ہماری بنیادی غلطیاں....ذرا سوچیے
ہماری بنیادی غلطیاں....ذرا سوچیے
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
گزشتہ روز لاہور سے کراچی جانے والے پی آئی اے کے طیارے کو لینڈنگ سے چند لمحے قبل پیش آنے والے حادثے نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ اس حادثے کے نتیجے میں سو سے زیادہ قیمتی جانیں لقمہ اجل کا شکار ہو گئیں۔ طیارہ آبادی کے اوپر گرنےکی وجہ سے بہت سے گھر بھی تباہ ہوئے اور ان گھروں میں رہنے والے بہت سے لوگ بھی ہلاک و زخمی ہوئے۔ اس حادثے کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لئے کئی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔ میرا موضوع اس وقت ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ تحقیقاتی ٹیمیں کس کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ میرا موضوع یہ بھی ہرگز نہیں کہ پہلے ہونے والے طیارہ حادثات کے نتیجے میں بننے والی تحقیقاتی ٹیموں نے کیا رپورٹس پیش کیں اور ان رپورٹوں کے نتیجے میں کس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، ان کو کیا سزا ملی یا ان رپورٹوں کے نتیجے میں مستقبل میں اس طرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کئے گئے۔
اس وقت میرا موضوع یہ ہے کہ کہیں ہم کوئی ایسی بنیادی غلطی تو نہیں کر رہے جو اللہُ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن گئی ہو اوراس کے نتیجے میں ہم من حیث القوم مسلسل حادثات اور قدرتی آفات کا شکار ہیں۔ قدرتی آفات یقیننا خدا کی طرف سے آتی ہیں جن میں انسان کا کوئی زور نہیں چلتا، اسی طرح حادثات کے بارے بھی کہا جا سکتا ہے کہ حادثہ تو حادثہ ہے ہم اس میں کیا کر سکتےہیں؟ لیکن اگر ہم ذرا سا سوچیں اپنے دماغ پر زور دیں تو شائد ہم معلوم کر سکیں کہ ہم کہاں کہاں غلط ہیں جو ہم کسی طور بھی ان حادثات، قدرتی آفات اور پریشانیوں سے نکل ہی نہیں پاتے اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری پریشانی اور امتحان ہمارا منتظر کیوں رہتا ہے۰ کبھی زلزلے, کبھی سیلاب، کبھی دہشت گردی، کبھی کرونا اور کبھی ڈینگی۰ جس وقت فصل کو بارش کی ضرورت اس وقت دھوپ، جب فصل کاٹنے کا وقت تو بارش، فصل تیار ہوتی ہے تو ٹڈی دل فصل تباہ کرنے کو آ موجود ہوتی ہے، کرکٹ کی شوقین قوم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میچ دیکھنے لگتی ہے تو ہماری ٹیم جیتا ہوا میچ اچانک ہار جاتی ہے۔ اگر ہم ان تمام حالات و واقعات اور حادثات و آفات پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ ہم یقیننا کسی جگہ کسی بات پر بہت بڑی بنیادی غلطی کا شکار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے اور پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
اگر ہم سچے دل سے اپنا جائزہ لیں تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم اپنی بنیادی غلطیوں کا ادراک نہ کر سکیں۔ سب سے پہلے تو انصاف ہی کو لے لیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی پر نہیں۔ کیا ہم اپنےمعاشرے کو انصاف پر مبنی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟ کسی تفصیل میں جائے بغیر اس کا جواب نفی میں آئے گا۔ کیونکہ اگر تفصیل میں جایاجائے تو اس کے لئے صفحات کے صفحات درکار ہونگے لیکن ناانصافیوں کی داستان ختم نہ ہوگی۰
مذہب کو لیں تو مذہب کے نام پر بننے والی ریاست میں سب سے زیادہ خون مذہب کے نام پر ہی بہایا گیا ہے۔ فرقہ واریت اس قدر زیادہ ہے کہ ہر کلمہ گو اپنے علاؤہ دوسرے کو کافر سمجھتا ہے۔ ذرا سوچیں جہاں کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دیا جائے وہاں کتنی کو برکت نازل ہو سکتی ہے۔ یہاں بھی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ارض پاک میں ایسا ہی ہو رہاہے۔ ستانوے فیصد مسلمان آبادی والا ملک پورن سرچ میں سب سے آگے ہے۔ مذہبی جنونیوں سے مدرسوں میں طالبعلم اورچھوٹے چھوٹے بچے بچیاں تک مخفوظ نہیں۔ کہنے کو سب حرمت رسول پر کٹ مرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ قول و عمل میں اتنا بڑا تضاد کیوں؟
اقلیتوں کو دیکھیں تو تمام تر دعووں کے باوجود اور جھنڈے میں اپنا سفید رنگ رکھنے کے باوجود اقلیتیں دوسرے درجے کا شہری بن کررہنے پر مجبور ہیں۔ نہ ان کی عبادت گاہیں مخفوظ ہیں اور نہ جان و مال۔ جب کسی کا دل چاہتا ہے کسی بھی ذاتی رنجش کی بنا پرعوام کو بھڑکا کر اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ پوری کی پوری بستی جلا دی جاتی ہے، لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے لیکن کبھی اس کے زمہ دار لوگوں کو سزا نہیں ملتی۔ ہم انڈیا میں اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تو بہت آواز اٹھاتے ہیں لیکن اپنے ملک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر ہمارے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ یکطرفہ طوراقلیتوں کے خلاف خود ہی الزام گھڑے جاتے ہیں، خود ہی سزا دے دی جاتی ہے۔ کیا ہم نے کبھی دوسری طرف کا موقف لینےکی بھی کوشش کی ہے؟ ہم خود ہی مدعی خود ہی منصف بن کر اقلیتوں کو سزا دے دیتے ہیں۔ آگے آپ خود سوچیں اور غور کریں۔ اگر کر سکیں تو۔
سیاست اور حکومت کا جائزہ لیں تو ووٹ کا تقدس پامال کیا جانا ہمارے لئے کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ صاف شفاف الیکشن ایک خواب بن چکے ہیں۔ دھونس دھاندلی کی بنیاد پر ناجائز حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔ جب حکومت ہی ناجائز طور پر وجود میں آئےگی تو ملک و قوم سے برکت تو خود بخود اٹھ جائے گی۔
جھوٹ، چوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت اور اقربا پروری جیسے انفرادی جرائم کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیں تو اوپر بیان کی گئی چند بنیادی غلطیاں اللہُ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دینے کے لئے کافی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو قومیں اپنی غلطیوں کو درست نہیں کرتیں اور اپنی غلطیوں پر قائم رہتی ہیں وہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں پھر ان کا نام بھی باقی نہیں رہتا داستانوں میں۔
Twitter: @GorayaAftab
Date: 23-05-2020