پیپلزپارٹی اور فِکری محاذ
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پیپلزپارٹی تیس نومبر 1967 کو اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا منشور لے کر سیاست کے میدان کارزار میں اتری اور دو تین سال میں ہی سیاست کو محلات اور ڈرائنگ روموں سے نکال کر غریبوں کے دروازوں پر لا کر کھڑا کیا۔ پیپلزپارٹی کا یہی منشور ہے جس کی طاقت نے پاکستان کی سیاست جسے اشرافیہ کا کھیل سمجھا جاتا تھا اس سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے نکال کر غریب کی جھونپڑیوں، سڑکوں اور چوراہوں کی زینت بنا دیا۔ پیپلزپارٹی کا سرخ، سیاہ اور سبز تین رنگوں پر مشتمل پرچم پیپلزپارٹی کے اسی منشور اور نظریے کی نمائیندگی کرتا ہے جس پر آج سے پانچ دہائیاں قبل پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ پیپلزپارٹی کے پرچم میں موجود سرخ رنگ انقلاب، سوشلزم اور بائیں بازو کی نمائیندگی کرتا ہے جبکہ سبز رنگ جہاں امن اور خوشحالی کی علامت ہے وہاں سرخ اور سبز رنگ کے درمیان موجود سیاہ رنگ ملک میں موجود غربت، ناانصافی، بھوک و افلاس، بیروزگاری اور جہالت کی علامت ہے جس کے بارے میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس روز ہمارا ملک اس تاریکی سے نکل آیا اس روز سیاہ رنگ پیپلزپارٹی کے پرچم کا حصہ نہیں رہے گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی انسانی حقوق، شخصی آزادی اور پسے ہوئے طبقات کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی مساوات پر یقین رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو آج بھی معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں اور طبقے کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ قومی سطح پر پیپلزپارٹی ملک کی واحد روشن خیال پروگریسو جماعت ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے لئے رنگ، نسل، مذہب اور طبقاتی فرق کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ قومی سطح پر پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو نظریاتی اور فکری اعتبار سے جمہوری آزادیوں، وفاق، تمام شہریوں کی برابری، صوبوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی آج بھی پسے ہوئے اور کمزور طبقات کی نمائیندگی کی دعویدار ہے تو پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں پیپلزپارٹی سکڑ کر چند سیٹوں تک محدود کیوں ہو چکی ہے؟ پیپلزپارٹی کے ذمہ داران کے لئے اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ اس بات کا تعین ہونا بھی ضروری ہے کہ کہیں پیپلزپارٹی اپنی بنیادی اساس سے دور تو نہیں ہوگئی یا جس طبقے کی نمائیندگی کا پیپلزپارٹی دعوی کرتی ہے کہیں اس طبقے سے پیپلزپارٹی کا رابطہ کمزور تو نہیں ہو گیا۔ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار صرف مقتدرہ کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو ٹھہرا کر خود کو تسلی تو دی جا سکتی ہے لیکن اس سے پیپلزپارٹی کو کوئی فائدہ ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہئیے۔ پیپلزپارٹی کو اپنے ماضی جیسی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کے لئےاپنی اساس کی طرف پلٹنا ہو گا۔ پیپلزپارٹی ایک روشن خیال ترقی پسند جماعت ہے یہی اس کی بنیاد ہے اور یہی اس کی مضبوطی کا باعث بھی ہے۔ اگر اس سے ہٹیں گے تو کچھ نہیں ملے گا۔ دائیں بازو کا ووٹ نہ کبھی پیپلزپارٹی کو ملا ہے نہ ملے گا۔ پیپلزپارٹی اپنے تین رنگوں پر قائم رہے گی تو کامیابی ملے گی۔ کسی کا جھنڈا سبز دیکھ کر اپنے میڈیا اکاونٹ کی ڈی پی کا رنگ سبز کر لینےسے کام نہیں چلے گا۔ پیپلزپارٹی کو اپنے میدان میں کھیلنا ہو گا اگر اپنا میدان چھوڑیں گے تو نہ خدا ہی ملے گا نہ وصال صنم اور کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا والا حساب ہو گا۔ پیپلزپارٹی کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ دانستہ یا نادانستہ اگر پیپلزپارٹی اپنی بنیاد سے ہٹ گئی ہے یا اگر کہیں کوئی کمزوری یا کوتاہی ہے تو اس کو دور کرنا ہو گا تب ہی پیپلزپارٹی اپنے شاندارماضی کی طرف لوٹ سکتی ہے۔
بائیں بازو کا نظریہ رکھنے والے عام طور پر ترقی پسند اور روشن خیال سمجھے جاتے ہیں ان کی نظر مستقبل کی طرف ہوتی ہے اور بائیں بازو کا نظریہ رکھنے والے ان لوگوں کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں جو خود اپنی حمایت نہیں کر سکتے۔ بائیں بازو کے حمایتی لوگ ویژنری تو ہوتے ہی ہیں، مساوات پر یقین رکھنا بھی بائیں بازو کی خصوصیات کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے، اسی لئے ملکی وسائل کی یکساں تقسیم بائیں بازو کی جدوجہد میں نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں ایسے قوانین بنانے پر یقین رکھتی ہیں جو خواتین، اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقات کو امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر پاکستان میں بائیں بازو کی کئی تحریکیں اور جماعتیں کام کرتی رہی ہیں ان میں کمیونسٹ پارٹی، مزدور کسان پارٹی، نیشنل پارٹی، سوشلسٹ اور عوامی ورکرز پارٹی بائیں بازو کی اہم سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی تھیں لیکن قومی سطح پر پاکستان پیپلزپارٹی ہی ایک ایسی جماعت ہے جو بائیں بازو کی سیاست کے ساتھ پورے پاکستان میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ جب ساری دنیا میں بائیں بازو کی تحریک کمزور ہوئی تو اس کا اثر یقینی طور پاکستان میں بائیں بازوکی سیاست کرنے والی جماعتوں پر بھی پڑا اور پچھلی دو تین دہائیوں میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والی جماعتیں یا تو اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں یا سینٹر لیفٹ کی جانب چلی گئیں۔
پاکستان میں جب ہم بائیں بازو کے زوال کی بات کرتے ہیں، تو پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیا کی آمریت نے پہنچایا ہے۔ جنرل ضیا کی آمریت نے نہ صرف کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کا تحفہ دیا بلکہ معاشرے کو لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر بھی تقسیم کر دیا۔ کراچی جسے مزدور تحریکوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اسے لسانی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ مزدور تنظیمیں لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گئیں جس سے نہ صرف بائیں بازو کی تحریک کو نقصان پہنچا بلکہ مزدور تحریکوں کے زوال کا عمل بھی تیز ہو گیا۔ ٹریڈ یونینز اور سٹوڈنٹ یونینز پر پابندیوں نے بھی بائیں بازو کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلزپارٹی اپنے آغاز سے لے کر ہر محاذ پر مزدوروں اور محنت کشوں کا مقدمہ لڑتی رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے اقتدار کے ادوار میں نہ صرف ٹریڈ اور سٹوڈنٹس یونینز کی حمایت کی ہے بلکہ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی بھی کی ہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اس وقت جتنے بھی لیبر لاز موجود ہیں وہ پیپلزپارٹی کا ہی تحفہ ہیں۔
اس وقت المیہ یہ ہے کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں پاکستان میں بائیں بازو اور نظریاتی سیاست کے کمزور ہو جانے کے باعث پیپلزپارٹی جیسی روشن خیال جماعت کے اندر بھی کسی حد تک قدامت پسند اور دائیں بازو کی سوچ شامل ہو چکی ہے جس کی ایک بڑی وجہ نئے شامل ہونے والوں اور نوجوانوں کا پیپلزپارٹی کے منشور اور سوچ سے بے بہرہ ہونا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پیسےکے بڑھتے ہوئے کردار اور پے در پے آمریتوں نے نظریاتی سیاست کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی جیسی نظریاتی جماعتوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹڈی سرکلز، ورکرز کنونشنز اور لیبر کنونشنز کے ذریعے پارٹی کے بنیادی نظریے اور منشور کو نوجوانوں اور پارٹی میں شامل ہونے والے نئے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ پیپلزپارٹی کو اپنے اندر پیدا ہو جانے والی طبقاتی تفریق کو بھی ختم کرنا ہو گا اور عام کارکن کو بھی اونرشپ کا احساس دلانا ہو گا۔ ایسا نہیں کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے مراعات یافتہ پارٹی رہنما تو کھلم کھلم پارٹی پالیسی کے خلاف بولتے رہیں اورانہیں پارٹی کے اندر موجود اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلسل درگزر کیا جاتا رہے لیکن اظہار رائے کی آزادی کا یہی حق جب ایک عام عہدیدار یا کارکن استعمال کرے تو اس کے خلاف پارٹی ڈسپلن کے تحت فورا کاروائی عمل میں آ جائے۔ اگر پیپلزپارٹی کو آگےبڑھنا ہے تو پارٹی کے اندر بھی مساوات قائم کرنی ہو گی اور اس دو رخی کا فوری خاتمہ کرنا ہو گا۔
چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کئی بار اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی بائیں بازو کی سیاست پر قائم ہے۔ چیرمین پیپلزپارٹی کی جانب سے اس عزم کا آعادہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے نظریات اوراساس پر آج بھی کاربند ہے۔ پیپلزپارٹی جیسی بڑی اور قومی جماعت کی جانب سے بائیں بازو کی سیاست کا احیا نہ صرف پیپلزپارٹی کے لئے خوش آئیند ہو گا بلکہ اس سے دم توڑتی ہوئی بائیں بازو کی دوسری تحریکوں کو بھی تازہ آکسیجن مہیا ہو گی۔
بائیں بازو کی سیاست آسان راستہ نہیں ہے کیونکہ اس میں مقابلہ طاقتور، بااختیار اور غاصب قوتوں کے نمائیندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ان قوتوں کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں، طاقت بھی ہوتی ہے اور اختیار بھی۔ بائیں بازو کی سیاست میں راستہ دشوار گزار اور طویل تو ضرور ہوتا ہے لیکن درست راستہ یہی ہے اور اسی راستے پر چل کر طاقتور اور غاصب قوتوں سے کمزور اور پسے ہوئے طبقات کےحقوق کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
Twitter: @GorayaAftab
Dated: 2-4-2023