سندھ میں احتجاجی لہر، وجوہات، خدشات اور قومی وحدت
سندھ میں احتجاجی لہر، وجوہات، خدشات اور قومی وحدت
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پچھلے کچھ روز سے صوبہ سندھ کے کچھ علاقے ایک بار پھر احتجاج کے نام پر شروع ہونے والی بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل میں متنازعہ نہری منصوبہ ختم کر دئیے جانے کے واضح فیصلے کے بعد سندھ کے عوام کی جانب سے جاری احتجاج ختم ہو چکا تھا لیکن کچھ موقعہ پرست جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے کارپوریٹ فارمنگ کے نان ایشو کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر احتجاج کے نام پر سندھ میں فتنہ فساد اور بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جئے سندھ قومی محاذ (JSQM) اور کالعدم تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ (JSMM) نے احتجاج کے نام پر اپنے غیر واضح اور ریاست مخالف ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سندھ کو ایک بار پھر سیاسی انتشار، لسانی تعصب اور پرتشدد مظاہروں میں جھونک دیا ہے بظاہر ان مظاہروں کی وجہ کارپوریٹ فارمنگ کے لئے مختص کی گئی زمینوں کو قرار دیا جا رہا ہے لیکن جس انداز میں توڑ پھوڑ، لوٹ مار، تشدد، سڑکوں کی بندش اور لسانی نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف ریاستی رٹ بلکہ قومی وحدت کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔
گزشتہ ماہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے متنازعہ منصوبے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ایک اہم پیش رفت تھی جس پر چاروں صوبوں کے نمائندوں نے اتفاق رائے سے دستخط کیے اور وفاقی حکومت نے واضح کر دیا کہ آئندہ کوئی بھی نہری منصوبہ صوبوں کی متفقہ منظوری کے بغیر شروع نہیں کیا جائے گا ، جسے سندھ کے عوام نے خوش دلی سے قبول کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص زمینوں کو نہری پانی نہیں دیا جائے گا اور کسی کو بھی بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ اس وضاحت کے بعد کارپوریٹ فارمنگ کا ایشو بھی مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے متنازعہ نہری منصوبے والے مسئلے کو تمام جمہوری اور آئینی فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھایا اور بالآخر سندھ کے عوام کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا۔ ان حکومتی وضاحتوں اور قانونی کامیابیوں کے باوجود قوم پرست عناصر، خصوصاً جئے سندھ قومی محاذ اور اس احتجاج میں شریک کالعدم تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ ایک بےبنیاد نکتہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کے تحت پُرتشدد احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور سندھ کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جئے سندھ قومی محاذ اور کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ وہی جماعتیں ہیں جو ماضی میں ریاست مخالف بیانیے، علیحدگی پسند ایجنڈے، اور سیکیورٹی اداروں پر حملوں کی تاریخ رکھتی ہیں۔
متنازعہ نہری منصوبے کے خلاف احتجاج میں سندھ کی نمائندہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت سندھ کی تمام جماعتیں اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے اور اس تحریک کو پورے سندھ کے عوام کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک کی سب سے بڑی بات یہ رہی کہ متنازعہ نہروں منصوبے کے خلاف تحریک مکمل طور پر ایک پُرامن تحریک تھی جو مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے بعد پُرامن طریقے سے کامیابی کا جشن منا کر ختم ہو گئی۔ جئے سندھ قومی محاذ اور کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ جیسی ریاست مخالف ایجنڈا رکھنے والی تنظیموں کی جانب سے نان ایشوز کو لے کر شروع کی جانے والی حالیہ پُرتشدد احتجاجی لہر نے اس احتجاج کی قانونی حیثیت اور اخلاقی جواز کو نہ صرف متنازعہ بنا دیا ہے بلکہ اس پُرتشدد فتنہ فساد پر مبنی تحریک کے ڈانڈے حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور مختصر جنگ میں بھارت کی شکست سے ملائے جا رہے ہیں اور قوم پرست تنظیموں کی تحریک کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
کالعدم تنظیم کی جانب سے احتجاج کے نام پر کی جانے والی دہشتگردی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس احتجاج کے دوران وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار کے گھر پر حملہ کیا گیا، جو کہ ایک منتخب نمائندے کے خلاف ناقابل قبول اقدام ہے۔ اس کے علاوہ قومی شاہراہ پر ٹرالرز پر لدے کنٹینرز کو لوٹنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب تمام فریقین نے پانی اور زمین سے متعلق تنازعات پر واضح موقف اپنایا ہے اور قانونی عمل کے ذریعے ان مسائل کو حل کر لیا گیا ہے۔
مرکز گریز اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے حالیہ پُرتشدد احتجاجی لہر کا ایک خطرناک رجحان ان مظاہروں میں پنجابیوں کے خلاف نفرت انگیز نعرہ بازی اور تقاریر کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان جیسے کثیرالقومی معاشرے میں لسانی نفرت کو ہوا دینا ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کسی بھی قوم یا طبقے کو “قابض” قرار دینا اور اسے نشانہ بنانا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے اور اسے دہشتگردی کی ہی ایک شکل تصور کیا جاتا ہے۔
ریاستی اداروں نے اب تک ان مظاہروں کے دوران جس حد تک نرمی اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بظاہر پُرامن احتجاج کے احترام میں تھا لیکن شرپسند عناصر نے اس کو کمزوری سمجھا اور خوب فائدہ اٹھایا۔ مظاہرین کو نہ صرف کھلی چھوٹ ملی بلکہ ان کے پرتشدد اقدامات پر فوری اور مؤثر ردعمل بھی سامنے نہ آیا۔ اس صورتحال نے عام شہریوں میں خوف و ہراس کو جنم دیا۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ریاست ایک جامع اور متوازن حکمت عملی اختیار کرے۔ جائز شکایات کے لیے سیاسی مکالمے کے دروازے کھلے رکھے جائیں، کارپوریٹ فارمنگ، پانی کی تقسیم اور زمینوں کے استعمال جیسے معاملات کو شفافیت، مشاورت اور مقامی عوام کی رضامندی سے حل کیا جائے تاکہ کسی کو احتجاج کا بہانہ نہ ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے عناصر جو پرتشدد طریقے، لسانی نفرت اور علیحدگی پسند ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں، ان کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے۔ پُرامن احتجاج اور اظہار رائے ہر شہری کا آئینی حق ہے، لیکن اس کی آڑ میں ریاست مخالف ایجنڈا، لسانی نفرت، تشدد اور انتشار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، شرپسندوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے، اور متاثرہ علاقوں میں امن و امان بحال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کئے جائیں۔
اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو احتجاج کرنے والی قوم پرست تنظیموں کو سندھ کے عوام نے ہر الیکشن میں بدترین شکست سے دوچار کیا ہے اور ہمیشہ وفاق کی سیاست کرنے والوں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ متنازعہ نہری منصوبے کے خلاف جاری تحریک میں بھی ان تنظیموں نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جسے پاکستان پیپلزپارٹی نے متنازعہ نہری منصوبے والے معاملے کو ہر آئینی اور عوامی فورم پر اٹھا کر اور مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے اس منصوبے کو ختم کروا کر ناکام بنا دیا۔
قوم پرست گروہ اگر واقعی سندھی عوام کی بھلائی کے خواہاں ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ پرامن احتجاج کریں، تشدد سے لاتعلقی اختیار کریں اور عوام کے دل جیتنے کے لیے دلیل، مکالمے اور جمہوری ذرائع کو اپنائیں۔ بصورت دیگر ان کے یہ اقدامات اور احتجاج محض سیاسی موقعہ پرستی اور ریاست مخالف ایجنڈے کی تکمیل ہی تصور کئے جائیں گے جنہیں سندھ کے عوام پہلے بھی مسترد کر چکے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔
ملک اس وقت بھارت کی جانب سے درپیش کشیدگی، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جاری بیرونی حمایت یافتہ دہشتگردی، اور اقتصادی چیلنجز جیسے سنگین مسائل سے نبردآزما ہے۔ ایسے میں سندھ کسی طور پر عدم استحکام، لسانی نفرت یا سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اتحاد، امن، ترقی اور سیاسی بلوغت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ احتجاج کے نام پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا، شہریوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالنا اور لسانی آگ بھڑکانا نہ صرف قومی مفاد کے خلاف ہے بلکہ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ بات ہر شرپسند، موقعہ پرست اور انتہاپسند کو سمجھنی ہوگی کہ جہاں احتجاج عوام کے حقوق کے لیے جائز سمجھا جاتا ہے، وہیں جب کوئی احتجاج عوام کے جان، مال، امن اور ریاستی خودمختاری کے لیے خطرہ بن جائے، تو وہاں سے ریاست کا آئینی اور قانونی حق شروع ہوتا ہے، اور ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ہر ممکن، حتیٰ کہ سخت ترین اقدامات کرنے میں مکمل بااختیار ہوتی ہے۔ سندھ کے عوام امن چاہتے ہیں اور ریاست کو اس امن کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہوگا۔
Dated: 23-05-2025