پزل اور پہیلیاں حل کرنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ کچھ پہیلیاں بظاہر تو آسان نظر آتی ہیں لیکن حل کرنے بیٹھو تو کوئی سرا ہاتھ نہیں آئے۔ تب کیا ایسا بھی کوئی شخص ہو گا جومسسل سات سال تک اس مشکل کو حل کرنے میں جتا رہ سکے؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں امریکی ریاضی دان کے بارے میں جس نے فرانسیسی ریاضی دان فرمے کے آخری مسئلے کو حل کرنے کے لیے سات سال صرف کر دئیے۔
فرمے سترھیوں صدی عیسوی کا مشہور ریاضی دان تھا۔ اس نے کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن وہ ریاضی کا شوقین تھا اور کتابوں کے حاشیوں پراپنے خیالات اور نقاط لکھتا رہتا تھا۔ ایسی ہی ایک کتاب کے حاشیے میں فرمے نے لکھا: کہ مساوات
پر کوئی تین ہندسے x, y اور z پورا نہیں اترتے جب n کی قیمت 2 سے بڑی ہو۔ لیکن اس بات کا کوئی ریاضیاتی ثبوت پیش کرنے کی بجائے اس نے لاطینی زبان میں لکھا:
"Cubum autem in duos cubos, aut quadrato-quadratum in duos quadrato-quadratos, et generaliter nullam in infinitum ultra quadratum potestatem in duos eiusdem nominis fas est dividere cuius rei demonstrationem mirabilem sane detexi. Hanc marginis exiguitas non caperet"
ترجمہ: "یہ ناممکن ہے کہ دو مکعب اعداد کا مجموعہ مکعب عدد ہو، دو مربع مربع اعداد کا مجموعہ مربع مربع ہو، یا عمومی طور پر ایک نمبر جس کی طاقت 2 سے زیادہ ہو وہ ویسی ہی طاقت والے دو نمبروں کا مجموعہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے اس کا ایک شاندار ثبوت دریافت کیا ہے لیکن اس حاشيے کی جگہہ اتنی چھوٹی ہے کہ یہاں میں اسے پیش نہیں کر سکتا۔"
اس بظاہر سادہ نظر آنے والی مساوات کا حل اگلے 350 برس تک دنیا کے عظیم ترین ریاضی دان بھی مکمل نہ کر سکے۔ آنے والی صدیوں میں اس مسئلے نے ریاضی کے مشکل ترین مسئلے کی حيثیت سے شہرت حاصل کر لی۔
فرمے کے آخری مسئلے کی سادگی اور اس کے الفاظ کہ میں نے اس کا حل تلاش کر لیا ہے، نے ریاضی دانوں کو مسلسل ایک مخمصے میں پھنسائے رکھا۔ مسئلہ بظاہر اتنا آسان ہے کہ سکول کا ایک بچہ بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ بہت سے ریاضی دانوں نے اسے حل کرنے کی طرف کچھ حد تک پیش قدمی توکی لیکن یہاں تک نہیں کہ یقین کے ساتھ کہا جا سکے کہ n کی کسی بھی قدر کے لیے فرمے کا بیان درست ہے۔
پھر اس کہانی میں اینڈریو وائلز کا کردار آتا ہے۔ وائلز بچپن میں ریاضی کی پہیلیاں حل کرنے میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے پہیلیوں کی ہی ایک کتاب میں فرمے کے مسئلے کے متعلق پڑھا۔ اس وقت یہ مسئلہ گزشتہ تین سو سال سے حل طلب تھا۔ "دیکھنے میں یہ مساوات اتنی آسان تھی جبکہ تاریخ کے عظیم ترین ریاضی دان بھی اسے حل کرنے میں ناکام رہے تھے" وائلز نے ایک انٹرویو میں بتایا۔ "میں اسے حل کر کے دکھاؤں گا۔"
اس کے بعد وائلز اس مسئلے کے حل میں کھو گیا۔ بعد میں اپنے سکول اور کالج کی زندگی میں بھی وہ اس مسئلے کے حل میں سرگرداں رہا۔ جیسے جیسے اس کی ریاضی میں استعداد برھتی رہی وہ نئے حاصل کئے گئے علم کواستعمال کرتا رہا لیکن کامیابی نہ ملی۔ اس کے بعد وائلز یونیورسٹی میں تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہو گیا۔ اب اسے احساس ہونے لگا کہ اس مسئلے کی تلاش میں سر کھپانا فضول ہو گا کیونکہ حل ہونے کے بعد بھی شاید یہ کسی ریاضی دان کے لیے خاص فائدہ مند نہ ہو۔ چنانچہ وہ بیضوی خطوط پر تحقیق کرنے لگا۔ اس پہیلی کے اس کی زندگی پرکم از کم اتنا اثر تو ڈالا کہ اس نے اپنے مستقبل کے لیے ریاضی ہی کا مضمون چنا تھا۔
اس کا بیضوی خطوط کا مطالعہ رائیگاں نہ گیا ۔1986ء میں ایک اور ریاضی دان کن ربٹ نے فرمے کے آخری مسئلے کا ربط تب تک ایک اور حل طلب مسئلے تانی-یاما-شیمورا مفروضہ کے ساتھ معلوم کیا۔ یہ مفروضہ اتفاق سے بیضوی یا محرابی خطوط کے ساتھ بھی تعلق رکھتا تھا۔ اب اگر وائلز تانی-یامہ-شیمورا مفروضہ ثابت کر لے تو فرمے کا آخری مسئلہ بھی اسے کے ساتھ ہی حل ہو جائے گا۔
یہ جاننے کے بعد وائلز کے دل میں بچپن کی اس پہیلی کو حل کرنے کی خواہش ایک مرتبہ پھر آب و تاب سے بیدار ہو گئی۔ اب اس نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر باد کہا اور تنہائی میں رازداری سے تانی-یاما- شیمورا مفروضے پر کام کرنے لگا۔ اس وقت تک فرمے کے مسئلے کو حل کرنے والے شخص کے لیے بھاری رقوم کے انعامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ "مجھے معلوم تھا کہ فرمے کے آخری مسئلے پر کام کرنے والے شخص میں لوگ بہت زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سارے تماشائیوں کی موجودگی میں آپ اپنی سوچ کو بہتر طریقے سے مرتکز نہیں کر پاتے"۔ صرف اس کی بیوی یہ جانتی تھی کہ وہ کس طرح کی مصروفیت میں گھرا ہوا ہے۔
وائلز سات سال تک اسی طرح اس مسئلے پر تنہا کام کرتا رہا۔ اس کا زیادہ تر وقت اسی سوچ بچار میں صرف ہوتا۔ درمیان میں اسے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی ملتی رہیں۔ وہ اس مسئل کا مکمل ثبوت 1993 میں پیش کر سکا جب اسنے بیضوی خطوط کو مفرد عدد تین کی بجائے مفرد عدد پانچ کے حساب سے جانچنا شروع کیا۔ اس دن وہ اپنے کام میں اسقدر مشغول رہا کہ دوپہر کا کھانا بھی نہ کھایا۔ شام کے وقت اس نے اپنی بیوی کو خوشخبری سنائی کے میں نے مسئلے کا ثبوت مکمل کر لیا ہے۔
وائلز نے اپنے ثبوت کو پیش کرنے کے لیے تین لیکچرز کا اہتمام کیا تاہم ان میں فرمے کے آخری مسئلے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ اس نے ساری توجہ بیضوی خطوط پر ہی رکھی۔ ان لیکچرز کے حاضرین میں بڑے بڑے ریاضی دان بھی موجود تھے۔ آخری لیکچر کے دوران کچھ سامعین سمجھ گئے کے وائلز انہیں کیا بتانا چاہ رہا ہے۔ وائلز نے تانی یاما-شیمورا مفروضہ ثابت کرنے کے بعد بلیک بورڈ پر فرمے کے آخری مسئلے کو بھی لکھ دیا، "میرا خیال ہے کہ اب مجھے یہیں ختم کر دینا چاہئے۔"
فرمے کا آخری مسئلہ حل کرتے ہی وائلز راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔ لیکن جلد ہی ریاضی دان نک کاٹز نے اس کے حل میں ایک غلطی تلاش کر لی۔ یہ وائلز کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس نے اس غلطی کو درست کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اب ہوتا یہ کہ وہ ایک جگہہ سے غلطی درست کرتا تو حل میں کہیں اور اس سے بڑی گڑ بڑ ہو جاتی۔ اب وہ پھر سے اپنے حل سے مایوس ہوتا جا رہا تھا۔ اس مسئلے پر اتنی محنت کے بعد اس طرح ضائع جانا بہت بڑا صدمہ تھا۔ آخر تنگ آ کر وہ اس مسئلے کو پس پشت ڈالنے ہی والا تھا کہ اس نے پھر سے اپنے وہ پرانے حل دیکھنے شروع کر دئیے جو اس کی پہلی پہلی کوششیں تھیں اور بعد میں بہتر طریقے سمجھ آنے پر وہ انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ آخر اسی طرح کے اپنے پہلے مسترد کردہ حل سے ہی اسے اس غلطی کو صحیح کرنے میں مدد ملی، "یہ اتنا سادہ اور آسان حل تھا۔ صرف بیس منٹ پہلے میں نے کسی بڑی امید کے بغیر اسے دیکھنا شروع کیا تھا۔" اس طرح وائلز کا فرمے کا آخری مسئلہ حل کرنے کا بچپن کا خواب آخر کار 1994 میں پورا ہو گیا۔ یہ حل 200 ضخیم صفحات پر مشتمل ہے اور اسے سمجھنا بچوں کا کھیل نہیں۔
ابھی بھی یہ پہیلی مکمل طور پر حل نہیں ہوئی کیونکہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا فرمے کے پاس اس مسئے کا واقعی میں کوئی حل تھا یا نہیں؟ فرمے وائلز کے طریقے سے اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وائلز نے اپنے مقالے میں بہت سے ایسے قوانین اور مسائل کا بھی استعمال کیا ہے جو فرمے کے وقت تک ایجاد یا دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ "میرے حل کی بہت سی تکنیکیں فرمے کے بہت بعد کی دریافت ہیں۔" ممکن ہے کہ جس طرح بہت سے ریاضی دان سوچتے رہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں ، ہو سکتا ہے کہ فرمے کو بھی یہیں غلط فہمی رہی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وائلز سے سادہ حل بھی موجود ہو۔ تاہم وائلز اپنے مشکل حل سے بھی مطمئن ہے "میں اسے اپنی بہت بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ بچپن کے ایک خواب کو بڑے ہو کر عملی جامہ پہنا سکا"
فٹ نوٹ
*: n کی قیمت 2 کے لیے یہ مساوات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور بہت سے اعداد اس پر پورا اترتے ہیں جیسے 3،4 اور 5. ان تین اعداد میں پہلے دو کے مربعوں کا مجموعہ 16+19=25 ہے جو کہ تیسرے عدد یعنی 5 کے مربع کے برابر ہے۔ اسی طرح 5، 12 اور 13 بھی اس میعار پر پورا اترتے ہیں۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ اس مساوات کو مسئلہ فیثاغورث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اگر اس مساوات میں 2 کو تین یا کسی اور بڑے عدد سے تبدیل کر دیا جائے تو پھر ایسے تین اعداد نہیں مل پاتے۔ مثال کے طور پر
حل کرنے کی کوشش کر کے دیکھیۓ۔ ممکن ہے آپ وائلز سے سادہ اور زیادہ آسان حل دریافت کر سکیں۔
حوالہ جات
The Longest-Standing Math Problem