پانچ جولائی - تاریخ کا ایک دائمی زخم
پانچ جولائی - تاریخ کا ایک دائمی زخم
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پانچ جولائی 1977 کو ایک طالع آزما بدترین آمر نے پاکستان کی پہلی حقیقی عوامی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر جمہوریت پر جو شب خون مارا، وہ نہ صرف ایک جمہوری حکومت کی برطرفی تھی بلکہ پاکستان کے سیاسی، سماجی اور فکری مستقبل پر ایک اندھیری چادر ڈالنے کے مترادف تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پہلی بار ایک مضبوط پارلیمانی نظام کی طرف بڑھ رہا تھا، جب عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے فیصلے کرنے کا شعور حاصل کر چکے تھے، ضیاء آمریت نے اس روشن سفر کو بے دردی سے کاٹ ڈالا۔ اس شب خون کے نتیجے میں اگلے گیارہ برسوں تک ملک بدترین آمریت کی سیاہ رات میں ڈوبا رہا۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دینا، سیاسی کارکنوں کے لیے قید و بند اور کوڑے، انسانی حقوق کی کھلی پامالی، ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں اور سنسرشپ، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیات کو سیاسی جھوٹ کے پردے کے طور پر استعمال کرنا، سب کچھ اس دور کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل ضیا کوئی معمولی آمر نہیں تھا بلکہ چالاک، موقع پرست اور مذہب کے نام پر اقتدار کو طول دینے والا بدترین اور مکار آمر تھا جس کے اقدامات نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان گیارہ برسوں میں اٹھائے گئے غیر فطری، خود غرضانہ اور خطرناک اقدامات کے اثرات آج بھی پاکستان کی رگوں میں زہر کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ ایک پوری نسل اس عرصے میں پیدا ہو کر جوان ہوئی اور اب بڑھاپے کی دہلیز پر ہے، لیکن ضیاء آمریت کی باقیات سے قوم آج تک نہیں نکل سکی۔
ضیا آمریت کا ایک بڑا تحفہ پاکستان میں آنے والی دہشت گردی ہے جس کا آغاز افغان جنگ سے ہوا جس میں ہمارا کردار کرائے کے ٹٹو کا تھا۔ روسی فوجوں کو افغانستان سےنکالنے اور روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے نام پر جنرل ضیا نے امریکی ایما پر افغان مجاہدین کی حمایت کا جو کھیل شروع کیا اس کے ساتھ ہی افغان مہاجرین کی پاکستان آمد شروع ہو گئی اور امریکہ سے ڈالر کی برسات ہونے لگی۔ بڑی بڑی جیبیں بھرنے لگیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہاجرین کے ساتھ ساتھ ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر بھی پاکستان میں پہنچ گیا۔ آج چالیس سال سے اوپر کا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ ہو سکا اور نہ ہی افغان مہاجرین کو ملک سے نکالا جاسکا بلکہ اب تو بہت سے افغانی پاکستانی شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ افغان جنگ میں حصہ داری کے نتیجے میں شروع ہونے والی دہشت گردی آج بھی مختلف مراحل سے گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہوسکی۔ اس دہشت گردی کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ یہ جنگ صرف بندوقوں یا میزائلوں کی نہیں تھی، بلکہ اس نے نظریاتی محاذ پر بھی قوم کو تقسیم کر دیا۔ مدرسے جہادی بھرتیوں کے مراکز بنے، طالبعلم سپاہی بنائے گئے، اور ریاست نے انہیں “شہادت” کے نام پر استعمال کیا۔ تعلیم، تہذیب اور سچ کی جگہ نعرے، ہتھیار اور تعصب نے لے لی۔ اس کی قیمت ہم نے اسکولوں پر حملوں، عبادت گاہوں میں خونریزی، اور گلی گلی پھیلے دہشت گردی کے خوف کی صورت میں چکائی، جو آج بھی ختم نہیں ہوا۔
ضیا آمریت کا ایک اور ناقابل معافی جرم قوم کو مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا بھی ہے۔ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کےلئے جنرل ضیا نے فرقہ پرست اور لسانی جماعتوں کی کھل کر حمایت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی طور پر حساس قوم میں فرقہ واریت کا جو بیج جنرل ضیا نے بویا تھا آج وہ تنا آور درخت بن چکا ہے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت کی خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ جس کوپاٹنا بظاہر ناممکن ہوچکا ہے۔ یہی حال لسانی جماعتوں کا ہے جن کی آبیاری بھی ضیا دور میں ہی کئی گئی اب یہ لسانی اور علاقائی جماعتیں بھی اتنی مضبوط اور طاقتور ہو چکی ہیں کہ قومی یکجہتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ اس فرقہ واریت نے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو تباہ کیا بلکہ پاکستان کے داخلی امن اور عالمی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ مذہب، جو کبھی اتحاد کا ذریعہ تھا، ضیا کی پالیسیوں کی بدولت نفرت، قتل، اور تقسیم کا ذریعہ بن گیا۔ آج پاکستان دنیا بھر میں فرقہ وارانہ شدت پسندی سے جڑے مسائل کے لیے پہچانا جاتا ہے اور اس بدنما پہچان کی بنیاد اسی دور میں رکھی گئی۔
ضیا آمریت کے دوران آئین میں کی جانے والی مذہبی اور سیاسی ترامیم نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے دورحکومت میں کی جانے والی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آمرانہ دور کی بہت سی سیاسی ترامیم کو تو درست کیا چکا ہے لیکن مذہبی قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے قانون سازی کا اگر سوچا بھی جائے تو کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔
ضیا آمریت کا ایک اور بدترین کارنامہ غیر سیاسی سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی سرپرستی بھی ہے جس کے نتیجے میں ایسا غیر سیاسی کلچر پروان چڑھ چکا ہے جس میں مخالف سیاسی سوچ یا نظریات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت سمجھ لیا جاتا ہے۔ سیاسی ڈائیلاگ یا فکری مباحثے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ اس غیر سیاسی سوچ کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جن کی نہ کوئی سیاسی تربیت ہوتی ہے اور نہ جدوجہد اور نہ ہی ان کو ملک و قوم کو درپیش مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ سیاسی جدوجہد کے نام پر ان کا واحد کریڈٹ پس پردہ موجود غیر جمہوری قوتوں کی کاسہ لیسی ہوتا ہے۔ دلیل کا جواب بدتمیزی یا گالی سے دیا جانا بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ جو جتنی بڑی گالی دیتا ہے اس کو اتنے ہی بڑےعہدے سے نوازا جاتا ہے۔
آمر ضیا کی پالیسیوں یا ضیالحقیوں کے اثرات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر قوم کو مستقبل میں استحکام، ترقی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو سب سے پہلے ضیا کی باقیات اور اس سوچ کو مسترد کرنا ہوگا جو آج بھی غیر جمہوری دروازے کھولنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔ ضیا کی آمریت کا دور بظاہر گیارہ برسوں پر محیط تھا لیکن اس کی باقیات آج بھی زندہ ہیں، مختلف چہروں اور اداروں میں چھپی ہوئی۔ آج بھی انتخابات کو عوام کی رائے کا عکس بننے نہیں دیا جاتا، آج بھی پس پردہ قوتیں جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارنے کے لیے سرگرم ہیں، آج بھی آزادیِ اظہار کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے قوم کو بار بار پیچھے دھکیلا، اور عوام کو اپنے منتخب نمائندوں سے بدظن کیا۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تمام جمہوری قوتیں، چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں، میڈیا، عدلیہ یا سول سوسائٹی، اپنے تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک مشترکہ ایجنڈے پر اکٹھی ہوں کہ اب کسی بھی شکل میں، کسی بھی لبادے میں، کسی بھی طالع آزما کو دوبارہ پاکستان کی سیاست، جمہوریت یا آئین سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو کوئی بعید نہیں کہ تاریخ پھر خود کو دہرائے اور قوم کو ایک اور پانچ جولائی کا سامنا کرنا پڑے مگر اس بار شاید واپسی کی راہ بھی نہ بچے۔
Dated: 05-07-2025