سمبڑیال ضمنی الیکشن اور پیپلزپارٹی
سمبڑیال ضمنی الیکشن اور پیپلزپارٹی
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
سمبڑیال کا ضمنی انتخاب مکمل ہو چکا ہے اور حسبِ روایت حکومتی جماعت مسلم لیگ نون نے میدان مار لیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی کلچر میں ضمنی انتخابات اکثر اوقات حکمران جماعت کے حق میں جاتے ہیں، سوائے اس صورت کے جب حکومت بے حد غیر مقبول ہو جائے جیسا کہ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ہوا جب پی ٹی آئی لگاتار ضمنی انتخابات میں شکست کھاتی رہی۔ اس تناظر میں نون لیگ کی جیت کوئی انہونی بات نہیں، تاہم اس انتخابی معرکے میں کچھ ایسے پہلو ضرور ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کی کارکردگی کیونکہ پیپلزپارٹی کی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پنجاب کے انتخابی میدان میں ایک بار پھر اپنی جگہ بنا سکے۔
سمبڑیال کے ضمنی انتخاب پر بھی بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے، جو اب پاکستان کے انتخابی عمل کا ایک مستقل جزو بن چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، نتیجہ وہی آیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم اس انتخاب کی خاص بات پیپلزپارٹی کی غیر معمولی محنت اور انتخابی سرگرمیاں رہیں، جنہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد وسطی پنجاب میں کسی حلقے میں سنجیدہ سیاسی کوشش کا مظاہرہ کیا۔ پیپلزپارٹی نے اس حلقے میں اپنا ووٹ بینک 1,800 سے بڑھا کر 7,000 تک پہنچایا، یہ خود میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ کارکردگی تنظیمی سطح پر کی گئی محنت کا نتیجہ ہے۔
پیپلزپارٹی کی وسطی پنجاب کی قیادت راجہ پرویز اشرف، سید حسن مرتضیٰ، شہزاد سعید چیمہ، آصف بشیر بھاگٹ سمیت دیگر سینئر رہنما حلقے میں مسلسل موجود رہے، انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلائی گئی، فنڈز کی کمی نہ آنے دی گئی، پورے حلقے میں پیپلزپارٹی کے جھنڈوں اور فلیکسسز کی بھرمار رہی، ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم پر بھی بھرپور فوکس کیا گیا، سینئیر رہنماؤں کی حلقے کی تمام یونین کونسلز میں ڈیوٹیاں لگائی گئیں، پولنگ سٹیشنز پر پولنگ ایجنٹس مقرر کئے گئے۔ سوشل میڈیا کے دوستوں بشارت بشی اور عثمان اعوان کی کوششوں سے سوشل میڈیا پر بھی پیپلزپارٹی کی مؤثر مہم نظر آئی، تنظیم کا یہی کام ہوتا ہے اور یہ کام کیا گیا جس کی وجہ سے حلقے میں پارٹی کا وجود واضح طور پر محسوس کیا گیا۔
مؤثر انتخابی مہم اور سوشل میڈیا کمپئین کے باعث سیاسی فضا میں پیپلزپارٹی کی موجودگی اتنی بھرپور رہی کہ بعض حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ پیپلزپارٹی یہ ضمنی الیکشن جیت سکتی ہے۔ اس پر پارٹی کے اندر موجود لوگوں کی جانب سے طنز بھی کیا گیا، لیکن یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ انتخابی مہم ہمیشہ فتح کے بیانیے پر ہی چلتی ہے۔ دو سو ووٹ لینے والا امیدوار بھی یہی کہتا ہے کہ وہ جیتنے والا امیدوار ہے۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے سمبڑیال میں انتخابی سیاست کو سنجیدگی سے لیا، محنت کی، اور حلقے میں اپنی ایک واضح موجودگی درج کروائی۔
لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف تنظیمی محنت سے الیکشن جیتا جا سکتا ہے، یا پھر اس کے ساتھ ایک واضح، متحرک اور ووٹر کے لیے قابلِ قبول بیانیہ بھی ہونا ضروری ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ ووٹ صرف تنظیم کا نہیں ہوتا، بلکہ پارٹی اور اس کے بیانیے کا ہوتا ہے۔ تنظیم صرف ووٹر تک پیغام پہنچا سکتی ہے، لیکن اگر وہ پیغام ہی غیر واضح یا مبہم ہو تو ووٹر کو قائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پیپلزپارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر پیپلزپارٹی واقعی پنجاب میں اپنی انتخابی سیاست کی بحالی چاہتی ہے تو محض تنظیمی محنت کافی نہیں ہو گی بلکہ اسے اپنی سیاسی شناخت کو ازسرِنو واضح کرنا ہوگا، خاص طور پر ان نئے اور نوجوان ووٹرز کے لیے جو دہائیوں پر محیط منفی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ پنجاب میں ایک طویل عرصے سے پیپلزپارٹی کے خلاف جو بیانیہ پھیلایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی صرف اندرونِ سندھ تک محدود ہے اور پنجاب سے نہیں جیت سکتی اسے توڑنے کے لیے پارٹی کو زمینی سطح پر مسلسل اور مدلل بیانیہ دینا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے پارٹی کو خاص طور پر نوجوان ووٹرز کے ساتھ انگیج کرنا ہو گا، جو آج کے سیاسی منظرنامے میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ متحرک طبقہ ہیں۔ سوشل میڈیا، کمیونٹی انگیجمنٹ، تعلیمی اداروں اور مقامی سطح کے فورمز کے ذریعے نوجوان طبقے سے رابطہ مضبوط کیے بغیر پیپلزپارٹی کی پنجاب میں واپسی محض ایک خواب ہی رہے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کو یہ تاثر بھی زائل کرنا ہو گا کہ وہ مرکز میں حکومت کا حصہ ہے یا اقتدار کی سہولت کار ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی نہ تو وفاقی کابینہ کا حصہ ہے اور نہ کسی کلیدی حکومتی فیصلے میں شریک ہے، اور نہ ہی پنجاب میں کسی بھی سطح پر اقتدار یا حکومتی انتظام میں شریک ہے۔ پیپلزپارٹی نے مرکز میں صرف اس حد تک حکومت کی حمایت کی ہے کہ نظام مکمل طور پر مفلوج نہ ہو اور جمہوری تسلسل برقرار رہے، وگرنہ عملاً وہ حکومت سے الگ حیثیت میں ہی ہے۔
عوام کو یہ بات سمجھانا ازحد ضروری ہے کہ جمہوری سسٹم کو سہارا دینا اور حکومت کا حصہ ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ جب تک یہ فرق عوامی شعور میں واضح نہیں ہو گا، تب تک پیپلزپارٹی کو مرکز یا پنجاب میں ہونے والی حکومتی کامیابیوں کا تو کریڈٹ ملے گا نہیں البتہ حکومتی ناکامیوں کا غیرمنصفانہ بوجھ ضرور اٹھانا پڑے گا۔ حالانکہ وہ ان پالیسیوں کی ذمہ دار نہیں جن پر اس کا اختیار ہی نہیں۔ لہٰذا، پیپلزپارٹی کے لیے اب یہ محض تنظیمی فعالیت یا انتخابی مہمات کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ ایک نئے سیاسی بیانیے، واضح مؤقف اور عوام سے براہِ راست رابطے کی سیاست کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لائحہ عمل ہے جو نہ صرف ووٹر کو قائل کرے گا، بلکہ پارٹی کو ایک بار پھر پنجاب کی سیاست میں مربوط اور مؤثر قوت کے طور پر ابھرنے کا موقع دے گا۔
سمبڑیال کا ضمنی انتخاب بظاہر کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لایا، لیکن پیپلزپارٹی کے لیے یہ ایک نشانِ راہ ضرور ہے، ایک ایسی علامت جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر نیت اور حکمتِ عملی درست ہو، تو سیاسی خلا کو پُر کیا جا سکتا ہے۔ سات ہزار ووٹ محض ایک عدد نہیں، بلکہ وہ پیغام ہے جو پنجاب کے عوام نے پیپلزپارٹی کی مسلسل موجودگی، تنظیمی محنت اور انتخابی سنجیدگی کو تسلیم کرتے ہوئے دیا ہے۔ یہ سفر اگر جاری رہا، تو آج کا سات ہزار ووٹ کل کا ستر ہزار ووٹ بھی بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے محض تنظیموں کی محنت کافی نہیں ہو گی بلکہ مرکزی قیادت کو پنجاب کے لیے سیاسی سنجیدگی، تسلسل اور وجود کی شدت کے ساتھ میدان میں اترنا ہو گا۔ روایتی مصلحتوں، مبہم بیانیے اور محدود شرکت سے آگے بڑھ کر، پارٹی کو خود کو ایک واضح نظریاتی متبادل کے طور پر پیش کرنا ہو گا۔
سمبڑیال میں پیپلزپارٹی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر پارٹی سنجیدگی دکھائے، تو پنجاب میں اس کے لیے جگہ موجود ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ اس خلا کو پہچانے، بھرنے کی کوشش کرے، اور یہ فیصلہ کرے کہ وہ محض سسٹم بچانے والی جماعت بنے گی یا پنجاب میں تبدیلی کی حقیقی علامت کے طور پر ابھرے گی۔ اصل امتحان اب بھی باقی ہے، لیکن سمبڑیال کی سات ہزار آوازیں اس بات کی گواہ ہیں کہ پنجاب کا دروازہ بند نہیں، بس زور سے کھٹکھٹانے کی دیر ہے۔
Dated: 02-06-2025