سیلابی آفت، نااہلی اور ظالمانہ رویے
سیلابی آفت، نااہلی اور ظالمانہ رویے
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان اس وقت سیلاب کی صورت میں ایک بڑی قدرتی آفت سے دوچار ہے۔ خیبرپختونخواہ کے بعد پنجاب میں تباہی مچاتا ہوا سیلاب اب سندھ کی حدود میں داخل ہو رہا ہے۔ وسطی اور جنوبی پنجاب میں پانی نے جو قیامت ڈھائی ہے، اس کی ہولناکی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پانی کی بے قابو موجوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، ہزاروں دیہات اجڑ گئے اور کسانوں کی محنت لمحوں میں برباد ہو گئی۔ یہ آفت محض چند دنوں یا ہفتوں کی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے گی۔ وسطی اور جنوبی پنجاب میں نقصان کا تخمینہ لگانا بھی ابھی مشکل ہے۔ گنے، کپاس اور چاول جیسی فصلیں برباد ہو گئیں۔ مویشی پانی میں بہہ گئے اور مکانات تباہ ہو گئے۔ کسانوں کے لیے یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا حجم اس قدر زیادہ ہے جس کا مداوا کرنا شائد اکیلی حکومت کے بس کی بات نہ ہو۔ حکومت کے پاس بھی محدود وسائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم سے عالمی برادری سے مدد لینے اور کسانوں کے لیے خصوصی پیکج کے ساتھ بجلی کے بل معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیلاب یقیننا ایک قدرتی آفت ہے تاہم زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تباہی صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی غفلت اور لالچ کا نتیجہ بھی ہے۔ پاکستان میں دریاؤں کے قدرتی راستوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز، صنعتی زون اور دیگر انفراسٹرکچر بنا دیے گئے ہیں۔ پانی کا راستہ تنگ کرنے سے یہ سیلاب اور زیادہ ہولناک ہو گئے ہیں۔ دریائے راوی کے کناروں پر گزشتہ دو دہائیوں میں بے تحاشا تعمیرات ہوئیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز نے زمین بیچی اور دریا کے قدرتی بہاؤ کو تنگ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بارشوں کے بعد لاہور اور اس کے مضافات میں بار بار پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ حالیہ سیلاب سے دریائے چناب کے اطراف کئی دیہات متاثر ہوئے کیونکہ دریا کے قدرتی راستے پر سڑکیں اور چھوٹی کالونیاں بنا دی گئیں۔ جب پانی نے اپنا راستہ بنایا تو وہ رکاوٹیں ٹوٹ گئیں اور آس پاس کی بستیاں ڈوب گئیں۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ لینڈ مافیا اور اثرورسوخ رکھنے والے افراد نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے بند توڑنے کے فیصلے کروائے۔ نتیجے میں غریب دیہات قربانی کا بکرا بنے۔ اب دو ہزار پچیس میں بھی کئی علاقوں سے ایسی ہی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
پنجاب حکومت کے بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ، مگر متاثرینِ سیلاب کی عملی حالت اس کے برعکس ایک المناک داستان سناتی ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کیمپ انتہائی ناکافی ہیں، وہاں خیموں، خوراک، پینے کے صاف پانی اور ادویات کی شدید کمی ہے۔ امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں، اور کئی ایسے علاقے اب تک سرکاری مشینری کی پہنچ سے باہر ہیں جہاں لوگ کئی دنوں سے کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو بند توڑنے کے فیصلے ہیں، جو نہ صرف حکومتی نااہلی بلکہ طاقتور طبقات کے اثرورسوخ کا کھلا ثبوت ہیں۔ ان فیصلوں کی قیمت غریب بستیاں اور کچے مکانات ادا کر رہے ہیں۔ لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ہر بار قربانی صرف کمزور اور بے سہارا عوام کی ہی کیوں دی جاتی ہے؟ مزید برآں، حکومتی بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں جنوبی پنجاب کے وہ علاقے بھی پانی کی لپیٹ میں آ گئے جہاں قدرتی طور پر سیلابی پانی جانے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فیصلے سوچ سمجھ کر، دیانتداری اور سائنسی بنیادوں پر کیے جاتے تو ہزاروں خاندانوں کو اجڑنے سے بچایا جا سکتا تھا۔
حالیہ سیلاب نے وسطی اور جنوبی پنجاب میں نہ صرف پانچ ہزار سے زائد دیہات کو تباہ و برباد کردیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا ہے بلکہ اس سیلاب نے ہمارے اجتماعی رویوں کا بھی پردہ چاک کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہیں دوسری طرف جنوبی پنجاب کی تباہی پر بعض حلقوں نے طنز اور تمسخر کو اپنا رویہ بنا لیا۔ یہ رویہ نہ صرف متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ اس نے سرائیکی وسیب کے عوام کے اندر پہلے سے موجود محرومی اور بے اعتباری کے احساس کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ جب پورا خطہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگ روٹی، پانی اور خیمے کے لیے ترس رہے تھے، اس وقت ان کی بدقسمتی کا مذاق اڑایا جانا ہمارے اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کی کھلی علامت ہے۔ یہ رویہ واضح کرتا ہے کہ ہم اب بھی بطور قوم ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنے کے جذبے سے محروم ہیں۔ ایسے نازک مواقعہ پر جہاں ہمدردی، تعاون اور اتحاد کا مظاہرہ ہونا چاہیے تھا، وہاں تعصب، تقسیم اور تضحیک کو ترجیح دی گئی۔ یہی وہ رویے ہیں جو ہمیں ایک قوم کے بجائے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے معاشرے کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور جن کی موجودگی میں قومی یکجہتی محض ایک نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔
سیلاب تو مزید چند دن میں اُتر جائے گا لیکن اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی جو داستان چھوڑ جائے گا اس میں اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ان غلطیوں کو دہراتے رہیں گے اور ہر سیلاب کے بعد محض بیان بازی اور وقتی امداد پر اکتفا کرتے رہیں گے؟ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن دنیا بھر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ دور اندیش منصوبہ بندی اور سائنسی بنیادوں پر کیے گئے اقدامات کے ذریعے ان کے نقصانات کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں فوری طور پر پالیسی سطح پر سخت اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے دریاؤں کے قدرتی راستوں پر قبضے ختم کرنے ہوں گے اور ہاؤسنگ سوسائٹیز و لینڈ مافیا کو جوابدہ بنانا ہوگا جنہوں نے اپنے وقتی مفادات کے لیے پورے خطے کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس کے علاوہ چھوٹے بڑے آبی ذخائرِ کے منصوبے مکمل کرنا ناگزیر ہیں تاکہ بارش اور سیلابی پانی کو ذخیرہ کر کے توانائی اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
ایک اور اہم ترین کام شہروں اور دیہات میں نکاسی آب کے جدید اور دیرپا نظام قائم کرنا ہے تاکہ بارش کے بعد معمولی پانی بھی آفت نہ بن جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کو بچانے کے لیے کسانوں کے لیے فصل اور مویشیوں کی بیمہ پالیسی متعارف کرانا ناگزیر ہے تاکہ قدرتی آفات کے بعد وہ مکمل طور پر زمین بوس نہ ہو جائیں۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو ہر آنے والا سیلاب ہمیں مزید کمزور کرے گا اور ہم بار بار انہی نقصانات اور انہی دکھوں کی دہائی دیتے رہیں گے۔
اگر آج ہم نے دانشمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فیصلے نہ کیے تو کل کوئی نیا سیلاب آئے گا اور تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔ وہی بستیاں ایک بار پھر پانی میں ڈوب جائیں گی، وہی غریب خاندان ایک بار پھر چھت اور روزگار سے محروم ہو جائیں گے، اور ہم ایک بار پھر محض دعووں، اعلانات اور تقریروں کے سہارے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کریں گے۔ المیہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے بعد ہماری یادداشت ماند پڑ جاتی ہے، اور جیسے ہی پانی اترتا ہے، ہم ان زخموں کو بھول کر معمول کی سیاست اور نعرہ بازی میں کھو جاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ عارضی بھول قوموں کی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اب یہ طے کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم ہر آفت کے بعد پچھتاوے کی داستان دہراتے رہیں یا پھر سنجیدگی کے ساتھ ایسے فیصلے کریں جو آنے والی نسلوں کو محفوظ، باوقار اور خودمختار پاکستان دے سکیں۔
Dated: 15-09-2025