے تھے اور واپس بلا لیتے تھے اور اب تو ایم کیو ایم کو پی پی پی نے اپنی ہی پارٹی کا ایک حصّہ قرار دیا ہے اور الطاف کو بڑا بھائی کہہ دیا ہے ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ الطاف حسین نے ان کا ہم خیال بن کر شہباز شریف اور نواز شریف کو نشانہ بنایا اور اپنی اداؤں اور شاعری سے بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ ایک قومی لیڈر سے پہلی پریس کانفرنس میں ایسی اَداکاری بہت ہی خراب اسٹیٹ میں تھی۔ زرداری صاحب نے ایک اور ماہرانہ چال چلی کہ ق۔لیگ (جس کو وہ قاتل لیگ یعنی بینظیر کا قاتل) کہتے تھے اس کو گلے لگا لیااور اس طرح ایم کیو ایم اور جے یو آئی وغیرہ کی اہمیت کو زیرو کردیا۔ نواز شریف فرینڈلی اپوزیشن کا ڈرامہ رچاتے رچاتے بالکل تنہا رہ گئے اور اب جبکہ سانپ نکل گیا ہے یہ لکیر پیٹ رہے ہیں۔ مگر ”وہ بات کہاں مدن کی سی“۔ اس طویل عرصہ میں سادہ لوح عوام کی سمجھ میں نواز شریف کی پالیسی قطعی نہیں آئی۔ کبھی وہ ان سے ایک سانس میں حکومت پر سخت تنقید سن رہے تھے پھر دوسری سانس میں وہ زرداری صاحب کی ڈھال بن رہے تھے اور جمہوریت کو بچانے کے دعوے کررہے تھے۔ یہ دوغلی یا مبہم پالیسی عوام سمجھ گئے اور نواز شریف کی مقبولیت میں بہت کمی آگئی ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت عوام نے لاہور میں 30 اکتوبر کے عمران خان کے جلسے میں کثرت سے شرکت کرکے دیدیا۔ نواز شریف اکیلے کبھی بھی اس حکومت کو نہ گراسکتے ہیں اور نہ ہی ہلا سکتے ہیں اگر وہ اب بھی سمجھداری سے دائیں جانب کی مذہبی پارٹیوں، تحریک انصاف اور ق۔لیگ کو ملالیں، جو زیادہ مشکل نہیں (عقل و فہم کی ضرورت ہے) تو موجودہ نااہل حکمرانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر مجھے شک ہے کہ میاں صاحب کے مشیران ان کو تباہ کرکے اپنے اپنے بنگلوں میں بیٹھ کر مزے اُڑائیں گے۔
دیکھئے، ق۔لیگ تین سال سے زیادہ حکومت سے دور رہی اور ان کے لیڈران کوشش کرتے رہے کہ ن۔لیگ کی جانب سے اشارہ ملے تو وہ چل کر ان کے پاس جائیں اور ملک کو لوٹ مار اور بدامنی سے بچائیں مگر میاں صاحب نہایت متکبرانہ بیانات دیتے رہے اور ایک غیر دشمنانہ ماحول کو سانپ اور نیولے کی لڑائی میں تبدیل کردیا۔ اس مناسب موقع کو بھانپ کر زرداری صاحب نے ایک ماسٹر اسٹروک لگایا اور ق۔لیگ کو تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر اور اناء کو چھوڑ کرگلے لگالیا۔ ان کی اس چال نے نواز شریف کی اہمیت ختم کردی اور ایم کیو ایم بھی اُسی تنخواہ کو قبول کرکے حکومت میں شامل ہوگئی اور اب نواز شریف پر یہ پرانا شعر صادق آرہا ہے۔
اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یُوسف بے کارواں ہوکر
اب اس بات کا خاصا خطرہ اور امکان ہے کہ آئندہ الیکشن میں ن۔لیگ اس وقت سے بھی بُری حالت میں ہوگی۔ پہلے حکومت کی چمچہ گیری کرکے اُنہوں نے اپنی مقبولیت پر کاری ضرب لگائی ہے اور اب تمام شور و غل، تنقید بیکار ہے اور اب ان کے چیخنے چلّانے پہ یہی مصرعہ صادق آتا ہے:
”گیا ہے سانپ نکل اَب لکیر پیٹا کر“
نوٹ:میں اپنے ہزاروں دوستوں ،مداحوں کا گزشتہ عید پرتہنیتی پیغامات،نیک دعاوٴں کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں،معذرت خواہ ہوں، سب کو جواب دینا میرے لیے ناممکن تھا۔
تقریباً 35 سال پیشتر جب ہم نے یورینیم کی اعلیٰ افزودگی میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور 10 دسمبر 1984 کو میں نے مرحوم جنرل ضیاء کو جاکر تحریری طور پر یہ اہم اطلاع دیدی تھی کہ خدا کے فضل اور حکومت کی سرپرستی اور ہماری انتھک کوششوں سے ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ ہفتہ عشرہ میں ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں تو بہت سے دعویدار پیدا ہوگئے اور میرے اوپر بہتان بازی اور الزام تراشی کی بارش ہونے لگی۔ باہر والے تو اس میں پیش پیش تھے ہی لیکن ماشاء اللہ چند پاکستانی بھی ان سے پیچھے نہ رہے اور بہت سے لوگوں نے تو تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ جب ایک سینئر اور اہم سیاست داں اور مذہبی عالم نے مجھ سے اس بارہ میں شکایت کی اور غصّہ کا اظہار کیا تو میں نے الحمدللہ کہہ کر دونوں ہاتھ اوپر اُٹھائے اور کہا اللہ پاک تیرا شکر گزار ہوں، گناہگار بندہ ہوں تیرا کتنا کرم ہے کہ تو نے میرا درجہ انسان کا ہی رکھا ہے کہ لوگ مجھے بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں اور غیر مہذّب الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، مجھے نہ ہی فرشتہ اور نہ ہی وَلی اللہ سمجھتے ہیں۔ ان صاحب نے فوراً اوپر دیکھا اور کہا۔ اللہ پاک بیشک تو عظیم ہے ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز کو سمجھتا ہے اور سنتا ہے۔ تو نے اس شخص کو اس کردار کی وجہ سے ہی اتنے اہم کام کا وسیلہ بنا یا ہے۔ میں نے کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل کے علاوہ آجتک کبھی خود کو اتنا اہم اور ناقابل تبدیل نہیں سمجھا اور جب بھی کسی نے برا بھلا کہا اور تنقید کی یا بہتان بازی کی تو اللہ رب العزّت کا شکرادا کیا کہ میری حیثیت ایک ادنیٰ انسان کی سمجھی جاتی ہے اور میں فرشتہ یا ولی اللہ تصور نہیں کیا جاتا۔
جہانتک میری جہالت یا صلاحیت کا تعلق ہے کہوٹہ کی کامیابی پر جناب غلام اسحق خان، جناب آغا شاہی، جنرل اسلم بیگ، جنرل عارف جیسے بااثر ، باخبر افسران کے بیانات ہی اس بارے میں کافی ہیں اور تاریخ خود اس کی بہترین منصِف ہے۔ میرے لئے یہ میری زندگی کا ایک اہم حصّہ تھا اور میں نے دیانت داری اور محنت سے اپنا فرض ادا کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ آئیے پچھلے دنوں میں ایک تکلیف دہ اور نازیبا وقوع پذیر واقعہ کی جانب توجّہ مبذول کراتے ہیں۔
مشہور و قابلِ احترام احمد ندیم قاسمی# مرحوم کا ایک شعر ہے جو ممکن ہے کہ مجھ پر پوری طرح صادق نہ آتا ہو مگر قابل ملاحظہ ہے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے ہیں احباب
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن سچ یہی ہے کہ جس طرح پھول برسانے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اسی طرح سنگ زنی کرنے والوں نے بھی خوب لہولہان کیا ہے۔ مجھے خود اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے۔
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر#
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
4 نومبر کو جنگ میں جناب ہارون الرشید صاحب کا کالم پڑھ کر تعجب اور افسوس تو بہت ہوا تھا لیکن میں نے پہلے بیان کردہ وجہ سے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، بقول اَنجم رُومانی:۔
فقیہ شہر کی باتوں سے درگزر بہتر
بشر ہے اور غم آب و دانہ رکھتا ہے
اور جب ناجائز اور کم ظرفانہ وار کیا جاتا ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور غالب# کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
قسمت بُری سہی پہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ، کہ شکایت نہیں مجھے
لیکن جس دن یہ کالم آیا اس روز لاتعداد دوستوں ، ہمدردوں، شناساؤں اور انجان لوگوں نے لاتعداد فون کئے، ایس ایم ایس کئے، ای میل کئے۔ میں جواب دیتے دیتے تھک گیا، مجھ سے کہیں زیادہ وہ غصّہ میں تھے اور جو الفاظ ہارون الرشید صاحب کے لئے استعمال کئے وہ تہذیب دہرانے کی اجازت نہیں دیتی۔ شام کو عزیز دوست اور دانشور صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب کا فون آیا وہ اپنے ٹی وی شو کے لئے اس کالم کی وضاحت چاہتے تھے کہ کیا واقعی میں نے عمران خان کی جماعت میں شرکت کی درخواست کی تھی اور اس کو مسترد کردیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے یہ سب قابل شرم و نفرت دروغ گوئی ہے۔ میں نے حقائق بیان کردیے جو انھوں نے پروگرام میں سچ ثابت کردیے اور دوسرے دن اخبارات میں شائع ہوگئے۔ اگلے دن مشہور کالم نگار، دانشور اور مخلص دوست جناب عرفان صدیقی نے بڑی محنت کے ساتھ اپنے کالم میں مجھے نصیحت کی کہ میں سیاست کے بکھیڑوں میں نہ پڑوں کیوں کہ پورا پاکستان مجھ سے محبت کرتا ہے ،ان کی رائے اپنی جگہ ۔ میں اپنے طور پر اپنا قومی وسیاسی حق ادا کروں گامگر کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوں گا۔ لیکن ہارون صاحب کے کالم نے تمام بہی خواہوں اور ہمدردوں کو پریشان کردیا۔ میرے لئے یہ بہت بڑا بہتان اور دروغ گوئی تھی کہ میں نے یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عمران خان صاحب کی امارت میں شرکت کی بھیک مانگی تھی اور وہ مسترد کردی گئی تھی اور یہ کہ ہارون صاحب نے ”ازراہِ مہربانی و شفقت“ عمران خان کے دریافت کرنے پر میری سفارش کردی تھی اور عمران خان کے مشیروں نے مجھے ”نااہل“ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ ہارون صاحب نے بے چارے سیدھے سادے عوام کو آگاہ کردیا کہ مجھے قبول نہیں کیا گیا۔ مجھے غصّہ سے زیادہ ان کی ”عقل و فہم اور دانشمندی“ پر افسوس ہے کہ انھوں نے عوام کو اپنے بارے میں کیا تاثر دیا ہے۔ بقول ہارون صاحب وہ عمران خان کے اہم اور قریبی مشیر ہیں ، ان کے ہر کالم میں عمران خان کو مسیحا ثانی کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسول کا بھی ذکر ہوتا ہے لیکن شاید قرآن تعلیم کی روح سے نابلد ہیں کہ سورة حجرات (آیت 12 ) میں اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ”اے ایمان والو! بہت گمان سے بچا کرو، بے شک کچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں، سورة النساء (آیت 148 ) میں تو اللہ تعالیٰ نے یہاں تک تلقین کی ہے کہ کسی کی بُری بات بھی ظاہر نہ کیا کرو سوائے اس کے کہ تم پر ظلم ہوا ہواور سورة آل عمران آیت 61 میں اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ بہتان بازی، الزام تراشی، غیبت، دروغ گوئی اور بدگمانی کے بارے میں رسول اکرم کے ارشادات سے غالباً ہارون الرشید بے بہرہ ہیں۔ یہاں مشہور مرحوم شاعر چراغ حسن حسرت کا مشہور شعرہے:۔
”غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا“
یہ وہی چراغ حسن حسرت ہیں، خلیفہ ہارون الرشید کے دربار کے اعلیٰ شاعر اَبو نواس جس نے ملکہ زبیدہ کی شان میں حالت نشہ میں کچھ واہیات بکی تھیں۔ جب ہارون الرشید خلیفہ نے دوسرے روز سرزنش کی تو فوراً بولا۔ ”کلام الّیل یمحوہ النّہار“۔ اس کا ترجمہ چراغ حسن حسرت نے یوں کیا تھا۔
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑئیے! رات گئی بات گئی
عجیب اتفاق ہے کہ دونوں واقعات میں مُماثلت ہے۔
اگر محترم ہارون الرشید صاحب اس خاکسار کو فون کرنے کی زحمت گوارا کرلیتے تو میں حقائق سے آگاہ کردیتا۔
عرفان صدیقی صاحب کے کالم کے بعد علی مسعود سیدکا کالم دیکھ کر طوفان کھڑا ہوگیا،لوگوں کوغلط فہمی ہوئی ،کیونکہ خود علی مسعود سے جب بھی ملاقات ہوئی ،اس نے کبھی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا مشورہ نہیں دیا،اس نے بھی ہمیشہ یہی کہا کہ اپنے چاہنے والے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کروں مگر ان کے کالم کے بعد پیغامات کی بوچھاڑ اور سوالات و جوابات سے مجبور ہوگیا کہ چند سطور لکھ کر قارئین کو حقائق سے آگاہ کردوں۔
جب لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جناب اعجاز احمد چوہدری نے مجھ پر عائد تمام ناجائز پابندیاں ختم کردیں اور آزاد شہری قرار دیدیا تو لاتعداد ہمدرد اور دوست مجھے مبارکباد دینے آئے۔ جناب عمران خان، محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری اور پرانے گھریلو دوست ڈاکٹرعارف علوی مُبارکباد دینے آگئے۔ ہم نے چائے پی اور اُنھوں نے مجھ سے ان کا ساتھ دینے کو کہا، میں نے عرض کیا سیاست سے باہر رہ کر آپ جو مدد چاہیں گے اس کے لئے حاضر ہوں۔ عمران خان کی میں عزّت کرتا ہوں، اُنھوں نے ورلڈ کپ جیت کر ہمارا نام روشن کیا تھا اور اچھے کھلاڑی تھے۔ وہ کے آر ایل گراؤنڈ پر بھی آئے تھے۔ جب دوسری جماعتوں کے معزز سربراہوں نے رابطے قائم کئے تو ان عزیز دوستوں کی خدمت میں عرض کیا کہ میں سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتا، آج پورا پاکستان بلا تفریق نسل و فرقہ مجھ سے دلی محبت کرتا ہے ، میری بے حد عزّت کرتا ہے۔ جس دن میں نے کسی سیاسی جماعت میں شرکت کی اس دن لوگ میرا شجرہ نسب بنا لائینگے اور میرے والدین کو ہندو بنانے کی پوری کوشش کرینگے۔ دوسرے دوستوں نے تو بات کو آگے نہیں بڑھایا مگر عمران خان کے ساتھیوں نے کوشش جاری رکھی ۔ میں نے کہا کہ میں ابھی دریا میں آزاد مچھلی یا آزاد پرندہ ہوں، آپ مجھے اَکواریم میں یا پنجرہ میں بند کرکے کمرے کے کونے میں رکھنا چاہتے ہیں یہ قبول نہیں ہے۔ (جاری ہے)
اس سلسلے میں محترم قاضی حسین، ناظم جمعیت ، سلیم سیف اللہ خان، چوہدری شجاعت اور دوسرے دوستوں نے تبادلہ خیال کیا۔ میرا سب کو ایک ہی جواب تھا کہ میں پندرہ، بیس فیصد عوام میں شامل ہوکر اسّی، پچاسی فیصد عوام کی محبت نہیں کھونا چاہتا۔ ابھی جوان، سینئر شہری، طلباء، طالبات، بچّے سب دل سے پیار و محبت کرتے ہیں۔ مجھے عمران خان کے قریبی ساتھی راشد خان کے کئی فون آئے اور میں نے ان کو کسی قسم کا غلط تاثر نہیں دیا۔ پھر عزیز، قدیم محترم دوست و مشہور صحافی غلام اکبر جو تحریک انصاف کے پولیٹیکل سیکرٹری ہیں تشریف لائے اور ان کے ساتھ شامل ہونے کی درخواست کی۔ میں نے وہی وجوہات بیان کرکے معذرت کی انہوں نے کہا کہ عمران خان خود آکرمجھ سے ملیں گے اور تحریک میں شرکت کی درخواست کریں گے۔ یہ جلسے سے چند دن پہلے کی بات ہے پھر ایک روز مخلص دوست ایئر فورس کے سابق افسر صہیب اپنے عزیز دوست اور پرانے ساتھی اےئر فورس کے افسر بخاری صاحب کے ساتھ چار بجے ملنے آئے اور کہا ساڑھے چار بجے عمران خان وغیرہ آرہے ہیں۔ ساڑھے چار بجے ان کو غالباً راشد خان کا فون آیا کہ پشاور کے جلسے میں خاصی تاخیر ہوگئی ہے دو گھنٹے تک آنا ہوگا۔ میں نے معذرت کرلی کہ میں اتنا وقت انتظار نہیں کرسکتا۔ اس دوران اور بعد میں دو تین دن تک معزز دوست سلمان غنی ، عمران خان کی آمد کے بارے میں دریافت کرتے رہے کہ وہ آئے یا نہیں، وہ آئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ وہ آنے والے ہیں؟کب آئیں گے؟ میں نے عرض کیاکہ اگر وہ آئیں گے تو ان کو مطلع کردوں گا۔
لاہور کے جلسے کے بعد مجھے کسی نے لاہور سے فون کیا کہ جلسہ کیسا لگا میں نے کہا کہ جلسہ ٹھیک تھا مگر جلسوں سے انقلاب نہیں آتا۔ عمران خان کے پاس اچھی ٹیم نہیں ہے، انقلاب کیسے آئے گا، حقیقت بھی یہ تھی۔ یہ صاحب غالباً اخباری نمائندے تھے۔ انہوں نے یہ بات دوسرے روز اخبار میں شائع کردی اور مجھ سے کچھ دریافت کئے بغیر محترم ہارون الرشید نے میرے حسب نسب اور تعلیمی اور فنّی صلاحیتوں کو بہتان تراشی کا نشانہ بنا ڈالا حالانکہ دوسرے ہی دن برادرم غلام اکبر نے فون پر میرے تبصرے سے مکمل اتفاق کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے وہ میری شرکت و رہنمائی کے لئے کوشاں ہیں،یہ ہوتا ہے صحیح طریقہ بات کرنے کا۔ میں نے تو بہت ہی مختصر تبصرہ کیا تھا۔ ہارون صاحب کو بدرعالم، غازی صلاح الدین،ثنا بچہ، ڈاکٹر فرخ سلیم اوردوسرے اخبارات میں متعدد تجزیہ نگاروں کے مجھ سے کہیں زیادہ سخت اور حقائق پر مبنی اسی قسم کے تبصروں کا مطالعہ کرنا چاہئے اور دیکھیں کہ زبان خلق کیا کہہ رہی ہے۔ میری دیانتدارانہ رائے تھی اور آج بھی وہی ہے۔ ہارون رشید نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی ذات کے علاوہ مجھے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، میں دوسروں کے کام کی داد بھی خودلینا چاہتا ہوں۔ اگر یہ سچ ہے تو اللہ رب العزّت مجھے اس لعنت سے نجات دے،آمین۔ ہارون صاحب نے مجھے یہ بھی یاد دلایا کہ ہر شخص کا اپنا میدان ہوتا ہے اور اسے اپنے ہی میدان میں جوہر دکھانے چاہئیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے ہی میدان میں طبع آزمائی کی ہے اور آئندہ بھی ہارون صاحب کی ”مفید“ ہدایت پر عمل کروں گا لیکن وہ خود بھی اس نصیحت پر عمل کریں اور میری تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے بارے میں”ماہرانہ“ رائے سے گریز کریں۔ ہارون صاحب آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں ایک سے ایک بڑا خواب دیکھتا ہوں، جی ہاں آپ نے درست فرمایا نہ صرف میں نے بڑے خواب دیکھے بلکہ ان کو حقیقت میں تبدیل کرکے دکھایا ، عوام اور تاریخ اِس کے گواہ ہیں۔ دیکھیں آپ کا خواب حقیقت بنتا ہے کہ نہیں۔
جہاں تک لوگوں کا مجھ پر تنقید یا بہتان بازی کا تعلق ہے تو میں عرفی# کا یہ شعر اس بارے میں عرض کروں گا:۔
عرفی # تو میندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
پچھلے چند کالموں کے موضوعات ملک کی سیاست اور حکمرانوں کی اخلاقی پستی وغیرہ پر مبذول رہے ہیں اوراپنے خلاف ہرزہ سرائی کا جواب بھی دیا ہے اور ان تمام باتوں نے منہ میں خراب مزہ چھوڑ دیا ہے۔ آج ان تمام باتوں کو نظر انداز کرکے چند نہایت دلچسپ اور اعلیٰ کتب پر ہلکا سا تبصرہ کرنا چاہتا ہوں اور ان کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میری حقیر رائے ہے کہ نوجوانوں کو، ادیبوں کو، شعراء کو اور تجزیہ نگاروں کو ان قیمتی اور اہم معلوماتی کتب کا مطالعہ کرنے سے بہت اِستفادہ ہوگا۔
(1)سب سے پہلے ایک پچھلے دنوں میں شائع ہونے والی کتاب کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب ہمارے نہایت قابل اور تجربہ کار سابقہ سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے تحریر کی ہے ۔ اسکو امریکہ میں Woodrow Wilson Centre Press اور The John Hopkins University Press نے اور پاکستان میں Oxford University Press نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا نام "Afghanistan and Pakistan - Conflict, Extremism, and Resistance to Modernity" ہے اور یہ 385 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا کاغذ اور چھپائی نہایت اعلیٰ پایہ کے ہیں۔ ریاض محمد خان نے اس سے پیشتر ایک نہایت اہم کتاب Untying the Afghan Knot: Negotiationg Soviet Withdrawal (1991) تحریر کی تھی جسکو پوری دنیا میں پذیرائی ملی تھی۔
ریاض محمد خان میرے نہایت عزیز دوست ہیں اور جس وقت مشرف نے میرے ساتھ بدمعاشی کی تھی اور عزیزوں اور دوستوں کا ملنا جلنا بند کردیا تھا اس وقت بھی یہ باقاعدگی سے مجھ سے ملنے آجاتے تھے اور میرے لئے یہ ”ایک خوشگوار تازہ ہوا“ کا جھونکا ہوتا تھا۔ ریاض محمد خان ایک کیریرڈپلومیٹ ہیں۔ اپنے پیشہ میں ماہر ہیں اور سیکرٹری خارجہ بننے سے پیشتر کاغستان، کرغستان، یوروپین یونین اور بلجیم اور چین میں سفیر کے عہدوں پر فائز رہے تھے۔ اس سے پیشتر یہ کئی اہم ممالک میں جونیر ڈپلومیٹ کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور دفتر خارجہ میں بھی اہم محکموں کے انچارج رہے تھے۔
ریاض محمد خان کی شخصیت اتنی دلچسپ اور ہمہ گیر ہے کہ اس پر روشنی ڈالنے سے ہی اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک آپ اس کتاب کا مطالعہ نہ کریں آپ کو اندازہ نہ ہوگا کہ ریاض محمد خان نے اس کی تیاری میں کس قدر ریسرچ و محنت کی ہے۔ یہ کتاب کسی بھی اعلیٰ یونیورسٹی سے Ph.D. کی ڈگری حاصل کرنے کی مستحق ہے۔
میں آپ کو ریاض محمد خان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا راز بتلاتا ہوں۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک نہایت ہونہار طالب علم تھے۔ فزکس میں ایم ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کی اور یونیورسٹی میں درس و تعلیم کی ذمّہ داری سنبھال لی۔ یہ وہاں نہایت مشکل مگر بے حد دلچسپ مضمون ”کوانٹم میکانکس“ Quantum Mechanics پڑھاتے تھے۔ اس علمِ فزکس و ریاضی نے قدرت کی نہایت اہم اور پیچیدہ گتھیوں کو سمجھانے اور سلجھانے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے اور یہ کئی نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی کاوش کا پھل ہے۔ ان کو جرمنی سے اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کرنے کی فیلو شپ کی پیشکش ہوئی مگر والدین کی قربت و محبت نے اس کو چھوڑ کر اعلیٰ سول سروس کے امتحان میں شرکت پرراغب کیا۔ پاس تو ہونا تھا اور اچھے نمبروں سے۔ اسطرح وزارت خارجہ کی خوش قسمتی رہی کہ ایک اعلیٰ و قابل افسر اس کو مل گیا۔ آپ سمجھ لیں کہ ریاض محمد خان نہ صرف فزکس میں مہارت رکھتے تھے ان کو اردو ادب اور اسلامی اور بین الاقوامی تاریخ پر بھی پورا عبور ہے۔ اس وسیع النظری اور دقیق معلومات نے ان کو اپنے پیشہ میں بے انتہا مہارت دی۔ یاد رکھیئے کہ وہ سول ملازمین اور بیوروکریٹ عموماً اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہیں جنھوں نے فنی مضامین میں تعلیم حاصل کی ہو۔ ادب و تاریخ سے شغف رہا ہو۔ میں ایسی کئی اعلیٰ شخصیات سے واقف ہوں۔
دیکھئے ریاض محمد خان کی شخصیت اتنی جاذب اور پرکشش ہے کہ میں کتاب پر تبصرہ کرنے سے زیادہ ان کی شخصیت پر تبصرہ کرنے میں بہہ گیا۔ یہ کتاب ایک خزینہ معلومات ہے۔ افغانستان کی پرانی تاریخ، اس کے خلاف جارحانہ حملے اور افغانوں کی بہادری اور دشمنوں کو بھگا دینا، پاکستان کی پیچیدہ سابقہ تاریخ اور سب سے اہم پاک افغان تعلقات کے اتار چڑھاؤ اور اس سلسلہ میں اپنے وسیع تجربہ کی بنیاد پر مفید مشورہ دینا وغیرہ شامل ہے۔ یہ بے حد اہم تفصیلی مقالہ ہے جس کو چند سطور میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام تجزیہ نگاروں ، سیاسی پنڈتوں، بین الاقوامی تعلقات کے طلباء اور اساتذہ کے لئے ایک نہایت اہم اور معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں حقائق بمعہ حوالہ جات درج ہیں۔ اُمید کرتا ہوں اور دعا ہے کہ ریاض محمد خان کو اللہ تعالیٰ ایسے مزید کام کرنے کی صلاحیت و مواقع مہیا کرے۔ آمین۔
(2)دوسری نہایت پیاری اور روح پرور کتاب کلیات مرتضیٰ برلاس ہے۔ مرتضیٰ برلاس صاحب سے میری ملاقات تقریباً بیس سال پیشتر بھاولپور میں ہوئی تھی۔ میں وہاں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں جو قائد اعظم میڈیکل کالج میں ہو رہی تھی بطور مہمان خصوصی شرکت کررہا تھا۔ بھاولپور میں سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا تھا۔ وہاں مرتضیٰ برلاس صاحب تشریف لاتے تھے جو کمشنر بھاولپور تھے اور ہم گپ شپ لگاتے تھے۔ ان کی شائستہ زبان اور لہجہ سے میں نے اندازہ کرلیا کہ یہ میری طرح تلیّر (یعنی ہجرت کرنے والے پرند) ہیں۔ نہ ہی انھوں نے شاعری میں مہارت کے باوجود کوئی شعر سنایا اور نہ ہی میں نے لاتعداد اشعار یاد ہونے کے باوجود کوئی شعر پڑھا۔ گفتگو کے دوران مجھے برلاس صاحب کی معلومات نے بہت مرعوب کیا۔بھاولپور میں جنرل شفیق کور کمانڈر (جو بعد میں بحرین میں سفیر اور صوبہ سرحد کے گورنر بنے تھے) نے ہمیں ڈنر دیا۔ یہ نہایت شریف، نرم گو اور قابل اَفسر تھے۔ بھاولپور سے واپس روانہ ہوئے اور بات آئی گئی ۔ چند دن پیشتر میں نے اپنے ایک کالم کا عنوان برلاس صاحب کے شعر سے مستعار لیا تھا۔
ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر
یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے
اور میری خوش قسمتی دیکھئے کہ چند دن بعد ہی ایک انمول خزینہ شاعری بنام کلیات مرتضیٰ برلاس بمعہ ایک شفقت نامہ موصول ہوا۔ کتاب کھولی اور گھنٹوں مطالعہ کرتا رہااور طبیعت سیر نہیں ہوئی۔ برلاس صاحب پر تفصیلی طور پر لکھنے کے لئے ایم اے یا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا پڑے گا۔ صرف یہاں یہ عرض کرونگا کہ برلاس صاحب اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے باوجود کھوتے کو کھوتا کہنے سے نہیں ڈرے اور صف اوّل کے باغی شعرا میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اگر آپ برلاس صاحب کی شخصیت اور کلام پر ملک کے مشہور ترین ادیب، نقّاد اور شعرا کے نہایت تحسین آمیز تبصرے پڑھنا چاہتے ہیں تو کلیات مرتضیٰ برلاس کی ورق گردانی کیجئے اور ماہنامہ الحمرا لاہورکے نومبر کے شمارے میں جناب انور سدید صاحب کا تبصرہ ”عصری کرب کا شاعر۔ مرتضیٰ برلاس“ پڑھیے اور آپ کو اس عظیم شاعر اور ایک فرشتہ خصلت انسان کے بارہ میں بہت کچھ مل جائے گا۔ (جاری ہے)
برلاس صاحب کی اعلیٰ انتظامی صلاحیت اور روح افزا و دلکش شاعری کے پس پردہ بھی ایک سائنسدان، اعلیٰ ریاضی دان ہے۔ آپ آگرہ یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم ایس سی کی اعلیٰ ڈگری رکھتے ہیں اور ریاضی کی مسحور کن موشگافیوں کو سمجھنے میں مہارت رکھنے کی وجہ سے نہ صرف نظام مملکت بلکہ انسانی فطرت و آفات زمانہ کی باریکیوں کو سمجھنے اور ان کو سلجھانے اور پیارے اشعار کی شکل میں پیش کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کلیات مرتضیٰ برلاس 584 صفحات پر مشتمل ہے اور الحمد پبلی کیشنز، چوک پرانی انارکلی، لاہور سے دستیاب ہے۔ برلاس صاحب کی مسحور کن آواز سننا چاہیں تو ان کا نمبر یہ ہے 042-35833443 ۔
(3)تیسری نہایت ہی دلچسپ اور ادب کا ہیرا جنرل عبدالقیوم کی تحریر کردہ کتاب ”فکر و خیال“ ہے۔ پہلا حصّہ 2009 اور دوسرا حصّہ 2010 میں پورب اکادمی اسلام آباد نے شائع کئے ہیں۔ یہ جواہر پارے جنرل صاحب کے ان کالموں پر مبنی ہیں جو وہ باقاعدگی سے ایک اردو روزنامہ میں شائع کرتے رہے ہیں۔ جنرل قیوم ہنس مُکھ، خوش مزاج، ذہین، کم گو، علم کا خزینہ ہیں۔ میری ان سے بیس سالہ پرانی دوستی ہے جو اس وقت شروع ہوئی جب وہ بینظیر کے ملٹری سکریٹری تھے اور برگیڈیر کے عہدہ پر قائم تھے، بعد میں ماشاء اللہ اپنی قابلیت کی وجہ سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔ پہلے آپ کو پی او ایف واہ کا چےئرمین اور پھر پاکستان اسٹیل ملز کا چےئرمین بنایاگیا۔ دونوں اداروں کو آپ نے نہایت منافع بخش صنعتوں میں تبدیل کردیااور اس طرح اس اہم قومی ادارہ کو بچالیا مگر پی پی پی نے ماشاء اللہ اس کو تباہ کردیا۔جنرل قیوم ایک نہایت اچھے اور سچے محب وطن ہیں اور یقین کیجئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض منصبی کو نہایت کامیابی اور اعلیٰ طریقہ سے انجام دینے میں ان کی ادبی تعلیم اور معلومات نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ”فکر و خیال“ پڑھیئے، لطف اندوز ہوئیے اور اپنی معلومات میں قیمتی اضافہ کیجئے۔
(4)چوتھی نہایت اہم معلوماتی کتاب ”قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل“ ہے۔ یہ اہم دستاویزی کتاب جناب قیوم نظامی نے تحریر کی ہے۔ اس میں قائد اعظم کا تصور پاکستان، سیاسی، معاشی، مذہبی بنیادیں“ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ جناب قیوم نظامی کسی تعارف کے محتاج نہیں، اعلیٰ پایہ کے ادیب تو ہیں ہی، مگر آپ پی پی پی کے بنیادی ممبر رہے ہیں، پھر مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں قید وجیل کی صعوبتیں اُٹھائیں، مگر ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد کچھ سکون ملا۔ اس سے پیشتر آٹھ سال کینیڈا اور برطانیہ میں جلاوطن رہے۔ بلخ شیر مزاری کی عبوری حکومت میں وزیر مملکت بھی رہے۔ آپ کا شمار پاکستان کے ممتاز سینئر کالم نویسوں میں ہوتا ہے۔ ان کے کالم ملک کے اندر اور باہر بے حد مقبول ہیں۔ یہ کتاب ایک خزینہ تاریخی معلومات ہے۔ پڑھیئے اور بانیٴِ پاکستان کی شخصیت سے پوری طرح آشنائی حاصل کیجئے۔ اس کتاب کو جہانگیر بکس اردو بازار لاہور۔فون نمبر 042-37213318نے شائع کیا ہے۔
(5)پانچویں دلچسپ و اہم کتاب ”نوائے آتش گل ہے“۔ یہ عزیز دوست جناب رانا عبدالباقی صاحب کی تحریر کردہ ہے۔ اس کو عبدالقادر پبلی کیشنز، F/315 نشتر روڈ نے شائع کی ہے۔
رانا عبدالباقی صاحب کی یہ کتاب ان کے نہایت اہم حالات حاضرہ پر دقیق و تفصیلی تجزیاتی ادارتی مقالہ جات پر مبنی ہے جو ایک ملکی روزنامہ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ کتاب پر 11 جانی پہچانی مشہور شخصیت کے تبصرہ جات موجود ہیں۔ رانا عبدالباقی ایک پرانے سینئر سول سرونٹ ہیں اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رہی ہے۔ آپ ایک فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں اور رمضان، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر ضرورت مند شہریوں کو بڑی تعداد میں اشیاء خورونوش کے پیکٹ تقسیم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزا دے۔ آمین۔
مجھے چند اور دلچسپ اور اہم کتب ازراہ محبت تحفہ میں موصول ہوئی ہیں۔ انشاء اللہ ان پر بھی جلد کسی کالم میں تبصرہ کرونگا۔
میں نہ ہی میڈیکل ڈاکٹر ہوں، نہ ہی ماہر نفسیات، مگر ایک سائنسدان ہونے کی حیثیت سے میری عادت بن گئی ہے کہ ہر چیز کو بہت غور سے دیکھتا ہوں یعنی قدرت نے قوّت مشاہدہ اور باریک بینی دی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت یا صفت ہے کہ اس نے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں بہت بڑا رول ادا کیا تھا۔ چیزوں اور آمنے سامنے ہونے والی باتوں اور واقعات کو غور سے دیکھنے اور یاد رکھنے کی عادت آپ کو قدرت سے ملتی ہے لوگ خود سے آسانی سے نہیں سیکھتے۔ اس کو آپ اس طرح سمجھئے جیسا کہ عقل وفہم و بصیرت کا معاملہ ہے۔ لوگ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، کتابیں حفظ کرسکتے ہیں اور اچھے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرسکتے ہیں لیکن ان سنہری دستاویزات کے باوجود وہ زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیم تو حاصل کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم و بصیرت سے محروم رکھا۔ جس کو اللہ تعالیٰ عقل و فہم و فراست نہ دے وہ کھو گیا، اس کو کوئی بھی یہ دولت نہیں دے سکتا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کن چکروں میں پڑ گیا اور کہاں کی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔
پچھلے تقریباًچار سال سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور نمائندے روزہی کسی نہ کسی ٹی وی پروگرام میں بحث و مباحثہ میں نظر آتے ہیں۔ بحث و مباحثہ تومہذب لفظ ہے یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لوگ مچھلی و سبزی منڈی لگاتے ہیں۔ عوام ان کے اسی روّیہ سے اُکتا گئے ہیں۔ میں نے خود جب کئی ڈائرکٹر /پروڈیوسر صاحبان سے اس کی شکایت کی کہ وہ کیوں غیر متعلقہ شخص کی آواز بند نہیں کرتے تو بولے ہم عوام کو ان ”تعلیمیافتہ اور تہذیب یافتہ“ عوامی نمائندوں کی اخلاقی پستی دکھاتے ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ ان میں تہذیب و صبر و تحمل کا فقدان ہے۔
میں نے پچھلے دنوں نہایت مہذب طریقہ سے میاں نواز شریف صاحب کی پچھلی غلطیوں کی جانب توجہ دلائی تھی۔ ٹی وی پر میرے عزیز و ذی فہم دوست ندیم ملک نے اُسی روز ملک کے سیاسی حالات پر پروگرام کیا۔ وہاں میاں صاحب کے متوالوں میں سے ایک صاحب اپنی عقل و فہم کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ملک صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر خان نے آج ہی ایک اچھا کالم، ”اَب لکیر پیٹا کر“ کے عنوان سے لکھا ہے اور میاں صاحب کے بلنڈرز کی جانب توجہ دلائی ہے۔ وہ صاحب بولے کہ ڈاکٹر خان سائنٹسٹ ہیں پولیٹیکل سائنٹسٹ نہیں۔ ہم پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ اس سے ان کی خوش فہمی و کم عقلیکا مظاہرہ ہوا۔ ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کو سائنس کی الف، بے ، کا علم نہیں ہوتا مگر ایک سائنٹسٹ کو سیاست کی ”ی،یے“ کی بھی سمجھ ہوتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم، ڈاکٹریٹ کی ڈگری والے اور تجربہ کار لوگ جاہل سمجھے جاتے ہیں اورلنڈا بازار کے تعلیمیافتہ عقل کُل سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کی موجودہ بَد تر حالت اِسی کرشمہ سازی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
آئیے آپ کے سامنے عوامی نمائندوں کے اس روّیہ کے بارہ میں علم نفسیات کی روشنی میں کچھ معروضات پیش کروں۔ اس قسم کے روّیہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں سائیکالوجی یعنی نفس انسانی اور اس کے عمل کا علمی مطالعہ، خصوصاً خاص ماحول یا حالات میں، کسی فرد کے ذہنی روّیے اور خصوصیات کا علمی مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کو آپ قیاس یا نقطہٴ نظر ، فکری یا نظری بات اور علمی یا سائنسی حقائق کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ایسے اثرزدہ لوگوں کے علاج کے لئے سائیکیاٹری کا علم یعنی نفسیاتی علاج اور نفسیاتی امراض کی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں علوم سے ضدّی، خود کو ہر بات میں سچ اور سب سے بہتر سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں فرانس کے ماہرین نفسیات ڈاکٹر ڈین اِسپربیئر (Dan Sperber) جنہوں نے پیرس کی مشہور یونیورسٹی سوربون (Sorbonne) اور آکسفورڈ (Oxford) یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی اور انکے شاگرد ڈاکٹر ہُو گو مَرسیئے (Hugo Mercier) کی تحقیق اور اس کے نتائج سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ان دونوں ماہر نفسیات کی تحقیق یا ریسرچ کے مطابق انسانوں کی اکثریت اتنی سچائی اور حقیقت کو جاننے کے لئے جستجو نہیں کرتی جتنی کہ خود سے اَخذ کئے ہوئے نتائج کو درست ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ پھر ایسا کرتے ہوئے لوگ اپنے مٴوقف کے دونوں پہلوؤں یعنی ٹھیک اور غلط کو زیر نگاہ نہیں رکھتے۔ صرف ان ہی دلائل کی رٹ لگائے جاتے ہیں جو ان کے اپنے نقطہ نظر کی حمایت یا حق میں جاتے ہیں۔ یہ لوگ مخالف دلائل کو (خواہ وہ کتنے ہی وزنی اور قوّی ہوں) سننے یا ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ الحمرا لاہور کے اگست کے شمارہ میں ہالینڈ میں رہائش پزیر جناب حسین شاہد صاحب نے بھی اس تحقیق کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے بارہ میں تبصرہ کیا تھا۔
اس سلسلہ میں کئی سال پیشتر ایک عالم اور مردم شناس عرب دوست نے بہت ہی اہم تبصرہ کیا تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ انسانی کردار و اعمال کے مشاہدہ کی بنیاد پر بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ آپ بد شکل انسان میں عقل و فہم کا فقدان پائینگے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس فرد کو اپنی رحمت سے نواز کر عقل و فہم دیتا ہے اس کو کم از کم خوش شکل بھی بناتا ہے۔ایک خوبصورت پھول بدبودار نہیں ہوتاا سی طرح اللہ تعالیٰ عیار، مکّار اور ناقابل بھروسہ فرد میں ضرور ظاہری عیب دیدیتا ہے کہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں۔ یہ بات اُنھوں نے بہت سوچ سمجھ کر کہی تھی اور نہایت اعتماد سے کہی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھ کر لوگوں کا مشاہدہ کیا اور اس بیان کی صداقت کا قائل ہوگیا۔ اب سیاست دانوں اور دوسرے لوگوں سے جب میرا سابقہ پڑتا ہے تو خودبخود یہ بات خیال میں آجاتی ہے۔
ایک معزز اور ایماندار اور ذی فہم سیاست داں یعنی شاہ محمود قریشی نے تحریک اِنصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی شرکت سے عمران خان کی پارٹی کو بہت تقویت ملے گی۔ وہ ایک نڈر اور راست گو سیاست داں ہیں۔ عمران خان خود محب وطن ہیں، مخلص ہیں اور ملک و عوام کا درد ان کے دل میں ہے۔ اس وقت ان کو بہت احتیاط و سوچ سمجھ کر اپنی تقریریں کرنا چاہئے ا ور عوام سے بہت سوچ سمجھ کر وعدے کرنا چاہیئے۔ ہم سب نے روٹی، کپڑا، مکان کا حشر دیکھ لیا ہے۔ وہ کھوکھلے نعرے لگانے سے گریز کریں اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کی جانب توجہ دیں۔ عوام اب تک ”ماراچہ ازیں قصّہ کہ گاؤ آمدو خر رفت“ یعنی ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بیل آیا اور گدھا چلا گیا، کا کھیل دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کے مشیروں میں سے کسی نے ان کی توجہ ان کے بار بار سونامی کے نعرے اور اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ سونامی ان اونچی، تیز لہروں کو کہتے ہیں جو زیر آب (سمند ر میں) طاقتور زلزلے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال ابھی ماضی قریب میں مشرق بعید کی ہے اس خوفناک زلزلے اور نتیجہ میں اُٹھنے والی خوفناک لہروں نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ہندوستان وغیرہ میں تباہی پھیلا دی تھی۔ ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کئے۔ کئی لاکھ مویشی، مکانات، عمارتیں چند لمحوں میں صفحہٴ ہستی سے غائب ہوگئیں۔ یہ سونامی عذاب اپنے پیچھے تباہی، غارتگری ،اموات چھوڑ گیا۔ اس کے نتیجہ میں کچھ بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ عمران خان اگر برائی کے بدلے اچھائی لانا چاہتے ہیں تو بہتری کے لئے عوامی انقلاب کی دعوت دیں، سونامی کی نہیں۔ آپ بہتری، اچھائی کی اُمید اور آمد کی خوشخبری سنائیں۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں، موجودہ نااہل و راشی حکمرانوں سے اُکتا گئے ہیں۔ میں سیاست داں نہیں مگر انسان جب کچھ پڑھ لیتا ہے تو حالات کو سمجھنے کی صلاحیت آ ہی جاتی ہے۔ ملک کے نازک حالات میں اس وقت عمران خان کو اور نوازشریف صاحب،شہباز شریف صاحب کو نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس ملک کو بچانے، عوام کی تکالیف دور کرنے اور پاکستان کا کھویا بلکہ تباہ کردہ وقار بحال کرنے کے لئے آپ مل کر اگلے الیکشن میں حصّہ لیں جیسا کہ میرے محترم دوست جاوید ہاشمی نے بھی کہا ہے ۔ موجودہ حالات میں آپ دونوں آپس میں لڑ کر چوروں اور نااہلوں کی حکمرانی کو طول دینگے اور اس پانچ سال کے دور کے بعد آپ ناپید ہوجائینگے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کو بچانے اور عوام کی مشکلات دور کرنے میں جماعت اسلامی بھی آپ کا ساتھ دیگی۔ خدا کے لئے جاہل مشیروں سے جان چھڑائیں، ماضی پر نظر ڈالیں اور کچھ سیکھیں۔
آجکل جب میں لاتعداد خود کارمشیروں کو قومی لیڈروں کے ارد گرد دیکھتا ہوں تو مجھے فرعون اور حضرت موسیٰ کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ جب فرعون کی زیادتیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی اسرائیل کو لے کر بحر قلزم کو عبور کرکے دوسری جانب محفوظ علاقہ میں چلے جائیں تو وہ سمندر کی جانب چل پڑے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصا مارا تو وہ دو حصّوں میں پھٹ گیا اور حضرت موسیٰ اور ان کا قبیلہ اس میں اتر کر روانہ ہو گیا۔ جب فرعون اپنے فوجی دستہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو سمندر کو پھٹا دیکھ کرحیران ہوا۔ اس کے مشیروں نے کہا کہ آپ کے خوف اور احترام میں سمندر نے راستہ بنا دیا ہے کہ ہم موسیٰ اور اسکے قبیلہ کو پکڑ سکیں۔ جونہی وہ پانی کے دو حصّوں کے درمیان اترے اور کچھ دور گئے کہ اللہ تعالی ٰ نے دونوں حصّوں کو ملا دیا اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ عقل و فہم سے مُبرّا مشیروں کے مشورہ پر عمل کرکے فرعون کا کیا حشر ہوا۔ سیاسی رہنماؤں خاص کر نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان کو چاہئے کہ اپنے مستقبل، ملک کے اور عوام کے مفاد کی خاطر ”مشیروں“ سے ہوشیار رہیں۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک کی تاریخ جنگوں کے واقعات اور فتوحات اور شکستوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اگرچہ ہر قوم اپنی فتوحات پر فخر کرتی ہے مگر یہ شکست ہے جو ان کی تاریخ اور ذہنوں پر ناقابل فراموش نہایت تکلیف دہ تاثرات چھوڑتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت کا داغ لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات لاتعداد شکستوں کے بعد ایک اچھی فتح ایک قوم کی تاریخ میں ایک سنہرا باب بن جاتی ہے۔ نپولین کی لاتعداد بڑی فتوحات کے بعد جب اس کو روس پر حملہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو تاریخ کا رخ بدل گیا۔ اس کے بعد بیلجیم کے مقام واٹر لُو میں ڈیوک آف ولینگٹن کے ہاتھوں مکمل شکست فاش ہوئی گرفتار ہوا اور سینٹ ہیلنیا نامی جزیرہ میں قید کی زندگی گزار کر فوت ہو گیا۔ اسی طرح ہٹلر کی تمام بڑی بڑی فتوحات لینن گراڈ پر شکست سے خاک میں مل گئیں، فوج کی خود اعتمادی ختم ہوگئی فیلڈ مارشل پاؤلُسن نے ہتھیار ڈال دیے اور بہت جلد ہٹلر کی فوجوں کو ہرجگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں روسی افواج نے برلن پر قبضہ کرلیا اور ہٹلر کو شرم و ذلت سے خودکشی کرنا پڑی۔ نہ ہی فرانسیسی اور نہ ہی جرمن عوام اپنی تاریخ کی ان بدترین شکستوں کو بھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کی لاتعداد فتوحات پر گلی پولی کے مقام پر ترکوں سے شکست اور لاکھ کے قریب فوجیوں کی ہلاکت نے ان کی فتوحات پر صف ماتم بچھا دی۔ اس کے برعکس انگریزوں کی لاتعداد بد ترین شکستوں کے بعد جنگ عظیم دوم میں فیلڈ مارشل منٹگمری کی جرمن فیلڈ مارشل رومیل پر مصر میں الامین کے مقام پر فتح نے تمام شکستوں کی لعنت و ذلت کو دھودیا۔ اس طرح منگولوں کی لاتعداد شاندار (اور سخت ظالمانہ) فتوحات پر ترک مملوک سلطان ملک الظہیربیبرس نے عین جالوت (اردن) اور وان (مشرقی ترکی) کے مقامات پر تباہ کن شکستیں دے کر ذلت کی روشنائی پھیر دی۔ منگول پھر سنبھل نہ سکے۔
بدقسمتی سے ہماری ملکی تاریخ میں کوئی بھی قابل ذکر اور قابل فخر فتح نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ شکستیں اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 16 دسمبر1971 کی ذلت آمیز شکست اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کا واقعہ ہماری المناک تاریخ و شکستوں کا بدترین واقعہ ہے۔ یہ تاریخ کی ایک اور شکست تھی مگر میرے لئے ہمیشہ کے لئے نہایت دردناک یادّاشت بن گئی۔ میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا جنرل ارورا کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور دستخط کرنا زندگی پھر نہیں بھول سکتا۔ جوں جوں 16 دسمبر کا دن قریب آتا جاتا ہے میرا دل دکھ سے بیٹھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہئے عقل و فہم کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا چاہئے نہ کہ اس کو بھول کر وہی غلطیاں دوہرائیں اور ذلت و تباہی کا شکار ہوں۔
اکتوبر 1971 ء میں میں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی تھیسس مکمل کرلی تھی اور داخل کرچکا تھا۔ پچھلے کئی ماہ سے اپنے کام سے متعلق بین الاقوامی رسالہ جات میں ریسرچ مقالہ جات شائع کررہا تھا، مگر چند ماہ سے دماغی سکون تھا اور نہ ہی کام میں دل لگ رہا تھا۔ مجھے ایک کتاب کی تکمیل کرنا تھی جس کو ہالینڈ کی مشہور کمپنی نے بعد میں شائع کیا۔
جب مارچ 1971ء میں یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان سے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کرایا تو میں نے یہی یقین کیا کہ واقعی مشرقی پاکستان والے دہشت گرد ہندوستانیوں کی مدد سے وہاں گڑبڑ کرارہے ہیں۔ آہستہ آہستہ جب اخبارات اور ٹی وی نے حقائق بیان کرنے شروع کئے تو دماغ الجھن میں پڑ گیا۔ میں نے کراچی میں ایوب خان کے ابتدائی دور میں فوجیوں کو دیکھا تھا اور میرے دل میں ان کے لئے بے حد عزت تھی، مگر اب جب نہتے بنگالیوں کا قتل عام دیکھا،اور نہایت اندوہناک تصاویر دیکھیں کہ کتے بچوں کی لاشیں گھسیٹ رہے تھے اور ان کو کھا رہے تھے تو بے حد دکھ ہوا۔ میرے ساتھ بازووالے فلیٹ میں ڈاکٹر عبدالمجید ملا اور ان کی بیگم ڈاکٹر عائشہ قیام پزیر تھے۔ میڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کررہے تھے، ڈھاکہ سے تھے اور ہمارے بے حداچھے دوست تھے اور فرشتہ خصلت تھے۔ ان کی دو بچیاں ہماری بچیوں کی ہم عمر تھیں اور بے حد اچھی دوست تھیں۔ ہمارے تعلقات میں فرق نہیں آیا مگر جب ملتے تھے تو اندرونی طور پر احساس ہو رہا تھا کہ درمیان میں خلیج پیدا ہورہی ہے۔ اس کے بعد 16 دسمبر1971 ء کا دن آیا اور مجھے اپنی آنکھوں سے وہ سیاہ ترین دن بھی دیکھنا پڑا جب جنرل امیر عبداللہ خان نیازی پلٹن میدان میں بیٹھ کر ہندوستانی جنرل ارورا کے سامنے شکست نامے اور ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ پر دستخط کررہے تھے اور 14 دسمبر کو ڈکٹیٹر صدر یحییٰ خان قوم کو خطاب کرنے اوردروغ گوئی میں مصروف تھا کہ جلد ہی ہم فتح یاب ہونے والے ہیں۔ میں کئی دن سو نہ سکا، بھوک مرگئی اور کئی کلو وزن کم ہوگیا اور یہی افسوس کرتا رہا کہ اللہ پاک تو نے مجھے یہ منحوس دن کیوں دکھانے کو زندہ رکھا۔ جس وقت مغربی پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان میں بدنام زمانہ آرمی ایکشن شروع کیا اس وقت ہمارے انقلابی مرحوم شاعر حبیب جالب نے یہ قطعہ کہا تھا۔
(1971 کے خون آشام بنگال کے نام)
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو
بعد میں معتبر ذرائع سے یہ بھی پتا چلا تھا کہ فوج نے سو سے زیادہ بنگالی دانشوروں کو گرفتار کرکے ڈھاکہ کے باہر قتل کرکے اجتماعی قبر میں دفن کردیا تھا۔ مجھے ان باتوں پر یقین نہ آتا تھا، لیکن جب پاکستان آیا اور میرے ساتھ کام کرنے والے پرانے فوجی سپاہیوں اور نچلے درجہ کے افسران سے تفصیلات کا علم ہوا تو میرا سر شرم سے جھک گیا۔ رہی سہی کسر مشرف نے اپنی ہی فوج کو عوام کے خلاف استعمال کرکے اور لال مسجد میں معصوم بچوں کو فاسفورس بم سے جلا کر اور مار کر پوری کردی۔
میں 1972 ء کے اوائل میں ایمسٹرڈم چلا گیا اور وہاں یورینیم کی افزودگی میں مہارت حاصل کی۔ مجھے پھر بھی ہر وقت 16 دسمبر 1971ء یاد آکر دکھ دیتا رہتا تھا، جب 18 مئی 1974 ء کو ہندوستان نے دنیا کو دھوکہ دے کر ایٹمی دھماکہ کیا اور بھٹو صاحب کی باربار وارننگ کو نظر انداز کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ اب پاکستان کا قیام و وجود بہت خطرہ میں پڑگیا ہے اور ہندوستان ہمیں چند سالوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ مگر جب اواخر 1975 ء میں پاکستان آیا تو بھٹو صاحب نے درخواست کی کہ میں واپس نہ جاؤں اور رک کر ایٹم بم بناؤں، باقی حالات کہ کس طرح سب کچھ چھوڑا، کتنی خطیر تنخواہ پر کام کیا اور کن کن مشکلات و سازشوں کا سامنا کرنا پڑا، اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ میرے رفقاء کار اور میں نے نہایت کم عرصہ میں اس ملک کو ایک ایٹمی اور میزائل قوت بنا دیا اور ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ میں نے اربوں ڈالر کی ٹیکنالوجی دی اور ایک پائی معاوضہ کی خواہش نہیں رکھی
، وہ فوج جو ہتھیار ڈال کر2 سال قید میں رہی، اور جوخاص طور پر میرے کام سے مستفید ہوئی اس کے ایک جرنیل نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس ملک کی تاریخ کا حصہ رہے گا۔ ٹیکنالوجی میری تھی، میں لایا تھا اور پاکستان نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا تھا اور ہم نے این پی ٹی (NPT) اور این ایس جی (NSG) پر دستخط بھی نہیں کئے تھے، پھر بھی ایک کم ظرف ڈکٹیٹر نے مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ مجھے مجبور کرکے بیان پڑھوایا گیا کہ ملک کے مفاد میں ہے اور ملک کے خلاف ایف آئی آر کٹوادی اور خود ذلیل ہو کر چلا گیا مگر ملک کو تباہ کرگیا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ عزّت و محبت دی۔
احمد فراز مرحوم نے ڈھاکہ میں فوجی میوزم دیکھ کر جن احساسات کا اظہار کیا ہے وہ ہم سب کی ترجمانی کرتے ہیں۔
(بنگلہ دیش۔ ڈھاکہ میوزم دیکھ کر)
کبھی یہ شہر میرا تھا زمین میری تھی
مرے ہی لوگ تھے میرے ہی دست و بازو تھے
میں جس دیار میں بے یار و بے رفیق پھروں
یہاں کے سارے صنم میرے آشنارو تھے
کسے خبر تھی کہ عمروں کی عاشقی کا مآل
دل شکستہ و چشم پُر آب جیسا تھا
کسے خبر تھی کہ اس دجلہء محبت میں
ہمارے ساتھ بھی موج و حباب جیسا تھا
خبر نہیں یہ رقابت تھی ناخداؤں کی
کہ یہ سیاست درباں کی چال تھی کوئی
دو نیم ٹوٹ کر ایسی ہوئی زمیں جیسے
مری اکائی بھی خواب و خیال تھی کوئی
یہ میوزیم تو ہے اس روز بد کا آئینہ
جو نفرتوں کی تہوں کا حساب رکھتا ہے
کہیں لگا ہوا انبار استخواں تو کہیں
لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب رکھتا ہے
کہیں مرے سپہ سالار کی جھکی گردن
عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سماں
مرے خدا میری بینائی چھین لے مجھ سے
میں کیسے دیکھ رہا ہوں ہزیمت یاراں
ستم ظریفی دیکھئے جو کام میں نے کیا جس کی وجہ سے مشرف اور اس کے ساتھی ذلت کے بجائے سر اٹھانے کے اور سیدھا چلنے کے قابل ہوئے، انہوں نے جو کچھ میرے ساتھ سلوک کیا اسے احسان فراموش ہی کہہ سکتے ہیں۔ اگر جناب بھٹو، غلام اسحق خان، جنرل ضیاء الحق ، اور محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ اس پروگرام کو نہ چلنے دیتے اور مدد نہ کرتے اور میاں نواز شریف صاحب جرأت اور حب الوطنی کا مظاہرہ نہ کرتے تو ہم سب ایل کے ایڈوانی کے حکم اور خواہش کے مطابق گردنیں جھکا کر اور ادب سے سامنے مارچ کررہے ہوتے۔ جوں جوں دسمبر آیا ہے دل سے ایک ہی دعا ایک ہی التجا نکلتی ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اس کے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ اپنی گذشتہ غلطیوں سے سبق نہیں حاصل کرتے وہ پھر وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اب بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم اب پھر عوام کا قتل عام کررہے ہیں اور امریکیوں سے بھی یہ کام کروارہے ہیں۔ اور ہمیں اس بات پر قطعی شرم نہیں آتی کہ غیر ملک ہمارے ملک میں کھلے عام حملے کررہا ہے اور لاتعداد بیگناہ مرد عورتوں اور بچوں کا قتل عام کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہمارے ملک پر کبھی اتنا برا وقت نہیں آیا۔ ملک لٹیروں، راشیوں اور نااہلوں کے ہاتھ میں ہے اور ہمارا بنیادی ڈھانچہ پاش پاش ہوگیا ہے۔…
چند ماہ پیشتر جنگ ہردلعزیز کے ایک قاری نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں سیدھی سادھی زبان میں ذیابطیس (Diabetes) نامی بیماری پر ایک مضمون لکھدوں کہ اس طرح لاکھوں افراد تک اس کے بارے میں معلومات پہنچ جائینگی۔ میں نے خواہش کی تکمیل کی (ماہرین سے معذرت کے ساتھ) اور عوام کا ردّ عمل نہایت قابل تحسین تھا۔
آج پھر نیوروسرجن اور آرتھوپیڈک سرجن ماہرین کی اجازت سے ایک نہایت ہی اہم مرض کی جانب توجہ دلانا چاہ رہا ہوں۔ کمر کا درد اس قدر عام ہے اور مریض افراد اس سے اس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس مرض کے علاج کے نام سے گھبراتے ہیں اور برسوں اس شدّت تکلیف برداشت کرکے اپنی اچھی بھلی زندگی کو تباہ کرلیتے ہیں۔
تقریباً چار ماہ پیشتر میری کمر میں ہلکا ہلکا درد شروع ہوا۔ آہستہ آہستہ اس میں شدّت بڑھتی گئی۔ چلتے پھرتے اور لیٹنے میں بھی تکلیف ہونے لگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا۔ رمضان میں کراچی جاکر بھائی بہنوں سے ملنے سے بھی محروم ہوگیا۔ معالِجین کی کمی نہیں تھی، ماشاء اللہ سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ڈاکٹر تھے۔ فزیوتھراپی بھی جاری تھی۔ ہومیوپیتھک اور حکیمی دواؤں کا بھی استعمال کیامگر بات وہی تھی کہ:۔
”مرض بڑھتا ہی گیا ۔ جوں جوں علاج کیا“
کمر میں، کولھے میں، ران میں اور پنڈلی (دائیں جانب) درد کی شدّت نے حقیقتاً دن میں ستارے دکھا دیے۔ پہلے چھڑی کا سہارا لیا پھر اس کے سہارے چلنا مشکل ہوگیا تو بیگم نے لوہے کے فریم والا سہارا یعنی Walker منگوا دیا۔ یہ بھی سہارا نہ دے سکا۔ اور ہمارے کے آر ایل کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر سلیم قریشی، آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر مغیث اکرام، ایم ڈی یورو سرجن ڈاکٹر کامران نے بہت تشویش کا اظہار کیا اور فوراً PIMS کے نیورولوجی کے سربراہ اور ملک کے مایہ ناز نیوروسرجن پروفیسر ڈاکٹر خلیق الزمان اور اتنی ہی قابل اُن کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ خلیق نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مجھے فوراً شفا انٹرنیشنل ہسپتال لے جایا جائے اور ایم آئی آر، ایکسرے، نبض اور پٹھوں کی کنڈکٹی وٹی (یعنی ایصال برقی رو) ٹسٹ کرائے جائیں۔ تقریباً ساڑھے تین چار گھنٹے ٹسٹ ہوئے اور وہاں ہمارے پرانے ساتھی اور کے آر ایل میڈیکل کے ایڈمنسٹریٹر کرنل محمد نعیم نے تمام انتظامات نہایت خوش اسلوبی سے طے کرادیے۔ وہاں کے ماہر ڈاکٹر جناب اسمٰعیل کھتری، ڈاکٹر میمونہ صدیقی، ڈاکٹر صنم یاسر، ڈاکٹر وسیم اعوان، ڈاکٹر ثمینہ گل، ڈاکٹر عاطف رانا وغیرہ نے ان ٹسٹوں کے درمیان محبت و خلوص کا اظہار کیا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر ڈاکٹر خلیق الزماں اور ان کی بیگم ڈاکٹر ثمینہ خلیق بھی ان ٹیسٹوں کے درمیان وہاں موجود رہے (آخر میرا پٹھان ہونے کا ان پر حق بھی تو ہے)۔ تمام نتائج ٹیسٹ دیکھ کر تمام ماہرین نے فیصلہ کیا کہ آپریشن ضروری ہے اور فوراً ضروری ہے۔ تقریباً شام کے آٹھ بج گئے تھے میں نے درخواست کی کہ ابھی گھر چلا جاؤں صبح آٹھ بجے حاضر ہوجاؤنگا۔ ڈاکٹروں نے صاف انکار کردیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خلیق الزمان نے کہا کہ فیصلہ میں نے کرنا ہے کہ شفا میں آپریشن کراؤں یا PIMS میں یا کے آر ایل میں، میں نے کے آر ایل کو ترجیح دی کہ وہ میرا اپنا لگایا ہوا پودا ہے اور اگر میں اپنے ہی ہسپتال پر بھروسہ نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ طے یہ پایا کہ آپریشن پروفیسر خلیق الزمان اور بیگم خلیق الزمان ہی کرینگے اور ہمارے تمام ڈاکٹر وہاں موجود ہونگے۔ مجھے رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ اگر آپریشن شفا یا PIMS میں ہوتا تو ڈاکٹر ، نرسنگ اسٹاف اور دوسرے لوگ محبت و شفقت اور تیمارداری میں کسر نہ چھوڑتے مگر کے آر ایل میرے لئے اپنے گھر کی طرح ہے۔
جب تمام معاملہ طے پا گیا کہ آپریشن ضروری ہے فوراً ضروری ہے اور کے آر ایل ہسپتال میں ہوگا تو پروفیسر ڈاکٹر خلیق الزمان نے، بطور سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرنے کے تجربہ کی خاطر پوچھا کہ اب کیا بورڈ بنے گا، اس میں کون کون ہوگا اور اتنی رات گئے کیا یہ فوراً ممکن ہے۔ سب ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے تو میں نے مُسکرا کر کہا کہ یہ کام میں ابھی کردیتا ہوں۔ میں میڈیکل بورڈ بنا رہا ہوں، اس کا چیئرمین ہوں اور آپ سب ممبر ہیں۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپریشن آج ہی بغیر تاخیر کے ہوگا۔ اُنھوں نے میرے سامنے راضی نامہ رکھا، میں نے دستخط کئے، بیگم کو فون کیا کہ کے آر ایل جارہا ہوں۔ کچھ دیر میں وہ اور سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی جنرل ریاض احمد چوہان پہونچ گئے۔ ڈاکٹر خلیق الزمان اور بیگم خلیق الزمان کو دوسرے ارجنٹ آپریشن کرنا تھے اُنھوں نے کہا کہ وہ انشاء اللہ ساڑھے گیارہ بجے پہونچ جائیں گے۔ آپریشن تھیٹر تیار تھا ہمارے اپنے ڈاکٹر موجود تھے پونے بارہ بجے تھیٹر کے اندر لیجایا گیا۔ تقریباً بارہ بجے آپریشن شروع ہوا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ چھوٹا آپریشن ہے جلد فارغ ہوجاؤنگا اور غالباً ایک انچ کا شگاف لگے گا۔ آپریشن تقریباً تین گھنٹے جاری رہا۔ پانچ انچ سے لمبا حصّہ کاٹا گیا اور ریڑھ کی ہڈی اور نبض کو کاٹا اور ٹھیک کیا گیا۔ اس تمام عرصہ میں میری بیگم، جنرل چوہان اور کچھ ڈاکٹرحضرات باہر انتظار کرتے رہے اور متعلقہ سرجن اندر میری ریڑھ کی ہڈی پر اپنی مہارت کے کرشمے دکھاتے رہے۔آپریشن سے پہلے، اس کے دوران اور اسکے بعد کے آر ایل کے انِس تھیسسٹ یعنی آپ کو آپریشن کیلئے بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر شاہد ہ نسیم اور کرنل طارق حیات نے مہارت دکھائی غائب کردیا اور پھر واپس بھی لے آئے۔ تقریباً چار بجے میرے کانوں میں ہلکی ہلکی میٹھی آواز آئی اور چہرہ پر ہاتھ محسوس ہوا۔ آنکھ کھولی تو دیکھا کہ بڑی بیٹی ڈاکٹر دینا خان تھی وہ آپریشن کا سنتے ہی دوبئی اےئر پورٹ پہنچی، فلائٹ لی، اڑھائی بجے اسلام آباد پہونچی اور وہاں سے سیدھی ہسپتال۔ اسکی پیاری آواز ”پا“ میں آگئی ہوں، انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی بیگم کا پرسکون اور مسکراتا چہرہ دیکھا، اُنھوں نے ہاتھ دبا کر ہماری 48 سالہ محبت و خلوص کا اظہار بغیر ایک لفظ کہے کردیا۔ یہ بات ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گی۔ صبح 9 بجے مجھے ICU سے پرائیویٹ کمرے میں منتقل کردیا گیا۔
دیکھئے جس طرح ہم سائنسدان، انجینئر ایک پرابلم کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں اسی طرح ڈاکٹربھی مریض کی تشخیص ہر پہلو سے کرتے ہیں۔ وہ سب ایماندار اور اپنے پیشے کے وفادار ہوتے ہیں اور نہایت غیر جانبدارانہ ماہرانہ رائے دیتے ہیں۔ میرے معاملہ میں ماہرین نے مختلف آراء دیں اور علاج تجویز کیا۔ کچھ ماہرین نے اس کو سیاٹیکا (Sciatica) کہا اور کچھ ماہرین نے برسائٹس (Bursitis) یعنی پہلی حالت میں ریڑھ کی ہڈی میں خرابی اور نبض پر دباؤ اور دوسری حالت میں کولھے کے جوڑ میں پٹھوں کا گھِساؤ، ان کا زخمی ہونا وغیرہ ہوتا ہے اور کولھے کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ میں ان بیماریوں اور ان کے علاج، خاص طور پر اپنے تجربہ کی نگاہ سے، بیان کرونگا۔ پہلے آپ کو اپنے ایمان، کلام الٰہی کی روشنی میں کچھ عرض کرنا پسند کرونگا کہ اگر ہمارا ایمان، اعتقاد پکّا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر مصیبت آسان کردیتا ہے۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہمیں اُسی کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر تکلیف کے ساتھ آرام ہے۔ حضرت اابوالقاسم قشیری سے منقول ہے کہ ان کا ایک بیٹا بہت سخت بیمار ہوگیا اور قریب المرگ ہوگیا۔ آپ نے دعا مانگی اور خواب میں رسول ﷺنے فرمایا تم آیات شفا سے کیوں دور رہتے ہو کیوں ان سے استفادہ نہیں کرتے۔ میں بیدار ہوگیا اور اس پر غور کرنے لگا تو میں نے ان آیات شفا کو کتاب الٰہی میں چھ جگہ پایا۔ (۱) اور اللہ شفا دیتا ہے مومنین کے سینوں کو۔ سورہ توبہ آیت 14 (۲) سینے میں جو تکلیف ہے ان سے شفا ہے۔ سورہ یونس آیت 57 (۳) ان کے (مکھیوں ) کے پیٹ سے نکلتی ہے پینے کی چیز (شہد) جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں لوگوں کے لئے ان میں شفا ہے۔ سورہ النحل، آیت 69 (۴) اور قرآن میں ہم ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کیلئے شفا اور رحمت ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 83 (۵) اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ شفا دیتا ہے۔ سورہ الشعراء آیت 80 (۶) فرما دیجئے آپ صلعم کہ مومنین کیلئے یہ ہدایت اور شفا ہے۔سورہ حم اَلسجدہ آیت 44 ۔ حضرت قشیری نے فرمایا کہ میں نے ان آیات کو کاغذ پر لکھا اور پانی میں گھول کر بچّے کو پلا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جلد ہی مکمل شفا عطا فرمادی گویا وہ بیمارہی نہ تھا (بحوالہ مَدارِج النبوة ۔ Madarij al-Nubuwwa )۔
جب ڈاکٹروں نے میری بیگم سے میری بے فکری اور اللہ پر توکل کرنے کی وجہ پوچھی تو اُنھوں نے کہا کہ اس کو اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد و اعتقاد ہے۔ وہ ہمیشہ سورة توبہ آیت 51 کا حوالہ دیتا ہے کہ ہمیں کوئی گزند نہیں پہونچا سکتا سوائے اللہ کی مرضی کے اور وہی ہمارا محافظ ہے۔ اور سورة تغابن جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کوئی نقصان یا تکلیف تم کو نہیں پہونچ سکتی بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے اور جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کو صحیح راہ دکھاتا ہے، کا حوالہ دیدیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے 2006 ستمبر میں آغا خان ہسپتال کراچی میں غدّہ قدامیہ یعنی (Prostate) کے کینسر کا آپریشن ہو یا یہ نہایت اہم اور پیچیدہ کمر کا آپریشن ہو اللہ تعالیٰ اسکو تقویت دیتا رہا ہے اور وہ کبھی متفکر نظر نہیں آیا۔ وہ باقاعدگی سے پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اور صبح ایک گھنٹہ ترجمہ کے ساتھ کلام مجید کا مطالعہ کرتا ہے۔ (جاری ہے)
پچھلے کالم میں قارئین ہر دلعزیز روزنامہ جنگ ، روزنامہ دی نیوز، کیلئے میں نے کمر کی تکلیف دہ بیماری، ناقابل برداشت درد کے بارہ میں کچھ حقائق بیان کئے تھے۔ حسب توقع لاتعداد قارئین نے یہ کالم سراہا اور مجھے تمام ذرائع سے اَپنے خیالات اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے ایک پچھلے کالم کی طرح جو میں نے ذیابطیس پر ماہرین سے مشورہ کرکے لکھا تھا یہ کالم بھی بے حد سراہا گیاہے۔ مجھے اُمید ہے ان دو کالموں میں بیان کردہ حقائق و معلومات کی روشنی میں وہ اس تکلیف و مرض سے خوفزدہ نہ ہونگے اور جلد علاج کروا کر ایک آرام دہ زندگی گزار سکیں گے۔ ہمیں یہ بات ہر وقت یاد رکھنا چاہئے کہ فرمان الٰہی کے مطابق جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی شفا دیتا ہے اور وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور موت کے بعد وہی ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں عرض کرچکا ہوں۔ کمر میں پہلے ہلکا سا درد شروع ہوا اور اچانک دائیں کولھے میں، ران میں اور پنڈلی میں شدّت اختیار کرگیا۔ بات قابل برداشت سے ناقابل برداشت تک جا پہنچی۔ سُن رکھا تھا کہ اس قسم کا درد فرعون مصر کو کبھی نہ ہو اتھا اور اس قسم کا درد صرف دردِدل رکھنے والے خوش قسمتوں ہی کے حصّے میں آتا ہے۔ میں تمام علاج کراتا رہا مگر افاقہ نہیں ہوا اور میں نے یہی سوچا کہ نزلے زکام، بخار کی طرح کچھ دن دوائیں کھانے سے اس تکلیف و درد سے نجات مل جائے۔ اس دوران فیصل آباد میں واقع مشہور پنجاب میڈیکل کالج کا سالانہ کنووکیشن 26 نومبر کو منعقد ہوا اورپرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ریاض حسین داب صاحب، چےئر مین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر میاں فاروق اور تمام نئے گریجوئیٹنگ ڈاکٹرزکی پرخلوص و محبت آمیز خواہش پر میں نے وہاں بطور چیف گیسٹ جانا بطور بخوشی قبول کیا۔ سوچئے میں اس خلوص و محبت کے اظہار کو کس طرح نظر انداز کرسکتا۔ اور جب مجھے یہ علم ہوا کہ وہاں میرے نہایت عزیز دوست، ملک کے مایہ ناز ماہر نفسیات، اور پنجاب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسیزکے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ملک مبشر بھی موجود ہونگے تو میرے لیئے مزید قبولیت اور جانے کی وجہ بن گئی ۔کیونکہ اسلام آباد سے وہاں کے لئے کوئی فلائٹ نہیں تھی اسلئے مجبوراً بذریعہ کار جانا پڑا۔ گاڑی بہت آرام دہ تھی لیکن ساڑھے تین گھنٹے جانا اور ساڑھے تین گھنٹے آنے کا بوجھ یہ کمزور اور عمر رسیدہ کمر برداشت نہ کرسکی۔ واپس آکر حالت بہت بگڑتی چلی گئی اور مجبوراً ہسپتال جانا پڑا اور ایمرجنسی میں یہ حساس آپریشن کرانا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے کہ نہ ہی آپریشن سے یا اس کے نتائج کے بارہ قطعی کوئی خوف و فکر و پریشانی نہیں ہوئی۔ اور ڈرنے کی وجہ بھی نہیں کیونکہ جو کچھ آپ کو پیش آتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔
میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد سے واپس آنے پر میرا دایاں پاؤں حرکت کرنے سے قاصر ہوگیا اور میرے لئے کھڑے ہونا یا چلنا نا ممکن ہو گیا۔ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایت پر دوسرے روز ہی شفا انٹرنیشنل ہسپتال لیجایا گیا۔ اس وقت تک میں مزید تکلیف کا شکار ہوگیا تھا ۔ پہلے دو ٹسٹ کئے گئے جن کو میڈیکل اصطلاح میں NCS اور EMG یعنی (Nerve Conduction Study) اور (Electro Myo Graphy) کہا جاتا ہے۔ یہ کچھ تکلیف دہ ٹسٹ ہوتے ہیں مگر مرض کے درد سے بہت کم۔ اسی وقت MRI بھی کمر کا کرایا گیا اسکو Magnetic Resonance Imaging کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے مایہ ناز سرجن /ڈاکٹر خلیق الزماں، ان کی بیگم پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ خلیق، شفا کے ماہر ڈاکٹر اسمٰعیل کھتری اور کے آر ایل کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر مغیث اکرام، میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر سلیم قریشی اور ہسپتال کے ڈی جی ڈاکٹر کامران مجید نے تمام ٹسٹ خاص کر ایم آر آئی کے ٹسٹ دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا کہ میں بری طرح Prolapsed Disc کا شکار ہوگیا ہوں۔ ڈاکٹر خلیق نے اس کے بارہ میں مجھے سمجھایا کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان خدا تعالیٰ نے نرم ربر یا چیونگم کی طرح لچکدار پیڈ یا گدیاں رکھی ہیں جو کہ شاک یعنی جھٹکے کو جذب کرلیتی ہیں۔ یہ گدیاں یا پیڈ ہماری کمر میں لچک بھی پیدا کرتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان گدیوں کی لچک کم ہوتی جاتی ہے بالکل اسی طرح جسطرح پرانا ربر سخت اور بے لچک ہوجاتا ہے۔ گدیوں کی لچک ختم ہونے سے یہ خطرہ بڑھتا جاتا ہے کہ یہ ذرا سے جھٹکے سے ریڑھ کی ہڈی کے گریوں سے پھسل جاتی ہے اور قریب سے گزرتی ہوئی رگ پر ملبہ کی طرح گر کر اس پر سخت دباؤ ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر خلیق الزماں اور بیگم ڈاکٹر ثمینہ خلیق نے مجھے بتایا کہ یہ وہ رگیں ہوتی ہیں جو کہ ہماری ٹانگوں کے پٹھوں کر حرکت میں رکھتی ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آفت ناگہانی میری اس رگ پر آگری ہے جو میرے دائیں پاؤں کی حرکت میں کارفرما تھا۔ اس کو میڈیکل زبان میں Sciatic nerve کہتے ہیں۔ یہ ہمارے بدن کی سب سے بڑی رَگ یا نَرو ہے۔ تمام ٹسٹوں کے بعد مجھے بتایا گیا کہ فوراً آپریشن کے بعد میری متاثرہ رگ کو اس ملبہ اور دباؤ سے نکالنا ہے کیونکہ تاخیر سے رگ کے بچنے کے امکانات معدوم ہوتے جائینگے۔ اُسی رات آپریشن کیا گیا جو ڈاکٹر خلیق الزماں اور ان کی بیگم ڈاکٹر ثمینہ خلیق نے انجام دیا اور اس پھسلی ہوئی گدی (Prolapsed disc) کوجو میری رگ کو دبا رہی تھی نکال دیا گیا۔ یہ آپریشن کمرکے بالکل نچلے حصّہ پر کیا گیا جس کو میڈیکل ٹرم میں L4/L5 کہا جاتا ہے۔ آپریشن طویل اور مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور ڈاکٹروں کی مہارت نے اس کواتنا آسان کردیا جیسا کہ آپ نے بس ناخن کاٹے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے کرم اور پوری قوم کی دعاؤں سے اگلے ہی روز میرے پاؤں میں طاقت بحال ہونا شروع ہوگئی اور وہ جان لیوا درد بالکل غائب ہوگیا۔ تیسرے دن الحمدللہ میں واکر (Walker) کی مدد سے چلنے لگا۔ اب آہستہ آہستہ ٹانگوں میں قوّت بحال ہوتی جارہی ہے اور میں چھڑی کی مدد سے کچھ فاصلہ طے کرنے لگا ہوں۔
آپریشن کے بعد جس طرح پوری قوم نے دُعاؤں اور نیک خواہشات سے نوازا اس کے لئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ہزاروں کارڈ، دعاؤں کے پیغامات، گلدستے میری صحتیابی میں بے حد مدد گار ثابت ہوئے۔ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی ، وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک، جناب میاں محمد نواز شریف، جناب میاں محمد شہباز شریف، سینیٹر جناب پرویز رشید، جناب فصیح اقبال نے گلدستے بھیجے اور نیک دعاؤں کا اظہار کیا۔ میں سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، جناب لیاقت بلوچ، چوہدری خورشید زمان، سینیٹر عبدالحسیب خان، پروفیسر ڈاکٹر مسعود حمید خان، برگیڈیر عجائب، چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید صاحب، وفاقی وزیر غوث بخش مہر اور سابق گورنر بلوچستان نصیر مینگل، سہیل احمد عزیزی بذات خود تشریف لائے اور خیریت دریافت کی۔ ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ہسپتال میں نرسنگ اسٹاف کی نزہت رحمن، اَقصٰی ظفر، جانشین، زرّین گل، زیتون، شمسہ، سمائلہ اور دوسرے ساتھیوں کی نہایت اعلیٰ نگہداشت کیلئے شکر گزار ہوں۔ یہ کے آر ایل کے پیارے ساتھی ہیں۔ اس بیماری، آپریشن اور بعد میں بیگم، بیٹیاں دینا اور عائشہ اور نواسیوں کی تیمارداری، محبت اور موجودگی نے اس تمام مرحلہ کو بخوبی برداشت کرنے کا حوصلہ دیدیا۔
دیکھئے میں اپنے قارئین کو صرف یہ بتلانا چاہ رہا ہوں کہ (Prolapsed Disc) یا اس کے نتیجہ میں سیاٹیکا (Sciatica) درد اگرچہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر ہمیں اس سے خوفزدہ یا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شروع میں ڈاکٹر اس کے لئے دوائیں، درد دور کرنے والے انجکشن (کارٹیزون یا اسٹیرائڈ)، فزیوتھراپی، ”گرم، ٹھنڈے شاکس“ وغیرہ علاج تجویز کرتے ہیں۔ حکمت میں اور ہومیوپیتھی میں اس مرض کے لئے دوائیں موجود ہیں۔ اگر تھوڑے عرصہ میں ان سے فائدہ ہو جائے تو انسان خوش قسمت ہے لیکن اگر یہ تکلیف جلد دور نہیں ہوتی اور انسان تقریباً معذور ہوجاتا ہے تو پھر سرجری کے ذریعہ اس تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بستر پر لیٹ کر وقت گزاری سے منع کیا جاتا ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ انسان چلنا پھرنا جاری رکھے مگر جب یہ ناممکن ہوجائے تو بلا خوف و خطر سرجری کا سوچے، مریض کو خود اس کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ ترقی یافتہ غیر ممالک میں بھی لوگ کمر کے آپریشن سے بہت ڈرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی اعلیٰ ماہر نیوروسرجن موجود ہیں اور میں ان کو ہر حال میں غیر ملکی سرجنوں پر ترجیح دونگا۔ وہ تجربہ کار ہیں، اہل ایمان ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ بیماری کی شدّت اور پھیلاؤپر آپریشن کا طریقہ کار منحصر ہوتا ہے۔ اگر درد صرف ایک ڈسک کے رگ پر گرنے سے ہے تو عموماً ایک چھوٹا آپریشن یعنی مائیکو ڈی کمپریشن یا چھوٹی اَوپن سرجری کی جاتی ہے اور متاثرہ ڈسک یا گُریئے کے متاثرہ حصّہ کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی عموماً 95 فیصد تک ہوتی ہے۔ اگر بیماری زیادہ شدید ہے تو پھر کمر کے نچلے حصّہ یعنی Lumber کا آپریشن ضروری ہوجاتا ہے اس کو Lumber Laminectomy یا Open Decompression کہا جاتا ہے ۔ اس آپریشن میں گُرئے کی ہڈی کے ٹکڑے اور رگ کو دبانے والی گدی جو مہروں یا گریوں کے درمیان ہوتی ہے ان کو کاٹ کر دور کردیا جاتا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں مریض کو آرام آجاتا ہے۔ میرے ساتھ اسی قسم کا آپریشن ہوا اور بفضل خدا اور اپنے ڈاکٹروں کی مہارت سے دوسرے دن ہی وہ ناقابل برداشت درد غائب ہوگیا اور میں آہستہ آہستہ چھڑی کے سہارے آرام سے چلنے پھرنے لگا ہوں۔ دیکھئے تکلیف اُٹھانے اور زندگی کو بوجھ بنانے کی ضرورت نہیں ہے اگر تکلیف ہے اور شدید ہے اور تمام دوائیں اور ورزش ناکام ہوچکی ہیں تو اللہ پر بھروسہ کرکے آپریشن کرالیجئے، اچھے تجربہ کار نیوروسرجن سے معائنہ کرائیں اور اگر وہ مشورہ دیں تو آپریشن کرالیں اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ضرور شفا دے گا اور تکلیف سے نجات دیدے گا۔اللہ تعالیٰ پر اور سرجن پر بھروسہ رکھیں۔