سندھو کو بہنے دو
سندھو کو بہنے دو
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
“اپنے ریگستان آباد کرنے کے لئے تم میرے گلستان کو بنجر کرنا چاہتے ہو” یہ الفاظ آج سندھ کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ سندھو دریا سے نکالی جانے والی نہروں کے خلاف صوبہ سندھ میں پکنے والا لاوا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہر مکتبہ فکر سے لوگ احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں لیکن دوسری جانب فیصلہ سازوں، وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اس معاملے پر مکمل سرد مہری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ سندھو دریا کا پانی ایک حساس معاملہ ہے جس پر سندھ کے لوگوں کی زندگی، زراعت اور معیشت کا دارومدار ہے اس لئے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سندھ کا ہر باسی سندھو دریا سے نکالی جانے والی نئی نہروں کے معاملے پر سراپا احتجاج ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اگرچہ نہروں کے معاملے پر اپنا واضح اور سخت گیر موقف دے چکی ہے لیکن اس سخت گیر موقف کا وفاقی اور پنجاب حکومت پر ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوا اور نہروں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ اس لئے اگر پاکستان پیپلزپارٹی نہروں کے معاملے پر اپنے سخت گیرموقف کے باوجود وفاقی حکومت کو سندھو دریا سے نہریں نکالنے کے عمل سے روک نہیں پاتی تو پاکستان پیپلزپارٹی کو صوبہ سندھ میں شدید قسم کا سیاسی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس لئے پاکستان پیپلزپارٹی کو فوری طور پر وفاقی حکومت سے دو ٹوک بات کرنے اور وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے اتحاد پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف متنازعہ چولستان نہری منصوبے پر سندھ کے عوام کے خدشات کا تدارک کیا جا سکے بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی اثاثے کو بھی کسی قسم کے نقصان سے بچایا جا سکے۔
پاکستان میں آبی وسائل کی تقسیم کا معاہدہ 1991 میں تمام صوبوں کے درمیان اتفاق رائے سے طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق پنجاب کو 55.94 ملین ایکڑ فٹ، سندھ کو 48.76 ملین ایکڑ فٹ، خیبرپختونخواہ کو 8.78 ملین ایکڑ فٹ جبکہ بلوچستان کو 3.87 ملین ایکڑ فٹ پانی ملنا طے پایا تھا۔ انیس سو اکیانوے میں طے پایا جانے والا یہ معاہدہ بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس معاہدے میں تمام صوبے باہمی اتفاق رائے سے پانی کی تقسیم کے ایک متفقہ فارمولے پر رضامند ہو گئے تھے۔
پانی کی تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے اس لئے کوشش یہی کی جانی چاہیئے کہ طے شدہ اور حساس معاملات کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ کرنے سے گریز کیا جائے یا اگر بہت ہی ضروری ہو تو تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر باہمی رضامندی سے آگے بڑھا جائے۔ پانی کی تقسیم سے متعلق ایسی ہی ایک چھیڑ چھاڑ کے باعث چولستان نہری منصوبے نے ایک بہت بڑا سوال اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے کہ اس نہری منصوبے کے لئے پانی انیس سو اکیانوے کے معاہدے کے تحت پنجاب کے طے شدہ حصے میں سے آئے گا یا یہ پنجاب کے طے شدہ حصے سے زائد اضافی پانی ہوگا؟ اگر ان نئی نہروں کا پانی پنجاب کے طے شدہ حصے سے اضافی پانی ہوگا تو پھر سندھ کی زراعت اور معیشت کے بارے بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سندھ کو پہلے ہی شکایت رہی ہے کہ اسے معاہدے کے مطابق پورا پانی نہیں مل رہا۔ چونکہ اب تک وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے خدشات دُور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی اس لئے چولستان نہری منصوبے کے بارے صوبہ سندھ میں بے چینی پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز اور آرمی چیف کے حالیہ مشترکہ دورہ چولستان کے بعد دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کے حوالے سے صوبہ سندھ کے عوام میں دریائے سندھ کے پانی کے بارے پائی جانے والی بے چینی میں مزید شدت پیدا ہوئی ہے کیونکہ اس مشترکہ دورے سے یہ پیغام واضح ہو گیا ہے کہ نہروں کے معاملے کو لے کر پنجاب حکومت، وفاقی حکومت اور مقتدرہ ایک ہی صفحے پر ہیں اور دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نئی نہروں کے مسئلے پر سندھ کے عوام کے تحفظات کو دُور کرنے اور اس اہم منصوبے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی اور بزور طاقت اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔
خیبرپختونخواہ اور بلوچستان پہلے ہی شدید قسم کی دہشت گردی کا شکار ہیں، آئے روز ہشت گردوں کے حملوں میں بے گناہ عوام اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند بے پناہ شورش پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں دریائے سندھ کے پانی سے چولستان کو سیراب کرنے کے لئے بنائے جانے والے متنازعہ نہری منصوبے نے ایک نسبتا پُرامن صوبہ سندھ کے عوام کو بھی احتجاج کی جانب دھکیل دیا ہے۔ فیصلہ ساز قوتوں، پنجاب اور وفاقی حکومت کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایسے متنازعہ منصوبوں کو زور زبردستی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت دُور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ایسے معاملات تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے اور رضامندی سے طے کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صوبائی منافرت پہلے ہی انتہا پر ہے فیڈریشن میں سب اکائیاں برابر ہوتی ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی فیڈریشن مضبوط ہوتی ہے۔ پنچاب کو کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے اور ایسے کسی بھی متنازعہ منصوبے کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیئے۔
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے بار بار مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بُلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جلد از جلد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بُلایا جائے اور بتایا جائے کہ جب دریائے سندھ میں چاروں صوبوں کے طے شدہ حصے سے زائد پانی موجود ہی نہیں ہے تو ان نئی نہروں کے لئے پانی کہاں سے آئے گا؟ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ارسا کا پانی کی تقسیم کا ریکارڈ بھی صوبوں کے سامنے رکھا جائے۔
چولستان نہری منصوبے کے حق میں دی جانے والی دلیل کہ اس نہری منصوبے کے لئے پنجاب کے حصے کا پانی استعمال ہو گا تو بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ان نئی نہروں کے لئے پنجاب کے حصے کا پانی استعمال کیا جانا مقصود ہے تو وزیراعلی سندھ کے مطالبے کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بُلانے میں کیا حرج ہے اور بار بار مطالبے کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جا رہا؟ فیڈریشن کی ایک اکائی کی جانب سے چولستان نہری منصوبے پر پائی جانے والی بے چینی کو دُور کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلاتاخیر بلایا جائے اور چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے اور بتایا جائے کہ چولستان نہری منصوبے کے لئے پنجاب کا پانی کیسے استعمال ہو گا؟ اور پنجاب کے کس علاقے کا پانی کم کر کے چولستان کو دیا جائے گا؟
دیکھا جائے تو چولستان نہری منصوبہ پر صرف سندھ کو ہی نہیں پنجاب کو بھی اعتراض اٹھانا چاہیئے کیونکہ جب سندھو دریا پر مزید نہروں کے لئے پانی موجود ہی نہیں تو پھر یقیننا سندھ یا پنجاب کے پانی کے طے شدہ حصے میں سے کٹوتی کر کے ان نہروں کے ذریعے چولستان کو سیراب کیا جائے گا۔ سندھ کے عوام اور صوبائی حکومت تو اپنے حق کے لئے زوردار آواز اٹھا رہے ہیں اور تحریک بھی چلا رہے ہیں لیکن پنجاب سے ایسی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ اگر پنجاب کا پانی ان نہروں کے لئے استعمال ہوا تو یقینی طور پر وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کا کاشتکار متاثر ہو گا اور چاول کی فصل بالخصوص اور گندم اور دوسری فصلیں بالعموم متاثر ہوں گی۔
چولستان میں نہری پانی فراہم کئے جانے کے بعد وہاں کسانوں کی کوئی آباد کاری نہیں ہو گی بلکہ کارپوریٹ فارمنگ ہو گی۔ کارپوریٹ فارمنگ کا مطلب ہے کہ کہ طاقتور سرمایہ دار مافیا ہر صورت سارا سال مسلسل پانی کی فراہمی چاہے گا اس کی بلا سے وسطی پنجاب کی چاول کی فصل تباہ ہو جائے۔ ویسے بھی یہ کوئی دانشمندانہ صورتحال نہیں ہے کہ وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کی زرخیز زمینوں پر تو ہاؤسنگ کالونیاں بنا کر کنکریٹ کی بڑی بڑی عمارات کھڑی کر دی جائیں اور ریگستانوں کو آباد کرنے کے لئے بچ جانے والی زرخیز زمینوں کو پانی کی کمی کا شکار کر کے بنجر کر دیا جائے۔
زراعت کے لئے پانی کی ضرورت کے علاوہ ماحولیات اور آبادیوں کو سمندر سے بچانے کے لئے ڈیلٹا سے مطلوبہ مقدار میں پانی کا گزرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ڈیلٹا وہ جگہ ہوتی ہے جہاں دریا کا سمندر سے ملاپ ہوتا ہے اور دریا کا میٹھا پانی سمندر کے کھارے پانی کو پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے تاکہ سمندر آبادی کی طرف نہ بڑھ سکے۔ وفاقی حکومت نے خود ایک انٹرنیشنل ادارے سے سروے کروایا تھا کہ ڈیلٹا سے کتنا پانی گزر کر سمندر میں گرنا چاہیئے لیکن جب سے سندھو دریا پر ڈیم اور بیراج بنے ہیں ڈیلٹا کو مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے ٹھٹھہ اور بدین کی ہزاروں ایکڑ اراضی پہلے ہی سمندر بُرد ہو چکی ہے۔
چولستان کو سیراب کرنے لئے بنائے جانے والے متنازعہ نہری منصوبے پر کسی بھی قسم کی پیش قدمی سے پہلے سندھ کے تحفظات دور کرنا اور بین الصوبائی اتفاق رائے پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ منصوبہ کسی اتفاق رائے اور مشاورت کے بغیر آگے بڑھایا گیا تو نہ صرف قومی اتحاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہوں گے اس لئے فیصلہ ساز قوتوں، وفاقی اور پنجاب حکومت کو کوئی بھی فیصلہ کُن قدم اٹھانے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنے کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ کے باسیوں کے لئے سندھو دریا ایک معاشی اور زرعی لائف لائن تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ سندھو دریا کے ساتھ سندھ کے باسیوں کی ایک جذباتی اور صوفیانہ عقیدت بھی موجود ہے۔ بہت سے شاعر سندھو دریا کے بارے اپنے کلام میں بھی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں سندھو دریا کے بارے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل وفاق کی ایک اکائی کے زرعی اور معاشی مفاد کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے سندھو دریا کے بارے عقیدت مندانہ جذبات کا بھی خیال رکھیں گے۔ جلد بازی میں اور اتفاق رائے کے بغیر سندھو دریا کے بارے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ وفاق کی ایک اکائی اور وفاق کے درمیان گہری خلیج پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔
دریا او دریا پانی تیڈے ڈونگے
توں ساڈا پیو ماں اساں تیڈے پونگے
دریا او دریا تیڈے ساڈے سانگے
ہنساں دی صورت پانیاں دے وانگے
(شاعری بشکریہ: سائیں آشو لال)
دریا ایویں واھندا راھسی
صدیاں کنوں دریا واھندے
اپنا رستہ ٹُردے
ایندی راہ اچ ڈکا لیسو
کوٹھے پیسو کندھی لیسو ڈیم بنیسو
ول اے چَھل دے رُوپ اچ آسی
تیڈے گھر دے اندروں واھسی
تیڈا ککھ نہ راسی
دریا ایویں واھندا راھسی
(شاعری بشکریہ: سائیں اسلم جاوید - پکھی پال تھلوچڑ )
Dated: 08-03-2025