پاکستان کی عسکری و سفارتی برتری
پاکستان کی عسکری و سفارتی برتری
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
بھارت کے جنگی جنون اور طاقت کے نشے نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مقام پہلگام میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کی جانب سے بغیر کسی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے اس کا الزام پاکستان پر لگانے سے شروع ہونے والی کشیدگی نے بالآخر دونوں ملکوں کو جنگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ واقعہ کے فورا بعد بھارت کے الزام کے جواب میں پاکستان نے بار بار غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن بھارت نہ تو غیرجانبدارانہ تحقیقات پر آمادہ ہوا نہ اس کی اشتعال انگیزی میں کوئی کمی آئی۔ بھارت نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے آپریشن سیندور کے نام سے پاکستان کے شہری علاقوں پر میزائل اور ڈرون حملے شروع کئے جس کے جواب میں پاکستان نے جس مہارت، سنجیدگی اور موثر حکمتِ عملی کے ساتھ جواب دیا، اس نے نہ صرف بھارت کی خودساختہ دفاعی برتری کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی بلکہ بھارت کو دفاعی میدان میں دس سال پیچھے لا کھڑا کیا۔ پاکستان کی موثر دفاعی قوت نے نہ صرف بھارت اور باقی دنیا کو حیران کر دیا بلکہ پاکستان کی دفاعی قوت کے کامیاب مظاہرے نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو ایک نئی شکل بھی دے دی۔
پاکستان کی جانب سے دفاعی ردِعمل نہ صرف بروقت اور مؤثر تھا بلکہ اس ردعمل میں پاکستان کی عسکری صلاحیت اور قابلیت کی جھلک بھی نظر آئی۔ پاکستانی فضائیہ نے بھارتی دراندازی کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ کئی بھارتی ڈرونز اور جنگی طیاروں کو نشانہ بنا کر دشمن کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کے جدید ترین فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں اور ان کے ائر ڈیفنس سسٹم کی تباہی نے بھارت کا جنگی جنون ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے JF-17 تھنڈر طیاروں، جدید میزائل سسٹمز، مضبوط انٹیلیجنس نیٹ ورک اور سب سے بڑھ کر افواج پاکستان اور پاک فضائیہ کی مہارت نے پاکستان کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کا ردعمل اتنا موثر اور تیزرفتار تھا کہ جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی اس جنگ نے نہ صرف خطے کو بلکہ ساری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا جس کے بعد امریکہ سمیت بہت سے دوست ممالک نے درپردہ ڈپلومیسی شروع کی اور پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں جنگ بندی ممکن ہو سکی۔ پاکستان کی جانب سے ذمہ دارانہ رویے، پہلگام واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے اور جنگ سے گریز کے رویے نے عالمی برادری کو یہ احساس دلایا کہ پاکستان امن کا خواہاں ملک ہے جبکہ بھارت علاقائی بالادستی کا خواہشمند اور غیر لچکدار ریاست ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کے متوازن مؤقف کو سراہا گیا ہے جس سے پاکستان کی سفارتی ساکھ میں نمایاں اضافہ ہوا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تنازعے کے دوران پاکستان کے مؤقف کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی وسیع کوریج ملی۔ معتبر اداروں جیسے BBC، Al Jazeera، CNN اور The Guardian نے نہ صرف پاکستان کے موثر دفاعی ردعمل، تکنیکی مہارت اور جنگی صلاحیت کو اجاگر کیا بلکہ اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ پاکستان نے خطے میں امن کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین اور عسکری تجزیہ کاروں نے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اور صلاحیت کو بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیشہ ورانہ اور مؤثر قرار دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس سارے تنازعے کے دوران نہ صرف پاکستان کا موقف نہایت دلیرانہ اور دانشمند سفارتی انداز میں بیرونی دنیا کے سامنے رکھا بلکہ بھارت کے جنگی جنون اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو بھی عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بین الاقوامی میڈیا کو متعدد انٹرویوز دیے، جن میں انہوں نے پاکستان کا مؤقف نہایت پُراعتماد مدلل انداز میں اور سفارتی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بلاول بھٹو نے CNN، DW، اور TRT World جیسے پلیٹ فارمز پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی الزام تراشیوں کو چیلنج کیا اور عالمی برادری کو یاد دلایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والا ملک رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی گفتگو نے پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر بے پناہ تقویت دی اور دنیا کے سامنے یہ بات واضح کی کہ پاکستان خطے میں تصادم نہیں بلکہ امن و استحکام چاہتا ہے۔
جنگ کا ایک بڑا نقصان معییشت کی تباہی ہوا کرتا ہے۔ بھارت کے جنگی جنون کے باعث بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کے لئے کئی اقتصادی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بھارت کو اس کا سب سے بڑا نقصان غیر ملکی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی سے ہو سکتا ہے جنہوں نے پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کے باعث بھارتی مارکیٹ سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ اتنی بڑی عسکری ناکامیوں کے بعد بھارت کو اپنے دفاعی بجٹ میں اور زیادہ اضافہ کرنا پڑے گا جس سے اس کے فلاحی و ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے۔ دوسری طرف پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اس کے لئے یہ جنگ ایک غیر متوقع سفارتی اور عسکری برتری کا باعث بنی ہے۔ دنیا نے پہلی بار پاکستان کی دفاعی مصنوعات، خصوصاً JF-17 طیاروں اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجیز میں سنجیدہ دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ جنگ کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو ایک نئی جہت ملے گی اور سی پیک جیسے اہم منصوبوں کو دوبارہ اہمیت حاصل ہو گی۔ عالمی مالیاتی اداروں اور چینی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان کے مؤقف کو سراہتے ہوئے مثبت اشارے دیے ہیں جو پاکستان کی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔
داخلی طور پر بھی اس جنگ نے پاکستانی قوم کو متحد کیا اور جنگ شروع ہوتے ہی ساری قوم نے اپنے ہر قسم کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیا اور حکومت، فوج اور عوام ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے جس سے پیدا ہونے والی قومی یکجہتی نے سیاسی استحکام کو فروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنا واضح مؤقف دنیا کے سامنے پیش کیا، جو FATF اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے تناظر میں سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود پاکستان کو مستقبل قریب میں بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں بھارت کی جوابی حکمتِ عملی، اسلحہ کی دوڑ، اور عالمی طاقتوں کا پاکستان پر سفارتی دباؤ شامل ہے۔ مزید برآں بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کے باعث پاکستان کی داخلی معیشت متاثر ہو سکتی ہے جسے مستحکم رکھنے کے لیے فوری اور مؤثر معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس حالیہ جنگ نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو نئے رخ دیے ہیں۔ بھارت کا “خطے کا چوہدری” بننے کا خواب، فی الوقت، شدید دھچکے سے دوچار ہوا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان ایک دفاعی، سفارتی اور سیاسی کامیابی کے ساتھ ابھرا ہے۔ اگر یہ کامیابی تدبر، اصلاحات اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائی گئی تو پاکستان خطے میں ایک پائیدار اور ذمہ دار قوت کے طور پر اپنی جگہ مستحکم کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان داخلی سطح پر معاشی استحکام، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور انسانی ترقی کو ترجیح دے تاکہ وہ صرف عسکری میدان ہی نہیں بلکہ اقتصادی و سماجی میدان میں بھی ایک مضبوط اور پائیدار ریاست کے طور پر ابھرے۔ علاقائی طاقت بننے کے لیے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن، ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، اور عالمی طاقتوں کے ساتھ باوقار سفارتی روابط قائم رکھنے ہوں گے۔
اگر پاکستان نے موجودہ کامیابی کو دانشمندی کے ساتھ قومی ترقی کے ایجنڈے سے جوڑ دیا، تو یہ مرحلہ تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا — ایک ایسا دور جہاں پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی برادری میں بھی ایک ذمہ دار، مضبوط اور مؤثر ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔
Dated: 17-05-2025